شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,014
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
کیا آپ کو پہلی پوسٹ میں بیان کی گئی اتنی بڑی دلیل نظر نہیں آرہی؟ اگر نہیں تو آپکے تقلیدی چشمے کا نمبر بڑھ گیا ہے۔ میں نے اب تک کوئی بھی بات اپنی دلیل سے باہر بیان نہیں کی۔ احتمالات کے نام پر آپ نے روایت کی جو فاسد اور باطل تاؤیلات کرنے کی کوشش کی ہے انہیں کو رد کرنے کے لئے ہم نے کہا ہے کہ روایت کے متن سے آپکی فاسد تاویلات باطل قرار پاتی ہیں۔ اگر میں متن کے ایک جملے کا اس روایت کے متن کے باقی جملوں کے ساتھ ربط بیان کرتا ہوں تو اس کے لئے کون سی اضافی دلیل کی ضرورت ہوگی زرا بتادیں؟میں نے آپ سے دلیل کے ساتھ بات کرنے کا کہا تھا۔
اس میں تو کہیں بھی میری بات کا جواب نہیں ہے البتہ آپکا ذاتی فہم ضرور ہے جس کی کسی کو بھی ضرورت نہیں اس فہم سے آپ صرف اپنے حنفی بھائیوں کا ہی دل بہلا سکتے ہیں۔خیر جو آپ نے فرمایا ہے اسی کا جواب عرض کر دوں۔
اس سے پہلے والی روایت یہ ہے:۔
أخبرنا أبو بكر البرقاني، قال: قرأت على محمد بن محمود المحمودي بمرو حدثكم محمد بن علي الحافظ، قال: حدثنا إسحاق بن منصور، قال: [ص:534] أخبرنا عبد الصمد، عن أبيه، قال: ذكر لأبي حنيفة قول النبي صلى الله عليه وسلم: " أفطر الحاجم والمحجوم ".
فقال: هذا سجع، وذكر له قضاء من قضاء عمر، أو من قول عمر في الولاء، فقال: هذا قول شيطان
ایک تو میرے محترم یہاں کہا گیا ہے "ابو حنیفہ سے ذکر کیا گیا عمر رض کے فیصلوں میں سے کوئی فیصلہ یا ولاء کے بارے میں عمر کے اقوال میں سے کوئی قول۔"
کون سا قول تھا؟ یہ آپ پر ہے۔ ڈھونڈیے۔ پتا چل جائے تو مجھے بھی بتا دیجیے گا۔
ابوحنیفہ نے ’’یہ شیطان کا قول ہے‘‘ عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی کہا ہے یہ میرا خیال نہیں بلکہ روایت یہی بتارہی ہے۔ باقی روایت کے آخری جملے سے کہ راوی نے کہا کہ میں آئندہ ابوحنیفہ کی مجلس میں نہیں آؤنگا اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ ابوحنیفہ نے یقینی طور پر عمر رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شان میں گستاخی کی ہے ورنہ روایت کرنے والا ابوحنیفہ کی مجلس سے توبہ نہیں کرتا۔ اور اسکا اس کے علاوہ کوئی اور مطلب نہیں۔ چونکہ ہم نے جو کچھ کہا وہ صحیح الاسناد روایت کے متن سے ہی کہا لہٰذا ہمارا کہنا مبنی بر دلیل ہوا۔ اسکے مقابلے میں آپکا مدلل جواب کا شور مچانا فضول پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں۔آگے پھر وہی ہے "ھذا من قول شیطانٍ" اور آپ ابھی تک اس کا مدلل جواب نہیں دے سکے اس لیے اس کی بحث کو آپ کے مدلل جواب کے بعد کر لیں گے۔ (ویسے خلاصہ وہی ہے کہ عمر رض کا فیصلہ ذکر کیا گیا تو ابو حنیفہ نے اسے کسی شیطان کا قول کہہ کر اس کی عمر رض سے نفی کر دی۔)
