• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایت مسلسل بالمصافحہ کا تحقیقی جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جملہ روایاتِ مصافحہ پر ایک تبصرہ
اب ہم مجموعی طور پر مختلف لوگوں کی طرف منسوب مصافحات پر حنفی عالم ابوغدہ عبدالفتاح الکوثری کا تبصرہ ذکر کرتے ہیں۔ ابوغدہ، ملا علی قاری حنفی کی کتاب المصنوع کی تحقیق میں مصافحہ والی روایت کے تحت لکھتے ہیں:
’’شیخ محمد بن قاسم بن علی ہندی حیدر آبادی اپنی کتاب القول المستحسن في فخر الحسن کے ص ۴۹۶ پر لکھتے ہیں:
(جعلی روایات میں) سات قسم کے مصافحات کا ذکر ملتا ہے :
المصافحۃ العلویۃ الحسنیۃ: حضرت علیؓ کا حسن بصریؒ سے مصافحہ کرنا
المصافحۃ الأنسیۃ: ابوہرمز کا انس بن مالکؓ سے مصافحہ کرنا
المصافحۃ الخضریۃ:حضرت خضر ؑ سے مصافحہ کی نسبت
المصافحۃ المعمریۃ الحبشیۃ:حبشہ کے معمرین میں سے کسی کی طرف منسوب
المصافحۃ المعمریۃ المغربیۃ: اس مصافحہ کی نسبت معمر مغربی کی طرف ہے
المصافحۃ الجنیۃ :شمہورش جنی کی طرف منسوب مصافحہ
یہ سب باطل اور بے وزن باتیں ہیں اور یہ درست نہیں کہ ان باتوں سے خوش ہوا جائے یا کوئی طالب علم ان کی تصدیق کرے۔ (المصنوع بتحقیقعبدالفتاح ابوغدہ: ص ۲۶۹،۲۷۰)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آخری بات:
روایات مسلسل بالمصافحہ پر مذکورہ بالا جرح کے بالمقابل ائمہ صوفیا ان روایات کو صحیح خیال کرتے ہیں اور اس طرح بعض متساہلین نے اپنی کتب میں ان روایات کو جگہ دی اور اُنہیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان روایات پر محدثین کرام کی قرآن وسنت کے دلائل پر مبنی واضح نصوص کی بنیاد پر جرح کے برعکس صوفیا کے نزدیک ان کی صحت کا معیار دو چیزیں ہیں:
1۔کشف کی وجہ سے ان روایات کی صحت کو پرکھا گیا ہے۔
2۔اور یہ کہ خضر ؑ اور دوسرے معمرین’’ أرأیتکم لیلتکم ۔۔۔ الخ‘‘ کے عموم سے خاص ہیں۔ (الإبریز لأحمد بن المبارک السلجماسي، ص۱۶۹)

اوّل الذکر اُصول کا محدثین کے ہاں کوئی وزن نہیں کہ کشف کے ذریعے کسی روایت کی صحت پرکھی جائے۔اور اس اصول کو پیش کرنا دور کی کوڑی لانے کے مصداق ہے۔ جبکہ آخر الذکر دعویٰ میں خصوص کی کوئی دلیل نہیں جو انہیں ’’أرأیتکم لیلتکم۔۔۔الخ‘‘ کے عموم سے خارج کردے، یوں بھی حضرت خضر علیہ السلام کی وفات پر کئی دیگر قرآنی دلائل بھی شاہد ہیں۔ لہٰذا بلا دلیل عام کو خاص کرنا بے اُصولی اور بے جا ضد ہے جو شریعت ِمطہرہ میں نا قابل قبول ہے۔


۔۔۔ختم شد۔۔۔
 
Top