امام بخاری کی بیان کردہ علت سے متعلق محترم حافظ زبیرعلی زئی کے اشکالات اور ان کا ازالہ
محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے اشکالات کے ازالہ سے قبل ایک بار پھر یہ وضاحت کردی جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں دو پہلو ہے ایک اثبات کا اور ایک انکار کا۔ لیکن محترم زبیرعلی زئی نے جواب دیتے ہوئے یہ ثاثر قائم کیاہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بس ایک بات کو معروف کہہ رہے ہیں اور اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ثابت نہیں یعنی محترم نے ثبوت کی ذمہ داری امام بخاری کے سرڈال دی ہے ۔
حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں انکار کا پہلو بھی ہے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک بات کا انکار بھی کیا ہے اوراسے ’’معروف ‘‘ نہیں بلکہ ’’لایعرف‘‘ سے پیش کیا ہے ، اور اس معاملہ میں ثبوت کی ذمہ داری امام بخاری رحمہ اللہ پرنہیں ہے بلکہ ثبوت کی ذمہ داری اس پر ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کے انکار کو تسلیم نہ کرے۔
محترم زبیرعلی زئی نے امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں اثبات والے پہلو کا جواب دیتے ہوئے لفظ معروف پرساری توانائی صرف کردی ہے اورلوگوں کو صرف یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے محض ایک مشہوربات نقل کیا ہے جوثابت نہیں ۔لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں جوانکار کا دوسرا پہلو تھا جس کے جواب میں آن جناب کو ثبوت پیش کرنا چاہئے تھا لیکن اس معاملہ میں آں جناب سے کچھ بھی نہیں بن پڑا چنانچہ موصوف ثبوت میں ایک حرف بھی پیش کرنے سے یکسرقاصر و عاجز رہے ہیں ۔
اب آئیے ہم پوری تفصیل کے ساتھ محترم کے اشکالات ازالہ پیش کرتے ہیں:
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام بخاری نے یہ بھی لکھا ہے:
’’ والمعروف أن أبا ذر کان بالشام زمن عثمان و علیھا معاویۃ و مات یزید في زمن عمر، ولا یعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عمر.‘‘
اور معروف (مشہور) یہ ہے کہ عثمان(رضی اللہ عنہ)کے زمانے اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے دورِ امارت میں ابو ذر(رضی اللہ عنہ)شام میں تھے اور یزید (بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)عمر(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں فوت ہو گئے تھے اور عمر(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں ابو ذر(رضی اللہ عنہ) کا شام آنا معروف (مشہور) نہیں۔ (التاریخ الاوسط ۱/ ۳۹۸ ح ۱۳۷، دوسرا نسخہ ۱/ ۷۰)
اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل بیان نہیں کی اور کسی بات کا معروف (مشہور) ہونا یا نہ ہونا اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہوتا بلکہ صحیح سند والی روایت صحیح ہوتی ہے چاہے مشہور ہو یا نہ ہو۔ اصولِ حدیث کی کتابوں میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ مشہور حدیث صحیح بھی ہوتی ہے، حسن بھی ہوتی ہے، ایسی بھی ہوتی ہے کہ جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی اور کلیتاً موضوع بھی ہوتی ہے۔
(دیکھئے اختصار علوم الحدیث اردو مترجم ص ۱۰۸، نوع: ۳۰)
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ فلاں بات معروف ہے یا معروف نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فلاں بات باسند صحیح ثابت ہے یا ثابت نہیں۔
کتنے ہی مشہور قصے ہیں جو بلحاظِ سند ضعیف، مردود اور باطل ہوتے ہیں۔مثلاً دیکھئے ’’ مشہور واقعات کی حقیقت ‘‘ (مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ لاہور فیصل آباد)
صحیح حدیث کے مقابلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی مبہم جرح کون سنتا ہے؟
سب سے پہلے اس اقتباس کی پہلی سطر دیکھیں محترم فرماتے ہیں ’’اگرکوئی کہے۔۔۔‘‘ اس سے بعض قارئین جو پورے پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ سمجھیں گے کہ موصوف پیشگی ایک نقد کا جواب دے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے اس نقد کو لے کر آں محترم پرتعاقب کیا گیا اس کے بعد موصوف اس کا جواب عنایت فرمارہے ہیں۔
