سید طہ عارف
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 18، 2016
- پیغامات
- 737
- ری ایکشن اسکور
- 141
- پوائنٹ
- 118
سانحۂ شہادت حسین اور واقعات کربلا کے موضوع پر آج سے کئی صدیاں قبل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (۶۶۱۔۷۲۸ھ) نے جو کچھ لکھا تھا، وہ حق واعتدال کا ایک بہترین نمونہ، دلائل و براہین کا نادر مرقع اور خداداد فہم صحیح کا شاہکار ہے، انہوں نے اپنی تالیفات میں متعدد مقامات پر اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ بالخصوص "منہاج السنۃ" میں اس پر بڑی عمدہ بحث فرمائی ہے جس کی ضروری تلخیص مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی مرحوم نے اردو میں کرکے شائع کر دی تھی۔ اس کیااہمیت و افادیت کے پیش نظر ہم ذیل میں امام موصوف کی وہ ترجمہ شدہ تحریر بھی قدرے ترمیم کے ساتھ پیش کررہے ہیں ، آیات و احادیث کے عربی الفاظ کا، اصل کتاب سے مراجعت کرکے، ہم نے اضافہ کردیا ہے۔ (مرتب)
تمہید: علماء اسلام میں کوئی ایک بھی یزید بن معاویہ کو ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کی طرح خلفائے راشدین میں سے نہیں سمجھتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((خلافۃ النبوۃ ثلاثون سنۃ ثم یؤتی اللہ الملک من یشآء)) (سنن أبی داؤد، السنۃ، باب فی الخلفاء، ح:۴۶۴۷)
"خلافت تیس برس تک منہاج نبوت پر رہے گی پھر سلطنت ہوجائے گی۔"
علماء اہل سنت اس حدیث کے مطابق یزید اور اس جیسے آدمی اور عباسی خلفاء کو محض فرمانروا بادشاہ اور اسی معنی میں خلیفہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا یہ خیال بالکل درست ہے۔ یہ ایک محسوس واقعہ ہے جس سے انکار غیر ممکن ہے کیونکہ یزید اپنے زمانے میں عملاً ایک بادشاہ، حکمران، ایک صاحب سیف اور خودمختار فرمانروا تھا۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھا اور شام، مصر، عراق خراسان وغیرہ اسلامی ممالک میں اس کا حکم نافذ ہوا۔ حضرت حسین قبل اس کے کہ کسی ملک پر بھی حاکم ہوں، یوم عاشوراء ۶۱ھ میں شہید ہوگئے اور یہی یزید کی سلطنت کا پہلا سال ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر: بلاشبہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید سے اختلاف کیا اور باشندگان مکہ وحجاز نے ان کا ساتھ دیا لیکن یہ واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ نے خلافت کا دعوی یزید کی زندگی میں نہیں کیا بلکہ اس کے مرنے کے بعد کیا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شروع شروع میں اختلاف کرنے کےباوجود عبداللہ بن زبیر یزید کے جیتے جی ہی اس کی بیعت پر رضا مند ہوگئے تھے مگر چونکہ اس نے یہ شرط لگا دی تھی کہ قید ہوکر ان کے حضور میں حاضر ہوں اس لیے بیعت رہ گئی اور باہم جنگ برپا ہوئی۔ پس اگرچہ یزید تمام بلاد اسلامیہ کا حکمران نہیں ہوا۔ اور عبداللہ بن زبیر کا ماتحت علاقہ اس کی اطاعت سے برابر گشتہ رہا، تاہم اس سے اس کی بادشاہت اور خلافت میں شبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلفائے ثلاثہ ابو بکر، عمر، عثمان اور پھر معاویہ بن ابی سفیان ، عبدالملک بن مروان اور اس کی اولاد کے سوا کوئی بھی اموی یا عباسی خلیفہ پورے بلاد اسلامیہ کا تنہا فرمانروا نہیں ہوا۔ حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بھی تمام دنیائے اسلام کی حکومت نہ تھی۔
بادشاہوں پر خلیفہ کا اطلاق؟ پس اگر اہل سنت ان بادشاہوں میں سے کسی کو خلیفہ یا امام کہتے ہیں تو اس سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں خودمختار تھا، طاقتور تھا، صاحب سیف تھا۔ عزل ونصب کرتا تھا، اپنے حکام کے اِجراء کی قوت رکھتا تھا۔ حدود شرعی قائم کرتا تھا کفار پر جہاد کرتا تھا۔ یزید کو بھی امام و خلیفہ کہنے سے یہی مطلب ہے اور یہ ایک ایسی واقعی بات ہے کہ اس کا انکار غیر ممکن ہے۔ یزید کے صاحب اختیار بادشاہ ہونے سے انکار کرناایسا ہی ہے جیسے کوئی اس واقعے سے انکار کردے کہ ابو بکر، عمر، عثمان حکمران نہیں تھے یا یہ کہ قیصر و کسریٰ نے کبھی حکومت نہیں کی۔
یہ "خلفاء معصوم نہ تھے: رہا یہ مسئلہ کہ یزید ، عبدالملک، منصور وغیرہ خلفاء نیک تھے یا بد؟ صالح تھے یا فاجر؟ تو علماء اہل سنت نہ انہیں معصوم سمجھتے ہیں نہ ان کے تمام احکام و اعمال کو عدل و انصاف قرار دیتے ہیں اور نہ ہر بات میں ان کی اطاعت واجب تصور کرتے ہیں۔البتہ اہل سنت والجماعت کا یہ خیال ضرور ہے کہ عبادت و طاعت کے بہت سے کام ایسے ہیں جن میں ہمیں ان کی ضرورت ہے ۔ مثلاً یہ کہ ان کے پیچھے جمعہ وعیدین کی نمازیں قائم کی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ کفار پر جہاد کیا جاتا ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور حدود شرعیہ کے قیام میں ان سے مدد ملتی ہے نیز اسی نوع کے دوسرے معاملات ہیں، اگر حکام نہ ہوں تو ان اعمال کا ضائع ہوجانا اغلب ہے بلکہ ان میں سے بعض کا موجود ہونا ہی غیر ممکن ہے۔
نصب امام کے چند اصول: اہل سنت کے اس طریقہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اعمال صالحہ انجام دینے میں اگر نیکوں کے ساتھ برے بھی شامل ہوں تو اس سے نیکوں کے عمل کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ بلاشبہ یہ بالکل درست ہے کہ اگر عادل صالح امام کا نصب ممکن ہو تو فاجر و مبتدع شخص کو امام بنانا جائز نہیں، اہل سنت کا بھی یہی مذہب ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو بلکہ امامت کے دونوں مدعی فاجر اور مبتدع ہوں تو ظاہر ہے کہ حدود شرعیہ وعبادات دینیہ کے قیام کےلیے دونوں میں سے زیادہ اہلیت و قابلیت والے کو منتخب کیا جائے گا۔ ایک تیسری صورت بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی ایسا شخص موجود ہو جو صالح ہو مگر سپہ سالاری کے فرائض و واجبات ادا کرنے کا اہل نہ ہو۔ اس کے خلاف ایک فاجر شخص ہو جو بہترین طریق پر فوجون کی قیادت کرسکتا ہو تو جس حد تک جنگی مقاصد کا تعلق ہے، یقیناً اسی آخر الذکر یعنی فاجر کو سربراہ بنانا پڑے گا۔ نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت و امداد کی جائے گی۔ بدی اور برائی میں اس پر اعتراض و انکار کیا جائے گا۔
