ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(٢) قول ہذا کے قائلین کے نزدیک اس وقت سبعہ احرف میں سے صرف ایک حرف باقی ہے اور باقی چھ احرف کا قطعی کوئی وجود نہیں لیکن یہ حضرات کسی بھی دلیل سے اُن چھ احرف کی منسوخیت یا مرفوعیت قطعاً ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔
(٣) اس مسلک کے قائلین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُمت محمدیہﷺ کا صرف ایک حرف کے ثبوت اور بقیہ چھ اَحرف کے ترک پراجماع منعقد ہوچکا ہے لیکن اجماع کا یہ دعویٰ قطعاً بے دلیل ہے۔
(٤) ان حضرات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ’’عہد عثمانی میں عثمانی مصاحف کا لکھوانا اُمت کی جانب سے احرف ستہ کے ترک اور صرف اُس ایک حرف کی بقاء و اقتصار پر اجماع ہے جوعثمانی مصاحف میں لکھاگیاہے‘‘ باوجود یہ کہ دلائل سے یہ اَمر ثابت ہے کہ عثمانی مصاحف میں حرفاً حرفاً ساتوں احرف باقی ہیں۔
(٥) ان حضرات کایہ بھی کہنا ہے کہ ’’عہد عثمانی میں اختلاف قراء ات کی وجہ سے اُمت کا اس حد تک تنازع ہوا کہ بعض نے بعض کی تکفیر تک شروع کردی اور اس فتنہ پردازی کے خوف سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اُس وقت کے بقید حیات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ مناسب سمجھا کہ سب لوگوں کوایک ہی حرف پرجمع کرکے باقی چھ احرف کو ترک کردیا جائے۔‘‘ لیکن ان حضرات کی توجہ اس جانب مبذول نہ ہوسکی کہ تعدُدِ وجود قراء ت تو درحقیقت منجانب اللہ اُمت محمدیہﷺکے ساتھ رحمت کا معاملہ ہے اور ان وجود کاتو خود حضورعلیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کرکے تخفیف کی درخواست فرمائی تھی اور متعدد وجوہ قراء ات کا حوالہ دے کر ہی تو حضورعلیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزاع و جدال کاعقدہ حل فرمایاتھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے تسلیم کرنے پر آمادہ کیا تھا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس فعل و سلوک نبویﷺ کی خلاف ورزی کرکے اللہ تعالیٰ کی رحمت و تخفیف والے اُس دروازے کو کیونکر بند کرسکتے تھے جس کو ذات خُداوندی نے خاص اُمت اسلامیہ کے لیے مفتوح فرمایا تھا۔ (صفحہ:۱۶۹)
(٣) اس مسلک کے قائلین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُمت محمدیہﷺ کا صرف ایک حرف کے ثبوت اور بقیہ چھ اَحرف کے ترک پراجماع منعقد ہوچکا ہے لیکن اجماع کا یہ دعویٰ قطعاً بے دلیل ہے۔
(٤) ان حضرات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ’’عہد عثمانی میں عثمانی مصاحف کا لکھوانا اُمت کی جانب سے احرف ستہ کے ترک اور صرف اُس ایک حرف کی بقاء و اقتصار پر اجماع ہے جوعثمانی مصاحف میں لکھاگیاہے‘‘ باوجود یہ کہ دلائل سے یہ اَمر ثابت ہے کہ عثمانی مصاحف میں حرفاً حرفاً ساتوں احرف باقی ہیں۔
(٥) ان حضرات کایہ بھی کہنا ہے کہ ’’عہد عثمانی میں اختلاف قراء ات کی وجہ سے اُمت کا اس حد تک تنازع ہوا کہ بعض نے بعض کی تکفیر تک شروع کردی اور اس فتنہ پردازی کے خوف سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اُس وقت کے بقید حیات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ مناسب سمجھا کہ سب لوگوں کوایک ہی حرف پرجمع کرکے باقی چھ احرف کو ترک کردیا جائے۔‘‘ لیکن ان حضرات کی توجہ اس جانب مبذول نہ ہوسکی کہ تعدُدِ وجود قراء ت تو درحقیقت منجانب اللہ اُمت محمدیہﷺکے ساتھ رحمت کا معاملہ ہے اور ان وجود کاتو خود حضورعلیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کرکے تخفیف کی درخواست فرمائی تھی اور متعدد وجوہ قراء ات کا حوالہ دے کر ہی تو حضورعلیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزاع و جدال کاعقدہ حل فرمایاتھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے تسلیم کرنے پر آمادہ کیا تھا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس فعل و سلوک نبویﷺ کی خلاف ورزی کرکے اللہ تعالیٰ کی رحمت و تخفیف والے اُس دروازے کو کیونکر بند کرسکتے تھے جس کو ذات خُداوندی نے خاص اُمت اسلامیہ کے لیے مفتوح فرمایا تھا۔ (صفحہ:۱۶۹)