• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جب یہی بات حضرت ابراہیم علیہ السلام کوجھوٹا ثابت کرتی ہوئی حدیث کے بارے کہی جاتی ہے تو اس وقت آپ اور آپ جیسے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں وہاں یہ بات نہیں کہتے کہ سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا لیکن جب بات ہو کسی صحابی کی تو صحابہ پرستی کی بیماری میں مبتلاء لوگ ہر زمانے کے محدیثین جس روایت کو صحیح کہہ رہے ہوں صحابہ پرستی میں اس کو ان کی غلطی شمار کرتے ہیں یعنی صحابہ پرستوں کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کہ جن کو اللہ نے قرآن مجید میں نہایت سچا کہا ہے اگر کوئی راوی ان کی طرف جھوٹ بولنے کی نسبت کرے تو بجائے اس کے کہ اس راوی کو جھوٹا کہا جائے اس کے برعکس راوی کی وکالت کی جاتی ہے لیکن صحابہ پرست کسی صحابی کی حقیقت پر منبی کسی روایت کو محدیثین کی غلطی شمار کرتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں اللہ کا حکم نبی علیہ السلام کی ازواج کے لئے یہ ہے کہ اپنے گھروں میں ٹہری رہوں اس کے باوجود امی عائشہ نے جنگ جمل میں اپنے لشکر کی قیادت کی اس کے علاوہ عورتوں کو اپنا قائد بنانے کی نہی بھی اہل سنت کی صحیح احادیث ثابت ہے پھر کیوں اس روایت کو درایت کے خلاف کہا جارہا ہے
اللہ محفوظ رکھے اس صحابہ پرستی کی بیماری سے آمین
محترم -

آپ نے بغیر پڑھے میری عبارت پرتبصرہ کردیا - علامہ ابن جوزی رح کہتے ہیں کہ "جو روایت درایت کے معیار پر پوری نہیں اترتی وہ روایت اگر صحیح بھی ہو تو یا تو اس کی تاویل کی جائے گی یا اس کو رد کردیا جائے گا- سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا" - یعنی پہلی صورت یہ ہے کہ روایت تو صحیح ہے لیکن اس کا مفہوم واضح نہیں ہو رہا - لہٰذا اس کی تاویل کی جائے گی اور اس کا اصل مطلب قرآ نی آیات اور اس موضوع سے متعلق دوسری احادیث کے تناظر میں کیا جاتے گا - دوسری صورت میں اوراگراس روایت کی تاویل ممکن نہیں اور وہ قرآنی نصوص سے براہ راست ٹکرا رہی ہے تو اس کو رد کردیا جائے گا-

آپ نے حضرت ابراہیم علیہ سلام کے تین جھوٹ والی حدیث کا حوالہ دیا ہے - تو محترم آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وہ تین جھوٹ جو ابراہیم علیہ سلام نے بولے تھے ان میں سے دو جھوٹ تو خود قرآن کرم میں موجود ہیں -تو پھراس حدیث کو جھٹلانا کہاں کی عقلمندی ہے؟؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ حقیقی جھوٹ کی شرط پرپورا اترتے ہیں۔ دیکھیے قرآن کی آیات جن میں واضح ہے کہ یہ جھوٹ (اصل میں توریہ) لئے بولے گئے -یعنی مشرکین کو نیچا دکھانے یا ان کو لاجواب کرنے کے لئے بولے گئے تھے - نہ کہ جان بوجھ کر گناہ کے طور پر بولے گئے -

قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ -قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ سوره الانبیاء ٦٢-٦٣
کہنے لگے اے ابراھیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے-کہا نہیں! بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے سوان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں؟؟-

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ -فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ سوره الصفات ٨٨-٨٩