حفظ مصالح اور دفع مفاسد: غرض امت کی مصلحتوں کا لحاظ مقدم ہے اگر کسی فعل میں بھلائی اور برائی دونوں موجود ہوں تو دیکھا جائے گا کہ کس کا پلہ بھاری ہے اگر بھلائی زیادہ نظر آئے تو اس فعل کو پسند کیا جائے گا۔ اگر برائی غالب دکھائی دے تو اس کے ترک کو ترجیح دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے نبیٔ کریم ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ مصالح کی تائید وتکمیل فرمائیں اور مفاسد مٹائیں یا کم کریں۔ یزید ، عبدالملک اور منصور جیسے خلفاء کی اطاعت اسی لیے کی گئی کہ ان کی مخالفت میں امت کےلیے نقصان ، نفع سے زیادہ تھا۔ تاریخ شاہد ہےکہ ان خلفاء پر جن لوگوں نے خروج کیا ان سے امت کو سراسر نقصان ہی پہنچا، نفع ذرا بھی نہیں ہوا۔ بلاشبہ ان خروج کرنے والوں میں بڑے بڑے اخیار وفضلاء بھی شامل تھے مگر ان کی نیکی وخوبی سے ان کا یہ فعل لازماً مفید نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اپنے خروج سے نہ دین کو فائدہ پہنچایا اور نہ دنیوی نفع ہی حاصل کیا۔ اور معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل کا حکم نہیں دیتا جس میں نہ دنیا کا بھلا ہو نہ دین کا، جن لوگوں نے خروج کیا ان سے کہیں زیادہ افضل حضرت علی ، طلحہ ، زبیر، عائشہ وغیرہم صحابہ تھے مگر خود انہوں نے اپنی خونریزی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
عہد فتن میں خروج کی ممانعت: یہی وجہ ہے کہ حسن بصری حجاج بن یوسف ثقفی کے خلاف بغاوت سے روکتے تھے اور کہتے تھے "حجاج اللہ کا عذاب ہے اسے اپنے ہاتھوں کے زور سے دور کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اللہ کے سامنے تضرع و زاری کرو کیونکہ اس نے فرمایا ہے:
[qh]وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ [/qh](المؤمنون ۷۶/۲۳)
"ہم نے ان کی عذاب کے ذریعے گرفت کی۔ انہوں نے پھر بھی اپنے رب کے سامنے نہ عاجزی کا اظہار کیا اور نہ اس کے حضور گڑگڑائے۔"
اسی طرح اور اخیار وابرار بھی خلفاء پر خروج اور عہد فتنہ میں جنگ سے منع کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر، سعید بن المسیب، حضرت زین العابدین، علی بن حسین وغیرہم اکابر صحابہ وتابعین جنگ حرہ کے زمانے میں یزید کے خلاف بغاوت کرنے سے روکتے تھے۔ احادیث صحیحہ بھی اسی مسلک کی مؤید ہیں اسی لیے اہل سنت کے نزدیک یہ تقریباً متفق علیہ مسئلہ ہے کہ عہدفتن میں قتال وجدال سے اجتناب اور جور ائمہ پر صبر کیا جائے، وہ یہ مسئلہ اپنے عقائد میں بھی ذکر کرتے رہے ہیں اور جو شخص متعلقہ احادیث اور اہل سنت کے صاحب بصیرت علماء کے طرز عمل وفکر میں تامل کرے گا اس پر اس مسلک کی صحت و صداقت بالکل واضح ہوجائے گی۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عزم عراق: اسی لیے جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق جانے کا رادہ کیا تو اکابر اہل علم وتقویٰ مثلاً عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس ، ابوبکر بن عبدالرحمن حارث نے ان سے بہ منت کہا کہ وہاں نہ جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے آپ ضرور شہید ہوجائیں گے۔ حتی کہ روانگی کے وقت بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ [font="_pdms_saleem_quranfont"]استودعک اللہ من قتیل [/font]"اے شہید! ہم تجھے اللہ کو سونپتے ہیں۔"
اور بعضوں نے کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"] ((لو الشناعۃ لأمسکتک ومنعتک من الخروج))[/font]
"اگر بے ادبی نہ ہوتی تو ہم آپ کو زبردستی پکڑ لیتے اور ہرگز جانے نہ دیتے۔"
اس مشورے سے ان لوگوں کےمدنظر صرف آپ کی خیرخواہی اور مسلمانوں کی مصلحت تھی مگر حضرت حسین اپنے ارادے پر قائم رہے۔آدمی کی رائے کبھی درست ہوتی ہے اور کبھی غلط ہوجاتی ہے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ حضرت حسین کو عراق جانے سے روکنے والوں ہی کی رائے درست تھی کیونکہ آپ کے جانے سے ہرگز کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل نہ ہوئی بلکہ یہ مضرت پیدا ہوئی کہ سرکشوں اور ظالموں کو رسول اللہ ﷺ کے جگر گوشے پر قابو مل گیا اور وہ مظلوم شہید کردیئے گئے۔ آپ کے جانے اور پھر قتل سے جتنے مفاسد پیدا ہوئے وہ ہرزگ واقع نہ ہوتے اگر آپ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے کیونکہ جس خیر وصلاح کے قیام اور شروفساد کے دفعیہ کےلیے آپ اٹھے تھے اس میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ برعکس اس کے شر کو غلبہ اور عروج حاصل ہوگیا۔ خیرو وصلاح میں کمی آگئی اور بہت بڑے دائمی فتنے کا دروازہ کھل گیا جس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے فتنے پھیلے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے بھی فتنوں کے سیلاب بہادیئے۔
حضرت حسین کا مقام بلند: اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ٔ کریم ﷺ کا ائمہ و خلفاء کے ظلم پر صبر کرنے اور ان سے جنگ وبغاوت نہ کرنے کا حکم مناسب اور امت کے دین ودنیا کےلیے زیادہ بہتر تھا اور جنہوں نے بالقصد یا بلا قصد اس کی مخالفت کی۔ ان کے فعل سے امت کو فائدہ کے بجائے نقصان ہی پہنچا۔ یہی سبب ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرمایا تھا:
[qh]((إٍنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ))[/qh] (صحیح البخاری، الصلح، ح:۲۷۰۴)
"میرا یہ فرزند سردا رہے عنقریب خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔"
لیکن اس بات پر کسی شخص کی بھی تعریف نہیں کی کہ وہ فتنہ میں پڑے گا یا خلفاء پر خروج کرے گا یا اطاعت سے برگشتہ یا جماعت سے منحرف ہوگا۔ اس حدیث سے صاف ثابت ہوتاہے کہ دو گروہوں میں صلح کرانا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں مستحسن ومحبوب ہے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا خلافت سے دستبردار ہوکر مسلمانوں کی خونریزی کا خاتمہ کردینا ان کے فضائل میں ایک عظیم ترین فضیلت ہے کیونکہ اگر خانہ جنگی واجب و مستحب ہوتی تو آنحضرتﷺ اس کے ترک پر ہرگز تعریف نہ فرماتے۔
