• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٣٥١٧ - قال ابن سعد: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ عَنْ أَبَانَ عَنْ أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:

«الْحِجَامَةُ فِي الرَّأْسِ هِيَ الْمُغِيثَةُ أَمَرَنِي بِهَا جِبْرِيلُ حِينَ أَكَلْتُ طَعَامَ الْيَهُودِيَّةِ»


ترجمہ: سر پر حجامہ لگوانا مُغیثہ ہے، مجھے اس کا حکم جبریل نے اس وقت دیا جب میں نے یہودیہ کا کھانا کھا لیا تھا۔

تخريج: الطبقات الكبرى لابن سعد (المتوفى: ٢٣٠هـ) (ضعيف جداً)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے، عمر بن حفص (ابو حفص عبدی) اور ابان ابن ابی عیاش دونوں متروک ہیں۔

قال ابن سعد: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: أَخْبَرَنَا لَيْثٌ عَنْ عَقِيلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْمَكَانِ النَّاتِئِ مِنَ الرَّأْسِ فَوْقَ الْيَافُوخِ فَقَالَ: هَذَا مَوْضِعُ مِحْجَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَانَ يَحْتَجِمُ قَالَ عَقِيلٌ: وَحَدَّثَنِي غَيْرُ وَاحِدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ يُسَمِّيهَا الْمُغِيثَةَ».

ترجمہ: اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص نے اپنا ہاتھ سر کے بیچ میں (تالو پر) رکھا پھر کہا یہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پچھنا لگوانے کی جگہ ہے، عقیل ( ایک راوی) کہتے ہیں مجھ سے کئی ایک نے بیان کیا کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس جگہ کو مُغیثہ کہتے تھے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند معضل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے (کیونکہ اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص صحابی نہیں ہیں)، مگر اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

قال ابن سعد: أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: «احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَسَطِ رَأْسِهِ وَكَانَ يُسَمِّيهَا مُنْقِذًا».

(مترجم: اس کی بھی سند معضل ہے، اس میں مغیثہ کی جگہ منقذ ہے).
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
١٠٠٠ - قال الإمام أحمد: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَأَبُو سَعِيدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ: مَا تَقُولُ فِي رَجُلٍ لَقِيَ امْرَأَةً لَا يَعْرِفُهَا، فَلَيْسَ يَأْتِي الرَّجُلُ مِنَ امْرَأَتِهِ شَيْئًا إِلَّا قَدْ أَتَاهُ مِنْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يُجَامِعْهَا؟ قَالَ: فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ هَذِهِ الْآيَةَ {وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ} [هود: ١١٤] قَالَ: فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَوَضَّأْ ثُمَّ صَلِّ» قَالَ مُعَاذٌ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَهُ خَاصَّةً أَمْ لِلْمُؤْمِنِينَ عَامَّةً؟ قَالَ: «بَلْ لِلْمُؤْمِنِينَ عَامَّةً»

ترجمہ: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک ایسے شخص کے بارے میں مجھے بتائیے جو ایک ایسی عورت سے ملا جن دونوں کا آپس میں جان پہچان، رشتہ و ناطہٰ ( نکاح ) نہیں ہے اور اس نے اس عورت کے ساتھ سوائے جماع کے وہ سب کچھ ( بوس و کنار چوما چاٹی وغیرہ ) کیا جو ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے؟، ( اس پر ) اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی، ترجمہ:دن کے دونوں سروں میں اور کچھ رات گزرنے پر نماز قائم کرو یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے[هود: ١١٤]۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا یہ حکم اس شخص کے لیے خاص ہے یا سبھی مومنین کے لیے عام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ سبھی مسلمانوں کے لیے عام ہے“۔

تخريج: مسند أحمد (٢٢١١٢) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ سنن الترمذي (٣١١٣) (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ تفسير الطبري (موصولا و مرسلا) (المتوفى: ٣١٠هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (٢٠/ ٢٧٧، ٢٧٨) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ سنن الدارقطني (٤٨٣) (المتوفى: ٣٨٥هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٤٧١) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (٦١٠) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ التفسير الوسيط و أسباب نزول القرآن للواحدي (المتوفى: ٤٦٨هـ)؛ (ضعيف)

امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، ( اس لیے کہ ) عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ سے نہیں سنا ہے، اور معاذ بن جبل رضی الله عنہ کا انتقال عمر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہوا تھا، عمر رضی الله عنہ جب شہید کیے گئے تو اس وقت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ چھ برس کے چھوٹے بچے تھے۔ حالانکہ انہوں نے عمر سے ( مرسلاً ) روایت کی ہے ( جبکہ صرف ) انہیں دیکھا ہے۔ شعبہ نے یہ حدیث عبدالملک بن عمیر سے اور عبدالملک نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہی علت بیہقی رحمہ اللّٰہ نے بھی بیان کی ہے پھر کہا ہے کہ "اس سند میں ارسال ہے کیونکہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ کو نہیں پایا". دار قطنی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے حاکم رحمہ اللّٰہ نے ان کی موافقت کی ہے اور امام ذہبی نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔ مگر صحیح بات یہی ہے کہ یہ سند منقطع ہے جیسا کہ امام ترمذی اور بیہقی نے کہا ہے، اس لئے یہ سند ضعیف ہے۔

یہ قصہ کئی صحابہ کرام سے صحیحین، سنن اور مسند احمد وغیرہ میں بہت سارے طرق اور اسانید سے مروی ہے لیکن کسی بھی روایت میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا وضوء اور نماز کا حکم دینا موجود نہیں ہے، یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حدیث وضوء اور نماز کی زیادتی کے ساتھ منکر ہے۔ و اللّٰہ اعلم

أبو موسى المديني (المتوفى: ٥٨١هـ) "كتاب اللطائف من علوم المعارف" میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث مشہور ہے اس کے کئی طرق ہیں، ان کی مراد اصل حدیث ہے کیونکہ اسی کے کئی طرق ہیں اور اس زیادتی کے ساتھ غریب، منقطع ہے۔ و اللّٰہ اعلم

درج ذیل وجوہات کی بنا پر اس حدیث سے یہ استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کہ عورتوں کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے "التحقيق" (اور حاکم رحمہ اللّٰہ نے مستدرک) میں استدلال کیا ہے۔

پہلی وجہ: یہ حدیث ضعیف ہے اس سے کوئی حجت قائم نہیں ہوتی۔
دوسری وجہ: اگر اس کی سند صحیح ہو بھی جائے تو اس سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وضوء کا حکم عورت کو چھونے سے دیا گیا ہے، بلکہ اس میں یہ بھی نہیں ہے کہ وضوء کا حکم دینے سے پہلے وہ صحابی با وضوء تھے اور عورت کو چھونے سے ان کا وضوء ٹوٹ گیا، ہاں اس بات کا امکان ہے کہ وضوء اور نماز کا حکم گناہ کے سرزد ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہو جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے: "جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، پھر اچھی طرح وضو کرتا ہے، اور دو رکعتیں پڑھتا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اس کے گناہ بخش دیتا ہے"۔ ( ابن ماجہ 1395؛ ابو داود: 1521؛ ترمذی: 406، 3006)

تیسری وجہ: اگر فرض کریں کہ وضوء کا حکم عورت کو چھونے کی وجہ سے دیا گیا ہے تو یہ حکم مطلق چھونے کی وجہ سے نہیں دیا گیا ہوگا بلکہ اس بات کا احتمال ہے کہ یہ حکم خاص قسم کے چھونے کی وجہ سے ہے کیونکہ حدیث میں صحابی نے جس طرح چھونے کا ذکر کیا ہے اس سے یہ امکان ہے کہ مذی خارج ہوئی ہوگی جو کہ ناقض وضوء ہے، اور اس احتمال کی وجہ سے استدلال ساقط ہو جاتا ہے۔

حق بات یہی ہے کہ عورت کو چھونے یا بوسہ لینے سے وضوء نہیں ٹوٹتا چاہے وہ شہوت کے ساتھ کیا گیا ہو یا بغیر شہوت کے، کیونکہ اس میں کوئی صحیح دلیل ثابت نہیں ہے، بلکہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اس کے برعکس ثابت ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی بعض ازواج مطہرات کو بوسہ لیتے پھر بغیر وضوء کرے نماز ادا کرتے۔ (ابو داود وغیرہ)۔ اور عموماً عورت کو بوسہ شہوت کے ساتھ ہی لیا جاتا ہے (پھر بھی نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضوء نہیں کرتے تھے)۔ و اللّٰہ اعلم
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٩٩٩- قال إسحاق بن راهويه: أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنِي «عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدٍ» عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَهَا وَهُوَ صَائِمٌ وَقَالَ:

«إِنَّ الْقُبْلَةَ لَا تَنْقُضُ الْوُضُوءَ، وَلَا تُفْطِرُ الصَّائِمَ» وَقَالَ: «يَا حُمَيْرَاءُ إِنَّ فِي دِينِنِا لَسَعَةً»

وَقَالَ إِسْحَاقُ: أَخْشَى أَنْ يَكُونَ غَلَطًا، قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى غَلَطٌ



ترجمہ: عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کا بوسہ لیا جبکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم روزے سے تھے۔ پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک بوسہ لینا نہ وضوء کو توڑتا ہے اور نہ ہی روزے کو۔ پھر فرمایا: اے حمیراء ہمارے دین میں وسعت ہے۔

تخريج: مسند إسحاق بن راهويه (٦٧٣) (المتوفى: ٢٣٨هـ)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند ضعیف ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے عبدالملک بن محمد کے، امام ذہبی نے اس کا ذکر میزان الاعتدال میں اس حدیث کو مختصراً دار قطنی کے الفاظ سے بیان کیا ہے پھر کہا ہے کہ عبدالملک سے بقیہ بن ولید نے "عن" سے روایت کی ہے، دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے اسے ضعیف کہا ہے اور اسی طرح لسان المیزان میں بھی ہے لیکن اس میں"عن" سے روایت کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس لفظ "عن" سے یہ بتانا مقصود ہے کہ بقیہ نے عبدالملک سے معنعنا روایت کیا ہے اور اس سے دار قطنی کی درج ذیل روایت کی طرف اشارہ ہے جو سنن دار قطنی (حدیث نمبر:490) میں ہے۔

قال الدارقطني: ذَكَرَ ابْنُ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُصَفَّى حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ فِي الْقُبْلَةِ وُضُوءٌ»

امام ذہبی پر اسحاق بن راہویہ کی روایت مخفی رہ گئی جس میں بقیہ بن ولید نے عبدالملک سے سماع کی صراحت کی ہے، لگتا ہے اس لئے حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں امام ذہبی کا "عن" والا قول نقل نہیں کیا۔ و اللّٰہ اعلم

اس حدیث کو زیلعی رحمہ اللّٰہ نے "نصب الراية" میں اسحاق بن راہویہ کی سند سے نقل کیا ہے لیکن اس میں اسحاق بن راہویہ کا قول "أَخْشَى أَنْ يَكُونَ غَلطًا" (مجھے اس بات کا امکان ہے کہ یہ حدیث غلط ہے) نقل نہیں کیا، اس پر سکوت اختیار کیا ہے، علت بیان نہیں کی، حافظ ابن حجر نے "الدراية" میں زیلعی کی متابعت کی ہے حالانکہ نصب الرایہ اور الدرایہ وہ کتابیں ہیں جن میں احادیث کی تخریج ہے اور علت کا بیان ہے۔ مگر اس حدیث کا معنیٰ صحیح ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ اس حدیث میں اور اس طرح کی بہت ساری احادیث میں ان لوگوں کی جہالت پر بہت بڑی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس پر محدثین نے صحیح اور ضعیف کا حکم نہیں لگایا ہو ( یعنی محدثین نے تمام احادیث پر صحیح اور ضعیف کا حکم لگایا ہے)۔

اسحاق بن راہویہ کے قول "أَخْشَى أَنْ يَكُونَ غَلطًا" (مجھے اس بات کا امکان ہے کہ یہ حدیث غلط ہے) کا معنیٰ مجھے یہ لگتا ہے- و اللّٰہ اعلم- کہ یہ حدیث عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فعل کے طور پر صحیح سند سے ثابت ہے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قول کے طور پر ثابت نہیں۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی بعض ازواج مطہرات کو (وضوء کی حالت میں) بوسہ لیتے پھر دوبارہ وضوء کرے بغیر نماز ادا کرتے اور اسی طرح روزے کی حالت میں بھی کرتے ( جیسا کہ بخاری مسلم وغیرہ میں احادیث موجود ہیں).
معلوم ہوا کہ اس روایت میں راوی نے غلطی کی ہے اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فعل کو قول بنا دیا، اس لئے یہ منکر ہے معروف نہیں ہے۔ و اللّٰہ اعلم
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
١٥٧٣- قال ابن أبي الدنيا: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبِ بْنِ خَالِدٍ الْمَدِينِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ بَانَكَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ يَقُولُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عِبَادَةٌ، وَمَنْ رَضِيَ بِالْقَلِيلِ مِنَ الرِّزْقِ رَضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ بِالْقَلِيلِ مِنَ الْعَمَلِ»


ترجمہ: اللہ کی طرف سے کشادگی کا انتظار کرنا عبادت ہے اور جو تھوڑے رزق پر راضی ہوجاتا ہے، اللہ اس کے تھوڑے عمل پر راضی ہوجاتا ہے۔
تخريج: الفرج بعد الشدة لابن أبي الدنيا (١) (المتوفى: ٢٨١هـ)؛ الترغيب في فضائل الأعمال لابن شاهين (٣٠٨) (المتوفى: ٣٨٥هـ)؛ المشيخة لابْنُ الآبَنُوْسِيِّ (١٦٩) (المتوفى: ٤٥٧هـ)؛ الآداب (٧٥٩) و شعب الإيمان (٩٥٣١) للبيهقي (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ موضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (في ترجمة ٧٢٦٢ - محمود بن هود بن عمرو أبو علي البيروتي) (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ العلل المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي (١٣٤٧) (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ مشيخة دانيال (المتوفى: ٦٩٦هـ)؛ (ضعيف جدا) ( الضعيفة: ١٥٧٣؛ ١٩٢٥؛ ٢٣٧٣)
حديث أبي بكر الأزدي ( شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے تخریج میں اس کتاب کا ذکر بھی کیا ہے لیکن مجھے یہ کتاب نہیں ملی).
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے۔
سعید بن مسلم بن بانک ثقہ راوی ہیں لیکن ان کے والد مسلم بن بانک کا ذکر امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے کیا ہے مگر ان کے متعلق کوئی جرح و تعدیل بیان نہیں کی۔
(مترجم: خطیب بغدادی کی "موضح الأوهام الجمع والتفريق" کی سند میں سعید بن مسلم بن بانک اور علی بن حسین رحمہ اللّٰہ کے درمیان مسلم بن بانک نہیں ہیں باقی تمام کتب میں سعید بن مسلم اور علی بن حسین کے درمیان مسلم بن بانک موجود ہے).
عبداللہ بن شبیب کے متعلق امام ذہبی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ وہ واہیات (بہت زیادہ ضعیف) راوی ہے، حاکم رحمہ اللّٰہ نے اسے "ذاہب الحدیث" کہا ہے اور "الضعفاء" میں کہتے ہیں کہ محدثین عبداللہ بن شبیب کے ضعیف ہونے پر متفق ہیں۔
اسحاق الفروی ( ابن محمد) امام بخاری کے شیوخ میں سے ہے لیکن کمزور حافظے کی وجہ سے ضعیف ہے اور مناوی رحمہ اللّٰہ نے اس سند کی یہی علت بیان کی ہے۔ امام ذہبی کہتے ہیں وہ صدوق ہے اس میں کچھ کلام ہے، صاحبِ حدیث ہے۔ ابو حاتم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں وہ صدوق ہے، ان کی بصیرت چلی گئی تھی، ان کی کتب صحیح ہیں کبھی کہا ہے کہ وہ مضطرب تھا۔ عقیلی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس نے امام مالک سے بہت ساری ایسی احادیث روایت کی ہے جن کی کسی نے متابعت نہیں کی۔ ابن حبان نے "الثقات" میں ان کا ذکر کیا ہے، نسائی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں "ليس بثقة" (ثقہ نہیں ہے)۔ دار قطنی کہتے ہیں کہ اس کو محدثین نے ترک نہیں کیا، اور کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے، اس سے امام بخاری نے روایت کی ہے".
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: مجھے اس حدیث کی ایک اور سند ملی جسے ابو حسن آبنوسی نے اپنی کتاب "مشیخۃ" میں روایت کی ہے ( شیخ البانی نے کتاب کا نام "الفوائد" بتایا ہے)۔
قال أبو الحسين الأبنوسي: أخبرنا الملاحمي (محمد بن أحمد بن موسى البخاري) قال حدثنا أبو إسحاق محمود بن إسحاق المطوعي قال حدثنا عبد الله بن حماد الآملي قال حدثنا الربيع بن روح قال حدثنا سلم بن سالم عن جعفر بن محمد عن أبيه عن علي بن أبي طالب مرفوعا.
یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے، اس کی علت سلم بن سالم (بلخی زاہد) ہے، امام احمد اور نسائی نے اسے ضعیف کہا ہے اور اصم نے اس کے جھوٹا ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس حدیث کو ابو بکر شافعی نے "مسند موسى بن جعفر بن محمد الهاشمي" میں درج ذیل سند سے روایت کیا ہے:
يرويه موسى بن إبراهيم: نا موسى بن جعفر عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده مرفوعا.
یہ سند بھی بہت زیادہ ضعیف ہے، موسیٰ بن ابراہیم ( مروزی) متروک ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
«مَنْ صَبَرَ عَلَى سُوءِ خُلُقِ امْرَأَتِهِ أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ مَا أَعْطَى أَيُّوبَ عَلَى بَلَائِهِ وَمَنْ صَبَرَتْ عَلَى سُوءِ خُلُقِ زَوْجِهَا أَعْطَاهَا اللَّهُ مِثْلَ ثَوَابِ آسِيَة امْرَأَة فِرْعَوْن»

تخريج: أورده الغزالي في " الإحياء " (٢ / ٣٩) وقال العراقي: لم أقف له على أصل؛ قال ابن السبكي:لم أجد له إسناداً.الضعيفة 627.( کوئی سند نہیں ہے)

جو آدمی اپنی بیوی کے برے اخلاق پر صبر کرے گا ﷲ تعالٰی اسے ایسا اجر و ثواب دے گا جیسا اجر ایّوب عليہ السلام کو انکی مصیبت پر دیا۔ اور جو عورت اپنے شوہر کے برے اخلاق پر صبر کرے گی ﷲ تعالٰی اسے ایسا بدلہ دے گا جیسا بدلہ فرعون کی بیوی آسیہ کو دیا تھا۔
٦٢٧- «مَنْ صَبَرَ عَلَى سُوءِ خُلُقِ امْرَأَتِهِ أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ مَا أَعْطَى أَيُّوبَ عَلَى بَلَائِهِ وَمَنْ صَبَرَتْ عَلَى سُوءِ خُلُقِ زَوْجِهَا أَعْطَاهَا اللَّهُ مِثْلَ ثَوَابِ آسِيَة امْرَأَة فِرْعَوْن»
ترجمہ: جو آدمی اپنی بیوی کے برے اخلاق پر صبر کرے ﷲ تعالٰی اسے ایسا اجر و ثواب دے گا جیسا اجر ایّوب عليہ السلام کو انکی مصیبت پر دیا تھا۔ اور جو عورت اپنے شوہر کے برے اخلاق پر صبر کرے گی ﷲ تعالٰی اسے ایسا بدلہ دے گا جیسا بدلہ فرعون کی بیوی آسیہ کو دیا تھا۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔ غزالی رحمہ اللّٰہ نے احیاء علوم الدین میں اس حدیث کو اسی طرح بیان کیا ہے اور عراقی رحمہ اللّٰہ نے اس کی تخریج میں کہا ہے کہ میں اس کی اصل سے واقف نہیں ہوں، زبیدی رحمہ اللّٰہ نے احیاء علوم الدین کی شرح میں اس بات کا اقرار کیا ہے۔ سبکی رحمہ اللّٰہ نے طبقات الشافعیۃ الکبری میں اس حدیث کو ایسے ہی بیان کیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: مجھے اس حدیث کے پہلے ٹکڑے کی سند ملی ہے لیکن وہ موضوع ہے۔ حارث بن ابی اسامہ (المتوفى: ٢٨٢هـ) نے اپنی مسند میں درج ذیل سند کے ساتھ روایت کی ہے:
قال ابن أبي أسامة: حَدَّثَنَا دَاوُد بْن المُحَبَّر حَدَّثَنَا «ميسرَة بْن عَبْد ربه» عَنْ أَبِي عَائِشَة السَّعْديّ عَنْ يَزِيد بْن عُمَر بْن عَبْد الْعَزِيز عَنْ أَبِي سَلَمَة بْن عَبْد الرَّحْمَن عَن أَبِي هُرَيْرَةَ وابْنِ عَبَّاسٍ قَالَا خَطَبَنَا رَسُولُ الله خُطْبَةً قَبْلَ وَفَاتِهِ ....
پھر بہت زیادہ لمبی حدیث بیان کی ہے جو تقریباً بارہ صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحہ اس صفحے سے بڑا ہے، حدیث مختلف احادیث کا مرکب ہے اُس میں اِس حدیث کا پہلا ٹکرا بھی ہے۔
سیوطی نے مکمل حدیث حارث بن ابی اسامہ کی سند کے ساتھ "اللآلي" میں بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے "المطالب العالية" میں کہا ہے کہ یہ مکمل حدیث نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے، اس کو گڑھنے والا میسرہ بن عبد ربہ ہے اللہ تعالیٰ اسے برکت نہ دے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٢٧٥٨- قال ابن ماجه: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سَلَمَةَ (بْنِ وَهْرَامٍ) عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«اسْتَعِينُوا بِطَعَامِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ، وَبِالْقَيْلُولَةِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ»


ترجمہ: سحری سے دن کے روزے میں مدد لو، اور قیلولہ (دوپہر کے آرام) سے رات کی عبادت میں مدد لو۔

۩تخريج: سنن ابن ماجه (١٦٩٣) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ قيام الليل محمد بن نصر بن المَرْوَزِي (المتوفى: ٢٩٤هـ)؛ صحيح ابن خزيمة (١٩٣٩) (المتوفى: ٣١١هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (١١٦٢٥) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ٧٢٤- زمعة بن صالح مكي) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخَلِّص (٥١٦) (المتوفى: ٣٩٣هـ)؛ المستدرك على الصحيحين (١٥٥١) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم الأصبهاني (في ترجمة ١٢٣٣ - الْعَبَّاسُ بْنُ حَمْدَانَ) (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (٤٤١٣) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ ذيل تاريخ بغداد لابن النجار (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛ الأحاديث المختارة لضياء الدين المقدسي (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛ (ضعيف)

مرسلًا عن طاوس: المصنف عبد الرزاق (٧٦٠٣) (المتوفى: ٢١١هـ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (٤٤١٢) (المتوفى: ٤٥٨هـ)

حاکم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں زمعہ بن صالح اور سلمہ بن وہرام ایسے متروک نہیں ہیں کہ جن سے استدلال نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح امام ذہبی نے تلخیص المستدرک میں کہا ہے، لیکن امام ذہبی نے زمعہ کو "الضعفاء والمتروكين" میں ذکر کیا ہے اور کہا کہ "اس کو امام احمد، ابو حاتم اور دار قطنی نے ضعیف کہا ہے"۔ اس لئے حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں زمعہ کے تعارف میں کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے، ان کی حدیث امام مسلم کے نزدیک مقرون ہے۔

مصنف عبدالرزاق میں یہ حدیث طاؤس سے مرسلا مروی ہے۔

عَبْدُ الرَّزَّاق عَنْ شَيْبَةَ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ بْنِ شَرُوسٍ أَنَّهُ سَمِعَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ سَمِعْتُ طَاوُسًا يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَعِينُوَا بِرُقَادِ النَّهَارِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ، وَبِأَكْلَةِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ»

اس حدیث کو ابن ابی حاتم نے "علل الحديث" (حدیث نمبر: ٧٠١) میں درج ذیل سند سے ذکر کیا ہے:
رَوَاهُ مَرْوانُ الفَزَاريُّ عَنْ عليِّ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ يزيدَ بْنِ أَبِي يزيدَ الجَزَريِّ عَنَ المِسْوَر عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اسْتَعِينُوا بِالقَيْلُولَةِ عَلَى القِيامِ، وَبِالسُّحُورِ عَلَى الصِّيَامِ»
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے متعلق اپنے والد سے سوال کیا تو انہوں نے کہا یہ مجہول ہیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٩٣- قال ابن ماجه: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«يَصُفُّ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صُفُوفًا - وَقَالَ: ابْنُ نُمَيْرٍ أَهْلُ الْجَنَّةِ - فَيَمُرُّ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عَلَى الرَّجُلِ فَيَقُولُ: يَا فُلَانُ أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ اسْتَسْقَيْتَ فَسَقَيْتُكَ شَرْبَةً؟ قَالَ: فَيَشْفَعُ لَهُ، وَيَمُرُّ الرَّجُلُ فَيَقُولُ: أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ نَاوَلْتُكَ طَهُورًا؟ فَيَشْفَعُ لَهُ قَالَ: ابْنُ نُمَيْرٍ - وَيَقُولُ: يَا فُلَانُ أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ بَعَثْتَنِي فِي حَاجَةِ كَذَا وَكَذَا فَذَهَبْتُ لَكَ، فَيَشْفَعُ لَهُ»

ترجمہ: قیامت کے دن لوگوں کی صف بندی ہو گی ( ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ اہل جنت کی صف بندی ہو گی ) پھر ایک جہنمی ایک جنتی کے پاس سے گزرے گا اور اس سے کہے گا: اے فلاں! تمہیں یاد نہیں کہ ایک دن تم نے پانی مانگا تھا اور میں نے تم کو ایک گھونٹ پانی پلایا تھا؟ ( وہ کہے گا: ہاں، یاد ہے ) وہ جنتی اس بات پر اس کی سفارش کرے گا، پھر دوسرا جہنمی ادھر سے گزرے گا، اور اہل جنت میں سے ایک شخص سے کہے گا: تمہیں یاد نہیں کہ میں نے ایک دن تمہیں طہارت و وضو کے لیے پانی دیا تھا؟ تو وہ بھی اس کی سفارش کرے گا۔ ابن نمیر نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ وہ شخص کہے گا: اے فلاں! تمہیں یاد نہیں کہ تم نے مجھے فلاں اور فلاں کام کے لیے بھیجا تھا، اور میں نے اسے پورا کیا تھا؟ تو وہ اس بات پر اس کی سفارش کرے گا۔

تخريج: سنن ابن ماجه (٣٦٨٥) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ مسند أبي يعلى (٤٠٠٦) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ شرح مشكل الآثار للطحاوي (٥٣٦٤) (المتوفى: ٣٢١هـ)؛ شرح السنة للبغوي (٤٣٥٢، ٤٣٥٣) (المتوفى: ٥١٦هـ)؛ (ضعيف)
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یزید بن ابان رقاشی ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر وغیرہ نے کہا ہے، اسی طرح اس حدیث کو دوسرے راوی نے بھی انس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے لیکن اس میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
فَضْلِ الْعِلْمِ و الْعُلَمَاءِ وَالْحَثُّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ و فَضْلُ مَجَالِسِ الْفِقْهِ عَلَى مَجَالِسِ الذِّكْرِ
علم و علماء کی فضیلت، طلب علم کی ترغیب اور علم کی مجالس کی ذکر کی مجالس پر فضیلت ( ضعیف حدیث)

١١- روي عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ فَرَأَى مَجْلِسَيْنِ: أَحَدُ الْمَجْلِسَيْنِ يَدْعُونَ اللَّهَ تَعَالَى، وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ، وَالْآخَرُ يَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كِلَا الْمَجْلِسَيْنِ عَلَى خَيْرٍ، وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ، أَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا، هَؤُلَاءِ أَفْضَلُ» فَجَلَسَ مَعَهُمْ.

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے اس میں دو حلقے دیکھے، ایک میں لوگ دعا اور ذکر میں مشغول تھے، اور دوسرے میں تعلیم و تعلم میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں مجلسیں نیکی پر ہیں، لیکن ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے افضل ہے
یہ لوگ علم سیکھنے اور جاہل کو سکھانے میں مشغول ہیں اور میں تو صرف معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، اس لئے یہ لوگ افضل ہیں» پھر انہیں کے ساتھ بیٹھ گئے ۔

تخريج: الزهد والرقائق لابن المبارك (١٣٨٨) (المتوفى: ١٨١هـ)؛ مسند الطيالسي (٢٣٦٥) (المتوفى: ٢٠٤هـ)؛ مسند سنن الدارمي (٣٦١) (المتوفى: ٢٥٥هـ)؛ بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث (٤٠) (المتوفى: ٢٨٢هـ)؛ سنن ابن ماجه (٢٢٩) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ مسند البزار (٢٤٥٨) (المتوفى: ٢٩٢ھ)؛ المعجم الكبير للطبراني (١٤٧٠٩) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين (٤٩) (المتوفى: ٣٨٥ھ)؛ المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي ( ٤٦٢، ٤٦٣) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ الفقيه و المتفقه للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣ھ)؛ جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر (٢٤٢) (المتوفى: ٤٦٣ھ)؛ ترتيب الأمالي الخميسية للشجري (١٩٣) (المتوفى: ٤٩٩ھ)؛ شرح السنة للبغوي (١٢٨) (المتوفى: ٥١٦ھ)؛ نهاية المراد من كلام خير العباد لتقي الدين المقدسي (٤٣) (المتوفى: ٦٠٠ھ)؛ طبقات الشافعية الكبرى للسبكي (المتوفى: ٧٧١ھ)؛ جياد المسلسلات للسيوطي (المتوفى: ٩١١ھ)؛ الفوائد الجليلة في مسلسلات ابن عقيلة (المتوفى: ١١٥٠ھ)؛ العاجلة في الأحاديث المسلسلة (المتوفى: ١٤١١ھ)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند ضعیف ہے کیونکہ عبدالرحمن بن زیاد اور عبدالرحمن بن رافع دونوں ضعیف ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا ہے۔

سنن ابن ماجہ میں یہ حدیث درج ذیل سند اور متن سے مروی ہے:

قال ابن ماجة: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ قَالَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ عَنْ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ بَعْضِ حُجَرِهِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ بِحَلْقَتَيْنِ، إِحْدَاهُمَا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَدْعُونَ اللَّهَ، وَالْأُخْرَى يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلٌّ عَلَى خَيْرٍ، هَؤُلَاءِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَدْعُونَ اللَّهَ، فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ، وَهَؤُلَاءِ يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا» فَجَلَسَ مَعَهُمْ.

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اپنے کسی کمرے سے نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے اس میں دو حلقے دیکھے، ایک تلاوت قرآن اور ذکرو دعا میں مشغول تھا، اور دوسرا تعلیم و تعلم میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں حلقے نیکی کے کام میں ہیں، یہ لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں، اور اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور چاہے تو نہ دے، اور یہ لوگ علم سیکھنے اور سکھانے میں مشغول ہیں، اور میں تو صرف معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، پھر انہیں کے ساتھ بیٹھ گئے ۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابن ماجہ کی یہ سند پہلی سند سے زیادہ ضعیف ہے کیونکہ عبداللّٰہ بن یزید کے علاوہ تمام راوی ضعیف ہیں، اور ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے عبدالرحمن بن رافع ضعیف راوی کی جگہ عبداللّٰہ بن یزید معافری ثقہ راوی کو لایا ہے۔
بوصیری رحمہ اللّٰہ نے زوائد ابن ماجہ میں کہا ہے کہ داود، بکر اور عبدالرحمن ضعیف ہیں. اور عراقی رحمہ اللّٰہ احیاء علوم الدین کی تخریج میں اس کی سند کو ضعیف کہا۔

اس حدیث سے بعض اہل طریقت ذکر کے ایسے حلقوں کی مشروعیت پر استدلال کرتے ہیں جس میں لوگ ذکر کرتے ہوئے دائیں بائیں آگے پیچھے جھومتے رہتے ہیں جو کہ متقدمین علماء کے اتفاق سے مشروع نہیں ہے اور یہ حدیث صحیح بھی نہیں ہے، اور جو یہ لوگ اس سے استدلال کر رہے ہیں وہ بات اس میں نہیں ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ اس میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے جمع ہونے کا جواز ہے اور یہ بات صحیح مسلم وغیرہ کی صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے جو ہمیں اس ضعیف حدیث سے بے نیاز اور غنی کرتے ہیں۔ اور ان صحیح احادیث سے بھی صرف ذکر کے لیے جمع ہونے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

رہا حلقے بنانا، رقص وغیرہ کرنا تو یہ سب بدعت اور گمراہیاں ہیں جن سے شریعت پاک ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
دَعْوَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْجَرَادِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹڈیوں کے لیے بد دعا
١١٢ - قال ابن ماجه: حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ قَالَ حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُلَاثَةَ عَنْ «مُوسَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ» عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ وَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَعَا عَلَى الْجَرَادِ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَهْلِكْ كِبَارَهُ، وَاقْتُلْ صِغَارَهُ، وَأَفْسِدْ بَيْضَهُ، وَاقْطَعْ دَابِرَهُ، وَخُذْ بِأَفْوَاهِهَا، عَنْ مَعَايِشِنَا وَأَرْزَاقِنَا، إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَدْعُو عَلَى جُنْدٍ مِنْ أَجْنَادِ اللَّهِ بِقَطْعِ دَابِرهِ قَالَ: «إِنَّ الْجَرَادَ نَثْرَةُ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ» قَالَ هَاشِمٌ: قَالَ زِيَادٌ: فَحَدَّثَنِي مَنْ رَأَى الْحُوتَ يَنْثُرُهُ.
ترجمہ: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٹڈیوں کے لیے بد دعا کرتے تو فرماتے: اے اللہ! بڑی ٹڈیوں کو ہلاک کر دے، چھوٹی ٹڈیوں کو مار ڈال، ان کے انڈے خراب کر دے، اور ان کی اصل ( جڑ ) کو کاٹ ڈال اور ان کے منہ کو ہماری روزیوں اور غلوں سے پکڑ لے ( انہیں ان تک پہنچنے نہ دے ) ، بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کیسے اللہ کی ایک فوج کی اصل اور جڑ کاٹنے کے لیے بد دعا فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹڈی دریا کی مچھلی کی چھینک ہے ۔ ہاشم کہتے ہیں کہ زیاد ( راوی حدیث ) نے کہا: مجھ سے ایسے شخص نے بیان کیا جس نے مچھلی کو چھینکتے دیکھا (جس سے ٹڈی نکلی) ۔
تخريج: سنن ابن ماجه (٣٢٢١) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ المعجم الأوسط للطبراني (٨٥٣٩) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (في ترجمة ٤٥٤٦ - زِيَاد بْن عَبْد اللَّهِ بْن علاثة) (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧ھ)؛ تهذيب الكمال في أسماء الرجال (في ترجمة ٢٠٥٤: زياد بن عَبد الله) (المتوفى: ٧٤٢ھ) (موضوع)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے، موسیٰ بن محمد ( تیمی مدنی) منکر الحدیث ہے جیسا کہ نسائی رحمہ اللّٰہ وغیرہ نے کہا ہے، امام ذہبی نے اس کی منکر روایات میں سے یہ روایت بھی بیان کی ہے۔ ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو موضوعات میں روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے موسیٰ متروک ہے، سیوطی نے اس کا اقرار کیا ہے اور تعقب نہیں کیا، مگر (متروک راوی ہونے کے باوجود) اس حدیث کو الجامع الصغیر میں لایا ہے۔
ابن قتیبہ نے یہ حدیث "غريب الحديث" میں (ابو خالد الواسطي عن رجل عن ابن عباس) کی سند سے موقوفا روایت کی ہے۔ یہ سند موقوف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ ضعیف بھی ہے کیونکہ ابو خالد ( عمرو بن خالد) متروک ہے اور امام وکیع نے اسے کذاب کہا ہے۔
میں (شیخ البانی) کہتا ہوں ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث اسرائیلیات میں سے ہو۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٤٣٤- قال الطبراني: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلَوَيْهِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عِيسَى الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا «إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ أَبُو حُذَيْفَةَ» حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَدْعُو النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِهِمْ سِتْرًا مِنْهُ عَلَى عِبَادِهِ، وَأَمَّا عِنْدَ الصِّرَاطِ، فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يُعْطِي كُلَّ مُؤْمِنٍ نُورًا، وَكُلَّ مُؤْمِنَةٍ نُورًا، وَكُلَّ مُنَافِقٍ نُورًا، فَإِذَا اسْتَوَوْا عَلَى الصِّرَاطِ سَلَبَ اللهُ نُورَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: {انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ} [الحديد: ١٣] وَقَالَ الْمُؤْمِنُونَ: {رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنا} [التحريم: ٨] فَلَا يَذْكُرُ عِنْدَ ذَلِكَ أَحَدٌ أَحَدًا»


ترجمہ: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں (کے عیبوں) پر پردہ ڈالتے ہوئے ان کے ناموں سے پکارے گا اور پل صراط کے پاس اللہ تعالیٰ ہر مومن مرد و عورت کو نور عطا کرے گا اور ہر منافق کو بھی نور دے گا جب سب لوگ پل صراط پر ( چلنے کے لئے) تیار ہوں گے اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور عورتوں کا نور چھین لے گا تو منافق ( مومنوں سے ) کہیں گے: ذرا ہمارا انتظار کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں [الحديد: ١٣]۔ اور مومن کہیں گے: اے ہمارے رب ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے [التحريم: ٨]۔ اس وقت کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔

تخريج: المعجم الكبير للطبراني (١١٢٤٢) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ (موضوع)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: اس سند میں اسحاق کذاب ہے، اس حدیث کا پہلا حصہ دوسری سند سے پیچھے گزر چکا ہے اور اسحاق کی دوسری روایات بھی گزری ہیں۔

ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں اس حدیث کو طبرانی کی سند سے روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں اسحاق متروک ہے۔
 
Top