• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشاب کے بارے میں حدیث کا جواب درکا ہے ۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
امام جلال الدین السیوطی کی روایات (1)

امام جلال الدین السیوطی نے طبرانی اور بیہقی کی روایت نقل کی جنہوں نے حکیمہ بنت امیہ رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کی ہے وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لکڑی کا پیالا تھا جو آپ کے چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھا جس میں اپ علیہ السلام پیشاب کرتے تھے ایک رات آپ علیہ السلام اسے دھونڈنے لگے لیکن نہیں ملا اور پھر آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ کہا ہے اہل بیت نے جواب دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خادمہ برہ نے وہ پی لیا ہے جو کہ ان کے ساتھ حبشہ سے آئیں ہے ، اپ علیہ السلام نے فرمایا یقنن اس نے خود کو دکھتی آگ سے بچا لیا جس کی حفاظت کے لئے دیورین ہیں
وأخرج الطبراني والبيهقي بسند صحيح عن حكيمة بنت أميمة عن أمها قالت كان للنبي صلى الله عليه وسلم قدح من عيدان يبول فيه ويضعه تحت سريره فقام فطلبه فلم يجده فسأل عنه فقال أين القدح قالوا شربته برة خادم أم سلمة التي قدمت معها من أرض الحبشة فقال النبي صلى الله عليه وسلم لقد احتظرت من النار بحظار

طبرانی کی معجم کبیر یہ روایت ذیل کے الفاظ سے موجودہے ؛

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ حُكَيْمَةَ بِنْتِ أُمَيْمَةَ، عَنْ أُمِّهَا، أُمَيْمَةَ، قَالَتْ: كَانَ لِلنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَحٌ مِنْ عِيدَانٍ يَبُولُ فِيهِ، وَيَضَعُهُ تَحْتَ سَرِيرِهِ فَقَامَ فَطَلَبَ فَلَمْ يَجِدُهُ فَسَأَلَ فَقَالَ: «أَيْنَ الْقَدَحُ؟» ، قَالُوا: شَرِبَتْهُ بَرَّةُ خَادِمُ أُمِّ سَلَمَةَ الَّتِي قَدِمَتْ مَعَهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدِ احْتَظَرَتْ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ»
یہ وہی روایت ہے ،جس پر میں نے اپنے پہلے جواب میں لکھا تھا کہ :
وهو حديث ضعيف ؛ لجهالة حُكيمة بنت أميمة .‘‘یہ حدیث ۔۔حکیمہ بنت امیمہ ۔۔کے مجہول ہونے کے سبب ضعیف ہے ،
علامہ ذہبی اور ابن حجر دونوں ہی اسے ’‘ مجہول ’‘ کہتے ہیں
قال الذهبي في " ميزان الاعتدال " ( 1 / 587 ) : " غير معروفة " انتهى .
وقال ابن حجر في " تقريب التهذيب " ( ص 745 ) : " حُكَيمة بنت أميمة لا تعرف " انتهى .

ومع علة الجهالة فإن متن الحديث مضطرب اضطراباً كبيراً .
اور امام دار قطنی نے ۔۔العلل ۔۔ میں اس کے ایک طرق کو بھی ابو مالک کے ضعف اور اضطراب کے سبب ضعیف کا حکم لگایا ہے ’‘

دوسری روایت
امام جلال الدین اسیوطی نے ابو یعلی ، حاکم ، دارقطنی ، طبرانی اور ابو نعیم سے وہ ام ایمن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اٹھے اور پیالے میں پیشاب کیا اسی میں پیاس کی شدت کے ساتھ اٹھی اور پیالے میں جو تھا میں نے پی لیا صبح کو میں آپ علیہ السلام کو بتایا کہ مین نے کیا کیا ہے جس آپ علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا کہ یقنن پھر تمہین کبھی بھی معدے کی تکلیف نہین ہوگی۔

وأخرج أبو يعلى والحاكم والدارقطني والطبراني وأبو نعيم عن أم أيمن قالت قام النبي صلى الله عليه وسلم من الليل إلى فخارة فبال فيها فقمت من الليل وأنا عطشانة فشربت ما فيها فلما أصبح أخبرته فضحك وقال أما أنك لا يتجعن بطنك أبدا ولفظ أبي يعلى إنك لن تشتكي بطنك بعد يومك هذا أبدا ‘‘
(الخصائص الكبرى مؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت

ام ایمن کی یہ روایت المعجم الکبیر ۔۔طبرانی میں ان الفاظ سے مروی و موجود ہے :
230 - حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو مَالِكٍ النَّخَعِيُّ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ أُمِّ أَيْمَنَ، قَالَتْ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ إِلَى فَخَّارَةٍ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ فَبَالَ فِيهَا فَقُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ، وَأَنَا عَطْشَانَةُ فَشَرِبْتُ مَا فِيهَا، وَأَنَا لَا أَشْعُرُ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا أُمَّ أَيْمَنَ، قَوْمِي فَأَهْرِيقِي مَا فِي تِلْكَ الْفَخَّارَةِ» قُلْتُ: قَدْ وَاللهِ شَرِبْتُ مَا فِيهَا، قَالَتْ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَا إِنَّكِ لَا تَتَّجِعِينَ بَطْنَكِ أَبَدًا»
میں نے پہلی پوسٹ میں اس حدیث کے متعلق لکھا تھا کہ :
وإسناد الحديث ضعيف ، فيه علتان : العلة الأولى : الانقطاع بين نبيح العنزي وأم أيمن ،
یعنی یہ روایت دو بڑی علت کے سبب ناکارہ ہے اس میں پہلی علت تو یہ ہے کہ اس کی سند منقطع ہے ۔اور یہ انقطاع ۔۔نبیح ۔۔اور ۔۔ام ایمن کے درمیان واقع ہے

والعلة الثانية : أبو مالك النخعي واسمه عبد الملك بن حسين ، وهو متفق على ضعفه ، قال عنه النسائي : متروك ،
وقال أبو حاتم : ضعيف الحديث ، وقال عمرو بن علي : ضعيف منكر الحديث .
انظر " الضعفاء والمتروكين " للنسائي و " الجرح والتعديل " لابن أبي حاتم و " تهذيب التهذيب " لابن حجر .
اور اس کے ضعف کی دوسری علت ۔۔ابو مالک ۔۔نامی راوی کا ضعیف ہونا ہے ۔اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے ۔۔امام نسائی ، امام ابو حاتم اور علامہ عمرو بن علی سب کا کہنا ہے کہ یہ راوی انتہائی ضعیف ،منکر الحدیث ہے
قال الحافظ ابن حجر – رحمه الله - : " وأبو مالك ضعيف ، ونُبيح لم يلحق أم أيمن " انتهى
من " التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير " ( 1 / 171 ) .
یعنی حافظ ابن حجرؒنے ۔۔التلخیص الحبیر ۔۔میں اس روایت انہی دو علتوں کی بنیاد پر ضعیف کہا ہے ’‘


یہ اصل میں دو ہی روایتیں ہیں جنہیں مختلف کتابوں کے حوالے چار بنادیا گیا ہے
یہ دونوں جیسا کہ آپ نے دیکھا ناقابل استدلال ہیں ؛
 
Last edited:

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
طلحہ بھائی،شیخ صاحب سے رابطہ کرلیجیے۔۔
شیخ صاحب کے نزدیک’’المعجم الکبیر للطبرانی‘‘والی روایت حسن درجہ کی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادٍ الْحَذَّاءُ الرَّقِّيُّ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي حُكَيْمَةُ بِنْتُ أُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ، عَنْ أُمِّهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبُولُ فِي قَدَحِ عِيدَانٍ، ثُمَّ يَرْفَعُ تَحْتَ سَرِيرِهِ، فَبَالَ فِيهِ ثُمَّ جَاءَ فَأَرَادَهُ فَإِذَا الْقَدَحُ لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، فَقَالَ لِامْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا بَرَكَةُ كَانَتْ تَخْدُمُ أُمَّ حَبِيبَةَ، جَاءَتْ بِهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ: «أَيْنَ الْبَوْلُ الَّذِي كَانَ فِي الْقَدَحِ؟» قَالَتْ: شَرِبَتُهُ، فَقَالَ: «لَقَدِ احْتَظَرْتِ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ»
شیخ صاحب لکھتے ہیں:
’’غالبا یہ کام اس لونڈی سے غلطی سے سرزد ہوگیا تھا اورغلطی سے ایک ناپسندیدہ کام کرنے پر جو کراہت اور تکلیف بعد میں اسے ہوئی اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے جہنم سے آزادی مل گئی کیونکہ مومن کا کوئی مشقت وتکلیف نیکی سے خالی نہیں‘‘
واللہ اعلم۔
 
