• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (رفع اليدين)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اور اگر دو ہی رواة کی روایات کا تقابل کیا جائے ، اور دونوں ہی ایک ہی درجہ کے ثقہ رواة ہوں تو ایسی صورت میں کتاب کی روایت محفوظ قرار پائے گی اور حافظہ کی شاذ و معلول!
محترم بھائی! کیا عبد اللہ بن ادریس اور سفیان ثوری ایک ہی درجے کے راوی ہیں؟
بیشک دونوں ثقہ اور متفق علیہ راوی ہیں لیکن سفیان کو امیر المومنین فی الحدیث کہا گیا ہے، شعبہ نے انہیں اپنے سے زیادہ حافظہ والا کہا ہے، وہیب نے انہیں مالک بن انس رح پر ترجیح دی ہے وغیرہ۔ اس قسم کے تمام اقوال آپ تہذیب الکمال میں دیکھ سکتے ہیں۔
عبد اللہ بن ادریس کے بارے میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔
دوسری بات اگر بالفرض دو راوی ایک ہی درجہ کے راوی ہوں اور ایک ہی روایت کریں اور ایک زیادتی کرے اور دوسرا نہ کرے۔ پھر عدم زیادتی والا راوی اپنی کتاب میں دیکھے تو اس میں بھی زیادتی نہ ہو تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
فقط یہ نا کہ جب شیخ نے روایت کی تھی تو اس زیادتی کا ذکر نہیں کیا تھا؟
تو زیادتی ثقہ میں عن ممکن ہے کہ شیخ نے ایک بار کمی کے ساتھ روایت کی تو ایک راوی نے سن لی اور دوسری بار زیادتی کے ساتھ روایت کی تو دوسرے راوی نے سن لی۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اسی کی وجہ سے میں نے اسے تقلید کا نام دیا تھا۔
امام احمدؒ بڑے عالم اور امام ہیں لیکن یہ قاعدہ انہوں نے کس دلیل کی بنیاد پر نکالا ہے؟
@عمر اثری بھائی عدم اتفاق کی وجہ بھی بتا دیجیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیونکہ ''ثم لا یعود'' سے ایسے فعل کی نفی ہو رہے ہے جو دوسری راوی کی روایت سے نفی نہیں ہو رہی!
ابن داود بھائی۔ زیادت ثقہ کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ایک روایت میں ایک بات نہ ہو اور دوسرا ثقہ راوی اس بات کا اضافہ کرے۔
چنانچہ ایک روایت میں نفی فعل نہیں ہے اور دوسرا راوی اس نفی فعل کا اضافہ کر رہا ہے۔ اگر میں غلط ہوں تو میری اصلاح فرمائیے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تو اس میں عدم اتفاق کس چیز پر ہے؟ تقلید بلا دلیل طلب کیے بات ماننے کو نہیں کہتے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلی روایت:
وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَصَلَّى وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً
سفیان (الثوری) سے عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمٰن بن الأسود عن علقمہ (کی سند) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ابن مسعود نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی تو ایک دفعہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت

اس روایت کے متعلق اس بات پر اتفاق ہے کہ اس روایت میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فعل بیان ہوا ہے: جیسا کہ مرقوم ہے:
قال عبد الله بن مسعود: «ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة»۔ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کا فعل ہے جس میں انہوں نے نبی ﷺ کی نماز کی نقل فرمائی ہے اور لوگوں کو یہ فعل کر کے دکھایا ہے۔
دوسری روایت:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ , حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْهُ قَالَ: " عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ: فَقَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ , ثُمَّ رَكَعَ , فَطَبَّقَ يَدَيْهِ جَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ ذَلِكَ سَعْدًا فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ أُمِرْنَا بِهَذَا ".
قَالَ الْبُخَارِيُّ: " وَهَذَا الْمَحْفُوظُ عِنْدَ أَهْلِ النَّظَرِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ

ہمیں الحسن بن الربیع نے حدیث بیان کی: ہمیں اب ادریس نے حدیث بیان کی عاصم بن کلیب سے انہوں نے عبدالرحمٰن بن الأسود سے: ہمیں علقمہ نے حدیث بیان کی۔ بے شک عبد اللہ (بن مسعود) نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی ہے۔ پس وہ کھڑے ہوئے تو تکبیر کہی اور رفع الیدین کیا۔ پھر رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو تطبیق کرتے ہوئے اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ دیا۔
پھر سعد (بن ابی وقاص) کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے فرمایا: میرے بھائی نے سچ کہا ہے۔ ہم اسلام کے ابتدائی دور میں اسی طرح کرتے تھے پھر ہمیں اس کا حکم دیا گیا (کہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھیں)
امام بخاری نے کہا: محقق علماء کے نزدیک عبد اللہ بن مسعود کی حدیث میں سے یہی روایت محفوظ ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 – 58 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28- 29 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت

اس روایت کو ایک جداگانہ حدیث سمجھا گیا اور اسی کی وجہ درج ذیل بیا ن کی گئی:
بھائی جان! حقیقت یہی ہے کہ میں اسے نبی کریم ﷺ کا فعل سمجھ رہا ہوں۔
اس دوسری روایت میں جن ضمائر کو ہائلائیٹ کیا ہے یہ ضمائر کس کی طرف لوٹ رہی ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کی طرف یا ابن مسعود رض کی طرف؟ اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف تو وہ تو قریب ہونے کی وجہ سے ہوگا کیوں کہ ضمیر کا مرجع قریب اولی ہوتا ہے (یہ نحو میں معروف ہے)۔
لیکن اگر عبد اللہ بن مسعود رض کی طرف تو کیوں؟
پہلی روایت دیگر طرق میں درج ذیل الفاظ سے بھی روایت کی گئی ہے، ان طرق میں بھی سفیان ثوری موجود ہیں:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً»
ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے مگر ایک مرتبہ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 213 جلد 01 المصنف في الأحاديث والآثار (مصنف ابن ابي شيبة) - أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (المتوفى: 235هـ) - دار التاج، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 59 جلد 02 المصنف في الأحاديث والآثار (مصنف ابن ابي شيبة) - أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (المتوفى: 235هـ) - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 64 - 65 جلد 02 المصنف في الأحاديث والآثار (مصنف ابن ابي شيبة) - أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (المتوفى: 235هـ) - مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 213 جلد 01 المصنف في الأحاديث والآثار (مصنف ابن ابي شيبة) - أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (المتوفى: 235هـ) - دار القبلة - مؤسسة علوم القرآن

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْد الْحَمِيدِ، قَالَ: حدثنا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْد الرَّحْمَن بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَة،
عَنْ عَبْد اللَّهِ، قَالَ: أَلا أُرِيكُمْ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے پھر اس کے بعد نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 105 جلد 03 التاريخ الكبير المعروف بتاريخ ابن أبي خيثمة - السفر الثالث - أبو بكر أحمد بن أبي خيثمة (المتوفى: 279هـ) - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاهرة

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
فَقَالَ: يَرْوِيهِ عَاصِمُ بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عَنْ عَلْقَمَةَ.
حَدَّثَ بِهِ الثَّوْرِيُّ عَنْهُ.
وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن أبيه، وعلقمة، عن عبد الله.
وكذلك رواه ابن إدريس، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
وَإِسْنَادُهُ صَحِيحٌ، وَفِيهِ لَفْظَةٌ لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ، ذَكَرَهَا أَبُو حُذَيْفَةَ فِي حَدِيثِهِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَهِيَ قَوْلُهُ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ".
وَكَذَلِكَ قَالَ الْحِمَّانِيُّ، عَنْ وَكِيعٍ.
وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، فَرَوَوْهُ عَنْ وَكِيعٍ، وَلَمْ يَقُولُوا فِيهِ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ".
وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ أَيْضًا، عَنِ الثَّوْرِيِّ، مِثْلَ مَا قَالَ الْجَمَاعَةُ، عَنْ وَكِيعٍ.
وَلَيْسَ قَوْلُ مَنْ قَالَ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ" مَحْفُوظًا.

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی تکبیر پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ، پھر نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 171 - 173 جلد 05 العلل الواردة في الأحاديث النبوية - أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد الدارقطني (المتوفى: 385هـ) - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 382 - 383 جلد 02 العلل الواردة في الأحاديث النبوية - أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد الدارقطني (المتوفى: 385هـ) – مؤسسة الريان، بيروت


حَدَّثَنَا حُمَامٌ ثنا عَبَّاسُ بْنُ أَصْبَغَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنَ أَيْمَنَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إسْمَاعِيلَ الصَّائِغُ ثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ أَبُو خَيْثَمَةَ ثنا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ».

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی تکبیر پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ، پھر نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 264 - 265 جلد 02 المحلى بالآثار - أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي (المتوفى: 456هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

وَأَمَّا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ فَإِنَّهُمْ احْتَجُّوا بِمَا حَدَّثَنَاهُ حَمَامٌ ثِنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَاجِيَّ ثِنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَيْمَنَ ثِنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الصَّائِغُ ثِنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ثِنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ
عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؟ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ»

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی تکبیر پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ، پھر نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 04 جلد 03 المحلى بالآثار - أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي (المتوفى: 456هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

أَخْبَرَنِي الْخَلَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَمْرٍو الْكُوفِيُّ، قَدِمَ عَلَيْنَا سَنَةَ ثَلاثَ عَشْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الرَّبِيعِ الْبُرْجُمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَادِحُ بْنُ رَحْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ،
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " أَلا أُرِيكُمْ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَهُ مَرَّةً وَاحِدَةً "

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) تکبیر کہی اور ایک ہی بار اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 218 جلد 13 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت


أخبرنَا أَبُو عبد الله وَذكر عَن عَلْقَمَة
عَن عبد الله أَنه قَالَ: " أَلا أريكم صَلَاة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - قُلْنَا: نعم فَقَامَ فَلم يرفع يَدَيْهِ إِلَّا فِي أول تَكْبِيرَة ثمَّ لم يعد ".

