• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایت مسلسل بالمصافحہ کا تحقیقی جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭۔عبدالباقی انصاری اس روایت کے ضمن میں حافظ ابن حجرؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
’’المعمر شخص من المغاربۃ اختلف في اسمہ وھو من الکذابین‘‘(مناہل السلسلۃ : ص۵۱)
’’معمر ایک مغربی شخص ہے، اس کے نام میں اختلاف ہے اور یہ انتہائی جھوٹاآدمی ہے۔ ‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔اسی معمر کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے علامہ صغانی ؒلکھتے ہیں:
وما یحکیٰ عن بعض الجھال من أنہ اجتمع بالنبي علیہ السلام وسمع منہ ودعا لہ النبي ﷺ بقولہ ’’عمّرک اﷲ‘‘ لیس لہ أصل عند أئمۃ الحدیث وعلماء السنۃ،وکلھا موضوعۃ ولم یعش من الصحابۃ ممن لقِي النبی علیہ السلام أکثر من خمس وتسعین سنۃ وھو أبوطفیل فبکوا علیہ وقالوا: ھذا آخر من لقي النبي واجتمع بالرسول ﷺ وھذا ھو الصحیح تصدیقا لقولہ ﷺ حین صلی العشاء الآخرۃ في آخر عُمُرہ لیلۃ فقال لأصحابہ:’’ أرأیتکم لیلتکم۔ ۔ ۔ الخ‘‘
’’بعض جہال کے بارے میں جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ شخص نبیﷺ سے ملا اور نبی کریمؐ نے اس کے لئے اللہ سے درازیٔ عمر کی دعا کی۔ اس روایت کی ائمہ حدیث اور علماے سنت کے نزدیک کوئی اصل نہیں، ایسی روایات سب کی سب موضوع ہیں۔ صحابہؓ میں سے کسی نے نبیﷺ سے ملاقات کے بعد ۹۵ سال سے زیادہ زندگی نہیں گزاری اور وہ (اتنی مدت گزارنے والے صرف) ابوطفیلؓ ہیں، جن کی وفات پر لوگ روتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ نبی اکرمﷺکے آخری صحابی ؓ ہیں اور یہی بات نبی ؐ کے اس فرمان کے مطابق درست و مصدقہ ہے کہ آپﷺ نے آخری عمر میں عشا کی نماز پڑھائی اور اپنے اصحاب کو فرمایا:’’ أریتکم لیلتکم۔۔۔ الخ‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔ایسی روایات اور اس نوعیت کے دعوؤں کے بارے میں علامہ سخاویؒ لکھتے ہیں:
قلت: ودعوٰی من ادعی الصحبۃ أو ادّعِیتْ لہ بعد أبي الطفیل وھم جبیر ابن الحارث والربیع بن محمود الماردني ورتن وسرباتک الھندیان ومعمر ونسطور أو جعفر بن نسطور الرومي وبسر بن عبیداﷲ الذین کان آخرھم رتن فإنہ فیما قیل: مات سنۃ اثنتین وثلاثین وستمائۃ، باطلۃ (فتح المغیث :۳؍۱۴۰)
’’میں کہتا ہوں کہ حضرت ابوطفیل ؓ کے بعد جس نے صحابیت کا دعویٰ کیا یا جس کے بارے میں صحابی ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مثلاً جبیر ابن حارث، ربیع بن محمود ماردنی، رتن ہندی، سرباتک ہندی، معمر، نسطور یا جعفر بن نسطور رومی اور بسر بن عبیداللہ ہیں اور ان میں سب سے آخر میں رتن ہندی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ۶۳۲ھ میں مرا، یہ دعوی سرا سر باطل ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔معمر کی روایات کے متعلق ایسا ہی مسئلہ علامہ سیوطیؒ کے سامنے بھی پیش ہوا اور اُنہوں نے تفصیل سے ان روایات کے بارے میں اپنا موقف دلائل کے ساتھ ذکر کیا۔یہ تفصیل علامہ کی اپنی زبانی ان کی ایک کتاب سے من وعن درج ذیل ہے :
’’کسی نے ان سے سوال کیا کہ أبو العباس المُلثِّم عن معمر الصحابي أن النبي رآہ یوم الخندق وھو ینقل التراب بغلقین وبقیۃ الصحابۃ ینقلون بغلق واحد فضرب بکفہ الشریف بین کتفیہ وقال لہ: عمّرک اﷲ یا معمر۔۔۔
’’ابوالعباس ملثم معمر صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے خندق والے دن اس کو دیکھا کہ وہ دو پتھروں میں مٹی منتقل کررہا ہے جبکہ باقی صحابہ ؓ ایک پتھر میں مٹی ڈھو رہے تھے تو آپﷺ نے اپنا دست ِمبارک اس کے دونوں کاندھوں کے درمیان چار دفعہ مارا اور فرمایا: اے معمر! اللہ تیری عمر دراز کرے ۔‘‘ اور یہ ضربات کی برکت تھی کہ اس کے بعد وہ ۴۰۰ سال تک زندہ رہا ، چار ضربیں تھیں، ہر ضرب کے بدلے ایک سو سال عمر میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد اس سے مصافحہ کیا اور فرمایا:’’ من صافحک إلی ست أو سبع لم تمسہ النار‘‘ ’’جو تجھ سے (آگے) چھ یا سات آدمیوں تک مصافحہ کرے گا، اسے جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی۔‘‘ کیا اس کو ائمہ میں سے کسی نے روایت کیا ہے یا یہ کذب وافترا ہی ہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جواب از علامہ سیوطی:ؒ
یہ روایت ایک دفعہ شیخ صلاح الدین طرابلسی نے امیرتمراز کی مجلس میں روایت کی، میں بھی اس مجلس میں موجود تھا تو میں نے کہا کہ یہ روایت بالکل باطل ہے اور معمر کذاب اور دجال ہے۔ دلیل کے طور پر میں نے نبیﷺکا فرمانِ مبارک’’ أرأیتکم لیلتکم ھذہ۔۔۔الخ‘‘ پیش کیا اور کہا کہ محدثین کہتے ہیں کہ جو شخص نبیﷺ کی وفات کے ایک سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کرے وہ کاذب ہے۔ اور آخری صحابی ابوطفیلؓ ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے تھے تو مجھ سے شیخ صلاح الدین نے اس کے متعلق کہیں لکھا ہوا طلب کیا تو میں نے علامہ ذہبیؒ کی المیزان دیکھی جس میں اُنہوں نے معمر بن بریک کے ترجمہ میں لکھا تھا کہ اس کی عمر دو سو سال تھی اور اس سے پانچ روایاتِ باطلہ روایت کی گئی ہیں جن کا کذب واضح ہے اور وہ رتن ہندی کی قبیل سے تھا ۔اللہ جھوٹ بولنے والے کو ذلیل کرے، تب میں نے شیخ صلاح الدین کو المیزان بھجوائی جس پر اُنہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور دعا دی۔
کافی عرصہ بعد مجھے ایک شخص نے ایک ورقہ دکھایا جس میں شیخ صلاح الدین سے یہ حدیث اور اس کو بیان کرنے کی اجازت بیان کی گئی تھی پس میں نے اسی کاغذ پر لکھ دیا کہ یہ روایت واضح جھوٹ ہے، اس کی روایت اور تحدیث جائز نہیں اور ہر مسلمان جان لے کہ معمر دجال و کذاب ہے اور اس کا یہ قصہ محض کذب و افترا ہے اور کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی سے ایسی روایت لے یا کسی کو روایت کرے اور جو شخص ایسا کرے گا، وہ نبیﷺ کے قول:
’’ من کذب علي (متعمدًا) فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ کہ ’’جس نے مجھ پر (جان بوجھ کر )جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
کی زد میں ہے۔
پھر میں نے حافظ ابن حجرؒ کے معمر کے بارے میں فتاویٰ دیکھے، اُنہوں نے لکھا تھا کہ اس روایت کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں اور معمر کی سندوں میں سے کوئی سند بھی اعتراض سے خالی نہیں حتیٰ کہ معمر خود بھی انہی میں شامل ہے پس جو کوئی بھی صحابیت کا دعویٰ کرے گا تو اس کی ثقاہت ِدعویٰ کا ثبوت مطلوب ہے جبکہ اس کا عقلاً ثابت ہونانبیﷺ کے اس فرمان (آج کے بعد سو سال تک کوئی جان زمین پر نہیں رہے گی) کی نفی کی وجہ سے کسی کو چنداں مفید نہیں اور جو شخص اس کے بعد صحابیت کا دعویٰ کرتا ہے تو لازم آتا ہے کہ اس کا دعویٰ اس فرمانِ نبویﷺ کے صریح مخالف ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پھر میں نے حافظ ابن حجرؒ کے مزید فتاویٰ بھی دیکھے جس میں اُنہوں نے لکھا تھا کہ
’’معمر والی روایت بالکل بے اصل ہے اور معمر مذکور یا تو کذاب ہے یا اس کی طرف کسی کذاب نے جھوٹ گھڑا ہے اور علیٰ الاطلاق فوت ہونے والے آخری صحابی ابوطفیل عامر بن واثلہ لیثیؓ ہیں۔امام مسلمؒ اور امام بخاریؒ نے یہ روایت بیان کی ہے اور جو شخص ابوطفیلؓ کے بعد صحابیت کا دعویٰ کرتا ہے، وہ کاذب ہے۔‘‘ (الحاوي للفتاوي از سیوطی :ج۲؍ص۲۶۲تا۶۶۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قاضی شمہورش جنی
اس کا ترجمہ ہمیں کہیں مل نہیں سکا۔ غالباً یہ جنات میں سے تھا جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے۔ علامہ کتانی نے فہرس الفہارسمیں عبد الباقی لکھنوی کے ترجمہ کے تحت قاضي مَھنیۃ الصحابي الجني کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ومن غرائب روایتہ روایۃ لنیف وأربعین حدیثا عن جدہ محمد عبد الرزاق عن القاضي مہنیۃ الجني الصحابي فیما ذکر عن المصطفی ﷺ‘‘
’’اسکے غرائب میں سے چالیس سے زائد وہ روایات ہیں جو یہ اپنے دادا محمد عبد الرزاق سے وہ قاضی مہنیہ جنی صحابی سے اور وہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں۔‘‘ (۱؍۲۴۶،۲؍۷۴۲)
آغاز میں درج کردہ سند بھی چونکہ عبد الباقی لکھنوی سے ہے، اور علامہ کتانی کا یہ تبصرہ بھی عبد الباقی لکھنوی کے ترجمہ کے ضمن میں درج ہے ، اس لئے شمہورش اور مھنیہ کا ایک ہی جن کے دو نام ہونا بھی خارج از امکان نہیں ۔ بہرحال یہ شخصیت بھی صحابی ہونے کی دعوے دار ہے۔ اور یہ بھی حضرت ابوطفیلؓ کی وفات کے بعد روایت کرتاہے۔ اس کے صحابی ہونے میں حسب ِذیل اُمور مانع ہیں :
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔مسلمان جنات اگرچہ انسانوں کی طرح شریعت ِمحمدیؐ کے مکلف ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبیﷺ اور قرآن کو تسلیم کریں اور شریعت ِمحمدیؐ پر عمل پیرا ہوں جس پر جزا وسزا اور تخاطب ِجن و انس اور آپﷺ پر ایمان لانے کی نصوص دلیل ہیں۔