پھر اس نے (ابراہیم علیہ سلام) نے ایک بار ستاروں کو دیکھا- پھر کہا میں بیمار ہوں-

لہذا آپ کے یہ توجیح سرے سے ہی غلط ہے کہ اس میں معاملے میں علماء نے روایت پرستی یا صحابہ پرستی کا ثبوت دیا ہے - یہاں تو خود الله بیان کر رہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے توریہ کے طور پر دو جھوٹ بولے -

آپ کا خیال ہے کہ ہم اہل سنّت صحابہ پرست ہیں - تو اس کا جواب میں دے چکا ہوں کہ ایک انسان ہونے کے ناتے اجتہادی غلطی ان سےبھی ممکن تھی - لیکن ان کی قدر و منزلّت بیان کرنا اگر صحابہ پرستی کے زمرے میں آتا ہے تو جی ہاں ہم "صحابہ پرست" ہیں- اگر آپ معصوم عن الخطاء کے پردے میں اہل بیعت پرست ہو سکتے ہیں - تو صحابہ و صحابیات رضوان الله آجمعین کی قدر و منزلّت بیان کرنا ہمارا حق ہے- یہ الگ بات ہے کہ آپ کی نظر میں اہل بیعت تو اس انسانی فطرت سے بھی ماورا ہیں کہ وہ بھی اجتہادی غلطی کرسکتے ہیں -

باقی رہی آپ کی یہ بات کہ قرآن میں اللہ کا حکم نبی علیہ السلام کی ازواج کے لئے یہ ہے کہ اپنے گھروں میں ٹہری رہو اس کے باوجود امی عائشہ نے جنگ جمل میں اپنے لشکر کی قیادت کی- تو یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے- آپ کا اس سے یہ مطلب اخذ کرنے کا مقصد اور کچھ نہیں بلکہ یہ ہے کہ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ "حواب کے کتے" والی روایت صحیح ہے؟؟ - جب کہ قرانی آیات کے مفہوم سے یہ بات واضح ہے کہ ان آیات قرآنی میں ازواج مطہرات رضی الله عنہ کو صرف غیر ضروری طور پر گھروں سے نکلنے سے منع کیا گیا تھا- ورنہ اگر ان قرانی آیات کا عمومی مطلب لیا جائے جو آپ کہہ رہے ہیں تو پھر تو ازواج مطہرات رضی الله عنہ نہ حج کے لئے جا سکتی تھیں نہ کسی پڑوسی عورت کی بیمار پرسی کے لئے گھر سے نکل سکتی تھیں وغیرہ-

حضرت عثمان رضی الله عنہ کی شہادت اسلامی دنیا کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ تھا - اس موقعہ پر حضرت عائشہ رضی الله عنہ از خود گھر سے نہیں نکلیں تھیں بلکہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین -جن میں عبدللہ بن زبیر ، عبدللہ بن عمر رضی الله، حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور دوسرے اکابرین صحابہ تھے- انہوں نے خود آپ (عائشہ رضی الله عنہ) سے آپ کی فقاہت کے اعلیٰ درجے کو دیکھتے ہوے درخواست کی تھی کہ آپ مسلمانوں کو اس فتنے سے بچایے اوراس موقعے پر ثالث کا کردار ادا کیجیے -جس پر آپ (عائشہ رضی الله عنہ) بوجہ ضرورت ان کے ساتھ بصرہ روانہ ہویں - لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا - اب بتائیں کہ اس میں کہاں ام المومنین رضی الله عنہ کی طرف سے قرانی آیات کی خلاف ورزی کا ثبوت ملتا ہے -؟؟ الله تو قرآن میں ان پاک ہستیوں کے متعلق فرما چکا کہ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ - الله ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہ اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے-

