• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (رفع اليدين)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

صریح الفاظ میں بیان کیا جا چکا ہے:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
یعنی دونوں روایات صحیح ہونے کا یہ مطلب ہوا کہ "ایک ہی راوی" کی "ایک ہی روایت" میں "علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصلاۃ" کے الفاظ موجود بھی ہیں اور نہیں بھی؟
بھلا کیسے؟
عدم اور وجود ایک دوسرے کی نقیض ہیں اور ایک ہی وقت میں اجتماع نقیضین کیسے ہو سکتا ہے؟
یا یہ الفاظ ہوں گے یا نہیں ہوں گے. دونوں کام کیسے ہوں گے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یعنی دونوں روایات صحیح ہونے کا یہ مطلب ہوا کہ "ایک ہی راوی" کی "ایک ہی روایت" میں "علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصلاۃ" کے الفاظ موجود بھی ہیں اور نہیں بھی؟
بالکل جناب عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں! دوم کہ روایت بالمعنی بھی کوئی شئی ہوتی ہے!
بھلا کیسے؟
کیسے !! یہ تو اچھی بھلی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، مگر اس بات کی ذمہ داری نہیں لی جا سکتی کہ کسی کو سمجھ آ بھی جائے!
عدم اور وجود ایک دوسرے کی نقیض ہیں اور ایک ہی وقت میں اجتماع نقیضین کیسے ہو سکتا ہے؟
عدم ہمیشہ عدم وجود نہیں ہوتا، کبھی عدم ذکر بھی ہوتا ہے، اور عدم ذکر اور وجود ایک دوسرے کی نقیض نہیں! اور یہ اکثر اوقات جمع ہوتے ہیں!
یا یہ الفاظ ہوں گے یا نہیں ہوں گے. دونوں کام کیسے ہوں گے؟
الفاظ بلکل ہونگے یا نہیں ہونگے، لیکن نہ ہونا عدم وجود کو مستلزم نہیں! روایت بالمعنی میں تو ہمیشہ الفاظ کا فرق ہوتا ہے، یعنی کہ ایک کے الفاظ دوسرے میں نہیں ہوتے، اور نہ تو ان الفاظ کا نہ ہونا اس روایت کو مضر ہے اور نہ ہی ان الفاظ کا ہونا اس روایت کو مضر ہے! ابھی آپ نے خود اس امر کا اطلاق کیا تھا؛ مگر یہاں بھول رہے ہو:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً»
اس میں "ثم لم یعد" اس لیے نہیں ہے کہ وکیع نے "فلم یرفع یدیہ الا مرۃ" کہہ دیا ہے۔ "رفع یدیہ ثم لم یعد" کا معنی ہے: ہاتھ اٹھائے اور پھر نہیں اٹھائے، "فلم یرفع یدیہ الا مرۃ" کا معنی ہے: ہاتھ نہیں اٹھائے مگر ایک بار۔
دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔
احمد بن حنبل کی روایت میں بھی ایسا ہی ہے:

حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال ابن مسعود: ألا أصلي لكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: «فصلى، فلم يرفع يديه إلا مرة»
اس کے غلط فہمی کا ازالہ یوں کیا جا چکا ہے:
غالباً شاذ ومحفوظ کے معاملہ کو سمجھنے میں بہت بڑی غلطی کا شکار ہیں،
شاذ و محفوظ کا معاملہ پیش ہی اس وقت آتا ہے جب الفاظ کے معنی ، مطلب و مفہوم میں ایسی تفاوت ہو کہ ان میں تطبیق ممکن نہ ہو، محض الفاظ کے فرق پر شاذ و محفوظ کا مدار نہیں!
امام احمد بن حنبل اور امام بخاری اور دیگر نے اس حدیث کو
"فلم يرفع يديه الا مرة" اور"رفع يديه ثم لم يعد" کے لفظوں کے فرق کی بنیاد پر بناء پر شاذ قرار نہیں دیا ہے۔ کیونکہ ان کے معنی، مطلب و مفہوم میں وہ تفاوت نہیں!
اگر محض الفاظ کے فرق کی بناء پر شاذ ومحفوذ کا معاملہ اختیار کیا جائے، تو روایت بالمعنی روایت بلکل غیر مقبول قرار پا جائیں گی! فتدبر!!
بلکہ ان محدثین نے اس معنی کے تمام الفاظ سے مروی روایات کو شاذ قرار دیا ہے، اور اسے کے لئے ایک لفظ کا بیان کردینا کہ یہ الفاظ محفوذ نہیں، اس کا معنی یہی ہے کہ اس معنی ، مطلب و مفہوم کے دیگر الفاظ بھی محفوظ نہیں! فتدبر!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بالکل جناب عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں!
یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اصل میں ان الفاظ " علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصلاۃ" کا ذکر موجود تھا. اور بزار کی روایت میں یہ الفاظ صرف مذکور نہیں ہیں, موجود ہیں؟
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
ضعیف روایات کو بیان کرنےکی حقیقت
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 17 August 2014 01:49 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احادیث کی اکثر کتب میں صحیح احادیث کے ساتھ ضعیف احادیث بھی شامل ہیں۔ایسا کیوں ہوا؟ جب کہ محدثین کو ان کے ضعف کا پتہ تھا۔ پھر انہوں نے ضعیف روایات کو شامل رکھا کیا حکمت تھی؟ کیوں کہ آج کے زمانے میں باطل فرقے ان ہی ضعیف ر وایات سے دلیل لیتے ہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہوکہ ضعف کے مختلف درجات کے اعتبار سے ضعیف روایات کی پچاس سے زائد اقسام ہیں جن کی تفصیل ''توضیح الافکار'' میں موجود ہے۔ ہر قسم کے قبول ورد کا تعلق ضعف کی حیثیت کے ساتھ ہوتا ہے جو تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔
المختصر بعض ضعیف روایات ایسی ہیں جو کثرت طرق کی بناء پر کسی نہ کسی انداز میں قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں۔انور کچھ ضعیف ایسی بھی ہیں۔جن کے مدلول (مفہوم) پر عمل کرنے میں اہل علم کااتفاق ہے اور انہیں قبول کرکے ان پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔مثالوں کے لئے ملاحظہ ہو(توضیح الافکار 1/254)
احادیث بیان کرنے کے اصول(علم المصطلح) اسماء الرجال اور علم جرح وتعدیل تو محدثین کرام کی مساعی جمیلہ کا عظیم امتیاز ہے فرق باطلہ چونکہ ان کےسمجھنے سے قاصر ہیں۔لہذا ان کامعترض ہونا کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ مقولہ مشہور ہے کہ آدمی ہمیشہ اس چیز کا دشمن ہوتا ہے جس سے وہ ناواقف ہو۔رب العزت ہم سب کی راہنمائی فرمائے۔آمین!
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


ج1ص297

محدث فتویٰ
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
[HL]فتاوی کی ثنائیہ کی اس جواب کو جواب کہا جاتا ہے ؟؟؟؟ کیا یہ جواب ہے؟؟؟؟؟ اگر کسی ساتھی کی پاس کوئی ایسا جواب ہو جس سے عام انسان مطمئن ہوجاتا ہو تو ضرور شییر فرماے
آج کل احناف کو گمراہ کہاجاتا ہے اور ان کی نماز کو خلاف سنت جبکہ ان کی دلایل بھی حدیث کی کتابوں میں موجود ہے اگر ہمارے یہ محدثین حضرات ضعیف احادیث کو ذکر ناکرتے تو آج اتنی فرقے نا ہوتے [/HL]
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اصل میں ان الفاظ " علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصلاۃ" کا ذکر موجود تھا. اور بزار کی روایت میں یہ الفاظ صرف مذکور نہیں ہیں, موجود ہیں؟
یہ بھی اور یہ بھی کہ مسند البزار کے ملون الفاظ کا دوسری روایت میں ذکر نہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الضُّبَعِيُّ، قَالَا: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ» ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، وَعَاصِمٌ فِي حَدِيثِهِ اضْطِرَابٌ، وَلَا سِيَّمَا فِي حَدِيثِ الرَّفْعِ ذَكَرَهُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، وَرَوَاهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَحِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَرَوَى عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ أَيْضًا، وَرَوَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلْ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَآهُ يَرْفَعُ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
عبد اللہ بن مسعود ﷛سے کہ انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟، تو انہوں نے(عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) تکبیر کہی، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھ اٹھائے نماز شروع کرتے ہوئے، پھر انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) رکوع کیا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھوں کو ملایا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔ جب نماز پڑھ چکے تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔
سنن نسائی کی رویت میں ''فقام'' کے الفاظ بھی ہیں!