اس کے بعد اس اقتباس کی آخری سطر دیکھئے کہ محترم زبیرعلی زئی امام بخاری کے اس کلام کو ’’جرح‘‘ تسلیم کرتے ہیں لیکن مبہم جرح کہتے ہیں ، حالانکہ اصول حدیث کا ادنی طالب علم بھی سمجھ سکتا ہےکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ جرح بہت ہی مفسر اورواضح ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس جرح کے کس حصہ میں ابہام ہے؟ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
اس کے بعد عرض ہے کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا امام بخاری کے کلام میں مستعمل ’’معروف‘‘ کا ترجمہ ’’مشہور‘‘ ( بمعنی زبان زدعام) سے کرنا یکسر غلط ومردودہے۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ کچھ لوگ مشہور کے معنی میں بھی معروف بولتے ہیں لیکن کیا امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام میں لفظ ’’معروف‘‘ مشہور کے معنی میں مستعمل ہے ؟؟ ہر گز نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام میں معروف کا لفظ معلوم کے معنی میں مستعمل ہے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ بات معلوم اور ثابت شدہ ہے نہ کہ صرف مشہور، جیساکہ محترم زبیر علیزئی باور کرانا چاہئے ہیں ۔
افسوس کہ موصوف امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہاں سمجھ نہیں پارہے ہیں یاتجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں کیونکہ خود موصوف کا ترجمہ ایک دوسرے مقام پردیکھیں ۔
ایک جگہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
وَلَا يُعْرَفُ هَذَا مِنْ صَحِيحِ حَدِيثِ ابْنِ خَالِدٍ الْأَحْمَرِ[القراءة خلف الإمام للبخاري ص: 64]۔
اس کا ترجمہ کرتے ہوئے آں جناب لکھتے ہیں:
اوریہ معلوم نہیں کہ یہ روایت ابوخالد الاحمر کی صحیح حدیثوں میں سے ہے [نصرالباری: ص 287]۔
عرض ہے کہ جس طرح ’’لایعرف‘‘ کا ترجمہ ’’معلوم نہیں‘‘ سے کیا گیا ہے اس طرح ’’والمعروف‘‘ کا ترجمہ ’’معلوم اورثابت شدہ‘‘ سے ہونا چاہئے ۔
محترم زبیرعلی زئی آگے فرماتے ہیں:
’’صحیح سند والی روایت صحیح ہوتی ہے چاہے مشہور ہو یا نہ ہو۔ اصولِ حدیث کی کتابوں میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ مشہور حدیث صحیح بھی ہوتی ہے، حسن بھی ہوتی ہے، ایسی بھی ہوتی ہے کہ جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی اور کلیتاً موضوع بھی ہوتی ہے‘‘اصل مسئلہ یہ نہیں کہ فلاں بات معروف ہے یا معروف نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فلاں بات باسند صحیح ثابت ہے یا ثابت نہیں۔
ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ معروف کا لفظ مشہور کے معنی میں نہیں استعمال کررہے ہیں بلکہ معلوم اور اورثابت شدہ کے معنی میں استعمال کررہے ہین۔ لیکن بفرض محال تھوڑی دیر کے لئے تسلیم کرلیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’معروف‘‘ کا لفظ مشہور کے معنی میں استعمال کیا ہے تو امام بخاری رحمہ اللہ کے اسے مشہور کہنے سے یہ لازم تو نہیں کہ یہ بات ثابت ہی نہیں کیونکہ آں جناب خود کہہ رہے ہیں کہ
’’مشہور حدیث صحیح بھی ہوتی ہے، حسن بھی ہوتی ہے‘‘ تو امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں جو مشہور کہا اس سے مراد وہ مشہور بات ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ثابت شدہ ہے۔ کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اس سے استدلال کررہے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ایک روایت پر جرح کررہے ہیں ، اور یہ ناممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ فقط ایسی مشہور بات کی بنیاد پرجرح کریں جو ان کے نزدیک ثابت شدہ نہ ہو بلکہ فضائل اعمال کے قصوں کی طرح فقط مشہور ہو۔
ہم محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کسی روایت پرجرح کرتے ہوئے اپنے نزدیک ثابت شدہ چیزوں کو بنیاد بتانے ہیں یا فضائل اعمال کے مشہور قصوں جیسی بے اصل باتوں کی بنیاد پر بھی جرح کرتے رہتے ہیں ؟ اگر آپ نفی میں جواب دیتے ہیں اور اپنی شان یہ بتلاتے ہیں کہ آپ صرف ثابت شدہ چیزوں ہی کی بنیاد پرجرح کرتے ہیں تو کیا امام بخاری رحمہ اللہ آپ سے بھی گئے گذرے ہیں کہ وہ بے اصل قصوں اورکہانیوں کی بنیاد پر ایک حدیث پر ذمہ دارانہ کلام کریں ؟