الله ہمیں اپنے سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یہ”لکھتے “ نہیں ہیں مگر ”مانتے“ہیں کہ ”ثقہ راوی “ معصوم عن الخطاءہیں اور مزید یہ کہ مجھ کو تو یہ” حضرات“ پہلے ہی ”منکرِ حدیث“سمجھتے ہیں ۔
جی - ایسا ہی محسوس ہوتا ہے
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
یہاں پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی بات کی جائے ، روایت اور راویوں کے بارے میں الگ تھریڈ بنادیں تو بہتر رہے گا ۔۔ ورنہ اس طرح تو یہ ٹاپک ڈی ریل ہوجائے گا۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہاں پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی بات کی جائے ، روایت اور راویوں کے بارے میں الگ تھریڈ بنادیں تو بہتر رہے گا ۔۔ ورنہ اس طرح تو یہ ٹاپک ڈی ریل ہوجائے گا۔
جزاک اللہ خیرا محترم بھائی میں نے انکے پوسٹ کئے گئے غیر متعلقہ جملوں کا پول کھلنے کے لئے کچھ مجبورا لکھا ہے تاکہ کوئی شکار نہ ہو جائے دوسری طرف تقریبا اپنی ہر پوسٹ میں یہی انکو کہا ہے کہ اسکے لئے یہاں بات نہ کریں بلکہ علیحدہ تھریڈ بنا لیں مگر وہ ڈرتے ہیں کہ اس طرح میرے بیت العنکبوت کی طرح دلائل کا پول کھل جائے گا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یہاں پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی بات کی جائے ، روایت اور راویوں کے بارے میں الگ تھریڈ بنادیں تو بہتر رہے گا ۔۔ ورنہ اس طرح تو یہ ٹاپک ڈی ریل ہوجائے گا۔
السلام و علیکم -

میں آپ کی بات سے متفق ہوں- میں نے ام المومین رضی الله عنہ سے متعلق اس روایت پر اپنی تحقیق پیش کردی - اب یہاں موجود سلفی بھائیوں سے درخواست ہے کہ اس موضوع سے ہٹ کر بات نہ کریں -بلکہ اس رویت "حواب کے کتے" سے متعلق اپنی تحقیق پیش کریں - یہ بات بھی زہن میں رہنی چاہیے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہما وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جب منافقین نے آپ رضی الله عنہ پر تبرا کیا تو الله رب العزت نے آپ کی شان و مرتبت اور اور برءات میں آسمان سے وحی نازل کی -

لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُبِينٌ سوره نور ١٢
جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں نہ اپنے دلوں میں نیک گمان کیا؟؟؟۔ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے؟؟

یہاں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ جاؤ اور تحقیق کرو کہ منافقین کا یہ بہتان صحیح ہے یا غلط ہے- جس جس نے یہ خبر پھیلائی ہے وہ سقہ ہے یا کذاب ہے یا اس کی دینی حیثیت مجروح ہے یا قابل ا عتماد ہے وغیرہ ؟؟؟ بلکہ براہ راست مسلمانوں سے فرمایا گیا کہ : تم نے اس عظیم و پاک ہستی جو کسی عام شخصیت کی زوجہ نہیں بلکہ امام الانبیاء کی زوجہ ہیں ان کے بارے میں کیوں نہ نیک گمان کیا ؟؟؟ کیوں نہ کہا کہ یہ تو صریح طوفاں ہے؟؟ -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ان میں سے دو جھوٹ تو خود قرآن کرم میں موجود ہیں -
تو کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس کلام کو جھوٹ کہا ہے یہ آپ ادھار رہا کہ آپ نے قرآن مجید سے ابراہیم علیہ السلام کے اس طرز کلام کو جھوٹ ثابت کرنا ہے کیونکہ میں تو قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے یہی پڑھتا ہوں کہ


وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ( 41 )

اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ نہایت سچے پیغمبر ہیں

یعنی جس نبی اللہ کو اللہ سچا کہنے میں مبلغہ سے کام لے اور فرمائے کہ ابراہیم نہایت سچے پیغمبر ہیں اور صحیح بخاری کے راوی انھیں جھوٹ بولنا والا کہے اور آپ ان راویوں کی وکالت فرمائیں لیکن حواب کے کتوں کے بھونکنے کی روایت اگر کسی صحابیہ کے خلاف جاتی ہو اس روایت پر جن محدیثین نے صحیح کا حکم لگایا ایسے ان کی غلطی سے تعبیر کریں یعنی کیا آپ کے نزدیک اللہ کے نہایت سچے نبی کا مرتبہ و مقام ایک صحابیہ کے درجے سے بھی کم ہے؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
حضرت ابراہیم ؑ سے ”منسوب“ تین ”جھوٹ“سے بھی میں ”مطمئن “ نہیں ہوں اس معاملے میں ”سید ابو الاعلٰی مودودیؒ“نے جو فرمایا ہے میں بھی اسی کا ”قائل “ ہوں۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
محترم @محمد علی جواد بھائی
آپ جب میں نے یہ تحقیقی مضمون، فیس بک پر ایک پوسٹ پر لگایا تو مجھے جواب میں یہ رپلائی آیا، راوی قیس بن ابی حازم کے بارے میں
"5 نے اسکو صحیح کہا اور 5 نے اب ٹھیک کہا، ایک نے ضعیف، جرح تعدیل میں جمہور دیکھا جاتا ہے"
اسکے ساتھ ہی اس نے کچھ اسکین بھی دئے ہیں، وہ بھی آپکو دیتا ہوں، برائے مہربانی اس پر تبصرہ کریں، اور اس روای قیس بن ابی حازم کے بارے میں تضضیل سے بتائے

qais 1.jpg
qais 1.jpg
 

اٹیچمنٹس

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم @محمد علی جواد بھائی
آپ جب میں نے یہ تحقیقی مضمون، فیس بک پر ایک پوسٹ پر لگایا تو مجھے جواب میں یہ رپلائی آیا، راوی قیس بن ابی حازم کے بارے میں
"5 نے اسکو صحیح کہا اور 5 نے اب ٹھیک کہا، ایک نے ضعیف، جرح تعدیل میں جمہور دیکھا جاتا ہے"
اسکے ساتھ ہی اس نے کچھ اسکین بھی دئے ہیں، وہ بھی آپکو دیتا ہوں، برائے مہربانی اس پر تبصرہ کریں، اور اس روای قیس بن ابی حازم کے بارے میں تضضیل سے بتائے

10262 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 10262 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
السلام و علیکم و رحمت الله

محترم -

پہلی بات تو یہ ہے کہ قیس بن ابی حازم کو یحیی بن سعید القطان نے منکر حدیث قرار دیا ہے اور وہ خود ایک مشہور محدث ہیں- دوسرے یہ کہ امام بخاری رح اور مسلم رح نے قیس کی عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ایک بھی روایت اپنی صحیح میں نقل نہیں کی-جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے- پھر یہ کہ اس واقعہ سے متعلق ایک اور روایت میں یونس بن يزيد الأيلي جو سقہ راوی ہے اور صحیحین میں اس سے مروی اور دوسری بہت سے احادیث موجود ہیں- لیکن امام احمد بن حنبل رح نے اسی یونس بن يزيد الأيلي سے صحابہ و صحابیات رضوان الله اجمعین سے متعلق روایت کو قبول کرنے سے منع فرمایا ہے-بقول ان کے یہ زہری سے منکر (انتہائی عجیب و غریب) قسم کی روایتیں بیان کرتا ہے- تو پھر قیس بن ابی حازم کی ہر روایت کو تسلیم کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟؟ -مطلب یہ ہے کہ سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی ہر ہر روایت کو من و عن قبول کر لیا جائے-

مزید یہ کہ اس "حواب کے کتے" والی روایت کے متن میں بہت سی علتیں ہیں-

١-مسند احمد اور ابن حبان میں قیس بن ابی حازم سے مروی اس روایت میں ہے کہ اماں عائشہ رضی الله عنہ نے جب یہ دیکھا کہ فرمان نبوی کے مطابق کتے ان پر بھونک رہے ہیں - تو انہوں نے اسی وقت واپسی کا ارداہ کیا - لیکن اس کے باوجود وہ واپس نہیں ہوئیں- کیا وہ صحابہ کرام کی باتوں میں آگئیں تھیں -جب کہ بقول نبی کریم کی پیشنگوئی سے صحابہ کرام سمیت سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ حضرت علی رضی الله عنہ کے مقابلے میں غلطی پر ہیں ؟؟؟

٢-قدیم مورخ ابو الفرج بن جعفر (متوفی ٢٩٠ھ ) نے مکہ سے بصرہ تک کے راستے میں ٢١ منزلیں بیان کیں ہیں- اوربیچ میں کہیں بھی "حواب " نام کا مقام کوئی نہیں ہے -پھر یہ ان روایتوں میں کیسے بیان ہو گیا؟؟

٣-بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ حواب نام کے مقام پر کتے موجود تھے -اور وہ حضرت عائشہ کے قافلے پر بھونکے تھے-تو سوال ہے کہ کتے تو ہر آنے جانے والے قافلے پر بھونکتے ہیں- پھر خاص ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہ کے قافلے پر کتوں کے بھونکنے کی نشاندہی کیوں کی گئی؟؟ -

٤-کتوں کو یہ کیسے علم ہو گیا کہ ام المومنین رضی الله عنہ اجتہادی طور پر غلط ہیں اور حضرت علی رضی الله عنہ سے جنگ کرنے کے لئے نکلی ہیں ؟؟؟ کیا کتے غیب کا علم جانتے ہیں ؟؟؟

٥-صحابہ کرام رضوان الله اجمعین میں بارہا کئی مواقوں پر اجتہادی اختلاف ہوا -لیکن کسی اور موقع پر کبھی بھی کتے بھونکنے کا واقعہ پیش نہیں آیا -

٦-اگر کسی پر کتے بھونکے بھی تو اس سے یہ کبھی بھی اخذ نہیں کیا گیا کہ وہ شخص غلطی پر ہے یا جھوٹا ہے وغیرہ -

٦-خارجیوں اور بلوایوں سے بڑھ کر کون فاسق اور فاجر ہونگے - جنہوں نے نا صرف حضرت عثمان غنی رضی الله کے قتل سے اپنے ہاتھ رنگے - بلکہ حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ جیسی معزز اور عالی مرتبت شخصیات پر کفر کا فتویٰ تک لگا دیا - لیکن تاریخ میں کہیں نہیں ہے کہ کتے ان خارجیوں اور بلوایوں پربھی بھونکے ہوں- بلکہ رافضیوں کی سب سے مذموم شخصیت یزید بن معاویہ رح پر بھی کبھی کتے بھونکنے کا واقعہ پیش نہ آیا ؟؟؟-

الغرض اس قصّے کا ایک ایک لفظ یہ بیان کر رہا ہے کہ یہ سبائیوں کی گھڑی ہوئی ایک داستان ہے -جو امہات المومنین رضوان الله اجمعین سے ذاتی بغض رکھتے تھے اوراب بھی ہیں- جن کا مذہب اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ ان پاک ہستیوں پر تبرا نہ کرلیں -مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ اکثر اہل سنّت بھی اس سبائی جال میں پھنس گئے اور بغیر تحقیق ہی چند کتابوں میں اس روایت کے حسن درجہ پر ہونے کی بنیاد پر اس کو من و عن قبول کرلیا - جب کے احادیث نبوی کا اک اصول یہ بھی ہے کہ جن روایات میں صحابہ و صحابیات رضی الله عنہ کی کھلی تنقیص ہو گی وہ روایات ہرگز قابل قبول نہیں ہو گی - کیوں کہ اسطرح کی روایات سے نہ صرف صحابہ و صحابیات رضوان الله اجمعین پر حرف آتا ہے بلکہ خود آخرالزماں سید الانبیاء محمّد صل الله علیہ و آ له وسلم کی تنقیص ہوتی ہے (نعوز باللہ میں ذالک)-

