• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سانحہ کربلا اور یزید و حسین شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی نظر میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
سانحۂ شہادت حسین اور واقعات کربلا کے موضوع پر آج سے کئی صدیاں قبل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (۶۶۱۔۷۲۸ھ) نے جو کچھ لکھا تھا، وہ حق واعتدال کا ایک بہترین نمونہ، دلائل و براہین کا نادر مرقع اور خداداد فہم صحیح کا شاہکار ہے، انہوں نے اپنی تالیفات میں متعدد مقامات پر اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ بالخصوص "منہاج السنۃ" میں اس پر بڑی عمدہ بحث فرمائی ہے جس کی ضروری تلخیص مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی مرحوم نے اردو میں کرکے شائع کر دی تھی۔ اس کیااہمیت و افادیت کے پیش نظر ہم ذیل میں امام موصوف کی وہ ترجمہ شدہ تحریر بھی قدرے ترمیم کے ساتھ پیش کررہے ہیں ، آیات و احادیث کے عربی الفاظ کا، اصل کتاب سے مراجعت کرکے، ہم نے اضافہ کردیا ہے۔ (مرتب)
تمہید: علماء اسلام میں کوئی ایک بھی یزید بن معاویہ کو ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کی طرح خلفائے راشدین میں سے نہیں سمجھتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((خلافۃ النبوۃ ثلاثون سنۃ ثم یؤتی اللہ الملک من یشآء)) (سنن أبی داؤد، السنۃ، باب فی الخلفاء، ح:۴۶۴۷)
"خلافت تیس برس تک منہاج نبوت پر رہے گی پھر سلطنت ہوجائے گی۔"
علماء اہل سنت اس حدیث کے مطابق یزید اور اس جیسے آدمی اور عباسی خلفاء کو محض فرمانروا بادشاہ اور اسی معنی میں خلیفہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا یہ خیال بالکل درست ہے۔ یہ ایک محسوس واقعہ ہے جس سے انکار غیر ممکن ہے کیونکہ یزید اپنے زمانے میں عملاً ایک بادشاہ، حکمران، ایک صاحب سیف اور خودمختار فرمانروا تھا۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھا اور شام، مصر، عراق خراسان وغیرہ اسلامی ممالک میں اس کا حکم نافذ ہوا۔ حضرت حسین قبل اس کے کہ کسی ملک پر بھی حاکم ہوں، یوم عاشوراء ۶۱ھ میں شہید ہوگئے اور یہی یزید کی سلطنت کا پہلا سال ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر: بلاشبہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید سے اختلاف کیا اور باشندگان مکہ وحجاز نے ان کا ساتھ دیا لیکن یہ واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ نے خلافت کا دعوی یزید کی زندگی میں نہیں کیا بلکہ اس کے مرنے کے بعد کیا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شروع شروع میں اختلاف کرنے کےباوجود عبداللہ بن زبیر یزید کے جیتے جی ہی اس کی بیعت پر رضا مند ہوگئے تھے مگر چونکہ اس نے یہ شرط لگا دی تھی کہ قید ہوکر ان کے حضور میں حاضر ہوں اس لیے بیعت رہ گئی اور باہم جنگ برپا ہوئی۔ پس اگرچہ یزید تمام بلاد اسلامیہ کا حکمران نہیں ہوا۔ اور عبداللہ بن زبیر کا ماتحت علاقہ اس کی اطاعت سے برابر گشتہ رہا، تاہم اس سے اس کی بادشاہت اور خلافت میں شبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلفائے ثلاثہ ابو بکر، عمر، عثمان اور پھر معاویہ بن ابی سفیان ، عبدالملک بن مروان اور اس کی اولاد کے سوا کوئی بھی اموی یا عباسی خلیفہ پورے بلاد اسلامیہ کا تنہا فرمانروا نہیں ہوا۔ حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بھی تمام دنیائے اسلام کی حکومت نہ تھی۔
بادشاہوں پر خلیفہ کا اطلاق؟ پس اگر اہل سنت ان بادشاہوں میں سے کسی کو خلیفہ یا امام کہتے ہیں تو اس سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں خودمختار تھا، طاقتور تھا، صاحب سیف تھا۔ عزل ونصب کرتا تھا، اپنے حکام کے اِجراء کی قوت رکھتا تھا۔ حدود شرعی قائم کرتا تھا کفار پر جہاد کرتا تھا۔ یزید کو بھی امام و خلیفہ کہنے سے یہی مطلب ہے اور یہ ایک ایسی واقعی بات ہے کہ اس کا انکار غیر ممکن ہے۔ یزید کے صاحب اختیار بادشاہ ہونے سے انکار کرناایسا ہی ہے جیسے کوئی اس واقعے سے انکار کردے کہ ابو بکر، عمر، عثمان حکمران نہیں تھے یا یہ کہ قیصر و کسریٰ نے کبھی حکومت نہیں کی۔
یہ "خلفاء معصوم نہ تھے: رہا یہ مسئلہ کہ یزید ، عبدالملک، منصور وغیرہ خلفاء نیک تھے یا بد؟ صالح تھے یا فاجر؟ تو علماء اہل سنت نہ انہیں معصوم سمجھتے ہیں نہ ان کے تمام احکام و اعمال کو عدل و انصاف قرار دیتے ہیں اور نہ ہر بات میں ان کی اطاعت واجب تصور کرتے ہیں۔البتہ اہل سنت والجماعت کا یہ خیال ضرور ہے کہ عبادت و طاعت کے بہت سے کام ایسے ہیں جن میں ہمیں ان کی ضرورت ہے ۔ مثلاً یہ کہ ان کے پیچھے جمعہ وعیدین کی نمازیں قائم کی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ کفار پر جہاد کیا جاتا ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور حدود شرعیہ کے قیام میں ان سے مدد ملتی ہے نیز اسی نوع کے دوسرے معاملات ہیں، اگر حکام نہ ہوں تو ان اعمال کا ضائع ہوجانا اغلب ہے بلکہ ان میں سے بعض کا موجود ہونا ہی غیر ممکن ہے۔
نصب امام کے چند اصول: اہل سنت کے اس طریقہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اعمال صالحہ انجام دینے میں اگر نیکوں کے ساتھ برے بھی شامل ہوں تو اس سے نیکوں کے عمل کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ بلاشبہ یہ بالکل درست ہے کہ اگر عادل صالح امام کا نصب ممکن ہو تو فاجر و مبتدع شخص کو امام بنانا جائز نہیں، اہل سنت کا بھی یہی مذہب ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو بلکہ امامت کے دونوں مدعی فاجر اور مبتدع ہوں تو ظاہر ہے کہ حدود شرعیہ وعبادات دینیہ کے قیام کےلیے دونوں میں سے زیادہ اہلیت و قابلیت والے کو منتخب کیا جائے گا۔ ایک تیسری صورت بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی ایسا شخص موجود ہو جو صالح ہو مگر سپہ سالاری کے فرائض و واجبات ادا کرنے کا اہل نہ ہو۔ اس کے خلاف ایک فاجر شخص ہو جو بہترین طریق پر فوجون کی قیادت کرسکتا ہو تو جس حد تک جنگی مقاصد کا تعلق ہے، یقیناً اسی آخر الذکر یعنی فاجر کو سربراہ بنانا پڑے گا۔ نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت و امداد کی جائے گی۔ بدی اور برائی میں اس پر اعتراض و انکار کیا جائے گا۔
حفظ مصالح اور دفع مفاسد: غرض امت کی مصلحتوں کا لحاظ مقدم ہے اگر کسی فعل میں بھلائی اور برائی دونوں موجود ہوں تو دیکھا جائے گا کہ کس کا پلہ بھاری ہے اگر بھلائی زیادہ نظر آئے تو اس فعل کو پسند کیا جائے گا۔ اگر برائی غالب دکھائی دے تو اس کے ترک کو ترجیح دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے نبیٔ کریم ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ مصالح کی تائید وتکمیل فرمائیں اور مفاسد مٹائیں یا کم کریں۔ یزید ، عبدالملک اور منصور جیسے خلفاء کی اطاعت اسی لیے کی گئی کہ ان کی مخالفت میں امت کےلیے نقصان ، نفع سے زیادہ تھا۔ تاریخ شاہد ہےکہ ان خلفاء پر جن لوگوں نے خروج کیا ان سے امت کو سراسر نقصان ہی پہنچا، نفع ذرا بھی نہیں ہوا۔ بلاشبہ ان خروج کرنے والوں میں بڑے بڑے اخیار وفضلاء بھی شامل تھے مگر ان کی نیکی وخوبی سے ان کا یہ فعل لازماً مفید نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اپنے خروج سے نہ دین کو فائدہ پہنچایا اور نہ دنیوی نفع ہی حاصل کیا۔ اور معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل کا حکم نہیں دیتا جس میں نہ دنیا کا بھلا ہو نہ دین کا، جن لوگوں نے خروج کیا ان سے کہیں زیادہ افضل حضرت علی ، طلحہ ، زبیر، عائشہ وغیرہم صحابہ تھے مگر خود انہوں نے اپنی خونریزی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
عہد فتن میں خروج کی ممانعت: یہی وجہ ہے کہ حسن بصری حجاج بن یوسف ثقفی کے خلاف بغاوت سے روکتے تھے اور کہتے تھے "حجاج اللہ کا عذاب ہے اسے اپنے ہاتھوں کے زور سے دور کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اللہ کے سامنے تضرع و زاری کرو کیونکہ اس نے فرمایا ہے:
[qh]وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ [/qh](المؤمنون ۷۶/۲۳)
"ہم نے ان کی عذاب کے ذریعے گرفت کی۔ انہوں نے پھر بھی اپنے رب کے سامنے نہ عاجزی کا اظہار کیا اور نہ اس کے حضور گڑگڑائے۔"
اسی طرح اور اخیار وابرار بھی خلفاء پر خروج اور عہد فتنہ میں جنگ سے منع کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر، سعید بن المسیب، حضرت زین العابدین، علی بن حسین وغیرہم اکابر صحابہ وتابعین جنگ حرہ کے زمانے میں یزید کے خلاف بغاوت کرنے سے روکتے تھے۔ احادیث صحیحہ بھی اسی مسلک کی مؤید ہیں اسی لیے اہل سنت کے نزدیک یہ تقریباً متفق علیہ مسئلہ ہے کہ عہدفتن میں قتال وجدال سے اجتناب اور جور ائمہ پر صبر کیا جائے، وہ یہ مسئلہ اپنے عقائد میں بھی ذکر کرتے رہے ہیں اور جو شخص متعلقہ احادیث اور اہل سنت کے صاحب بصیرت علماء کے طرز عمل وفکر میں تامل کرے گا اس پر اس مسلک کی صحت و صداقت بالکل واضح ہوجائے گی۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عزم عراق: اسی لیے جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق جانے کا رادہ کیا تو اکابر اہل علم وتقویٰ مثلاً عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس ، ابوبکر بن عبدالرحمن حارث نے ان سے بہ منت کہا کہ وہاں نہ جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے آپ ضرور شہید ہوجائیں گے۔ حتی کہ روانگی کے وقت بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ [font="_pdms_saleem_quranfont"]استودعک اللہ من قتیل [/font]"اے شہید! ہم تجھے اللہ کو سونپتے ہیں۔"
اور بعضوں نے کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"] ((لو الشناعۃ لأمسکتک ومنعتک من الخروج))[/font]
"اگر بے ادبی نہ ہوتی تو ہم آپ کو زبردستی پکڑ لیتے اور ہرگز جانے نہ دیتے۔"
اس مشورے سے ان لوگوں کےمدنظر صرف آپ کی خیرخواہی اور مسلمانوں کی مصلحت تھی مگر حضرت حسین اپنے ارادے پر قائم رہے۔آدمی کی رائے کبھی درست ہوتی ہے اور کبھی غلط ہوجاتی ہے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ حضرت حسین کو عراق جانے سے روکنے والوں ہی کی رائے درست تھی کیونکہ آپ کے جانے سے ہرگز کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل نہ ہوئی بلکہ یہ مضرت پیدا ہوئی کہ سرکشوں اور ظالموں کو رسول اللہ ﷺ کے جگر گوشے پر قابو مل گیا اور وہ مظلوم شہید کردیئے گئے۔ آپ کے جانے اور پھر قتل سے جتنے مفاسد پیدا ہوئے وہ ہرزگ واقع نہ ہوتے اگر آپ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے کیونکہ جس خیر وصلاح کے قیام اور شروفساد کے دفعیہ کےلیے آپ اٹھے تھے اس میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ برعکس اس کے شر کو غلبہ اور عروج حاصل ہوگیا۔ خیرو وصلاح میں کمی آگئی اور بہت بڑے دائمی فتنے کا دروازہ کھل گیا جس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے فتنے پھیلے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے بھی فتنوں کے سیلاب بہادیئے۔
