• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدے کی حالت میں دونوں پیرکو ہٹائے رکھناسنت ہے

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
تابش بھائی کی بات کو رفع دفعہ کیجئے! انہیں شاید اس بات کی سنجیدگی کا احساس نہ تھا، وہ اسے تساہل میں لکھ گئے
یقینا رفع دفع ہی کردینا چاہیے. شیخ ایسے عالم اور حلیم شخص سے یہ امید قوی ہے. مجهے تو بالکل ہی غیر متوقع اور شاکنگ سا جملہ لگا. حیرت ہے کہ مسلمان دین کی بات کرے اور ملت کو بالائے طاق رکه کر قومی عصبیت کا شکار ہو جائے. جب علما اس طرح کے جملے استعمال کریں تو عام لوگوں کا اللہ ہی بیلی ہے
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
رہی بات مسئلے کی تو مجهے دونوں طرف کی بحثوں میں راجح پیر ملا کر رکهنا ہی لگتا ہے.
 
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
83
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
يٰاَيُّهَاالَّذِيْنَ آمَنُوااجْتَنِبُوْاكَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (حجرات:12)
ترجمہ:اے ایمان والو!بہت گمانوں سے بچو،بلاشبہ بعض گمان گناہ ہیں ۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ. ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُهَنَّا أَبِي شِبْلٍ، ‏‏‏‏‏‏قال أبو داود:‏‏‏‏ وَلَمْ أَفْهَمْهُ مِنْهُ جَيِّدًا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُتَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ نَصْرٌ:‏‏‏‏ ابْنِ نَهَّارٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ نَصْرٌ،‏‏‏‏ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ ،‏‏‏‏ قال أبو داود:‏‏‏‏ مُهَنَّا ثِقَةٌ بَصْرِيٌّ.

محترم مقبول صاحب کیلئے اتنا ہی کہوں گا کہ انکا بلاگ میرے براؤزر کی زینت بنا رہا. یعنی فیورٹ میں رکھا تھا اور علمی مضامین کا مطالعہ کرتا.

ابھی بھی تمام قابل عزت ہیں لیکن جب میں نے پیشگی معذرت کرلی اور انڈین اس لئے کہا کہ آپ اور عمر اثری بھائی انڈیا سے ہیں تو کیا حرج ہے کہنے میں ؟ جبکہ قومیت صرف پہچان کیلئے ہے.
اب علامہ رئیس ندوی رحمہ اللہ جیسا بھی کسی نے لکھا ہے ؟ میں تو وقت ڈھونڈتا ہوں کہ انکو پڑھوں.

اگر ایسے ہی چھوٹے چھوٹے مسائل پر ہم خود الجھ پڑے تو باطل کے خلاف کیا اکٹھے ہونگے ؟

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں امن وآشتی، آپسی ہم آہنگی، صلح ومصالحت اوراتحاد و اتفاق کی دولت سے مالا مال فرمائے...

مقبول سلفی اور عمر اثری صاحبان و دیگر احباب کی بس آمین ہی کافی ہے...
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
359
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
[emoji428][emoji428][emoji426][emoji426][emoji427][emoji427]

*سجدے میں دونوں پاؤں اور قدموں کو جدا جدا رکھنا چاہئے، جیسے قیام کے وقت جدا جدا تھے.*

[emoji116][emoji116][emoji872][emoji872][emoji116][emoji116]

سجدے میں ایڑیوں کا ملانا

مولانا مشتاق احمد ریاضی
(استاد جامعہ اثریہ دار الحدیث مئو)

صفحات 10

بذریعہ ٹیلیگرام ڈاؤنلوڈ لنک:
https://t.me/salafitehqiqitutub/563

.

Sent from my vivo 1816 using Tapatalk
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا ایک فتوی پیش خدمت ہے، شائد اس میں کچھ مزید علمی بات مل جائے.

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میں پانچ بار نماز پڑھتے تھے۔ سنن و نوافل اس کے علاوہ ہیں جن صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ذکر کی ہے انھوں نے نماز میں حالت سجدہ میں ایڑیاں ملانا ذکر (نہیں) کیا ہے۔ اس لیے میں نماز میں سجدے میں ایڑیاں نہیں ملاتا۔ (جس روایت میں آیا ہے کہ سجدے میں آپﷺ کے دونوں پاؤں ملے ہوئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ) میرے خیال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز کے بغیر ہی سجدہ ریز تھے۔ کیا محدثین نے مذکورہ روایت کو حالت نماز پر محمول کیا ہے؟کیا محدثین نے حالت نماز میں سجدے کی حالت میں ایڑیاں ملانے کے باب باندھے ہیں؟
نوٹ: میرا مقصد سمجھنا، تحقیق کرنا اور ان شاء اللہ اس پر عمل کرنا ہے، محض اعتراض کرنا نہیں۔ جوابی لفافے کے ذریعے جواب دیجئے ۔

الجواب:
سجدے کی حالت میں ایڑیوں کا ملانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باسند صحیح ثابت ہے۔ دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (654) وصحیح ابن حبان (الاحسان:1930) والسنن الکبریٰ للبیہقی (2/116) وصححہ الحاکم (1/228،229) علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی ۔
اب اگر ایک ہزار راویوں نے بھی اسے روایت نہیں کیا تو کوئی بات نہیں صرف ایک صحابی کی روایت بھی کافی ہے لہذا امام ہو یا مقتدی یا منفرد ہر نمازی کو یہ چاہیے کہ سجدے میں اپنے دونوں پاؤں ملا لے. محدثین نے پاؤں ملانے والی حدیث کو کتاب الصلوۃ میں سجدے میں پاؤں ملانے کے باب میں ذکر کیا ہے۔ مثلاً امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں:
"باب ضم العقبين في السجود" سجدوں میں ایڑیاں ملانے کا باب، لہذا آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)
ج1ص384
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سجدہ میں دونوں پاؤں جوڑنا،ملانا

مشہورمحقق عالم ،مفتی فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین لکھتے ہیں :
فمِن العلماء من يقول: إنه يفرِّق قدميه أيضاً («المغني» (2/202)) ، لأن القدمين تابعان للساقين والرُّكبتين، فإذا كانت السُّنَّة تفريق الرُّكبتين، فلتكن السُّنَّة أيضاً تفريق القدمين، حتى إن بعض الفقهاء ـ رحمهم الله ـ قدَّروا ذلك بأن يكون بينهما مقدار شبر بالتفريق.
کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ سجدہ میں دونوں پاؤں علیحدہ ،جدا رکھے جائیں ،کیونکہ قدم پنڈلیوں اور گھٹنوں کے تابع ہیں ،اس لئے جسطرح گھٹنے جدا رکھنے سنت ہیں اسی طرح قدم ،پاؤں جدا رکھنا بھی سنت ہیں،حتی کہ بعض علماء نے تو دونوں پاؤں کے درمیان کا فاصلہ بھی بتایا ہے کہ ایک شبر یعنی بالشت ہونا چاہیئے ،

ولكن الذي يظهر مِن السُّنَّة: أن القدمين تكونان مرصوصتين، يعني: يرصُّ القدمين بعضهما ببعض، كما في «الصحيح» من حديث عائشة حين فَقَدَتِ النَّبيَّ صلّى الله عليه وسلّم فوقعت يدُها على بطن قدميه، وهما منصوبتان، وهو ساجد (مسلم، كتاب الصلاة، باب ما يقال في الركوع والسجود) . واليد الواحدة لا تقع على القدمين إلا في حال التَّراصِّ، وقد جاء ذلك أيضاً في «صحيح ابن خزيمة» في حديث عائشة المتقدِّم: «أنَّ الرسولَ صلّى الله عليه وسلّم كان رَاصًّا عقبيه» (ابن خزيمة، كتاب الصلاة، باب ضم العقبين في السجود (654) ؛ والحاكم (1/228) وقال: «صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه» ووافقه الذهبي.
(3) ص (31) .) .
وعلى هذا؛ فالسُّنَّةُ في القدمين هو التَّراصُّ بخلاف الرُّكبتين واليدين.

"الشرح الممتع" (3/169)
لیکن سنت سے جو ثابت و ظاہر ہوتاہے وہ یہ ہے کہ (سجدہ میں نمازی کے ) دونوں پیر آپس میں خوب ملے ہوئے ہونے چاہیں ،جیسا کہ صحیح حدیث میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رات کو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر پر) نہ پایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنا شروع کیا تو میرا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قدموں کے تلوں پر لگا۔آپ سجدہ کے حالت میں تھے اور آپ کے قدم مبارک کھڑے تھے ۔صحیح مسلم ،کتاب الصلاۃ))
اور واضح ہے کہ ایک ہاتھ دونوں قدموں پر اس وقت لگ سکتا ہے جب دونوں کو ملا کر رکھا گیا ہو ،

اسی طرح صحیح ابن خزیمہ کی حدیث میں آتا ہے :
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدے کی حالت میں اس طرح پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایڑیوں کوملانے والے اور اپنی انگلیوں کے سروں کو قبلہ رخ کرنے والے تھے''۔)
صحیح ابن خزیمہ۱/۱۲۸،سنن کبری بیہقی۱/۱۱۶، مستدرک حاکم ۱/۱۲۸ )
اسلئے نماز کے سجدہ میں دونوں قدموں کو آپس میں ملا کر ،اور جوڑ کر رکھنا سنت ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیخ اردو ترجمہ بھی شامل کر دیں ۔
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
 

فرحان

رکن
شمولیت
جولائی 13، 2017
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


یعنی دونوں طرف دلائل موجود ہیں اس مسلہ پر کلام ہے تو کوئ پاوں ملا لے یا جدا کردے ثواب ہی ہوگا واللہ اعلم ؟
 
Top