• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
@محمد علی جواد بھائی

وعلیکم السلام ورحمہ و برکاتہ

بہت بہت شکریہ، مذکورہ حدیث کی وضاحت کا۔ اللہ تعالی آپکے علم میں مزید برکت دے۔ آمین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
محترم -

یہ اصل موضوع نہیں -

بہرحال بات یہ ہے کہ اصل میں حدیث رسول میں لفظ "کذب" آیا ہے - جس کی وجہ سے مغالطہ پیدا ہو رہا ہے کہ حدیث صحیح نہیں - حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ جھوٹ کے ۔

مثال کے طور قرآن میں ہے کہ الله یہود سے متعلق فرماتا ہے کہ :

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ سوره آل عمران ٥٤
اور انہوں (یہود ) نے ایک چال چلی اور الله نے بھی ایک چال چلی اور الله بہترین چال چلنے والوں میں سے ہے-

لفظ "مکر" کے عربی زبان میں کئی معنی ہیں - چلنے والا - خفیہ تدبیر کرنے ولا وغیرہ -
ہمارے ہاں "مکر " دھوکہ " کے زمرے میں آتا ہے- لفظ مکر سے ہی "مکار"[/HL] نکلا ہے -

اب اگر ہمارے مفہوم کے مطابق اس آیت کا ترجمہ کیا جائے تو اس طرح بنے گا -

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ سوره آل عمران ٥٤
اور انہوں (یہود) نے دھوکہ دیا اور الله نے بھی دھوکہ دیا اور الله بہترین دھوکہ کرنے والوں میں سے ہے-(نعوز باللہ مں ذالک- فنعوز باللہ مں ذالک)-

ظاہرکہ یہ ترجمہ مسلمانوں کے لئے کسی طور پرقابل قبول نہیں ہے - اس کا حقیقی ترجمہ وہی لیا جائے گا یا لیا جانا چاہیےجو پہلے بیان ہوا ہے کہ "چال چلنے والا" -

اسی طرح ابراہیم علیہ سلام سے متعلق حدیث میں بھی لفظ "کذب" سے مراد حقیقی جھوٹ نہیں ہے - بلکہ یہ الفاظ توریہ اور تعریض کے طور پر ہیں - لہذا صحیح بخاری کی حدیث روایت و درایت کے معیار پر پورا اترتی ہے (واللہ اعلم)

مزید معلومات کے لئے یہ لنک ملاحظه کریں -

http://www.khatmenbuwat.org/threads/کیا-حضرت-ابراہیم-نے-تین-جھوٹ-بولے؟-ایک-دھوکے-کا-پوسٹ-مارٹم.2284/
بات کذب کی تھی اور آُ پ نے لیکچر مکر پر ارشاد فرمادیا آپ کو تو یہ ارشاد فرمانا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کذب کو کن معنوں میں ارشاد فرمایا ہے اس کے بعد جب یہ ثابت ہوجائے کہ کذب کے معنی جھوٹ کے نہیں ہوتے پھر آپ کا یہ ارشاد فرمانا صحیح ہوگا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

کتاب الاستقصا --- احمد بن خالد الناصری --- عائشہ رضی الله عنہا سے متعلق "الحواب" کے مقام پر کتوں کے بھوکنے کی جھوٹی روایات


یہ پر آشوب وقت تھا جب عثمان رضی الله تعالی عنہ شہید کر دے گئے تھے - خلیفہ وقت کو مصر سے آئے ہوئے ایک گروہ نے گھر میں خفیہ داخل ہو کر قتل کر دیا تھا جبکہ صحابہ کی اکثریت حج کی وجہ سے مکہ میں مشغول تھی -

اسلامی تاریخ میں وہ موقعہ آیا کہ ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہا بھی میدان قتال میں نکلیں اور سبائی فتنہ پردازوں کا مقابلہ کیا -

"کتاب الاستقصا لأخبار دول المغرب الأقصى از السلاوي" (المتوفى: 1315هـ) کے مطابق:

أَن عَائِشَة كَانَت خرجت إِلَى مَكَّة زمَان حِصَار عُثْمَان فقضت نسكها وانقلبت تُرِيدُ الْمَدِينَة فلقيها الْخَبَر بمقتل عُثْمَان فأعظمت ذَلِك ودعت إِلَى الطّلب بدمه وَلحق بهَا طَلْحَة وَالزُّبَيْر وَعبد الله بن عمر وَجَمَاعَة من بني أُميَّة وَاتفقَ رَأْيهمْ على الْمُضِيّ إِلَى الْبَصْرَة


عائشہ رضی الله تعالی عنہا مکہ سے نکلیں جبکہ عثمان رضی الله تعالی عنہ بلوائیوں کے حصار میں تھے اپنے مناسک حج کم کیے اور مدینہ کے لئے نکلیں - راستے میں عثمان رضی الله تعالی عنہ کے قتل کی خبر آئی - اس کو بہت بڑی بات جانا اور ان کے خون کا قصاص کا مطالبہ کیا - طلحہ رضی الله تعالی عنہ ، زبیر رضی الله تعالی عنہ ، عبد اللہ بن عمر رضی الله تعالی عنہ اور بنو امیہ کی ایک جماعت ساتھ ہوئی اور اتفاق رائے سے بصرہ کا رخ کیا -

