• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدہ سہوكے أحکام

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محترم عامر صاحب
اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مسلمان کو اگر کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو خود اجتہاد نہ کرے بلکہ علماء سے مسئلہ کے متعلق فتوی لے۔ ؟
جی آفتاب بھائی! مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ اگر ایک عام مسلمان کو کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو علماء کرام﷭ سے فتویٰ لے کیونکہ وہ خود تو اجتہاد کرنے کا اہل ہی نہیں ہے۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ... سورة النحل کہ ’’پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو ۔‘‘ نیز فرمانِ نبویﷺ ہے: « ألا سألوا إذ لم يعلموا فإنما شفاء العي السؤال » ... صحيح سنن أبي داؤد کہ ’’اگر وہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے سوال کیوں نہ کیا، کیونکہ جہالت کا علاج تو سوال کرنا ہی ہے۔‘‘
لیکن یہ واضح رہے کہ سائل اپنے علم کے مطابق سب سے بڑے اور سب سے متّقی عالم دین کے پاس جائے اور ان سے اللہ ورسول کا حکم پوچھے، نہ کہ یہ کہے کہ مجھے فلاں فقہ کی مطابق فتویٰ چاہئے، مفتی صاحب کو بھی چاہئے کہ وہ دلائل کی روشنی میں اس کے سامنے شریعت کا حکم واضح کریں، اور اگر مفتی صاحب کو علم نہ ہو یا کسی قسم کا کوئی اشکال ہو تو اپنے بہتر عالم کی طرف ریفر کر دیں، بغیر علم اور دلائل کے جواب نہ دیں! جس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری﷜ سے کسی نے (بیٹی، پوتی اور بہن) کی وراثت کا سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ بیٹی کو نصف اور بہن کو (باقی) نصف ملے گا، لیکن تم سیدنا ابن مسعود﷜ سے بھی یہی مسئلہ پوچھو وہ ضرور میری تصدیق کریں گے، سائل ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں سیدنا ابو موسیٰ اشعری﷜ کا فیصلہ بتایا تو انہوں نے فرمایا: اگر یہی جواب میں بھی دوں میں راہ حق سے ہٹ جاؤں گا، میں تمہیں اس کے متعلّق نبی کریمﷺ کا فیصلہ سناتا ہوں، آپﷺ نے اسی مسئلے میں بیٹی کو نصف، پوتی کو دو تہائی مکمل کرنے کیلئے چھٹا اور باقی (تیسرا حصہ) بہن کو دیا تھا۔ جب یہ خبر سیدنا ابو موسیٰ اشعری﷜ کو دی گئی تو انہوں نے کہا کہ جب تک تم میں یہ عالم موجود ہیں، مجھ سے سوال نہ کیا کرو۔ (صحيح بخاری)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر سائل کو اسی وقت یا بعد میں علم ہوا کہ یہ جواب تو کسی آیت کریمہ یا صحیح حدیث کے صریح مخالف ہے تو پھر اس کیلئے دیگر علماء کرام﷭ سے مزید تحقیق لازمی ہے، تاکہ اس مسئلے پر کتاب وسنت کی روح کے مطابق عمل کیا جا سکے۔ یہ بھی علم ہوا کہ سب سے بڑے عالم والے زندہ بزرگ سے سوال کرنا چاہئے۔
یہ بھی واضح رہے کہ اگر سائل اس قابل ہے کہ کتب سے استفادہ کر سکے اور خود تحقیق کر سکے تو اسے کسی مخصوص امام صاحب کا قول تلاش کرنے کی بجائے اس مسئلے میں قرآن کریم اور حدیث نبوی کا حکم تلاش کرنا چاہئے، کیونکہ جو کسی مسئلے میں امام کا قول تلاش کر سکتا ہے وہ بالاولیٰ قرآن وحدیث کا حکم تلاش کر سکتا ہے۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾ ... سورة النساء کہ ’’ اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بھائی اس کا جواب ہم اس فورم پر اپنے بھائیوں کو کئی دفعہ دے چکے ہیں کہ اہل الحدیث کا یہ منہج نہیں ہے کہ وہ فرضی سوالات کے جواب دیتے پھریں بلکہ یہ اہل الرائے کا منہج ہے۔ یہاں ہم تفصیل سے اس جواب کو پھر نقل کر رہے ہیں:
بھائی اہل الحدیث چند مسائل کا نام نہیں ہے بلکہ ایک منہج فکر ہے جس کی ابتدا صحابہ وتابعین سے ہوئی اور اسے ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور فقہائے محدثین نے ایک باقاعدہ مذہب کی صورت دی ۔امام مالک رحمہ اللہ کے زمانہ میں ہی دو مکاتب فکر اہل الحدیث اور اہل الرائے کے نام سے وجود میں آ چکے تھے۔ امام مالک اہل الحدیث کے نمائندہ تھے کہ جن کے شاگرد امام شافعی ہوئے اور پھر امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل ہوئے اور پھر امام احمد بن حنبل کے شاگردوں میں فقہائے محدثین کی ایک کثیر تعداد ہے، دوسرے مکتبہ فکر کی بنیاد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے رکھی جن کے نمایاں شاگردوں میں امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ ہیں۔ اہل الحدیث اور اہل الرائے کا بنیادی فرق یہ تھا کہ اہل الحدیث کے نزدیک اجتہاد ضرورت کے تحت تھا اور عارضی تھا یعنی جب ضرورت پڑی اجتہاد کر لیا اور یہ عارضی تھا یعنی اسی دور کے لوگوں کے لیے تھا یعنی ہر دور کے علماء اپنے زمانہ کے لوگوں کے لیے اجتہاد کریں گے۔
اس کے برعکس اہل الرائے کا موقف یہ تھا کہ اجتہاد ایک مستقل شیئ ہے اور بغیر ضرورت بھی ہو سکتا ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے مستقبل کے مسائل کے بارے بھی رہنمائی دینے کے لیے فقہ تقدیری کے نام سے ہزراوں فرضی مسائل مرتب کیے۔ دوسری بات اہل الرائے کے نزدیک یہ تھی کہ وہ اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی حیثیت دیتے تھے یعنی ان کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی تھی اور اس بنیاد پر اس کی پابندی لازم تھی۔
خلاصہ کلام یہ ہے جو اہل علم کے اجتہادات کو ضرورت کے وقت اور عارضی مانتا ہے وہ اہل الحدیث ہے اور جو ائمہ کے اجتہادات کو ایک مستقل حیثیت سے مصدر دین مانتا ہے اور انہیں شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی سمجھتا ہے تو وہ اہل الرائے ہے۔
نوٹ:پس اہل الحدیث کا یہ منہج نہیں ہے کہ یہ ہو جائے تو فلاں ہو جائے تو کیا فتوی ہو گا، یہ اہل الرائے کا منہج ہے۔ اہل الحدیث حقائق اور واقعہ کو دیکھ کر فتوی دیتے ہیں اور کسی ایسے مسئلہ میں رائے کا اظہار نہیں کرتے کہ جس کا وقوع کسی صاحب عقل سے ناممکن نظر آتا ہو۔
محترم بھائی ۔ شاید آپ نے نہایت عجلت میں یہ تحریر لکھی ہے ۔جس کے شاہد عدل یہ ملون جملے ہیں۔اگرمہربانی فرماکر اس بحث کو کسی دوسرے موضوع کے تحت منتقل کردیاجائے اوراپنے دعوی کے ثبوت میں دلیل بیان کردیں ۔ بطور خاص اس جملہ کی
اور جو ائمہ کے اجتہادات کو ایک مستقل حیثیت سے مصدر دین مانتا ہے اور انہیں شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی سمجھتا ہے تو وہ اہل الرائے ہے
توبڑی مہربانی اورکرم ہوگا اورہم جیسوں کے علم میں اضافہ ہوگا۔ والسلام
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
جی آفتاب بھائی! مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ اگر ایک عام مسلمان کو کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو علماء کرام﷭ سے فتویٰ لے کیونکہ وہ خود تو اجتہاد کرنے کا اہل ہی نہیں ہے۔!