اسی طرح محدثین کے ہاں راجح مسلک کے مطابق ایک جن بھی صحابی ہوسکتا ہے جیسا کہ نصیبین کے جنات کے ایک گروہ نے آپﷺ سے قرآن سنا اور آپﷺ پر ایمان لے آئے۔ (الإصابۃ:۱؍۱۵۸)
اسی طرح جنوں کا انسانوں سے سماع کرنا اور جنوں کو سنانا بھی ثابت ہے جس کی دلیل {وَإذْ صَرَفْنَا إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ۔۔۔الخ}(الاحقاف:۲۹) ہے، لیکن کسی انسان کا جنوں سے روایت لینا بہرحال محل نظر ہے ،کیونکہ روایات کے متعلق اسناد کو پرکھنے کے لئے ائمہ جرح تعدیل نے ضوابط مقرر فرمائے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ اسماء ا لرجال کا فن وجود میں آیا ہے جس میں ہر راوی کے احوال درج ہیں اور اس کی ثقاہت وعدالت پر پوری بحث موجود ہے۔ جبکہ اس غیر مرئی قوم کے رجال کے احوال ضبط میں لانا محال ہے اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ اسماء ا لرجال نے اس کی کوشش بھی نہیں کی، لہٰذا جنات کی عدمِ توثیق کی وجہ سے کسی جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جھوٹ کہہ رہا ہے یا سچ۔ جیسا کہ علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں:
وأما روایۃ الإنس عنھم فالظاہر مَنعُھا لعدم حصول الثقۃ بِعَدَالتِھم ’’رہا انسان کا جنوں سے روایت کرنا تو اس کی ممانعت ان کی ثقاہت ِعدالت کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے واضح ہے۔‘‘ (الأشباہ والنظائر للسیوطيص۲۵۸، الأشباہ والنظائر علی مذھب أبي حنیفۃ النعمان لابن نجیم، ص ۳۲۹)
اسی طرح ابن حجر ہیتمی مکی نے بعض حفاظ کے حوالے سے لکھا ہے :
توقف في ذلک بعض الحفاظ بأن شرط الراوي العدالۃ والضبط وکذا مدعي الصحبۃ شرطہ العدالۃ والجن لا نعلم عدالتھم
’’جنوں کی روایت کے بارے میں بعض حفاظ نے راوی کی عدالت و ضبط کی شرط کی وجہ سے توقف اختیا رکیا ہے اور اسی طرح مدعی صحبت کے لئے بھی عدالت کی شرط ہے جبکہ جنات کی عدالت کے بارے میں ہم نہیں جان سکتے ہیں۔‘‘ (الفتاویٰ الحدیثیۃ :ص۱۷)
لہٰذا روایت کے معاملہ میں جنات پر کسی قسم کا اعتماد نہیں کیا جاسکتا جبکہ شروع میں ہم ذکر کر آئے ہیں کہ مدعی صحبت کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے دعویٰ میں سچا ہو جبکہ ایک جن اگر نبیﷺ کے ساتھ ملاقات کا دعویدار ہے تو ہم اس کو جن ہونے کی وجہ سے سچا نہیں مان سکتے، کیونکہ اس کی توثیق کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ جب کہ کسی انسان کی بھی کوئی مشاہداتی گواہی موجود نہیں کہ اس جن کی آپﷺسے ملاقات ہوئی ہے۔