(جلد ١ ، صفحہ ١٠٠)

احمد بن حنبل مسند میں ، ابن حبان صحیح میں ، حاکم المستدرک میں روایت کرتے ہیں کہ:

حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِيَاهَ بَنِي عَامِرٍ لَيْلًا نَبَحَتِ الْكِلَابُ، قَالَتْ: أَيُّ مَاءٍ هَذَا؟ قَالُوا: مَاءُ الْحَوْأَبِ قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِي إِلَّا أَنِّي رَاجِعَةٌ فَقَالَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهَا: بَلْ تَقْدَمِينَ فَيَرَاكِ الْمُسْلِمُونَ، فَيُصْلِحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ: كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ؟


قیس بن ابی حازم کہتا ہے کہ پس جب عائشہ (رضی الله تعالی عنہا) بنی عامر کے پانی ( تالاب) پر رات میں پہنچیں تو کتے بھونکے - عائشہ (رضی الله تعالی عنہا) نے پوچھا یہ کون سا پانی ہے - بتایا گیا الْحَوْأَبِ کا پانی ہے - آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان آپ کو دیکھ رہے ہیں - پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا - عائشہ (رضی الله تعالی عنہا) نے کہا بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک روز (اپنی بیویوں سے) کہا تھا کہ کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے -


مسند احمد کی دوسری روایت میں ہے کہ واپس جانے سے روکنے والے زبیر رضی الله تعالی عنہ تھے -

البانی کتاب "سلسلة الأحاديث الصحيحة" میں اس روایت کو صحیح کہتے ہیں (جلد ١ ، صفحہ ٨٤٦ ، رقم ٤٧٤ ، مكتبة المعارف للنشر والتوزيع - الرياض)

یہ افک ہے عائشہ رضی الله عنہا پر -

لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرً‌ا وَقَالُوا هَـٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ

جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا - اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے - (سورة النور:١٢)

اس کی سند میں قيس بن ابی حازم ہے

الذھبی تلخیص میں اس پر سکوت کرتے ہیں - الذھبی سير اعلام النبلاء میں قيس بن ابی حازم کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ امام یحیی بن سعید اس روایت کو منکر کہتے ہیں -

وروى علي بن المديني أن يحيى بن سعيد قال له : قيس بن أبي حازم منكر الحديث ، قال : ثم ذكر له يحيى أحاديث مناكير ، منها حديث كلاب الحوأب


علی ابن المدينى ، يحيى بن سعيد سے نقل کرتے ہیں کہ قیس منکر الحدیث ہے پھر انہوں نے اسکی الحواب کے کتوں والی روایت بیان کی - (سير اعلام النبلاء: بقية الطبقة الأولى من كبراء التابعين: قيس بن أبي حازم)

یحیی بن سعید القطان کے سامنے البانی ، الذھبی ، حاکم ، ابن حجر کی حیثیت ہی کیا ہے -

کتاب "من تكلم فيه الدارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين" از ابن زريق (المتوفى: 803هـ) کے مطابق الدارقطنی اس کو "ليس بقوي" قوی نہیں کہتے ہیں -

ليس بقوي. قاله الدارقطني - (جلد ٣ ، صفحہ ١١٣ ، رقم ٣٢٧ ، وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية بدولة قطر)

قيس بن ابی حازم صحیح بخاری و مسلم کا راوی ہے لیکن پھر بھی اس کی یہ کتوں والی روایت صحیحین میں نہیں - امام بخاری اور مسلم نے قیس کی عائشہ رضی الله عنہا سے مروی کوئی روایت نقل نہیں کی -

تاریخ بغداد از الخطيب البغدادی (المتوفى: 463هـ) کے مطابق:

وقد كان نزل الكوفة وحضر حرب الخوارج بالنهروان مع علي بْن أبي طالب

قیس کوفہ گیا اور علی رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ خوارج سے قتال بھی کیا - (جلد ١٢ ، صفحہ ٤٤٨ ، دار الكتب العلمية - بيروت)

دوسری روایت:

المعجم الأوسط از الطبراني (المتوفى: 360هـ) میں یہ ایک دوسری سند سے ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، نا يَزِيدُ بْنُ مَوْهَبٍ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ يَوْمٌ مِنَ السَّنَةِ تَجَمَّعَ فِيهِ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ يَوْمًا إِلَى اللَّيْلِ، قَالَتْ: وَفِي ذَلِكَ الْيَوْمِ قَالَ: «أَسْرَعُكُنَّ لُحُوقًا أَطْوَلُكُنَّ يَدًا . قَالَتْ: فَجَعَلْنَا نَتَذَارَعُ بَيْنَنَا أَيُّنَا أَطْوَلُ يَدَيْنِ، قَالَتْ: فَكَانَتْ سَوْدَةُ أَطْوَلُهُنَّ يَدًا، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ زَيْنَبُ عَلِمْنَا أَنَّهَا كَانَتْ أَطْوَلَهُنَّ يَدًا فِي الْخَيْرِ وَالصَّدَقَةِ، قَالَتْ: وَكَانَتْ زَيْنَبُ تَغْزِلُ الْغَزْلَ، وَتُعْطِيهِ سَرَايَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخِيطُونَ بِهِ، وَيَسْتَعِينُونُ بِهِ فِي مَغَازِيهِمْ، قَالَتْ: وَفِي ذَلِكَ الْيَوْمِ قَالَ: «كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ - لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُجَالِدٍ إِلَّا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ "


اس روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کا ہاتھ لمبا ہو گا وہ سب سے پہلے (جنت میں مجھ سے) ملاقات کرے گی سب امہات المومنین نے ہاتھ ناپے اور سب سے لمبا ہاتھ سودا رضی الله تعالی عنہا کا نکلا لیکن جب زینب رضی الله تعالی عنہا کی وفات ہوئی تو جانا کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقه و خیرات ہے - اس کے بعد عائشہ رضی الله تعالی عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الحواب کے کتے بھونکیں گے -


(جلد ٦ ، صفحہ ٢٣٣ ، رقم ٦٢٧٦ ، دار الحرمين - القاهرة)

اس کی سند میں مجالد بن سعيد بن عمير بن بسطام الهمدانی (المتوفی: 144هـ) ہے -

ابو حاتم کہتے ہیں "لاَ يُحْتَجُّ بِهِ" اس سے دلیل نہ لی جائے - (سير أعلام النبلاء: الطبقة الخامسة: مجالد بن سعيد)

ابن عدی کہتے ہیں اس کی حدیث "له عن الشعبي ، عن جابر أحاديث صالحة" صالح ہیں - (ایضاً)

وقال أبو سعيد الأشج : شيعي - ابو سید الاشج شیعہ کہتے ہیں - (ایضاً)

وفال الميموني: قال أبو عبد الله: مجالد عن الشعبي وغيره، ضعيف الحديث

الميمونی کہتے ہیں ابو عبد اللہ کہتے ہیں مجالد کی الشعبی سے روایت ضعیف ہے - (موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله: جلد ٣ ، صفحہ ٢٢٢ ، رقم ٢٢٥١ ، عالم الکتب ، الطبعة الاولی ١٤١٧هـ)

وقال بن سعد كان ضعيفا في الحديث

ابن سعد کہتے ہیں حدیث میں ضعیف ہے - (تهذيب التهذيب: جلد ١٠ ، صفحہ ٤١ ، مطبعة دائرة المعارف النظامية - الهند)

المجروحین میں ابن حبان کہتے ہیں

وكان رديء الحفظ ، يقلب الأسانيد ، ويرفع


ردی حافظہ اور اسناد تبدیل کرنا اور انکو اونچا کرنا کام تھا - (المجروحين لابن حبان: باب الميم: مجالد بن سعيد بن عمير الهمداني)

ابن حبان نے "صحیح" میں اس سے کوئی روایت نہیں لی - ابن حبان "المجروحین" میں لکھتے ہیں کہ امام الشافعی نے کہا:

وَالْحَدِيثُ عَنْ مُجَالِدٍ يُجَالِدُ الْحَدِيثَ - اور مجالد يجالد الحديث ہے - (ایضاً)

تیسری روایت:

البحر الزخار المعروف مسند البزار (المتوفى: 292هـ) کی سند ہے:

حَدَّثنا سَهْل بن بحر، قَال: حَدَّثنا أَبُو نعيم، قَال: حَدَّثنا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم لِنِسَائِهِ: لَيْتَ شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ، تخرج كِلابُ حَوْأَبٍ، فَيُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا، وعَن يَسَارِهَا قَتْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ تَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ


ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے لئے فرمایا کاش کہ جان لے نشانی، بپھرے بالوں والی ، اونٹ والی ، اس پر حواب کے کتے نکلیں گے ، اپنے دائیں اور بائیں ڈھیروں کو قتل کرے گی پھر نقصان اٹھا کر بچ جائے گی -


(مسند البزار: جلد ١١ ، صفحہ ٧٣ ، رقم ٤٧٧٧ ، مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة)

رافضیت سے پر اس روایت کی سند میں عصام بن قدامة ہے -

ابن القطان اس کو کہتے ہیں "لم يثبته" - مظبوط نہیں -

أبو زرعة - لا بأس به کہتے ہیں -

النسائی - ثقة کہتے ہیں -

أبو حاتم کہتے ہیں "له حديث منكر" اس کی حدیث منکر ہے - (ميزان الاعتدال في نقد الرجال: جلد ٣ ، صفحہ ٦٧ ، دار المعرفة للطباعة والنشر ، بيروت - لبنان)

چوتھی اور پانچویں روایت:

حدثنا حسين بن محمد قال حدثنا الفضيل يعني ابن سليمان قال حدثنا محمد بن أبي يحيى عن أبي أسماء مولى بني جعفر عن أبي رافع أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعلي بن أبي طالب إنه سيكون بينك وبين عائشة أمر قال أنا يا رسول الله قال نعم قال أنا قال نعم قال فأنا أشقاهم يا رسول الله قال لا ولكن إذا كان ذلك فارددها إلى مأمنها


نبی صلی الله علیہ وسلم علی رضی الله عنہ سے کہا کہ تمھارے اور عائشہ کے درمیان ایک بات ہو گی علی نے کہا میرے ساتھ فرمایا ہاں پس اس کے بعد ان کو امن کے مقام پر لوٹا دینا -


(مسند أحمد: من مسند القبائل: حديث أبي رافع رضي الله عنه: رقم ٢٦٦٥٧)

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ يَعْنِي النُّمَيْرِيَّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي اخْتِلَافٌ ، أَوْ أَمْرٌ ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ السِّلْمَ ، فَافْعَلْ -


(مسند أحمد بن حنبل: مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ: مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ: وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ.....رقم ٦٧٧)

ان دونوں روایات کی سند میں فضيل بن سليمان يعنی النميری ہے جو ضعیف ہے


وَقَال أَبُو زُرْعَة لين الحديث - ابو زرعہ فضيل بن سليمان کو کمزور حدیث والا کہتے ہیں -

وَقَال أَبُو حاتم يكتب حديثه ، ليس بالقوي - ابو حاتم کہتے ہیں اس کی حدیث لکھ لی جائے لیکن یہ مظبوط نہیں -

قال عَبَّاس الدُّورِيُّ ، عَنْ يحيى بْن مَعِين: ليس بثقة - یحییٰ بن معین ثقہ نہیں کہتے ہیں -

وَقَال النَّسَائي: ليس بالقوي - نسائی کہتے ہیں کہ ثقہ نہیں - (تهذيب الكمال في أسماء الرجال للمزی: جلد ٢٣ ، صفحہ ٢٧٤ ، رقم ٤٧٥٩ ، مؤسسة الرسالة - بيروت)

وقال الساجي عن بن معين ليس هو بشيء - ابن معین کہتے ہیں کوئی چیز نہیں - (تهذيب التهذيب ابن ہجر: جلد ٨ ، صفحہ ٢٩٢ ، رقم ٥٣٦ ، مطبعة دائرة المعارف النظامية - الهند)

کہا جاتا ہے کہ یہ نبوت کی نشانی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی خبر پوری ہوئی - لیکن اہلبیت رسول کی جس تنقیص کا اس میں ذکر ہے کیا وہ سچ ہے جبکہ امام المحدثین یحیی بن سعید اس کو منکر کہتے ہیں -
الغرض جنگ جمل کے حوالے سے عائشہ رضی الله عنہا کی تنقیص میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے جلیل القدر محدثین نے ایسی روایات کو منکر کہا ہے - شیعہ اور اہلسنت کے جن لوگوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ان کو روز محشر اس کا جواب دینا ہو گا -


شیعہ حضرات روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت کہ عائشہ رضی الله عنہا کو امن کی جگہ پہنچا دینا کو نظر انداز کر دیا گیا اور علی رضی الله عنہ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ عائشہ رضی الله عنہا پر تیر چلائے -

کتاب "جمل من أنساب الأشراف" از البلاذری (المتوفى: 279هـ) کے مطابق:

وَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو النصر، حدثنا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو: عَنِ ابْنِ حَاطِبٍ قَالَ: [أَقْبَلْتُ مَعَ عَلِيٍّ يَوْمَ الْجَمَلِ إِلَى الْهَوْدَجِ وَكَأَنَّهُ شَوْكُ قُنْفُذٍ مِنَ النَّبْلِ، فَضَرَبَ الْهَوْدَجَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ حُمَيْرَاءَ إِرَمَ هَذِهِ أَرَادَتْ أَنْ تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلَتْ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ. فَقَالَ] لَهَا أَخُوهَا مُحَمَّدٌ: هَلْ أَصَابَكِ شَيْءٌ؟ فَقَالَتْ: مِشْقَصٌ فِي عَضُدِي. فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ ثُمَّ جَرَّهَا إِلَيْهِ فَأَخْرَجَهُ


ابن حاطب کہتے ہیں کہ میں (علی کے ساتھ) عائشہ کے ہودج کے قریب آیا: اس وقت یہ ہودج تیروں کی بوچھار سے خاردار چوہے کی طرح لگ رہا تھا - تو علی نے اس ہودج کو مارا اور کہا: یہ حمیراء (عائشہ) ہے ، اس پر تیر چلاؤ! یہ مجھے قتل کرنا چاہتی ہے جس طرح اس نے عثمان کو قتل کیا - عائشہ کے بھائی محمد بن ابی بکر نے عائشہ سے پوچھا: آپ کو کوئی تیرلگا تو نہیں؟ عائشہ نے کہا: میرے بازو میں ایک تیر پیوست ہے - پھر محمد بن ابی بکر نے اپنا سر ہودج میں داخل کیا اور عائشہ کو اپنی طرف کھینچ کرتیر نکال دیا -