شمولیت
جون 16، 2011
پیغامات
100
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
97
آج اس پوسٹ کو گزرے تقریباً ڈھائی سال ہوگئے ہیں۔ لیکن اگر اس موضوع پر اہل علم مزید بحث کریں اور روایات کی تحقیق کی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آج کل خادم رضوی کے دھرنے میں ایک ویڈیو کلپ فیس بوک چل رہا ہے۔ جس سے لادین سیکولر، لبرل ، منکرین حدیث سب فائدہ اٹھا کر اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ کوئی احادیث کا انکار کر رہا ہے کوئی مولوی اور اسلام کا استہزاء وغیرہ وغیرہ۔ اور بریلویوں نے اپنی جہالت کی انتہا کی ہے۔ اس پر اہل علم ضرور قلم اٹھائیں۔
میں اسی مسئلے کو سرچ کرتے کرتے اس پوسٹ تک پہنچا۔
اس لنک میں جو مضمون ہے اس کا مکمل جواب دیا گیا ہے یا نہیں۔ اہل علم توجہ فرمائیں۔
اور اس ویڈیو کلپ کو دیکھیں جس کی میں بات کر رہا ہوں جس نے فیس بک پر کہرام مچایا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آج اس پوسٹ کو گزرے تقریباً ڈھائی سال ہوگئے ہیں۔ لیکن اگر اس موضوع پر اہل علم مزید بحث کریں اور روایات کی تحقیق کی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آج کل خادم رضوی کے دھرنے میں ایک ویڈیو کلپ فیس بوک چل رہا ہے۔ جس سے لادین سیکولر، لبرل ، منکرین حدیث سب فائدہ اٹھا کر اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ کوئی احادیث کا انکار کر رہا ہے کوئی مولوی اور اسلام کا استہزاء وغیرہ وغیرہ۔ اور بریلویوں نے اپنی جہالت کی انتہا کی ہے۔ اس پر اہل علم ضرور قلم اٹھائیں۔
میں اسی مسئلے کو سرچ کرتے کرتے اس پوسٹ تک پہنچا۔
اس لنک میں جو مضمون ہے اس کا مکمل جواب دیا گیا ہے یا نہیں۔ اہل علم توجہ فرمائیں۔
اور اس ویڈیو کلپ کو دیکھیں جس کی میں بات کر رہا ہوں جس نے فیس بک پر کہرام مچایا ہے۔
بول و براز کے حوالے سے وارد احادیث ضعیف ہیں ،جہاں تک مسئلہ ہے ، لبرلز اور اسلام دشمنوں کا ، ان کا علاج سیدھا سیدھا ہے ، ان سے احادیث کی صحت وضعف کے متعلق الجھنے کی ضرورت ہی نہیں ، ان سے کہیں کہ احادیث کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے ، تو اس میں ’ ناممکن ‘ کیا ہے ؟ کہ جس کی وجہ سے تم احادیث کو جھٹلا رہے ہو ۔
ابھی بھی اس دنیا میں لوگ ایسا نہیں ہیں ، جو کتے بلے خنزیر کھاتے ہیں ؟ بلکہ نجس اور حرام چیزیں کھانے والے بھی موجود ہیں ۔
اگر اللہ تعالی چاہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات میں خوشبو بھی پیدا کرسکتا ہے ، اور حضور سے محبت کی بنا پر کوئی اس کو تناول کرنے کی بھی خواہش رکھ سکتا ہے ۔۔۔۔ ہم یہ بات اس لیے نہیں کہتے کیونکہ احادیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں ۔ اگر احادیث صحیح ہوں ، تو جس طرح ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے واقعہ معراج کی تصدیق کی تھی ، ہم ان واقعات کی تصدیق میں ایک لمحہ بھی تردد نہیں کریں گے ۔
رہی بات ، صفائی نصف ایمان ، اور اس طرح کی نصوص شریعت کی ، تو وہ برحق ہیں ، ہم ان کو بھی مانتے ہیں ، لیکن اندھوں کو یہ تو سمجھنا چاہیے جو احادیث کو درست مان رہے ہیں ، وہ حضور کے فضلات کو ’گندگی‘ سمجھتے ہوں گے کہ آپ انہیں ’ صفائی نصف ایمان ‘ کا درس دے رہے ہیں ؟
دوسری بات : وقتی طور پر کسی چیز کو بطور تبرک استعمال کرنا ، یہ صفائی کے منافی نہیں ، مثال کے طور پر بعض لوگ کچھ جگہوں کی مٹی کو تبرک سمجھ کر اپنے جسم پر مل لیتے ہیں ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ اس کو لگا کر رکھتے ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ : ہمارے نزدیک صفائی ستھرائی ، اچھے برے کے اصول قرآن اور حدیث سے طے ہوت ہیں ، اگر احادیث ثابت ہوں ، تو بجائے اس کے ہم ان پر اصول لاگو کریں ، ہمارے نزدیک وہ کسی بھی اصول سے زیادہ مستند ہیں ، اور ہم انہیں دل و جان سے مانتے ہیں ۔
آخری بات :
جو باتیں حضور سے ثابت نہیں ، اپنے موقف کی تقویت کے لیے ایسی باتیں بیان کرنے والے کو بھی اپنی عاقبت کا خیال کرنا چاہیے ، سٹیچ تو گرم ہو جائے گا ، دھرنا بھی کامیاب ہوجائے گا ، لیکن آخرت کی بربادی سے کون بچائے گا ؟
 
Top