یہاں یہ معلوم کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ نبی ﷺ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک ساتھ گود میں لے کر فرمایا کرتے تھے۔ "اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی محبت کر۔" چنانچہ جس طرح آپ اپنی محبت میں دونوں کو یکساں شریک کرتے تھے اسی طرح بعد میں یہ دونوں ان خانہ جنگیوں سے یکساں طور پر نفرت کرتے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تو جنگ صفین کے دن اپنے گھر بیٹھ رہے تھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے پدر برادر (حضر ت علی اور حسین رضی اللہ عنہما) کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ پھر جب خود بااختیار ہوئے تو جنگ سے دستبردار ہوگئے اور لڑنے والوں میں صلح قائم کردی۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی آخر میں یہ حقیقت روشن ہوگئی تھی کہ جنگ کے جاری رہنے سے زیادہ اس کے ختم ہوجانے میں مصلحت ہے۔ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی کربلا پہنچ کر جنگ سے بیزار اور سرے سے دعویٰ ٔ امارت وخلافت ہی سے دستبردار ہوگئے تھے اور کہتے تھے "مجھے وطن لوٹ جانے دو۔"
اطاعت فی المعروف: اب یہ بات صاف ہوگئی کہ یزید کا معاملہ کوئی خاص جداگانہ معاملہ نہیں بلکہ دوسرے مسلمان بادشاہوں کا سا معاملہ ہے یعنی جس کسی نے طاعت الہٰی مثلاً نماز، حج، جہاد، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اقامت حدود شرعیہ میں ان کی موافقت کی اسے اپنی اس نیکی اور اللہ ورسول کی فرمانبرداری پر ثواب ملے گا۔ چنانچہ اس زمانے کے صالح مؤمنین مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا یہی طریقہ تھا۔ لیکن جس نے ان بادشاہوں کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم میں مددگار ہوا، وہ گناہ گار ہوا اور زجر وتوبیخ اور مذمت اور سزا کا سزاوار ۔ یہی باعث ہے کہ صحابہ ٔ کرام یزید وغیرہ امراء کی ماتحتی میں جہاد کو جاتے تھے۔ چنانچہ جب یزید نے اپنے باپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں قسطنطنیہ کا غزوہ کیا تو اس کی فوج میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی شریک تھے۔ یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی فوج ہے جس نے قسطنطنیہ کا غزوہ کیا(1)اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
[qh]((أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ ))[/qh] (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
"جو فوج سب سے پہلے قسطنطنیہ کا غزوہ کرے گی وہ مغفور یعنی بخشی بخشائی ہے۔"
یزید کے بارے میں افراط وتفریط: اس تفصیل کے بعد اب ہم کہتے ہیں کہ یزید کے بارے میں لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا ہےایک گروہ تو اسے خلفائے راشدین اور انبیائے مقربین میں سے سمجھتا ہے اور یہ سراسر غلط ہے دوسرا گروہ اسے باطن میں کافر و منافق بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے قصداً حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور مدینہ میں قتل عام کرایا تاکہ ااپنے ان رشتہ داروں کے خون کا انتقام لے جو بدرو خندق وغیرہ کی جنگوں میں بنی ہاشم اور انصار ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور یہ کہ حضرت حسین کی شہادت کے بعد اس نے یہ شعر پڑھے تھے۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لما بدت تلک الحمول وأشرفت
تلک الرؤوس علی أبی جیرون[/font]
"جب وہ سواریاں اور سرابوجیرون کی بلندیوں پر نمودار ہوئے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]نعق الغراب فقلت نح أو لا تنح
فلقد قضیت من النبی دیونی[/font]
"تو کوا چلایا ۔ اس پر میں نے کہا تو نوحہ کر یا نہ کر میں نے تو نبی سے اپنا قرض پورا پورا وصول کرلیا!"
یا یہ کہ اس نے کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لیت أشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الأسل[/font]
"کاش میرے بدر والے بزرگ ، نیزوں کی مار سے خزرج وانصار کی دہشت دیکھتے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]قد قتلنا القرون من ساداتھم
وعدلنا ببدر فاعتدل[/font]
"ہم نے ان کے سرداروں میں چوٹی کے سردار قتل کرڈالے اور اس طرح بدر کا بدلہ اتار دیا۔"
یہ تمام اقوال سراسر بہتان اور جھوٹ ہیں۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]حقیقت حال:[/font] حقیقت یہ ہےکہ یزید مسلمان بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اور دنیادار خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھا۔ رہے حسین رضی اللہ عنہ تو بلاشبہ وہ اسی طرح مظلوم شہید ہوئے جس طرح اور بہت سے صالحین ظلم وقہر کے ہاتھوں جام شہادت پی چکے تھے۔ لاریب حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اللہ اور اس کے رسول کی معصیت اور نافرمانی ہے۔ اس سے وہ تمام لوگ آلودہ ہیں جنہوں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا یا قتل میں مدد کی یا قتل کو پسند کیا۔
شہادت کا رتبہ ٔ بلند: شہادت حسین رضی اللہ عنہ اگرچہ امت کےلیے بہت بڑی مصیبت ہے لیکن خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حق میں ہرگز مصیبت نہیں، بلکہ شہادت، عزت اور علومنزلت ہے۔ یہ سعادت بغیر مصائب ومحن میں پڑے حاصل نہیں ہوسکتی چونکہ نبی ﷺ کے دونوں نواسے (حضرت حسین اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما ) گہوارۂ اسلام میں پیدا ہوئے، امن و امان کی گود میں پلے اور ہولناک مصائب سے دور رہے جن کے طوفانوں میں ان کے اہل بیت مردانہ وار تیرتے پھرتے تھے۔اس لیے شہداء خوش بخت کے اعلیٰ درجات ِ منازل تک پہنچنے کےلیے انہیں کٹھن مرحلے سے گزرنا ضرور تھا۔ چنانچہ دونوں گزر گئے۔ ایک کو زہر دیا گیا اور دوسرے کے گلے پر چھری پھیری گئی۔