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ ہم نے کہا ، جی ہاں؛ تو وہ (عبد اللہ بن مسعود کھڑے ہوئے،انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی تکبیر پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے ، پھر نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 – 75 جلد 02 مختصر خلافيات البيهقي - أحمد بن فَرح الإشبيلى الشافعي (المتوفى: 699هـ) مكتبة الرشد، الرياض

أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْفَقِيهُ بِدِمَشْقَ، وَسَنُقِرُّ الْمَحْمُودِيُّ بِحَلَبَ، قَالا:أنا مُكْرَمٌ التَّاجِرُ، أنا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بِحَرَسْتَا سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِينَ وَخَمْسِمَائَةٍ، أنا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ السُّلَمِيُّ، أنا الْمُسَدَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، أنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْحَلَبِيُّ، أنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الرَّافَقِيُّ: ثنا صَالِحُ بن عليّ النّوفليّ: ثنا يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ: ثنا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلا أُرِيكُمْ صَلاةُ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَفَعَ يَدَهُ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.

ابن مسعود ﷛نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھا دوں؟ تو انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود﷛نے) پہلی بار اپنے ہاتھ نہیں اٹھائے پھر اس کے بعد نہیں اٹھائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 82 - 83 جلد 33 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 506 - 507 جلد 10 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي
دوسری روایت کے بھی اسی طرح کے الفاظ بھی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الضُّبَعِيُّ، قَالَا: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ» ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، وَعَاصِمٌ فِي حَدِيثِهِ اضْطِرَابٌ، وَلَا سِيَّمَا فِي حَدِيثِ الرَّفْعِ ذَكَرَهُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، وَرَوَاهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَحِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَرَوَى عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ أَيْضًا، وَرَوَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلْ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَآهُ يَرْفَعُ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
عبد اللہ بن مسعود ﷛سے کہ انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟ ، تو انہوں نے(عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) تکبیر کہی، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھ اٹھائے نماز شروع کرتے ہوئے، پھر انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) رکوع کیا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھوں کو ملایا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔ جب نماز پڑھ چکے تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 46 جلد 05 البحر الزخار المعروف بمسند البزار - أبو بكر أحمد بن عمرو المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) - مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة

فِي مَسْأَلَة الْحلِيّ السوَاد ثمَّ ذكر سندا عَن عَلْقَمَة وَالْأسود عَن عبد الله رَضِي الله عَنهُ قَالَ "
أَلا أريكم صَلَاة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - فَكبر وَرفع يَدَيْهِ ثمَّ كبر فطبق يَدَيْهِ بَين فَخذيهِ فَذكرت ذَلِك لسعد رَضِي الله عَنهُ فَقَالَ قد كُنَّا نَفْعل ذَلِك فَأمرنَا بالركب".
قَالَ أَبُو سعيد الدَّارمِيّ فَهَذَا الحَدِيث قد رَوَاهُ وَكِيع وابْن إِدْرِيس كَمَا ذكرناهما فَإِن يكن الْمَحْفُوظ عنْدك مَا رُوِيَ عَن وَكِيع وَصَحَّ عنْدك أَن ابْن مَسْعُود قَالَ: " صليت مَعَ رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - فَلم يرفع يَدَيْهِ إِلَّا مرّة " وَلم يكن يرد قَوْله قَول من قَالَ رَأَيْت رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - يرفعهما وَكَيف وَإِنَّمَا هُوَ قَول عَلْقَمَة فَلَا تقبل من الْأَحَادِيث إِلَّا مَا رَوَاهُ عَنهُ ابْن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ فِيمَا يصف من صَلَاة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - فِي هَذَا الحَدِيث حَتَّى لقد رُوِيَ عَنهُ أَنه قَالَ: " لكَأَنِّي أنظر إِلَى اخْتِلَاف أَصَابِع رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - بَين فَخذيهِ " وَأَنت لَا تَأْخُذ بِهِ وَلَا نَحن فَإِن قيل أترك التطبيق من فعله لما رُوِيَ أَن وَائِل بن حجر وَأَبا حميد السَّاعِدِيّ وَأَبا مَسْعُود وَغَيرهم رووا عَن رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 76 - 77 جلد 02 مختصر خلافيات البيهقي - أحمد بن فَرح الإشبيلى، شهاب الدين الشافعي (المتوفى: 699هـ) مكتبة الرشد، الرياض

وأما حديث عبد الله بن إدريس الذي ذكره البيهقي.
فقد أخرجه البزار في "مسنده": ثنا عبد الله بن سعيد ومحمد بن العباس الضبعي، قالا: نا عبد الله بن إدريس، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، عن عبد الله قال: "
ألا أريكم صلاة رسول الله - عليه السلام -؟ فكبر ورفع يديه حين افتتح الصلاة، فلما ركع طبق يديه وجعلهما بين فخذيه، فلما صلى قال: هكذا فعل رسول الله - عليه السلام -".

