nasim نے کہا ہے: ↑
محترم خضرحیات صاحب
السلام علیکم
فقہ حنفی کے علماء کہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس سونا ساڑھے سات تولہ نہیں ہے کچھ سونا ہے اور کچھ نقد رقم ہے جن پر سال گذرگیا ۔لیکن اس کی مالیت ساڑھے سات تولہ سونے سے کم ہے تو چاندی کی مالیت کے نصاب سے زکوۃ نکالنا ہوگی ۔اگر صرف سونے کو زکوۃ کا نصاب بنادیا جائے تو زکوۃ ادا کرے والے بہت کم ہوجائیں گے لہذا احسن یہ ہے کہ اس کو اختیار کیا جائے ، اس کی تصدیق اشماریہ بھائی کر سکتے ہیں۔ @اشماریہ
میں اسی فہم کی بات کر رہا ہوں کہ یہاں پر صرف وہ الفاظوں کے فہم پر مقید ہوگئے ہیں ۔
ایک حدیث جس میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنے جوتے نشانی میں دیکر بھیجا تھا یہ بات پہنچانے جس نے کلمہ پڑھا وہ جنتی ہے لیکن بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات پر آپ نے اس بات کی تشہیر سے روک دیا ۔
یہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا فہم ہی تھا جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا۔
عین ممکن ہے کہ کسی تابعی کے ذہن میں شریعت کا کوئی نکتہ نہ آیا ہو اور بعد میں آنے والے نے وہ بیان کیا ہو۔ یا اس کی تشریح مختلف کی ہو۔ آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ 14ویں صدی میں ہی زیادہ تر لوگوں کے اعتراض آرہے ہیں ۔ لیکن یہ صدی ہی انقلابی صدی ہے جتنی ایجادات اور مادے نے جتنی ترقی اس دور میں کی ہے وہ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔
احادیث کے تراجم بھی اسی صدی میں ہوئے ہیں ۔ اب یا تو علماء کی ذمہ داری تھی کہ ایک عام آدمی کی دسترس تو ذخیرہ احادیث پہنچنے ہی نہیں دیتے ۔ اب عامی احادیث براہ راست پڑھ رہا ہے تو اس کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لیتے ہیں ۔
کیا شریعت اسلامی میں آج تک کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس میں آپ نے جن تین ادوار کا ذکر کیا ہے اس سے ہٹ کر کسی نے اپنے فہم سے کچھ اور بیان کیا ہو۔ اسلام دین فطرت ہے ۔ اور انسان کی فطرت اسے جستجو اور کھوج میں مصروف رکھتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسٰی علیہ السلام سے افضل ہیں لیکن ان کے فہم کے مطابق نمازوں میں تخفیف کر واتے رہے ۔
اس بات کی معذرت کہ میری پوسٹ اکثر بے ربط ہوجاتی ہے ۔ عامی کیلئے بات میں ربط رکھنا مشکل ہے۔
یعنی اگر میرے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کے مساوی رقم ہے تو میرا اختیار ہے کہ میں زکوۃ نہ دوں ۔ کیونکہ وہ تو ایک تولہ سونے کے برابر ہے اور ایک تولہ سونے پر زکوۃ نہیں ہے ۔(فہم سلف کے مطابق)
درست ۔محترم خضرحیات صاحب
السلام علیکم
فقہ حنفی کے علماء کہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس سونا ساڑھے سات تولہ نہیں ہے کچھ سونا ہے اور کچھ نقد رقم ہے جن پر سال گذرگیا ۔لیکن اس کی مالیت ساڑھے سات تولہ سونے سے کم ہے تو چاندی کی مالیت کے نصاب سے زکوۃ نکالنا ہوگی ۔اگر صرف سونے کو زکوۃ کا نصاب بنادیا جائے تو زکوۃ ادا کرے والے بہت کم ہوجائیں گے لہذا احسن یہ ہے کہ اس کو اختیار کیا جائے ، اس کی تصدیق اشماریہ بھائی کر سکتے ہیں۔ @اشماریہ
میں اسی فہم کی بات کر رہا ہوں کہ یہاں پر صرف وہ الفاظوں کے فہم پر مقید ہوگئے ہیں ۔
محترم میں منکرین حدیث میں شامل نہیں ہوں ۔ اس لئے میرا ایسا فہم نہیں ہے۔ واضح فرمان موجود ہے قران اور سنت ۔ب اس طرح کے ’ فہم ‘ اور ’ سمجھ ‘ کو کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ صرف قرآن حجت ہے ، جبکہ سنت یا حدیث چونکہ راویوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی ، لہذا اس کی کوئی ضرورت نہیں رہی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا تھا کہ ممکن ہے بعد میں میری حدیث کو کوئی زیادہ سمجھنے والا ہو ، یا یہ کہا تھا کہ ممکن ہے بعد والا میرا فرمان رد کرنے کے لیے حجت بازی میں زیادہ مہارت رکھتا ہو ۔
ایک حدیث جس میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنے جوتے نشانی میں دیکر بھیجا تھا یہ بات پہنچانے جس نے کلمہ پڑھا وہ جنتی ہے لیکن بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات پر آپ نے اس بات کی تشہیر سے روک دیا ۔
یہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا فہم ہی تھا جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا۔
عین ممکن ہے کہ کسی تابعی کے ذہن میں شریعت کا کوئی نکتہ نہ آیا ہو اور بعد میں آنے والے نے وہ بیان کیا ہو۔ یا اس کی تشریح مختلف کی ہو۔ آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ 14ویں صدی میں ہی زیادہ تر لوگوں کے اعتراض آرہے ہیں ۔ لیکن یہ صدی ہی انقلابی صدی ہے جتنی ایجادات اور مادے نے جتنی ترقی اس دور میں کی ہے وہ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔
احادیث کے تراجم بھی اسی صدی میں ہوئے ہیں ۔ اب یا تو علماء کی ذمہ داری تھی کہ ایک عام آدمی کی دسترس تو ذخیرہ احادیث پہنچنے ہی نہیں دیتے ۔ اب عامی احادیث براہ راست پڑھ رہا ہے تو اس کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لیتے ہیں ۔
کیا شریعت اسلامی میں آج تک کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس میں آپ نے جن تین ادوار کا ذکر کیا ہے اس سے ہٹ کر کسی نے اپنے فہم سے کچھ اور بیان کیا ہو۔ اسلام دین فطرت ہے ۔ اور انسان کی فطرت اسے جستجو اور کھوج میں مصروف رکھتی ہے ۔
یہاں فضیلت کی بات ہی نہیں ہے ۔ میرا اس پر کامل یقین ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مقدس ہستیاں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی ہیں ۔بات تو فہم کی ہورہی ہے۔ افضیلت اور فہم بالکل دو مختلف چیزیں ہیں ۔آپ نے جو حدیث پیش کی ہے ، اسی مفہوم کو میں پہلے گزارش کر چکا ہوں ، کہ چند اشخاص کو چند اشخاص پر فضیلت اور فوقیت ہوسکتی ہے ، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ تابعین کا مکمل طبقہ صحابہ کے مکمل طبقہ سے افضل ہو ، یا بعد میں آنے والی صدیاں خیر القرون یعنی صحابہ و تابعین و تبع تابعین کے طبقات سے افضل ہوں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسٰی علیہ السلام سے افضل ہیں لیکن ان کے فہم کے مطابق نمازوں میں تخفیف کر واتے رہے ۔
اس بات کی معذرت کہ میری پوسٹ اکثر بے ربط ہوجاتی ہے ۔ عامی کیلئے بات میں ربط رکھنا مشکل ہے۔