اگر وہ کسی عالم سے فتوی لیتا ہے اور اس فتوی کی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے تو فتوی پر عمل کرے یا نہیں ؟۔ کیوں کہ بغیر دلیل کے امتی کے قول پر عمل تو تقلید ہے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اگر وہ کسی عالم سے فتوی لیتا ہے اور اس فتوی کی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے تو فتوی پر عمل کرے یا نہیں ؟۔ کیوں کہ بغیر دلیل کے امتی کے قول پر عمل تو تقلید ہے ۔
عزیز بھائی! پھر فرضی سوال؟!! سائل فتویٰ کی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے، کیا مطلب؟!! کیا کوئی مسلمان قرآن وسنت کو دلیل سمجھنے سے قاصر ہو سکتا ہے؟!!
ایک سائل اگر عالم سے اجماع کی حجیت کے متعلّق سوال کرے اور وہ جواب دیتے ہوئے آیتِ کریمہ ﴿ وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴾ ... سورة النساء يا حديث « إن أمتي لا تجتمع على ضلالة » کا حوالہ دے کا حوالہ دیا تو ایسا کون سا سائل ہو سکتا ہے جو قرآن کریم یا حدیث مبارکہ کو دلیل سمجھنے سے قاصر ہو؟!!

علاوہ ازیں علماء سے اس اعتماد پر کہ وہ ہمیں اپنی نہیں کتاب وسنت کی بات بتائیں گے پوچھنا تقلید ہرگز نہیں بلکہ اللہ ورسول کی اطاعت اور ما انزل کی اتباع ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ... سورة النّحل والأنبياء نیز فرمایا: ﴿ اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ﴾ ... سورة الأعراف حدیث مبارکہ ہے: « ألا سألوا إذ لم يعلموا فإنما شفاء العي السؤال » ... صحيح سنن أبي داؤد آپ اسے دھکّے سے تقلید بنا رہے ہیں، حالانکہ تقلید کا مطلب تو بغیر دلیل کے امام کی بات کو لینا ہے (کہ گلے میں رسی ڈال کر جہاں مرضی لے جاؤ)، خواہ وہ قرآن وسنّت کی صریح نصوص کے خلاف ہو، میں نے اسی مقصد کیلئے اپنی پچھلی پوسٹ میں سیدنا ابو موسیٰ اشعری﷜ اور ابن مسعود﷜ والی صحیح بخاری کی روایت پیش کی تھی، جس میں سائل کیلئے طریقہ کار واضح کر دیا گیا ہے۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ اس واقعے میں سائل نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری﷜ کی تقلید کی یا سیدنا ابن مسعود﷜ کی؟!! یا کسی کی نہیں؟!!
اس کے علاوہ میرے بھائی! اگر کوئی شخص کسی متّقی عالم پر اعتماد کی وجہ سے دلیل جانے بغیر اس کی رائے قبول کر لے اور پھر بعد میں (کسی دوسرے عالم سے یا کسی اور ذریعہ سے) دلیل کا علم ہونے پر پہلی بات سے رجوع کر لے تو بھی اسے تقليد نہیں اطاعت کہتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾ ... سورة النساء کہ ’’ اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔‘‘
کیا خیال ہے آپ کا؟!!

امام ابو حنیفہ﷫ کے نزدیک رضاعت کی مدّت اڑھائی سال ہے، حالانکہ قرآن کریم میں صراحت ہے کہ یہ دو سال ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ... سورة البقرة، کہ ’’ مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا اراده دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴾ ... سورة لقمانکہ ’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ اب اگر کوئی شخص قرآن کریم کی صریح آیات کے باوجود اڑھائی سال مدت رضاعت کا عقیدہ رکھے تو وہ مقلّد ہے۔