حضرت حسین کا مقام بلند: اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ٔ کریم ﷺ کا ائمہ و خلفاء کے ظلم پر صبر کرنے اور ان سے جنگ وبغاوت نہ کرنے کا حکم مناسب اور امت کے دین ودنیا کےلیے زیادہ بہتر تھا اور جنہوں نے بالقصد یا بلا قصد اس کی مخالفت کی۔ ان کے فعل سے امت کو فائدہ کے بجائے نقصان ہی پہنچا۔ یہی سبب ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرمایا تھا:
[qh]((إٍنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ))[/qh] (صحیح البخاری، الصلح، ح:۲۷۰۴)
"میرا یہ فرزند سردا رہے عنقریب خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔"
لیکن اس بات پر کسی شخص کی بھی تعریف نہیں کی کہ وہ فتنہ میں پڑے گا یا خلفاء پر خروج کرے گا یا اطاعت سے برگشتہ یا جماعت سے منحرف ہوگا۔ اس حدیث سے صاف ثابت ہوتاہے کہ دو گروہوں میں صلح کرانا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں مستحسن ومحبوب ہے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا خلافت سے دستبردار ہوکر مسلمانوں کی خونریزی کا خاتمہ کردینا ان کے فضائل میں ایک عظیم ترین فضیلت ہے کیونکہ اگر خانہ جنگی واجب و مستحب ہوتی تو آنحضرتﷺ اس کے ترک پر ہرگز تعریف نہ فرماتے۔
یہاں یہ معلوم کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ نبی ﷺ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک ساتھ گود میں لے کر فرمایا کرتے تھے۔ "اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی محبت کر۔" چنانچہ جس طرح آپ اپنی محبت میں دونوں کو یکساں شریک کرتے تھے اسی طرح بعد میں یہ دونوں ان خانہ جنگیوں سے یکساں طور پر نفرت کرتے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تو جنگ صفین کے دن اپنے گھر بیٹھ رہے تھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے پدر برادر (حضر ت علی اور حسین رضی اللہ عنہما) کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ پھر جب خود بااختیار ہوئے تو جنگ سے دستبردار ہوگئے اور لڑنے والوں میں صلح قائم کردی۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی آخر میں یہ حقیقت روشن ہوگئی تھی کہ جنگ کے جاری رہنے سے زیادہ اس کے ختم ہوجانے میں مصلحت ہے۔ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی کربلا پہنچ کر جنگ سے بیزار اور سرے سے دعویٰ ٔ امارت وخلافت ہی سے دستبردار ہوگئے تھے اور کہتے تھے "مجھے وطن لوٹ جانے دو۔"
اطاعت فی المعروف: اب یہ بات صاف ہوگئی کہ یزید کا معاملہ کوئی خاص جداگانہ معاملہ نہیں بلکہ دوسرے مسلمان بادشاہوں کا سا معاملہ ہے یعنی جس کسی نے طاعت الہٰی مثلاً نماز، حج، جہاد، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اقامت حدود شرعیہ میں ان کی موافقت کی اسے اپنی اس نیکی اور اللہ ورسول کی فرمانبرداری پر ثواب ملے گا۔ چنانچہ اس زمانے کے صالح مؤمنین مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا یہی طریقہ تھا۔ لیکن جس نے ان بادشاہوں کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم میں مددگار ہوا، وہ گناہ گار ہوا اور زجر وتوبیخ اور مذمت اور سزا کا سزاوار ۔ یہی باعث ہے کہ صحابہ ٔ کرام یزید وغیرہ امراء کی ماتحتی میں جہاد کو جاتے تھے۔ چنانچہ جب یزید نے اپنے باپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں قسطنطنیہ کا غزوہ کیا تو اس کی فوج میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی شریک تھے۔ یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی فوج ہے جس نے قسطنطنیہ کا غزوہ کیا(1)اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
[qh]((أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ ))[/qh] (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
"جو فوج سب سے پہلے قسطنطنیہ کا غزوہ کرے گی وہ مغفور یعنی بخشی بخشائی ہے۔"
یزید کے بارے میں افراط وتفریط: اس تفصیل کے بعد اب ہم کہتے ہیں کہ یزید کے بارے میں لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا ہےایک گروہ تو اسے خلفائے راشدین اور انبیائے مقربین میں سے سمجھتا ہے اور یہ سراسر غلط ہے دوسرا گروہ اسے باطن میں کافر و منافق بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے قصداً حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور مدینہ میں قتل عام کرایا تاکہ ااپنے ان رشتہ داروں کے خون کا انتقام لے جو بدرو خندق وغیرہ کی جنگوں میں بنی ہاشم اور انصار ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور یہ کہ حضرت حسین کی شہادت کے بعد اس نے یہ شعر پڑھے تھے۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لما بدت تلک الحمول وأشرفت
تلک الرؤوس علی أبی جیرون[/font]
"جب وہ سواریاں اور سرابوجیرون کی بلندیوں پر نمودار ہوئے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]نعق الغراب فقلت نح أو لا تنح
فلقد قضیت من النبی دیونی[/font]
"تو کوا چلایا ۔ اس پر میں نے کہا تو نوحہ کر یا نہ کر میں نے تو نبی سے اپنا قرض پورا پورا وصول کرلیا!"
یا یہ کہ اس نے کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لیت أشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الأسل[/font]
"کاش میرے بدر والے بزرگ ، نیزوں کی مار سے خزرج وانصار کی دہشت دیکھتے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]قد قتلنا القرون من ساداتھم
وعدلنا ببدر فاعتدل[/font]
"ہم نے ان کے سرداروں میں چوٹی کے سردار قتل کرڈالے اور اس طرح بدر کا بدلہ اتار دیا۔"
یہ تمام اقوال سراسر بہتان اور جھوٹ ہیں۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]حقیقت حال:[/font] حقیقت یہ ہےکہ یزید مسلمان بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اور دنیادار خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھا۔ رہے حسین رضی اللہ عنہ تو بلاشبہ وہ اسی طرح مظلوم شہید ہوئے جس طرح اور بہت سے صالحین ظلم وقہر کے ہاتھوں جام شہادت پی چکے تھے۔ لاریب حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اللہ اور اس کے رسول کی معصیت اور نافرمانی ہے۔ اس سے وہ تمام لوگ آلودہ ہیں جنہوں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا یا قتل میں مدد کی یا قتل کو پسند کیا۔
شہادت کا رتبہ ٔ بلند: شہادت حسین رضی اللہ عنہ اگرچہ امت کےلیے بہت بڑی مصیبت ہے لیکن خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حق میں ہرگز مصیبت نہیں، بلکہ شہادت، عزت اور علومنزلت ہے۔ یہ سعادت بغیر مصائب ومحن میں پڑے حاصل نہیں ہوسکتی چونکہ نبی ﷺ کے دونوں نواسے (حضرت حسین اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما ) گہوارۂ اسلام میں پیدا ہوئے، امن و امان کی گود میں پلے اور ہولناک مصائب سے دور رہے جن کے طوفانوں میں ان کے اہل بیت مردانہ وار تیرتے پھرتے تھے۔اس لیے شہداء خوش بخت کے اعلیٰ درجات ِ منازل تک پہنچنے کےلیے انہیں کٹھن مرحلے سے گزرنا ضرور تھا۔ چنانچہ دونوں گزر گئے۔ ایک کو زہر دیا گیا اور دوسرے کے گلے پر چھری پھیری گئی۔
بڑی بڑی اہم شہادتیں: لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کسی حال میں بھی ان انبیاء کے قتل سے زیادہ گناہ اور مصیبت نہیں جنہیں بنی اسرائیل قتل کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل بھی ان کے قتل سے زیادہ گناہ اور امت کے لیے زیادہ بڑی مصیبت تھا۔
صبر، نہ کہ جزع فزع: یہ حوادث کتنے ہی دردناک ہوں بہرحال ان پر صبر کرنا، اور [qh]إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ [/qh] کہنا چاہیے کیونکہ اس سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔ فرمایا: [qh]وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ[/qh](البقرۃ ۱۵۵/۲۔۱۵۶)
"ان صبر گزاروں کو خوشخبری دے دیجئے جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی زبان پر [qh]إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ[/qh] جاری ہوجاتا ہے۔"
ماتم اور بین کرنے والے ہم میں سے نہیں: حدیث صحیح میں آیا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: [qh]((لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ))[/qh] (صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منا۔۔۔، ح:۱۲۹۴)
"جس نے منہ پیٹا، گریبان چاک کیا اور جاہلیت کے بین کیے وہ ہم میں سے نہیں۔"
نیز نبی ﷺ نے صَالِقَہ، حَالِقَہ اور شَاقَّہ سے اپنے تئیں بری بتایا ہے:
[qh]((إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِئَ مِنْ الصَّالِقَةِ وَالْحَالِقَةِ وَالشَّاقَّةِ))[/qh] (صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من الحلق عند المصیبۃ، ح:۱۲۹۶)
صالقہ بین کرنے والی عورتیں" حالقہ غم سے بال منڈا ڈالنے والی اور شاقّہ گریبان پھاڑنے والی عورتیں۔
نیز فرمایا:
[qh] ((النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ))[/qh] (صحیح مسلم، الجنائز، باب التشدید فی النیاحۃ، ح:۹۳۴)
"نوحہ کرنے والی عورتیں اگر توبہ کے بغیر مرجائیں گے تو انہیں قیامت کے دن خارشی قمیص اور گندھک کا جامہ پہنا کر کھڑا کیا جائے گا۔"
اس قسم کی ایک عورت حضرت عمر کے پاس لائی گئی تو آپ نے اسے مارنے کا حکم دیا۔ سزا کے دوران میں اس کا سر کھل گیا تو لوگوں نے عرض کیا۔ امیر المؤمنین اس کا سر برہنہ ہوگیا ہے۔ فرمایا کچھ پروا نہیں۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((لا حرمۃ لھا إنہا تنہی عن الصبر وقد أمر اللہ بہ وتأمر بالجزع وقد نہی اللہ عنہ وتفتن الحی وتؤذی المیت وتبیع عبرتھا وتبکی بشجو غیرھا إنہا لا تبکی علی میتکم إنما تبکی علی أخذ دراھمکم))[/font]
"اس کی کوئی حرمت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کو مصیبت میں صبر کرنے سے منع کرتی ہے حالانکہ اللہ نے صبر کا حکم دیا ہے، اور یہ رونے کی ترغیب دیتی ہے حالانکہ اللہ نے اس سے منع کیا ہے۔ زندہ کو فتنے میں ڈالتی ہے۔ مردہ کو تکلیف دیتی ہے۔ اپنے آنسو فروخت کرتی ہے۔ اور دوسروں کےلیے بناوٹ سے روتی ہے یہ تمہاری میت پر نہیں روتی بلکہ تمہارا پیسہ لینے کےلیے آنسو بہاتی ہے۔"
شہادت حسین کے بارے میں افراط وتفریط: جس طرح لوگوں نے یزید کے بارے میں افراط و تفریط سے کام لیا ہے اسی طرح بعضوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بے اعتدالی برتی ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے۔ (معاذ اللہ!)