اور آپ کی بات مان لینے کی صورت میں معاملہ یہیں پرختم نہیں ہوجاتا بلکہ جرح وتعدیل اور علل حدیث سے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کے تمام تر اقوال محل نظر ٹہرتے ہیں اور ان کے ہرقول کے ثبوت کی دلیل فراہم ہونا ضروری قرار پاتا ہے کیونکہ احتمال ہے کہ کسی اور حدیث کو معلول کہنے یا کسی راوی کوضعیف ومجروح کہنے میں بھی اسی طرح کی بے بنیاد باتوں کا سہارا امام بخاری رحمہ اللہ نے لیا ہو! یادرہے کہ محدثین جب کسی حدیث کو معلول کہتے ہیں یا کسی راوی کو ضعیف یا مجروح کہتے ہیں تو اس کی بنیاد دیگر روایات ہی ہوتیں ہیں۔
اوریہ خطرہ صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی کے اقوال سے متعلق نہیں ہوگا بلکہ جرح وتعدیل کے تمام ائمہ کے اقوال تعلیل وتضعیف محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے یہاں ان کی ذاتی تصدیق کے محتاج ہوں گے کیونکہ جب امام بخاری رحمہ اللہ جیسے سلطان المحدثین بے اصل قصوں اورکہانیوں کی بنیاد پر جرح کررہے ہے تو دیگر ائمہ فن سے بھی یہ چنداں مستبعد نہیں ۔ واللہ المستعان۔
اورحد ہوگئی کہ آں محترم نے امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح کو رد کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا:
’’کتنے ہی مشہور قصے ہیں جو بلحاظِ سند ضعیف، مردود اور باطل ہوتے ہیں۔مثلاً دیکھئے ’’ مشہور واقعات کی حقیقت ‘‘ (مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ لاہور فیصل آباد)‘‘
آں جناب کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ یہاں کسی قصو گو یا تبلیغی جماعت کے مبلغ کے بارے میں بات نہیں چل رہی ہے بلکہ امام العلل امام بخاری رحمہ اللہ کے ایک ذمہ دارانہ فیصلے کی بات ہو رہی ہے جو انہوں نے ایک روایت سے متعلق فنی حیثیت سے صادر فرمایاہے۔کیا امام بخاری رحمہ اللہ جیسے سلطان المحدثین کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ فن حدیث میں ایک ذمہ دارانہ کلام کرتے ہوئے فضائل اعمال جیسے بے اصل واقعات و قصوں اور کہانیوں کو بنیاد بنائیں ؟؟
جس چوٹی کے محدث نے اپنی کتاب ’’صحیح ‘‘ میں صحت حدیث کا ایسا اونچا معیار قائم کیا کہ یہ کتاب قران کے بعد سب بہتر کتاب قرار پائی ، کیا ایسے عظیم المرتبت محدث آں جناب کی نظر میں اسی لائق رہ گئے ہیں کہ مشہور واقعات وقصوں اور کہانیوں کی بناپر جرح وتعدیل کے احکام صادر کرنے لگیں ؟؟ امام بخاری کے ہزاروں سال بعد پیداہونے والوں کو تحقیق کا یہ معیار بخوبی معلوم ہے لیکن امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ کسی بات کا مشہور ہونا الگ بات ہے اور اس کا صحیح ہونا الگ بات ہے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ واللہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات اور امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھ بے ادبی ہے۔ واللہ المستعان۔
۲) اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’ والمعروف‘‘ والے الفاظ امام بخاری کا قول ہے اور اس قول کا صرف یہی مطلب ہے کہ امام بخاری کے نزدیک مشہور بات یہ ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان کا شام جانا مشہور نہیں۔
یہ واقعہ چونکہ امام بخاری کی پیدائش سے پہلے ہوا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امام بخاری سے ابو ذر رضی اللہ عنہ تک صحیح سند پیش کی جائے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام نہیں گئے تھے۔
ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام میں معروف کا لفظ معلوم کے معنی میں ہے نہ کہ مشہور کے، اس کے بعد عرض ہے کہ:
یہی اعتراض ہماری پہلی تحریر کے وقت بھی کیا گیا تھااور ہم نے اس کیا جو جواب دیا تھا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے دوبارہ نقل کردیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ اس پر موصوف نے جو کچھ کہا ہے اس میں کتنا وزن ہے ، ملاحظہ ہو ہماری دوسری تحریر میں موجود اس اعتراض کا جواب:
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ اپنا قول ہے نہ کہ کسی اور کا اس لئے سند کا مطالبہ ہی مردودہے۔
یاد رہے کہ ائمہ نقاد کا یہ کہنا کہ :
فلاں نے فلاں سے سنا نہیں ۔
فلاں کی فلاں سے ملاقات نہیں ۔
یااس طرح کے فیصلے دینا حجت ودلیل کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ جب ہم کسی سندکومنقطع بتلاتے ہیں تو کسی امام سے محض یہ قول نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کہاہے کہ اس راوی نے فلاں راوی سے نہیں سنا ،وغیرہ وغیرہ۔
یہاں پر یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ ناقد کے اس فیصلہ کی سند پیش کرو یعنی اس نے جو یہ کہا فلاں نے فلاں سے نہیں سنا اس کی سند پیش کرو۔ کیونکہ یہ فیصلہ ایک ناقد کا ہے اورائمہ نقد کے اس طرح کے فیصلے بجائے خود دلیل ہوتے ہیں ، خود حافظ موصوف کی تحقیقی کتب سے ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے جہاں سند میں انقطاع کا حکم لگایاگیا ہے اوردلیل میں کسی ناقد امام کا اپنا قول ہی پیش کیا گیاہے۔
بلکہ عدم لقاء سے زیادہ نازک مسئلہ تدلیس کا ہے یعنی کسی راوی سے متعلق ناقد کا یہ فیصلہ کرنا کہ وہ اپنے اساتذہ سے سنے بغیر روایت کردیتاہے یہاں بھی ناقد کے قول کی سند نہیں مانگی جاتی کیونکہ ناقد کافیصلہ بجائے خود دلیل ہوتاہے۔
الغرض یہ کہ ہم نے پہلے ہی دوسری تحریر میں پوری طرح واضح کیا تھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے پیش کردہ قول کی نوعیت کیا ہے یعنی یہ قول ایک ناقد امام کا فنی نقد ہے اورائمہ نقد کا فیصلہ حجت ہوتا ہے لیکن ہماری اس خاص وضاحت کا موصوف نے کوئی جواب نہیں دیا ہے بلکہ وہی بے سند والی بات دہرادی ہے ۔
ہماری پیش کردہ نقد کی مثالوں پر محترم زبیرعلی زئی کے تبصروں کا جائزہ:
نیز ہم نے اس طرح کے نقد کی متعدد مثالیں بھی پیش کی تھیں اورحافظ موصوف نے ان مثالوں کا بھی اصل جواب سرے سے دیا ہی نہیں بلکہ انتہائی نامعقول تبصرے کئے ہیں وضاحت ملاحظہ ہو:
ہم نے لکھا تھا :
مثلا امام ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ موصوف نے نقل کیا:
وقال ابوزرعہ العراقی مشھوربالتدلیس(کتاب المدلسین:21)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔
عرض ہے کہ رواۃ کی کسی خوبی کو مشہور کہا جائے یا معروف کہا جائے ایک ہی بات ہے، اور اگر یہ بات کوئی ناقد کہے تو اس بات کی سند کامطالبہ بجائے خود مردود ہے۔
یہاں پر ہماری قید ’’رواۃ کی کسی خوبی‘‘ پیش نظر رہے کیونکہ ہم یہ بات ناقدین کی طرف رواۃ کے طرزعمل کی ترجمانی سے متعلق کہہ رہے یعنی ایسے موقع پر جب محدثین ’’مشہور‘‘ کا لفظ بولیں تو وہ ’’زبان زدعام‘‘ کے معنی میں نہیں ہوگا بلکہ راوی کا ثابت شدہ طرزعمل بتلانا مقصود ہوگا نہ کہ یہ مطلب ہوگا کہ یہ چیز فقط مشہور یعنی زبان زدعام ہے ۔آئیے اسی چیز کو مثال سے واضح کریں اوربتلائیں کہ محدثین جب رواۃ کے طرزعمل کی ترجمانی کرتے ہوئے معروف یا مشہور کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے معلوم و ثابت شدہ امر مراد ہوتا ہے ، چنانچہ:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
إِذَا كَانَ الرَّاوِي مِمَّنْ عُرِفَ بِالتَّدْلِيسِ فِي الْحَدِيثِ، وَشُهِرَ بِهِ
جب راوی تدلیس سے معروف ہوجائے اوراسی سے مشہور ہوجائے[صحيح مسلم: 1/ 33]
اس عبارت میں امام مسلم رحمہ اللہ نے معروف اور مشہور معلوم اور ثابت شدہ کے معنی میں استعمال کیا ہے ، یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی راوی کے بارے میں محض یہ بات زبان زدعام ہوجائے کہ وہ تدلیس کرتا ہے قطع نظر اس کے کہ فی الواقع اس سے تدلیس کاصدرو ہوا ہو یا نہیں ۔
معلوم ہوا کہ محدثین جب کسی راوی کا طرزعمل بتلانے کے لئے معروف یا مشہور کا لفظ استعمال کریں تو اس کا مطلب ان کے نزدیک اس بات کا ثابت شدہ ہونا ہی ہوتا ۔
بلکہ عام بول چال میں بھی بہت سارے مقامات پر معروف اور مشہور معلوم اور ثابت شدہ کے معنی میں استعمال ہوتا بلکہ خود محترم زبیرعلی زئی اپنی اسی تحریر میں آگے چل کرلکھتے ہیں:
الحارث بن عمرو تو مشہور صحابی ہیں ۔ رضی اللہ عنہ