امام ابو حنیفہ﷫ کے نزدیک نماز استسقاء بدعت ہے، حالانکہ صحیح وصریح نصوص میں قحط سالی کی صورت میں نمازِ استسقاء پڑھنے کا ذکر ہے، اگر کوئی شخص ان صحیح وصریح نصوص چھوڑ کر نمازِ استسقاء کو بدعت سمجھے تو وہ مقلد ہے۔
کیا خیال ہے؟!!
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
ایک تو آپ کے پاس میرے سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تو اس کو فرضی سوال کہ کر ٹال دیتے ہیں۔
میرا سوال ہرگز فرضی نہیں ۔ میرا ایسے کئی حضرات سے واسطہ پڑا ہے جو دلیل کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک اہل حدیث کو میں نے احناف کے نظریہ کے مطابق کچھ دلائل دیے ۔ ان صاحب کے سمجھ میں وہ نہ آئے بولے لکھ دو میں اپنے عالم سے پوچھوں گا۔ اب میں اس سوال کو حقیقی ثابت کرنے لئیے ان سب کو اس فورم پر لانےسے تو رہا ۔
اگر میں کوئی ایسا سوال پوچھوں اس کا وقوع محال ہو تو آپ یہ اعتراض کرسکتے ہیں لیکن ایک ممکنہ چیز کے متعلق اس کو فرضی کہنا صرف دلیل سے نہ جواب دینے کے مترادف ہے۔

آپ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی عالم پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی پر بغیر دلیل کے عمل کرے تو تقلید نہیں اگر وہ صحیح حدیث پر اطلاع پانے کے بعد بھی امام کا قول نہ چھوڑے تو یہ تقلید ہے۔ یہ تعریف آپ نے کہاں سے لی حوالہ ضرور دیں۔
احناف کے نزدیک اگر کوئی صحیح حدیث کو جاننے کے بعد بھی امام کا قول نہیں چھوڑتا تو اس کو اندھی تقلید کہا جاتا ہے۔ اور یہ احناف کہ ہاں بھی حرام ہے (دیکھئیے تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی صاحب )

اگر ہم اندھی تقلید کرتے ہوتے تو آج ہمارے مدارس ڈھائی سال کی رضاعت کا فتوی دیتے ۔
لیکن ہمارے مدارس نے دو سال کی رضاعت کا فتوی دیا ہے
ملاحظہ فرمائین یہ لنکس

Answer: Darul Ifta Deoband India

DAR-UL-IFTA | JAMIA BINORIA
(اس میں درمختار کا حوالہ ضرور پڑھیں )
بہشتی زیور اور فتاوی رشیدیہ میں بھی دو سال کی رضاعت فتوی ہے ۔

کیا آپ کسی دیوبندی مدرسہ کا فتوی دکھا سکتے ہین جس مدت رضاعت ڈھائی سال ہو ۔

اس طرح احناف نماز اسستسقاء کے بھی قائل ہیں ۔ اس کو مستحب یعنی باعث ثواب سمجھتے ہیں (دیکھیئے بہشتی زیور )

یہ صرف اپ حضرات کا پروپیگنڈا ہے کہ احناف امام کے قول کے مقابلے میں فرآن و صحیح حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں۔ میری آپ سب سے گذارش ہے ایسا پروپیگنڈا مت کریں۔
آپ نے جو تقلید کی تعریف کی اس کے حوالہ کا انتظار ہے ۔ جس کتاب کا حوالہ دیں اس کتاب میں تقلید کی تعریف میں یہ الفاظ ضرور ہوں جو آپ نے بیان کیے ہیں یعنی " حالانکہ تقلید کا مطلب تو بغیر دلیل کے امام کی بات کو لینا ہے (کہ گلے میں رسی ڈال کر جہاں مرضی لے جاؤ)، خواہ وہ قرآن وسنّت کی صریح نصوص کے خلاف ہو،"
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
یہ صرف اپ حضرات کا پروپیگنڈا ہے کہ احناف امام کے قول کے مقابلے میں فرآن و صحیح حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں۔ میری آپ سب سے گذارش ہے ایسا پروپیگنڈا مت کریں۔
محترم بھائی، ہم بھلا کیوں کر پروپیگنڈا کریں گے۔ کذاب پر تو اللہ تعالیٰ نے بھی لعنت کی ہے۔ بہرحال اس بات پر تو کثیر حوالہ جات موجود ہیں بلکہ اصول کرخی میں قول امام کے مقابل آیت یا حدیث کی تاویل، مؤل یا منسوخ سمجھے جانے کا اصول موجود ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو یہ حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔ جو شاہد نذیر بھائی کے ایک موضوع سے لئے ہیں۔

