• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلف صالحین سے کیا مراد ہے؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ابھی ہم اپنے دماغ کتنا حصہ استعمال کر تے ہیں کتنا نہیں اس پر تحقیق جاری ہے ۔ ہرانسان کی ذہنی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہے جس صلاحیت کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے وہ نکھر کر آتی ہے ۔ ایک مفروضے کے مطابق ہر انسان میں جو اس دنیا میں موجود ہے اس کے دماغ میں پچھلے دور کی تمام معلومات محفوظ ہے ۔لیکن اس رسائی دماغ کے اس حصے تک نہیں یعنی اس کو استعمال کے قابل نہیں بنا پایا۔(اس کی مثال کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک ہے جس میں ہزاروں کتابوں کی کئی لائبریریاں سما سکتی ہیں)
اس بارے میں تازہ ترین تحقیق گزشتہ دنوں یہ پڑھی تھی کہ انسان اپنے ذہن کو مکمل استعمال کرتا ہے. (ابتسامہ)
سب مفروضے ہیں.

ہر کسی کی صلاحیت الگ ہوتی ہے. کسی کی کم کسی کی زیادہ. صلاحیت استعمال کرنے سے کبھی نکھرتی ہے کبھی نہیں.
اس سب سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہماری صلاحیت اسلاف سے زیادہ ہے.
باقی مفروضوں سے استدلال نہیں کیا جا سکتا.

معلومات کی منتقلی کی ایک مثال ایک حدیث میں بھی ملتی ہےجس کا مفہوم ہے کہ جب ایک صحابی نے اپنے بچے کے رنگ کا ذکر کیا کہ یہ ماں باپ میں سے کسی پر نہیں گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے پچھلے اجداد میں کوئی ایسا ہوگا۔ یعنی اس کی جین میں وہ کلر شامل تھا اور ایک خاص وقت پر ظاہر ہوگیا۔
اس کا مطلب ہے ہم میں ہر معلومات منتقل ہورہی ہے ۔
کیا آپ نے کبھی یہ سنا کہ کوئی پیدائشی محدث ہو؟ کوئی پیدائشی فقیہ اور مفتی ہو؟ بولنا شروع ہوتے ہی احادیث سنانے اور مسائل بتانے لگ جائے؟
کوئی ایک مثال ساری تاریخ میں نہیں مل سکتی. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ "ہر" معلومات منتقل نہیں ہوتی. وہ معلومات منتقل ہوتی ہیں جو من جانب اللہ ہوتی ہیں سب میں اور وہبی ہوتی ہیں.

ہم اپنے حافظے کی قوت کو استعمال کر نے کے عادی نہیں رہے اس لئے وہ کمزور ہوگئی ہے ۔جو دماغ کے جس حصے کو زیادہ استعمال کر تا ہے وہ زیادہ پاور فل ہوتا جاتا ہے ۔اس کی مثال آپ کے ایک ہوٹل کے ویٹر کی لے لیں جس کو مختلف گاہکوں کو دیا ہوا کھا نا بالترتیب یاد ہوتا ہے اور سب کا بل زبانی بتارہا ہوتا ہے۔
یہ درست ہے کہ جس صلاحیت کو استعمال کیا جائے وہ نکھر جاتی ہے. لیکن کیا آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ہوٹل کا ویٹر اور امام بخاری رح حافظے میں اور حدیث کے فن میں برابر ہیں؟؟؟

ایک ٹی وی پروگرام خبردار میں ایک کم پڑھا لکھا شخص ضرب کے انتہائی مشکل ترین سوالوں کا جواب سیکنڈوں میں دے دیتا ہے ۔ انسان تجربے اور ریسرچ سے سیکھتا ہے اور جب وہ نئی بات سیکھتا ہے تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے یہی چیز ذہنی صلاحیت بڑھاتی ہے ۔ انسان میں ابھی کتنی صلاحیتیں مخفی ہیں ۔اس کا کچھ پتا نہیں۔
یہ چیز صلاحیت نہیں بڑھاتی اس کی معلومات میں اضافہ کرتی ہے.
ارشی می دس ان پڑھ تھا. افلاطون اور ارسطو کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی. سقراط کسی یونیورسٹی کا فارغ نہیں تھا. اور ان سب کی ذہنی صلاحیتیں آج کے پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ تھیں. اگر علم ذہنی صلاحیت بڑھاتا تو آج کا میٹرک پاس ان سے زیادہ صلاحیت رکھتا.