(جلد ٢ ، صفحہ ٢٤٩ تا ٢٥٠ ، دار الفکر - بیروت)

سند میں راوی اسحاق بن سعيد ہے جو مجھول ہے - شیعہ کہتے ہیں کہ اس کی سند میں اسحاق بن سعيد بن عمرو بن سعيد ہیں لیکن ان کی روایت عن أبيه ، عن ابن عمر سے مروی ہیں - اس کا دوسرا راوی عمرو بن سعيد ہے جو مجھول ہے - روافض نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے سند ہی بدل دی ہے لہذا ان کی طرف سے یہ شوشہ چھوڑا جاتا ہے کہ اسحاق بن سعید اور عمربن سعید کے درمیان "عن" غلط ہے اسے "بن" سمجھا جائے تو یہ ایک راوی ہو جاتا ہے لیکن یہ دعوی بلا دلیل ہے اور اسی صورت قبول ہو گا جب اور نسخوں میں ایسا ہو یا خارجی قرائین موجود ہوں -

جنگ جمل کا پس منظر:


محمد بن ابی بکر ، علی کے ساتھ جمل و صفین میں لڑا - اس پر قتل عثمان کا الزام تھا - یہ شخص چراغ تلے اندھیرا تھا اس کو عثمان رضی الله تعالی عنہ نے مصر کا امیر مقرر کیا تھا - اسی دور میں عبد اللہ بن سبا بھی مصر پہنچا اور علی کے حوالے سے غلو کا عقیدہ اختیار کیا -


الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:

وممن قام على عثمان محمد بن أبي بكر الصديق ، فسئل سالم بن عبد الله فيما قيل عن سبب خروج محمد ، قال : الغضب والطمع


اور جو لوگ عثمان کے خلاف اٹھے ان میں محمد بن ابی بکر صدیق تھا پس سالم بن عبد اللہ سے پوچھا کہ اس کے خروج کا سبب کیا تھا کہا غصہ اور لالچ - (سير أعلام النبلاء : سيرة الخلفاء الراشدين)

فتنہ پردازوں نے محمد بن ابی بکر کا دماغ نفرت سے بھر دیا تھا اور ایک تحریر عثمان سے منسوب کی جس میں لکھا تھا:

إذا أتاك محمد ، وفلان ، وفلان فاستحل قتلهم ، وأبطل كتابه


جب (گورنر مصر) محمد بن ابی بکر پہنچے اور فلاں فلاں تو ان کا قتل حلال ہے اور اس حکم کو تلف کر دینا - (ایضاً)

لیکن یہ خط فتنہ پرداز لوگوں نے محمد کو دکھایا اور عثمان سے نفرت کے بیج بوئے کہ عثمان نے ایک طرف تو تم کو امیر مقرر کیا ہے اوردوسری طرف قتل کا خفیہ حکم دیا ہے محمد یہ سن کر بدک گیا اور مدینہ گیا -
الذھبی لکھتے عمرو بن حزم کے گھر کے راستے سے عثمان پر بلوائی داخل ہوئے:

فجاء محمد بن أبي بكر في ثلاثة عشر رجلا ، فدخل حتى انتهى إلى عثمان ، فأخذ بلحيته ، فقال بها حتى سمعت وقع أضراسه ، فقال : ما أغنى عنك معاوية ، ما أغنى عنك ابن عامر ، ما أغنت عنك كتبك . فقال : أرسل لحيتي يا بن أخي


پس محمد بن ابی بکر تیس آدمیوں کے ساتھ آیا اور گھر میں داخل ہوا حتی کہ عثمان تک جا پہنچا اور ان کو داڑھی سے پکڑا اور کہا تجھ کو معاويہ نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ، تجھ کو بنی عامر نے فائدہ نہیں پہنچایا ، تجھ کو تیری تحریر نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ، عثمان نے کہا اے بھائی کے بیٹے میری داڑھی چھوڑ دے -
(ایضاً)

اسی بلوہ میں عثمان رضی الله عنہ شہید ہو گئے -

ابن کثیر وغیرہ نے محمد بن ابی بکر کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر چند اس نے داڑھی پکڑی لیکن قتل نہیں کیا تھا - بعض کہتے ہیں قتل كنانة ابن بشر التجيب نے کیا تھا - بعض کہتے ہیں رومان اليماني بصولجان نے کیا (تاریخ خلیفہ بن الخیاط) - لیکن قرآن کہتا ہے فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے مصریوں کا سرغنہ بن کر یہی گھر میں داخل ہوا -

محمد بن ابی بکر حجتہ الوداع کے وقت ابو بکر کی زوجہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوا - ابو بکر رضی الله تعالی عنہ کی وفات کے بعد اسماء سے علی رضی الله عنہ نے شادی کی اور محمد بن ابی بکر ، علی کا سوتیلا بیٹا بن گیا - مالک الاشتر ، محمد کا بچپن کا دوست تھا - اس قتل عثمان کے وقت محمد بن ابی بکر کی عمر ٢٦ سال ہو گی شاید یہ اس حدیث کا مصداق ہے جس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت قریش کے نو عمر کم عقلوں کے ہاتھوں تباہ ہو گی
- (بخاری: کتاب الفتن: باب: ارشادِ نبوی صلی الله علیہ وسلم "میری امت کی ہلاکت کم عقل ، نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں ہوگی" کا بیان)

الذھبی سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:

وقال أبو عبيدة : كان على خيل علي يوم الجمل عمار ، وعلى الرجالة محمد بن أبي بكر الصديق ، وعلى الميمنة علباء بن الهيثم السدوسي ، ويقال : عبد الله بن جعفر ، ويقال : الحسن بن علي ، وعلى الميسرة الحسين بن علي ، وعلى المقدمة عبد الله بن عباس ، ودفع اللواء إلى ابنه محمد بن الحنفية


جنگ جمل میں علی رضی الله تعالی عنہ کی سواری کی رکاب پر محمد بن ابی بكر الصديق تھا - (سير أعلام النبلاء: سيرة الخلفاء الراشدين: سيرة أبي الحسنين علي رضي الله عنه: الحوادث في خلافة علي)
صفین کی جنگ کے بعد علی نے محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر مقرر کیا لیکن عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ نے اس کو شکست دی - سن ٣٧ ھ یا ٣٨ ھ میں یہ ذلت کی موت مرا - الذھبی لکھتے ہیں کہ یہ مخالفین کے ہتھے چڑھا -


فقتله ، ودسه في بطن حمار ميت ، وأحرقه


انہوں نے اس کا قتل کیا اس کو مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈال کر جلایا گیا - (سير أعلام النبلاء: كبار التابعين: محمد بن أبي بكر الصديق)

صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم ، معاويہ بن حديج رضی الله عنہ نے اس کو قتل کیا - کتاب "تاریخ ابن یونس المصری" (المتوفى: 347هـ) کے مطابق آخری وقت محمد نے کہا:

فقال: احفظونى؛ لأبى بكر. فقال له معاوية بن حديج: قتلت ثمانين من قومى فى دم عثمان، وأتركك وأنت صاحبه؟! فقتله

مجھے ابو بکر کے واسطے چھوڑ دو! معاویہ بن حدیج نے کہا اپنی قوم کے ٨٠ لوگوں کا خون عثمان پر قتل کیا اور تو انہی کا صاحب تھا تجھے کیسے چھوڑ دوں
- (جلد ٢ ، صفحہ ١٩٥ ، دار الكتب العلمية - بيروت)

معاويہ بن حديج کو امام بخاری اور جمہور محدثین صحابی مانتے ہیں صرف امام احمد اس کی مخالفت کرتے ہیں - کتاب "جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي" (المتوفى: 761هـ) کے مطابق:

معاوية بن حديج قال الأثرم قال أحمد بن حنبل ليست لمعاوية بن حديج صحبة قلت بل له صحبة ثابتة قاله البخاري والجمهور


الاثرم کہتے ہیں امام احمد کہتے ہیں معاويہ بن حديج صحابی نہیں ہے میں کہتا ہوں صحابی ثابت ہیں بخاری اور جمہور ایسا کہتے ہیں - (صفحہ ٢٨٢ ، رقم ٧٧٦ ، عالم الكتب - بيروت)

طرفہ تماشہ ہے کہ محمد بن ابی بکر جو وفات رسول کے وقت ایک سال کا ہو گا اس کو صحابی ثابت کرنے پر زور لگایا جاتا ہے جبکہ اس نے اس عمر میں نبی سے کون سا علم حاصل کیا ظاہر ہے کہ یہ صرف لیپا پوتی ہے اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنا ہے - صحابہ کے لئے کم سے کم عمر چار سال لی گئی ہے -

کتاب الثقات للعجلي (المتوفى: 261هـ) کہتے ہیں:

محمد بن أبي بكر الصديق: لم يكن له صحبة


محمد بن ابی بکر الصدیق صحابی نہیں ہے - (صفحہ ٤٠١ ، رقم ١٤٣٧ ، دار الباز/ الطبعة الأولى 1405هـ)

امام حسن بصری اس کو الفاسق محمد بن ابی بکر کہا کرتے تھے -

کتاب اسد الغابہ میں مؤرخ ابن اثیر ایک بات نقل کرتا ہے جو بلا سند ہے اور اس کا کذب ہونا ظاہر ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا کو اس کی موت کا افسوس ہوا اور پھر بھنا ہوا گوشت نہیں کھایا - بعض مؤرخ (آٹھویں صدی کے) لکھتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہا نماز میں قنوت پڑھتی تھیں اور عمرو بن العاص کے لئے بد دعا کرتی تھیں لیکن یہ بھی بلا سند بات ہے -


جس شخص نے سبائی ہتھیار کے طور پر کردار ادا کیا ہو اس کے لئے ام المومنین کی رائے اچھی کیسے ہو سکتی ہے؟

محمّد بن ابی بکر کی اولاد:

محمد بن ابی بکر کے بیٹے قاسم ایک ثقہ تابعی ہیں - کتاب "سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين" (المتوفى: 233هـ) کے مطابق:

ولم يلق القاسم بن محمد أباه


قاسم بن محمد نے اپنے باپ کو نہیں پایا - (صفحہ ٣٤٧ ، رقم ٣٠٦ ، مكتبة الدار - المدينة المنورة)

ان کی تربیت ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے کی

کتاب سير أعلام النبلاء کے مطابق:

وربي القاسم في حجر عمته أم المؤمنين عائشة ، وتفقه منها وأكثر عنها


اور قاسم کی پرورش پھوپی عائشہ کے حجرے میں ہوئی اور ان سے علم حاصل کیا اور بہت کچھ روایت کیا - (سير أعلام النبلاء الذهبي: القاسم بْن مُحَمَّد)

دوسرے بیٹے عبد الله بن محمد بن ابی بكر الصديق ہیں جو ثقہ ہیں -

محمد ابن ابی حذيفہ:

کتاب "مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار از ابن حبان" (المتوفى: 354هـ) کے مطابق:

محمد بن أبى حذيفة بن عتبة له صحبة كان عامل عثمان بن عفان على مصر

محمد بن ابى حذيفہ بن عتبہ صحابی ہے اس کو عثمان بن عفان نے مصر پر عامل مقرر کیا تھا - (صفحہ ٩٥ ، رقم ٣٩١ ، دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع - المنصورة)

وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کے وقت یہ گیارہ سال کا تھا اور اس کی پرورش عثمان رضی الله عنہ نے کی - جبکہ کتاب "جامع التحصيل في أحكام المراسيل" کے مطابق:

محمد بن أبي حذيفة بن عتبة بن ربيعة ولد أيضا بأرض الحبشة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وله رؤية

محمد بن ابی حذیفہ حبشہ میں پیدا ہوا اور اس نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو صرف دیکھا - (صفحہ ٢٦٣ ، رقم ٦٧٦)

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں:

فنشأ مُحَمَّد فِي حُجْر عُثْمَان ، ثُمَّ إنّه غضب على عُثْمَان لكونه لم يستعمله أو لغير ذلك ، فصار إلْبًا على عُثْمَان


پس محمد ، عثمان رضی الله عنہ کے حجرے میں پلا بڑھا لیکن عثمان پر غضب ناک ہوا کہ انہوں نے اس کو کیوں عامل نہیں کیا اور انہی پر پلٹا - (تاريخ الإسلام الذهبي: الطبقَة الرابعة: سَنَة ثَمانٍ وَثَلَاثِين: الوفيَّات)

کتاب "أسد الغابة في معرفة الصحابة از ابن الأثير" (المتوفى: 630هـ) کے مطابق:

ولما قتل أبوه أَبُو حذيفة، أخذ عثمان بْن عفان مُحَمَّدا إليه فكفله إِلَى أن كبر ثُمَّ سار إِلَى مصر فصار من أشد الناس تأليبا عَلَى عثمان


جب محمد کے باپ شہید ہوئے تو اس کو عثمان نے لے لیا اور کفالت کی یہاں تک کہ بڑا ہوا پھر مصر بھیجا - (جلد ٥ ، صفحہ ٨٢ ، رقم ٤٧٢٠ ، دار الكتب العلمية)

جھگڑا یہ ہوا کہ محمد بن ابو حذیفہ کو عثمان نے امارت سے معزول کیا اور محمد بن ابی بکر کو امیر مقرر کیا محمد بن ابو حذیفہ نے محمد ابن ابی بکر کے کان بھرے اور ساتھ قتل کرنے آیا -


عبد الرحمن بن عديس:

یہ عبد اللہ بن ابی کی طرح کا ایک منافق تھا - اس کو شرف صحابیت ملا لیکن یہ ایک فتنہ پرداز بن گیا - یہ بھی ایک مصری ٹولے کا سرغنہ تھا جس نے عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا -

تاريخ ابن يونس المصرى کے مطابق "كان رئيس الخيل التى سارت من مصر إلى عثمان بن عفان" یہ تھا ان کا رئيس الخيل جو عثمان بن عفان کے لئے مصر سے آئے تھے - (جلد ١ ، صفحہ ٣٠٨)

تاریخ الاسلام کے مطابق:

وكان ممن خرج على عثمان وسار إلى قتاله. نسأل الله العافية. ثمّ ظفر به معاوية ، فسجنه بفلسطين في جماعة ، ثمّ هرب من السّجن ، فأدركوه بجبل لبنان فقُتِلَ. ولمّا أدركوه قَالَ لمن قتله : وَيْحَكَ اتّقِ الله في دمي ، فإنّي من أصحاب الشَّجرة ، فَقَالَ : الشَّجَرُ بالجبل كثير ، وقتله


یہ ان میں سے تھا جنہوں نے عثمان کے خلاف خروج کیا تھا اور قتل کیا ، ہم الله سے اس پر عافیت مانگتے ہیں ، پھر معاویہ اس پر جھپٹے اور اس کو فلسطین میں قید کیا ایک جماعت کے ساتھ ، پھر جیل سے فرار ہوا اور جبل لبنان پر جا کر پکڑا گیا اور اس کو قتل کیا گیا - پس جب اس کو پکڑا اور قتل کرنے لگے تو اس نے کہا بربادی ہو! الله سے ڈر ، میرے خون کے معاملے پر ، کیونکہ میں اصحاب شجرہ میں سے ہوں - کہا اس پہاڑ پر بھی بہت درخت ہیں اور اس کو قتل کیا -


(تاريخ الإسلام الذهبي: الطبقَة الرابعة: سَنَة سِتّ وَثَلاثِين)

تاب الولاة وكتاب القضاة للكندي (المتوفى: 355هـ) کے مطابق اسی زمانے میں ٣٦ ھ میں ابن أَبِي حُذيفة ، وابن عُديس ، وكِنانة بْن بِشر بھی قتل کئے گئے جو عثمان کے قتل میں شریک تھے - (صفحہ ١٨ ، دار الكتب العلمية ، بيروت - لبنان)

بعض لوگوں نے اس کو صحابی تسلیم کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عثمان کا قاتل تھا لیکن اس راس الخیل کو صحابی کہنا صحابیت کی توہین ہے - ان شر پسندوں نے عثمان رضی الله کو شہید کیا لیکن قصاص سے بچ نہ سکے اور پکڑے گئے اور قتل بھی ہوئے بلا شبہ اللہ مظلوم کا خون رائیگاں نہیں جانے دیتا -

عبد الرحمن بن ملجم المرادى التدؤلى:

تاريخ ابن يونس المصرى کے مطابق:

عبد الرحمن بن ملجم المرادى التدؤلى نے معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور مصر میں یہ شخص عبد الرحمن بن عديس کا پڑوسی تھا - (جلد ١ ، صفحہ ٣١٤ ، ٣١٥ ، رقم ٨٤٣ ، دار الكتب العلمية - بيروت)

صفين میں علی رضی الله عنہ کے ساتھ لڑا اور بعد میں ان کا مخالف بن گیا اور علی کو شہید کیا -

الغرض سبائی فتنہ پردازوں نے امت کو مصیبت میں مبتلا رکھا ہزاروں معصوم لوگ شہید ہوئے - حتی کہ علی رضی الله عنہ کے حامیوں میں پھوٹ پڑی اور خوارج کا گروہ نکلا اور اسی گروہ نے ان کو شہید کیا اور حسن رضی الله عنہ نے معاویہ رضی الله عنہ سے صلح کر لی - والحمد اللہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بات کذب کی تھی اور آُ پ نے لیکچر مکر پر ارشاد فرمادیا آپ کو تو یہ ارشاد فرمانا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کذب کو کن معنوں میں ارشاد فرمایا ہے اس کے بعد جب یہ ثابت ہوجائے کہ کذب کے معنی جھوٹ کے نہیں ہوتے پھر آپ کا یہ ارشاد فرمانا صحیح ہوگا
محترم -

پہلے آپ بتائیں کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کے دونوں عمل جو قرآن مجید میں بیان ہوے ہیں - ان کو کیا کہنا چاہیے؟؟؟- کیوں جو لنک میں نے آپ کو فراہم کیا تھا- اس میں کذب کے عربی میں مختلف مفاہیم ہیں- جیسے لفظ مولا ایک حدیث کے مطابق حضرت علی رضی الله عنہ کے لئے بولا گیا ہے - لیکن قرآن کریم میں یہی لفظ "مولا یا مولانا" الله کی ذات کے لئے بھی بولا گیا ہے- کیوں کہ اس کا مفہوم مختلف جگہوں پر مختلف ہیں - اب آگر "کذب" سے مراد صرف ایک ہی معنی یعنی "حقیقی جھوٹ " کے لیے جائیں یا لیے جانے چاہییں تو یہ اعتراض والی بات بن سکتی ہے-
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بھائی بات یہ ہے کہ ہمارے ”طبقہء اہلِ حدیث“میں بھی ”شیعت“ کا عنصر موجود ہے انکے ”انکار“ کرنے سے ”حقیقت“ چھپ نہیں سکتی اور ”طبقہء خاص“ کا تو ”شیعت و رافضیت“سے ”چولی دامن “ کا ساتھ ہے۔فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ”طبقہء اہلِ حدیث“ اخفاء سے کام لیتے ہیں اور ”طبقہء خاص“اعلانیہ۔”طبقہء خاص“ سے تو کوئی ”قبولِ اصلاح“کی امید نہیں البتہ ”طبقہء اہلِ حدیث“سے کچھ امید ”وابستہ“ ہے مگر” افسوس “اس وقت ہوتا ہے جب ان کی طرف سے بھی ”سبائیت“ کا پردہ چاک کرنے والوں پر ”ناصبیت“کا الزام لگادیا جاتا ہے۔
 
Top