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 167 - 168 جلد 04 نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار - أبو محمد محمود بن أحمد، بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، قطر
مسند البزار کی روایت کے الفاظ اس بات پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ جس طرح پہلی روایت میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فعل مذکور ہے، اسی طرح دوسری روایت میں بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فعل ہی مذکور ہے، جسے اسے «أَلا أريكم صَلَاة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم »اور «هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

حدیث کے طرق مد نظر نہ ہوں تو مغالطہ لگ سکتا ہے، امام احمد بن حنبل اور امام بخاری کا مؤقف ان طرق کے الفاظ کو دیکھ کر درست ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ثقہ کی زیادت یا شاذ ہونے کے حوالہ سے بعد میں عرض کرتا ہوں؛ ان شاء اللہ !
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
و جزاک اللہ خیرا۔

آپ نے جو طرق روایات پیش فرمائے ہیں انہیں پر بات کرتے ہیں:
پہلی روایت:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً»
عاصم بن کلیب سے سفیان روایت کرتے ہیں، سفیان سے راوی ہیں وکیع، وکیع سے راوی ہیں ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْد الْحَمِيدِ، قَالَ: حدثنا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْد الرَّحْمَن بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَة، عَنْ عَبْد اللَّهِ، قَالَ: أَلا أُرِيكُمْ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
عاصم سے سفیان، سفیان سے راوی ہیں وکیع، ان سے یحیی بن عبد الحمید

وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن أبيه، وعلقمة، عن عبد الله.
یہ روایت مجھے نہیں ملی۔ لیکن اگر دارقطنی کی بات کو مان لیا جائے تو ابو بکر نہشلی عبد اللہ بن قطاف ثقہ راوی ہیں اور روایت کر رہے ہیں عاصم بن کلیب سے یعنی سفیان ثوری کے متابع ہیں۔
ابو بكر نہشلی کی روایت شرح معانی الآثار میں حضرت علی رض سے ہے۔ اتمام فائدہ کے لیے عرض کر دیتا ہوں:
حدثنا ابن أبي داود، قال: ثنا أحمد بن يونس، قال: ثنا أبو بكر النهشلي، عن عاصم، عن أبيه، وكان من أصحاب علي رضي الله عنه، عن علي مثله
"مثلہ" سے مراد یہ روایت ہے:
فإن أبا بكرة قد حدثنا قال: ثنا أبو أحمد , قال: ثنا أبو بكر النهشلي , قال: ثنا عاصم بن كليب , عن أبيه: «أن عليا رضي الله عنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة من الصلاة , ثم لا يرفع بعد»
ابن ابی داود کی روایت کی سند صحیح ہے۔

وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، فَرَوَوْهُ عَنْ وَكِيعٍ، وَلَمْ يَقُولُوا فِيهِ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ".
ابن ابی شیبہ کی روایت اوپر گزر گئی ہے:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً»
اس میں "ثم لم یعد" اس لیے نہیں ہے کہ وکیع نے "فلم یرفع یدیہ الا مرۃ" کہہ دیا ہے۔ "رفع یدیہ ثم لم یعد" کا معنی ہے: ہاتھ اٹھائے اور پھر نہیں اٹھائے، "فلم یرفع یدیہ الا مرۃ" کا معنی ہے: ہاتھ نہیں اٹھائے مگر ایک بار۔
دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔
احمد بن حنبل کی روایت میں بھی ایسا ہی ہے:
حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال ابن مسعود: ألا أصلي لكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: «فصلى، فلم يرفع يديه إلا مرة»

حَدَّثَنَا حُمَامٌ ثنا عَبَّاسُ بْنُ أَصْبَغَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنَ أَيْمَنَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إسْمَاعِيلَ الصَّائِغُ ثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ أَبُو خَيْثَمَةَ ثنا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ».
عاصم سے راوی ہیں سفیان، سفیان سے وکیع اور وکیع سے زہیر بن حرب۔

أَخْبَرَنِي الْخَلَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَمْرٍو الْكُوفِيُّ، قَدِمَ عَلَيْنَا سَنَةَ ثَلاثَ عَشْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الرَّبِيعِ الْبُرْجُمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَادِحُ بْنُ رَحْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " أَلا أُرِيكُمْ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَهُ مَرَّةً وَاحِدَةً "
عاصم سے سفیان، سفیان سے کادح بن رحمہ۔ یعنی کادح وکیع کے متابع ہیں۔ تصحیح و تضعیف خطیبؒ کے سر۔ ہمیں اس سے بحث نہیں جب وکیع کی روایت پہلے ہی موجود ہے۔

أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْفَقِيهُ بِدِمَشْقَ، وَسَنُقِرُّ الْمَحْمُودِيُّ بِحَلَبَ، قَالا:أنا مُكْرَمٌ التَّاجِرُ، أنا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بِحَرَسْتَا سَنَةَ سِتٍّ وَخَمْسِينَ وَخَمْسِمَائَةٍ، أنا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ السُّلَمِيُّ، أنا الْمُسَدَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، أنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْحَلَبِيُّ، أنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الرَّافَقِيُّ: ثنا صَالِحُ بن عليّ النّوفليّ: ثنا يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ: ثنا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلا أُرِيكُمْ صَلاةُ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَرَفَعَ يَدَهُ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
عاصم سے سفیان، سفیان سے وکیع اور وکیع سے یحیی حمانی روایت کرتے ہیں۔