"ان کا قتل درست اور شریعت کے مطابق ہوا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور جماعت کو توڑنے کی کوشش کی تھی اور جو ایسا کرے اس کا قتل واجب ہے کیونکہ نبی ﷺ فرما چکے ہیں:
[qh] ((مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ))[/qh] (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وہو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
"اتفاق کی صورت میں جو تم میں پھوٹ ڈالنے آئے اسے قتل کرڈالو۔"
حضرت حسین بھی پھوٹ ڈالنا چاہتے تھے اس لیے بجا طور قتل کر ڈالے گئے۔"
بلکہ بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ "اسلام میں اولین باغی حسین ہے۔"
ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ کہتا ہے:
"حضرت حسین امام برحق تھے ان کی اطاعت واجب تھی ان کے بغیر ایمان کا کوئی تقاضا بھی پورا نہیں ہوسکتا۔ جماعت اور جمعہ اسی کے پیچھے درست ہے جسے انہوں نے مقرر کیا اور جہاد نہیں ہوسکتا جب تک ان کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو۔"
مقابلے کا ارادہ ترک کردیا: ان دونوں نہایت غلطیوں کے درمیان اہلسنت ہیں وہ نہ پہلے گروہ کے ہمنوا ہیں اور نہ دوسرے گروہ کے۔ ان کا خیال ہے کہ حضرت حسین مظلوم شہید کیے گئے ان کے ہاتھ امت کی سیاسی باگ دوڑ نہیں آئی۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا احادیث ان پر چسپاں نہیں ہوتیں کیونکہ جب انہیں اپنے بھائی مسلم بن عقیل کا انجام معلوم ہوا تو وہ اپنے اس ارادے سے دستبردار ہوگئے(2)تھے اور فرماتے (3)تھے۔
"مجھے وطن جانے دو یا کسی سرحد پر مسلمانوں کی فوج سے جا ملنے دو یا خود یزید کے پاس پہنچنے دو(4)مگر مخالفین نے ان کی کوئی بات بھی نہ مانی اور اسیری قبول کرنے پر اصرار کیا جسے انہوں نے نامنظور کردیا کیونکہ اسے منظور کرنا ان پر شرعاً واجب نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہ غزوہ ۵۱ھ میں ہوا جس میں حضرت حسین یزید کی ماتحتی میں شریک تھے (البدایہ، ص:۱۵۱، ج:۸) ظاہر ہے اس اثناء میں نمازیں بھی یزید کے پیچھے پڑھتےرہے۔ (ص،ی)
(2) یعنی راستے ہی سے واپس مکہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن مسلم کے بھائیوں کے اصرار کا ساتھ دینا پڑا جیسا کہ شیعہ سنی سب تاریخوں میں ہے۔ (ص،ی)
(3) یعنی منزل مقصود پر پہنچ کر جب ابن زیاد کی فوج کے سربراہ عمر بن سعد سے گفتگوئے مصالحت کے سلسلے میں حضرت حسین نے متن میں مذکور تین باتیں فرمائیں
(4) اس تیسری بات کے بارے میں تاریخ طبری ۲۹۳/۴ میں یہ الفاظ ہیں:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((فأضع یدی فی یدہ فیحکم فی ما رأیٰ)) [/font](البدایۃ: ۱۷۱/۸)
"میں براہ راست یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا (بیعت کرلوں گا) پھر و ہ جیسا کہ مناسب سمجھے کر لے گا۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی ایک جگہ یہ الفاظ ذکر کیے ہیں:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((وطلب أن یردوہ إلی یزید ابن عمہ حتی یضع یدہ فی یدہ أو یرجع من حیث جآء أو یلحق الثغور))[/font] (رأس الحسین، ص:۲۰)
مطلب وہی ہے جو متن میں ہے۔ (ص،ی)[/font]
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
شہادت حسین کا نتیجہ
صحابہ سے بدگمانی اور بدعات محرم کا ظہور: شہادت حسین کی وجہ سے شیطان کو بدعتوں اور ضلالتوں کے پھیلانے کا موقعہ مل گیا۔ چنانچہ کچھ لوگ یوم عاشوراء میں نوحہ وماتم کرتے ہیں، منہ پیٹتے ہیں، روتے چلاتے ہیں، بھوکے پیاسے رہتے ہیں، مرثیے ہیں، یہی نہیں بلکہ سلف و صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں، لعنت کرتے ہیں، اور ان بے گناہ لوگوں کو لپیٹ لیتے ہیں جنہیں واقعات شہادت سے دورونزدیک کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ[qh]((وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ ))[/qh] کو بھی گالیاں دیتے ہیں پھر واقعۂ شہادت کی جو کتابیں پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر اکاذیب واباطیل کا مجموعہ ہیں اور ان کی تصنیف واشاعت سے ان کےمصنفوں کا مقصد صرف یہ تھا کہ فتنہ کے نئے نئے دروازے کھلیں۔ اور امت میں پھوٹ بڑھتی جائے۔ یہ چیز باتفاق جملہ اہل اسلام نہ واجب ہے نہ مستحب، بلکہ اس طرح رونا پیٹنا اور پرانی مصیبتوں پر گریہ و زاری کرنا اعظم ترین محرمات دینیہ میں سے ہے۔
پھر ان کے مقابلے میں دوسرا فرقہ ہے جو یوم عاشوراء میں مسرت اور خوشی کی بدعت کرتا ہے۔ کوفہ میں یہ دونوں گروہ موجود تھے۔ شیعوں کا سردار مختار بن عبید تھا اور ناصبیوں کا سرگروہ حجاج بن یوسف الثقفی تھا۔
واقعاتِ شہادت میں مبالغہ: جن لوگوں نے واقعاتِ شہادت قلم بند کیے ہیں ان میں اکثر نے بہت کچھ جھوٹ ملا دیا ہے۔ جس طرح شہادت ِ عثمان بیان کرنے والوں نے کیا اور جیسے مغازی وفتوحات کے راویوں کا حال ہے حتی کہ واقعاتِ شہادت کے مؤرخین میں سے بعض اہل علم مثلاً بغوی اور ابن ابی الدنیا وغیرہ بھی بے بنیاد روائتوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ رہے وہ مصنف جو بلا اسناد واقعات روایت کرتے ہیں توان کے ہاں جھوٹ بہت زیادہ ہے۔
دندان مبارک پر چھڑی مارنے کا واقعہ:صحیح طور پر صرف اس قدر ثابت ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو آپ کا سر مبارک عبیداللہ بن زیاد کے سامنے لایا گیا۔ اس نے اپ کے دانتوں پر چھڑی ماری اور آپ کے حسن کی مذمت کی۔ مجلس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ اور ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ دوصحابی موجود تھے انس رضی اللہ عنہ نے اس کی تردید کی اور کہا۔ "آپ رسول ا للہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔" صرف حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ اور صحابہ کو بھی آپ کی شہادت سے از حد ملال تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک عراقی نے پوچھا کہ حالت احرام میں مکھی کا جائز ہے؟ انہوں نے خفا ہوکر جواب دیا:
"اے اہل عراق تمہیں مکھی کی جان کا اتنا خیال ہے حالانکہ تم رسول اللہ ﷺ کے نواسے کو قتل کرچکے ہو۔"
بعض روائتوں میں دانتوں پر چھڑی مارنے کا واقعہ یزید کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو بالکل غلط ہے کیونکہ جو صحابی اس واقعے میں موجود تھے وہ دمشق میں نہیں تھے عراق میں تھے۔
یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا: متعدد مؤرخین نے جو نقل کیا ہے وہ یہی ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا اور نہ یہ بات ہی اس کے پیش نظر تھی بلکہ وہ تو اپنے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق ان کی تعظیم وتکریم کرنا چاہتا تھا۔ البتہ اس کی یہ خواہش تھی کہ آپ خلافت کے مدعی ہوکر اس پر خروج نہ کریں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب کربلا پہنچے اور آپ کو اہل کوفہ کی بے وفائی کا یقین ہوگیا تو ہر طرح کے مطالبے سے دست بردار ہوگئے تھے۔ مگرمخالفوں کی بے وفائی کا یقین ہوگیا تو ہر طرح کے مطالبے سے دست بردار ہوگئے تھے۔ مگر مخالفوں نے نہ انہیں وطن واپس ہونے دیا، نہ جہاد پر جانے دیا اور نہ یزید کے پاس بھیجنے پر رضامند ہوئے بلکہ قید کرنا چاہا جسے آپ نے نامنظور کیا اور شہید ہوگئے۔ یزید اور اس کے خاندان کو جب یہ خبر پہنچی تو بہت رنجیدہ ہوئے اور روئے بلکہ یزید نے تو یہاں تک کہا۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((قبح اللہ ابن مرجانۃ لو کانت بینہ وبینکم رحم أو قرابۃ ما فعل ھٰذا بکم))(تاریخ الطبری: ۳۵۳/۴ والبدایۃ: ۱۹۳/۸)
"(عبیداللہ بن زیاد ) پر اللہ کی پھٹکار! واللہ! اگر وہ خود حسین رضی اللہ عنہ کا رشتہ دار ہوتا تو ہرگز قتل نہ کرتا۔"
اور کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((قد کنت أرضیٰ من طاعۃ أہل العراق بدون قتل الحسین))[/font]
"بغیر قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بھی میں اہل عراق کی اطاعت منظور کرسکتا تھا۔"
پھراس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پسماندگان کی بڑی خاطر تواضع کی اور عزت کے ساتھ انہیں مدینہ واپس پہنچا دیا۔
یزید نے اہل بیت کی بے حرمتی نہیں کی: بلاشبہ یہ بھی درست ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرفداری بھی نہیں کی، نہ ان کے قاتلوں کو قتل کیا نہ ان سے انتقام لیا۔ لیکن یہ کہنا بالکل سفید جھوٹ ہے کہ اس نے اہل بیت کی خواتین کو کنیز بنایا۔ ملک ملک پھرایا اور بغیر کجاوہ کے انہیں اونٹوں پر سوار کیا۔ الحمد للہ مسلمانوں نے آج تک کسی ہاشمی عورت سے یہ سلوک نہیں کیا اور نہ اسے امت محمد (ﷺ) نے کسی حال میں جائز رکھا ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا گناہ عظیم: یہ بالکل درست ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت عظیم ترین گناہوں میں سے ایک گناہ تھی۔ جنہوں نے یہ فعل کیا، جنہوں نے اس میں مدد کی، جو اس سے خوش ہوئے وہ سب کے سب اس عتاب الہٰی کے سزاوار ہیں جو ایسے لوگوں کےلیے شریعت میں وارد ہے لیکن حسین رضی اللہ عنہ کا قتل ان لوگوں کےقتل سے بڑھ کر نہیں جو ان سے افضل تھے۔ مثلاً انبیاء ، مؤمنین اولین، شہداء یمامہ، شہداء اُحد، شہداء بئر معونہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل تو آپ کو کافر و مرتد سمجھتے اور یقین کرتے تھے کہ آپ کا قتل عظیم ترین عبادت ہے۔برخلاف حسین رضی اللہ عنہ کے کہ ان کے قاتل انہیں ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ ان میں اکثر تو آپ کے قتل کو ناپسند کرتے اور ایک بڑا گناہ تصور کرتے تھے لیکن اپنی اغراض کی خاطر اس فعل شنیع کے مرتکب ہوئے جیسا کہ لوگ سلطنت کے لیے باہمی خونریزی کرتے ہیں۔
