• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلیمان بن موسی الدمشقی الاموی

شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
سلیمان بن موسی امام زکریا بن یحی الساجی رحمہ اللہ کی نظر میں :

امام زکریا بن یحی رحمہ اللہ نے فرمایا:
عندہ مناکیر (اکمال تہذیب الکمال لمغلطائ ( 100/6)
ان کے پاس منکر روایات ہیں۔

کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں "اس سے راوی کی تضعیف نہیں ہوتی۔"
عرض ہے کہ پہر جو محدثین کہے رہے ہیں کہ ان کے پاس مناکیر ہیں یا یہ منکر روایت بیان کرتے تھے تو ان کے بیان کردہ مناکیر کا کیا ہوگا ؟؟
ہم کہتے ہیں ان پاس جو منکر روایات ہیں وہ تو منکر ہی رہنے والے ہیں الا یہ کہ ان کا کوئی متابع نہ مل جائے ۔

اس کے بعد کفایت اللہ صاحب تبصرہ کرتے ہیں "کسی راوی کے پاس مناکیر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ اس کا ذمہ دار یہ راوی ہی ہو بلکہ یہ بھی ممکن ہے یہ مناکیر اس کے اوپر کے رواة کی طرف سے ہو اور یہ ان سے بری ہو۔"
اس کے لیے موصوف نے امام حاکم کا امام دارقطنی کا سوال نقل کیا

قال الحاكم : قلت فسليمان بن بنت شرجیل ؟ قال : ثقة . قلت : أليس عنده مناكير ؟ قال : حدث بها عن ضعفاء ، فأما هو فثقة (سؤالات الحاكم للدارقطني ص 217 )
امام حاکم کہتے ہیں ،
میں نے کہا سلیامن بن بنت شرجیل ؟ امام دار قطنی نے کہا ثقہ ہے میں نے کہا کیا اس کے پاس مناکیر ہے ؟ امام دار قطنی نے کہا یہ مناکیر وہ ضعفاء سے روایت کرتا ہے لیکن وہ خود ثقہ ہے۔
یعنی موصوف یہ بتلانا چاہ رہے ہیں کہ یہ تو ثقہ ہیں لیکن مناکیر ضعفاء نے بیان کیں۔
عرض ہے یہاں پر سلیمان بن بنت شرجیل کے لیے سوال کیا گیا اور امام دارقطنی نے صراحتا جواب دیا کہ وہ خود ثقہ ہیں اور اسی طرح ابن حبان ،ابن معین رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی صراحتا سلیمان بن بنت شرجیل کے بارے میں فرمایا۔
چلیے ہم دیکھ لیتے ہیں دوسرے محدثین سلیمان بن بنت شرجیل کے تعلق سے کیا کہتے ہیں۔
قال معاوية بن صالح عن يحيى بن معين : ثقة إذا روى عن المعروفين .
ابن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں سلیمان بن بنت شرجیل ثقہ ہے جب معروف راویوں سے روایت کرے۔

اسی طرح قال ابن حبان : يعتبر حديثه إذا روى عن الثقات المشاهير فأما روايته عن الضعفاء والمجاهيل ففيها مناكير (الثقات ابن حبان 8/278)
ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ان کی حدیثوں پر اعتبار کیا گیا جب وہ مشہور ثقات سے روایت کرتے اور جو روایت انہوں نے ضعفاء اور مجھول راویوں سے روایت کیے تو وہ مناکیر ہیں۔
دوسری بات امام ذہبی نے تو اس بات کی بھی صراحت کردی کہ سلیمان بن بنت شرجیل مطلق طور پر ثقہ ہے۔
فإنه ثقة مطلقا (المیزان 2/313)

یعنی محدثین نے سلیمان بن بنت شرجیل کے تعلق سے صراحتا فرما دیا لیکن اس طرح کی بات کسی بھی محدث نے صراحتا سلیمان بن موسی الدمشقی کے لیے نہیں کہی کہ ان کے بیان کردہ مناکیر کے ذمہ دار بھی ضعفاء اور مجہولین ہیں۔
دوسری بات امام بخاری،امام زکریا بن یحی اور امام ابو احمد الحاکم رحمہم اللہ نے بالجزم کہا کہ سلیمان بن موسی کے پاس مناکیر ہیں اور کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی کہ "ہو سکتا ہے یہ مناکیر اوپر کے رواة کی طرف سے ہو۔"اور کفایت اللہ صاحب کا احتمالا کہنا جزم کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکہتا۔
امام ذہبی نے میزان میں سلیمان بن موسی کی جن روایتوں کے تعلق سے کہا کہ ہوسکتا ہے وہ ان کو یاد ہوگی انہوں نے بھی یقینی طور پر نہیں کہا اور انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ وہ ثقہ ہے۔
دوسری بات امام ذہبی نے یہ بات سلیمان بن موسی کی تمام روایت کے تعلق سے بھی نہی کہ بلکہ ان چنندہ روایت کے تعلق سے کہی جسکا انہوں نے میزان میں تذکرہ کیا۔