دریافت کا یہ عمل جاری ہے ۔ اس ساری بحث کا مقصد یہی ہے اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ انسانی ذہن ترقی نہیں کررہا(آپ کے مطابق) تو میری ساری باتیں محض عبث ہوجائیں گی۔ میرا مؤقف ہی غلط ہوجائے گا۔ اوریہ ساری بحث وہیں ختم ہوجائی گی۔
جی. انسانی ذہن کی معلومات بڑھ رہی ہیں اور وہ بھی خودکار نہیں بلکہ پہلے والے کے کام کو پڑھ کر. لیکن اس کی ذہنی صلاحیت بتدریج کم ہوتی جارہی ہے.
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
جی. انسانی ذہن کی معلومات بڑھ رہی ہیں اور وہ بھی خودکار نہیں بلکہ پہلے والے کے کام کو پڑھ کر. لیکن اس کی ذہنی صلاحیت بتدریج کم ہوتی جارہی ہے.
محترم اشماریہ بھائی
السلام علیکم
ارفع کریم کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ جب تک اس کا ریکارڈ موجود ہے ۔ وہ اپنی فیلڈ کی ذہین ترین انسان رہے گی۔ کھیل میں ریکارڈ توٹتے ہیں۔ تو اس کا یہ مطلب نکالیں کہ ان سے کم صلاحیتوں کے حامل لوگ ان ریکارڈ کو بریک کرتے ہیں۔ جب کہ ہر نیا ریکارڈ ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے ۔

اگر آپ کی لاجک تسلیم کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد سے اب تک انسانی ذہنی پستی کی طرف جارہا ہے اور اس کا علم بڑھ رہا ہے ۔ اس میں اتنی وسعت تو ہے کہ وہ پچھلوں کا علم ہضم کرسکے اور اپنی طرف سے اس میں مزید کچھ ایڈ کرسکے لیکن ذہنی طور پر اپنے سے پہلے والوں سے کمتر ہے۔
برتن کا چھوٹا ہوتا جارہا ہے لیکن اس کے اندر وسعت پھر بھی بڑھ رہی ہے۔
یعنی امام الانبیاء ذہنی صلاحیتوں میں تو پچھلے نبیوں سے کم تھے لیکن علم میں زیادہ تھے۔
اگر آپ کی یہی لاجک ہے اور آپ اس پر متفق ہیں تو مزید بات کروں۔
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ بھائی
السلام علیکم
ارفع کریم کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ جب تک اس کا ریکارڈ موجود ہے ۔ وہ اپنی فیلڈ کی ذہین ترین انسان رہے گی۔ کھیل میں ریکارڈ توٹتے ہیں۔ تو اس کا یہ مطلب نکالیں کہ ان سے کم صلاحیتوں کے حامل لوگ ان ریکارڈ کو بریک کرتے ہیں۔ جب کہ ہر نیا ریکارڈ ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے ۔

اگر آپ کی لاجک تسلیم کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد سے اب تک انسانی ذہنی پستی کی طرف جارہا ہے اور اس کا علم بڑھ رہا ہے ۔ اس میں اتنی وسعت تو ہے کہ وہ پچھلوں کا علم ہضم کرسکے اور اپنی طرف سے اس میں مزید کچھ ایڈ کرسکے لیکن ذہنی طور پر اپنے سے پہلے والوں سے کمتر ہے۔
برتن کا چھوٹا ہوتا جارہا ہے لیکن اس کے اندر وسعت پھر بھی بڑھ رہی ہے۔
یعنی امام الانبیاء ذہنی صلاحیتوں میں تو پچھلے نبیوں سے کم تھے لیکن علم میں زیادہ تھے۔
اگر آپ کی یہی لاجک ہے اور آپ اس پر متفق ہیں تو مزید بات کروں۔
؟؟؟؟

@خضر حیات بهائی
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ایک دفن شدہ بزرگ پر کہے گئے ایک جملہ پر تڑخ جانیوالا اتنا بڑا جملہ کس طرح لکہ بیٹها:

" ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻻ‌ﻧﺒﯿﺎﺀ ﺫﮨﻨﯽ ﺻﻼ‌ﺣﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﻧﺒﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﻢ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮭﮯ-"

وہ بهی بغیر صلی اللہ علیہ وسلم کے؟

مجهے اس جملہ پر ، اس طرح کی مثال بنانے پر سخت اعتراض هے.
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم طارق بھائی
میں معذرت چاہتا ہوں اپنے اس جملے پر ۔
مجھے اس کے علاوہ کوئی اور مثال دینی چاہیے تھی ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
آپکی جگہ کوئی اور هوتا جس کے دل میں ذرہ برابر اللہ کا خوف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و مرتبہ کا خیال هوتا تو ادارہ سے کہتا کہ میری پوسٹ سے وہ جملہ ہی ڈلیٹ کر دیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اگر میرے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کے مساوی رقم ہے تو میرا اختیار ہے کہ میں زکوۃ نہ دوں ۔ کیونکہ وہ تو ایک تولہ سونے کے برابر ہے اور ایک تولہ سونے پر زکوۃ نہیں ہے ۔(فہم سلف کے مطابق)
زمانہ اور حالات کی تبدیلی سے شرعی احکام میں تبدیلی ۔۔ سے قطع نظر سونے چاندی کے نصاب زکوٰۃ کے متعلق
محدث میگزین میں محترم حافظ مبشر حسین کا ایک مضمون شائع ہوا تھا اس سے چند سطور کا اقتباس پیش خدمت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ کرنسی اور نصابِ زکوٰۃ

اب ایک عرصہ سے سونے، چاندی کے سکوں کی جگہ پیپر کرنسی نے لے رکھی ہے، اس لئے اب اسی نقدی پر زکوٰۃ ہوگی اور اس میں کوئی مؤثر اختلاف نہیں تاہم اس بات پر اختلاف ضرور ہے کہ موجودہ کرنسی کا نصاب سونے کے نصاب سے متعین کیا جائے یا چاندی کے نصاب سے؟ بعض فقہا کا خیال ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین سونے سے کیا جائے گا اور اس کی وہ مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں جیسا کہ یوسف قرضاوی رقم طراز ہیں:

''جبکہ بعض دیگر علما کی رائے یہ ہے کہ آج کل نصابِ زکوٰۃ کا اندازہ سونے سے ہونا چاہئے اس لئے کہ چاندی کی قیمت میں عہد ِنبوت کے بعد سے بہت زیادہ فرق آچکا ہے۔ کیونکہ تمام اشیا کی طرح چاندی کی بھی قیمت بڑھتی رہی ہے جب کہ سونے کی قیمت کافی حد تک مستحکم رہی ہے اور زمانے کے اختلاف سے سونے کے سکوں کی قیمت میں فرق نہیں آیا اور سونا ہر زمانے میںایک ہی اندازے کا حامل رہا ہے۔ یہ رائے ہمارے اساتذہ ابوزہرہ[عبد الوہاب] خلاف اور[عبد الرحمن] حسن نے زکوٰۃ پراپنی تحقیق کے دوران اختیارکی ہے۔ مجھے بھی یہ قول بلحاظِ دلیل زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے اس لئے اگر مذکورہ اموالِ زکوٰۃ کا موازنہ کرکے دیکھا جائے کہ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ ہے، چالیس بکریوں پر زکوٰۃ ہے، پانچ وسق کھجور یاکشمش پر زکوٰۃ ہے تو ہمیںمعلوم ہوگا کہ اس عہدمیں زکوٰۃ کے تمام نصابوں سے قریب سونا ہے،چاندی نہیں ہے۔ پانچ اونٹوں اور چالیس بکریوں کی قیمت تقریباً (کم و بیش)چار سو دینار یا گنی [جُنیہ(پائونڈ؍] مصری کرنسی) کے مساوی ہوگی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شارع کی نظر میں چار اونٹوں یا اُنتالیس بکریوں کا مالک توفقیر ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو لیکن جس کے پاس اتنی نقدی(یعنی چاندی کے حساب سے، ناقل) ہو جس سے وہ ایک بکری بھی نہ خرید سکتا ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو؟ اور کس طرح اس حقیر مالیت کو غنی تصور کیا جاسکتا ہے؟ شاہ ولی اللہ ؒ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں :

پانچ اوقیہ چاندی کو نصابِ زکوٰۃ اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ یہ مقدار ایک گھرانے کی سال بھر کی ضرورت کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اکثر علاقوں میں قیمتیں معتدل ہوں اور اگر آپ قیمتوں میں معتدل علاقوں کا جائزہ لیں تو آپ کو اس حقیقت کا اِدراک ہوجائے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی کسی اسلامی ملک میں پچاس یا (اس سے) کم و بیش مصری(کرنسی)اور سعودی ریال یا پاکستانی اور ہندوستانی روپے٭ میں ایک گھرانے کا پورے سال کا گزر ہوسکتا ہے؟ بلکہ کیا ایک ماہ یا ایک ہفتہ کا بھی ہوسکتا ہے؟ بلکہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں جہاں کا معیارِ زندگی کافی بلند ہوچکا ہے، یہ رقم ایک متوسط گھرانے کی ایک دن کی ضرورت کے لئے بھی ناکافی ہے، تو اس رقم کا مالک شریعت کی نظر میں کیوں کر غنی متصور ہوسکتا ہے؟ یہ بہت ہی بعید از قیاس بات ہے! اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہم اپنے اس عہد میں نصابِ زکوٰۃ کی پیمائش کے لئے سونے کو اصل قرار دیں۔ اگرچہ چاندی سے نصابِ زکوٰۃ کے تقرر میں فقرا اور مستحقین کا مفاد ہے مگر اس میں مال کے مالکین پر بار بھی پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ زکوٰۃ کے دہندگان صرف بڑے بڑے سرمایہ دار اور اغنیا ہی نہیں ہوتے بلکہ اُمت ِمسلمہ کے عام افراد زکوٰۃ دہندگان ہیں''۔
(فقہ الزکوٰۃ: ج۱؍ ص۳۵۲ تا۳۵۴)

جبکہ دوسری طرف بعض بلکہ اکثر و بیشتر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین چاندی کے حساب سے کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ رقم طراز ہیں کہ

''دورِ نبویؐ میں سونا چاندی دونوں زرِمبادلہ کے طور پراستعمال ہوتے تھے اور ان کی قیمتوں میں صرف ایک اور سات کی نسبت٭ تھی۔ یعنی ساڑھے سات تولے سونا ، ساڑھے باون تولے چاندی۔ دوسرے لفظوں میں سونے کا بھاؤ چاندی سے صرف سات گنا ہوتا تھا۔ بعد کے اَدوار میں سونے کی قیمت توچڑھتی گئی اور چاندی کی قیمت گرتی گئی اور اس کی غالباًدو وجوہ ہیں: اوّلاً تو چاندی کی بجائے صرف سونا ہی زرمبادلہ قرار پایا اور ، ثانیاً چاندی کے زیورات آہستہ آہستہ متروک ہوگئے۔ ۱۹۳۰ء کی جنگ ِعظیم سے پہلے چاندی اور سونے کی مالیت میں تقریباً ایک اور بیس کی نسبت ہوچکی تھی اور اب تو یہ نسبت اور بھی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور آئندہ بھی یہ تفاوت بڑھنے کا امکان ہے۔ سونے اور چاندی کا حد نصاب جو شارع علیہ السلام نے مقرر فرما دیا اس میں ردّوبدل کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں خواہ یہ باہمی تفاوت اور بھی زیادہ ہوجائے۔ مگر نقدی کے متعلق ہمیں ضرور کچھ فیصلہ کرنا ہوگا کہ نقدی کا حد نصاب طے کرنے کے لئے چاندی کو بنیاد قرار دیا جائے یا سونے کو؟ اکثر علما کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں نوٹوں کے اجرا سے پہلے چونکہ چاندی کا روپیہ رائج تھا لہٰذا چاندی کو بنیاد قرار دے کر چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت نکال لی جائے، یہ حد نصاب ہوگا اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں آج کل بھی کاغذی زر (نوٹوں) کو ورقہ کہتے ہیں اور یہی لفظ چاندی کے لئے استعمال ہوتا ہے، نیز چاندی کوہی نقد روپیہ کے لئے نصاب قرار دینا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ کہیں اللہ کا حق ہمارے ذمہ نہ رہ جائے لہٰذا اس اہم دینی فریضہ میںہرممکن احتیاط لازم ہے۔'' (تجارت اور لین دین کے مسائل: ص۳۱۸،۳۱۹)

