کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
سوال نمبر 8:
آپ نے غزوۂ قسطنطنیہ کے حوالے سے یزید کی مغفرت کی جو تصریح کی ہے۔ اس مغفرت سے کیا مراد ہے۔ اور محدثین وشراح بخاری نے اس حدیث سے کیا مراد لیا ہے اور یزید کے متعلق کیا تصریحات فرمائی ہیں اور ابن مہلب (یہ "ابن مہلب" نہیں صرف "مہلب" ہے سائل کو غالباً مغالطہ لگا ہے یا قلم کا سہو ہے۔) کے قول کے متعلق کیا کہا ہے؟
جواب نمبر8:
مغفرت سے مراد وہی ہے جو اس کا عام مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کے گناہوں کو نظر انداز کرکے اس کو معاف کردینا، بخش دینا اور اپنے انعامات کا مستحق قرار دے دینا۔
باقی رہی بات کہ محدثین وشراح بخاری نے اس سے کیا مراد لیا ہے اور یزید کے متعلق کیا تصریحات فرمائی ہیں؟ اور "ابن مہلب" کے قول کے متعلق کیا کہا ہے؟ تو محترم مدیر صاحب! اگر ہماری مختصر تصریحات پر ذرا گہری نظر سے غور فرمالیتے تو شاید وہ یہ سوالات نہ کرتے کہ ہماری مختصر سی عبارت میں ان تمام باتوں کا جواب موجود ہے۔ مناسب ہے کہ ہم پہلے اپنے سابقہ مضمون کی وہ عبارت یہاں نقل کردیں جس پر یہ سوال کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مزید گفتگو موزوں رہے گی۔ ہم نے لکھا تھا:
اگریہ کہا جائے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا حکم یا اس پر رضامندی یہی کفر وارتداد ہے تو یہ بھی لغو ہے۔ اول تو اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا، جیسا کہ امام غزالی نے اس کی تصریح کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
الغرض یزید کو مغفرت کو بشارت نبوی ﷺ سے کسی طرح بھی خارج نہیں کیا جاسکتا، جن لوگوں نے ایسی کوشش کی ہے ان کے پاس سوائے بغض یزید اور جذبۂ حب حسین رضی اللہ عنہ کے کوئی معقول دلیل نہیں۔
سب سے زیادہ تعجب مدیر "رضائے مصطفٰے" اور ان کے ہمنواؤں پر ہے کہ ایک طرف وہ آنحضرت ﷺ کو عالم ما کان وما یکون تسلیم کرتے ہیں او ر دوسری طرف آپ کی دی ہوئی بشارت میں سے یزید کو خارج کرنے میں کوشاں ہیں۔ ہم تو آنحضرتﷺ کو عالم الغیب تسلیم نہیں کرتے۔ البتہ بشارات کا منبع وحیٔ الہٰی کو مانتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مستقبل کے متعلق جتنی بھی پیش گوئیاں حضورﷺ نے فرمائی ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے علم اور وحی پا کر کی ہیں جو کبھی غلط نہیں ہوسکتیں اور آپ تو خود حضورﷺ کو بھی عالم الغیب مانتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی پیش گوئی پر اعتقاد نہیں، کیسی عجیب بات ہے؟ آپ کے نزدیک اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس وقت نبی ﷺ نے غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء کی مغفرت کی خبر دی، اس وقت رسول اللہﷺ کو یہ علم تھا یا نہیں کہ اس میں یزید جیسا شخص بھی شامل ہوگا؟ اور یہ بھی آپ کو علم تھا یا نہیں کہ یزید بعد میں کافر ومرتد ہوجائے گا؟ اگر ان دونوں باتوں کا آپ کو اس وقت علم تھا تو پھر نبی ﷺ نے یزید کو مغفرت و بشارت سے خارج کیوں نہیں کیا؟ اور علم ہوتے ہوئے اگر آپ نے یزید کو خارج نہیں کیا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ امید ہےمدیر موصوف اپنے عقیدۂ علم غیب کے مطابق ان سوالات کی وضاحت ضرور فرمائیں گے۔
آپ نے غزوۂ قسطنطنیہ کے حوالے سے یزید کی مغفرت کی جو تصریح کی ہے۔ اس مغفرت سے کیا مراد ہے۔ اور محدثین وشراح بخاری نے اس حدیث سے کیا مراد لیا ہے اور یزید کے متعلق کیا تصریحات فرمائی ہیں اور ابن مہلب (یہ "ابن مہلب" نہیں صرف "مہلب" ہے سائل کو غالباً مغالطہ لگا ہے یا قلم کا سہو ہے۔) کے قول کے متعلق کیا کہا ہے؟
جواب نمبر8:
مسئلہ یزید کی مغفرت کا
مغفرت سے مراد وہی ہے جو اس کا عام مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کے گناہوں کو نظر انداز کرکے اس کو معاف کردینا، بخش دینا اور اپنے انعامات کا مستحق قرار دے دینا۔
باقی رہی بات کہ محدثین وشراح بخاری نے اس سے کیا مراد لیا ہے اور یزید کے متعلق کیا تصریحات فرمائی ہیں؟ اور "ابن مہلب" کے قول کے متعلق کیا کہا ہے؟ تو محترم مدیر صاحب! اگر ہماری مختصر تصریحات پر ذرا گہری نظر سے غور فرمالیتے تو شاید وہ یہ سوالات نہ کرتے کہ ہماری مختصر سی عبارت میں ان تمام باتوں کا جواب موجود ہے۔ مناسب ہے کہ ہم پہلے اپنے سابقہ مضمون کی وہ عبارت یہاں نقل کردیں جس پر یہ سوال کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مزید گفتگو موزوں رہے گی۔ ہم نے لکھا تھا:
مدیر موصوف کو اگر ہماری اس بات سے اختلاف تھا تو ان کو بتلانا چاہیے تھا کہ نبی کی بشارت اور نجومی کی پیشگوئی میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ کیونکہ اس حدیث کی ایسی تاویل جس سے بشارت کا پہلو ختم ہوجائے، حضور ﷺ کے قول کو ایک کاہن کے قول سے زیادہ اہمیت نہ دینے پر ہی صحیح قرار پاسکتی ہے۔ اس کے بغیر جب غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء میں سے کسی ایک کو بھی مغفرت کی بشارت سے خارج نہیں کیا جاسکتا تو ہمیں بتایا جائے کہ کس طرح ممکن ہے کہ حضور ﷺ کی پیش کوئی بھی اٹل ہو اور پھر اس میں سے کسی کا تخلف بھی ہوجائے، بیک وقت دونوں باتیں ممکن نہیں۔"کم از کم ہم اہل سنت کو اس حدیث کے مطابق یزید کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہیے جس میں رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنیہ میں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کی بشارت دی ہے اور یزید اس جنگ کا کمانڈر تھا۔ یہ بخاری کی صحیح حدیث ہے اور آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے، کسی کاہن یا نجومی کی پیشین گوئی نہیں کہ بعد کے واقعات اسے غلط ثابت کردیں۔ اگر ایساہوتو پھر نبی کے فرمان اور کاہن کی پیشین گوئی میں فرق باقی نہ رہے گا۔ کیا ہم اس حدیث کی مضحکہ خیز تاویلیں کرکے یہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔"
پھر محض امکان کفر و ارتداد کو وقوع کفر وارتداد سمجھ لینا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مان لیجئے کہ حضور ﷺ پیش گوئی مشروط ہے اور کفر وارتداد کرنے والے اس سے خارج ہوجائیں گے لیکن اس کے بعد اس امر کا ثبوت بھی تو پیش کیجئے کہ یزید کافر و مرتد ہوگیا تھا اور پھر اسی کفر وارتداد پر اس کا خاتمہ بھی ہوا، جب تک آپ کا واقعی ثبوت پیش نہیں کریں گے بشارت نبوی کو مشروط ماننے سے بھی آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔امام مہلب کے قول یہی تو کہا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ قول مشروط ہے اس بات سے کہ ان شرکاء میں سے بعد میں کفر وارتداد کا ارتکاب نہ ہوا ہو۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ اس بشارت سے خارج ہوجائے گا لیکن اس تاویل میں کوئی وزن نہیں۔ معلوم نہیں صحیح بخاری کے جلیل القدر شارحین اس تاویل کو بغیر کسی رد و نقد کے کیوں نقل کرتے آئے ہیں؟ حالانکہ یہ تاویل بالکل ویسی ہی ہے جیسی تاویل شیعہ حضرات صحابہ ٔ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں کرتے ہیں ۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں صحابہ کو "رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ" کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا تھا۔ لیکن آپﷺ کی وفات کے بعد چونکہ (نعوذباللہ) وہ مرتد ہوگئے، اس لیے وہ اس کے مستحق نہیں رہے۔ اگر صحابہ ٔ کرام کے بارے میں یہ لغو تاویل آپ کے نزدیک قابل قبول نہیں تو پھر یزید کے بارے میں یہ تاویل کیوں کر صحیح ہوجائے گی؟
اگریہ کہا جائے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا حکم یا اس پر رضامندی یہی کفر وارتداد ہے تو یہ بھی لغو ہے۔ اول تو اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا، جیسا کہ امام غزالی نے اس کی تصریح کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
اور احیاء العلوم میں لکھتے ہیں:" ما صح قتلہ للحسین رضی الہ عنہ ولا أمرہ ولا رضاہ بذٰلک" (وفیات الاعیان: ۴۵۰/۲)
"حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کا قتل کرنا یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا یا ان کے قتل پر راضی ہونا، ان میں سے کوئی بات بھی ثابت نہیں۔"
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یزید ہی نے قتل کا حکم دیا تب بھی حکم قتل تو کجا، اگر وہ خود ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا ہوتا تب بھی محض قتل سے کافر و مرتد قرار نہیں پا سکتا چہ جائے کہ حکم قتل سے۔ یہ بھی ایک کبیرہ گناہ ہی ہے، کفر وارتداد نہیں۔ چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:"فإن قیل ھل یجوز لعن یزید بکونہ قاتل الحسین أو آمراً بہ قلنا ھٰذا لم یثبت أصلا ولا یجوز أن یقال إنہ قتلہ أو أمر بہ مالم یثبت" (أحیاء العلوم : ۱۳۱/۳)
"اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنی جائز ہے ، کیونکہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل ہے یا ان کے قتل کا حکم دینے والا ہے تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ باتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں اور جب تک کوئی ثبوت نہ ہو اس کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ اس نے قتل کیا یا قتل کا حکم دیا۔"
ایک اور حنفی بزرگ مولانا اخوند درویزہ اسی قصیدہ امالی کی شرح میں لکھتے ہیں:" علی أن الأمر بقتل الحسین بل قتلہ لیس موجباً للعنة علی مقتضیٰ مذہب أھل السنة من أن صاحب الکبیرة لا یکفر فلا یجوز عند ھم لعن الظالم الفاسق کما نقلہ جماعة یعنی بعینہ" (ضوء المعالی علی بدء الأمالی ص:۸۶، طبع جدید)
"حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دینا بلکہ خود ان کا قتل کردینا بھی مذہب اہل سنت کے مقتضی کے مطابق لعنت کا موجب نہیں، (اس لیے کہ یہ کبیرہ گناہ ہی ہے) اور مرتکب کبیرہ گناہ کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔ پس اہل سنت کے نزدیک کسی ظالم ، فاسق شخص کےلیے متعین طور پر لعنت کرنی جائز نہیں۔"