معلوم ہوا سلیمان بن موسی کے مناکیر کے تعلق سے کسی بھی محدث نے صراحتا یہ نہیں بتلایا کہ ان کے مناکیر کے ذمہ دار ضعفاء اور مجہولین ہیں لہذا کفایت اللہ صاحب کا یہ کہنا کہ "ممكن ہے سلیمان بن موسی کے بیان کردہ مناکیر ان کے اوپر کے رواة کی طرف سے ہو اور یہ ان سے بری ہو" درست نہیں اسی طرح کسی ثقہ راوی کے بارے میں کہی گئی بات کو ضعیف راوی پر فٹ کرنا اصول حدیث سے کهلواڑ اور قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے.

دوسری بات امام بخاری،امام زکریا بن یحی اور امام ابو احمد الحاکم رحمہم اللہ نے بالجزم کہا کہ سلیمان بن موسی کے پاس مناکیر ہیں اور کسی بھی محدث نے صراحتا یہ بات نہیں کہی کہ "ہو سکتا ہے ان کے مناکیر کے ذمہ دار اوپر کے رواة ہو۔"اور کفایت اللہ صاحب کا احتمالا کہنا جزم کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکہتا۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
سلیمان بن موسی یحی ابن معین رحمہ اللہ کی نظر میں :

امام دارمی نے کہا:
قلت له ما حال سليمان بن موسى في الزهري فقال ثقة ( تاریخ ابن معین بروایۃ الدارمی 1/46)
ترجمہ :امام دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے ابن معین رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ سلیمان بن موسی کا زہری سے روایت کرنے میں کیا حال یے تو انہوں نے فرمایا ثقہ ہےـ

امام دارمی نے صرف زہری سے روایت کرنے کے تعلق سے سوال کیا نا کہ عموماـ اگر ان کو عموما سوال کرنا ہوتا تو امام دارمی اس طرح سوال کرتے جس طرح انہوں نے انہوں نے دوسرے راویوں کے لیے سوال کیاـ ان میں سے ایک سوال دیکھ لیتے ہیں ـ
قلت فسليمان التيمى فقال ثقة(تاریخ ابن معین بروایۃ الدارمی 1/49)
ترجمہ :امام دارمی کہتے ہیں میں نے کہا سلیمان التیمی تو کہا ثقہ ہےـ
اسی طرح بہت ساری تراجم دیے جاسکتے ہیں جس میں امام دارمی نے عموما سوال کیا ـ

کفایت اللہ صاحب یہاں پر صرف ابن معین رحمہ اللہ کا جواب نقل کرتے ہیں اور امام دارمی کا سوال کھا جاتے ہیں کیونکہ اس سے صاف ظاہر ہوجاتا کہ امام دارمی نے امام زہری کے حوالے سے سوال کیا ـ
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابن معین رحمہ اللہ کا توثیق کا قول صرف امام زہری سے روایت کرنے میں ہے اس قول کو مطلقا توثیق کا قول بغیر کسی عمومی توثیق کے قرار دینا پرلے درجہ کی بیوقوفی ہے اور کفایت اللہ صاحب کو کہاں سے اتہاریٹی مل گئ کہ خاص کو عام کریں جبکہ محدثین نے بھی اس توثیق کو امام زہری سے روایت کرنے میں خاص کیا ہےـ دیکھیں
امام مزی رحمہ اللہ نے کہاـ
وقال عثمان بن سعید الدارمی : قلت لیحی ابن معین : سلیمان بن موسی ما حاله في الزهري؟ فقال ثقة. (تهذيب الكمال في أسماء الرجال)
عثمان بن سعید الدارمی رحمہ اللہ نے کہا : میں نے یحی ابن معین رحمہ اللہ سے کہا سلیمان بن موسی کا امام زہری سے روایت کرنے میں کیا حال ہے؟ تو انہوں نے فرمایا ثقہ ہےـ
اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا
وروى عثمان بن سعيد عن يحي قال : سليمان بن موسى عن الزهري ثقة (ميزان الاعتدال)
عثمان بن سعید رحمہ اللہ نے امام ابن معین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا کہ سلیمان بن موسی زہری سے روایت کیا وہ ثقہ ہےـ