ان ساری روایات کا خلاصہ یہ نکلا کہ سفیان ثوریؒ نے یہ روایت عاصم بن کلیب سے اس طرح کی ہے۔ اور دارقطنیؒ کے مطابق سفیان ثوری کے متابع ابوبکر نہشلی ہیں۔
پھر سفیان سے آگے وکیع نے کی ہے۔ اور خطیب بغدادیؒ کے مطابق وکیع کے متابع کادح بن رحمہ ہیں۔

اب آئیں دوسری روایت کی طرف:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الضُّبَعِيُّ، قَالَا: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ» ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
جب عبد اللہ بن ادریسؒ نے حافظہ سے روایت کی عاصم بن کلیب سے تو الفاظ یہ تھے: الا اریکم صلاۃ رسول اللہ ﷺ فکبر و رفع یدیہ۔۔۔۔۔۔الخ
یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کے فعل پر جسے علقمہ نے دیکھا۔

لیکن یہی عبد اللہ بن ادریس جب اپنی کتاب سے املاء کرواتے ہیں تو فرماتے ہیں:
حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ مِنْ كِتَابِهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ
علقمہ نے عبد اللہ رض سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز سکھائی۔۔۔۔۔۔۔ الخ
یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں عبد اللہ بن مسعود رض کے قول پر جسے علقمہ نے سنا۔
اب آئیے اس پر امام احمدؒ کا بیان کردہ قاعدہ لگائیے:
لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ.
آپ نے اس کا ترجمہ فرمایا ہے:
کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے، کیونکہ آدمی بعض أوقات کوئی بات کرتا ہے پھر جب (اپنی کتاب) کی طرف رجوع کرتا ہے تو (صحیح) وہی ہوتا ہے جو کتاب میں ہے۔
تو عبد اللہ بن ادریس رض کی روایات میں سے صحیح وہ ہے جو کتاب میں ہے یعنی عبد اللہ بن مسعود رض کا قول۔
اور جب یہ صحیح ہے تو پھر میں دوبارہ یہ عرض کرتا ہوں:

"علقمہ نے حدیث بیان کی عبد اللہ سے کہ انہوں نے فرمایا: ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز سکھائی، تو انہوں نے تکبیر کہی، اور انہوں نے ہاتھ اٹھائے، پھر انہوں نے رکوع کیا، اور انہوں نے ہاتھوں کو ملایا، اور انہوں نے انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔
اس دوسری روایت میں جن ضمائر کو ہائلائیٹ کیا ہے یہ ضمائر کس کی طرف لوٹ رہی ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کی طرف یا ابن مسعود رض کی طرف؟ اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف تو وہ تو قریب ہونے کی وجہ سے ہوگا کیوں کہ ضمیر کا مرجع قریب اولی ہوتا ہے (یہ نحو میں معروف ہے)۔
لیکن اگر عبد اللہ بن مسعود رض کی طرف تو کیوں؟

"
فِي مَسْأَلَة الْحلِيّ السوَاد ثمَّ ذكر سندا عَن عَلْقَمَة وَالْأسود عَن عبد الله رَضِي الله عَنهُ قَالَ " أَلا أريكم صَلَاة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - فَكبر وَرفع يَدَيْهِ ثمَّ كبر فطبق يَدَيْهِ بَين فَخذيهِ فَذكرت ذَلِك لسعد رَضِي الله عَنهُ فَقَالَ قد كُنَّا نَفْعل ذَلِك فَأمرنَا بالركب".
قَالَ أَبُو سعيد الدَّارمِيّ فَهَذَا الحَدِيث قد رَوَاهُ وَكِيع ابْن إِدْرِيس كَمَا ذكرناهما فَإِن يكن الْمَحْفُوظ عنْدك مَا رُوِيَ عَن وَكِيع وَصَحَّ عنْدك أَن ابْن مَسْعُود قَالَ: " صليت مَعَ رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - فَلم يرفع يَدَيْهِ إِلَّا مرّة " وَلم يكن يرد قَوْله قَول من قَالَ رَأَيْت رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - يرفعهما وَكَيف وَإِنَّمَا هُوَ قَول عَلْقَمَة فَلَا تقبل من الْأَحَادِيث إِلَّا مَا رَوَاهُ عَنهُ ابْن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ فِيمَا يصف من صَلَاة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - فِي هَذَا الحَدِيث حَتَّى لقد رُوِيَ عَنهُ أَنه قَالَ: " لكَأَنِّي أنظر إِلَى اخْتِلَاف أَصَابِع رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - بَين فَخذيهِ " وَأَنت لَا تَأْخُذ بِهِ وَلَا نَحن فَإِن قيل أترك التطبيق من فعله لما رُوِيَ أَن وَائِل بن حجر وَأَبا حميد السَّاعِدِيّ وَأَبا مَسْعُود وَغَيرهم رووا عَن رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 76 - 77 جلد 02 مختصر خلافيات البيهقي - أحمد بن فَرح الإشبيلى، شهاب الدين الشافعي (المتوفى: 699هـ) مكتبة الرشد، الرياض
یہ وکیع بن ادریس کون ہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ وکیع بن ادریس کون ہیں؟
یہ عبارت شاملہ سے کاپی کی گئی تھی، وہاں کتابت کی غلطی ہے، ساتھ کتاب کا لنک بھی پیش کیا گیا تھا، وہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ وكيع ابن ادريس نہیں، بلکہ وكيع وابن ادريس ہے، یعنی وكيع اور ابن ادريس، آگے کی عبارت بھی اسی پر شاہد ہے!
یہ روایت مجھے نہیں ملی۔ لیکن اگر دارقطنی کی بات کو مان لیا جائے تو ابو بکر نہشلی عبد اللہ بن قطاف ثقہ راوی ہیں اور روایت کر رہے ہیں عاصم بن کلیب سے یعنی سفیان ثوری کے متابع ہیں۔
ابو بكر نہشلی کی روایت شرح معانی الآثار میں حضرت علی رض سے ہے۔ اتمام فائدہ کے لیے عرض کر دیتا ہوں:
حدثنا ابن أبي داود، قال: ثنا أحمد بن يونس، قال: ثنا أبو بكر النهشلي، عن عاصم، عن أبيه، وكان من أصحاب علي رضي الله عنه، عن علي مثله
"مثلہ" سے مراد یہ روایت ہے:
فإن أبا بكرة قد حدثنا قال: ثنا أبو أحمد , قال: ثنا أبو بكر النهشلي , قال: ثنا عاصم بن كليب , عن أبيه: «أن عليا رضي الله عنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة من الصلاة , ثم لا يرفع بعد»
ابن ابی داود کی روایت کی سند صحیح ہے۔
ایسی روایت سے متابعت کشید کرنے کا تکلف کیوں؟ آپ ابن ادریس کو ہی سفیان ثوری کا متابع قرار دے دیتے! کیونکہ اس عبارت کے بعد ہی یہ عبارت بھی تو ہے:
وكذلك رواه ابن إدريس، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
ابن ابی شیبہ کی روایت اوپر گزر گئی ہے:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً»
اس میں "ثم لم یعد" اس لیے نہیں ہے کہ وکیع نے "فلم یرفع یدیہ الا مرۃ" کہہ دیا ہے۔ "رفع یدیہ ثم لم یعد" کا معنی ہے: ہاتھ اٹھائے اور پھر نہیں اٹھائے، "فلم یرفع یدیہ الا مرۃ" کا معنی ہے: ہاتھ نہیں اٹھائے مگر ایک بار۔
دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔
احمد بن حنبل کی روایت میں بھی ایسا ہی ہے:

حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال ابن مسعود: ألا أصلي لكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: «فصلى، فلم يرفع يديه إلا مرة»
غالباً شاذ ومحفوظ کے معاملہ کو سمجھنے میں بہت بڑی غلطی کا شکار ہیں،
شاذ و محفوظ کا معاملہ پیش ہی اس وقت آتا ہے جب الفاظ کے معنی ، مطلب و مفہوم میں ایسی تفاوت ہو کہ ان میں تطبیق ممکن نہ ہو، محض الفاظ کے فرق پر شاذ و محفوظ کا مدار نہیں!
امام احمد بن حنبل اور امام بخاری اور دیگر نے اس حدیث کو
"فلم يرفع يديه الا مرة" اور"رفع يديه ثم لم يعد" کے لفظوں کے فرق کی بنیاد پر بناء پر شاذ قرار نہیں دیا ہے۔ کیونکہ ان کے معنی، مطلب و مفہوم میں وہ تفاوت نہیں!
اگر محض الفاظ کے فرق کی بناء پر شاذ ومحفوذ کا معاملہ اختیار کیا جائے، تو روایت بالمعنی روایت بلکل غیر مقبول قرار پا جائیں گی! فتدبر!!
بلکہ ان محدثین نے اس معنی کے تمام الفاظ سے مروی روایات کو شاذ قرار دیا ہے، اور اسے کے لئے ایک لفظ کا بیان کردینا کہ یہ الفاظ محفوذ نہیں، اس کا معنی یہی ہے کہ اس معنی ، مطلب و مفہوم کے دیگر الفاظ بھی محفوظ نہیں! فتدبر!

عاصم سے سفیان، سفیان سے کادح بن رحمہ۔ یعنی کادح وکیع کے متابع ہیں۔ تصحیح و تضعیف خطیبؒ کے سر۔ ہمیں اس سے بحث نہیں جب وکیع کی روایت پہلے ہی موجود ہے۔
وکیع کی روایت پہلے سے موجود ہے تو پھر وکیع کا تابع تلاش کرنے کی بھی کیا حاجت ہے؟ اور زبردست بات کہی کہ کیونکہ خطیب ؒ نے روایت کی ہے تو تصحیح و تضعیف خطیبؒ کے سر، پھر کل کو کوئی کہے گا کہ کیونکہ امام أبو حنیفہ ؒ نے جابر الجعفی سے روایت کی ہے تو جابر الجعفی کی تصحیح و تضعیف امام أبو حنیفہؒ کے سر!
معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا مدعا سمجھنے میں مغالطہ لگا ہے، کہ یہ عبارات ان روایات کے اثبات میں نہیں پیش کی گئیں، بلکہ اس کے متن کے معنی کو بیان کرنے کے لئے کی گئیں ہیں!
ان ساری روایات کا خلاصہ یہ نکلا کہ سفیان ثوریؒ نے یہ روایت عاصم بن کلیب سے اس طرح کی ہے۔ اور دارقطنیؒ کے مطابق سفیان ثوری کے متابع ابوبکر نہشلی ہیں۔
پھر سفیان سے آگے وکیع نے کی ہے۔ اور خطیب بغدادیؒ کے مطابق وکیع کے متابع کادح بن رحمہ ہیں۔
دارقطنیؒ نے ایسی کوئی بات ہیں کہی، بلکہ دارقطنی رحمہ اللہ نے واضح فیصلہ بیان کیا ہے:
وَلَيْسَ قَوْلُ مَنْ قَالَ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ" مَحْفُوظًا.
امام دارقطنی ؒ نے یوں بیان کیا ہے:
وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن أبيه، وعلقمة، عن عبد الله.
وكذلك رواه ابن إدريس، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
وَإِسْنَادُهُ صَحِيحٌ،