بڑی بڑی اہم شہادتیں: لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کسی حال میں بھی ان انبیاء کے قتل سے زیادہ گناہ اور مصیبت نہیں جنہیں بنی اسرائیل قتل کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل بھی ان کے قتل سے زیادہ گناہ اور امت کے لیے زیادہ بڑی مصیبت تھا۔
صبر، نہ کہ جزع فزع: یہ حوادث کتنے ہی دردناک ہوں بہرحال ان پر صبر کرنا، اور [qh]إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ [/qh] کہنا چاہیے کیونکہ اس سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔ فرمایا: [qh]وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ[/qh](البقرۃ ۱۵۵/۲۔۱۵۶)
"ان صبر گزاروں کو خوشخبری دے دیجئے جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی زبان پر [qh]إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ[/qh] جاری ہوجاتا ہے۔"
ماتم اور بین کرنے والے ہم میں سے نہیں: حدیث صحیح میں آیا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: [qh]((لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ))[/qh] (صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منا۔۔۔، ح:۱۲۹۴)
"جس نے منہ پیٹا، گریبان چاک کیا اور جاہلیت کے بین کیے وہ ہم میں سے نہیں۔"
نیز نبی ﷺ نے صَالِقَہ، حَالِقَہ اور شَاقَّہ سے اپنے تئیں بری بتایا ہے:
[qh]((إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِئَ مِنْ الصَّالِقَةِ وَالْحَالِقَةِ وَالشَّاقَّةِ))[/qh] (صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من الحلق عند المصیبۃ، ح:۱۲۹۶)
صالقہ بین کرنے والی عورتیں" حالقہ غم سے بال منڈا ڈالنے والی اور شاقّہ گریبان پھاڑنے والی عورتیں۔
نیز فرمایا:
[qh] ((النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ))[/qh] (صحیح مسلم، الجنائز، باب التشدید فی النیاحۃ، ح:۹۳۴)
"نوحہ کرنے والی عورتیں اگر توبہ کے بغیر مرجائیں گے تو انہیں قیامت کے دن خارشی قمیص اور گندھک کا جامہ پہنا کر کھڑا کیا جائے گا۔"
اس قسم کی ایک عورت حضرت عمر کے پاس لائی گئی تو آپ نے اسے مارنے کا حکم دیا۔ سزا کے دوران میں اس کا سر کھل گیا تو لوگوں نے عرض کیا۔ امیر المؤمنین اس کا سر برہنہ ہوگیا ہے۔ فرمایا کچھ پروا نہیں۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((لا حرمۃ لھا إنہا تنہی عن الصبر وقد أمر اللہ بہ وتأمر بالجزع وقد نہی اللہ عنہ وتفتن الحی وتؤذی المیت وتبیع عبرتھا وتبکی بشجو غیرھا إنہا لا تبکی علی میتکم إنما تبکی علی أخذ دراھمکم))[/font]
"اس کی کوئی حرمت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کو مصیبت میں صبر کرنے سے منع کرتی ہے حالانکہ اللہ نے صبر کا حکم دیا ہے، اور یہ رونے کی ترغیب دیتی ہے حالانکہ اللہ نے اس سے منع کیا ہے۔ زندہ کو فتنے میں ڈالتی ہے۔ مردہ کو تکلیف دیتی ہے۔ اپنے آنسو فروخت کرتی ہے۔ اور دوسروں کےلیے بناوٹ سے روتی ہے یہ تمہاری میت پر نہیں روتی بلکہ تمہارا پیسہ لینے کےلیے آنسو بہاتی ہے۔"
شہادت حسین کے بارے میں افراط وتفریط: جس طرح لوگوں نے یزید کے بارے میں افراط و تفریط سے کام لیا ہے اسی طرح بعضوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بے اعتدالی برتی ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے۔ (معاذ اللہ!)
"ان کا قتل درست اور شریعت کے مطابق ہوا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور جماعت کو توڑنے کی کوشش کی تھی اور جو ایسا کرے اس کا قتل واجب ہے کیونکہ نبی ﷺ فرما چکے ہیں:
[qh] ((مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ))[/qh] (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وہو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
"اتفاق کی صورت میں جو تم میں پھوٹ ڈالنے آئے اسے قتل کرڈالو۔"
حضرت حسین بھی پھوٹ ڈالنا چاہتے تھے اس لیے بجا طور قتل کر ڈالے گئے۔"
بلکہ بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ "اسلام میں اولین باغی حسین ہے۔"
ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ کہتا ہے:
"حضرت حسین امام برحق تھے ان کی اطاعت واجب تھی ان کے بغیر ایمان کا کوئی تقاضا بھی پورا نہیں ہوسکتا۔ جماعت اور جمعہ اسی کے پیچھے درست ہے جسے انہوں نے مقرر کیا اور جہاد نہیں ہوسکتا جب تک ان کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو۔"
مقابلے کا ارادہ ترک کردیا: ان دونوں نہایت غلطیوں کے درمیان اہلسنت ہیں وہ نہ پہلے گروہ کے ہمنوا ہیں اور نہ دوسرے گروہ کے۔ ان کا خیال ہے کہ حضرت حسین مظلوم شہید کیے گئے ان کے ہاتھ امت کی سیاسی باگ دوڑ نہیں آئی۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا احادیث ان پر چسپاں نہیں ہوتیں کیونکہ جب انہیں اپنے بھائی مسلم بن عقیل کا انجام معلوم ہوا تو وہ اپنے اس ارادے سے دستبردار ہوگئے(2)تھے اور فرماتے (3)تھے۔
"مجھے وطن جانے دو یا کسی سرحد پر مسلمانوں کی فوج سے جا ملنے دو یا خود یزید کے پاس پہنچنے دو(4)مگر مخالفین نے ان کی کوئی بات بھی نہ مانی اور اسیری قبول کرنے پر اصرار کیا جسے انہوں نے نامنظور کردیا کیونکہ اسے منظور کرنا ان پر شرعاً واجب نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہ غزوہ ۵۱ھ میں ہوا جس میں حضرت حسین یزید کی ماتحتی میں شریک تھے (البدایہ، ص:۱۵۱، ج:۸) ظاہر ہے اس اثناء میں نمازیں بھی یزید کے پیچھے پڑھتےرہے۔ (ص،ی)
(2) یعنی راستے ہی سے واپس مکہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن مسلم کے بھائیوں کے اصرار کا ساتھ دینا پڑا جیسا کہ شیعہ سنی سب تاریخوں میں ہے۔ (ص،ی)
(3) یعنی منزل مقصود پر پہنچ کر جب ابن زیاد کی فوج کے سربراہ عمر بن سعد سے گفتگوئے مصالحت کے سلسلے میں حضرت حسین نے متن میں مذکور تین باتیں فرمائیں
(4) اس تیسری بات کے بارے میں تاریخ طبری ۲۹۳/۴ میں یہ الفاظ ہیں:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((فأضع یدی فی یدہ فیحکم فی ما رأیٰ)) [/font](البدایۃ: ۱۷۱/۸)
