محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
محترم -جب یہی بات حضرت ابراہیم علیہ السلام کوجھوٹا ثابت کرتی ہوئی حدیث کے بارے کہی جاتی ہے تو اس وقت آپ اور آپ جیسے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں وہاں یہ بات نہیں کہتے کہ سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا لیکن جب بات ہو کسی صحابی کی تو صحابہ پرستی کی بیماری میں مبتلاء لوگ ہر زمانے کے محدیثین جس روایت کو صحیح کہہ رہے ہوں صحابہ پرستی میں اس کو ان کی غلطی شمار کرتے ہیں یعنی صحابہ پرستوں کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کہ جن کو اللہ نے قرآن مجید میں نہایت سچا کہا ہے اگر کوئی راوی ان کی طرف جھوٹ بولنے کی نسبت کرے تو بجائے اس کے کہ اس راوی کو جھوٹا کہا جائے اس کے برعکس راوی کی وکالت کی جاتی ہے لیکن صحابہ پرست کسی صحابی کی حقیقت پر منبی کسی روایت کو محدیثین کی غلطی شمار کرتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں اللہ کا حکم نبی علیہ السلام کی ازواج کے لئے یہ ہے کہ اپنے گھروں میں ٹہری رہوں اس کے باوجود امی عائشہ نے جنگ جمل میں اپنے لشکر کی قیادت کی اس کے علاوہ عورتوں کو اپنا قائد بنانے کی نہی بھی اہل سنت کی صحیح احادیث ثابت ہے پھر کیوں اس روایت کو درایت کے خلاف کہا جارہا ہے
اللہ محفوظ رکھے اس صحابہ پرستی کی بیماری سے آمین
آپ نے بغیر پڑھے میری عبارت پرتبصرہ کردیا - علامہ ابن جوزی رح کہتے ہیں کہ "جو روایت درایت کے معیار پر پوری نہیں اترتی وہ روایت اگر صحیح بھی ہو تو یا تو اس کی تاویل کی جائے گی یا اس کو رد کردیا جائے گا- سقہ راوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا" - یعنی پہلی صورت یہ ہے کہ روایت تو صحیح ہے لیکن اس کا مفہوم واضح نہیں ہو رہا - لہٰذا اس کی تاویل کی جائے گی اور اس کا اصل مطلب قرآ نی آیات اور اس موضوع سے متعلق دوسری احادیث کے تناظر میں کیا جاتے گا - دوسری صورت میں اوراگراس روایت کی تاویل ممکن نہیں اور وہ قرآنی نصوص سے براہ راست ٹکرا رہی ہے تو اس کو رد کردیا جائے گا-
آپ نے حضرت ابراہیم علیہ سلام کے تین جھوٹ والی حدیث کا حوالہ دیا ہے - تو محترم آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وہ تین جھوٹ جو ابراہیم علیہ سلام نے بولے تھے ان میں سے دو جھوٹ تو خود قرآن کرم میں موجود ہیں -تو پھراس حدیث کو جھٹلانا کہاں کی عقلمندی ہے؟؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ حقیقی جھوٹ کی شرط پرپورا اترتے ہیں۔ دیکھیے قرآن کی آیات جن میں واضح ہے کہ یہ جھوٹ (اصل میں توریہ) لئے بولے گئے -یعنی مشرکین کو نیچا دکھانے یا ان کو لاجواب کرنے کے لئے بولے گئے تھے - نہ کہ جان بوجھ کر گناہ کے طور پر بولے گئے -
قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ -قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ سوره الانبیاء ٦٢-٦٣
کہنے لگے اے ابراھیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے-کہا نہیں! بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے سوان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں؟؟-
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ -فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ سوره الصفات ٨٨-٨٩
پھر اس نے (ابراہیم علیہ سلام) نے ایک بار ستاروں کو دیکھا- پھر کہا میں بیمار ہوں-
لہذا آپ کے یہ توجیح سرے سے ہی غلط ہے کہ اس میں معاملے میں علماء نے روایت پرستی یا صحابہ پرستی کا ثبوت دیا ہے - یہاں تو خود الله بیان کر رہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے توریہ کے طور پر دو جھوٹ بولے -
آپ کا خیال ہے کہ ہم اہل سنّت صحابہ پرست ہیں - تو اس کا جواب میں دے چکا ہوں کہ ایک انسان ہونے کے ناتے اجتہادی غلطی ان سےبھی ممکن تھی - لیکن ان کی قدر و منزلّت بیان کرنا اگر صحابہ پرستی کے زمرے میں آتا ہے تو جی ہاں ہم "صحابہ پرست" ہیں- اگر آپ معصوم عن الخطاء کے پردے میں اہل بیعت پرست ہو سکتے ہیں - تو صحابہ و صحابیات رضوان الله آجمعین کی قدر و منزلّت بیان کرنا ہمارا حق ہے- یہ الگ بات ہے کہ آپ کی نظر میں اہل بیعت تو اس انسانی فطرت سے بھی ماورا ہیں کہ وہ بھی اجتہادی غلطی کرسکتے ہیں -
باقی رہی آپ کی یہ بات کہ قرآن میں اللہ کا حکم نبی علیہ السلام کی ازواج کے لئے یہ ہے کہ اپنے گھروں میں ٹہری رہو اس کے باوجود امی عائشہ نے جنگ جمل میں اپنے لشکر کی قیادت کی- تو یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے- آپ کا اس سے یہ مطلب اخذ کرنے کا مقصد اور کچھ نہیں بلکہ یہ ہے کہ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ "حواب کے کتے" والی روایت صحیح ہے؟؟ - جب کہ قرانی آیات کے مفہوم سے یہ بات واضح ہے کہ ان آیات قرآنی میں ازواج مطہرات رضی الله عنہ کو صرف غیر ضروری طور پر گھروں سے نکلنے سے منع کیا گیا تھا- ورنہ اگر ان قرانی آیات کا عمومی مطلب لیا جائے جو آپ کہہ رہے ہیں تو پھر تو ازواج مطہرات رضی الله عنہ نہ حج کے لئے جا سکتی تھیں نہ کسی پڑوسی عورت کی بیمار پرسی کے لئے گھر سے نکل سکتی تھیں وغیرہ-
حضرت عثمان رضی الله عنہ کی شہادت اسلامی دنیا کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ تھا - اس موقعہ پر حضرت عائشہ رضی الله عنہ از خود گھر سے نہیں نکلیں تھیں بلکہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین -جن میں عبدللہ بن زبیر ، عبدللہ بن عمر رضی الله، حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور دوسرے اکابرین صحابہ تھے- انہوں نے خود آپ (عائشہ رضی الله عنہ) سے آپ کی فقاہت کے اعلیٰ درجے کو دیکھتے ہوے درخواست کی تھی کہ آپ مسلمانوں کو اس فتنے سے بچایے اوراس موقعے پر ثالث کا کردار ادا کیجیے -جس پر آپ (عائشہ رضی الله عنہ) بوجہ ضرورت ان کے ساتھ بصرہ روانہ ہویں - لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا - اب بتائیں کہ اس میں کہاں ام المومنین رضی الله عنہ کی طرف سے قرانی آیات کی خلاف ورزی کا ثبوت ملتا ہے -؟؟ الله تو قرآن میں ان پاک ہستیوں کے متعلق فرما چکا کہ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ - الله ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہ اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے-
الله ہمیں اپنے سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-