• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (رفع اليدين)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
میں آپ کو ”اہلحدیث“ سمجھا تھا کہ ہر اہلحدیث مجتہد ہوتا ہے اس لئے ترجمہ نہ لکھا مجھے معلوم نہ تھا کہ ”مجتہد“ عربی نہیں جانتا ۔۔۔ ابتسامہ!


مجتہد اور تفصیل کی ضرورت حیرانی کی بات ہے !!!!!!!!!!
اپنی "عقل" کا مظاہرہ کرتے رہنا ضروری نہیں ہوتا.... اور "شریعت بھٹی" اپنے پاس رکھیں.
جو پوچھا گیا ہے وہ بتائیں.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میری ایک خواہش ہےکہ اگر کوئی شخص خود کو حنفی کہتے ہوئے فقہ حنفی سے معارض یا مرجوح مؤقف کی تبلیغ کرے ، تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے حنفی بھائی ہی اس کی نکیر کریں!
اس کے علم صحیح اور جرات چاهیئے ۔ جس نے آپ کی باتوں پر عمل کرلیا تو سمجہیں وہ هدایت یافتہ هے اور امت کی اصلاح کا درد بهی لئیے هوئے هے ۔ هونا تو ایسا ہی چاهئیے هر معاملہ میں لیکن میرے مشاہدات میں ایسا ہے ضرور لیکن قلیل ہی هے ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
بعض اوقات کوئی بات مرجوح نہیں ہوتی لیکن کہنے کا انداز درست نہیں ہوتا اس وجہ سے غلط بن جاتی ہے۔ اور بعض اوقات کوئی بات جزوی طور پر مرجوح یا معارض ہوتی ہے۔
حنفی بھائی کئی ان باتوں پر بھی بوجوہ نکیر نہیں کرتے جو اہل حدیث بھائی ان کے بارے میں غلط فرما رہے ہوتے ہیں۔ بس اکثر خاموش رہتے ہیں۔
آپ کی خاموشی ہی کی وجہ سے دوسرے کہتے ہیں اور خاموش رهنے کی جگہ اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپکی بات سے اتفاق کہ بعض اوقات ایسے کلمات بهی نکل آتے ہیں جو ناشائستہ اور خلاف ادب ہوتے ہیں ، لیکن اس میں بڑا سبب مقابل کی هٹ دهرمی اور غصہ دلانا ، اکسانا ہے ۔ اتنا تو آپ نے بهی خاموشی سے مشاهدہ کرتے ہوئے قلب میں محسوس کیا هوگا ۔ تو خاموشی کا واضح مطلب موافقت ہی هے اسی لئیے مخالف با آواز بلند کہتا هے نا کہ چپ رهتا هے ۔
بات اس طرح مکمل کی جائے ۔ یکطرفہ بات کا اثر بهی مثبت هرگز نہیں هونا هے ۔
والسلام
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ اسحاق بھائی جب مسجد کی نوٹس بورڈ پر میں نے یہ بات دیکھی تو مجھے بھی بہت افسوس ہوا تھا مگر کیا کریں ؟؟؟ لوگوں کو کیسے سمجھاے کون سمجھاے خود تو کسی کو توفیق نھیں ہوتی کہ رسول اللہ مبارک کی صحیح احادیث تلاش کریں
اب اھل علم سے درخواست ہے کہ ان احادیث کی کیا حیثیت ہے ؟؟؟؟؟؟ مجھے دلایل چاہیے جزاکم اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ کی خاموشی ہی کی وجہ سے دوسرے کہتے ہیں اور خاموش رهنے کی جگہ اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپکی بات سے اتفاق کہ بعض اوقات ایسے کلمات بهی نکل آتے ہیں جو ناشائستہ اور خلاف ادب ہوتے ہیں ، لیکن اس میں بڑا سبب مقابل کی هٹ دهرمی اور غصہ دلانا ، اکسانا ہے ۔ اتنا تو آپ نے بهی خاموشی سے مشاهدہ کرتے ہوئے قلب میں محسوس کیا هوگا ۔ تو خاموشی کا واضح مطلب موافقت ہی هے اسی لئیے مخالف با آواز بلند کہتا هے نا کہ چپ رهتا هے ۔
بات اس طرح مکمل کی جائے ۔ یکطرفہ بات کا اثر بهی مثبت هرگز نہیں هونا هے ۔
والسلام
یا للعجب!
یعنی جب میں اہل حدیث بھائیوں کی ان باتوں پر خاموش رہتا ہوں جو ہمارے بارے میں ہوتی ہیں اور درست نہیں ہوتیں تو اس کا مطلب بھی موافقت ہوتا ہے؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
"شریعت بھٹی" اپنے پاس رکھیں.
آپ لوگوں میں اتفاق نہیں۔ کوئی میرے پیش کردہ قرآن اور حدیث پر شور مچاتا ہے فقہ حنفی قول ابی حنیفہ رحمۃ اللہ کا کوئی ”شریعت بھٹی“ کا۔
معذرت کے ساتھ
اگر واقعی میرے افکار ”حنفی“ نہیں تو آپ لوگوں کو خوش ہونا چاہئے کہ یہی تو ”غیر مقلدیت“ ہے ۔۔۔ ابتسامہ!
کیوں مجھ سے الجھتے ہو۔ جیسے دوسرے معروف غیر مقلدین کی بات بلا چوں چرا تسلیم (یا تھوڑی بہت چوں چرا کے بعد تسلیم) کر لیتے ہو خواہ وہ کتنی ہی کم عقلی پر منحصر کیوں نہ ہو میری باتوں کو بھی قبول کرلیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری ہر تحریر بتوفیق الٰہی کم از کم قرآن و حدیث کے ظاہر و باطن کے مطابق ضرور ہوتی ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
ایک مسجد میں نماز پڑھی جامعہ ابی بکر کی ساتھ والی مسجد میں تو نوٹس بورڈ پر یہ اوپر والی باتیں لکھی گئ تھی کیا یہ واقعی احادیث ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس امیج میں پہلی روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے ،جو درج ذیل ہے :
امام ترمذی فرماتے ہیں :
حدثنا هناد قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود: «ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة»
جناب علقمہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟
تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ‘‘
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے متعلق عبد اللہ بن مبارک کا قول نقل کیا ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں ،
وقال عبد الله بن المبارك: قد ثبت حديث من يرفع، وذكر حديث الزهري، عن سالم، عن أبيه، ولم يثبت حديث ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة. [ص:39] حدثنا بذلك أحمد بن عبدة الآملي قال: حدثنا وهب بن زمعة، عن سفيان بن عبد الملك، عن عبد الله بن المبارك، وحدثنا يحيى بن موسى، قال: حدثنا إسماعيل بن أبي أويس، قال: «كان مالك بن أنس يرى رفع اليدين في الصلاة». وقال يحيى: وحدثنا عبد الرزاق قال: «كان معمر يرى رفع اليدين في الصلاة» وسمعت الجارود بن معاذ يقول: «كان سفيان بن عيينة، وعمر بن هارون، [ص:40] والنضر بن شميل يرفعون أيديهم إذا افتتحوا الصلاة، وإذا ركعوا، وإذا رفعوا رءوسهم»

امام عبداللہؒ بن مبارک کہتے ہیں: جو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کی حدیث (دلیل) صحیح ہے، پھر انہوں نے بطریق زہری روایت کی ہے، ۵- اور ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے“ والی ثابت نہیں ہے،
امام ترمذی فرماتے ہیں امام مالک بن انس بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۷- عبدالرزاق کا بیان ہے کہ معمر بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۸- اور میں نے جارود بن معاذ کو کہتے سنا کہ ”سفیان بن عیینہ، عمر بن ہارون اور امام نضر بن شمیل اپنے ہاتھ اٹھاتے جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابوداود سنن میں اس حدیث کو نقل کرکے فرماتے ہیں :قال أبو داود: هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح على هذا اللفظ
’’ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث کا اختصار ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ’’ علل الحدیث ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ یہ حدیث سراسر خطا ہے ،اس میں امام سفیان الثوری سے وہم ہوا ہے ،
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيب، عن عبد الرحمن بْنِ الأسود، عَنْ عَلْقَمَة ، عَنْ عبد الله: أنَّ النبيَّ (ص) قَامَ، فكبَّر فَرَفَعَ يدَيه، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ؟
قَالَ أَبِي: هَذَا خطأٌ؛ يُقَالُ: وَهِمَ فِيهِ الثَّوْرِيُّ، وَرَوَى هَذَا الحديثَ عَنْ عاصمٍ جماعةٌ ، فَقَالُوا كلُّهم: إنَّ النبيَّ (ص) افتتَحَ، فَرَفَعَ يدَيه، ثُمَّ رَكَعَ، فطبَّق، وجَعَلَها بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ. وَلَمْ يقُلْ أحدٌ ما رواه الثوريُّ ‘‘( علل الحدیث لابن ابی حاتم ج۲ ص۱۲۴ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقیہ پر ان شاء اللہ وقت ملتے ہی کلام کرتے ہیں ؛؛
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس حدیث پر بھی تبصرہ فرمائیے گا؛
سنن النسائي - (ج 4 / ص 146)
1016 - أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ
أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ
تحقيق الألباني: صحيح
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس امیج میں پہلی روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے ،جو درج ذیل ہے :
امام ترمذی فرماتے ہیں :
حدثنا هناد قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود: «ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة»
جناب علقمہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟
تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ‘‘
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے متعلق عبد اللہ بن مبارک کا قول نقل کیا ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں ،
وقال عبد الله بن المبارك: قد ثبت حديث من يرفع، وذكر حديث الزهري، عن سالم، عن أبيه، ولم يثبت حديث ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة. [ص:39] حدثنا بذلك أحمد بن عبدة الآملي قال: حدثنا وهب بن زمعة، عن سفيان بن عبد الملك، عن عبد الله بن المبارك، وحدثنا يحيى بن موسى، قال: حدثنا إسماعيل بن أبي أويس، قال: «كان مالك بن أنس يرى رفع اليدين في الصلاة». وقال يحيى: وحدثنا عبد الرزاق قال: «كان معمر يرى رفع اليدين في الصلاة» وسمعت الجارود بن معاذ يقول: «كان سفيان بن عيينة، وعمر بن هارون، [ص:40] والنضر بن شميل يرفعون أيديهم إذا افتتحوا الصلاة، وإذا ركعوا، وإذا رفعوا رءوسهم»

