جی آفتاب بھائی! مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ اگر ایک عام مسلمان کو کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو علماء کرام سے فتویٰ لے کیونکہ وہ خود تو اجتہاد کرنے کا اہل ہی نہیں ہے۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ... سورة النحل کہ ’’پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو ۔‘‘ نیز فرمانِ نبویﷺ ہے: « ألا سألوا إذ لم يعلموا فإنما شفاء العي السؤال » ... صحيح سنن أبي داؤد کہ ’’اگر وہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے سوال کیوں نہ کیا، کیونکہ جہالت کا علاج تو سوال کرنا ہی ہے۔‘‘محترم عامر صاحب
اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مسلمان کو اگر کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو خود اجتہاد نہ کرے بلکہ علماء سے مسئلہ کے متعلق فتوی لے۔ ؟
کچھ مزید وضاحت !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!ہ بھی علم ہوا کہ سب سے بڑے عالم والے زندہ بزرگ سے سوال کرنا چاہئے۔
محترم بھائی ۔ شاید آپ نے نہایت عجلت میں یہ تحریر لکھی ہے ۔جس کے شاہد عدل یہ ملون جملے ہیں۔اگرمہربانی فرماکر اس بحث کو کسی دوسرے موضوع کے تحت منتقل کردیاجائے اوراپنے دعوی کے ثبوت میں دلیل بیان کردیں ۔ بطور خاص اس جملہ کیبھائی اس کا جواب ہم اس فورم پر اپنے بھائیوں کو کئی دفعہ دے چکے ہیں کہ اہل الحدیث کا یہ منہج نہیں ہے کہ وہ فرضی سوالات کے جواب دیتے پھریں بلکہ یہ اہل الرائے کا منہج ہے۔ یہاں ہم تفصیل سے اس جواب کو پھر نقل کر رہے ہیں:
بھائی اہل الحدیث چند مسائل کا نام نہیں ہے بلکہ ایک منہج فکر ہے جس کی ابتدا صحابہ وتابعین سے ہوئی اور اسے ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور فقہائے محدثین نے ایک باقاعدہ مذہب کی صورت دی ۔امام مالک رحمہ اللہ کے زمانہ میں ہی دو مکاتب فکر اہل الحدیث اور اہل الرائے کے نام سے وجود میں آ چکے تھے۔ امام مالک اہل الحدیث کے نمائندہ تھے کہ جن کے شاگرد امام شافعی ہوئے اور پھر امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل ہوئے اور پھر امام احمد بن حنبل کے شاگردوں میں فقہائے محدثین کی ایک کثیر تعداد ہے، دوسرے مکتبہ فکر کی بنیاد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے رکھی جن کے نمایاں شاگردوں میں امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ ہیں۔ اہل الحدیث اور اہل الرائے کا بنیادی فرق یہ تھا کہ اہل الحدیث کے نزدیک اجتہاد ضرورت کے تحت تھا اور عارضی تھا یعنی جب ضرورت پڑی اجتہاد کر لیا اور یہ عارضی تھا یعنی اسی دور کے لوگوں کے لیے تھا یعنی ہر دور کے علماء اپنے زمانہ کے لوگوں کے لیے اجتہاد کریں گے۔
اس کے برعکس اہل الرائے کا موقف یہ تھا کہ اجتہاد ایک مستقل شیئ ہے اور بغیر ضرورت بھی ہو سکتا ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے مستقبل کے مسائل کے بارے بھی رہنمائی دینے کے لیے فقہ تقدیری کے نام سے ہزراوں فرضی مسائل مرتب کیے۔ دوسری بات اہل الرائے کے نزدیک یہ تھی کہ وہ اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی حیثیت دیتے تھے یعنی ان کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی تھی اور اس بنیاد پر اس کی پابندی لازم تھی۔
خلاصہ کلام یہ ہے جو اہل علم کے اجتہادات کو ضرورت کے وقت اور عارضی مانتا ہے وہ اہل الحدیث ہے اور جو ائمہ کے اجتہادات کو ایک مستقل حیثیت سے مصدر دین مانتا ہے اور انہیں شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی سمجھتا ہے تو وہ اہل الرائے ہے۔
نوٹ:پس اہل الحدیث کا یہ منہج نہیں ہے کہ یہ ہو جائے تو فلاں ہو جائے تو کیا فتوی ہو گا، یہ اہل الرائے کا منہج ہے۔ اہل الحدیث حقائق اور واقعہ کو دیکھ کر فتوی دیتے ہیں اور کسی ایسے مسئلہ میں رائے کا اظہار نہیں کرتے کہ جس کا وقوع کسی صاحب عقل سے ناممکن نظر آتا ہو۔
توبڑی مہربانی اورکرم ہوگا اورہم جیسوں کے علم میں اضافہ ہوگا۔ والسلاماور جو ائمہ کے اجتہادات کو ایک مستقل حیثیت سے مصدر دین مانتا ہے اور انہیں شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی سمجھتا ہے تو وہ اہل الرائے ہے
جی آفتاب بھائی! مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ اگر ایک عام مسلمان کو کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو علماء کرام سے فتویٰ لے کیونکہ وہ خود تو اجتہاد کرنے کا اہل ہی نہیں ہے۔!