"میں براہ راست یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا (بیعت کرلوں گا) پھر و ہ جیسا کہ مناسب سمجھے کر لے گا۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی ایک جگہ یہ الفاظ ذکر کیے ہیں:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((وطلب أن یردوہ إلی یزید ابن عمہ حتی یضع یدہ فی یدہ أو یرجع من حیث جآء أو یلحق الثغور))[/font] (رأس الحسین، ص:۲۰)
مطلب وہی ہے جو متن میں ہے۔ (ص،ی)[/font]
تمہید: علماء اسلام میں کوئی ایک بھی یزید بن معاویہ کو ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کی طرح خلفائے راشدین میں سے نہیں سمجھتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((خلافۃ النبوۃ ثلاثون سنۃ ثم یؤتی اللہ الملک من یشآء)) (سنن أبی داؤد، السنۃ، باب فی الخلفاء، ح:۴۶۴۷)
"خلافت تیس برس تک منہاج نبوت پر رہے گی پھر سلطنت ہوجائے گی۔"
علماء اہل سنت اس حدیث کے مطابق یزید اور اس جیسے آدمی اور عباسی خلفاء کو محض فرمانروا بادشاہ اور اسی معنی میں خلیفہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا یہ خیال بالکل درست ہے۔ یہ ایک محسوس واقعہ ہے جس سے انکار غیر ممکن ہے کیونکہ یزید اپنے زمانے میں عملاً ایک بادشاہ، حکمران، ایک صاحب سیف اور خودمختار فرمانروا تھا۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھا اور شام، مصر، عراق خراسان وغیرہ اسلامی ممالک میں اس کا حکم نافذ ہوا۔ حضرت حسین قبل اس کے کہ کسی ملک پر بھی حاکم ہوں، یوم عاشوراء ۶۱ھ میں شہید ہوگئے اور یہی یزید کی سلطنت کا پہلا سال ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر: بلاشبہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید سے اختلاف کیا اور باشندگان مکہ وحجاز نے ان کا ساتھ دیا لیکن یہ واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ نے خلافت کا دعوی یزید کی زندگی میں نہیں کیا بلکہ اس کے مرنے کے بعد کیا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شروع شروع میں اختلاف کرنے کےباوجود عبداللہ بن زبیر یزید کے جیتے جی ہی اس کی بیعت پر رضا مند ہوگئے تھے مگر چونکہ اس نے یہ شرط لگا دی تھی کہ قید ہوکر ان کے حضور میں حاضر ہوں اس لیے بیعت رہ گئی اور باہم جنگ برپا ہوئی۔ پس اگرچہ یزید تمام بلاد اسلامیہ کا حکمران نہیں ہوا۔ اور عبداللہ بن زبیر کا ماتحت علاقہ اس کی اطاعت سے برابر گشتہ رہا، تاہم اس سے اس کی بادشاہت اور خلافت میں شبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلفائے ثلاثہ ابو بکر، عمر، عثمان اور پھر معاویہ بن ابی سفیان ، عبدالملک بن مروان اور اس کی اولاد کے سوا کوئی بھی اموی یا عباسی خلیفہ پورے بلاد اسلامیہ کا تنہا فرمانروا نہیں ہوا۔ حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بھی تمام دنیائے اسلام کی حکومت نہ تھی۔
بادشاہوں پر خلیفہ کا اطلاق؟ پس اگر اہل سنت ان بادشاہوں میں سے کسی کو خلیفہ یا امام کہتے ہیں تو اس سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں خودمختار تھا، طاقتور تھا، صاحب سیف تھا۔ عزل ونصب کرتا تھا، اپنے حکام کے اِجراء کی قوت رکھتا تھا۔ حدود شرعی قائم کرتا تھا کفار پر جہاد کرتا تھا۔ یزید کو بھی امام و خلیفہ کہنے سے یہی مطلب ہے اور یہ ایک ایسی واقعی بات ہے کہ اس کا انکار غیر ممکن ہے۔ یزید کے صاحب اختیار بادشاہ ہونے سے انکار کرناایسا ہی ہے جیسے کوئی اس واقعے سے انکار کردے کہ ابو بکر، عمر، عثمان حکمران نہیں تھے یا یہ کہ قیصر و کسریٰ نے کبھی حکومت نہیں کی۔
یہ "خلفاء معصوم نہ تھے: رہا یہ مسئلہ کہ یزید ، عبدالملک، منصور وغیرہ خلفاء نیک تھے یا بد؟ صالح تھے یا فاجر؟ تو علماء اہل سنت نہ انہیں معصوم سمجھتے ہیں نہ ان کے تمام احکام و اعمال کو عدل و انصاف قرار دیتے ہیں اور نہ ہر بات میں ان کی اطاعت واجب تصور کرتے ہیں۔البتہ اہل سنت والجماعت کا یہ خیال ضرور ہے کہ عبادت و طاعت کے بہت سے کام ایسے ہیں جن میں ہمیں ان کی ضرورت ہے ۔ مثلاً یہ کہ ان کے پیچھے جمعہ وعیدین کی نمازیں قائم کی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ کفار پر جہاد کیا جاتا ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور حدود شرعیہ کے قیام میں ان سے مدد ملتی ہے نیز اسی نوع کے دوسرے معاملات ہیں، اگر حکام نہ ہوں تو ان اعمال کا ضائع ہوجانا اغلب ہے بلکہ ان میں سے بعض کا موجود ہونا ہی غیر ممکن ہے۔
نصب امام کے چند اصول: اہل سنت کے اس طریقہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اعمال صالحہ انجام دینے میں اگر نیکوں کے ساتھ برے بھی شامل ہوں تو اس سے نیکوں کے عمل کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ بلاشبہ یہ بالکل درست ہے کہ اگر عادل صالح امام کا نصب ممکن ہو تو فاجر و مبتدع شخص کو امام بنانا جائز نہیں، اہل سنت کا بھی یہی مذہب ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو بلکہ امامت کے دونوں مدعی فاجر اور مبتدع ہوں تو ظاہر ہے کہ حدود شرعیہ وعبادات دینیہ کے قیام کےلیے دونوں میں سے زیادہ اہلیت و قابلیت والے کو منتخب کیا جائے گا۔ ایک تیسری صورت بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی ایسا شخص موجود ہو جو صالح ہو مگر سپہ سالاری کے فرائض و واجبات ادا کرنے کا اہل نہ ہو۔ اس کے خلاف ایک فاجر شخص ہو جو بہترین طریق پر فوجون کی قیادت کرسکتا ہو تو جس حد تک جنگی مقاصد کا تعلق ہے، یقیناً اسی آخر الذکر یعنی فاجر کو سربراہ بنانا پڑے گا۔ نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت و امداد کی جائے گی۔ بدی اور برائی میں اس پر اعتراض و انکار کیا جائے گا۔
