• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رکوع کے بعد قیام میں ہاتھوں کو چھوڑنا ہی صحیح عمل ہے۔

ahmed

رکن
شمولیت
جنوری 01، 2012
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
38
جب جسم کی ہڈی اپنی حالت میں ہوتی ہے تو وہی حالت اصل کہلاتی ہے ۔ اب دیکھنا ہوتا ہے کہ جن مواقع پر جو حکم احادیث میں وضع الیدین کاہے مثلاً قیام میں ہاتھ باندھنا ، رکوع میں گھٹنوں پر رکھنا سجدوں زمین پر رکھنا اور تشہد میں گھٹنوں پر رکھنا وغیرہ ، تو اس کے مطابق عمل کیا جائے گا ۔اورجن مواقع پر صراحت نہیں ہے مثلاًرکوع کے بعد قومہ میں، تو راجح یہ ہے کہ اپنی اصل پر چھوڑا جائے یعنی ارسال ۔ ورنہ قومہ کو قیام پر قیاس کرکے وضع الیدین کا بھی جواز نکلتا ہے ، واللہ اعلم ۔

بات دراصل یہ ہے کہ جس کو آپ اصل بنا رہے ہیں اس کو آپ عام حالت پر قیاس کر رہے ہیں کیونکہ عام حالت میں جب کھڑے ہوتے ہیں تو ہاتھ کھولے چھوڑتے ہیں نہ کہ باندھتےہیں غالباََ یہی فہم ہے آپکا جہاں تک میں سمجھاہوں لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہاں بات ہو رہی ہے نمازکی، نماز میں قیام کی اصل کیا ہے کہ اس میں ہاتھ باندھےجاتےہیں نہ کہ کھولے جاتے ہیں اب اختلاف یہ ہے کہ بعداز رکوع بھی باندھیں جائیں گے یانہیں چونکہ آپ خود فرماچکے ہیں کہ "اورجن مواقع پر صراحت نہیں ہےمثلاً رکوع کے بعد قومامیں" تویہاں کیاکیاجائیگا یہاں بھی اسکی اصل جو نماز والی ہےیعنی قیام میں وضع والی اس پرعمل کیاجائیگانہ کہ عام حالت والی پر،اور رہی بات قومہ کی تواسکی بحث کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ قومہ،قیام دونوں ایک ہی چیزہیں اس میں کوئی فرق نہیں
اوراوپرمیں نے مثال دے کرواضح بھی کیاہے کہ جہاں فرق ہوگا اسکوبیان کرناہوگانہ کہ ایک ہی چیزکوباربار بیان کرناہوگا إن شاٴالله آپ غورفرمائیں گےجو اوپرلکھاہےتو سمجھ جائیں گے
کیاآپ مجھے بتاسکتے ہیں کہ پہلی رکعت کےدوسرے سجدے کی اصل کیاہےآپکےنزدیک؟؟ کیونکہ صراحت کیساتھ اسکا حکم بھی موجود نہیں اسی طرح پہلی رکعت کے دوسرے جلسےکی اصل کیاہوگی؟ اور سب سے مزے کی بات آپ دوسری،تیسری اور چوتھی رکعت کےقبل از رکوع قیام کی اصل بھی بتادیجئےگاکیونکہ دوسری،تیسری اورچوتھی رکعت کے قبل ازرکوع قیام میں مجھے آپ صلی الله علیہ وسلم سےہاتھ باندھنےکی کوئی دلیل نہیں ملی آپکےفہم کےمطابق
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
السلام علیکم ورحمتہ الله وبرکاتہ میری اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ وہ میری اس مسئلےمیں درست راہنمائی فرمائیں اور میرے چند اشکالات کو دور فرمائیں
پہلی بات کہ جو ارسال کےقائلین حضرات ہیں ان کاکہنا ہے کہ "چونکہ رکوع کےبعد ہاتھ باندھنا کسی حدیث میں صراحتاََ ثابت نہیں اورنہ ہی کسی صحابی سے ایساکرنا منقول ہےاورنہ ہی اسےکسی نےبیان کیا جبکہ انہوں نے نماز کی چھوٹی سے چھوٹی شےکوبھی بیان کردیاہے تو یہ کیسےہوسکتاہےکہ یہ مسئلہ ان سےپوشییدہ رہ گیا ہوگویاکسی صحابی کا اسے بیان نہ کرناہی اسکے عدم اثبات کی دلیل ہےکیونکہ اگریہ عمل مسنون ہوتا تو کم ازکم صحابہ اسے ضروربیان کرتے"
تو اب میری ان سے گزارش ہے جہاں تک میں اس کو سمجھا ہوں کہ اگر واقعتاََ ایسی بات ہے
توہررکعت میں دوسجدے،دوجلسے آتے ہیں توکیا صحابہ اکرام رضوان الله علیھم اجمعین نےہرسجدے اورجلسےکی کیفیت الگ لگ بیان کی ہےیاصرف ایک دفعہ ہی بیان کیاہے؟؟ ظاہری بات ہے انھوں نےایک مرتبہ ہی بیان کیا ہے کہ سجدہ اسطرح کرناہے جلسہ میں اسطرح بیٹھنا ہے یوں توکسی نےنہیں کہا کہ اگرپہلاسجدہ کرناہےاسکی کیفیت یہ ہوگی اور دوسرے سجدے کی کیفیت ایسی ہوگی ظاہری بات ہے جو چیزایک جیسی ہےاسےایک دفعہ ہی بیان کرناہوگاایک ہی چیزکوباربار بیان کرنےکاآخر کیامقصداسلئیےانھوں نےرکوع کےبعد اٹھنےکی کیفیت کوبیان نہ کیاکیونکہ جوچیز سیم (ایک جیسی) ہوگی اسےدوبارہ بیان کرنےکاکوئی مقصد نہیں بنتامثال کے طور پر بندہ جب چاررکعت نمازکےدرمیانی قعدہ میں بییٹھتاہے توافتراش کرتاہے جبکہ آخری قعدے میں تورک کرتاہے یعنی اس طرح بیٹھتاہے توبالفرض اگرصحابہ یہ بیان نہ کرتےکہ آخری رکعت میں تورک کرناہے توپھرہم کسطرح بیٹھتے؟؟ ظاہری بات ہےاسی طرح بیٹھتےجسطرح پہلےقعدےمیں بیٹھےتھےیہ تونہیں کہ یہاں اپنی مرضی سےجیسے دل ہےبیٹھ جاتے .....
بہرحال اس سےبھی صاف ظاہرہوتاہےکہ اگررکوع کےبعداٹھتے وقت کوئی دوسری الگ کیفیت ہوتی تو صحابہ اسے ضروربیان کرتے نہ کہ دوبارە ہاتھ باندھنےکاذکرکرتے جس چیز کامطالبہ آپ ان سے(وضع الیدین) والوں سےکررہے ہیں اسکامطالبہ انھیں آپ سےکرناچاہیےاوروہ کرتے بھی ہیں یہاں سےیہی بات نکلتی ہے کہ جہاں فرق ہوگااسی کوبیان کرناہوگا نہ کہ ایک چیزکوباربار دوہرایا جائیگا. پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر رکوع کےبعد ہاتھ نہیں باندھے جائیں گےتوکیاکیا جائیگا اگرآپ کہیں ارسال کیا جائیگا تو یہ بھی محتاج دلیل ہےیوں زبانی کلامی تو دعوے ثابت نہیں ہوتےتوجودلیل ارسال پرآپ پیش کرتے ہیں اس میں بھی تو صراحتاََ ارسال کاذکرموجود نہیں یہ تو آپکافہم اور قیاس ہے
اوردوسری بات یہ کہ ارسال کے قائلین حضرات دوسری،تیسری اورچوتھی رکعت میں کھڑےہوتے وقت ہاتھ باندھ لیتےہیں اسکی انکےپاس کیا دلیل ہےاگرآپ کہیں گے کہ "قبل ازرکوع" ہےاور قبل از رکوع ہاتھ باندھنے چاہیےتویہ آپ لوگوں کا اپنا اجتہاد اور فہم ہےکیونکہ جس وائل بن حجر رضی الله تعالی عنہ والی روایت جوکہ مسند احمد میں موجود ہے سے آپ دلیل پکڑتے ہیں تو اس میں بھی صرف پہلی رکعت کےقیام بقول آپکے(قبل ازرکوع) کاذکر ہےدوسری،تیسری اور چوتھی رکعت کاقیام کیسےشامل ہوگیا؟؟ اس کیلئےبھی تودلیل چاہیے نا
مختصربات یہ ہے کہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے اس میں دونوں طرف غلطی کا امکان موجودہے جوبندہ اپنی بساط کے مطابق تحقیق کرکے جس نتیجےپر پہنچاہےاسے اس پرعمل کرنا چاہیےلیکن فتوی بازی سےگریزکرنا چاہیےیہ کہنا کہ رکوع کےبعد ارسال کرنا خلاف سنت ہے یا یہ کہنا کہ وضع الیدین مابعدرکوع بدعت ہے تو یہ دونوں غلط ہیں اس مسئلےمیں تشدد درست نہیں دونوں فریقین کو صبروتحمل کا مظاہرە کرنا چاہیےایسابھی نہیں ہونا چاہیے کہ چونکہ ارسال الیدین کے قائل علماٴ کی تعداد زیادہ ہےتوارسال کرناہی درست سمجھاجاۓیا وضع الیدین کےقائل علماۓ عرب ہیں توہم بھی وضع الیدین کرنا شروع ہوجائیں البتہ تحقیق ضروی ہے اس مسئلہ میں جوبندہ تحقیق کرکے جسکو زیادہ حق کے قریب سمجھےاس پر عمل کرے کسی بھی شخصیت سے اتنا مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں
الله سبحانہ وتعالی ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ بوجھ عطا فرماۓ اور تعصب،ضد اور ہٹ دھرمی کو بالاۓ طاق رکھ کر فہم سلف صالحین کےمطابق دین کوسمجھنےکی توفیق عطافرماۓ (آمین)