مؤدبانہ عرض ہے کہ ہم آپ کے اس جملہ میں مستعمل لفظ ’’مشہور‘‘ کا کیا مطلب لیں ؟ کیا یہ سمجھ لیں کہ حارث بن عمررضی اللہ عنہ کا صحابی ہونا فضائل اعمال کے قصوں اور کہانیوں کی طرح ’’مشہور‘‘ بات ہے یا یہاں آپ مشہور حددرجہ معلوم اورثابت شدہ کے معنی میں استعمال کررہے ہیں ؟؟ یقینا دوسرا مطلب ہی آپ کی مراد ہے ۔
الغرض یہ ہے کہ معروف اور مشہور جیسے الفاظ حددرجہ معلوم اور ثابت شدہ چیز کوبیان کرنے کے بھی استعمال ہوتے ہیں اور ناقدین محدثین جب کسی راوی کے طرزعمل سے متعلق اس طرح کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان کا مقصود قصہ وکہانی سنانا نہیں ہوتا بلکہ ایک تحقیقی بات پیش کرنا ہوتاہے۔
اسی تناظر میں ہم نے سفیان ثوری سے متعلق امام ابوزعہ کا قول پیش کیا اور اس قول کے معتبرہونے کے بارے میں سوال اٹھایا تو موصوف نے درج ذیل جواب دیا:
سفیان ثوری کے بارے میں ابو زرعہ ابن العراقی کا قول ’’ مشہور بالتدلیس ‘‘ کئی وجہ سے صحیح ہے۔ مثلاً :
۱: سفیان ثوری کا مدلس ہونا ثابت ہے اور غیر مدلس ہونا ثابت نہیں۔
۲: سفیان ثوری کے شاگردوں سے بھی ان کا مدلس ہونا ثابت ہے۔
۳: یہ قول کسی حدیث یا کسی دلیل کے خلاف نہیں۔
عرض ہے کہ حافظ صاحب نے ہمارے اصل نکتہ کا جواب دیا ہی نہیں ، ہمارا اصل نکتہ یہ کہ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں جو یہ کہا کہ ’’ مشھوربالتدلیس‘’(سفیان ثوری تدلیس میں مشہورہیں) تو کیا امام ابوزرعہ کا یہ نقد قابل قبول ہے کہ نہیں ؟؟
حافظ موصف سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس پر مزید دلائل دے رہے ہیں ہمیں یہ دلائل مطلوب نہیں ہیں بلکہ ہمیں یہ بتلایاجائے امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا فیصلہ بذات خود قابل قبول ہے یا نہیں؟؟
اورحافظ موصوف نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس کے جو دیگردلائل دئے ہیں بالفرض اگر یہ دلائل نہ ہوتے تو کیا امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا فیصلہ رد کردیا جاتا ؟؟ ہماری اس اصل بات کا جواب دیا جائے ۔
تنبیہ بلیغ:
محترم زبیرعلی زئی نے یہاں پرلفظ ’’مشہور‘‘ کو نظرانداز کرکے سفیان ثوی کی تدلیس پردوسرے دلائل دے رہے لیکن شاید موصوف یہ بھول گئے کہ انہوں نے بعض مقامات پر سفیان ثوری سے متعلق کہے گئے اسی لفظ ’’مشہور‘‘ سے استدلال بھی کیا چنانچہ موصوف اپنی ایک تحریر میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس کی کثرت کو بتانے کے لئے امام بوزرعہ کے اسی قول ’’مشہور‘‘ کو پیش کررہے ہیں دیکھئے علمی مقالات ج 3ص 323۔
کیا ہم آں جناب سے پوچھ سکتے ہیں کہ جب ’’مشہور‘‘ میں عام قصے اورکہانیاں بھی ہوتی ہیں تو آپ نے اسی لفظ ’’مشہور‘‘ سے تدلیس کی کثرت پرکیسے استدلال کرلیا؟؟؟
ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی کا ایک قول حافظ موصوف الفتح المبین میں یوں نقل کرتے ہیں:
وَلَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ , وَلَا عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , وَلَا عَنْ مَنْصُورٍ. وَذَكَرَ مَشَايِخَ كَثِيرَةً لَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ هَؤُلَاءِ تَدْلِيسًا مَا أَقَلَّ تَدْلِيسَهُ.(التمہید: 1/ 18 العلل الكبير للترمذي:2/ 266)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔
یہاں امام بخاری رحمہ اللہ کا ’’ولااعرف‘‘ کہنا اور التاریخ میں ’’المعروف‘‘ کہنا ایک ہی معنی میں ہے، تو کیا یہ یہاں بھی کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا قول بے سند ہے؟؟
اس کے جواب میں حافظ موصوف نے کہا:
تنبیہ: امام بخاری کی طرف منسوب یہ قول کہ ’’ ولا أعرف لسفیان ... تدلیسًا ، ما أقل تدلیسہ .‘‘ باسند صحیح ثابت نہیں جیسا کہ الفتح المبین کے جدید نسخے میں اصلاح کر دی گئی ہے اور یہ نسخہ چھپنے کے لئے مکتبہ اسلامیہ پہنچ چکا ہے۔العلل الکبیر کا بنیادی راوی ابو حامد التاجر مجہول الحال ہے۔( الحدیث : ۳۸ ص ۳۱، شمارہ ۱۰۲ ص ۲۷)
لہٰذا یہ کتاب ہی ثابت نہیں۔
یہاں بھی مسئلہ اس قول کے ثابت ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے بلک اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس اسلوب میں اپنا فیصلہ پیش کیا ہے کیا اس اسلوب میں امام بخاری رحمہ اللہ کا فیصلہ قابل قبول ہے یا نہیں ؟؟