اب اس عبارت سے أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِي کو سفیان ثوری ؒ کا متابع باور قرار دیا جا سکتا ہے، تو ابن ادریس ؒ سے کیا عداوت، ابن ادریس ؒ کو بھی سفیان ثوریؒ کا متابع قرار دے کر امام احمد بن حنبل ؒ امام بخاریؒ اور دیگر محدثین بشمول خود امام دارقطنیؒ کا سفیانؒ کی روایت کو شاذ و ضعیف قرار دینے کے مسئلہ سے جان چھڑوا لی جائے!
وکیع کی متابعیت کا معاملہ تو اس سے بھی ذیلی مسئلہ ہے!
اب تک کی بات تو اصل نکتہ سے ذرا ہٹ کر تھی! اب اصل نکتہ آتا ہے:

اب آئیں دوسری روایت کی طرف:
جب عبد اللہ بن ادریسؒ نے حافظہ سے روایت کی عاصم بن کلیب سے تو الفاظ یہ تھے: الا اریکم صلاۃ رسول اللہ ﷺ فکبر و رفع یدیہ۔۔۔۔۔۔الخ
یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کے فعل پر جسے علقمہ نے دیکھا۔
اگر یوں کہا جائے کہ یہ الفاظ صراحت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷛ کے فعل پر جسے علقمہ ؒ نے دیکھا تو بہتر ہوگا!
لیکن یہی عبد اللہ بن ادریس جب اپنی کتاب سے املاء کرواتے ہیں تو فرماتے ہیں:
علقمہ نے عبد اللہ رض سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز سکھائی۔۔۔۔۔۔۔ الخ
یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں عبد اللہ بن مسعود رض کے قول پر جسے علقمہ نے سنا۔
نہیں ایسا نہیں ہے، یہ الفاظ عبد اللہ بن مسعود ﷛کے قول پر دلالت نہیں کرتے جسے علقمہ ؒ نے سنا، بلکہ ان الفاظ میں ممکن ہے کہ علقمہؒ عبد اللہ بن مسعود﷛ کے قول کو سنا ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ علقمہؒ عبد اللہ بن مسعود﷛ کے فعل کو دیکھا۔
اب آئیے اس پر امام احمدؒ کا بیان کردہ قاعدہ لگائیے:
تو عبد اللہ بن ادریس رض کی روایات میں سے صحیح وہ ہے جو کتاب میں ہے یعنی عبد اللہ بن مسعود رض کا قول۔
میرے بھائی! یہاں ایسی بات ہے ہی کہاں کہ امام احمد بن حنبل ؒ کے بتائے ہوئے قاعدہ کا اطلاق کیا جائے! یہاں ایسی تو کوئی تفاوت نہیں ہے، بلکہ یہاں صرف اس بات کا تعین ہو رہا ہے کہ یہ علقمہ ؒ نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے یا شنید! یعنی کہ یہ عبد اللہ بن مسعود﷛ کا قول ہے یا عبد اللہ بن مسعود ﷛ کا فعل!
دیگر روایات کے الفاظ سے دونوں ممکن ہو سکتے ہیں، مگر مسند البزار کی روایت سے اس بات کا تعین ہو جاتا ہے کہ یہ علقمہ ؒ کا مشاہدہ اور عبد اللہ بن مسعود﷛ کا فعل ہے۔
بےشک ابن ادریسؒ کی کتاب کی روایت صحیح ہے، لیکن اس سے دوسری روایت غلط ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ دوسری روایت کا کتاب کی روایت سے ایسا تفاوت نہیں ہے کہ ایک کے صحیح ہونے سے دوسری کا غلط ہونا لازم آجائے! فتدبر