آپکا خلاصہ کے نام پر الفاظ روایت کا تحریف نما ترجمہ کرنا اور اپنا یہ فاسد خیال ظاہر کرنا کہ ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ کو شیطان نہیں کہا بلکہ ان سے اس قول کی نفی کی ہے آپکا ذاتی فہم اور ذاتی خیال ہے۔ اصل روایت جس کی تصدیق کرنے کے بجائے واضح طور پر اسکی تردید کررہی ہے۔ پھر آپکے ذاتی فہم کی حیثیت ہی کیا ہے جو ہم اسے آنکھ بند کرکے اور حقائق کو جھٹلا کر مان لیں؟؟؟ اگر اس روایت کے راویوں میں سے کسی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ابوحنیفہ نے یہاں عمر رضی اللہ کو شیطان نہیں کہا تو پیش کیجئے یا صاحب کتاب یعنی خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے یہ فیصلہ کیا ہو یا کسی معتبر محدث نے یہ فیصلہ سنایا ہو یا روایت کا یہ مفہوم بیان کیا ہو جو آپ بیان کررہے ہیں تو پیش کیجئے وگرنہ اپنے بے ہودہ فہم کے تیر مت چلائیں کوئی نشانے پر نہیں لگے گا۔
آپکے ’’جی نہیں‘‘ کہنے سے کوئی انصاف پسند قائل نہیں ہوگا کیونکہ اصل روایت تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔اور ہر بات کے جواب میں آپ بار بار صرف دیگر امکانات اور احتمالات ہی پیش کررہے ہیں انکو کوئی دلیل نہیں کہتا ہاں بحث کو طول دینے کا ہتھیار ضرور ہے۔جی نہیں اس کے حیران ہونے کا ایک واضح سبب یہ ممکن ہے کہ وہ اس روایت کو جانتا ہو اور اس کی نظر میں یہ روایت مضبوط ہو تو وہ ابو حنیفہ رح کی اس پر جرح سے حیران ہوا ہو۔ یا اور کوئی بھی سبب ممکن ہے۔ کیا اس روایت میں لکھا ہے کہ وہ کیوں حیران ہوا تھا؟
زرا روایت کے اس حصہ کو بلا تعصب یا تعصب کے ساتھ غور سے پڑھیں ہر دو صورتوں میں بات واضح ہے کہ سوال کرنے والا شخص ابوحنیفہ کی عمررضی اللہ عنہ کے حق میں بدزبانی پر ہی حیران ہوا تھا جس پر مجلس میں موجود دیگر لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ تمہیں اس پر تعجب ہورہا ہے اس سے پہلے کسی نے سوال کیا تو ابوحنیفہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو تک بندی کہہ کر رد کردیا تھا۔
انااللہ وانا الیہ راجعون! جانے گستاخ رسول اور گستاخ صحابہ کا دفاع کرنے والے اللہ کے حضور کیا جواب دینگے؟؟؟ایک شخص نے ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ پوچھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا ، جواب سن کراس شخص نے کہا کہ پھر عمربن الخطاب سے مروی روایت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو شیطان کی بات ہے ، اس پر انہوں نے سبحان اللہ کہا ، یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ کیا تمہیں تعجب ہورہا ہے ؟؟؟ ارے ابھی اس سے پہلے بھی ایک صاحب نے سوال کیا تھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا تو سائل نے کہا کہ پھر آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟؟؟؟تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو تک بندی ہے ۔
نہ تو یہ کمزور باتیں ہیں اور نہ محتمل کیونکہ روایت کا متن ہی ان باتوں کی پرزور تصدیق کررہا ہے۔ ایک مقلد جس کو نہ اپنے دین کے اصولوں کا پتا نہ مسائل کا اسکے کسی بات کو کمزور اور محتمل کہہ دینے سے وہ کمزور اور محتمل نہیں ہوجائیں گی۔ اور آپ کی کیا بات ہے آپ تو گستاخ رسول امین اوکاڑوی کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی واضح گالی کو بھی گالی نہیں مان رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے کے بجائے ایک کذاب اور گستاخ شخص کی حمایت کررہے ہیں آپ سے سچ اور انصاف کی امید رکھنا تو دیوانے کا خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہوگا۔اس طرح کی کمزور اور محتمل باتیں میرا نہیں خیال کہ جرح کا باعث بن سکیں۔ ما قبل میں معلمی رح کی شرائط ذکر کر چکا ہوں۔ مزید دل چاہے تو حافظ ابن حجر رح کی ہدی الساری دیکھ لیجیے۔ ایسی مثالیں مل جائیں گی جن میں محتمل باتوں سے جرح کا انکار کیا گیا ہے۔
راوی کا ابوحنیفہ کی مجلس میں آئندہ کبھی جانے سے توبہ کرنا راوی کی ابوحنیفہ کی گستاخی کے بارے میں صراحت نہیں تو کیا ہے؟آپ کو یہ قاعدہ صحیح طرح پتا بھی ہے؟ راوی نے کہیں خود صراحت کی ہے؟ جو میں نے لکھا ہے پہلے وہ بھی ایک محتمل ہے کہ راوی غلط سمجھ سکتا ہے۔ اور جو ابھی عرض کر رہا ہوں ان کا بھی احتمال ہے۔
سبحان اللہ! یعنی راوی سمیت ہر ایک نے غلط سمجھا لیکن آپ جیسے متعصب شخص کا سمجھنا ہم چوں چراں کئے بغیر تسلیم کرلیں۔ بہرحال آپ واضح طور پر تسلیم کرچکے ہو کہ راوی نے اس مجلس میں ابوحنیفہ کے جملوں کو عمررضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہی سمجھا ہے۔ اور یہی ہم بھی ثابت کرنا چاہ رہے ہیں لہٰذا یہ مسئلہ تو حل ہوگیا۔ اب رہی بات آپکی سمجھ اور احتمالات کی تو وہ آپ جانیں اور آپ کے جیسے دیگر مقلدین ہمیں اس سے کیا غرض؟
کیا بات ہے جی یعنی آپ نے ہماری مخالفت ہی کو ضروری سمجھا یہ سمجھے بغیر جو ہم نے کہا اور آپ نے کہا ایک ہی بات ہے۔ اگر راوی اپنی روایت کے خلاف عمل کررہا ہو تو ہم کہتے ہیں کہ وہ اپنی روایت کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہے تو کیا اگر راوی اپنی روایت کے مطابق عمل کررہا ہو تو کیا ہم کہیں گے کہ راوی اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر نہیں جانتا؟؟؟ یقینا تب بھی ہم یہی کہیں گے کہ وہ اپنی روایت کو بہتر جانتا ہے تو آخر میری کہی ہوئی بات کہ ’’راوی اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے‘‘ اور آپ کی کہی ہوئی بات میں کیا فرق ہے؟؟؟اس قاعدہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک واضح حدیث ہو اور اس کا راوی اس کے خلاف عمل کر رہا ہو تو ہم کہتے ہیں کہ راوی اپنی روایت کو بخوبی جانتا ہے۔
ہمارا تو یہ کہنے کا مقصد واضح تھا اور وہ یہ تھا کہ آپ کہہ رہے تھے کہ راوی نے اپنے روایت کئے گئے الفاظ کو غلط سمجھا جبکہ ہم نے کہا کہ راوی نے اپنی روایت کے الفاظ کو صحیح سمجھا جبھی تو ابوحنیفہ کی مجلس سے توبہ کرلی۔
اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ قائل نے جو الفاظ بیان کئے اس سے اسکی مراد وہ نہیں تھی جو سننے والوں نے مراد لی لیکن پھر بھی ابوحنیفہ پر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا الزام رفع نہیں ہوگا کیونکہ قائل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی چاہے دانستہ کی ہو یا نا دانستہ ہر دو صورتوں میں وہ شاتم رسول اور واجب القتل ہے البتہ اللہ کے ہاں صحیح نیت کی وجہ سے اسکی نجات ممکن ہے۔راوی سے زیادہ تو قائل اپنی بات کو جانتا ہے۔