الغرض جنات کے احوال کو درج کرنا انسانوں پر تکلیف ما لا یطاق کے ضمن میں آتا ہے، اسی لئے کتب اسماء الرجال میں جنات کے احوال کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔اس بنا پر کسی روایت کی سند میں کسی ’جن‘ کے راوی ہونے سے اس راوی کے حالات سے جہالت لازم آتی ہے۔ اور واضح ہے کہ کسی ایک راوی کے حالات کا علم نہ ہونا اس حدیث کے ضعف کے لئے کافی ہے، جیسا کہ اس کے لئے فن حدیث میں مجہول کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور حدیث کی یہ نوعیت ضعیف احادیث کی اقسام میں شمار ہوتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔نبی کریمﷺ کا یہ فرمان اس امر کو مستلزم کہ اس فرمان نبویؐ کے صدورکے بعد کسی ذی نفس کی روے زمین پر ۱۰۰ سال سے زیادہ زندگی غیرثابت شدہ امر ہے۔ چنانچہ مدعی ٔ صحبت جن ہو یا انسان، وہ سب اللہ کے نبیﷺ کی حدیث ’’ ما علیٰ الأرض من نفس منفوسۃ ۔۔۔الخ‘‘ کے قول میں شامل ہیں۔ لہٰذا محدثین کا مدعی ٔ صحبت کے متعلق یہ اُصول کہ اس کا ۱۱۰ھ سے پہلے تک ہونا ضروری ہے، اٹل ہے۔ بلکہ علامہ عراقی تو یہاں تک کہتے ہیں:
لو ادعاہ بعد مضي مائۃ سنۃ من حین وفاتہ ﷺ فإنہ لا یقبل وإن کانت قد ثبتت عدالتہ قبل ذلک في الحدیث الصحیح’’أرأیتکم لیلتکم۔۔۔ الخ‘‘
’’اگر کوئی نبیﷺ کی وفات کے سو سال کے بعد صحابیت کا دعویٰ کردے، اگرچہ اس سے پہلے اس کی عدالت معلوم ہوچکی ہے توبھی اسے قبول نہیں کیا جائے گا،کیونکہ نبیﷺ کی صحیح حدیث ہے’’أرأیتکم لیلتکم ۔۔۔ الخ‘‘ (فتح المغیث:۳؍۱۰۵)
لہٰذا ان نکات کی بنا پر قاضي شمہورش جنی یا قاضی مہنیۃ کے قول یا روایت کا اسلامی شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔ابو سعید الحبشی الصحابی المعمر
یہ صاحب بھی شرفِ صحابیت کے دعویدارہیں، جیسا کہ ان کی روایت گزر چکی ہے جسے روایت مسلسل بالمصافحہ بالحبشیہ کہا جاتا ہے،یہ روایت بھی دو وجہ سے قابل ردّ ہے۔
1۔ابو سعید حبشی مجہول شخص ہے۔ رواۃ ِ حدیث کے حالات کا علم رکھنے والوں نے اس کا کہیں ذکر نہیںکیا۔ عبدالباقی انصاری نے اپنی مُسلسلمیں اس روایت کی سند پر قاوقجی اور ابن طیب کے شکوک کا تذکرہ کیا ہے :
قال القاوقجي:أبوسعید الحبشي لم یعرف في الصحابۃ ولعلہ وممن لم یشتھر وقال ابن الطیب في مسلسلاتہ: ھي أغرب المصافحات وأوھاھا وأکثرھا جھلا من مبتدء خبرھا إلی منتھاھا وقد أولع بھا الفرس ولا سیما الطائفۃ النقشبندیۃ ثم ساق سند المصافحۃ وقال: فھي مع الجھل برجالھا وعدم معرفۃ حفاظھا روائح الوضع فائحۃ من فواتح ألفاظھا۔ (المناھل السلسلۃ: ص۵۵)
’’قاوقجی کہتے ہیں کہ ابو سعید حبشی کا صحابہ میں سے ہونا نامعلوم ہے۔ شاید وہ غیر معروف صحابہ میں سے ہوں اور ابن طیب نے اپنی مسلسلات میں کہا کہ یہ روایت مصافحات کی روایات میں سے عجیب ترین اور ان روایات میں سے سب سے بے کار ہے۔ اس کی ابتدا سے انتہا تک اکثر رواۃ مجہول ہیں اور اس کی طرف زیادہ تر فارسی لوگ خصوصاً سلسلہ نقشبندیہ کے اصحاب لگاؤ رکھتے ہیں۔ پھر اس نے مصافحہ والی سند آگے ذکر کی اور کہا کہ’’ پس یہ روایت اپنے رواۃ کی جہالت، حفاظ کی عدمِ معرفت اور ابتدائی الفاظ وغیرہ سب سے اس کی وضع کی بو آر ہی ہے۔‘‘
2۔بالفرض ابوسعید الحبشی کی جہالت دور ہو بھی جائے اور ثقاہت ثابت ہوجائے تب بھی محدثین کے نبیﷺ کی حدیث ’’ أرأیتکم لیلتکم…الخ ‘‘سے اخذ کردہ اصولی کسوٹی پر اس کا کھوٹا ہونا واضح ہے۔
 
Top