حافظ موصوف حالیہ دنوں میں اس قول کو غیر ثابت مان رہے ہیں لیکن جن دنوں موصوف کی نظر میں یہ قول ثابت تھا ان دنوں مذکورہ اسلوب میں امام بخاری رحمہ اللہ کا فیصلہ آں جناب نے کیسے قبول کرلیا ؟؟ کیا اس وقت یہ قول موصوف کی نظر میں باسند تھا اور آج بے سند ہوگیا ہے ؟ یہ اصل مسئلہ ہے اس کا جواب عنایت فرمائیں۔
واضح رہے کہ ہماری نظرمیں امام ترمذی رحمہ اللہ کی یہ کتاب ثابت ہے ہمارے ناقص علم کے مطابق اہل علم میں سے کسی نے بھی اس کتاب کا انکار نہیں کیا نیز ابوحامد التاجر کو مجہول کہنا بھی غلط ہے نیز کتاب کے ثبوت و عدم ثبوت سے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواصول پیش کیا ہے وہی راجح ہے ،لیکن ان سب باتوں کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق نہیں اس لئے ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں ۔
ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ بہت سے رواۃ کو منکرالحدیث اور بہت سے رواۃ کو معروف الحدیث کہتے ہیں مثلا:
الوَلِيد بْن عُتبَةَ، الدِّمَشقِيُّ.روى عَنْ مُعاوية بْن صالح، مَعروفُ الحديثِ[التاريخ الكبير للبخاري: 8/ 150]۔
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟
اس کے جواب میں حافظ موصوف نے کہا:
ولید بن عتبہ الدمشقی مشہور ثقہ راوی ہیں۔ ان سے ابو داود، بقی بن مخلد، یعقوب بن سفیان الفارسی اور ابو زرعہ الرازی نے روایت بیان کی اور یہ سب اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت بیان کرتے تھے۔ ابن حبان اور ابن حجر نے توثیق کی اور ذہبی نے فرمایا : صدوق .لہٰذا یہ واقعی معروف الحدیث اور ثقہ و صدوق ہیں۔
عرض ہے کہ یہاں بھی حافظ موصوف ہمارے اصل نکتہ کا جواب نہیں دے رہے ہیں ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ولیدبن عتبہ کو معروف الحدیث کہا تو ان کا یہ کہنا معتبر قول ہے کہ نہیں ؟
حافظ موصوف ولیدبن عتبہ کی ثقاہت پیش کررہے ہیں ہمیں سرے سے یہ مطلوب ہی نہیں بلکہ ہمیں واضح طور پر اورصراحت کے ساتھ یہ بتلایا جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنا قول قابل قبول ہے یا نہیں؟؟
ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
إبراهيم أبو إسحاق عن بن جريج سمع منه وكيع معروف الحديث [التاريخ الكبير للبخاري 1/ 273]
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟
حافظ موصوف نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا !!!
ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوبردہ کے نام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
الحارث بن عمرو ويقال له أبو بردة خال البراء ويقال عم البراء بن عازب وخال أصح والمعروف اسم أبي بردة هانئ بن نيار [التاريخ الكبير للبخاري 2/ 259]۔
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟
اس کے جواب میں حافظ موصوف نے کہا:
الحارث بن عمرو تو مشہور صحابی ہیں ۔ رضی اللہ عنہ
قارئین غور کریں کہ ہم کس وادی میں ہیں اور حافظ موصوف کس وادی میں پہنچ گئے ۔
ہم الحارث بن عمرو کی نہیں بلکہ ابوبردہ کی بات کررہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوبردہ کے نام کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا نام ہانی بن نیاز بتلایاہے ، اور اسے معروف کے لفظ سے پیش کیا ہے ،قارئین خط کشید الفاظ پر دھیان دیں ، اسی پر ہمارا سوال ہے کہ کیا امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ وضاحت قابل قبول ہے یا نہیں ؟؟
ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے عبدالعزیز سے یزید کے عدم سماع کے بارے میں کہتے ہیں:
ويزيد هذا غير معروف سماعه من عبد العزيز [التاريخ الصغير للبخاري: 2/ 65]۔
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟
اس کے جواب میں حافظ موصوف نے کہا:
یزید بن عمرو الاسلمی (مجہول الحال) عن عبد العزیز بن عقبہ بن سلمہ (مجہول الحال) کے بارے میں اگر امام بخاری نے ’’ غیر معروف سماعہ ‘‘ فرمایا تو دوسری جگہ اس کے برعکس بھی فرمایا: ’’ یزید بن عمرو الأسلمي ( سمع عبد العزیز ) بن عقبۃ بن سلمۃ. ‘‘ (التاریخ الکبیر ۸/ ۳۵۰ ت ۳۲۸۷)
