• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
١٨٤٦ - قال هَنَّاد: حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ أَبِي الرَّجَاءِ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنْ «عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ» عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

[ARB]«إِيَّاكُمْ وَالْغِيبَةَ فَإِنَّ الْغِيبَةَ أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ الْغِيبَةُ أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا؟ قَالَ: «إِنَّ الرَّجُلَ قَدْ يَزْنِي , ثُمَّ يَتُوبُ فَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَإِنَّ صَاحِبَ الْغِيبَةِ لَا يُغْفَرُ لَهُ حَتَّى يَغْفِرَ لَهُ صَاحِبُهُ»[/ARB]

ترجمہ: تم لوگ غیبت کرنے سے بچو بے شک غیبت زنا سے بڑا گناہ ہے، کہا گیا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم غیبت کس طرح زنا سے بڑا گناہ ہے؟ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک آدمی زنا کرتا ہے پھر جب توبہ کرتا ہے تو اللّٰہ اس کو معاف کر دیتا ہے، مگر غیبت کرنے والے کی مغفرت اس وقت تک نہیں کی جاتی جب تک جس کی غیبت کی گئی وہ معاف نہ کر دے۔

تخريج: الزهد لهَنَّاد (المتوفى: ٢٤٣هـ)؛ الصمت وآداب اللسان (١٦٤) و ذم الغيبة والنميمة (٢٦) لابن أبي الدنيا (المتوفى: ٢٨١هـ)؛ العلل لابن أبي حاتم (١٨٥٤) (المتوفى: ٣٢٧هـ)؛ المجالسة وجواهر العلم لأبي بكر الدينوري (٣٥٤١) (المتوفى: ٣٣٣هـ)؛ المعجم الأوسط للطبراني (٦٥٩٠) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ التوبيخ والتنبيه لأبِي الشيخ الأصبهاني (١٧١) (المتوفى: ٣٦٩هـ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (٦٣١٥) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الوسيط في تفسير القرآن المجيد للواحدي (٨٦٦) (المتوفى: ٤٦٨هـ)؛ الترغيب والترهيب لإسماعيل الأصبهاني (٢٢٤٠) (المتوفى: ٥٣٥هـ)؛ الطيوريات لأبي طاهر السِّلَفي (٨٣٩) (المتوفى: ٥٧٦هـ)؛اللطائف من دقائق المعارف في علوم الحفاظ الأعارف لأبي موسى المديني (٢٠) (المتوفى: ٥٨١هـ)؛ المنتقى من مسموعات مرو لضياء الدين المقدسي (٨٥) (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛ (ضعيف جدا)

[شیخ البانی کہتے ہیں کہ عراقی رحمہ اللّٰہ نے " تخريج الإحياء" میں اس حدیث کو " تفسیر ابنِ مردویہ" کی طرف منسوب کیا ہے۔
شیخ البانی نے اس حدیث کی نسبت ابنِ عبد الہادی کی " جزء أحاديث ... " کی طرف کی ہے لیکن مجھے یہ دونوں کتابیں نہیں ملی۔مترجم]

[مترجم: ہناد اور واحدی کی روایت میں صرف جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے ، اس کے علاوہ تمام روایات میں جابر بن عبداللہ اور ابی سعید خدری رضی اللّٰہ عنہما دونوں سے مروی ہے ، ابو موسیٰ مدینی کی روایت میں داود بن محبر ہے اس روایت میں ابو سعید خدری رضی اللّٰہ عنہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے]۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: داود بن محبر متہم بالکذب ہے اور اسباط اور ابو رجاء خراسانی دونوں ثقہ راوی ہیں اس لئے داود کا ان دونوں کی مخالفت کرنا کچھ فائدہ مند نہیں ہے ( داود نے اسباط اور ابو رجاء خراسانی کی مخالفت کی ہے کیونکہ اس کی روایت میں ابو سعید خدری رضی اللّٰہ عنہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے)۔

اس حدیث کی اصل علت عباد بن کثیر ثقفی بصری ہے، اس کو حافظ ابن حجر نے متروک کہا ہے اور امام احمد کہتے ہیں کہ وہ جھوٹی احادیث روایت کرتا ہے۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا یہ حدیث منکر ہے تو انہوں نے کہا: "كما تقول، (الأصل: يكون) أسأل الله العافية، يجيء عباد بن كثير البصري بمثل هذا؟! ".

ابو موسیٰ مدینی " اللطائف" میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اس کو میں اس طرح صرف اسی سند سے جانتا ہوں ۔
ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں عباد بن کثیر ثقفی متروک ہے۔
حافظ منذری "الترغیب والترہیب" میں کہتے ہیں کہ بیہقی رحمہ اللّٰہ نے شعب الایمان میں اس حدیث کو انس رضی اللّٰہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے مگر اس میں ایک راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا ( عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ )، اور بیہقی نے اس حدیث کو سفیان بن عینیہ سے غیر مرفوع بھی روایت کیا ہے ( یعنی سفیان بن عینیہ کے قول کے طور پر روایت کیا ہے) [دیکھیں: شعب الإيمان للبيهقي: ٦٣١٤، ٦٣١٦]
١٨٤٦ - قال هَنَّاد: حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ أَبِي الرَّجَاءِ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنْ «عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ» عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِيَّاكُمْ وَالْغِيبَةَ فَإِنَّ الْغِيبَةَ أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ الْغِيبَةُ أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا؟ قَالَ: «إِنَّ الرَّجُلَ قَدْ يَزْنِي , ثُمَّ يَتُوبُ فَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَإِنَّ صَاحِبَ الْغِيبَةِ لَا يُغْفَرُ لَهُ حَتَّى يَغْفِرَ لَهُ صَاحِبُهُ»

ترجمہ: تم لوگ غیبت کرنے سے بچو بے شک غیبت زنا سے بڑا گناہ ہے، کہا گیا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم غیبت کس طرح زنا سے بڑا گناہ ہے؟ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک آدمی زنا کرتا ہے پھر جب توبہ کرتا ہے تو اللّٰہ اس کو معاف کر دیتا ہے، مگر غیبت کرنے والے کی مغفرت اس وقت تک نہیں کی جاتی جب تک جس کی غیبت کی گئی وہ معاف نہ کر دے۔

تخريج: الزهد لهَنَّاد (المتوفى: ٢٤٣هـ)؛ الصمت وآداب اللسان (١٦٤) و ذم الغيبة والنميمة (٢٦) لابن أبي الدنيا (المتوفى: ٢٨١هـ)؛ العلل لابن أبي حاتم (١٨٥٤) (المتوفى: ٣٢٧هـ)؛ المجالسة وجواهر العلم لأبي بكر الدينوري (٣٥٤١) (المتوفى: ٣٣٣هـ)؛ المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين لابن حبان ( في ترجمة ٧٩١ - عباد بن كثير الثَّقَفِيّ) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ المعجم الأوسط للطبراني (٦٥٩٠) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ التوبيخ والتنبيه لأبِي الشيخ الأصبهاني (١٧١) (المتوفى: ٣٦٩هـ)؛ تفسير الثعلبي (المتوفى: ٤٢٧هـ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (٦٣١٥) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الوسيط في تفسير القرآن المجيد للواحدي (٨٦٦) (المتوفى: ٤٦٨هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٤٣٢٠) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الترغيب والترهيب لإسماعيل الأصبهاني (٢٢٤٠) (المتوفى: ٥٣٥هـ)؛ الطيوريات لأبي طاهر السِّلَفي (٨٣٩) (المتوفى: ٥٧٦هـ)؛اللطائف من دقائق المعارف في علوم الحفاظ الأعارف لأبي موسى المديني (٢٠) (المتوفى: ٥٨١هـ)؛ المنتقى من مسموعات مرو لضياء الدين المقدسي (٨٥) (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛ (ضعيف جدا)

[شیخ البانی کہتے ہیں کہ عراقی رحمہ اللّٰہ نے " تخريج الإحياء" میں اس حدیث کو " تفسیر ابنِ مردویہ" کی طرف منسوب کیا ہے۔
شیخ البانی نے اس حدیث کی نسبت ابنِ عبد الہادی کی " جزء أحاديث ... " کی طرف کی ہے لیکن مجھے یہ دونوں کتابیں نہیں ملی۔مترجم]

[مترجم: ہناد اور واحدی کی روایت میں صرف جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے ، اس کے علاوہ تمام روایات میں جابر بن عبداللہ اور ابی سعید خدری رضی اللّٰہ عنہما دونوں سے مروی ہے ، ابو موسیٰ مدینی کی روایت میں داود بن محبر ہے اس روایت میں ابو سعید خدری رضی اللّٰہ عنہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے]۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: داود بن محبر متہم بالکذب ہے اور اسباط اور ابو رجاء خراسانی دونوں ثقہ راوی ہیں اس لئے داود کا ان دونوں کی مخالفت کرنا کچھ فائدہ مند نہیں ہے ( داود نے اسباط اور ابو رجاء خراسانی کی مخالفت کی ہے کیونکہ اس کی روایت میں ابو سعید خدری رضی اللّٰہ عنہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے)۔

اس حدیث کی اصل علت عباد بن کثیر ثقفی بصری ہے، اس کو حافظ ابن حجر نے متروک کہا ہے اور امام احمد کہتے ہیں کہ وہ جھوٹی احادیث روایت کرتا ہے۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا یہ حدیث منکر ہے تو انہوں نے کہا: "كما تقول، (الأصل: يكون) أسأل الله العافية، يجيء عباد بن كثير البصري بمثل هذا؟! ".

ابو موسیٰ مدینی " اللطائف" میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اس کو میں اس طرح صرف اسی سند سے جانتا ہوں ۔
ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں عباد بن کثیر ثقفی متروک ہے۔
حافظ منذری "الترغیب والترہیب" میں کہتے ہیں کہ بیہقی رحمہ اللّٰہ نے شعب الایمان میں اس حدیث کو انس رضی اللّٰہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے مگر اس میں ایک راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا ( عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ )، اور بیہقی نے اس حدیث کو سفیان بن عینیہ سے غیر مرفوع بھی روایت کیا ہے ( یعنی سفیان بن عینیہ کے قول کے طور پر روایت کیا ہے) [دیکھیں: شعب الإيمان للبيهقي: ٦٣١٤، ٦٣١٦]

[
مترجم: ابن مندہ وغیرہ نے اس حدیث کو درج ذیل سند اور متن سے روایت کیا ہے:


قال ابن منده: أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْهَيْثَمُ بْنُ كليب بن شريح الشافعي ببخاري أنا عيسى بن أحمد العسقلاني ثنا أصرم بن حوشب ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَاقِدٍ أَبُو رَجَاءٍ الْهَرَوِيُّ عن سعيد الجريري عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم :

«التَّوْبَةُ مِنَ الزِّنَا أَيْسَرُ مِنَ التَّوْبَةُ مِنَ الغِيْبَةِ، إنَّ صَاحِبَ الزِّنَا إِذَا تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَ صَاحِبُ الغِيْبَةِ لَا تَوْبَةَ لَهُ حَتَّى يَأتيَ صَاحِبَهُ فَيَسْتَغْفِرَ لَهُ»

ترجمہ: زنا سے توبہ کرنا غیبت سے توبہ کرنے سے آسان ہے،جب زانی توبہ کرتا ہے تو اللّٰہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے مگر غیبت کرنے والے کی توبہ اس وقت تک قبول نہیں کی جاتی جب تک وہ آ کر اس شخص سے معافی نہ مانگ لے جس کی غیبت کی تھی۔

تخريج: الفوائد لابن مَنْدَه (٣) (المتوفى: ٣٩٥هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٢٤٢٩) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ معجم الشيوخ لابن عساكر (٦٩٣) (المتوفى: ٥٧١هـ)؛

ابن عساکر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں "یہ روایت بہت زیادہ غریب ہے ابراہیم بن طہمان اور ابو رجاء سے صرف اصرم بن حوشب ہی نے روایت کی ہے"۔
اصرم بن حوشب کو امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں متروک الحدیث کہا ہے].
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٨٣٥ - قال ابو نعيم: حَدَّثَنَا أَبُو حَامِدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُسْتَةَ الصُّوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ سُفْيَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعِيدٍ الْبَرَزَنْدِيُّ حَدَّثَنَا «أَبُو الْحَسَنِ سَهْلُ بْنُ صُقَيْرٍ الْخَلَّاطِيُّ» حَدَّثَنَا «إِسْمَاعِيلُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ» حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«الْغِيبَةُ تَنْقُضُ الْوُضُوءَ وَالصَّلَاةَ»

ترجمہ: غیبت وضوء اور نماز کو توڑ دیتی ہے۔

تخريج: تاريخ أصبهان لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٤٣٢٢) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ (موضوع)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ حدیث موضوع ہے، اس کی علت اسماعیل (ابو یحییٰ تیمی) کذاب اور احادیث گڑھنے والا ہے۔
دار قطنی رحمہ اللّٰہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ امام مالک اور سفیان ثوری وغیرہما پر جھوٹ گڑھتا تھا، اور امام حاکم نے کہا ہے کہ وہ امام مالک، مسعر اور ابن ابی ذئب سے موضوع احادیث روایات کرتا تھا۔
دوسرا راوی سہل بن سقر ہے اس کے متعلق خطیب بغدادی نے کہا کہ وہ احادیث گڑھتا تھا اور ابن ماکولا نے کہا کہ اس میں ضعف ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ مناوی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کی علت واضح ہونے کے باوجود اس پر خاموشی اختیار کی بلکہ ان کے کلام سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک ثابت ہے کہتے ہے کہ عابد و زاہد لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری معنیٰ کو لے لیا اور حرام گفتگو پر وضوء کو واجب قرار دیا۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: حدیث کی تشریح اس کی صحت ثابت ہونے کے بعد بیان کی جاتی ہے لیکن یہ حدیث تو موضوع ہے، اور اگر اس کی سند صحیح ہوتی تو یہ عابد و زاہد لوگوں ہی اس پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کرتے۔ یہ سب ضعیف اور موضوع احادیث سے نا واقفیت کا پھل ہے، بے شک ضعیف اور موضوع احادیث سے ناواقف لوگ ان کاموں کو دین کا حصہ بنا لیتے ہیں جو دین میں نہیں ہوتے۔

پھر ہمیں مشکاۃ میں شعب الایمان (٦٣٠٣) کی درج ذیل روایت ملی، لیکن ہمیں اس کی سند اب تک نہیں ملی اور یہ حدیث ہمیں صحیح نہیں لگتی۔ ( مترجم: مجھے اس کی سند مل گئی، الحمدللہ).

قال البيهقي: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلَيْنِ صَلَيَّا صَلَاةَ الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ وَكَانَا صَائِمَيْنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةُ، قَالَ: " أَعِيدَا وُضُوءَكُمَا وَصَلَاتَكُمَا وَامْضِيَا فِي صَوْمِكُمَا وَاقْضِيَاهُ يَوْمًا آخَرَ "، قَالَا: لِمَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " اغْتَبْتُمْ فُلَانًا "

ترجمہ: ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی اور وہ دونوں روزے سے تھے، جب نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی تو ان دونوں سے کہا: اپنے وضوء اور نماز کو لوٹاؤ ، اپنے روزے کو مکمل کرو اور کسی دوسرے دن اس کی قضاء کرو، تو ان دونوں نے پوچھا کس لئے اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے فلاں کی غیبت کی ہے۔

[اس کی سند میں عباد بن منصور ہے اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ تقریب التہذیب میں کہتے ہیں "صدوق رمي بالقدر وكان يدلس وتغير بأخرة" ( صدوق ہے، تقدیر کا انکار کرنے والوں میں سے ہے، مدلس ہے اور آخری وقت میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا) یہ روایت اس نے عنعن سے کی ہے۔مترجم]
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٤٥٠٢ - قال الطبراني: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِرْيَابِيُّ حَدَّثَنَا هُرَيْمُ بْنُ مِسْعَرٍ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ «لَيْثٍ» عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الْعَطَّارِ إِنْ جَالَسْتَهُ نَفَعَكَ، وَإِنْ مَاشَيْتَهُ نَفَعَكَ، وَإِنْ شَارَكْتَهُ نَفَعَكَ»

ترجمہ: مومن کی مثال عطار (عطر بیچنے والے) جیسی ہے اگر تو اس کے ساتھ بیٹھے تو وہ تجھے فائدہ پہنچائے گا، اگر اس کے ساتھ چلے تو فائدہ پہنچائے گا اور اگر تو اس کے ساتھ ( کاروبار وغیرہ میں) شریک ہو تو بھی وہ تجھے فائدہ پہنچائے گا۔

تخريج: المعجم الكبير للطبراني (١٣٥٤١) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو أمثال الحديث للرامهرمزي (المتوفى: ٣٦٠هـ) کی طرف بھی منسوب کیا ہے لیکن مجھے امثال میں یہ حدیث نہیں ملی۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند ضعیف ہے، لیث (ابن ابی سلیم) کو اختلاط ہو گیا تھا یہ روایت اسی وقت کی ہے، کیونکہ یہ حدیث ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ وغیرہ سے دوسرے الفاظ اور معنی سے مروی ہے اور وہ محفوظ ہے.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے۔ یا تو مشک خرید لو گے یا کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکو گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تو تمہارے بدن اور کپڑوں کو جلا دے گی ورنہ تم اس سے بدبو تو ضرور پا لو گے۔ ( صحيح البخاري: ٢١٠١؛ صحيح مسلم: ٢٦٢٨)
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٢٧٣٣ - قال ابن ماجه: حَدَّثَنَا «جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ» حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَجَلِيُّ عَنْ «لَيْثٍ» عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«أَرَاكُمْ سَتُشَرِّفُونَ مَسَاجِدَكُمْ بَعْدِي كَمَا شَرَّفَتْ الْيَهُودُ كَنَائِسَهَا، وَكَمَا شَرَّفَتْ النَّصَارَى بِيَعَهَا»


ترجمہ: میرا خیال ہے کہ تم لوگ میرے بعد مسجدوں کو ویسے ہی بلند اور عالی شان بناؤ گے جس طرح یہود نے اپنے گرجا گھروں کو، اور نصاریٰ نے اپنے کلیساؤں کو بنایا۔

۩تخريج: سنن ابن ماجه (٧٤٠) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند ضعیف ہے،لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے اور اسی جیسا یا اس سے برا جبارہ بن مغلس ہے۔( سند میں جبارہ بن مغلس اور لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں)

لیکن اس معنی کی حدیث ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہ سے ابو داود (حدیث: ٤٤٨) وغیرہ میں صحیح سند سے ثابت ہے

قَالَ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ «مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ» ‏‏‏‏‏‏
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتْ الْيَهُودُ ‏‏‏‏‏‏وَالنَّصَارَى.

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے مسجدوں کے بلند کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تم مسجدیں اسی طرح سجاؤ گے جس طرح یہود و نصاریٰ نے ( اپنی عبادت گاہوں کو ) سجایا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٣٤٠١- قال ابن عدي: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّه بْنُ مُحَمد بن مسلم حَدَّثَنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ حِصْنٍ أَبُو سُلَيْمٍ الجبيلى حَدَّثَنا عُتْبَةُ بن الرحض عَنْ «الْمُوَقِّرِيُّ» عَنِ الزُّهْريِّ عَن أَنَسٍ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ:


«تَزَوَّجُوا فِي الْحُجْزِ الصَّالِحِ فَإِنَّ الْعِرْقَ دَسَّاسٌ»

ترجمہ: نیک خاندان میں نکاح کرو کیونکہ عادت نسل در نسل چلتی ہے۔

۩تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٢٢٩١) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ العلل المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي (١٠١٥) (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ (موضوع)

ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ "یحییٰ بن معین نے موقری کے متعلق کہا "ليس بشيء" ( اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے)، علی بن مدینی کہتے ہیں کہ اس کی احادیث نہیں لکھی جاتی اور نسائی رحمہ اللّٰہ نے اس کو متروک الحدیث کہا ہے"۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے اس کی علت موقری ہے اس کا نام ولید بن محمد ہے اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے، بلکہ محمد بن عوف نے اس کو کذاب کہا ہے اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ وہ زہری سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے جن کو زہری رحمہ اللّٰہ نے کبھی روایت نہیں کیا، مرسل کو مرفوع اور موقوف کو مسند روایت کرتا ہے، اس سے کسی بھی حال میں دلیل لینا ‌جائز نہیں ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٥٨٦ - قال ابن عساكر: أنبأنا أبو علي الحسن بن أحمد حَدَّثَنَا محمد بن عَبْدُاللَّه بن أحمد أخبرنا سليمان بن أحمد الطبراني أخبرنا أحمد بن النضر العسكري حَدَّثَنَا «سليمان بن سلمة الخبائري» حَدَّثَنَا أبو فراس المؤمل بن سعيد بن يوسف الرحبي حدثني والدي سعيد بن يوسف قال سمعت عَن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بسر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«لَيْسَ مِنِّي ذُوْ حَسَدٍ وَلَا نَمِيْمَةٍ وَلَا كَهَانَةٍ وَلَا أَنَا مِنْهُ» ثُمَّ تَلَا رَسُوْلُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : {وَٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ بِغَيْرِ مَا ٱكْتَسَبُواْ فَقَدِ ٱحْتَمَلُواْ بُهْتَـٰنً۬ا وَإِثْمً۬ا مُّبِينً۬ا} {الْأَحْزَاب:٥٨}


ترجمہ: حاسد ،چغل خور اور کاہن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے، پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تکلیف دیں، انہوں نے (بڑے) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھا لیا ہے۔

تخريج: الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٥٢٨٠) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ) (موضوع)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ : ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس کو طبرانی رحمہ اللّٰہ نے روایت کیا ہے سند میں سلیمان بن سلمہ خبائری متروک ہے۔ ( مترجم: مجھے یہ حدیث طبرانی رحمہ اللّٰہ کی کسی بھی کتاب میں نہیں ملی).

شیخ البانی کہتے ہیں سلیمان بن سلمہ خبائری متہم بالکذب ہے ، ابن جنید کہتے ہیں کہ سلیمان جھوٹ بولتا تھا ، امام ذہبی نے اس کی ایک روایت بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ موضوع ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
١٠٧٤ - قال المحاملي: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ شُعَيْبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ حَدَّثَنِي بُرَيْهُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ:

«احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ لِي: «خُذْ هَذَا الدَّمَ فَادْفِنْهُ مِنَ الدَّوَابِّ وَالطَّيْرِ وَالنَّاسِ» لَا يَدْرِي ابْنُ أَبِي فُدَيْكَ بِأَيِّهَا بَدَأَ قَالَ: فَغَيَّبْتُهُ فَشَرِبْتُهُ ثُمَّ أَخْبَرْتُهُ فَضَحِكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

.

ترجمہ: سفینہ رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حجامہ کروایا پھر مجھ سے فرمایا: یہ خون لو اور اسے چوپایوں، پرندوں اور لوگوں سے بچا کر دفن کر دو، ابن ابی فدیک ( ایک راوی) کو پتہ نہیں کہ پہلے چوپائے کہا یا لوگ کہا، سفینہ رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ میں خون کو لے گیا اور پی لیا پھر نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق بتایا تو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔

تخريج: أمالي المحاملي رواية ابن يحيى البيع (٥٢٦) (المتوفى: ٣٣٠هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (٦٤٣٤) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ حديث ابن حيويه الخزاز (المتوفى: ٣٨٢هـ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (١٣٤٠٨) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ (ضعيف)


شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند ضعیف ہے، اس کی دو علتیں ہیں۔
پہلی علت: عمر بن سفینہ مجہول ہے، ابو زرعہ رحمہ اللّٰہ نے اسے صدوق کہا ہے، اور امام بخاری نے اس کی سند کو مجہول کہا ہے۔ عقیلی رحمہ اللّٰہ نے " الضعفاء " میں اس کا ذکر کیا ہے پھر کہا ہے کہ اس کی حدیث محفوظ نہیں ہے اس کو صرف اسی روایت سے جانا جاتا ہے۔

دوسری علت: عمر بن سفینہ کا بیٹا "بُریہ" ہے اس کا نام ابراہیم ہے، عقیلی رحمہ اللّٰہ نے اس کا بھی ذکر " الضعفاء " میں کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی متابعت کوئی نہیں کرتا، ابن عدی کہتے ہیں کہ " جو ہم نے بیان کئے اس کے علاوہ بھی اس کی چند روایات ہیں، رجال پر کلام کرنے والوں میں سے کسی کا بھی اس کے متعلق کلام مجھے نہیں ملا اور میں امید کرتا ہوں کہ اس میں کوئی بات نہیں (لا بأس به)۔ امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا ہے کہ دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے اسے ضعیف کہا ہے اور ابن حبان نے کہا ہے کہ اس سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے، اور کہا ہے کہ بُریہ اپنے والد سے منکر احادیث روایت کرنے میں منفرد ہے۔

اس حدیث کو عبدالحق اشبیلی (المتوفى: ٥٨١ هـ) نے " الأحكام الوسطى" میں ضعیف کہا ہے، اور حافظ ابن حجر نے اس پر سکوت اختیار کی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٢١٨٠- قال ابن سعد: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا الأَوْزَاعِيُّ عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ ثُمَّ قَالَ لِرَجُلٍ: «ادْفِنْهُ لَا يَبْحَثُ عَنْهُ كَلْبٌ»

ترجمہ: ہارون بن رئاب کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حجامہ کروایا پھر ایک آدمی سے کہا: اس (خون) کو دفن کر دو تاکہ کتا اسے تلاش نہ کر سکے۔

تخريج: الطبقات الكبرى لابن سعد (المتوفى: ٢٣٠هـ)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند مرسل بلکہ معضل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، ہارون بن رئاب کا انس رضی اللّٰہ عنہ سے سماع میں اختلاف ہے، اگر ہارون کا انس رضی اللّٰہ عنہ سے سماع ثابت نہ ہو تو یہ سند معضل ہوگی ( اور اگر سماع ثابت ہو تو مرسل ہوگی) کیونکہ انس رضی اللّٰہ عنہ کی وفات صحابہ کے آخری دور میں ہوئی اگر ہارون نے ان سے نہیں سنا تو دوسرے صحابہ سے سماع صحیح نہیں ہو سکتا۔
محمد بن مقاتل (مروزی) ثقہ ہیں اسی طرح سند میں جو ان کے اوپر ہیں وہ بھی ثقہ ہیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
١٨٦٧- قال ابن ماجه: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ الْأَنْمَارِيِّ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَحْتَجِمُ عَلَى هَامَتِهِ، وَبَيْنَ كَتِفَيْهِ، وَيَقُولُ: «مَنْ أَهْرَاقَ مِنْهُ هَذِهِ الدِّمَاءَ، فَلَا يَضُرُّهُ أَنْ لَا يَتَدَاوَى بِشَيْءٍ، لِشَيْءٍ»

ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر اور اپنے دونوں مونڈھوں کے درمیان سینگی (پچھنا) لگواتے اور فرماتے: جو ان جگہوں کا خون نکلوالے اسے کسی بیماری کی کوئی دوا نہ کرنے سے کوئی نقصان نہ ہو گا ۔

تخريج: سنن ابن ماجه (٣٤٨٤) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ سنن أبي داود (٣٨٥٩) (المتوفى: ٢٧٥هـ)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: اگر اس کی سند میں انقطاع نہیں ہوتا تو یہ سند حسن ہوتی، کیونکہ ابن ثوبان کا نام عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان عنسی دمشقی ہے، محدثین نے ان کے والد کے سماع کا ذکر کسی بھی صحابی سے نہیں کیا ہے، اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے ان کا ذکر "الثقات" میں اتباع التابعین میں کیا ہے، اسی طرح حافظ ابن حجر نے "تقریب التہذیب" میں کہا ہے کہ یہ "ثقہ،چھٹے طبقے کے راوی ہیں" یعنی اس طبقے کے جن کا کسی بھی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس کی صراحت فتح الباری کے مقدمے میں کی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مناوی رحمہ اللّٰہ کو یہ علت معلوم نہیں ہوئی اس لئے انہوں نے اس کی سند کو "التيسير بشرح الجامع الصغير" میں حسن کہا ہے۔ اور ہم نے بھی اس حدیث کو صحیح الجامع الصغیر میں ذکر کیا تھا ہمیں معلوم نہیں کہ ہم نے ایسا کسی وہم کی وجہ سے کیا تھا یا ہمیں اس کا کوئی شاہد مل گیا تھا جو اب ہمیں یاد نہیں۔ البتہ «بَيْنَ كَتِفَيْهِ» کا شاہد ہم نے صحیحہ، حدیث نمبر: 908 میں بیان کیا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٣٥١٨ - رواه الديلمي من طريق ابن السني عن موسى بن محمد حدثنا المنكدر بن محمد بن المنكدر عن أبيه عن جابر مرفوعاً

«الْحِجَامَةُ يَوْمَ الْأَحَدِ شِفَاءٌ

» (ضعيف جداً)
ترجمہ: ہفتے کے دن پچھنا لگوانا شفا کا باعث ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ حدیث موضوع ہے، اس کی علت موسیٰ (بن محمد بن عطاء دمیاطی مقدسی) ہے وہ احادیث گھڑتا تھا جیسا کہ ابن حبان وغیرہ نے کہا ہے۔ اور منکدر بن محمد بن منکدر لین الحدیث ہے اور مناوی رحمہ اللّٰہ نے اس کی علت صرف منکدر بتا کر تقصیر کی ہے۔

سیوطی نے اس حدیث کی نسبت عبدالملک بن حبیب کی "الطب النبوي" کی طرف کی ہے جس میں انہوں نے عبدالکریم حضرمی سے معضل روایت کیا ہے۔

شیخ البانی: عبدالملک کی سند معضل ہونے کے ساتھ واہیات (بہت ضعیف) ہے کیونکہ عبدالملک کے متعلق امام ذہبی نے کہا ہے کہ کثیر الوہم ہے، اور ابن حزم کہتے ہیں: وہ ثقہ نہیں تھا۔
 
Top