اس قول سے یہ سمجھنے میں یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے کہ امام ذہبی نے ابن معین کا مطلقا ثقہ کا قول نقل کیا کیونکہ ہم نے اصل مراجع تاریخ ابن معین میں امام دارمی کا ابن معین رحمہ اللہ سے سوال دیکھا جس میں انہوں نے زھری سے روایت کرنے میں ثقہ کہا ہےـ

اور اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی صراحتا کہتے ہیں
عن ابن معين ثقة في الزهري ( تهذيب التهذيب)
ابن معین رحمہ اللہ نے زہری سے روایت کرنے میں ثقہ کہا ہےـ

لہذا ابن معین رحمہ اللہ نے سلیمان بن موسی کو زھری سے روایت کرنے میں ثقہ کہا ہےـ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس قول سے یہ سمجھنے میں یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے کہ امام ذہبی نے ابن معین کا مطلقا ثقہ کا قول نقل کیا کیونکہ ہم نے اصل مراجع تاریخ ابن معین میں امام دارمی کا ابن معین رحمہ اللہ سے سوال دیکھا جس میں انہوں نے زھری سے روایت کرنے میں ثقہ کہا ہےـ
؟؟؟
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
یہ اس لیے لکھا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے المیزان الاعتدال میں عثمان بن سعید الدارمی کا اس طرح قول نقل کیا
وروى عثمان بن سعيد عن يحي قال : سليمان بن موسى عن الزهري ثقة (ميزان الاعتدال رقم: 3353)
اس قول کا ترجمہ کیا جائے تو اس طرح ہوگا
عثمان بن سعید نے ابن معین رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا سلیمان بن موسی زہری سے روایت کیا وہ ثقہ ہےـ

اگر کوئی صرف اس قول کو دیکھیگا تو وہ سمجھے گا کہ ابن معین رحمہ اللہ نے سلیمان بن موسی کو ثقہ کہا جبکہ سلیمان بن موسی نے صرف امام زہری سے نہیں بلکہ دوسروں سے بھی روایت کیا اور دارمی نے بھی ابن معین رحمہ اللہ سے في الزهري سوال کیا تھا ـ

اس لیے ہم نے لکھا کہ امام ذہبی کے قول کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیےـ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
@عدیل سلفی بھائی آپ احمد بھائی کی پوسٹس کو مستقل "غیر متفق" کی ریٹنگ دے رہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ ہم جان سکتے ہیں کہ آپ کو کس بات سے اتفاق نہیں ہے اور کس بنا پر نہیں ہے؟ ہمارے علم میں اضافہ ہوگا۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
@عدیل سلفی بھائی آپ احمد بھائی کی پوسٹس کو مستقل "غیر متفق" کی ریٹنگ دے رہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ ہم جان سکتے ہیں کہ آپ کو کس بات سے اتفاق نہیں ہے اور کس بنا پر نہیں ہے؟ ہمارے علم میں اضافہ ہوگا۔
انہیں غیرمتفق کی ریٹنگ دینے دیجئے،پریشان کیوں ہوتے ہیں، یہ توظاہر سی بات ہے کہ وہ متفق کی ریٹنگ دینے سے رہے،انہیں اپنا کام کرنے دیجئے، کسی بھی مضمون کی اہمیت متفق کی ریٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور غیرمتفق کی ریٹ سے کم نہیں ہوتی،کسی کا متفق ہونا یاغیرمتفق ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
یحی بن اکثم سے سلیمان بن موسی کی توثیق کفایت اللہ صاحب کی نظر میں :
کفایت اللہ صاحب ابن اکثم سے سلیمان بن موسی کی توثیق اکمال سے نقل کرتے ہیں
ثقة وحديثه صحيح عندنا (إكمال تهذيب الكمال لمغلطائ 99/6)
یہ ثقہ ہے اور ان کی حدیث ہمارے نزدیک صحیح ہےـ

سب سے پہلے ہم اکمال لمغلطائ سے مکمل قول دیکھتے ہیں ـ
حافظ مغلطائ حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں
وقال یحی بن اکثم ـ وسأله يحي بن معين ثقة وحديثه صحيح عندنا
ترجمہ: یحیی بن اکثم نے کہا-جبکہ یحیی بن معین نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تھا- کہ وہ ثقہ ہے اور ہمارے نزدیک ان کی حدیث صحیح ہےـ

کفایت اللہ صاحب اس کے بعد ایک نوٹ لکھتے ہیں :
حافظ مغلطائی نے یحی بن اکثم کی کتاب "زهرة المتعلمين في أسماء مشاهير المحدثين " کا تذکرہ کیا ہے ـ دیکہیں