۱۔ قرآن کے بارے میں حنفیوں کا یہ اصول دیکھیں:
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )
اصول کرخی میں ایسا ہی ایک اصول حدیث کے بارے میں بھی بنایا گیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حنفی فقہاء کے اقوال کو قرآن و حدیث کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی لیکن حنفیوں نے الٹی گنگا بہاتے ہوئے اس کے برعکس کیا۔

۲۔ شیخ احمد سرہندی تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں:
جب روایات معتبرہ میں اشارہ کرنے کی حرمت واقع ہوئی ہو اور اس کی کراہت پر فتویٰ دیا ہو اور اشارہ و عقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہوں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کرکے اشارہ کرنے میں جرات کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتویٰ کے ہوتے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں۔
(مکتوبات، جلد 1، صفحہ 718، مکتوب : 312)
۳۔ محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
بلکہ افتاب بھائی، جس کتاب ’تقلید کی شرعی حیثیت‘ کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، اسی میں درج ذیل اقتباسات بھی موجود ہیں۔

۴۔ مفتی تقی عثمانی دیوبندی رقم طراز ہیں:
بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے...... اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)
چناچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)
ا ن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کریں،اور اگر انہیں کوئی حدیث امام کے قول کے خلاف نظر آئے تو اس کے بارے میں سمجھیں کہ اس کا صحیح مطلب یا صحیح محمل ہم نہیں سمجھ سکے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)
بہرحال، ان سب حوالہ جات کے باوجود میں آپ کے بارے یہی حسن ظن رکھتا ہوں کہ بہرحال علماء جو بھی کچھ کہتے ہوں، آپ یقیناً اندھی تقلید نہیں کرتے ہوں گے۔۔! واللہ اعلم!
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
اصول کرخی کا مطلب ہے کہ اگر کوی ایسی حدیث نظر آجاے جو ہمارے اصحاب کے مسلہ کے خلاف ہو تو یہ بات یقینی ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ احناف کے مجتہدیں نے پہلے ہی تمام احادیث دیکھ کر فقہ مرتب کی ہے مسئلہ کے بارے میں کہ اگر فقہاء احناف کو دو احادیث ملیں جن میں سے ایک ناسخ اور ایک منسوخ ہے تو ناسخ انہوں نے پکڑ لی منسوخ چھوڑ دی ۔ اور جناب یہاں پر تاویل کا مطلب ہے یعنی دونوں حدیث کا مطلب بھی ایسا ہی نکالا جاے گا جو ناسخ منسوخ جیسا ہو یا پھر اسکے بارے میں یہ بتانا کہ یہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے تاویل کرنا ہی کہلاے گا ۔ اور جناب اگر ہمارے اصحاب کا قول قرآن اور حدیث کے مطابق ہو گا تو ہم یہ کوشش کیوں نہ کریں کہ انکے قول کو فضیلت ہو ؟؟؟؟ اس بات کو تو ہم بھی مانتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول کا حکم آجاے تو انکے حکم کے خلاف کسی کا بھی حکم قابلِ قبول نہیں ہے اس بات سے کسی بھی حنفی کو انکار نہیں آپ اس بات کا شور مچا کر کچھ بھی ثابت نہیں کر سکتے ۔

کیا غیر مقلدین کا کیا یہ اصول نہیں ہے کہ انکی بات جسکی بنیاد کسی حدیث پر ہو اور اس قول کے خلاف کوی ایسی حدیث مل جاے جو منسوخ ہو تو کیا غیر مقلدین اس منسوخ حدیث کو ترجیح دیں گے یا اس قول کو جسکی بنیاد کسی آیت یا صحیح حدیث پر ہو ۔ اب یہ اصول کی تشریح ہے جو میں نے بیان کر دی نہ یہ قرآن کی کسی آیت کے خلاف ہے نہ ہی کسی صحیح تو کیا ضعیف حدیث کے خلاف ہے ۔

اگر آپ کہیں کہ امام کرخی کے قول کا مطلب ہے کہ ہر حال میں امام کا قول لینا ہے تو اگر اس کا یہ مطلب ہوتا تو آج احناف مدعت رضاعت ڈھائی سال بتا رہے ہوتے اور نماز اسستقاء کو بدعہ کہ رہے ہوتے ۔ آپ سیاق سباق سے ہٹا کر اقتابسات سے اپنے لوگوں کو احناف سے بدگمان تو کرسکتے ہیں لیکن عملی طور پور کہیں یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ احناف قرآن اور صحیح حدیث کوچھوڑ کر اپنے امام کے قول سے چمٹے ہوئے ہیں ۔
اگو تقی عثمانی کی کتاب پوری پڑھتے اور سیاق و سباق سے جملے لے کر عوام کو گمراہ نہ کرتے تو آپ کو وہ باتیں نظر آتیں جو انہوں نے صفحہ نمبر 94 سے لکھیں ۔
جن کا خلاصہ یہ ہے جو متبحر فی العلم ہے یا جو مجتھد ہے وہ اگر کوئی ایسی حدیث پائے جو اسے امام کے قول کے خلاف لگے تو وہ امام کا قول چھوڑ کر حدیث پر عمل کرے۔
آپ نے جو تقی عثمانی صاحب کے قول جو نقل کیا ہے وہ عام اقراد کے متعلق ہے ۔ اگر کوئی عام مسلمان بخاری میں ایک حدیث دیکھتا کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا اور وہ اس کو سنت سمجھے تو آپ کیا کہیں گے۔ یا وہ کسی منسوخ حدیث پر عمل کرتا ہے تو آپ کیا کہیں گے۔
اس گمراہی سے بچنے کے لئیے تقی عثمانی صاحب نے یہ عام افراد کے لئیے کہا ۔ علم والوں کے لئیے یہ حکم نہیں ۔ اگر آپ نے پوری کتاب پڑھی ہوتی تو یہ اعتراض کبھی نہ کرتے ۔ اگر آپ اس متفق نہیں تو کیا اگر کوئی شخص منسوخ حدیث دیکھے تو اس پر عمل کرسکتا ہے یہ نہیں۔
میں ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ آپ سیاق سباق سے ہٹا کر اقتابسات سے اپنے لوگوں کو احناف سے بدگمان تو کرسکتے ہیں لیکن کہیں یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ عملی طور پر احناف قرآن اور صحیح حدیث کوچھوڑ کر اپنے امام کے قول سے چمٹے ہوئے ہیں ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )
میں نے عموما دیکھاہے کہ بحث میں لوگ خواہ مخواہ امام کرخی کی اس عبارت کوضرور لاتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ یہ ان کی فتح کیلے کافی ہے۔ لیکن افسوس کہ لوگ اس کے ساتھ اس کی شرح جوایک معتبر حنفی فقیہ نے کی ہے اس کی جانب دھیان نہیں دیتے۔ کیونکہ اس سے ان کا اعتراض ہی ختم ہوجاے گا۔
دوسری بات یہ کہ ہے کہ یہ مجرد امام کرخی کا قول ہے۔کسی قول کو حنفیہ کی جانب منسوب کرنے کیلے ضروری ہے کہ دیگر فقہاے احناف نے بھی اس قول کی تائید کی ہو۔ ورنہ ایک شخص کے قول کو پوری جماعت پر تھوپیں گے تب توآپ کیلے بھی بڑی مصیبت ہوجاے گی۔
امام کرخی کے شاگرد مشہور محدث،اصولی اورفقیہ امام جصاص رازی ہیں۔ انہوں نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے کیااس میں اپنے استاد کی تائید کی ہے۔ اس کے بعد امام سرخسی نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے کیااس میں امام کرخی کی اس عبارت کی تائید کی ہے۔ امام ابوزید دبوسی نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے کیااس مین اس قسم کا کوئی جملہ موجود ہے۔اگرہے تودلیل دیں ورنہ صرف امام کرخی کی بات کوبغیراس میں غوروفکر کئے بغیر سبھی پر نہ تھوپیں۔ اوریہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اللہ کی لعنت جھوٹوں پر ہے لیکن ایک شخص کی بات کو پوری جماعت پر تھوپنا بھی جھوٹ کے ہی زمرے میں آتاہے۔والسلام
 
Top