ان دونوں باتوں میں سے کون سی صحیح ہے؟
ہمارے نزدیک تو التاریخ الکبیر والی یہ روایت یزید بن عمرو اور عبد العزیز دونوں مجہولوں یا مجروحوں کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔
یہاں بھی حافظ موصوف نے ہماری اصل بات کا جواب نہیں دیا ، ہم یہاں رواۃ کی عدالت وثٖقاہت یا روایت کی صحت وضعف پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عبدالعزیز سے یزید کے عدم سماع کے بارے میں جس اسلوب میں اپنا قول پیش کیا ہے اس اسلوب میں امام بخاری رحمہ اللہ کا قول قابل قبول ہے یا نہیں؟؟
رہی بات دونوں کے مجہول الحال ہونے کی تو ہماری نظر میں یہ دونوں مجہول الحال نہیں بلکہ دونوں کے دونوں ضعیف ہیں لیکن ان دونوں کے ضعیف ہونے سے ہمارے اصل سوال پر کیا فرق پڑتاہے؟ ہم تو صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو نفی سماع کی بات کہی ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ نفی سماع والا قول باسند ہے یا بے سند ہے ؟ یہ مقبول ہے یا غیرمقبول ہے؟ قطع نظر اس کے کہ متعلقہ راوی ضعیف ہو یا ثقہ۔
رہی بات یہ کہ تاریخ کبیر میں
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:’ یزید بن عمرو الأسلمي ( سمع عبد العزیز ) بن عقبۃ بن سلمۃ. ‘‘ (التاریخ الکبیر ۸/ ۳۵۰ ت ۳۲۸۷)۔
تو اس سے اگرحافظ موصوف یہ سمجھ رہے ہیں کہ امام بخاری نے یہاں سماع کا اثبات کیا ہے تو آپ کی سمجھ ہے جو صرف آپ ہی کے لئے حجت ہے ہم تو یہ سمجھتے ہیں تاریخ کبیر میں امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ بھی منہج ہے کہ آپ کسی روای کی کسی روایت کی بنیاد پر سماع کا تذکرہ کرتے ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود صرف یہ ہوتاہے کہ بعض روایات میں فلاں راوی سے فلاں راوی کے سماع کاذکر ملتاہے ۔
لیکن یہ واقعۃ ثابت ہے یا نہیں یہ الگ مسئلہ ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ الگ سے کبھی اس کی وضاحت کرتے ہیں اور کبھی وضاحت نہیں کرتے ۔
چنانچہ ایک مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
ثَعْلَبَةُ بْنُ يَزِيدَ، الحِمّانيّ.سَمِعَ عَلِيًّا، رَوى عَنْهُ حَبِيبُ بْنُ أَبي ثَابِتٍ.يُعَدُّ فِي الْكُوفِيِّينَ.فِيهِ نَظَرٌ
’’ثعلبة بن يزيد الحماني نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا اس سے حبیب بن ابی ثابت نے روایت کیا اس کا شمار کوفیوں میں سے ہوتا ہے ، یہ بات محل نظر ہے ‘‘۔[التاريخ الكبير للبخاري: 2/ 174]
غور کریں کہ یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ پہلے سماع کا ذکر کیا پھر اس پرتنقید بھی کی ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی اس عبارت کے تشریح کرتے ہوئے امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأما سماعه من علي ففيه نظر كما قال البخاري
جہاں تک ثعلبة بن يزيد الحماني کے علی رضی اللہ عنہ سے سننے کی بات ہے تو یہ بات محل نظر ہے جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 2/ 323]
یہاں ابن عدی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کی تفسیر کررہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول ’’ یہ بات محل نظر ‘‘ ہے سے مراد ثعلبة بن يزيد الحمانی کا علی رضی اللہ عنہ سے سننے والی بات ہے ۔ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ ثعلبة بن يزيد الحماني کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع کا اثبات نہیں کررہے ہیں بلکہ امام بخاری نے اپنے قول ’’انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا‘‘ سے یہ مراد لے رہے ہیں کہ کسی سند میں یہ بات ذکر ہے ۔
علامہ ومحدث عبدالرحمن المعلمی رحمہ اللہ کو علم رجال میں جورسوخ و تبحر حاصل تھا اس کی شہادت علمی دنیا نے متفقہ طورپردی ہے ، بلکہ انہیں ذہبی عصر کا کماحقہ خطاب دیا ہے۔ یہی علامہ و محدث معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قول البخاري في التراجم(سمع فلانا) ليس حكما منه بالسماع، وإنما هو إخبار بأن الراوي ذكر أنه سمع)انتهى.