مذکورہ بالا دونوں نقطہ ہائے نظر میں سے ثانی الذکرہمیں راجح معلوم ہوتا ہے، اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

1. اوّل تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ چاندی کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے، تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے۔

2. دوسرا یہ کہ فقراء و مساکین کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔

3. تیسرا یہ کہ سونے اور چاندی کی نسبت میں جو بہت زیادہ تفاوت پیدا ہوچکا تھا وہ بھی رفتہ رفتہ کافی حد تک کم ہوچکا ہے اور اب ان دونوں کی نسبت ایک اور تیس کی بجائے ایک اور بارہ کے قریب ہے۔لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص سونے کو معیار نصاب بناتا ہے تو اس کے اس اجتہاد پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
آپکی جگہ کوئی اور هوتا جس کے دل میں ذرہ برابر اللہ کا خوف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و مرتبہ کا خیال هوتا تو ادارہ سے کہتا کہ میری پوسٹ سے وہ جملہ ہی ڈلیٹ کر دیں ۔
محترم محمد طارق بھائی

آپ کی بات بالکل درست ہے ۔ میں آپ سے اور ان تمام لوگوں سے معافی چاہتا ہوں جن کو میرے اس جملے سے تکلیف پہنچی ۔ اور اللہ تعالیٰ سے بھی مغفرت چاہتا ہوں میری اس خطا کو معاف فرمائے۔
میں اس بحث کو مزید جاری نہیں رکھنا چاہتا ۔
@خضر حیات صاحب سے گذارش ہے کہ کیونکہ یہ بحث میری طرف سے ان کے مضمون کے جواب میں شروع کی گئی تھی ۔ لہذا اس میں تھریڈ کو مکمل ڈیلیٹ کر دیا جائے۔ایساممکن نہ ہوتوکم از کم میری تمام پوسٹس کو حذف کر دیا جائے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
نسیم بهائی ساری پوسٹ ڈلیٹ کروانے کی بات بهی صحیح نہیں ۔ آپ ایک اوپن فورم پر ہیں ۔ ہمارے ساتهی ہیں ۔ میں نے صرف ایک جملہ پر کہا جو هر پڑهنے والا پڑهے گا ۔
آپکی جن باتوں پر محترم خضر بهائی اور محترم اشماریہ بهائی نے جوابات پیش کیئے ہیں ان سے میری طرح دوسروں کو بهی فائدہ پہونچے گا ، ان شاء اللہ۔
اللہ آپ کے اور ہم سب کے دلوں کو اللہ کی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتوں سے بهر دے، هم سبکو اس دین کا اور اس دین کی شریعت کا محافظ بنا دے ۔ آپکی هماری هر خطاء معاف فرمائے اور همار ایمان مضبوط فرمائے ۔ شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکهے ۔
هم سب کو ایک اچها سچا مسلمان بنا دے ۔
ادارہ سے درخواست هیکہ کم از کم وہ جملہ ڈلیٹ کردے ۔ نسیم بهائی نادانستگی میں تحریر فرما گئے هونگے ۔
وجزاکم اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ بھائی
السلام علیکم
ارفع کریم کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ جب تک اس کا ریکارڈ موجود ہے ۔ وہ اپنی فیلڈ کی ذہین ترین انسان رہے گی۔ کھیل میں ریکارڈ توٹتے ہیں۔ تو اس کا یہ مطلب نکالیں کہ ان سے کم صلاحیتوں کے حامل لوگ ان ریکارڈ کو بریک کرتے ہیں۔ جب کہ ہر نیا ریکارڈ ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے ۔
وعلیکم السلام
میرے بھائی! ارفع کریم نہ تو کائنات کی یا دنیا کی سب سے ذہین لڑکی تھی اور نہ ہی اپنی فیلڈ کی۔ بس اسے چیک کیا گیا اور دوسروں کو چیک نہیں کیا گیا، یہ فرق ہے۔ باقی رہ گئی کھیلوں کی بات تو میرے بھائی آپ ایک زمانہ شاید اس کو سمجھ رہے ہیں جس میں لوگ ہم عصر کہلاتے ہیں۔ حالانکہ قوموں کی تبدیلیوں میں زمانہ اسے نہیں کہا جاتا۔ کم از کم تین چار سو سال تک ایک زمانہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی اعتبار سے سلف کو ہم سلف کہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ امام ابو حنیفہ تو ہمارے اسلاف میں تھے اور ذہین شخص تھے لیکن امام شافعی چونکہ ان کے بعد آئے ہیں تو وہ ان سے کم ذہین ہیں۔
تیسری اور سب سے اہم چیز کے ہم ہر زمانے کو لوگوں کو ان کے بعد والوں سے کمپئیر نہیں کر رہے بلکہ ہم آج کے لوگوں کو سلف سے کمپئیر کر رہے ہیں۔ اور ان کے درمیان ہزار سے تیرہ سو سال تک کا فرق ہے تقریباً۔ اس زمانے میں بہت فرق آتا ہے۔
چوتھی چیز یہ کہ ہمارا مقصود دین اسلام کو دیکھنا ہے اور اس کے بارے میں تو صراحت ہے کہ خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم۔ اور یہاں مراد زمانہ نہیں بلکہ افراد زمانہ ہیں کیوں کہ الذین اسم موصولہ جمع کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ ہاں ان افراد پر حالات کا اثر ہوتا ہے۔

گر آپ کی لاجک تسلیم کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد سے اب تک انسانی ذہنی پستی کی طرف جارہا ہے اور اس کا علم بڑھ رہا ہے ۔ اس میں اتنی وسعت تو ہے کہ وہ پچھلوں کا علم ہضم کرسکے اور اپنی طرف سے اس میں مزید کچھ ایڈ کرسکے لیکن ذہنی طور پر اپنے سے پہلے والوں سے کمتر ہے۔
برتن کا چھوٹا ہوتا جارہا ہے لیکن اس کے اندر وسعت پھر بھی بڑھ رہی ہے۔
بالکل نہیں۔ برتن میں بھی وسعت نہیں ہے۔ انسان اپنے پچھلے والوں کے علم کو سمجھ تو پا رہا ہے لیکن یاد نہیں رکھ پا رہا۔ وہ امام شافعیؒ کی طرح بیک وقت اشعار، احادیث، قرآن، آثار، لغت اور عرف کا عالم نہیں بن سکتا۔ وہ کتابیں دیکھنے پر مجبور ہے۔ اور جب وہ کتاب دیکھتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس کی نہیں صاحب کتاب کی فہم ہے۔ یہ تو فقط ناقل ہے۔

یعنی امام الانبیاء ذہنی صلاحیتوں میں تو پچھلے نبیوں سے کم تھے لیکن علم میں زیادہ تھے۔
اگر آپ کی یہی لاجک ہے اور آپ اس پر متفق ہیں تو مزید بات کروں۔
اگر میں یہ کہوں کہ آپ کی بات سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آج کا ایک عام شخص امام الانبیاء ﷺ سے علم اور صلاحیت دونوں میں نعوذ باللہ زیادہ ہے؟؟؟
اگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام کو عام لوگوں پر قیاس کرنا ممکن ہوتا تو میں یہ کہتا۔ لیکن ایک تو ان کو قیاس کرنا ممکن نہیں۔
دوسری بات امام الانبیاء ﷺ اس کائنات کے مجدد ہیں۔ آپ نے اس کائنات میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ اس لیے آپ کے صحابہ بالاجماع تمام انبیاء کے صحابہ سے زیادہ افضل ہیں۔ اور آپ ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں۔
انبیاء سے ہٹ کر اگر لوگوں کی بطور انسان جسمانی صلاحیت اور قوی کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ آدمؑ سے آگے کمی ہی آئی ہے زیادتی نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا جس نے اسی سال عبادت کی۔ صحابہ کرام رض بہت پریشان ہوئے کہ ہم تو اتنا نہیں کر سکتے تو اس پر شب قدر عطا کی گئی۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ جسمانی قوی کمزور ہوئے ہیں۔
ہاں ایمانی طاقت کی بات الگ ہے۔ جب امام الانبیاء ﷺ نے فرما دیا کہ خیر القرون قرنی تو پھر ایمانی طاقت میں ان سے آگے کوئی نہیں ہو سکتا۔
 
Top