یزید پر لعنت بھیجنے کا مسئلہ: رہا سوال یزید پر لعنت کرنے کا تو واقعہ یہ ہے یہ ہے کہ یزید بھی بہت سے دوسرے بادشاہوں اور خلفاء جیسا ہی ہے بلکہ کئی حکمرانوں سے وہ اچھا تھا۔ وہ عراق کے امیر "مختار بن ابی عبید الثقفی" سے کہیں اچھا تھا۔ جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حمایت کا علم بلند کیا۔ ان کے قاتلوں سے انتقام لیا مگر ساتھ ساتھ یہ دعوی کیا کہ جبرائیل اس کے پاس آتے ہیں، اسی طرح یزید حجاج بن یوسف سے اچھا تھا جو بلانزاع یزید سے کہیں زیادہ ظالم تھا۔ یزید اور اس جیسے دوسرے سلاطین و خلفاء کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فاسق تھے۔
لعنت کے بارے میں مسئلہ شرعیہ:لیکن فاسق کو معین کرکے لعنت کرنا سنت نبوی ﷺ میں موجود نہیں البتہ عام لعنت وارد ہے۔ مثلاً نبی ﷺ نے فرمایا:
[qh]((لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ ))[/qh] (صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، ح:۶۷۸۳ وصحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ ونصابہا، ح:۱۶۸۷)
"چور پر اللہ کی لعنت کہ ایک انڈے پر اپنا ہاتھ کٹوا دیتا ہے۔"
فرمایا:
[qh]((فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ ))[/qh] (صحیح البخاری، الجزیۃ والموادعۃ ، باب إثم من عاھد ثم غدر، ح:۳۱۷۹)
"جو بدعت نکالے یا بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ کی لعنت۔"
یامثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص شراب پیتا تھا اور باربار نبی ﷺ کے پاس پکڑا آتا تھا یہاں تک کہ کئی پھیرے ہوچکے تو ایک شخص نے کہا:
[qh]((اللَّهُمَّ الْعَنْهُ مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ )) [/qh]
"اس پر اللہ کی لعنت کہ باربار پکڑ کر دربار رسالت میں پیش کیا جاتا ہے۔"
آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا:
[qh]((لَا تَلْعَنُوهُ فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ))[/qh] (صحیح البخاری، الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر۔۔۔، ح: ۶۷۸۰)
حالانکہ آپ نے عام طور پر شرابیوں پر لعنت بھیجی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عام طور پر کسی خاص گروہ پر لعنت بھیجنا جائز ہے مگر اللہ اور رسول ﷺ سے محبت رکھنے والے کسی معین شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں اور معلوم ہے کہ ہر مومن اللہ اور رسول سے ضرور محبت رکھتا ہے۔
یزید پر لعنت سے پہلے دو چیزوں کا اثبات ضروری ہے: صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ بالآخر دوزخ سے نجات پائے گا۔
بنابریں جو لوگ یزید کی لعنت پر زور دیتے ہیں انہیں دو باتین ثابت کرنی چاہئیں۔ اول یہ کہ یزید ایسے فاسقوں اور ظالموں میں سے تھا جن پر لعنت کرنا مباح ہے۔ اور اپنی اس حالت پر موت تک رہا۔ دوسرے یہ کہ ایسے ظالموں اور فاسقوں میں سے کسی ایک کو معین کرکے لعنت کرنا روا ہے۔ رہی آیت [qh]أَلاَ لَعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [/qh](ہود: ۱۸/۱۱) تو یہ عام ہے جیسا کہ باقی تمام آیات وعید عام ہیں۔ اور پھر ان آیتوں سے کیا ثابت ہوتا ہے یہی کہ یہ گناہ لعنت اور عذاب کا مستوجب ہے؟ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرے اسباب آکر لعنت وعذاب کے اسباب کو دور کردیتے ہیں مثلاً گناہ گار نے سچے دل سے توبہ کرلی یا اس سے ایسی حسنات بن آئیں جو سیئات کو مٹا دیتی ہیں۔ یا ایسے مصائب پیش آئے جو گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ بنابریں کون شخص دعویٰ کرسکتا ہے کہ یزید اور اس جیسے بادشاہوں نے توبہ نہیں کی، یا سیئات کو دور کرنے والی حسنات انجام نہیں دیں یا گناہوں کاکفارہ ادا نہیں کیا، یا یہ کہ اللہ کسی حال میں بھی انہیں نہیں بخشے گا۔ حالانکہ وہ خود فرماتا ہے:
[qh]إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ [/qh](النساء: ۴۸/۴)
پھر صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"سب سے پہلے قسطنطنیہ پر جو فوج لڑے گی وہ مغفور ہے۔" (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ماقیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
اور معلوم ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس فوج نے قسطنطنیہ پر لڑائی کی اس کا سپہ سالار یزید ہی تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یزید نے یہ حدیث سن کر ہی فوج کشی کی ہوگی، بہت ممکن ہے کہ یہ بھی صحیح ہو لیکن اس سے اس فعل پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی جاسکتی۔
لعنت کا دروازہ کھولنے کے نتائج: پھر ہم خوب جانتے ہیں کہ اکثر مسلمان کسی نہ کسی طرح کے ظلم سے ضرور آلودہ ہوتے ہیں اگر لعنت کا دروازہ اس طرح کھول دیا جائے تو مسلمانوں کے اکثر مردے لعنت کا شکار ہوجائیں گےحالانکہ اللہ تعالیٰ نے مردہ کے حق میں صلاۃ ودعا کا حکم دیا ہے نہ کہ لعنت کرنے کا ۔
نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
[qh]((لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا ))[/qh] (صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من سب الأموات، ح:۱۳۹۳)
"مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اپنے کیے کو پہنچ گئے۔"
بلکہ جب لوگوں نے ابو جہل جیسے کفار کو گالیاں دینی شروع کیں تو انہیں منع کیا اور فرمایا:
[qh]((لَا تَسُبُّوا مَوْتَانَا فَتُؤْذُوا أَحْيَاءَنَا ))[/qh] (سنن النسائی، القسامۃ، القود من اللطمۃ، ح:۴۷۷۹)
"ہمارے مرے ہوؤں کو گالیاں مت دو کیونکہ اس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔"
یہ اس لیے کہ قدرتی طور پر ان کے مسلمان رشتہ دار برا مانتے تھے۔ امام احمد بن حنبل سے ان کے بیٹے صالح نے کہا [font="_pdms_saleem_quranfont"]ألا تلعن یزید؟ [/font]آپ یزید کو لعنت کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام نے جواب دیا: [font="_pdms_saleem_quranfont"]متیٰ رأیت أباک یلعن أحداً "[/font]تو نے اپنے باپ کو کسی پر بھی لعنت کرتے کب دیکھا تھا۔"
قرآن کریم کی آیت:
[qh]فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ *أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ *[/qh] (محمد ۲۲/۴۸۔۲۳)
"کیا تم سے بعید ہے کہ اگر جہاد سے پیٹھ پھیرلو تو لگو ملک میں فساد کرنے اور اپنے رشتے توڑنے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو بہرا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے۔"
سے خاص یزید کی لعنت پر اصرار کرنا خلاف انصاف ہے۔ کیونکہ یہ آیت عام ہے اور اس کی وعید ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ایسے افعال کے مرتکب ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے یہ افعال صرف یزید ہی نے نہیں کیے بلکہ بہت سے ہاشمی، عباسی ، علوی بھی ان کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر اس آیت کی رو سے ان سب پر لعنت کرنا ضروری ہو تو اکثر مسلمانوں پر لعنت ضروری ہوجائے گی۔ کیوں کہ یہ افعال بہت عام ہیں مگر یہ فتویٰ کوئی بھی نہیں دےسکتا۔
قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات: رہی وہ روایت جو بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے تابوت میں ہوگا۔ اس اکیلے پر آدھی دوزخ کا عذاب ہوگا اس کے ہاتھ پاؤں آتشی زنجیروں سے جکڑے ہوں گے وہ دوزخ میں الٹا اتارا جائے گایہاں تک کہ اس کی تہ تک پہنچ جائے گا اور اس میں اتنی سخت بدبو ہوگی کہ دوزخی تک اللہ سے پناہ مانگیں گے وہ ہمیشہ دوزخ میں پڑا جلتا رہے گا۔"
تو یہ روایت بالکل جھوٹی ہے اورا ن لوگوں کی بنائی ہوئی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر تہمت باندھنے سے نہیں شرماتے۔ کہاں آدھی دوزخ کا عذاب، اور کہاں ایک حقیر آدمی؟ فرعون اور دوسرے کفار ومنافقین، قاتلین انبیاء او ر قاتلین مومنین اولین کا عذاب قاتلین حسین سے کہیں زیادہ سخت ہوگا بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا گناہ بھی حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے زیادہ ہے۔
اہل سنت کا مسلک معتدل: حسین رضی اللہ عنہ کی طرفداری میں اس غلو کا جواب ناصبیوں کا غُلُو ہےجو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا مصداق قرار دے کر
[qh]((فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ ))[/qh] (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وہو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
انہیں باغی اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ لیکن اہل سنت والجماعت نہ اس کا ساتھ دیتے ہیں نہ اس غلو کا۔ بلکہ یہ کہتےہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مظلوم شہید ہوئے اور ان کے قاتل ظالم و سرکش تھے۔ اور ان احادیث کا اطلاق ان پر صحیح نہیں جن میں تفریق بین المسلمین کرنے والے کے قتل کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ کربلا میں آپ کا قصد امت میں پھوٹ ڈالنا نہ تھا، بلکہ آپ جماعت ہی میں رہنا چاہتے تھے مگر ظالموں نے آپ کا کوئی مطالبہ نہ مانا، نہ آپ کو وطن واپس ہونے دیا، نہ سرحد پر جانے دیا۔ نہ خود یزید کے پاس پہنچنے دیا بلکہ قید کرنے پر اصرار کیا۔ ایک معمولی مسلمان بھی اس برتاؤ کا مستحق نہیں ہوسکتا کجا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ۔
اسی طرح یہ روایت بھی رسول اللہ ﷺ پر سفید جھوٹ ہے۔
"جس نے میرے اہل بیت کا خون بہایا اور میرے خاندان کواذیت دے کر مجھے تکلیف پہنچائی اس پر اللہ کا اور میرا غصہ ہوگا۔"
اس طرح کی بات رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے کہیں بھی نہیں نکل سکتی تھی۔ کیونکہ رشتہ داری اور قرابت سے زیادہ ایمان اور تقوی کی حرمت ہے اگر اہل بیت میں سے کوئی ایسا شخص جرم کرے جس پر شرعاً اس کا قتل واجب ہو تو بالاتفاق اسے قتل کرڈالا جائے گا۔ مثلاً اگر کوئی ہاشمی چوری کرے تو یقیناً اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اگر زنا کا مرتکب ہوتو سنگسار کردیا جائے گا۔ اگر جان بوجھ کر کسی بے گناہ کو قتل کرڈالے تو قصاص میں اس کی بھی گردن ماری جائے گی۔اگرچہ مقتول حبشی، رومی ، ترکی دیلمی غرض کوئی بھی ہو۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