کسی راوی کے ترجمہ میں امام بخاری رحمہ اللہ کہ یہ فرمانا کہ: ’’اس نے فلاں سے سناہے‘‘ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ سماع کا فیصلہ نہیں کرتے ہیں بلکہ صرف یہ خبردیتے ہیں کہ اس راوی نے سماع کاذکر کیا ہے[ تعلیق علی الموضح للخطيب: 1/ 128]۔
علامہ ومحدث عمرو عبدالمنعم سليم فرماتے ہیں:
على أن ما ذكره البخاري -رحمه الله-في تراجم الرواة من تاريخه من سماعهم من بعض من رووا عنهم، أو مجرد رواياتهم عنهم دون إثبات سماع إنما هو مجرد حكاية سند الرواية، وليس كما يظن البعض أنه إذا قال في تاريخه فلان سمع من فلان ، أنه يثبت له السماع
یادرہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں رواۃ کے ترجمہ میں جو بعض رواۃ سے بعض ان رواۃ کا سماع ذکر کیا ہے جنہوں نے ان سے روایت کی ہے ، یا محض بعض رواۃ کی بعض رواۃ سے مرویات کا تذکرہ کیا ہے بغیر سماع کے اثبات کے ساتھ، تو یہ محض سند کی کیفیت کا بیان ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے جیساکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ جب اپنی تاریخ میں کہیں کہ فلاں نے فلاں سے سناہے تو یہ کہہ کرامام بخاری رحمہ اللہ اس راوی کے لئے سماع کا اثبات کررہے ہیں[حاشيہ على نزهة النظر ص 57]۔
اس کے علاوہ اور بھی اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے لیکن زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اصل بات سے اس چیز کا تعلق ہی نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس اسلوب میں عدم سماع کی بات کہی ہے اس اسلوب میں امام بخاری رحمہ اللہ قول بے سند ہے یا با سند ؟؟ نیز یہ مقبول ہے ؟ یا غیر مقبول ؟؟ حافظ موصوف سے گذارش ہے کہ ادھر ادھر کی باتوں کو چھوڑ کر ہمارے اس اصل نکتہ کا جواب دیں ۔
اور اگر ان مثالوں کے ذریعہ حافظ موصوف ہماری اصل مراد اور اصل سوال کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو دو ٹوک لفظوں میں صرف یہی بتلادیں کہ اگر معروف کے لفظ کے ساتھ کوئی بھی ناقد امام اپنے دور سے قبل کے کسی راوی کے بارے میں صدق وکذب یا سماع وعدم سماع یا اس کے طبقہ یا تاریخ پیدائش و وفات سے متعلق کوئی فیصلہ دے تو وہ قابل قبول ہے یا نہیں ؟؟؟
نیز اس ضمن میں ہماری درج ذیل باتوں کا جواب حافظ موصوف نے بالکل نہیں دیاہے ہم لکھا تھا:
الغرض یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص مقام پر دوصحابہ کی عدم ملاقات کی جو بات کہی ہے تو اس بات کا تعلق محدثین وناقدین کے فن سے ہیں ، محدثین وناقدین کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ کسی دو رواۃ کے مابین عدم سماع یا عدم معاصرت یا عدم لقاء کی صراحت کریں اور محدثین کے اس طرح کے اقوال کی بنیاد محدثین کی فنی مہارت ہوتی ہے لہٰذا محدثین اپنے فن کی بات کہیں تو یہ حجت ہے یہاں محدثین سے سند کا مطالبہ مردود ہے ۔
اسی طرح ناقدین جب اپنے دور سے قبل کے رواۃ کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات بتلائیں یعنی یہ بتلائیں کہ یہ فلاں کی شخص کے موت کے بعد پیدا ہوا یہ فلان کے پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا ، یا طبقہ بتلائیں تو یہ حجت ہے کیونکہ ناقدین کا یہ فیصلہ ان کے فن کا ہے ، ایسے اقوال میں یہ مطالبہ کہ فلاں راوی کی تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش یا طبقہ کی سندصحیح بھی بتلائیں تو یہ مطالبہ ہی مردود ہے ، ورنہ ہم بھی حافظ موصوف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آں جناب نے جہاں جہاں بھی سند کے انقطاع پر ناقدین کے حوالے سے تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش کے اقوال پیش کئے ہیں ان اقوال کی سند صحیح پیش کرنے کیے ساتھ ساتھ اقوال میں میں جوبات ہے اس کی بھی سند صحیح پیش کریں !!
اوراگراس طرح کے اقوال میں براہ راست ناقدین سے سند کا مطالبہ درست ہے توہمارا دعوی ہے کہ عام کتب احادیث تو دور کی بات سنن اربعہ کی کوئی ایک حدیث بھی صحیح یاضعیف ثابت نہیں کی جاسکتی ۔
کیونکہ رواۃ کے تعارف میں ناقدین کے جواقوال پیش کئے جائیں گے تو یہاں دو طرح کی سند کا مطالبہ کیا جائے گا:
- اول: ناقدکا جوفیصلہ ہے وہ اس کی کتاب سے یاکسی اورکتاب سے بسند صحیح پیش کیاجائے۔
- دوم: ناقد کے اپنے فیصلہ میں جو بات ہے مثلا یہ کہ فلاں کذاب ہے یافلاں کی فلاں سے ملاقات نہیں اور یہ فلاں ناقد کے زمانہ کا نہ ہو یا ہو بھی تو کذاب کہنے کی بھی دلیل ، اسی طرح عدم لقاء یا عدم سماع کی بھی دلیل وغیرہ وغیرہ جیسی تمام باتوں کی بھی سند صحیح بھی پیش کرنی ہوگی ۔
میرے خیال سے اس اصول کے تحت دیگر کتب تو دور کی بات سنن اربعہ ہی سے کسی ایک بھی حدیث کو صحیح یا ضعیف ثابت کرنا ناممکن ہے اور اگرممکن ہے تو ہمیں صرف ایک حدیث کی تحقیق ناقدین سے بسند صحیح ثابت اقوال
نیز ناقدین کے اقوال میں جوبات ہے اس کی بھی سندصحیح پیش کرکے دکھلایاجائے۔۔۔۔۔۔۔بارک اللہ فیکم۔
ان تمام باتوں کا محترم زبیرعلی زئی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔۔