السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تفسير الطبري - (ج 18 / ص 283)
( إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ ) يقول تعالى ذكره: إنني أنا المعبود الذي لا تصلح العبادة إلا له، لا إلَهَ إلا أنا فلا تعبد غيري، فإنه لا معبود تجوز أو تصلح له العبادة سواي(فاعْبُدْنِي) يقول: فأخلص العبادة لي دون كلّ ما عبد من دوني(وأقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي).
واختلف أهل التأويل في تأويل ذلك فقال بعضهم: معنى ذلك: أقم الصلاة لي فإنك إذا أقمتها ذكرتني.
* ذكر من قال ذلك:
حدثني محمد بن عمرو، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا عيسى، وحدثني الحارث، قال: ثنا الحسن، قال: ثنا ورقاء جميعا، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، في قوله( وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي ) قال: إذا صلى ذكر ربه.
حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جُرَيج، عن مجاهد، قوله( وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي ) قال: إذا ذكر عَبد ربه.
بھٹی صاحب یہ میرے سوال (جو آپ نے میری پوسٹ سے اقتباس لیا ہے) کا جواب نہیں ہے بہرحال جو عبارات آپ عربی میں لکھتے ہیں ان کا ترجمہ بھی لکھا کریں نیز اس سے آپ کی مراد کیسے حاصل ہو رہی ہے وہ بھی لکھا کریں۔
صحيح مسلم - (ج 2 / ص 421)
خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ الحدیث
نماز میں کی جانے والی اس رفع الیدین کے ساتھ بھی کوئی ذکر نہ تھا اسی لئے اسے گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی۔
احمقانہ جواب دینے سے گریز کیا کریں، اور جب آنلائن ہو ہی گئے تو اپنی بات ذرا کھل کر لکھا کریں۔ یہاں کیسے پتا چلا کہ اس رفع الیدین کو
"ذکر نا ہونے کی وجہ" سے منع فرمایا؟
یہ بات "اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی" کے مصداق صرف آپ کی سوچ ہے یا آپ سے پہلے بھی دنیا میں کسی نے یہ بات کی ہے؟
تکبیر تحریمہ کہتے وقت ”اللہ اکبر“ کہا جاتا ہے یہ صرف اسی کے لئے ہے اس وقت اور کوئی دوسری حرکت نہیں کی جاتی۔
وتر کی قنوت کی رفع الیدین میں بھی ”اللہ اکبر“ کہا جاتا ہے یہ صرف اسی کے لئے ہے اس وقت اور کوئی دوسری حرکت نہیں کی جاتی۔
عیدین کی رفع الیدین میں بھی ”اللہ اکبر“ کہا جاتا ہے یہ صرف اسی کے لئے ہے اس وقت اور کوئی دوسری حرکت نہیں کی جاتی۔
اللہ اکبر ذکر ہے اور یہ ذکر ان تمام رفع الیدین کے وقت مسنون ہے۔
جو رفع الیدین ممنوع ہوئیں ان کے لئے مخصوص ذکر موجود نہ تھا۔
نوٹ: کسی کو اس بات سے دھوکہ نہ ہونا چاہئے کہ رکوع جاتے ہوئے بھی تو اللہ اکبر کہا جاتا ہے تو یہ بغیر ذکر کیسے ہؤا۔ یاد رہے کہ یہ ذکر اللہ اکبر رکوع کی حرکت کے لئے ہے نہ کہ رفع الیدین کے لئے۔ اسی طرح رکوع سے اٹھتے وقت ”سمع اللہ لمن حمدہ“ رکوع سے قیام کی طرف حرکت کے لئے ہے نہ کہ رفع الیدین کے لئے۔ اسی طرح تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت کی تکبیر قیام کے لئے کی جانے والی حرکت کے لئے ہے نہ کہ رفع الیدین کے لئے۔
گذارش یہ ہے کہ یہ تینوں مقامات کی احادیث ذرا لکھ دیں تاکہ "ذکر والی" اور "بغیر ذکر والی" رفع الیدین کا موازنہ کیا جا سکے۔