[qh]((الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ))[/qh](سنن أبی داؤد، الجہاد، باب فی السریۃ۔۔۔، ح:۲۷۵۱)
"یعنی تمام مسلمانوں کا خون یکساں حرمت رکھتا ہے۔"
پس ہاشمی وغیر ہاشمی کا خون برابر ہے۔
اسلامی مساوات: نیز فرمایا:
[qh]((إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا))[/qh] (صحیح البخاری،أحادیث الأنبیاء، باب:۵۴، ح:۳۴۷۵ وصحیح مسلم، الحدود، باب قطع السارق الشریف وغیرہ۔۔۔، ح:۱۶۸۸)
"اگلی قومیں اس طرح ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ لیکن جب معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی۔ واللہ! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔"
اس میں نبیﷺ نے تشریح کردی ہے کہ اگر آپ کا قریب سے قریب عزیز بھی جرم سے آلودہ ہوگا تو اسے شرعی سزا ضرور ملے گی۔
کسی خاندان کی خصوصیت ثابت نہیں: پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی ﷺ یہ کہہ کر اپنے خاندان کو خصوصیت دیں کہ جو ان کا خون بہائے گا۔ اس پر اللہ کا غصہ بھڑکے گا۔ کیونکہ یہ بات پہلے ہی مسلم ہے کہ ناحق قتل شریعت میں حرام ہے، عام اس سے کہ ہاشمی کا ہو یاغیر ہاشمی کا:
[qh]وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً [/qh](النساء ۹۳/۴)
پس قتل کی اباحت و حرمت میں ہاشمی و غیر ہاشمی، سب مسلمان یکساں درجہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینا حرام ہے عام اس سے کہ آپ کے خاندان کو تکلیف دے کر ہو یا امت کو ستا کر، یا سنت کو توڑ کر۔ اب واضح ہوگیا کہ اس طرح کی بے بنیاد حدیثیں جاہلوں اور منافقوں کے سوا کوئی اور نہیں بیان کرسکتا۔
اسی طرح یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حسن اور حسین سے نیک سلوک کی مسلمانوں کو ہمیشہ وصیت کرتے اور فرماتے تھے۔ "یہ تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" بالکل غلط ہے۔
بلا شبہ حضرت حسن و حسین اہل بیت میں بڑا درجہ رکھتے ہیں لیکن نبی ﷺ نے یہ کبھی نہین فرمایا کہ "حسنین تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" رسول اللہ ﷺ کامقام اس سے کہیں ارفع واعلیٰ ہے کہ اپنی اولاد مخلوق کو سونپیں۔
ایسا کہنے کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔
۱۔ یہ کہ جس طرح مال امانت رکھا جاتاہے اور اس کی حفاظت مقصود ہوتی ہے تو یہ صورت تو ہو نہیں سکتی کیونکہ مال کی طرح آدمی امانت رکھے نہیں جاسکتے۔
۲۔ یا یہ مطلب ہوگا کہ جس طرح بچوں کو مربیوں کے سپرد کیا جاتا ہے ۔ تو یہ صورت بھی یہان درست نہیں ہوسکتی کیونکہ بچپن میں حسنین اپنے والدین کی گود میں تھے۔ اور جب بالغ ہوئے تو اور سب آدمیوں کی طرح خودمختار اور اپنےذمہ دار ہوگئے۔
اگر یہ مطلب بیان کیاجائے کہ نبی ﷺ نے امت کو ان کی حفاظت و حراست کا حکم دیا تھا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ امت کسی کو مصیبت سے بچا نہیں سکتی۔ وہ صرف اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ اس سے آپ کی غرض ان کی حمایت ونصرت تھی۔ تو اس میں ان کی خصوصیت نہیں۔ ہر مسلمان کو دوسرے مظلوم مسلمان کی حمایت ونصر ت کرنی چاہیے اور ظاہرہے حسنین اس کے زیادہ مستحق ہیں۔
اسی طرح یہ کہنا کہ آیت:
[qh]قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى [/qh](الشوری ۲۳/۴۲)"میں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتاہوں صرف رشتہ داری کی محبت چاہتا ہوں۔"
حسنین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، بالکل جھوٹ ہے کیونکہ یہ آیت سورۃ شوری کی ہے اور سورۂ شوری مکی ہے اور حسنین کیا معنی ؟ حضرت فاطمہ کی شادی سے بھی پہلے اتری ہے۔ آپ کا عقد ہجرت کے دوسرے سال مدینہ میں ہوا اور حسن و حسین ہجرت کے تیسرے اور چوتھے سال پیدا ہوئے۔ پھر یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔؟(منہاج السنہ از صفحہ: ۲۳۷ تا ۲۵۶، ج: ۲، طبع قدیم)[/FONT]
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
سانحۂ شہادت حسین اور واقعات کربلا کے موضوع پر آج سے کئی صدیاں قبل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (۶۶۱۔۷۲۸ھ) نے جو کچھ لکھا تھا، وہ حق واعتدال کا ایک بہترین نمونہ، دلائل و براہین کا نادر مرقع اور خداداد فہم صحیح کا شاہکار ہے، انہوں نے اپنی تالیفات میں متعدد مقامات پر اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ بالخصوص "منہاج السنۃ" میں اس پر بڑی عمدہ بحث فرمائی ہے جس کی ضروری تلخیص مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی مرحوم نے اردو میں کرکے شائع کر دی تھی۔ اس کیااہمیت و افادیت کے پیش نظر ہم ذیل میں امام موصوف کی وہ ترجمہ شدہ تحریر بھی قدرے ترمیم کے ساتھ پیش کررہے ہیں ، آیات و احادیث کے عربی الفاظ کا، اصل کتاب سے مراجعت کرکے، ہم نے اضافہ کردیا ہے۔ (مرتب)
تمہید: علماء اسلام میں کوئی ایک بھی یزید بن معاویہ کو ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کی طرح خلفائے راشدین میں سے نہیں سمجھتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((خلافۃ النبوۃ ثلاثون سنۃ ثم یؤتی اللہ الملک من یشآء)) (سنن أبی داؤد، السنۃ، باب فی الخلفاء، ح:۴۶۴۷)
"خلافت تیس برس تک منہاج نبوت پر رہے گی پھر سلطنت ہوجائے گی۔"
علماء اہل سنت اس حدیث کے مطابق یزید اور اس جیسے آدمی اور عباسی خلفاء کو محض فرمانروا بادشاہ اور اسی معنی میں خلیفہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا یہ خیال بالکل درست ہے۔ یہ ایک محسوس واقعہ ہے جس سے انکار غیر ممکن ہے کیونکہ یزید اپنے زمانے میں عملاً ایک بادشاہ، حکمران، ایک صاحب سیف اور خودمختار فرمانروا تھا۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھا اور شام، مصر، عراق خراسان وغیرہ اسلامی ممالک میں اس کا حکم نافذ ہوا۔ حضرت حسین قبل اس کے کہ کسی ملک پر بھی حاکم ہوں، یوم عاشوراء ۶۱ھ میں شہید ہوگئے اور یہی یزید کی سلطنت کا پہلا سال ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر: بلاشبہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید سے اختلاف کیا اور باشندگان مکہ وحجاز نے ان کا ساتھ دیا لیکن یہ واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ نے خلافت کا دعوی یزید کی زندگی میں نہیں کیا بلکہ اس کے مرنے کے بعد کیا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شروع شروع میں اختلاف کرنے کےباوجود عبداللہ بن زبیر یزید کے جیتے جی ہی اس کی بیعت پر رضا مند ہوگئے تھے مگر چونکہ اس نے یہ شرط لگا دی تھی کہ قید ہوکر ان کے حضور میں حاضر ہوں اس لیے بیعت رہ گئی اور باہم جنگ برپا ہوئی۔ پس اگرچہ یزید تمام بلاد اسلامیہ کا حکمران نہیں ہوا۔ اور عبداللہ بن زبیر کا ماتحت علاقہ اس کی اطاعت سے برابر گشتہ رہا، تاہم اس سے اس کی بادشاہت اور خلافت میں شبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلفائے ثلاثہ ابو بکر، عمر، عثمان اور پھر معاویہ بن ابی سفیان ، عبدالملک بن مروان اور اس کی اولاد کے سوا کوئی بھی اموی یا عباسی خلیفہ پورے بلاد اسلامیہ کا تنہا فرمانروا نہیں ہوا۔ حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بھی تمام دنیائے اسلام کی حکومت نہ تھی۔
بادشاہوں پر خلیفہ کا اطلاق؟ پس اگر اہل سنت ان بادشاہوں میں سے کسی کو خلیفہ یا امام کہتے ہیں تو اس سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں خودمختار تھا، طاقتور تھا، صاحب سیف تھا۔ عزل ونصب کرتا تھا، اپنے حکام کے اِجراء کی قوت رکھتا تھا۔ حدود شرعی قائم کرتا تھا کفار پر جہاد کرتا تھا۔ یزید کو بھی امام و خلیفہ کہنے سے یہی مطلب ہے اور یہ ایک ایسی واقعی بات ہے کہ اس کا انکار غیر ممکن ہے۔ یزید کے صاحب اختیار بادشاہ ہونے سے انکار کرناایسا ہی ہے جیسے کوئی اس واقعے سے انکار کردے کہ ابو بکر، عمر، عثمان حکمران نہیں تھے یا یہ کہ قیصر و کسریٰ نے کبھی حکومت نہیں کی۔
یہ "خلفاء معصوم نہ تھے: رہا یہ مسئلہ کہ یزید ، عبدالملک، منصور وغیرہ خلفاء نیک تھے یا بد؟ صالح تھے یا فاجر؟ تو علماء اہل سنت نہ انہیں معصوم سمجھتے ہیں نہ ان کے تمام احکام و اعمال کو عدل و انصاف قرار دیتے ہیں اور نہ ہر بات میں ان کی اطاعت واجب تصور کرتے ہیں۔البتہ اہل سنت والجماعت کا یہ خیال ضرور ہے کہ عبادت و طاعت کے بہت سے کام ایسے ہیں جن میں ہمیں ان کی ضرورت ہے ۔ مثلاً یہ کہ ان کے پیچھے جمعہ وعیدین کی نمازیں قائم کی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ کفار پر جہاد کیا جاتا ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور حدود شرعیہ کے قیام میں ان سے مدد ملتی ہے نیز اسی نوع کے دوسرے معاملات ہیں، اگر حکام نہ ہوں تو ان اعمال کا ضائع ہوجانا اغلب ہے بلکہ ان میں سے بعض کا موجود ہونا ہی غیر ممکن ہے۔
نصب امام کے چند اصول: اہل سنت کے اس طریقہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اعمال صالحہ انجام دینے میں اگر نیکوں کے ساتھ برے بھی شامل ہوں تو اس سے نیکوں کے عمل کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ بلاشبہ یہ بالکل درست ہے کہ اگر عادل صالح امام کا نصب ممکن ہو تو فاجر و مبتدع شخص کو امام بنانا جائز نہیں، اہل سنت کا بھی یہی مذہب ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو بلکہ امامت کے دونوں مدعی فاجر اور مبتدع ہوں تو ظاہر ہے کہ حدود شرعیہ وعبادات دینیہ کے قیام کےلیے دونوں میں سے زیادہ اہلیت و قابلیت والے کو منتخب کیا جائے گا۔ ایک تیسری صورت بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی ایسا شخص موجود ہو جو صالح ہو مگر سپہ سالاری کے فرائض و واجبات ادا کرنے کا اہل نہ ہو۔ اس کے خلاف ایک فاجر شخص ہو جو بہترین طریق پر فوجون کی قیادت کرسکتا ہو تو جس حد تک جنگی مقاصد کا تعلق ہے، یقیناً اسی آخر الذکر یعنی فاجر کو سربراہ بنانا پڑے گا۔ نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت و امداد کی جائے گی۔ بدی اور برائی میں اس پر اعتراض و انکار کیا جائے گا۔
حفظ مصالح اور دفع مفاسد: غرض امت کی مصلحتوں کا لحاظ مقدم ہے اگر کسی فعل میں بھلائی اور برائی دونوں موجود ہوں تو دیکھا جائے گا کہ کس کا پلہ بھاری ہے اگر بھلائی زیادہ نظر آئے تو اس فعل کو پسند کیا جائے گا۔ اگر برائی غالب دکھائی دے تو اس کے ترک کو ترجیح دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے نبیٔ کریم ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ مصالح کی تائید وتکمیل فرمائیں اور مفاسد مٹائیں یا کم کریں۔ یزید ، عبدالملک اور منصور جیسے خلفاء کی اطاعت اسی لیے کی گئی کہ ان کی مخالفت میں امت کےلیے نقصان ، نفع سے زیادہ تھا۔ تاریخ شاہد ہےکہ ان خلفاء پر جن لوگوں نے خروج کیا ان سے امت کو سراسر نقصان ہی پہنچا، نفع ذرا بھی نہیں ہوا۔ بلاشبہ ان خروج کرنے والوں میں بڑے بڑے اخیار وفضلاء بھی شامل تھے مگر ان کی نیکی وخوبی سے ان کا یہ فعل لازماً مفید نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اپنے خروج سے نہ دین کو فائدہ پہنچایا اور نہ دنیوی نفع ہی حاصل کیا۔ اور معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل کا حکم نہیں دیتا جس میں نہ دنیا کا بھلا ہو نہ دین کا، جن لوگوں نے خروج کیا ان سے کہیں زیادہ افضل حضرت علی ، طلحہ ، زبیر، عائشہ وغیرہم صحابہ تھے مگر خود انہوں نے اپنی خونریزی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
عہد فتن میں خروج کی ممانعت: یہی وجہ ہے کہ حسن بصری حجاج بن یوسف ثقفی کے خلاف بغاوت سے روکتے تھے اور کہتے تھے "حجاج اللہ کا عذاب ہے اسے اپنے ہاتھوں کے زور سے دور کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اللہ کے سامنے تضرع و زاری کرو کیونکہ اس نے فرمایا ہے:
[qh]وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ [/qh](المؤمنون ۷۶/۲۳)
"ہم نے ان کی عذاب کے ذریعے گرفت کی۔ انہوں نے پھر بھی اپنے رب کے سامنے نہ عاجزی کا اظہار کیا اور نہ اس کے حضور گڑگڑائے۔"
اسی طرح اور اخیار وابرار بھی خلفاء پر خروج اور عہد فتنہ میں جنگ سے منع کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر، سعید بن المسیب، حضرت زین العابدین، علی بن حسین وغیرہم اکابر صحابہ وتابعین جنگ حرہ کے زمانے میں یزید کے خلاف بغاوت کرنے سے روکتے تھے۔ احادیث صحیحہ بھی اسی مسلک کی مؤید ہیں اسی لیے اہل سنت کے نزدیک یہ تقریباً متفق علیہ مسئلہ ہے کہ عہدفتن میں قتال وجدال سے اجتناب اور جور ائمہ پر صبر کیا جائے، وہ یہ مسئلہ اپنے عقائد میں بھی ذکر کرتے رہے ہیں اور جو شخص متعلقہ احادیث اور اہل سنت کے صاحب بصیرت علماء کے طرز عمل وفکر میں تامل کرے گا اس پر اس مسلک کی صحت و صداقت بالکل واضح ہوجائے گی۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عزم عراق: اسی لیے جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق جانے کا رادہ کیا تو اکابر اہل علم وتقویٰ مثلاً عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس ، ابوبکر بن عبدالرحمن حارث نے ان سے بہ منت کہا کہ وہاں نہ جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے آپ ضرور شہید ہوجائیں گے۔ حتی کہ روانگی کے وقت بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ [font="_pdms_saleem_quranfont"]استودعک اللہ من قتیل [/font]"اے شہید! ہم تجھے اللہ کو سونپتے ہیں۔"
اور بعضوں نے کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"] ((لو الشناعۃ لأمسکتک ومنعتک من الخروج))[/font]
"اگر بے ادبی نہ ہوتی تو ہم آپ کو زبردستی پکڑ لیتے اور ہرگز جانے نہ دیتے۔"
اس مشورے سے ان لوگوں کےمدنظر صرف آپ کی خیرخواہی اور مسلمانوں کی مصلحت تھی مگر حضرت حسین اپنے ارادے پر قائم رہے۔آدمی کی رائے کبھی درست ہوتی ہے اور کبھی غلط ہوجاتی ہے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ حضرت حسین کو عراق جانے سے روکنے والوں ہی کی رائے درست تھی کیونکہ آپ کے جانے سے ہرگز کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل نہ ہوئی بلکہ یہ مضرت پیدا ہوئی کہ سرکشوں اور ظالموں کو رسول اللہ ﷺ کے جگر گوشے پر قابو مل گیا اور وہ مظلوم شہید کردیئے گئے۔ آپ کے جانے اور پھر قتل سے جتنے مفاسد پیدا ہوئے وہ ہرزگ واقع نہ ہوتے اگر آپ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے کیونکہ جس خیر وصلاح کے قیام اور شروفساد کے دفعیہ کےلیے آپ اٹھے تھے اس میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ برعکس اس کے شر کو غلبہ اور عروج حاصل ہوگیا۔ خیرو وصلاح میں کمی آگئی اور بہت بڑے دائمی فتنے کا دروازہ کھل گیا جس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے فتنے پھیلے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے بھی فتنوں کے سیلاب بہادیئے۔
حضرت حسین کا مقام بلند: اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ٔ کریم ﷺ کا ائمہ و خلفاء کے ظلم پر صبر کرنے اور ان سے جنگ وبغاوت نہ کرنے کا حکم مناسب اور امت کے دین ودنیا کےلیے زیادہ بہتر تھا اور جنہوں نے بالقصد یا بلا قصد اس کی مخالفت کی۔ ان کے فعل سے امت کو فائدہ کے بجائے نقصان ہی پہنچا۔ یہی سبب ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرمایا تھا:
[qh]((إٍنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ))[/qh] (صحیح البخاری، الصلح، ح:۲۷۰۴)
"میرا یہ فرزند سردا رہے عنقریب خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔"
لیکن اس بات پر کسی شخص کی بھی تعریف نہیں کی کہ وہ فتنہ میں پڑے گا یا خلفاء پر خروج کرے گا یا اطاعت سے برگشتہ یا جماعت سے منحرف ہوگا۔ اس حدیث سے صاف ثابت ہوتاہے کہ دو گروہوں میں صلح کرانا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں مستحسن ومحبوب ہے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا خلافت سے دستبردار ہوکر مسلمانوں کی خونریزی کا خاتمہ کردینا ان کے فضائل میں ایک عظیم ترین فضیلت ہے کیونکہ اگر خانہ جنگی واجب و مستحب ہوتی تو آنحضرتﷺ اس کے ترک پر ہرگز تعریف نہ فرماتے۔
یہاں یہ معلوم کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ نبی ﷺ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک ساتھ گود میں لے کر فرمایا کرتے تھے۔ "اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی محبت کر۔" چنانچہ جس طرح آپ اپنی محبت میں دونوں کو یکساں شریک کرتے تھے اسی طرح بعد میں یہ دونوں ان خانہ جنگیوں سے یکساں طور پر نفرت کرتے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تو جنگ صفین کے دن اپنے گھر بیٹھ رہے تھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے پدر برادر (حضر ت علی اور حسین رضی اللہ عنہما) کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ پھر جب خود بااختیار ہوئے تو جنگ سے دستبردار ہوگئے اور لڑنے والوں میں صلح قائم کردی۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی آخر میں یہ حقیقت روشن ہوگئی تھی کہ جنگ کے جاری رہنے سے زیادہ اس کے ختم ہوجانے میں مصلحت ہے۔ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی کربلا پہنچ کر جنگ سے بیزار اور سرے سے دعویٰ ٔ امارت وخلافت ہی سے دستبردار ہوگئے تھے اور کہتے تھے "مجھے وطن لوٹ جانے دو۔"
اطاعت فی المعروف: اب یہ بات صاف ہوگئی کہ یزید کا معاملہ کوئی خاص جداگانہ معاملہ نہیں بلکہ دوسرے مسلمان بادشاہوں کا سا معاملہ ہے یعنی جس کسی نے طاعت الہٰی مثلاً نماز، حج، جہاد، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اقامت حدود شرعیہ میں ان کی موافقت کی اسے اپنی اس نیکی اور اللہ ورسول کی فرمانبرداری پر ثواب ملے گا۔ چنانچہ اس زمانے کے صالح مؤمنین مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا یہی طریقہ تھا۔ لیکن جس نے ان بادشاہوں کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم میں مددگار ہوا، وہ گناہ گار ہوا اور زجر وتوبیخ اور مذمت اور سزا کا سزاوار ۔ یہی باعث ہے کہ صحابہ ٔ کرام یزید وغیرہ امراء کی ماتحتی میں جہاد کو جاتے تھے۔ چنانچہ جب یزید نے اپنے باپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں قسطنطنیہ کا غزوہ کیا تو اس کی فوج میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی شریک تھے۔ یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی فوج ہے جس نے قسطنطنیہ کا غزوہ کیا(1)اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
[qh]((أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ ))[/qh] (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
"جو فوج سب سے پہلے قسطنطنیہ کا غزوہ کرے گی وہ مغفور یعنی بخشی بخشائی ہے۔"
یزید کے بارے میں افراط وتفریط: اس تفصیل کے بعد اب ہم کہتے ہیں کہ یزید کے بارے میں لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا ہےایک گروہ تو اسے خلفائے راشدین اور انبیائے مقربین میں سے سمجھتا ہے اور یہ سراسر غلط ہے دوسرا گروہ اسے باطن میں کافر و منافق بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے قصداً حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور مدینہ میں قتل عام کرایا تاکہ ااپنے ان رشتہ داروں کے خون کا انتقام لے جو بدرو خندق وغیرہ کی جنگوں میں بنی ہاشم اور انصار ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور یہ کہ حضرت حسین کی شہادت کے بعد اس نے یہ شعر پڑھے تھے۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لما بدت تلک الحمول وأشرفت
تلک الرؤوس علی أبی جیرون[/font]
"جب وہ سواریاں اور سرابوجیرون کی بلندیوں پر نمودار ہوئے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]نعق الغراب فقلت نح أو لا تنح
فلقد قضیت من النبی دیونی[/font]
"تو کوا چلایا ۔ اس پر میں نے کہا تو نوحہ کر یا نہ کر میں نے تو نبی سے اپنا قرض پورا پورا وصول کرلیا!"