محترم احمد بھائی تمام سجدات کی ھیئت ایک جیسی ھے.اس لئے انکا ایک دوسرے پر اطلاق ھوسکتا ھے.لیکن قیام اول و ثانی کی ھیئت مختلف ھے مثلا قیام اول کے ملنے سے رکعت ھوجاتی ھے لیکن قیام ثانی سے نہیں.جب یہ فرق موجود ھے تو پھر حکم کا اطلاق دونوں پر کیسے ھوگا.
 

ahmed

رکن
شمولیت
جنوری 01، 2012
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
38
محترم احمد بھائی تمام سجدات کی ھیئت ایک جیسی ھے.اس لئے انکا ایک دوسرے پر اطلاق ھوسکتا ھے.لیکن قیام اول و ثانی کی ھیئت مختلف ھے مثلا قیام اول کے ملنے سے رکعت ھوجاتی ھے لیکن قیام ثانی سے نہیں.جب یہ فرق موجود ھے تو پھر حکم کا اطلاق دونوں پر کیسے ھوگا.
شیخ محترم معذرت کیساتھ آپکی بات پوری طرح سمجھ نہیں سکا یعنی آپ کہہ رہے ہیں کہ قیام اول وثانی میں فرق ہے،لیکن فرق کس بات کا ہےکیافرق ہیئت کاہے؟؟
دوسری بات کہ اسطرح فرق توپہلےاورآخری قعدےمیں بھی ہےآخری قعدےمیں سلام ہوتاہے جبکہ درمیانی قعدےمیں سلام نہیں ہوتا تو آپ یہ بتائیں کہ آپ آخری رکعت میں تورک کیوں کرتے ہیں؟ لازمی اسکاجواب یہی ہوگاکہ صحابہ اکرام رضوان الله علیھم اجمعین نےاسےبیان کیاہے تواگربالفرض صحابہ اکرام رضوان الله علیھم اجمعین اسے بیان نہ کرتےتوآپ کسطرح بیٹھتے غالباََ اسی طرح بیٹھتے جسطرح پہلےبیٹھےتھےیعنی افتراش والے طریقےسےاس سےبھی یہی بات نکلتی ہے کہ رکوع کےبعداگر کوئی دوسری حالت ہوتی تو صحابہ اکرام رضوان الله علیھم اجمعین اسے ضرور بیان کرتے ان کا بیان نہ کرناہی اس بات پر دلالت کرتاہے کہ کوئی دوسری حالت اختیارنہیں کی گئی جوحالت رکوع سےپہلےتھی اسےہی اختیار کرناہوگا
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترمی میرے کہنے کا مطلب یہ ھے کہ.
سجدات کی ھیئت اور ان میں دعائیں ایک جیسی ھیں.اس لیے دوبارہ بیا کرنے کی ضرورت نہیں.
اور افتراش وتورک دونوں اصل حالت نہیں ھے.اور دونوں کی ہیئت مختلف ھے اس لئے بیان کرنے کی ضرورت محسوس ھوئی.
اسی طرح ارسال اصل حالت ھے اور اور وضع الیدین غیر اصل ھے.لہذا غیر اصل کی حالت بیان کرنی پڑتی ھے.
اور رکوع کے بعد جب کسی چیز کا بیان نہیں ھوا تو آپ قیاس کرکے دونوں کو ایک حکم میں شامل نہیں کرسکتے.اس لئے کہ قیام اول قیام ثانی سے مختلف ھے.
مثلا قیام اول کے ملنے سے رکعت ھوجاتی ھے اور قیام ثانی سے نہیں.قیام اول میں سورہ فاتحہ ھوتی ھے اور ثانی میں نہیں.
قیام اول میں قراءت ھے اور ثانی میں نہیں.حدیث کے الفاظ ھیں لا تدرک الامام الا قائما.
اس میں مطلقا قیام کے الفاظ ھیں.
اب آپ اس سے کونسا قیام مراد لیںگے.؟ اول یا ثانی؟