عزیز بھائی! پھر فرضی سوال؟!! سائل فتویٰ کی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے، کیا مطلب؟!! کیا کوئی مسلمان قرآن وسنت کو دلیل سمجھنے سے قاصر ہو سکتا ہے؟!!اگر وہ کسی عالم سے فتوی لیتا ہے اور اس فتوی کی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے تو فتوی پر عمل کرے یا نہیں ؟۔ کیوں کہ بغیر دلیل کے امتی کے قول پر عمل تو تقلید ہے ۔
محترم بھائی، ہم بھلا کیوں کر پروپیگنڈا کریں گے۔ کذاب پر تو اللہ تعالیٰ نے بھی لعنت کی ہے۔ بہرحال اس بات پر تو کثیر حوالہ جات موجود ہیں بلکہ اصول کرخی میں قول امام کے مقابل آیت یا حدیث کی تاویل، مؤل یا منسوخ سمجھے جانے کا اصول موجود ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو یہ حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔ جو شاہد نذیر بھائی کے ایک موضوع سے لئے ہیں۔یہ صرف اپ حضرات کا پروپیگنڈا ہے کہ احناف امام کے قول کے مقابلے میں فرآن و صحیح حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں۔ میری آپ سب سے گذارش ہے ایسا پروپیگنڈا مت کریں۔
اصول کرخی میں ایسا ہی ایک اصول حدیث کے بارے میں بھی بنایا گیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حنفی فقہاء کے اقوال کو قرآن و حدیث کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی لیکن حنفیوں نے الٹی گنگا بہاتے ہوئے اس کے برعکس کیا۔ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )
۳۔ محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:جب روایات معتبرہ میں اشارہ کرنے کی حرمت واقع ہوئی ہو اور اس کی کراہت پر فتویٰ دیا ہو اور اشارہ و عقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہوں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کرکے اشارہ کرنے میں جرات کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتویٰ کے ہوتے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں۔
(مکتوبات، جلد 1، صفحہ 718، مکتوب : 312)
بلکہ افتاب بھائی، جس کتاب ’تقلید کی شرعی حیثیت‘ کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، اسی میں درج ذیل اقتباسات بھی موجود ہیں۔والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے...... اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)
چناچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)
بہرحال، ان سب حوالہ جات کے باوجود میں آپ کے بارے یہی حسن ظن رکھتا ہوں کہ بہرحال علماء جو بھی کچھ کہتے ہوں، آپ یقیناً اندھی تقلید نہیں کرتے ہوں گے۔۔! واللہ اعلم!ا ن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کریں،اور اگر انہیں کوئی حدیث امام کے قول کے خلاف نظر آئے تو اس کے بارے میں سمجھیں کہ اس کا صحیح مطلب یا صحیح محمل ہم نہیں سمجھ سکے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)
میں نے عموما دیکھاہے کہ بحث میں لوگ خواہ مخواہ امام کرخی کی اس عبارت کوضرور لاتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ یہ ان کی فتح کیلے کافی ہے۔ لیکن افسوس کہ لوگ اس کے ساتھ اس کی شرح جوایک معتبر حنفی فقیہ نے کی ہے اس کی جانب دھیان نہیں دیتے۔ کیونکہ اس سے ان کا اعتراض ہی ختم ہوجاے گا۔ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )