• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رکوع کے بعد قیام میں ہاتھوں کو چھوڑنا ہی صحیح عمل ہے۔

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
( ابتسامۃ محب .........)
آپ نے جو روایت پیش کی ہے اس میں کچھ باتیں سمجھنے کی ہیں
۱۔ ہر سنی سنائی بات
یعنی کچھ باتیں سنی سنائی اگر کوئی آگے بیان کرے تو وہ جھوٹا نہیں ہوتا ...!!!
کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر کوئی شخص بعض مرتبہ تحقیق کرکے صحیح احادیث بیان کرے اور بعض مرتبہ سنی سنائی ضعیف احادیث بیان کرے (اور اس کا مقصد ان کا ضعف واضح کرنا نہ ہو، بلکہ استدلال کرنا ہو) تو وہ گناہگار نہیں؟؟؟
۲۔ آگے بیان کر دے ۔
یعنی جھوٹ کا تعلق آگے بیان کرنے سے ہے نہ کہ عمل کرنے سے ...!!! اور وہ بھی ہر سنی سنائی کو آگے بیان کرنے سے ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ سن کر عمل کرلینے والا گنہگار نہیں ہوتا ۔ اگر آپ اسے ضرورگنہگار سمجھنا ہی چاہتے ہیں اس حدیث کی بناء پر تو پھر بھی یہ بات لازم ہے کہ وہ ہر سنی سنائی پر عمل کرنیوالا ہو۔
ہر عمل سنی سنائی پر ہونا اور ہر سنی سنائی پر عمل کرنا دونوں میں بھی واضح فرق ہے ۔
ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرنے سے روکنے کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ لوگ قرآنِ کریم اور صحیح احادیث مبارکہ کی بجائے سنی سنائی باتوں پر عمل نہ شروع کردیں!!!

دیکھئے محترم رفیق طاہر بھائی! ہر عمل کا دار ومدار نیّت پر ہے، اگر کسی شخص کی نیت صحیح ہے، اور وہ اللہ کا حکم تلاش کرنے کیلئے غیر جانبداری سے اجتہاد کرتا ہے، لیکن چونکہ ہر انسان خطا کا پتلا ہے، لہٰذا خواہ اس کا اجتہاد صحیح ہو یا غلط! اسے نیت صادقہ اور محنت کی بناء پر اجر ملتا ہے، اگرچہ صحیح اجتہاد پر دُہرا اجر ملتا ہے۔
اسی طرح اگر ایک شخص تحقیق کرتا ہی نہیں، بلکہ جانبداری اور تعصّبات کی بناء پر اپنے من پسند عالم سے بغیر دلائل کے ہر سنی ہوئی بات پر عمل (تقلید) کرتا ہے، تو اگر وہ عمل عند اللہ غلط ہوگا، تب تو بقول آپ کے وہ گنہگار ہوگا، لیکن اگر وہ عمل عند اللہ صحیح ہوا تو بقول آپ کے وہ اجر کا مستحق ہوگا، حالانکہ یہاں بھی اپنی نیت کی بناء پر اسے گنہگار ہونا چاہئے، اور یہی میری رائے ہے۔ کیا آپ کی رائے اس کے مخالف ہے؟
بات مزید واضح کرنے کیلئے ایک مثال دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کی تفسیر میں کوئی بات بغیر علم کے صرف اپنی رائے سے کہہ دے، تو اگر اس کی تفسیر غلط ہو تب تو وہ گنہگار ہے ہی، لیکن کیا آپ کے نزدیک اگر بالفرض اس کی تفسیر عند اللہ صحیح ہو تو وہ اپنی ذاتی رائے کی بناء پر کی گئی تفسیر پر اَجر کا مستحق ہوگا؟؟؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
۱۔کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر کوئی شخص بعض مرتبہ تحقیق کرکے صحیح احادیث بیان کرے اور بعض مرتبہ سنی سنائی ضعیف احادیث بیان کرے (اور اس کا مقصد ان کا ضعف واضح کرنا نہ ہو، بلکہ استدلال کرنا ہو) تو وہ گناہگار نہیں؟؟؟

