محترم شیخ
السلام علیکم
ایک بات واضح کردیں کہ سلف کا دور کہاں تک محیط ہے ۔ دوسرا سوال آپ کے اقتباس کے تحت ہے ۔
ورنہ اگر فہم سلف کے تحت مقید ہوجائے تو پھر معاشرہ جمود کا شکار ہوجائے گا۔ میرے ذہن میں اس کی مثال یہ ہے کہ زکوۃ کیلئے مالی نصاب ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے 52 تولہ چاندی ہے ۔
جس وقت یہ نصاب لاگو کیا گیا اس وقت ان دونوں نصاب کی مالیت کی رقم ایک ہی بنتی تھی اب دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ساڑھے باون تولہ چاندی اب ایک تولہ سونے کے مساوی ہے تو کیا اس کو تبدیل کرنے اور اس کی نئی تشریح کی ضرورت نہیں ۔
میری تکرار وہی ہے کہ زمانے کے مطابق تبدیلیاں ناگزیر ہیں اس کو ارتقائی سفر کہتے ہیں۔
السلام علیکم
ایک بات واضح کردیں کہ سلف کا دور کہاں تک محیط ہے ۔ دوسرا سوال آپ کے اقتباس کے تحت ہے ۔
کیا لوگوں کی مجبوری ، عذر کی وجہ سے اسلام کے احکام میں تفریق کی جاسکتی ہے ؟آپ کا یہ اقتباس اس بات کی تائید کر رہا ہے کہ زمانے کے حساب سے احکام میں تبدیلی ہوسکتی ہے ۔ یعنی اس کا امکان ہے ۔ اور انسان اپنی بڑھتی ہوئی ذہنی صلاحیت کی بناء پر اس کا حل نکال سکتا ہے ۔مسئلہ ایک ہی رہے گا ، البتہ اس مسئلہ کا شکار ہونے والے لوگوں کی مجبوری ، عذر یا کسی تاویل کےسبب حکم میں فرق رکھا جائے گا ۔
ورنہ اگر فہم سلف کے تحت مقید ہوجائے تو پھر معاشرہ جمود کا شکار ہوجائے گا۔ میرے ذہن میں اس کی مثال یہ ہے کہ زکوۃ کیلئے مالی نصاب ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے 52 تولہ چاندی ہے ۔
جس وقت یہ نصاب لاگو کیا گیا اس وقت ان دونوں نصاب کی مالیت کی رقم ایک ہی بنتی تھی اب دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ساڑھے باون تولہ چاندی اب ایک تولہ سونے کے مساوی ہے تو کیا اس کو تبدیل کرنے اور اس کی نئی تشریح کی ضرورت نہیں ۔
میری تکرار وہی ہے کہ زمانے کے مطابق تبدیلیاں ناگزیر ہیں اس کو ارتقائی سفر کہتے ہیں۔