امام عبداللہؒ بن مبارک کہتے ہیں: جو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کی حدیث (دلیل) صحیح ہے، پھر انہوں نے بطریق زہری روایت کی ہے، ۵- اور ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے“ والی ثابت نہیں ہے،
امام ترمذی فرماتے ہیں امام مالک بن انس بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۷- عبدالرزاق کا بیان ہے کہ معمر بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۸- اور میں نے جارود بن معاذ کو کہتے سنا کہ ”سفیان بن عیینہ، عمر بن ہارون اور امام نضر بن شمیل اپنے ہاتھ اٹھاتے جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابوداود سنن میں اس حدیث کو نقل کرکے فرماتے ہیں :قال أبو داود: هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح على هذا اللفظ
’’ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث کا اختصار ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ’’ علل الحدیث ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ یہ حدیث سراسر خطا ہے ،اس میں امام سفیان الثوری سے وہم ہوا ہے ،
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيب، عن عبد الرحمن بْنِ الأسود، عَنْ عَلْقَمَة ، عَنْ عبد الله: أنَّ النبيَّ (ص) قَامَ، فكبَّر فَرَفَعَ يدَيه، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ؟
قَالَ أَبِي: هَذَا خطأٌ؛ يُقَالُ: وَهِمَ فِيهِ الثَّوْرِيُّ، وَرَوَى هَذَا الحديثَ عَنْ عاصمٍ جماعةٌ ، فَقَالُوا كلُّهم: إنَّ النبيَّ (ص) افتتَحَ، فَرَفَعَ يدَيه، ثُمَّ رَكَعَ، فطبَّق، وجَعَلَها بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ. وَلَمْ يقُلْ أحدٌ ما رواه الثوريُّ ‘‘( علل الحدیث لابن ابی حاتم ج۲ ص۱۲۴ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقیہ پر ان شاء اللہ وقت ملتے ہی کلام کرتے ہیں ؛؛
جزاک اللہ خیرا اسحاق بھائی۔ ایک چھوٹے سے اشکال کا دفعیہ بھی فرماتے جائیے گا۔
حدیث یہ ہے:
قال عبد الله بن مسعود: «ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة»۔ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کا فعل ہے جس میں انہوں نے نبی ﷺ کی نماز کی نقل فرمائی ہے اور لوگوں کو یہ فعل کر کے دکھایا ہے۔

عبد اللہ بن مبارکؒ اور ابو حاتمؒ کی جرح اس حدیث پر ہے:
ولم يثبت حديث ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة.
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيب، عن عبد الرحمن بْنِ الأسود، عَنْ عَلْقَمَة ، عَنْ عبد الله: أنَّ النبيَّ (ص) قَامَ، فكبَّر فَرَفَعَ يدَيه، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ؟

یہ حضرت عبد اللہ رض کا قول ہے جس میں انہوں نے نبی ﷺ کی نماز کی کیفیت بتائی ہے۔ اور یہ صرف قولاً بتائی ہے کوئی فعل کر کے نہیں دکھایا۔

تو بھلا اس قولی روایت پر کی جانے والی جرح اس فعلی روایت پر کیسے ہو گئی؟ کیا یہ دونوں روایات واضح طور پر الگ الگ نہیں ہیں؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top