"اہل سنت کا مذہب ہے کہ لعنت کرنا سوائے کافر کے کسی مسلمان کےلیے جائز نہیں یزید کافر نہیں، سنی مسلمان تھا اور کوئی شخص محض گناہ کرلینے سے کافر نہیں ہوتا۔ تمہید میں ہے کہ خود قاتل حسین کو بھی کافر نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے کہ گناہ کرلینے سے کوئی شخص کافر نہیں ہوتا۔""مذہب اہل سنت وجماعت آن ست کہ لعنت بغیر از کافر مسلمان رانیا مدہ است۔ پس یزید کافر نبود بلکہ مسلمان سنی بود وکسے بہ گناہ کردن کافر نمی شود در تمہید آور دہ است کہ قاتل حسین را نیز کافر نباید گفت۔ زیرا کہ بہ گناہ کردن کسے کافر نمی شود۔" (شرح قصیدہ امالی، طبع ۱۳۱۷ھ لاہور)
الغرض یزید کو مغفرت کو بشارت نبوی ﷺ سے کسی طرح بھی خارج نہیں کیا جاسکتا، جن لوگوں نے ایسی کوشش کی ہے ان کے پاس سوائے بغض یزید اور جذبۂ حب حسین رضی اللہ عنہ کے کوئی معقول دلیل نہیں۔
سب سے زیادہ تعجب مدیر "رضائے مصطفٰے" اور ان کے ہمنواؤں پر ہے کہ ایک طرف وہ آنحضرت ﷺ کو عالم ما کان وما یکون تسلیم کرتے ہیں او ر دوسری طرف آپ کی دی ہوئی بشارت میں سے یزید کو خارج کرنے میں کوشاں ہیں۔ ہم تو آنحضرتﷺ کو عالم الغیب تسلیم نہیں کرتے۔ البتہ بشارات کا منبع وحیٔ الہٰی کو مانتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مستقبل کے متعلق جتنی بھی پیش گوئیاں حضورﷺ نے فرمائی ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے علم اور وحی پا کر کی ہیں جو کبھی غلط نہیں ہوسکتیں اور آپ تو خود حضورﷺ کو بھی عالم الغیب مانتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی پیش گوئی پر اعتقاد نہیں، کیسی عجیب بات ہے؟ آپ کے نزدیک اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس وقت نبی ﷺ نے غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء کی مغفرت کی خبر دی، اس وقت رسول اللہﷺ کو یہ علم تھا یا نہیں کہ اس میں یزید جیسا شخص بھی شامل ہوگا؟ اور یہ بھی آپ کو علم تھا یا نہیں کہ یزید بعد میں کافر ومرتد ہوجائے گا؟ اگر ان دونوں باتوں کا آپ کو اس وقت علم تھا تو پھر نبی ﷺ نے یزید کو مغفرت و بشارت سے خارج کیوں نہیں کیا؟ اور علم ہوتے ہوئے اگر آپ نے یزید کو خارج نہیں کیا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ امید ہےمدیر موصوف اپنے عقیدۂ علم غیب کے مطابق ان سوالات کی وضاحت ضرور فرمائیں گے۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء کی مغفرت کی جو پیش گوئی فرمائی ہے وہ بالکل برحق ہے اور یقیناً وہ سب مَغفُورٌ لَہُم ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی کافر یا مرتد ہونے والا ہوتا تو آپ اس کی بھی وضاحت فرمادیتے اس لیے وہ سب شرکائے غزوہ یقیناً مسلمان تھے، غزوہ کے بعد ان کے کفر وارتداد کا امکان محض ایک واہمی، سفسطہ اور مفروضہ ہے۔ بشارت کا اقتضاء تو یہ ہے کہ ان کا خاتمہ بہرحال ایمان و اسلام ہی پر ہونا چاہیے اور یہی ہمارا اعتقاد ہے کیونکہ اس اعتقاد کے بغیر ایک نبی کی پیش گوئی اور کاہن ونجومی کی پیش گوئی میں فرق باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ نبی ﷺ کی توہین کی ایسی جسارت ہم نہیں کرسکتے یہ تو انہی لوگوں کا جگرا ہے جو "عشق رسول" کے ٹھیکیدار بھی بنے پھرتے ہیں اور آپ کی پیش گوئی کو ایک نجومی کے اٹکل پچو سے زیادہ حیثیت دینے کےلیے بھی تیار نہیں۔ معاذ اللہ!