الله ہمیں اپنا سیدھا را ستہ دکھا اورآپ صل الله علیہ و آ له وسلم اور آپ کے صحابہ و صحابیات و آل بیعت کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا بنا (آمین)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
تو کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس کلام کو جھوٹ کہا ہے یہ آپ ادھار رہا کہ آپ نے قرآن مجید سے ابراہیم علیہ السلام کے اس طرز کلام کو جھوٹ ثابت کرنا ہے کیونکہ میں تو قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے یہی پڑھتا ہوں کہ


وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ( 41 )

اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ نہایت سچے پیغمبر ہیں

یعنی جس نبی اللہ کو اللہ سچا کہنے میں مبلغہ سے کام لے اور فرمائے کہ ابراہیم نہایت سچے پیغمبر ہیں اور صحیح بخاری کے راوی انھیں جھوٹ بولنا والا کہے اور آپ ان راویوں کی وکالت فرمائیں لیکن حواب کے کتوں کے بھونکنے کی روایت اگر کسی صحابیہ کے خلاف جاتی ہو اس روایت پر جن محدیثین نے صحیح کا حکم لگایا ایسے ان کی غلطی سے تعبیر کریں یعنی کیا آپ کے نزدیک اللہ کے نہایت سچے نبی کا مرتبہ و مقام ایک صحابیہ کے درجے سے بھی کم ہے؟
محترم -

یہ اصل موضوع نہیں -

بہرحال بات یہ ہے کہ اصل میں حدیث رسول میں لفظ "کذب" آیا ہے - جس کی وجہ سے مغالطہ پیدا ہو رہا ہے کہ حدیث صحیح نہیں - حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ جھوٹ کے ۔

مثال کے طور قرآن میں ہے کہ الله یہود سے متعلق فرماتا ہے کہ :

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ سوره آل عمران ٥٤
اور انہوں (یہود ) نے ایک چال چلی اور الله نے بھی ایک چال چلی اور الله بہترین چال چلنے والوں میں سے ہے-

لفظ "مکر" کے عربی زبان میں کئی معنی ہیں - چلنے والا - خفیہ تدبیر کرنے ولا وغیرہ -
ہمارے ہاں "مکر " دھوکہ " کے زمرے میں آتا ہے- لفظ مکر سے ہی "مکار"[/HL] نکلا ہے -

اب اگر ہمارے مفہوم کے مطابق اس آیت کا ترجمہ کیا جائے تو اس طرح بنے گا -

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ سوره آل عمران ٥٤
اور انہوں (یہود) نے دھوکہ دیا اور الله نے بھی دھوکہ دیا اور الله بہترین دھوکہ کرنے والوں میں سے ہے-(نعوز باللہ مں ذالک- فنعوز باللہ مں ذالک)-

ظاہرکہ یہ ترجمہ مسلمانوں کے لئے کسی طور پرقابل قبول نہیں ہے - اس کا حقیقی ترجمہ وہی لیا جائے گا یا لیا جانا چاہیےجو پہلے بیان ہوا ہے کہ "چال چلنے والا" -

اسی طرح ابراہیم علیہ سلام سے متعلق حدیث میں بھی لفظ "کذب" سے مراد حقیقی جھوٹ نہیں ہے - بلکہ یہ الفاظ توریہ اور تعریض کے طور پر ہیں - لہذا صحیح بخاری کی حدیث روایت و درایت کے معیار پر پورا اترتی ہے (واللہ اعلم)

مزید معلومات کے لئے یہ لنک ملاحظه کریں -

http://www.khatmenbuwat.org/threads/کیا-حضرت-ابراہیم-نے-تین-جھوٹ-بولے؟-ایک-دھوکے-کا-پوسٹ-مارٹم.2284/
 
Top