اور جب یہ صحیح ہے تو پھر میں دوبارہ یہ عرض کرتا ہوں:
میرے بھائی! وہ روایت بھی صحیح ہے جس میں املاء کروانے کا ذکر ہے، اور جہاں املاء کا ذکر نہیں وہ بھی صحیح ہے، اور دونوں کے صحيح ہونے کی وجہ بیان کر دی گئی ہے۔ جب دو روایات میں ایسا تفاوت ہے ہی نہیں کہ ان میں سے ایک کو محفوظ اور دوسری کو شاذ قرار دیا جائے!
"علقمہ نے حدیث بیان کی عبد اللہ سے کہ انہوں نے فرمایا: ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز سکھائی، تو انہوں نے تکبیر کہی، اور انہوں نے ہاتھ اٹھائے، پھر انہوں نے رکوع کیا، اور انہوں نے ہاتھوں کو ملایا، اور انہوں نے انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔
اس دوسری روایت میں جن ضمائر کو ہائلائیٹ کیا ہے یہ ضمائر کس کی طرف لوٹ رہی ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کی طرف یا ابن مسعود رض کی طرف؟ اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف تو وہ تو قریب ہونے کی وجہ سے ہوگا کیوں کہ ضمیر کا مرجع قریب اولی ہوتا ہے (یہ نحو میں معروف ہے)۔
لیکن اگر عبد اللہ بن مسعود رض کی طرف تو کیوں؟"
جب اس ''کیوں'' کا جواب دیا گیا تو آپ نے اس روایت کو ہی شاذ قرار دینے کی سعی کرنا شروع کر دی گئی!
اس بنیاد پر شاذ تو اس صورت میں قرار دی جاسکتی تھی، جب ضمیر کا مرجع ہر صورت قریب اولی ہی ہوتا، اور دوسری کوئی صورت ممکن ہی نہ ہوتی! اور ضمیر کے مرجع کے لئے لازم ہوتا کہ صرف اور صرف قریب اولی ہی ضمیر کا مرجع ہوگا۔ تب تو بات سمجھ آتی!
لیکن ایسا ہے نہیں، ضمیر کا مرجع قریب اولی ہوتا ہے، الا یہ کہ کوئی قرینہ اس کے خلاف پر دلالت کرے!
اور ہم نے مسند البزار سے واضح قرینہ پیش کیا، جو نہ صرف ضمیر کے مرجع پر دلالت کرتا ہے بلکہ صراحت کرتا ہے، کہ یہاں ضمیر کا مرجع عبد اللہ بن مسعود ﷛ ہیں۔
تو بجائے اس حدیث کی صراحت کو قبول کرتے، اس حدیث کو ضمیر کے مرجع کے عمومی قاعدے کے خلاف پا کر اس حدیث کو شاذ قرار دینے کہ سعی کی جارہی ہے!
یا تو یہ مدعا ہو کہ ضمیر کا مرجع ہمیشہ قریب اولی ہی ہوگا اور کوئی قرینہ ضمیر کے مرجع کو قریب اولی سے نہیں ہٹا سکتا، تو پھر بھی بات سمجھ آئے! لیکن جس طرح کہا گیا ہے کہ :

یہ ضمائر کس کی طرف لوٹ رہی ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کی طرف یا ابن مسعود رض کی طرف؟ اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف تو وہ تو قریب ہونے کی وجہ سے ہوگا کیوں کہ ضمیر کا مرجع قریب اولی ہوتا ہے (یہ نحو میں معروف ہے)۔
لیکن اگر عبد اللہ بن مسعود رض کی طرف تو کیوں؟
یعنی کہ خود جانتے ہیں کہ ضمیر کے مرجع کا تعین نحو کے لئے اس معروف قاعدے کے علاوہ اور بھی قرائین ہیں!
لہٰذا قرائین کو نحو کے اس عمومی قاعدے کی بناء پر رد کرینا، بلکہ حدیث کو ہی شاذ قرار دینا بلکل بھی درست نہیں!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا
نہ معلوم میں اپنی بات کو درست طور پر بیان نہیں کر پایا یا آپ نہیں سمجھ سکے.
چلیں پہلے ایک بات کلئیر کر لیتے ہیں.
عبد اللہ بن ادریس کی کون سی روایت صحیح ہے؟ حافظہ والی یا کتاب والی؟
دوسرے اور واضح لفظوں میں "علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" کے الفاظ روایت میں موجود ہیں یا نہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جزاک اللہ خیرا
نہ معلوم میں اپنی بات کو درست طور پر بیان نہیں کر پایا یا آپ نہیں سمجھ سکے.
چلیں پہلے ایک بات کلئیر کر لیتے ہیں.
عبد اللہ بن ادریس کی کون سی روایت صحیح ہے؟ حافظہ والی یا کتاب والی؟
دوسرے اور واضح لفظوں میں "علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" کے الفاظ روایت میں موجود ہیں یا نہیں؟
صریح الفاظ میں بیان کیا جا چکا ہے:
بےشک ابن ادریسؒ کی کتاب کی روایت صحیح ہے، لیکن اس سے دوسری روایت غلط ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ دوسری روایت کا کتاب کی روایت سے ایسا تفاوت نہیں ہے کہ ایک کے صحیح ہونے سے دوسری کا غلط ہونا لازم آجائے! فتدبر
میرے بھائی! وہ روایت بھی صحیح ہے جس میں املاء کروانے کا ذکر ہے، اور جہاں املاء کا ذکر نہیں وہ بھی صحیح ہے، اور دونوں کے صحيح ہونے کی وجہ بیان کر دی گئی ہے۔ جب دو روایات میں ایسا تفاوت ہے ہی نہیں کہ ان میں سے ایک کو محفوظ اور دوسری کو شاذ قرار دیا جائے!
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top