آپ خارجی قرائن کی طرف جانے کے بغیر بتائیں کہ ان نفس الفاظ سے دونوں قیام مراد ھیں یا ایک؟
اگر ایک ھے تو وہ کونسا؟ لہذا ترجیح کے لئے آپکو دوسرے دلائل کی طرف رجوع کرنا پڑیگا.محض یہ ایک بات کافی نہیں.
لہذا یھاں بھی یھی مسئلہ ھے.
جب اس طرح کے فرق ھیں تو تو دونوں قیاموں کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کرسکتے.کیوں قیاس کی یہ شرط ھے کہ جو چیز قیاس کی جارھی ھو اور جس کے لئے قیاس کیا جارہا ھو دونوں میں کوئی فرق نہ ھو اور یھاں فرق موجود ھیں.لہذا یہ قیاس مع الفارق ھے اس لئے باطل ھے.واللہ اعلم.
اور وضع الیدین سے کچھ اشکالات بھی جنم لیتے ھیں.
بہر حال اصل ارسال ھے اس لئے اس کے بیان کی ضرورت نہیں اور وضع غیر اصل ھے اس لئے اس کے بیان کرنے کی بہر حال ضرورت پڑتی ھے.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
لا تدرک الامام الا قائما..
سے مراد پہلا قیام ھی مراد ھے.
کیوںکہ صحابہ قیام کا لفظ بول کر اس سے قیام اول ھی مراد لیتے تھے.اس لیے اس حدیث میں مطلق قیام ھی بولا گیا جس صرف قیام اول ھی مراد ھے.
لہذا جب قیام کا لفظ آئیگا وھاں قیام اول ھی مراد ھے.واللہ اعلم.
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
بحث کا نتیجہ؟
ہندوستان کے ایک مشہور مولانا محفوظ الرحمن فیضی سابق شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے -

رکوع کے بعد قومہ میں وضع یدین یا ارسال

جس میں انہوں نے ان دلائل کا رد کیا ہے جو رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں - ایک دلیل پر کیا جواب لکھتے ہیں آپ خود پڑھ لیں -
1.jpg
2.jpg

محفوظ الرحمن فیضی سابق شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو ایک اہلحدیث عالم دین ہیں - جنہوں نے ایک مشہور کتاب لکھی- جس کا نام ہے-

 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
ہندوستان کے ایک مشہور مولانا محفوظ الرحمن فیضی سابق شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے -

رکوع کے بعد قومہ میں وضع یدین یا ارسال

جس میں انہوں نے ان دلائل کا رد کیا ہے جو رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں - ایک دلیل پر کیا جواب لکھتے ہیں آپ خود پڑھ لیں -
محفوظ الرحمن فیضی سابق شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو ایک اہلحدیث عالم دین ہیں - جنہوں نے ایک مشہور کتاب لکھی- جس کا نام ہے-

السلام علیکم

اس کتاب کی لنک یا pdf ہو تو ارسال کی جیئے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
Top