• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

راولپنڈی:ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی - انالله وانا اليه راجعون

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار - سلمان تاثیر

لنک

آج سلمان تاثیر کی برسی ہے. اس بد قسمت انسان کی برسی جو اپنے بزدل صدر اور دوست زرداری کی خاطر موت کے منہ میں چلا گیا لیکن اس دوست کو اپنے مرنے والے دوست کی میت کو کندھا دینے کی توفیق تک نہ ہو سکی اور وہ ایوان صدر کی بلند فصیلوں میں چھپا سب تماشا دیکھتا رہا
اس ملک کی بد قسمتی یہی ہے کہ ہر چور “شہید” ہے اور ہر کام چور “غازی” ہے. کسی کے پاس شرم نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے. میں نہ تو کسی نام نہاد شہید کا اور نہ ہی کسی کام چور غازی کا حامی ہوں لیکن حسب معمول حقیقت سامنے لانا چاہتا ہوں. تاکہ “شہیدوں” اور “غازیوں” کے اصل چہرے سامنے آ سکیس. جس طرح سلیمان تاثر کا قتل قابل مذمت ہے اسی ایک شرابی کبابی کو شہید بنا دینا قابل مذمت ہے. بالکل ویسے ہی ممتاز قادری جیسے اپنے سرکاری عہدے کا ناجائز فایدہ اٹھانے والے اور اپنے فرائض کو نظر انداز کرنے والے قاتل کو غازی کہنا بھی قابل نفرت ہے. کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ سلمان تاثیر کونسا نیک کام کرتے ہوئے “شہید” ہوا ہے یا ممتاز قادری نے اپنی زمہ داریوں سے روگردانی کرکے کونسی اسلام کی خدمت کی ہے جس پر اسے "غازی" قرار دیا جا رہا ہے؟

