کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
حفظ مصالح اور دفع مفاسد
غرض امت کی مصلحتوں کا لحاظ مقدم ہے اگر کسی فعل میں بھلائی اور برائی دونوں موجود ہوں تو دیکھا جائے گا کہ کس کا پلہ بھاری ہے اگر بھلائی زیادہ نظر آئے تو اس فعل کو پسند کیا جائے گا۔ اگر برائی غالب دکھائی دے تو اس کے ترک کو ترجیح دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے نبیٔ کریم ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ مصالح کی تائید وتکمیل فرمائیں اور مفاسد مٹائیں یا کم کریں۔ یزید ، عبدالملک اور منصور جیسے خلفاء کی اطاعت اسی لیے کی گئی کہ ان کی مخالفت میں امت کےلیے نقصان ، نفع سے زیادہ تھا۔ تاریخ شاہد ہےکہ ان خلفاء پر جن لوگوں نے خروج کیا ان سے امت کو سراسر نقصان ہی پہنچا، نفع ذرا بھی نہیں ہوا۔ بلاشبہ ان خروج کرنے والوں میں بڑے بڑے اخیار وفضلاء بھی شامل تھے مگر ان کی نیکی وخوبی سے ان کا یہ فعل لازماً مفید نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اپنے خروج سے نہ دین کو فائدہ پہنچایا اور نہ دنیوی نفع ہی حاصل کیا۔ اور معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل کا حکم نہیں دیتا جس میں نہ دنیا کا بھلا ہو نہ دین کا، جن لوگوں نے خروج کیا ان سے کہیں زیادہ افضل حضرت علی ، طلحہ ، زبیر، عائشہ وغیرہم صحابہ تھے مگر خود انہوں نے اپنی خونریزی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