۲۔ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرنے سے روکنے کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ لوگ قرآنِ کریم اور صحیح احادیث مبارکہ کی بجائے سنی سنائی باتوں پر عمل نہ شروع کردیں!!!
۳۔اسی طرح اگر ایک شخص تحقیق کرتا ہی نہیں، بلکہ جانبداری اور تعصّبات کی بناء پر اپنے من پسند عالم سے بغیر دلائل کے ہر سنی ہوئی بات پر عمل (تقلید) کرتا ہے، تو اگر وہ عمل عند اللہ غلط ہوگا، تب تو بقول آپ کے وہ گنہگار ہوگا،
۴۔لیکن اگر وہ عمل عند اللہ صحیح ہوا تو بقول آپ کے وہ اجر کا مستحق ہوگا، حالانکہ یہاں بھی اپنی نیت کی بناء پر اسے گنہگار ہونا چاہئے، اور یہی میری رائے ہے۔
۵۔ کیا آپ کی رائے اس کے مخالف ہے؟
۶۔بات مزید واضح کرنے کیلئے ایک مثال دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کی تفسیر میں کوئی بات بغیر علم کے صرف اپنی رائے سے کہہ دے، تو اگر اس کی تفسیر غلط ہو تب تو وہ گنہگار ہے ہی، لیکن کیا آپ کے نزدیک اگر بالفرض اس کی تفسیر عند اللہ صحیح ہو تو وہ اپنی ذاتی رائے کی بناء پر کی گئی تفسیر پر اَجر کا مستحق ہوگا؟؟؟
۱۔نہیں ہر گز نہیں ! میرا یہ مطلب قطعا نہیں !!!!
بلکہ وہ یقینا گہنگار ہی ہوگا !!!
در اصل آپ نے دو باتوں کو ایک سمجھ لیا ہے اسی بناء پر معاملہ الجھ گیا ہے ۔ لہذا پہلے دونوں باتوں کا فرق سمجھ لیں :
بعض سنی سنائی باتیں آگے بیان کرنے سے بندہ گہنگار نہیں بنا ہاں ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرنے سے بندہ گہنگار بن جاتا ہے۔ یہ بات عام ہے ۔
جھوٹی یعنی ضعیف روایات کو آگے بغرض استدلال بیان کرنا حرام اور ناجائز ہے ۔ یہ بات خاص ہے ۔
یعنی ہر سنی سنائی بات میں کچھ نہ کچھ جھوٹ ہوگا اور کچھ نہ کچھ سچ , تو ہر سنی سنائی کو اگر آگے بیان کیا جائے گا تو اس میں جھوٹ ہونے کا خدشہ و امکان ہے ۔
لیکن جب ایک بات ہے ہی جھوٹ تو اس ایک کا بیان بھی غلط ہی ہوگا ۔
اسکی دلیل صحیح مسلم سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے :
مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ

یعنی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے یا آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایات کے بیان کا تو معاملہ ہی علیحدہ ہے ۔
یہی حال اللہ رب العالمین کے بارہ میں جھوٹ باندھنے کا ہے ملاحظہ فرمائیں :
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (47) الحاقۃ

لہذا ان دو الگ الگ باتوں کو خلط ملط نہ کیا جائے ۔
امید ہے کہ میں اب اپنی بات کی وضاحت کر سکا ہوں گا۔ ان شاء اللہ تعالى۔
۲۔ یہ مقصد بھی ہے جو آپ نے بیان فرمایا ہے اور چونکہ یہ حکم عام ہے اس میں کتاب وسنت کی نصوص کے علاوہ عامۃ الناس کے اقوال بھی شامل ہیں کہ وہ بھی سنے سنائے ہی بیان نہ کر دیے جائیں لہذا اسکے اور بھی بہت سے مقاصد ہیں اس وضاحت کو سمجھنے کے بعد یقنا وہ خود ہی آشکار ہو جاتے ہیں ۔
۳۔ ہمارے نزدیک کتاب وسنت کے خلاف کسی بھی شخص کی بات کو ماننا تقلید کہلاتا ہے ہم ایسا کرنے والے کو صرف گہنگار ہی نہیں بلکہ خارج از اسلام سمجھتے ہیں ۔
۴۔ آپکی رائے بالکل درست ہے اگر یہی ہے تو ...!!!
یعنی اگر نیت بد کے ساتھ مشروط ہو , جبکہ میں کسی اور وادی میں ہوں جسکی وضاحت میں کرچکا ہوں ۔
۵۔ اس مشروط طرز پر میرے رائے آپکے ساتھ موافق ہے ۔
۶۔ تفسیر بالرائے کامعاملہ قدرے مختلف ہے جسکی کچھ وضاحت میں پہلے کرچکا ہوں , کیونکہ تفسیر بالرائے کرنے والا حقیقتا یہ کہنے والا ہوتا ہے کہ اللہ نے یہ کلمہ بول کر یہ معنى مراد لیا ہے ۔ اور اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی ہے ۔ اور یہ قول على اللہ بمالم یعلم ہے جو کہ حرام ہے :
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (33) الاعراف
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
مولانا ابوالاشبال احمد شاغف بہاری نے اپنی کتاب "مقالاتِ شاغف" میں تحریر کیا ہے کہ صحیح بخاری کی متعدد شروحات تحریر کی جا چکی ہیں۔
مجھے یہ جاننے کی خواہش ہے کہ وہ کون کون سے قابل احترام شارحینِ بخاری ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ صادر کیا ہو کہ ارسال الیدین بعد الرکوع کے مسئلہ کی تائید میں یہ حدیثِ بخاری فیصلہ کن " حکم " کی حیثیت رکھتی ہے کہ جس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔

اگر اس ضمن میں اپنی مفید معلومات سے آگاہ کریں تو نوازش ہوگی۔
میں ایک بار پھر اپنا سوال دہراتا ہوں ، تاکہ آپ سمیت سب کو معلوم ہو کہ میں نے اجتہاد یا استنباط کے انکار کا نہ تو کوئی ذکر چھیڑا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی "قید" کو ترجیح دی ہے۔ میرا سوال صرف اتنا ہے کہ :
مجھے یہ جاننے کی خواہش ہے کہ وہ کون کون سے قابل احترام شارحینِ بخاری ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ صادر کیا ہو کہ ارسال الیدین بعد الرکوع کے مسئلہ کی تائید میں یہ حدیثِ بخاری فیصلہ کن " حکم " کی حیثیت رکھتی ہے کہ جس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔
اگر اس ضمن میں اپنی مفید معلومات سے آگاہ کریں تو نوازش ہوگی۔

براہ مہربانی خط کشیدہ الفاظ پر غور فرمائیں۔


جزاکم اللہ خیرا
بہت ہی عمدہ سوال ہے اس سوال نے میرے ذہن میں بھی ایک سوال اٹھا دیاہے کہ:
مولانا ابوالاشبال احمد شاغف بہاری نے اپنی کتاب "مقالاتِ شاغف" میں تحریر کیا ہے کہ صحیح بخاری کی متعدد شروحات تحریر کی جا چکی ہیں۔
مجھے یہ جاننے کی خواہش ہے کہ وہ کون کون سے قابل احترام شارحینِ بخاری ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ صادر کیا ہو کہ وضع الیدین بعد الرکوع کے مسئلہ کی تائید میں یہ حدیثِ بخاری( حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ» قَالَ أَبُو حَازِمٍ لاَ أَعْلَمُهُ إِلَّا يَنْمِي ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يُنْمَى ذَلِكَ وَلَمْ يَقُلْ يَنْمِي
[صحيح البخاري 1/ 148رقم740 -] مضبوط دلیل ہے۔

اگر اس ضمن میں اپنی مفید معلومات سے آگاہ کریں تو نوازش ہوگی

اوریہی سوال ان تمام احادیث سے متعلق ہے جسے آج وضع الیدین بعدالرکوع کےحق میں پیش کیا جاتاہے۔
اوراگریہ ثابت نہ کیا جاسکے کہ سلف میں سے کسی ایک بھی عالم دین نے وضع الیدین بعدالرکوع پرکسی ایک بھی حدیث سے استدلال کیا ہو تویہ ثابت ہوگیا کہ یہ استدلال نیاہے ، لہذا جب بلاوجہ نئے استدلال کی بنیادڈالی جائے گی تواس کی تردید میں بھی نئے استدلالات ناگزیرہیں پس جو شخص خود سب سے پہلے نئے استدلال کی بنیاد ڈالے اسے چاہئے کہ وہ دوسروں کے نئے استدلالات پرسوال اٹھانے کے بجائے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا استقبال کرے۔
اگرکوئی یہ کہے کہ وضع الیدین بعدالرکوع کے حق میں نئے استدلالات ہم نے نہیں پیش کئے ہیں وہ دیگراہل علم ہیں توایسے شخص کوچاہئے کہ وہ نئے استدلال پرسب سے پہلے انہیں دیگراہل علم کی گرفت کرے ۔
کیونکہ انہیں کے استدلال جدید کے سبب ان کے رد میں استدلال جدید لائے جارہے ہیں ، اگریہ اپنے استدلالات جدیدہ سے دست بردارہوجائیں تو دوسرے کسی بھی صاحب علم کو نئے استدلال کی ضروت ہی نہیں پڑے گی ،
۔
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
یہ سراسر اجتھادی مسئلہ ہے اس میں سختی سے گریز کرنا چاہئے شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ جو رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے قائل اور ان کے بھائی شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے کے قائل تھے کسی بھی تحقیق کرنے والے کیلئے ان دونوں شیخین کی کتب میں کافی مواد موجود ہے جن کے تقابل کے بعد کسی ایک مؤقف کی راجح ہونے کا مؤقف قائم کیا جاسکتا ہے اور ان اجتھادی مسائل میں مناظرہ بازی سمجھ سے بالا ہے ایک سنجیدہ طرز تحقیق والے شخص کیلئے ان کتب کا مطالعہ ہی کافی رہے گا ۔
Folding the Hands Upon the Chest After Rising from the Rukoo - ash-Shaykh al-Allaamah as-Sindhee, Ibn Baaz, al-Uthaymeen, and al-Madkhalee | رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا - شیخ علامہ سندھی، ابن باز، العثیمین، اور المدخلی

رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا

فضیلۃ الشیخ علامہ بدیع الدین شاہ راشدی سندھی (رحمۃ اللہ علیہ) م 1416 ھـ

فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز (رحمۃ اللہ علیہ) م 1420 ھـ

فضیلۃ الشیخ علامہ محمد بن صالح العثیمین (رحمۃ اللہ علیہ) م 1421 ھـ

فضیلۃ الشیخ علامہ ربیع بن ہادی المدخلی (حفظہ اللہ)


[video=youtube;alxXjSRPq0c]http://www.youtube.com/watch?v=alxXjSRPq0c&list=UUJMdhiBO8EMdiMrTey6gAgA&index=90&feature=plpp_video[/video]
 

ابوعیینہ

مبتدی
شمولیت
جنوری 17، 2012
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
281
پوائنٹ
0
اس کتاب پر رد شیخ محب اللہ شاہ راشدی سندھی رحمہ اللہ نے لکھا ہے
مقالات راشدیہ جلد ١:
اور پروفیسر عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ نے
رسائل بہاولپوری میں
اور
عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ
مستقل رسالہ:
محدث البانی رحمہ اللہ نےبھی اس پر مفصل رد لکھا ہے:
الرد على البديع في مسئلة القبض بعد الركوع
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ما شاء اللہ! ما شاء اللہ!
کیا ہمارے فورم میں ایسے اصحابِ علم وفضل کا وجود اللہ کی بہت بڑی رحمت نہیں؟
بلى ! والحمدلله على ذلك ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس کتاب پر رد شیخ محب اللہ شاہ راشدی سندھی رحمہ اللہ نے لکھا ہے
مقالات راشدیہ جلد ١:
اور پروفیسر عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ نے
رسائل بہاولپوری میں
اور
عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ
مستقل رسالہ:
محدث البانی رحمہ اللہ نےبھی اس پر مفصل رد لکھا ہے:
الرد على البديع في مسئلة القبض بعد الركوع
ابو عیینہ بھائی ! یہ سب رسائل مطبوع ہیں ؟
ان میں سے اگر کوئی نیٹ پر ہے تو رہنمائی کریں ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جی خضر حیات بھائی،
آن لائن لنکس نوٹ کیجئے:

مقالات راشدیہ--جلد اول

عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کا رسالہ ارسال الیدین بعد الرکوع تو محدث فورم پر ہی یونیکوڈ میں موجود ہے۔ لنک

اسی طرح یہیں فورم پر، حافظ عبدالوکیل ناصر صاحب کا یہ مقالہ بھی لائق مطالعہ ہے: رکوع کے بعد قیام میں ہاتھوں کو چھوڑنا ہی صحیح عمل ہے۔

حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ نے جو تعاقب کیا ہے۔ وہ میرے پاس موجود ہے۔ اور میں انٹرنیٹ پر بھی میں نے اسکین کر کے بہت عرصہ قبل اپ لوڈ کیا تھا۔ فی الحال لنک نہیں مل رہا۔ کسی بھائی کے پاس رسائل بہاولپوری کا آن لائن لنک ہو تو ضرور عنایت کریں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جی خضر حیات بھائی،
آن لائن لنکس نوٹ کیجئے:

مقالات راشدیہ--جلد اول

عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کا رسالہ ارسال الیدین بعد الرکوع تو محدث فورم پر ہی یونیکوڈ میں موجود ہے۔ لنک

اسی طرح یہیں فورم پر، حافظ عبدالوکیل ناصر صاحب کا یہ مقالہ بھی لائق مطالعہ ہے: رکوع کے بعد قیام میں ہاتھوں کو چھوڑنا ہی صحیح عمل ہے۔

حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ نے جو تعاقب کیا ہے۔ وہ میرے پاس موجود ہے۔ اور میں انٹرنیٹ پر بھی میں نے اسکین کر کے بہت عرصہ قبل اپ لوڈ کیا تھا۔ فی الحال لنک نہیں مل رہا۔ کسی بھائی کے پاس رسائل بہاولپوری کا آن لائن لنک ہو تو ضرور عنایت کریں۔
شاکر بھائی جزاکم اللہ ۔
محدث روپڑی کی کتاب والا دہاگہ واقعتا کام نہیں کر رہا یا میرے ہاں ہی کوئی مسئلہ ہے ؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
Top