میں سلمان تاثیر کے قتل کی خبر پڑھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ قاتل ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو گستاخ رسول صلی الله علیہ وسلم سمجھتے ہوئے قتل کیا ہے. فورا میرے ذہن میں آتا ہے کہ سلمان تاثیر کو گستاخ کیوں کہا یا سمجھا گیا تو وہ تصویر یا ویڈیو میرے سامنے آتی ہے جسمیں میں سلمان تاثیر کو جیل میں آسیہ بی بی سے ملتے اور اسکے سامنے مختلف ٹی وی چینلز کے کیمروں کی تصویر دیکھ رہا ہوں. اسکے ساتھ اسکے بیانات پڑھ رہا ہوں کہ آسیہ بی بی بے گناہ ہے، ناموس رسالت قانون کالا قانون ہے اور صدر کو اسکی رحم کی اپیل بھیج رہا ہوں اور امید ہے صدر اسکی رحم کی اپیل منظور کر لیں گے. میں وہ تاریخ نوٹ کرتا ہوں کہ سلمان تاثیر کونسی تاریخ کو جیل میں گئے تھے؟ پھر میں اس تاریخ کے اردگرد ہونے والے واقعات پر نظر دوڑاتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ انہی تاریخوں میں ویٹی کن سے پوپ بینی ڈکٹ کے خاص نمائندے کارڈینل ٹیرن پاکستان آئے ہوئے تھے اور اس سے قبل وہ صدر زرداری سے مل چکے تھے اور صدر زرداری نے اقلیتی وزیر شہباز بھٹی کو ناموس رسالت قوانین میں ترمیم کرنے والے کمیشن کا سربراہ نامزد کیا تھا. اسکے بعد میں سوچتا ہوں کہ کیا مظلوموں سے ملنے جانا سلمان تاثر کی روٹین تھی یا یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ تھا.
ماضی میں مجھے کوئی ایسی مثال نظر نہیں آتی کہ سلمان تاثیر کبھی کسی مظلوم کو ملنے خود جیل یا کہیں اور گیا ہو. تصور ابھرنا شروع ہو رہا ہے. اب مختلف زاویوں سے اس تصویر کو دیکھتا ہوں. کیا سلمان تاثر نے پہلے کبھی ناموس رسالت قوانین پر کوئی بات کی ہے؟ نہیں. تو پھر اب کیوں؟ اسکا مطلب یہ سلمان تاثیر نہیں اسکے اندر کوئی اور بول رہا ہے. وہ کون ہے؟ وہی جس نے اقلیتی وزیر شہباز بھٹی کو ناموس رسالت قوانین میں ترمیم تیار کرنے والے کمیشن کا سربراہ بنایا یعنی صدر زرداری. ناموس رسالت قوانین میں ترمیم تیار کرنے والے کمیشن کا سربراہ کسی مسلمان کو کیوں نہیں بنایا گیا؟ کیا کوئی اندرونی یا بیرونی دباو تھا؟ یقینا پوپ بینی ڈکٹ کے خاص نمائندے کارڈینل ٹیرن نے صدر زرداری کو کوئی خاص پیغام پہنچایا ہے. اگر ایسی کوئی بات ہے تو اسے تلاش کریں. کیا کارڈینل ٹیرن سے زرداری کی یہ پہلی ملاقات ہے یا اس سے پہلے بھی کوئی ملاقات؟ پہلی ملاقات میں کیا بات ہوئی تھی؟ کیا زرداری پوپ بینی ڈکٹ سے کبھی ملے تھے؟ کیا باتیں ہوئی تھیں؟ کون کون موجود تھا؟ کیا پوپ بینی ڈکٹ نے کوئی بیان دیا ہے یا مطلبہ کیا ہے؟ کھلے عام یا معاون خصوصی کے ذریے؟ وہ بیان یا مطلبہ کیا ہے؟ کڑیوں سے کڑیاں ملاتے جائیں سچ زیادہ دور نہیں ہے
سلمان تاثر کے قتل کی کہانی کا آغاز زرداری کے دورہ اٹلی سے شروع ہوتا ہے جب اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کی معرفت صدر زرداری ویٹی کن میں پوپ بینی ڈکٹ سے بند کمرے میں ملاقات کے بعد پھر پوپ کے نائبین اور اٹلی کے حکمرانوں سے ملے اور انکے ساتھ ناموس رسالت قوانین پر خفیہ وعدے اور یقین دہانیاں کروائیں
سلمان تاثیر کے جیل میں آسیہ بی بی سے ملنے سے قبل پس پردہ دو باتیں چل رہی تھیں. ایک آسیہ بی بی کو دی جانے والی سزا کی معافی اور دوسری توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کے قوانین کو ختم کرنا یا بدلنا. توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کے قوانین کو ختم کرنا تو زرداری حکومت کے بس کی بات نہ تھا کیونکہ اس پر زبردست ردعمل ہو سکتا تھا. لیکن اسکو بدلنا اور آسیہ بی بی کی سزا ختم کرنا ممکن تھا اور اسی کے لیے میدان ہموار کیا جا رہا تھا. میں جانتا ہوں کہ اس معاملے پر حکومت پر کتنا زیادہ دباو تھا جب پوپ بینی ڈکٹ نے نومبر کے وسط میں خود اسکی رہائی کی اپیل کی تھی.
پوپ کی اپیل ہم جیسے ممالک کے لیے ایک پوشیدہ حکم ہی ہوتا ہے. صرف اسی پر ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ پوپ نے نومبر کے آخر میں اپنا خاص آدمی بھیج کر واضح پیغام دیا. اس خاص آدمی نے پاکستان میں چار دن قیام کے بعد واپس جا کر ویٹی کن میں پوپ کو زرداری کا جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ زرداری توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کے قوانین کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن انکی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں ہے تاہم انہوں نے ان قوانین میں تبدیلی کا وعدہ کیا ہے اور اسکے لیے اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا دیا ہے جو اس قانون میں تبدیلی کے لیے سفارشات مرتب کرے گا. ویٹی کن ریڈیو نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ صدر زرداری آسیہ بی بی کو معافی دیکر رہا کرنا چاہتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ سلمان تاثیر سب کچھ زرداری کے ایما پر کر رہے تھے جسکا انہوں نے اپنے انٹرویو میں اظہار بھی کیا تھاوہ زرداری سے ضرورت سے زیادہ وفاداری کے چکر میں مارے گئے لیکن زرداری کو اسکا آخری دیدار کرنے اور جنازہ تک پڑھنے کی توفیق تک نہ ہوئی. شاید کرائے کے غنڈوں کا انجام یہی ہوتا ہے. ریڈیو ویٹی کن نے سلمان تاثر کے جیل میں جا کر آسیہ بی بی سے ملنے اور زرداری کی طرف سے معافی کے اعلانات سے بہت پہلے بتا دیا تھا کہ صدر زرداری آسیہ بی بی کی سزا عنقریب معاف کر دیں گے. سلمان تاثیر کی سرگرمیاں اس ریڈیو اعلان کے بعد شروع ہوئیں
پی پی پی پھر وہی غلطی دہرانے جا رہی تھی جو وہ ماضی میں بھی دھرا چکی تھی. ماضی میں پی پی پی نے توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایسے ہی کیس میں مجرموں کو ایمرجنسی طور پر اپنے جیالے جج عارف اقبال بھٹی سے سزا معاف کروا کر فوری طور پر ہوائی اڈے پر تیار کھڑے جہاز میں بٹھا کر امریکہ روانہ کر دیا گیا تھا. ماضی میں سلمان تاثیر کا کردار جیالے جج عارف اقبال بھٹی نے ادا کیا تھا اور اسکا انجام بھی سلمان تاثر کی طرح قتل کی صورت میں ہوا تھا
مظلوموں، غریبوں اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہئیے لیکن اس کا آغاز کہاں سے کرنا چاہئیے؟ سلمان تاثیر کے کیس میں صاف نظر آتا ہے کہ مقصد آسیہ کے لیے آواز بلند کرنا نہ تھا. آواز تو بغیر جیل جائے، بغیر پریس کانفرنس کیے اور بغیر صدر کا ترجمان بنے بھی کی جا سکتی تھی. اس سٹیج سجانے کا مقصد ان لوگوں کو جو آ کر سر پر بیٹھ گئے تھے، پیغام دینا تھا کہ ہم آپ کے مطالبات ماننے جا رہے ہیں. آسیہ بی بی کو انصاف کے حصول کے لیے ابھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دروازے کھلے تھے تو پھر صدر اور گورنر کو عدالتوں کے فیصلوں کا انتظار کیے بغیر اپنا حق استعمال کرنے کی جلدی کیا تھی؟
اسکے علاوہ قتل اور دوسرے جرائم میں سزا یافتہ کتنے بے گناہ لوگوں کی اپیلیں صدر کے پاس پڑی ہیں. ان میں سے صرف آسیہ کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا؟ پی پی پی کی اس حکمت عملی کا نتیجہ سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے قتل کی صورت میں سامنے آیا. اگر پی پی پی یہ معامله ملکی عدالتوں پر چھوڑ دیتی اور غیر ملکی قوتوں سے بلیک میل نہ ہوتی تو آج سلمان تاثیر بھی ہمارے درمیان ہوتے اور شہباز بھٹی بھی. پی پی پی کے غلط فیصلوں نے ہمیشہ نہ صرف خود پی پی پی کو بلکہ اس ملک کو بھی نقصان پہنچایا ہے
یہ غیر ملکی سیاسی، مذہبی اور انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار قوتیں اسوقت کیوں چھپ سادھ لیتی ہیں جب امریکہ جیسے نام نہاد مہذب ملک نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چھیاسی سال کی قید کی سزا سنائی؟ کیا کسی نے امریکی قوانیں کو کالے قوانین کہا؟ کیا کسی پادری یا انسانی حقوق کے کسی نام نہاد چمپین نے اس پر اعتجاج کیا؟ ایک عورت پر کتنے سال تشدد کیا گیا، پاکستان سے معصوم بچوں سمیت اغوا کرکے افغانستان کے امریکی کیمپوں میں انسانیت سوز مظالم کیے گئے. جھوٹے کیس بنا کر اسکو سزا دی گئی. تب مظلوموں کے یہ سارے غمخوار کہاں سو گئے تھے؟ اور پھر سب سے بڑھکر یہ کونسا انصاف ہے کہ باہر سے لوگ آئیں اور دھونس اور زبردستی کرکے ہماری عدالتوں کی توہین کرتے ہوئے ملزموں کو چھڑا کر لیں جائیں اور غریب اور لاوارث جیلوں میں پڑے مر جائیں؟
ہمارے ملک کی بد قسمتی یہی ہے کہ ہم دو انتہاؤں میں پھنس کر رہ گئے ہیں. ایک طرف نام نہاد سیکولر انتہا پسند ہیں جو مادر و پدر آزاد ہیں اور مذھب کے خلاف زبان سنبھال کر بات نہیں کرتے ہیں اور کھلم کھلا مذھب کی توہین کرکے لوگوں کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں اور دوسری طرف مذہبی اور جنونی ملاں ہیں جو فساد و نفرت کا نشان ہیں اور مزھب کی آڑ لیکر لوگوں کے قتل کو بھی جائز دینے سے نہیں باز نہیں آتے. ان دونوں انتہاؤں کے تحفے ہمیں بھٹو اور ضیاء کی طرف سے ملے ہیں. جب تک ضیاء اور بھٹو کے اندھے تقلید کرنے والے اس ملک میں موجود ہیں اس ملک میں امن قایم نہیں ہو سکتا. بھٹو کے پیروکار سلمان تاثیر کو شہید اور ضیاء الحق کے پیروکار ممتاز قادری کو غازی بنانے پر تلے ہوئے ہیں. نہ تو ایک شرابی کبابی آدمی شہید ہو سکتا ہے اور نہ ہی اپنے فرایض سے روگردانی کرنے والا قاتل غازی ہو سکتا ہے.
سلمان تاثیر جیسا بھی تھا ایک مسلمان تھا اور اس نے ناموس رسالت صلی الله علیہ وسلم میں کسی طرح کی کوئی گستاخی نہیں کی تھی. اس کے قتل کو کسی لحاظ سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قاتل کو غازی علم دین رحمت الله علیہ سے مماثلت دی جا سکتی ہے. سلمان تاثیر سے سیاسی مخالفت اپنی لیکن دین کے نام پر کسی مسلمان کے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے اور نہ ہی قاتل کی حمایت کی جا سکتی ہے. اگر دین کے نام پر بے گناہ انسانوں کے قتل کی اجازت دے دی گئی تو فسادی ملاں اپنے ہر مخالف کو ایسے الزامات لگا کر قتل کروا دیں گے اور یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو کہاں جا کر رکے گا؟
سلمان تاثیر کا قتل خود پی پی پی کیلیے ایک درد سر بن چکا تھا. یہ کیس پی پی پی کے منہ میں ایک ایسا نوالہ تھا جسے پی پی پی نہ نگل سکی اور نہ اگل سکی. پی پی پی کی حکومت عدالتی فصلوں کے باوجود ممتاز قادری کو سزا دینے کا رسک نہیں لے سکی کیونکہ پی پی پی اقتدار کو بچانے کی خاطر سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی تو کجا بینظیر بھٹو کے قاتلوں سے بھی سمجھوتا کر سکتی ہے. شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کا یہی انجام ہوتا ہے جو سلمان تاثیر اور اسکے خاندان کا ہوا ہے. سلمان تاثیر کا انجام فیصل رضا عابدی اور اعتزاز احسن جیسے زرداری کی خاطر بڑے بڑے منہ کھول کر بھونکنے والوں کے لیے نشان عبرت ہے
توہین رسالت قانون ایک نعمت ہے. اس قانون کی عدم موجودگی میں لوگ توہین رسالت کے مرتکب لوگوں سے نپٹنے کے لیے خود نکل پڑیں گے اور ملک افراتفری کا شکار ہو جائے گا. ہمیں توہین رسالت قانون میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنا چاہئیے اور اسکے غلط استعمال پر کڑی سزائیں دینی چاہئیے لیکن کسی غیر ملکی کو ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئیے. ہمیں خود اپنی اقلیتوں (میں انکو اقلیت نہیں برابر کے شہری سمجھتا ہوں) کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیے اور ان سے ہونے والے امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنا چاہئیے
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
شکریہ محمد عامر بهائی

رد عمل غلط قرار پایا اور جس عمل پر رد عمل ہوا اس پر کوئی پکڑ اور گرفت نہیں ۔ تقریبا تقریبا ہر واقعہ اس واقعہ سے ملتا جلتا ہے ۔ ہمیں کہا جاتا ہے صبر کرو ۔
اللہ ہم سب کی مدد کرے ، اکثر جهنجهلاہٹ کا شکار ہیں ، اکثر مایوسی کا شکار ہیں ۔ یہ جهنجهلاہٹ اور مایوسی جس رد عمل پر مجبور کر دے کسی کو ، اس رد عمل کو سزا ضرور ہے تا کہ ہر کوئی خائف ہو جائے ۔ عمل ؟ عمل مسلسل ہے اور ہر جگہ هے ۔ دنیا کا کوئی قانون عمل پر کیوں نہیں ۔
 
شمولیت
فروری 26، 2016
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
22
شکریہ محمد عامر بهائی

رد عمل غلط قرار پایا اور جس عمل پر رد عمل ہوا اس پر کوئی پکڑ اور گرفت نہیں ۔ تقریبا تقریبا ہر واقعہ اس واقعہ سے ملتا جلتا ہے ۔ ہمیں کہا جاتا ہے صبر کرو ۔
اللہ ہم سب کی مدد کرے ، اکثر جهنجهلاہٹ کا شکار ہیں ، اکثر مایوسی کا شکار ہیں ۔ یہ جهنجهلاہٹ اور مایوسی جس رد عمل پر مجبور کر دے کسی کو ، اس رد عمل کو سزا ضرور ہے تا کہ ہر کوئی خائف ہو جائے ۔ عمل ؟ عمل مسلسل ہے اور ہر جگہ هے ۔ دنیا کا کوئی قانون عمل پر کیوں نہیں ۔
اگر حکمران ظالم ہوں اور سزا نہ دیں تو کیا کرنا چائیے ؟؟؟
احادیث موجود ہیں اس موقع پر کیا کرنا چائیے ۔۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
Umer Farooq

ممتاز قادری کی پھانسی سے ثابت ہوا کے پاکستان میں اگر کوئی غریب بااثر کو قتل کرے گا تو اسے پھانسی دی جائے گی اور اگر کوئی با اثر کسی غریب کو قتل کرے گا تو اسے باعزت بری کیا جایے گا۔ # ریمنڈ ڈیوس # شاہ رخ جتوئی # مصطفیٰ کانجو۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
سلمان تاثیر تھا کلمہ گو ۔۔۔کلمہ گو کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔
جس طرح ایک بندہ شرک کرے تو اس کو کلمہ پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ایسےہی گستاخ رسول کو بھی کوئی فائدہ نہیں۔اللہ تعالی ممتاز صاحب کی مغفرت فرمائے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
سلمان تاثیر تھا کلمہ گو ۔۔۔کلمہ گو کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔
جس طرح ایک بندہ شرک کرے تو اس کو کلمہ پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ایسےہی گستاخ رسول کو بھی کوئی فائدہ نہیں۔اللہ تعالی ممتاز صاحب کی مغفرت فرمائے
میرے خیال اللہ تعالی ہدایت دے بھائی نے بات اگر مطلقا کی ہے تو وہ درست نہیں بلکہ رانا قادری صاحب کی بات بھی بعض دفعہ ہو سکتی ہے کیونکہ بعض جگہوں پہ واقعی کلمہ گو کے کلمہ کے حقوق سلب ہو جاتے ہیں خاص کر گستاخی رسول پہ یا قرآن کو جلانے وغیرہ پہ
مثال کے طور پہ سلمان رشدی یا تسلیمہ نسرین بے شک کلمہ گو ہوں مگر انکا کلمہ گستاخی کے بعد وقعت بالکل نہیں رکھتا

البتہ جہاں تک یہ معاملہ ہے کہ کیا سلمان تاثیر نے واقعی گستاخی کی تھی تو اس پہ کچھ شکوک و شبہات ہیں البتہ جو باتیں کی ہیں عبداللہ بن ابی منافق کی طرح دوغلی ہیں یعنی کسی وقت تو ایسے لگتا ہے کہ واقعی وہ گستاخ ہے اور کسی وقت ایسے لگتا ہے کہ وہ تاویلیں کر رہا ہے اور وہ اس قانون کو کالا قانون صرف اسکے غلط استعمال سے کہ رہا ہے واللہ اعلم
اب دو احتمالات ہو سکتے ہیں جو ہم پہ واضح نہیں ہیں
1۔سلمان تاثیر واقعی گستاخ رسول تھا تو اسکو اگر ممتاز قادری نے قتل کیا تو وہ قابل ستائش ہے چاہے قانون توڑا گیا ہو (جیسا کہ علم دین نے توڑا تھا اور علامہ اقبال اور قائد اعظم نے اسکو غلط نہیں کہا تھا) اسی طرح چاہے اسکے موحد ہونے میں شکوک و شبہات ہوں کیونکہ مشرک بھی اگر کوئی اچھا عمل اسلام کے لئے کرے تو اسکا احسان یاد رکھا جاتا ہے جیسا کہ مطعم بن عدی کے بارے رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو اسکے کہنے پہ بدر والے قیدیوں کو آزاد کر دیتا لیکن یہ تب ہو گا جب یہ بالکل واضح ہو کہ سلمان تاثیر منافق نہیں بلکہ گستاخ ہے
2۔سلمان تاثیر عبداللہ بن ابی کی طرح منافق ہو اور بات بدل دیتا ہوں جیسا کہ اسنے بات بدل دی تھی اور واضح گستاخی نہ کرتا ہو ایسی صورت میں پھر اسکو کچھ نہیں کہ سکتے اور قتل کرنے والا غلط ہو گا اور سلمان تاثیر کی صورت میں غالبا اسکا زیادہ احتمال ہو واللہ اعلم
اگر کوئی بھائی اس سلسلے میں میری اصلاح کر دے تو بہت مشکور ہوں گا
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ایک مناسب پوسٹ

https://www.facebook.com/hamidjee/posts/10154713551238298

یعنی عمل سے ردعمل بنتا ہے اور یہ عمل امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستانی حکمران کریں اور پھر ردعمل میں جاہل لوگ جو صرف انتقام کو جانتے ہیں وہ یہاں پاکستان میں ہی جہاد کے نام پہ بدترین فساد شروع کر دیں ان فسادیوں نے تو پورے پاکستان کو تباہ صرف نہیں کیا بلکہ جہاد اور مدارس کو بھی ختم کروا کے رکھ دیا یا پابندیاں لگوا دی گئیں
لیکن دوسری طرف حکمران کو بھی احساس دلوانا ہے لڑائی کے بغیر اگر ہم انکو احساس ہی نہیں دلوائیں گے تو انکو احساس ہی ختم ہو جائے گا جیسا کہ شعر ہے
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
یہی معاملہ ریمنڈ ڈیوس کے سلسلے میں کیا گیا اور یہی معاملہ شاید جان بوجھ کر سلالہ میں کیا گیا یا باجوڑ میں کر کے اقرار کروایا گیا
اسی طرح سلمان تاثیر سے کروایا گیا اور اب اس پھانسی سے کروایا گیا
میرا سوال ہے کہ کیا دوسرے حل نہیں تھے کیا جامعہ حفصہ کو گیس پانی بند کر کے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تھا جس طرح کہ اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی ناصر درانی نے بیان دیا تھا
اسی طرح کیا ممتاز قادری سے غلطی ہو گئی تھی تو کیا اسکو بھی عمر قید یا کوئی اور معاملہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ جس طرح ریمنڈ ڈیوس کا خود انہوں نے کیا تھا کہ دیت دلوائی تھی
لیکن میں سوچتا ہوں کہ یہ سب امریکہ ان حکمرانوں سے لاشعوری کروا رہا ہے تاکہ ادھر ردعمل شروع ہو اور امریکہ کی گرد ن جو افغانستان میں پھنسی ہے لوگ وہ چھوڑ کر پاکستان کی طرف متوجہ ہو جائیں ایک تیر میں کئی شکار یعنی امریکہ کی بھی گردن خلاصی انڈیا بھی خوش اور پاکستان تباہ
اب میرے خیال میں ہمارے کرنے کے دو کام ہیں
1۔ پاکستان میں جہاد کے نام پہ فساد کرنے والے لوگوں کا دلائل سے بھرپور رد کرنا
2۔ حکمرانوں کا ضمیر جگانا کہ پاکستان میں فساد کرنے والوں کا خالی دوائی سے علاج ہی نہیں کرنا بلکہ کچھ چیزوں سے بھی پرہیز کرنا ہے جو بیماری کو بڑھاتی ہیں واللہ اعلم
 
Last edited:
Top