یا یہ کہ اس نے کہا:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]لیت أشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الأسل[/font]
"کاش میرے بدر والے بزرگ ، نیزوں کی مار سے خزرج وانصار کی دہشت دیکھتے۔"
[font="_pdms_saleem_quranfont"]قد قتلنا القرون من ساداتھم
وعدلنا ببدر فاعتدل[/font]
"ہم نے ان کے سرداروں میں چوٹی کے سردار قتل کرڈالے اور اس طرح بدر کا بدلہ اتار دیا۔"
یہ تمام اقوال سراسر بہتان اور جھوٹ ہیں۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]حقیقت حال:[/font] حقیقت یہ ہےکہ یزید مسلمان بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اور دنیادار خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھا۔ رہے حسین رضی اللہ عنہ تو بلاشبہ وہ اسی طرح مظلوم شہید ہوئے جس طرح اور بہت سے صالحین ظلم وقہر کے ہاتھوں جام شہادت پی چکے تھے۔ لاریب حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اللہ اور اس کے رسول کی معصیت اور نافرمانی ہے۔ اس سے وہ تمام لوگ آلودہ ہیں جنہوں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا یا قتل میں مدد کی یا قتل کو پسند کیا۔
شہادت کا رتبہ ٔ بلند: شہادت حسین رضی اللہ عنہ اگرچہ امت کےلیے بہت بڑی مصیبت ہے لیکن خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حق میں ہرگز مصیبت نہیں، بلکہ شہادت، عزت اور علومنزلت ہے۔ یہ سعادت بغیر مصائب ومحن میں پڑے حاصل نہیں ہوسکتی چونکہ نبی ﷺ کے دونوں نواسے (حضرت حسین اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما ) گہوارۂ اسلام میں پیدا ہوئے، امن و امان کی گود میں پلے اور ہولناک مصائب سے دور رہے جن کے طوفانوں میں ان کے اہل بیت مردانہ وار تیرتے پھرتے تھے۔اس لیے شہداء خوش بخت کے اعلیٰ درجات ِ منازل تک پہنچنے کےلیے انہیں کٹھن مرحلے سے گزرنا ضرور تھا۔ چنانچہ دونوں گزر گئے۔ ایک کو زہر دیا گیا اور دوسرے کے گلے پر چھری پھیری گئی۔
بڑی بڑی اہم شہادتیں: لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کسی حال میں بھی ان انبیاء کے قتل سے زیادہ گناہ اور مصیبت نہیں جنہیں بنی اسرائیل قتل کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل بھی ان کے قتل سے زیادہ گناہ اور امت کے لیے زیادہ بڑی مصیبت تھا۔
صبر، نہ کہ جزع فزع: یہ حوادث کتنے ہی دردناک ہوں بہرحال ان پر صبر کرنا، اور [qh]إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ [/qh] کہنا چاہیے کیونکہ اس سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔ فرمایا: [qh]وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ[/qh](البقرۃ ۱۵۵/۲۔۱۵۶)
"ان صبر گزاروں کو خوشخبری دے دیجئے جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی زبان پر [qh]إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ[/qh] جاری ہوجاتا ہے۔"
ماتم اور بین کرنے والے ہم میں سے نہیں: حدیث صحیح میں آیا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: [qh]((لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ))[/qh] (صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منا۔۔۔، ح:۱۲۹۴)
"جس نے منہ پیٹا، گریبان چاک کیا اور جاہلیت کے بین کیے وہ ہم میں سے نہیں۔"
نیز نبی ﷺ نے صَالِقَہ، حَالِقَہ اور شَاقَّہ سے اپنے تئیں بری بتایا ہے:
[qh]((إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِئَ مِنْ الصَّالِقَةِ وَالْحَالِقَةِ وَالشَّاقَّةِ))[/qh] (صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من الحلق عند المصیبۃ، ح:۱۲۹۶)
صالقہ بین کرنے والی عورتیں" حالقہ غم سے بال منڈا ڈالنے والی اور شاقّہ گریبان پھاڑنے والی عورتیں۔
نیز فرمایا:
[qh] ((النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ))[/qh] (صحیح مسلم، الجنائز، باب التشدید فی النیاحۃ، ح:۹۳۴)
"نوحہ کرنے والی عورتیں اگر توبہ کے بغیر مرجائیں گے تو انہیں قیامت کے دن خارشی قمیص اور گندھک کا جامہ پہنا کر کھڑا کیا جائے گا۔"
اس قسم کی ایک عورت حضرت عمر کے پاس لائی گئی تو آپ نے اسے مارنے کا حکم دیا۔ سزا کے دوران میں اس کا سر کھل گیا تو لوگوں نے عرض کیا۔ امیر المؤمنین اس کا سر برہنہ ہوگیا ہے۔ فرمایا کچھ پروا نہیں۔
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((لا حرمۃ لھا إنہا تنہی عن الصبر وقد أمر اللہ بہ وتأمر بالجزع وقد نہی اللہ عنہ وتفتن الحی وتؤذی المیت وتبیع عبرتھا وتبکی بشجو غیرھا إنہا لا تبکی علی میتکم إنما تبکی علی أخذ دراھمکم))[/font]
"اس کی کوئی حرمت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کو مصیبت میں صبر کرنے سے منع کرتی ہے حالانکہ اللہ نے صبر کا حکم دیا ہے، اور یہ رونے کی ترغیب دیتی ہے حالانکہ اللہ نے اس سے منع کیا ہے۔ زندہ کو فتنے میں ڈالتی ہے۔ مردہ کو تکلیف دیتی ہے۔ اپنے آنسو فروخت کرتی ہے۔ اور دوسروں کےلیے بناوٹ سے روتی ہے یہ تمہاری میت پر نہیں روتی بلکہ تمہارا پیسہ لینے کےلیے آنسو بہاتی ہے۔"
شہادت حسین کے بارے میں افراط وتفریط: جس طرح لوگوں نے یزید کے بارے میں افراط و تفریط سے کام لیا ہے اسی طرح بعضوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بے اعتدالی برتی ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے۔ (معاذ اللہ!)
