محترم -
یہ اصل موضوع نہیں -
بہرحال بات یہ ہے کہ اصل میں حدیث رسول میں لفظ "
کذب" آیا ہے - جس کی وجہ سے مغالطہ پیدا ہو رہا ہے کہ حدیث صحیح نہیں - حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ جھوٹ کے ۔
مثال کے طور قرآن میں ہے کہ الله یہود سے متعلق فرماتا ہے کہ :
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ سوره آل عمران ٥٤
اور انہوں (یہود ) نے ایک چال چلی اور
الله نے بھی ایک چال چلی اور الله بہترین چال چلنے والوں میں سے ہے-
لفظ "مکر" کے عربی زبان میں کئی معنی ہیں - چلنے والا - خفیہ تدبیر کرنے ولا وغیرہ -
ہمارے ہاں "مکر " دھوکہ " کے زمرے میں آتا ہے- لفظ
مکر سے ہی "مکار"[/HL] نکلا ہے -
اب اگر ہمارے مفہوم کے مطابق اس آیت کا ترجمہ کیا جائے تو اس طرح بنے گا -
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ سوره آل عمران ٥٤
اور انہوں (یہود) نے دھوکہ دیا اور الله نے بھی دھوکہ دیا اور الله بہترین دھوکہ کرنے والوں میں سے ہے-(نعوز باللہ مں ذالک- فنعوز باللہ مں ذالک)-
ظاہرکہ یہ ترجمہ مسلمانوں کے لئے کسی طور پرقابل قبول نہیں ہے - اس کا حقیقی ترجمہ وہی لیا جائے گا یا لیا جانا چاہیےجو پہلے بیان ہوا ہے کہ "چال چلنے والا" -
اسی طرح ابراہیم علیہ سلام سے متعلق حدیث میں بھی لفظ "کذب" سے مراد حقیقی جھوٹ نہیں ہے - بلکہ یہ الفاظ توریہ اور تعریض کے طور پر ہیں - لہذا صحیح بخاری کی حدیث روایت و درایت کے معیار پر پورا اترتی ہے (واللہ اعلم)
مزید معلومات کے لئے یہ لنک ملاحظه کریں -
http://www.khatmenbuwat.org/threads/کیا-حضرت-ابراہیم-نے-تین-جھوٹ-بولے؟-ایک-دھوکے-کا-پوسٹ-مارٹم.2284/