محترمی میرے کہنے کا مطلب یہ ھے کہ.
سجدات کی ھیئت اور ان میں دعائیں ایک جیسی ھیں.اس لیے دوبارہ بیا کرنے کی ضرورت نہیں.
اور افتراش وتورک دونوں اصل حالت نہیں ھے.اور دونوں کی ہیئت مختلف ھے اس لئے بیان کرنے کی ضرورت محسوس ھوئی.
اسی طرح ارسال اصل حالت ھے اور اور وضع الیدین غیر اصل ھے.لہذا غیر اصل کی حالت بیان کرنی پڑتی ھے.
اور رکوع کے بعد جب کسی چیز کا بیان نہیں ھوا تو آپ قیاس کرکے دونوں کو ایک حکم میں شامل نہیں کرسکتے.اس لئے کہ قیام اول قیام ثانی سے مختلف ھے.
مثلا قیام اول کے ملنے سے رکعت ھوجاتی ھے اور قیام ثانی سے نہیں.قیام اول میں سورہ فاتحہ ھوتی ھے اور ثانی میں نہیں.
قیام اول میں قراءت ھے اور ثانی میں نہیں.حدیث کے الفاظ ھیں لا تدرک الامام الا قائما.
اس میں مطلقا قیام کے الفاظ ھیں.
اب آپ اس سے کونسا قیام مراد لیںگے.؟ اول یا ثانی؟
آپ خارجی قرائن کی طرف جانے کے بغیر بتائیں کہ ان نفس الفاظ سے دونوں قیام مراد ھیں یا ایک؟
اگر ایک ھے تو وہ کونسا؟ لہذا ترجیح کے لئے آپکو دوسرے دلائل کی طرف رجوع کرنا پڑیگا.محض یہ ایک بات کافی نہیں.
لہذا یھاں بھی یھی مسئلہ ھے.
جب اس طرح کے فرق ھیں تو تو دونوں قیاموں کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کرسکتے.کیوں قیاس کی یہ شرط ھے کہ جو چیز قیاس کی جارھی ھو اور جس کے لئے قیاس کیا جارہا ھو دونوں میں کوئی فرق نہ ھو اور یھاں فرق موجود ھیں.لہذا یہ قیاس مع الفارق ھے اس لئے باطل ھے.واللہ اعلم.
اور وضع الیدین سے کچھ اشکالات بھی جنم لیتے ھیں.
بہر حال اصل ارسال ھے اس لئے اس کے بیان کی ضرورت نہیں اور وضع غیر اصل ھے اس لئے اس کے بیان کرنے کی بہر حال ضرورت پڑتی ھے.