ہاں البتہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عمررضی اللہ عنہ کو شیطان کہنے سے ابوحنیفہ ان سے اس قول کی نفی مراد لے رہے تھے تو ان پر سے گستاخی صحابہ کا الزام ضرور رفع ہوجائیگا۔اس کا حل بہت آسان ہے دیوبندی مذہب کا ایک اہم عقیدہ قبروں سے فیض حاصل کرنے کا ہے اور دیوبندی اکابرین قبروں پر مراقبے اور چلے کاٹ کر بہت سے سوالوں کے جواب اور مسائل حل کرتے رہے ہیں اس لئے اشماریہ صاحب یا تو آپ خود یا کسی حنفی کو ابوحنیفہ کی قبر پر مراقب کروا کر انکی یقینی مراد معلوم کرلیں اور یہاں بتادیں۔
آپ سمجھ رہے ہیں کہ جب تک آپ جرح ثابت ہونے کا اعتراف و اعلان نہیں کرینگے جب تک جرح ثابت نہیں ہوگی۔ محترم ہم آپکو مشورہ دینگے کہ احمقوں کی جنت سے زرا باہر تشریف لائیں وہ روایت جس کی بنیاد پر بات کی جارہی ہے صحیح الاسناد ہے۔ اور جب روایت ثابت ہوگئی تو اس میں جو کچھ بیان ہے وہ بھی ثابت ہوگیا۔ روایت کو بیان کرنے والا واضح اور صریح الفاظ میں ابوحنیفہ کی عمررضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جرح کو بیان کررہا ہے جو کہ آپ کے نزدیک بھی ثابت ہے۔اور ابھی تک چوں کہ آپ جرح ثابت ہی نہیں کر سکے
آپکی آسانی اور تسلی کے لئے ہم اس روایت کے راویوں کی مکمل تحقیق پیش کررہے ہیں۔ اکابرین دیوبند کا غیر شرعی اور شیطانی انداز تعلیم اس تھریڈ کی پوسٹ نمبر 8 ملاحظہ فرمائیں اور جس راوی کے نام پر کلک کرینگے اسکی تفصیل سامنے آجائے گی۔
اگر آپ صحیح سند پر مشتمل روایات سے ابوحنیفہ کا صحابہ کے بارے میں احترام کا عقیدہ ثابت کردیں تو ساتھ میں یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ ابوحنیفہ تقیہ کرتے تھے صحابہ کو گالیاں بھی دیتے تھے اور دھوکہ دینے کے لئے ان کا احترام بھی کرتے تھے۔اس لیے میں نے ابو حنیفہ رح کا عمر رض اور دوسرے صحابہ کے بارے میں عقیدہ بیان کرنا نہیں شروع کیا۔ ورنہ اصحاب ابی حنیفہ ابو حنیفہ کو دوسروں سے اچھا جانتے تھے۔
آپ اپنے یہ احتمالات ’’حق فورم‘‘ یعنی ’’باطل فورم‘‘ پر پیش کریں آپ کے جیسے دیگر ابوحنیفہ کے پجاری آپکے اس مکر وفریب پر داد و تحسین دینگے۔جی نہیں یہ بھی ایک محتمل ہے اور مجھے اس سے انکار نہیں اور دوسرے احتمالات بھی ہیں۔
وضاحت روایت میں ہی موجود ہے بس تعصب کی عینک اتارنے کی ضرورت ہے خیر اگر یہ عینک نہ بھی اترے دوسرے لوگوں کو تو حقیقت نظر آرہی ہے۔اور لوگ آپ کے پاس خواب میں آئے تھے وضاحت کرنے؟ ایک شخص کا ذکر ہے اور اس کا نام بھی پتا نہیں۔ کیا پتا وہ انتہائی غبی شخص ہو۔ کیا پتا وہ متعصب ہو۔
آپ جرح کر رہے ہیں یا؟؟؟؟؟
یہاں سے تو کب سے نمٹ چکے۔ نہ تو آپ روایت کی سند پر کوئی اشکال پیش کرسکے اور نہ ہی متن کو مضطرب ثابت کرسکے۔ البتہ میں نہ مانوں کا تو کوئی علاج ہمارے پاس نہیں۔متنازعہ امام!! (ابتسامہ) پہلے یہاں سے تو نمٹ لو۔
آپ کی تشریح ہم نے روایت کے متن ہی سے باطل ثابت کردی ہے جو کہ دلیل ہے۔ابھی جو کہا ہے اس کی اس تشریح کے باطل ہونے پر دلیل دو جناب۔
نکرہ کے قاعدہ کے ضرورت نہیں رہی کیونکہ ہم نے آپ ہی کے من پسند ترجمے کو قبول کرکے بھی اس کا باطل ہونا روایت کے متن سے ثابت کردیا ہے۔ میں نہ تو پہلے ادھر ادھر کی لگا رہا تھا اور نہ اب۔اب تو میں نے گرامی قدر خضر بھائی کی پوسٹ کے جواب میں نکرہ کا قاعدہ بھی لکھ دیا ہے۔
اب پھر ادھر ادھر کی نہیں لگانا میرے محترم۔