حفظ مصالح اور دفع مفاسد: غرض امت کی مصلحتوں کا لحاظ مقدم ہے اگر کسی فعل میں بھلائی اور برائی دونوں موجود ہوں تو دیکھا جائے گا کہ کس کا پلہ بھاری ہے اگر بھلائی زیادہ نظر آئے تو اس فعل کو پسند کیا جائے گا۔ اگر برائی غالب دکھائی دے تو اس کے ترک کو ترجیح دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے نبیٔ کریم ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ مصالح کی تائید وتکمیل فرمائیں اور مفاسد مٹائیں یا کم کریں۔ یزید ، عبدالملک اور منصور جیسے خلفاء کی اطاعت اسی لیے کی گئی کہ ان کی مخالفت میں امت کےلیے نقصان ، نفع سے زیادہ تھا۔ تاریخ شاہد ہےکہ ان خلفاء پر جن لوگوں نے خروج کیا ان سے امت کو سراسر نقصان ہی پہنچا، نفع ذرا بھی نہیں ہوا۔ بلاشبہ ان خروج کرنے والوں میں بڑے بڑے اخیار وفضلاء بھی شامل تھے مگر ان کی نیکی وخوبی سے ان کا یہ فعل لازماً مفید نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اپنے خروج سے نہ دین کو فائدہ پہنچایا اور نہ دنیوی نفع ہی حاصل کیا۔ اور معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل کا حکم نہیں دیتا جس میں نہ دنیا کا بھلا ہو نہ دین کا، جن لوگوں نے خروج کیا ان سے کہیں زیادہ افضل حضرت علی ، طلحہ ، زبیر، عائشہ وغیرہم صحابہ تھے مگر خود انہوں نے اپنی خونریزی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
عہد فتن میں خروج کی ممانعت: یہی وجہ ہے کہ حسن بصری حجاج بن یوسف ثقفی کے خلاف بغاوت سے روکتے تھے اور کہتے تھے "حجاج اللہ کا عذاب ہے اسے اپنے ہاتھوں کے زور سے دور کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اللہ کے سامنے تضرع و زاری کرو کیونکہ اس نے فرمایا ہے:
[qh]وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ [/qh](المؤمنون ۷۶/۲۳)
"ہم نے ان کی عذاب کے ذریعے گرفت کی۔ انہوں نے پھر بھی اپنے رب کے سامنے نہ عاجزی کا اظہار کیا اور نہ اس کے حضور گڑگڑائے۔"
اسی طرح اور اخیار وابرار بھی خلفاء پر خروج اور عہد فتنہ میں جنگ سے منع کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر، سعید بن المسیب، حضرت زین العابدین، علی بن حسین وغیرہم اکابر صحابہ وتابعین جنگ حرہ کے زمانے میں یزید کے خلاف بغاوت کرنے سے روکتے تھے۔ احادیث صحیحہ بھی اسی مسلک کی مؤید ہیں اسی لیے اہل سنت کے نزدیک یہ تقریباً متفق علیہ مسئلہ ہے کہ عہدفتن میں قتال وجدال سے اجتناب اور جور ائمہ پر صبر کیا جائے، وہ یہ مسئلہ اپنے عقائد میں بھی ذکر کرتے رہے ہیں اور جو شخص متعلقہ احادیث اور اہل سنت کے صاحب بصیرت علماء کے طرز عمل وفکر میں تامل کرے گا اس پر اس مسلک کی صحت و صداقت بالکل واضح ہوجائے گی۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عزم عراق: اسی لیے جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق جانے کا رادہ کیا تو اکابر اہل علم وتقویٰ مثلاً عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس ، ابوبکر بن عبدالرحمن حارث نے ان سے بہ منت کہا کہ وہاں نہ جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے آپ ضرور شہید ہوجائیں گے۔ حتی کہ روانگی کے وقت بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ [font="_pdms_saleem_quranfont"]استودعک اللہ من قتیل [/font]"اے شہید! ہم تجھے اللہ کو سونپتے ہیں۔"
اور بعضوں نے کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"] ((لو الشناعۃ لأمسکتک ومنعتک من الخروج))[/font]
"اگر بے ادبی نہ ہوتی تو ہم آپ کو زبردستی پکڑ لیتے اور ہرگز جانے نہ دیتے۔"
اس مشورے سے ان لوگوں کےمدنظر صرف آپ کی خیرخواہی اور مسلمانوں کی مصلحت تھی مگر حضرت حسین اپنے ارادے پر قائم رہے۔آدمی کی رائے کبھی درست ہوتی ہے اور کبھی غلط ہوجاتی ہے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ حضرت حسین کو عراق جانے سے روکنے والوں ہی کی رائے درست تھی کیونکہ آپ کے جانے سے ہرگز کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل نہ ہوئی بلکہ یہ مضرت پیدا ہوئی کہ سرکشوں اور ظالموں کو رسول اللہ ﷺ کے جگر گوشے پر قابو مل گیا اور وہ مظلوم شہید کردیئے گئے۔ آپ کے جانے اور پھر قتل سے جتنے مفاسد پیدا ہوئے وہ ہرزگ واقع نہ ہوتے اگر آپ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے کیونکہ جس خیر وصلاح کے قیام اور شروفساد کے دفعیہ کےلیے آپ اٹھے تھے اس میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ برعکس اس کے شر کو غلبہ اور عروج حاصل ہوگیا۔ خیرو وصلاح میں کمی آگئی اور بہت بڑے دائمی فتنے کا دروازہ کھل گیا جس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے فتنے پھیلے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے بھی فتنوں کے سیلاب بہادیئے۔
حضرت حسین کا مقام بلند: اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ٔ کریم ﷺ کا ائمہ و خلفاء کے ظلم پر صبر کرنے اور ان سے جنگ وبغاوت نہ کرنے کا حکم مناسب اور امت کے دین ودنیا کےلیے زیادہ بہتر تھا اور جنہوں نے بالقصد یا بلا قصد اس کی مخالفت کی۔ ان کے فعل سے امت کو فائدہ کے بجائے نقصان ہی پہنچا۔ یہی سبب ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرمایا تھا:
[qh]((إٍنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ))[/qh] (صحیح البخاری، الصلح، ح:۲۷۰۴)
"میرا یہ فرزند سردا رہے عنقریب خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔"
لیکن اس بات پر کسی شخص کی بھی تعریف نہیں کی کہ وہ فتنہ میں پڑے گا یا خلفاء پر خروج کرے گا یا اطاعت سے برگشتہ یا جماعت سے منحرف ہوگا۔ اس حدیث سے صاف ثابت ہوتاہے کہ دو گروہوں میں صلح کرانا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں مستحسن ومحبوب ہے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا خلافت سے دستبردار ہوکر مسلمانوں کی خونریزی کا خاتمہ کردینا ان کے فضائل میں ایک عظیم ترین فضیلت ہے کیونکہ اگر خانہ جنگی واجب و مستحب ہوتی تو آنحضرتﷺ اس کے ترک پر ہرگز تعریف نہ فرماتے۔