IMG-20170806-WA0012.jpg


کفایت اللہ صاحب حاشیہ میں اس کا حوالہ دیتے ہیں دیکھیں (اکمال تہذیب الکمال لمغلاطائی 12/281)
جب ہم نے اکمال تہذیب الکمال کی طرف رجوع کیا تو وہاں ہمیں حافظ مغلطائ حنفي رحمہ اللہ کا اس طرح قول ملا

قال صاحب (زهرة المتعلمين في أسماء مشاهير المحدثين) :قضى عشرين سنة....
زھرة المتعلمين في أسماء مشاهير المحدثين نامی کتاب کے مصنف نے کہا کہ: ابن کثم بیس سال قاضی رہے....
IMG-20170806-WA0001.jpg


اس سے کیا یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب ابن اکثم کی ہے!!!

ایک اور بات دیکھ لیں جس کو دیکھ کر آپ کو بالکل یقین ہوجائیگا کہ یہ کتاب ابن اکثم کی نہیں ـ
حافظ مغلطائ الحنفي رحمه الله نے کہا
ﻭﻗﺎﻝ ﺻﺎﺣﺐ " ﺯﻫﺮﺓ اﻟﻤﺘﻌﻠﻤﻴﻦ ﻓﻲ ﺃﺳﻤﺎء ﻣﺸﺎﻫﻴﺮ اﻟﻤﺤﺪﺛﻴﻦ ": ﻋﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺪﻭﺭﻱ اﻟﻮﺭاﻕ ﺗﻮﻓﻲ ﺳﻨﺔ اﺛﻨﺘﻴﻦ ﻭﺳﺒﻌﻴﻦ ﻭﻣﺎﺋﺘﻴﻦ.(اکمال تہذیب الکمال في أسماء الرجال 7/214)

زهرة المتعلمين في أسماء مشاهير المحدثين کے مصنف نے کہا عباس بن محمد الدوری الوراق کی وفات 272 ھ میں ہوئی ـ

جبکہ یحی بن اکثم کی وفات 242 ھ میں ہوئ دیکھیے (المیزان الاعتدال رقم 9459)
جب يحي بن اکثم کی وفات 242 ھ میں ہوئی تو انہوں نے عباس الدوري کی وفات کب ہوئی کیسے بتلایاـ

ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتاب "زهرة المتعلمين في أسماء مشاهير المحدثين" یحی بن اکثم کی بالکل نہیں ہے ـ
یہ کتاب مفقود ہے اور اس کے مولف کون ہے یہ بھی بات ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ـ
اب آپ حضرات ہی کہیں کہ کفایت اللہ صاحب کے اس فعل کو کیا کہا جائے؟؟؟

دوسری ایک انٹرسٹنگ چیز یہ ہے اور اس کو کھلا تضاد بھی کہے سکتے ہیں دیکھیے
ایک جگہ کفایت صاحب کہتے ہیں مغلطائ رح بذات خود مجروح ہے لہذا ان کی نقل قابل اعتماد نہیں ٍ
IMG-20170807-WA0002.jpg



اور یہاں پر حافظ مغلطائ رح کی ہی نقل پر اعتماد کررہے ہیں واہ!!!
اسی طرح مرحوم زبیر علی زائ بھی کہتے ہیں مغلطائی ثقہ نہیں بلکہ غیر ثقہ تھے( مقالات 4/281)

اب ہمارا مطالبہ ہے کہ یحی بن اکثم کے قول کی سند پیش کریں
اور کفایت اللہ صاحب نے انوار البدر میں ہی ابن المدینی اور امام نسائی کے قبیصہ بن ہلب کو مجھول کہنے کے حافظ مزی کے قول کا رد کرتے ہوئے کہا کہ
امام علی بن المدینی اور امام نسائی سے یہ قول ثابت ہی نہیں ہےـ امام مزی نے ان اقوال کے لیے حوالہ نہیں دیا ـ(انوار البدر ص:226)

لہذا کفایت اللہ صاحب کا یحی بن اکثم سے سلیمان بن موسی کی توثیق پیش کرنا درست نہیں ـ
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
@عدیل سلفی بھائی آپ احمد بھائی کی پوسٹس کو مستقل "غیر متفق" کی ریٹنگ دے رہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ ہم جان سکتے ہیں کہ آپ کو کس بات سے اتفاق نہیں ہے اور کس بنا پر نہیں ہے؟ ہمارے علم میں اضافہ ہوگا۔
ان موصوف سے شروع کے مراسلات میں کہا تھا کہ اپنا تعارف کروائیں لیکن یہ محترم نظر انداز کرے جارہے ہیں آخر کیا وجہ ہے تعارف نہ کروانے کی؟؟؟
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم شاید کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔
 
Top