"ان کا قتل درست اور شریعت کے مطابق ہوا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور جماعت کو توڑنے کی کوشش کی تھی اور جو ایسا کرے اس کا قتل واجب ہے کیونکہ نبی ﷺ فرما چکے ہیں:
[qh] ((مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ))[/qh] (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وہو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
"اتفاق کی صورت میں جو تم میں پھوٹ ڈالنے آئے اسے قتل کرڈالو۔"
حضرت حسین بھی پھوٹ ڈالنا چاہتے تھے اس لیے بجا طور قتل کر ڈالے گئے۔"
بلکہ بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ "اسلام میں اولین باغی حسین ہے۔"
ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ کہتا ہے:
"حضرت حسین امام برحق تھے ان کی اطاعت واجب تھی ان کے بغیر ایمان کا کوئی تقاضا بھی پورا نہیں ہوسکتا۔ جماعت اور جمعہ اسی کے پیچھے درست ہے جسے انہوں نے مقرر کیا اور جہاد نہیں ہوسکتا جب تک ان کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو۔"
مقابلے کا ارادہ ترک کردیا: ان دونوں نہایت غلطیوں کے درمیان اہلسنت ہیں وہ نہ پہلے گروہ کے ہمنوا ہیں اور نہ دوسرے گروہ کے۔ ان کا خیال ہے کہ حضرت حسین مظلوم شہید کیے گئے ان کے ہاتھ امت کی سیاسی باگ دوڑ نہیں آئی۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا احادیث ان پر چسپاں نہیں ہوتیں کیونکہ جب انہیں اپنے بھائی مسلم بن عقیل کا انجام معلوم ہوا تو وہ اپنے اس ارادے سے دستبردار ہوگئے(2)تھے اور فرماتے (3)تھے۔
"مجھے وطن جانے دو یا کسی سرحد پر مسلمانوں کی فوج سے جا ملنے دو یا خود یزید کے پاس پہنچنے دو(4)مگر مخالفین نے ان کی کوئی بات بھی نہ مانی اور اسیری قبول کرنے پر اصرار کیا جسے انہوں نے نامنظور کردیا کیونکہ اسے منظور کرنا ان پر شرعاً واجب نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہ غزوہ ۵۱ھ میں ہوا جس میں حضرت حسین یزید کی ماتحتی میں شریک تھے (البدایہ، ص:۱۵۱، ج:۸) ظاہر ہے اس اثناء میں نمازیں بھی یزید کے پیچھے پڑھتےرہے۔ (ص،ی)
(2) یعنی راستے ہی سے واپس مکہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن مسلم کے بھائیوں کے اصرار کا ساتھ دینا پڑا جیسا کہ شیعہ سنی سب تاریخوں میں ہے۔ (ص،ی)
(3) یعنی منزل مقصود پر پہنچ کر جب ابن زیاد کی فوج کے سربراہ عمر بن سعد سے گفتگوئے مصالحت کے سلسلے میں حضرت حسین نے متن میں مذکور تین باتیں فرمائیں
(4) اس تیسری بات کے بارے میں تاریخ طبری ۲۹۳/۴ میں یہ الفاظ ہیں:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((فأضع یدی فی یدہ فیحکم فی ما رأیٰ)) [/font](البدایۃ: ۱۷۱/۸)
"میں براہ راست یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا (بیعت کرلوں گا) پھر و ہ جیسا کہ مناسب سمجھے کر لے گا۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی ایک جگہ یہ الفاظ ذکر کیے ہیں:
[font="_pdms_saleem_quranfont"]((وطلب أن یردوہ إلی یزید ابن عمہ حتی یضع یدہ فی یدہ أو یرجع من حیث جآء أو یلحق الثغور))[/font] (رأس الحسین، ص:۲۰)
مطلب وہی ہے جو متن میں ہے۔ (ص،ی)[/font]
جناب،
میں براہ راست یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا (بیعت کرلوں گا) پھر و ہ جیسا کہ مناسب سمجھے کر لے گا۔"
یہ بات پائے ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے کیونکہ اس میں حصین بن عبدالرحمن السلمی ہیں جو کو آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا اور ان سے عباد بن العوم نے روایت کی ہے جو تغیر کے دور میں صادر ہوئی ہے اس لیے یہ روایت کمزور ہے جبکہ اس کے مقابلے پر وہ تمام روایات ہے جن میں حسین رضی اللہ عنہ کی اس شھادت کا ذکر اور علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس بیٹے کو ںصیحت کی بیٹا صبر کرنا تو جس کو بچپن سے معلوم ہو کہ میرا وقت اجل اس مقام پر لکھ دیا گیا ہے وہ وہاں سے بچنے کی کوشش کرے گا کوئی عام مومن صاحب ایمان ایسا نہ کرے پھر وہ تو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اس قسم کی روایات حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت کو بدنام کرتی ہیں اس لیے ایسی کمزور روایات کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
جناب،
میں براہ راست یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا (بیعت کرلوں گا) پھر و ہ جیسا کہ مناسب سمجھے کر لے گا۔"
یہ بات پائے ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے کیونکہ اس میں حصین بن عبدالرحمن السلمی ہیں جو کو آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا اور ان سے عباد بن العوم نے روایت کی ہے جو تغیر کے دور میں صادر ہوئی ہے

کس امام نے یہ بات کہی ہے عباد نے حصین سے تغیر کے بعد روایت کیا ہے؟
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
اورکیا حصین کو ایسا تغیر لاحق ہوا تھاجس سے بعد تغیر ان کی روایات ضعیف شمارکی جاتی تھیں؟ اس کی بھی وضاحت مع دلیل فرمائیں؟
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں اس طریق سے صرف ایک روایت نقل کی ہے اور اس کی تائید کے لیے دوسری سند سے روایت لائے ہیں اور اپنے مقدمہ میں صاف لکھا ہے کہ میں دوسرے درجہ کی روایت ان سے کرتا ہوں جن کے حافظہ میں تغیر ہوتا ہے۔ اور حافظ ابن حجر نے ھدی الساری میں تغیر سے قبل روایت کرنے والوں میں اس کا نام نہیں دیا ہے اور تحریر تقریب کے مصنفین نے بھی یہی کہا ہے۔ اور شھادت کے حوالے سے میں نے جو بیان کیا ہے وہ تمام روایات البانی صاحب نے سلسلہ الصحیحہ میں نقل کی ہیں۔ واللہ اعلم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جناب،
میں براہ راست یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا (بیعت کرلوں گا) پھر و ہ جیسا کہ مناسب سمجھے کر لے گا۔"
یہ بات پائے ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے کیونکہ اس میں حصین بن عبدالرحمن السلمی ہیں جو کو آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا اور ان سے عباد بن العوم نے روایت کی ہے جو تغیر کے دور میں صادر ہوئی ہے اس لیے یہ روایت کمزور ہے جبکہ اس کے مقابلے پر وہ تمام روایات ہے جن میں حسین رضی اللہ عنہ کی اس شھادت کا ذکر اور علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس بیٹے کو ںصیحت کی بیٹا صبر کرنا تو جس کو بچپن سے معلوم ہو کہ میرا وقت اجل اس مقام پر لکھ دیا گیا ہے وہ وہاں سے بچنے کی کوشش کرے گا کوئی عام مومن صاحب ایمان ایسا نہ کرے پھر وہ تو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اس قسم کی روایات حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت کو بدنام کرتی ہیں اس لیے ایسی کمزور روایات کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔
اس لنک کو ملاحظه کریں -

یہ روایت بلکل صحیح ہے

http://forum.mohaddis.com/threads/سیدنا-حسین-رضی-اللہ-عنہ-کا-یزید-بن-معاویہ-رحمہ-اللہ-کی-بیعت-پررضامندی-کا-ثبوت-مع-تحقیق-سند.6904/
.
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جناب،
میں براہ راست یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا (بیعت کرلوں گا) پھر و ہ جیسا کہ مناسب سمجھے کر لے گا۔"
یہ بات پائے ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے کیونکہ اس میں حصین بن عبدالرحمن السلمی ہیں جو کو آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا اور ان سے عباد بن العوم نے روایت کی ہے جو تغیر کے دور میں صادر ہوئی ہے اس لیے یہ روایت کمزور ہے جبکہ اس کے مقابلے پر وہ تمام روایات ہے جن میں حسین رضی اللہ عنہ کی اس شھادت کا ذکر اور علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس بیٹے کو ںصیحت کی بیٹا صبر کرنا تو جس کو بچپن سے معلوم ہو کہ میرا وقت اجل اس مقام پر لکھ دیا گیا ہے وہ وہاں سے بچنے کی کوشش کرے گا کوئی عام مومن صاحب ایمان ایسا نہ کرے پھر وہ تو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اس قسم کی روایات حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت کو بدنام کرتی ہیں اس لیے ایسی کمزور روایات کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت حسین الله عنہ کی شہادت کی پیشنگوئی سے متعلق تمام روایات ضعیف و موضو ع ہیں - بخاری میں ایسی کوئی ایک روایت بھی نہیں - البتہ مسند احمد ، تاریخ دمشق وغیرہ میں ایس روایات موجود ہیں جو نا قابل ا عتبار ہیں -

مسند احمد کی مشہور روایت ہے
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں-

اسکی سند کا راوی عمار بن أبي عمار مولى بني هاشم مختلف فیہ ہے -بخاری اس سے کوئی حدیث نہیں لیتے- ابن حبان مشاہیر میں کہتے ہیں- وكان يهم في الشئ بعد الشئ
اسکو بات بے بات وہم ہوتا ہے- ابو داود کہتے ہیں شعبہ نے اس سے روایت لی لیکن کہا- وكان لا يصحح لي-میرے نزدیک یہ (اس کی روایت) صحیح نہیں- یحیی بن سعید کہتے ہیں شعبہ نے صرف ایک روایت اس سے لی-وغیرہ

-

تاریخ دمشق کی روایت ہے-
شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا

ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے- النَّسَائِيُّ اپنی کتاب الضعفاء والمتروكون میں کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں . ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.- أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے .

مزید یہ کہ مذکورہ روایت میں حسین رضی الله عنہ کی شہادت کی جگہ کو "کربلا" کہا گیا ہے جب کہ ابن جریر طبری رحم الله نے تاریخ طبری (جلد ٥) میں لکھا ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کو صفر کے مہینے میں نینوا (بابل) کے مقام پر کوفیوں نے قتل کیا تھا- لہذا اس روایت میں تضاد ہے-

یہ بنو امیہ پر تبرّا اور امیر یزید بن معاویہ رحم الله کو بدنام کرنے کے لئے ہیں -عجیب بات ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کو خواب میں سب کچھ دیکھا دیا گیا کہ ان کے نواسے کو کب اور کہاں شہید کیا جائے گا لیکن اس شخص کو خواب میں نہیں دکھایا گیا جو ان کے قتل کا موجب بنے گا (یعنی یزید بن معاویہ)- ؟؟
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
میں نے پوچھا تھا:
کس امام نے یہ بات کہی ہے عباد نے حصین سے تغیر کے بعد روایت کیا ہے؟
اورکیا حصین کو ایسا تغیر لاحق ہوا تھاجس سے بعد تغیر ان کی روایات ضعیف شمارکی جاتی تھیں؟ اس کی بھی وضاحت مع دلیل فرمائیں؟
اورآپ کا جواب یہ آیا:
امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں اس طریق سے صرف ایک روایت نقل کی ہے اور اس کی تائید کے لیے دوسری سند سے روایت لائے ہیں اور اپنے مقدمہ میں صاف لکھا ہے کہ میں دوسرے درجہ کی روایت ان سے کرتا ہوں جن کے حافظہ میں تغیر ہوتا ہے۔ اور حافظ ابن حجر نے ھدی الساری میں تغیر سے قبل روایت کرنے والوں میں اس کا نام نہیں دیا ہے اور تحریر تقریب کے مصنفین نے بھی یہی کہا ہے۔ اور شھادت کے حوالے سے میں نے جو بیان کیا ہے وہ تمام روایات البانی صاحب نے سلسلہ الصحیحہ میں نقل کی ہیں۔ واللہ اعلم
آپ میرے سوال کا جواب دیں۔

امام مسلم ، حافظ ابن حجر ، تحریر کے مصنفین کے بارے میں آپ نے جو کچھ کہا ہے اس پر نظر ثانی کرلیں ۔
اورامام مسلم یا امام بخاری رحمھما اللہ نے اگر کسی متغرالحفظ راوی کی روایت اس کے کسی شاگرد سے نہیں لی ہے تو کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے اس شاگرد کا سماع تغیر کے بعد ہے؟
یہ اصول کس نے بیان کیاہے؟
اوراگر یہ اصول آپ صحیح سمجھتے ہیں تو کیا آپ یہ اعلان کریں گے کہ صحیحین کےجس مختلط یا متغر الحفظ سے کوئی ایسا راوی روایت کریں جس کی اس مختلط یا متغیر الحفظ سے روایت صحیحین میں نہ ہو تو اس کا سماع تغیر اور اختلاط کے بعد کا ہے؟

بہرحال آپ اس سوال کا جواب دیں کہ :
کس امام نے یہ بات کہی ہے عباد نے حصین سے تغیر کے بعد روایت کیا ہے؟
اورکیا حصین کو ایسا تغیر لاحق ہوا تھاجس سے بعد تغیر ان کی روایات ضعیف شمارکی جاتی تھیں؟ اس کی بھی وضاحت مع دلیل فرمائیں؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top