یہاں یہ معلوم کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ نبی ﷺ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک ساتھ گود میں لے کر فرمایا کرتے تھے۔ "اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی محبت کر۔" چنانچہ جس طرح آپ اپنی محبت میں دونوں کو یکساں شریک کرتے تھے اسی طرح بعد میں یہ دونوں ان خانہ جنگیوں سے یکساں طور پر نفرت کرتے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تو جنگ صفین کے دن اپنے گھر بیٹھ رہے تھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے پدر برادر (حضر ت علی اور حسین رضی اللہ عنہما) کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ پھر جب خود بااختیار ہوئے تو جنگ سے دستبردار ہوگئے اور لڑنے والوں میں صلح قائم کردی۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی آخر میں یہ حقیقت روشن ہوگئی تھی کہ جنگ کے جاری رہنے سے زیادہ اس کے ختم ہوجانے میں مصلحت ہے۔ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی کربلا پہنچ کر جنگ سے بیزار اور سرے سے دعویٰ ٔ امارت وخلافت ہی سے دستبردار ہوگئے تھے اور کہتے تھے "مجھے وطن لوٹ جانے دو۔"
اطاعت فی المعروف: اب یہ بات صاف ہوگئی کہ یزید کا معاملہ کوئی خاص جداگانہ معاملہ نہیں بلکہ دوسرے مسلمان بادشاہوں کا سا معاملہ ہے یعنی جس کسی نے طاعت الہٰی مثلاً نماز، حج، جہاد، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اقامت حدود شرعیہ میں ان کی موافقت کی اسے اپنی اس نیکی اور اللہ ورسول کی فرمانبرداری پر ثواب ملے گا۔ چنانچہ اس زمانے کے صالح مؤمنین مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا یہی طریقہ تھا۔ لیکن جس نے ان بادشاہوں کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم میں مددگار ہوا، وہ گناہ گار ہوا اور زجر وتوبیخ اور مذمت اور سزا کا سزاوار ۔ یہی باعث ہے کہ صحابہ ٔ کرام یزید وغیرہ امراء کی ماتحتی میں جہاد کو جاتے تھے۔ چنانچہ جب یزید نے اپنے باپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں قسطنطنیہ کا غزوہ کیا تو اس کی فوج میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی شریک تھے۔ یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی فوج ہے جس نے قسطنطنیہ کا غزوہ کیا(1)اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
[qh]((أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ ))[/qh] (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
"جو فوج سب سے پہلے قسطنطنیہ کا غزوہ کرے گی وہ مغفور یعنی بخشی بخشائی ہے۔"
یزید کے بارے میں افراط وتفریط: اس تفصیل کے بعد اب ہم کہتے ہیں کہ یزید کے بارے میں لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا ہےایک گروہ تو اسے خلفائے راشدین اور انبیائے مقربین میں سے سمجھتا ہے اور یہ سراسر غلط ہے دوسرا گروہ اسے باطن میں کافر و منافق بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے قصداً حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور مدینہ میں قتل عام کرایا تاکہ ااپنے ان رشتہ داروں کے خون کا انتقام لے جو بدرو خندق وغیرہ کی جنگوں میں بنی ہاشم اور انصار ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور یہ کہ حضرت حسین کی شہادت کے بعد اس نے یہ شعر پڑھے تھے۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لما بدت تلک الحمول وأشرفت
تلک الرؤوس علی أبی جیرون[/font]
"جب وہ سواریاں اور سرابوجیرون کی بلندیوں پر نمودار ہوئے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]نعق الغراب فقلت نح أو لا تنح
فلقد قضیت من النبی دیونی[/font]
"تو کوا چلایا ۔ اس پر میں نے کہا تو نوحہ کر یا نہ کر میں نے تو نبی سے اپنا قرض پورا پورا وصول کرلیا!"
یا یہ کہ اس نے کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لیت أشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الأسل[/font]
"کاش میرے بدر والے بزرگ ، نیزوں کی مار سے خزرج وانصار کی دہشت دیکھتے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]قد قتلنا القرون من ساداتھم
وعدلنا ببدر فاعتدل[/font]
"ہم نے ان کے سرداروں میں چوٹی کے سردار قتل کرڈالے اور اس طرح بدر کا بدلہ اتار دیا۔"
یہ تمام اقوال سراسر بہتان اور جھوٹ ہیں۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]حقیقت حال:[/font] حقیقت یہ ہےکہ یزید مسلمان بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اور دنیادار خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھا۔ رہے حسین رضی اللہ عنہ تو بلاشبہ وہ اسی طرح مظلوم شہید ہوئے جس طرح اور بہت سے صالحین ظلم وقہر کے ہاتھوں جام شہادت پی چکے تھے۔ لاریب حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اللہ اور اس کے رسول کی معصیت اور نافرمانی ہے۔ اس سے وہ تمام لوگ آلودہ ہیں جنہوں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا یا قتل میں مدد کی یا قتل کو پسند کیا۔
شہادت کا رتبہ ٔ بلند: شہادت حسین رضی اللہ عنہ اگرچہ امت کےلیے بہت بڑی مصیبت ہے لیکن خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حق میں ہرگز مصیبت نہیں، بلکہ شہادت، عزت اور علومنزلت ہے۔ یہ سعادت بغیر مصائب ومحن میں پڑے حاصل نہیں ہوسکتی چونکہ نبی ﷺ کے دونوں نواسے (حضرت حسین اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما ) گہوارۂ اسلام میں پیدا ہوئے، امن و امان کی گود میں پلے اور ہولناک مصائب سے دور رہے جن کے طوفانوں میں ان کے اہل بیت مردانہ وار تیرتے پھرتے تھے۔اس لیے شہداء خوش بخت کے اعلیٰ درجات ِ منازل تک پہنچنے کےلیے انہیں کٹھن مرحلے سے گزرنا ضرور تھا۔ چنانچہ دونوں گزر گئے۔ ایک کو زہر دیا گیا اور دوسرے کے گلے پر چھری پھیری گئی۔
بڑی بڑی اہم شہادتیں: لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کسی حال میں بھی ان انبیاء کے قتل سے زیادہ گناہ اور مصیبت نہیں جنہیں بنی اسرائیل قتل کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل بھی ان کے قتل سے زیادہ گناہ اور امت کے لیے زیادہ بڑی مصیبت تھا۔
صبر، نہ کہ جزع فزع: یہ حوادث کتنے ہی دردناک ہوں بہرحال ان پر صبر کرنا، اور [qh]إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ [/qh] کہنا چاہیے کیونکہ اس سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔ فرمایا: [qh]وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ[/qh](البقرۃ ۱۵۵/۲۔۱۵۶)
"ان صبر گزاروں کو خوشخبری دے دیجئے جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی زبان پر [qh]إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ[/qh] جاری ہوجاتا ہے۔"
ماتم اور بین کرنے والے ہم میں سے نہیں: حدیث صحیح میں آیا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: [qh]((لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ))[/qh] (صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منا۔۔۔، ح:۱۲۹۴)
"جس نے منہ پیٹا، گریبان چاک کیا اور جاہلیت کے بین کیے وہ ہم میں سے نہیں۔"
نیز نبی ﷺ نے صَالِقَہ، حَالِقَہ اور شَاقَّہ سے اپنے تئیں بری بتایا ہے:
[qh]((إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِئَ مِنْ الصَّالِقَةِ وَالْحَالِقَةِ وَالشَّاقَّةِ))[/qh] (صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من الحلق عند المصیبۃ، ح:۱۲۹۶)
صالقہ بین کرنے والی عورتیں" حالقہ غم سے بال منڈا ڈالنے والی اور شاقّہ گریبان پھاڑنے والی عورتیں۔
نیز فرمایا:
[qh] ((النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ))[/qh] (صحیح مسلم، الجنائز، باب التشدید فی النیاحۃ، ح:۹۳۴)
"نوحہ کرنے والی عورتیں اگر توبہ کے بغیر مرجائیں گے تو انہیں قیامت کے دن خارشی قمیص اور گندھک کا جامہ پہنا کر کھڑا کیا جائے گا۔"
اس قسم کی ایک عورت حضرت عمر کے پاس لائی گئی تو آپ نے اسے مارنے کا حکم دیا۔ سزا کے دوران میں اس کا سر کھل گیا تو لوگوں نے عرض کیا۔ امیر المؤمنین اس کا سر برہنہ ہوگیا ہے۔ فرمایا کچھ پروا نہیں۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((لا حرمۃ لھا إنہا تنہی عن الصبر وقد أمر اللہ بہ وتأمر بالجزع وقد نہی اللہ عنہ وتفتن الحی وتؤذی المیت وتبیع عبرتھا وتبکی بشجو غیرھا إنہا لا تبکی علی میتکم إنما تبکی علی أخذ دراھمکم))[/font]
"اس کی کوئی حرمت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کو مصیبت میں صبر کرنے سے منع کرتی ہے حالانکہ اللہ نے صبر کا حکم دیا ہے، اور یہ رونے کی ترغیب دیتی ہے حالانکہ اللہ نے اس سے منع کیا ہے۔ زندہ کو فتنے میں ڈالتی ہے۔ مردہ کو تکلیف دیتی ہے۔ اپنے آنسو فروخت کرتی ہے۔ اور دوسروں کےلیے بناوٹ سے روتی ہے یہ تمہاری میت پر نہیں روتی بلکہ تمہارا پیسہ لینے کےلیے آنسو بہاتی ہے۔"
شہادت حسین کے بارے میں افراط وتفریط: جس طرح لوگوں نے یزید کے بارے میں افراط و تفریط سے کام لیا ہے اسی طرح بعضوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بے اعتدالی برتی ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے۔ (معاذ اللہ!)
"ان کا قتل درست اور شریعت کے مطابق ہوا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور جماعت کو توڑنے کی کوشش کی تھی اور جو ایسا کرے اس کا قتل واجب ہے کیونکہ نبی ﷺ فرما چکے ہیں:
[qh] ((مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ))[/qh] (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وہو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
"اتفاق کی صورت میں جو تم میں پھوٹ ڈالنے آئے اسے قتل کرڈالو۔"
حضرت حسین بھی پھوٹ ڈالنا چاہتے تھے اس لیے بجا طور قتل کر ڈالے گئے۔"
بلکہ بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ "اسلام میں اولین باغی حسین ہے۔"
ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ کہتا ہے:
"حضرت حسین امام برحق تھے ان کی اطاعت واجب تھی ان کے بغیر ایمان کا کوئی تقاضا بھی پورا نہیں ہوسکتا۔ جماعت اور جمعہ اسی کے پیچھے درست ہے جسے انہوں نے مقرر کیا اور جہاد نہیں ہوسکتا جب تک ان کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو۔"
مقابلے کا ارادہ ترک کردیا: ان دونوں نہایت غلطیوں کے درمیان اہلسنت ہیں وہ نہ پہلے گروہ کے ہمنوا ہیں اور نہ دوسرے گروہ کے۔ ان کا خیال ہے کہ حضرت حسین مظلوم شہید کیے گئے ان کے ہاتھ امت کی سیاسی باگ دوڑ نہیں آئی۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا احادیث ان پر چسپاں نہیں ہوتیں کیونکہ جب انہیں اپنے بھائی مسلم بن عقیل کا انجام معلوم ہوا تو وہ اپنے اس ارادے سے دستبردار ہوگئے(2)تھے اور فرماتے (3)تھے۔
"مجھے وطن جانے دو یا کسی سرحد پر مسلمانوں کی فوج سے جا ملنے دو یا خود یزید کے پاس پہنچنے دو(4)مگر مخالفین نے ان کی کوئی بات بھی نہ مانی اور اسیری قبول کرنے پر اصرار کیا جسے انہوں نے نامنظور کردیا کیونکہ اسے منظور کرنا ان پر شرعاً واجب نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہ غزوہ ۵۱ھ میں ہوا جس میں حضرت حسین یزید کی ماتحتی میں شریک تھے (البدایہ، ص:۱۵۱، ج:۸) ظاہر ہے اس اثناء میں نمازیں بھی یزید کے پیچھے پڑھتےرہے۔ (ص،ی)
(2) یعنی راستے ہی سے واپس مکہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن مسلم کے بھائیوں کے اصرار کا ساتھ دینا پڑا جیسا کہ شیعہ سنی سب تاریخوں میں ہے۔ (ص،ی)
(3) یعنی منزل مقصود پر پہنچ کر جب ابن زیاد کی فوج کے سربراہ عمر بن سعد سے گفتگوئے مصالحت کے سلسلے میں حضرت حسین نے متن میں مذکور تین باتیں فرمائیں
(4) اس تیسری بات کے بارے میں تاریخ طبری ۲۹۳/۴ میں یہ الفاظ ہیں:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((فأضع یدی فی یدہ فیحکم فی ما رأیٰ)) [/font](البدایۃ: ۱۷۱/۸)
"میں براہ راست یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا (بیعت کرلوں گا) پھر و ہ جیسا کہ مناسب سمجھے کر لے گا۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی ایک جگہ یہ الفاظ ذکر کیے ہیں:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((وطلب أن یردوہ إلی یزید ابن عمہ حتی یضع یدہ فی یدہ أو یرجع من حیث جآء أو یلحق الثغور))[/font] (رأس الحسین، ص:۲۰)
مطلب وہی ہے جو متن میں ہے۔ (ص،ی)[/font]