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 46 جلد 05 البحر الزخار المعروف بمسند البزار - أبو بكر أحمد بن عمرو المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) - مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة

اس میں کوئی تضاد نہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی ہے، کیا میں تمہیں رسول ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟
پھر نماز پڑھ کر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔

تو آپ کے نزدیک دونوں روایات میں سے کون سی روایت باللفظ ہے اور کونسی بالمعنی؟
اس کی صراحت نہیں، لیکن مجھے دونوں ہی بالفظ معلوم ہوتی ہیں، کچھ الفاظ کے عدم ذکر کے ساتھ ! اور کچھ الفاظ معنوی بھی ہو سکتے ہیں!
ایک معصومانہ سا سوال اور ہے کہ آپ یہی قاعدہ سفیان کی روایت پر کیوں نہیں لگاتے؟
ہم کیوں نہیں لگاتے ! یہ آپ کو کس نے کہا کہ ہم اس قاعدہ کو سفیان ثوری کی روایت پر نہیں لگاتے!بالکل سفیان ثوری کی روایت پر بھی یہ قاعدہ لگتا ہے، سفیان ثوری کی روایت بھی اس ''عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں'' کے قاعدہ سے مستثنی نہیں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
[HL]فتاوی کی ثنائیہ کی اس جواب کو جواب کہا جاتا ہے ؟؟؟؟ کیا یہ جواب ہے؟؟؟؟؟ اگر کسی ساتھی کی پاس کوئی ایسا جواب ہو جس سے عام انسان مطمئن ہوجاتا ہو تو ضرور شییر فرماے
آج کل احناف کو گمراہ کہاجاتا ہے اور ان کی نماز کو خلاف سنت جبکہ ان کی دلایل بھی حدیث کی کتابوں میں موجود ہے اگر ہمارے یہ محدثین حضرات ضعیف احادیث کو ذکر ناکرتے تو آج اتنی فرقے نا ہوتے [/HL]
مذکورہ جواب تو بلکل مناسب اور عمدہ ہے، لیکن اگر عام انسان کو سمجھ نہیں آئے تو مطلب یہ تو نہیں ہو گا کہ اسے ''جواب'' ہی نہ کہا جائے!
عام انسان کے لئے عرض ہے کہ اگر محدثین ضعیف و موضوع روایات کو درج نہ کرتے، تو آج ''طاہر القادری'' اور اس کی قبیل کے لوگ نئی نئی احادیث گڑھ کر لوگوں کو کہتے کہ یہ بھی احادیث تھیں، مگر محدثین نے لکھیں نہیں، ہمیں ہمارے ''فلاں شیخ نے سنائی ہے!
لیکن آج ایسا نہیں کیا جا سکتا کہ جو کوئی بھی کسی حدیث کا مدعی ہو گا اسے محدثین کی کتب سے اس حدیث کا حوالہ دینا ہوگا! یہ قید اسی بناء پر لگائی جاسکتی ہے کہ محدثین نے تمام روایات کو گو کہ وہ صحیح ہوں یا ضعیف ان سب کو جمع کردیا ہے!
میرے بھائی! اب احناف نے ان محدثین کی کتب دیکھ کر اپنی فقہ تھوڑا ہی بنائی ہے! امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی پیدائش 90 ہجری کی ہے اور وفات 150 ہجری کی!
اب بتلائیے کہ امام صاحب نے کس محدث کی کتاب دیکھ کر فقہ اخذ کی ہے؟
ایک شعر یاد آیا:
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ بھی اور یہ بھی کہ مسند البزار کے ملون الفاظ کا دوسری روایت میں ذکر نہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الضُّبَعِيُّ، قَالَا: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ» ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، وَعَاصِمٌ فِي حَدِيثِهِ اضْطِرَابٌ، وَلَا سِيَّمَا فِي حَدِيثِ الرَّفْعِ ذَكَرَهُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، وَرَوَاهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَحِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَرَوَى عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ أَيْضًا، وَرَوَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلْ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَآهُ يَرْفَعُ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
عبد اللہ بن مسعود ﷛سے کہ انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟، تو انہوں نے(عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) تکبیر کہی، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھ اٹھائے نماز شروع کرتے ہوئے، پھر انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) رکوع کیا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) ہاتھوں کو ملایا، اور انہوں نے (عبد اللہ بن مسعود ﷛ نے) انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا۔ جب نماز پڑھ چکے تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔
سنن نسائی کی رویت میں ''فقام'' کے الفاظ بھی ہیں!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 46 جلد 05 البحر الزخار المعروف بمسند البزار - أبو بكر أحمد بن عمرو المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) - مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة


اس میں کوئی تضاد نہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی ہے، کیا میں تمہیں رسول ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟

پھر نماز پڑھ کر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔

اس کی صراحت نہیں، لیکن مجھے دونوں ہی بالفظ معلوم ہوتی ہیں، کچھ الفاظ کے عدم ذکر کے ساتھ ! اور کچھ الفاظ معنوی بھی ہو سکتے ہیں!

ہم کیوں نہیں لگاتے ! یہ آپ کو کس نے کہا کہ ہم اس قاعدہ کو سفیان ثوری کی روایت پر نہیں لگاتے!بالکل سفیان ثوری کی روایت پر بھی یہ قاعدہ لگتا ہے، سفیان ثوری کی روایت بھی اس ''عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں'' کے قاعدہ سے مستثنی نہیں!

وعلیک السلام و جزاک اللہ احسن الجزاء علی ھذا الجواب۔ اللہم آمین

آپ نے فرمایا:
اس میں کوئی تضاد نہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی ہے، کیا میں تمہیں رسول ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟
پھر نماز پڑھ کر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔
میرے بھائی معنی کے اعتبار سے نہ تو ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد ہے اور نہ موافقت۔
علمنا رسول اللہ ﷺ الصلاۃ کا ترجمہ: "ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز سکھائی"۔
الا اریکم صلاۃ رسول اللہ صلی علیہ و سلم کا ترجمہ: " کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟"
ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد واقعی نہیں ہے۔ اور ان دونوں کا مطلب ایک جیسا بھی نہیں ہے کہ کوئی ایک روایت بالمعنی ہو کلا یا جزءا۔

پہلی بات: آپ نے بنیاد رکھی ہے دونوں کو جمع کر کے۔ یعنی دونوں کے الفاظ موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ سے پہلے کبار علماء حدیث میں سے کسی نے اس قول کو اختیار کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو براہ کرم تحریر فرمائیے۔ اور اگر نہیں کیا تو میں اس قسم کی جمع اس حدیث میں درست نہیں سمجھتا۔

دوسری بات۔ اس حدیث کے اور طرق:

أخبرنا نوح بن حبيب، قال: أنبأنا ابن إدريس، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، عن عبد الله قال: «علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فقام فكبر، فلما أراد أن يركع طبق يديه بين ركبتيه وركع»، فبلغ ذلك سعدا، فقال: صدق أخي قد كنا نفعل هذا ثم أمرنا بهذا يعني: الإمساك بالركب
سنن النسائی، 2۔184، مکتبۃ المطبوعات السلامیہ

اس طریق میں نوح بن حبیب نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ " الا اریکم کے نہیں" بلکہ "علمنا رسول اللہ ﷺ" کے ہیں۔

نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، فَكَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ رَكَعَ فَطَبَّقَ يَدَيْهِ بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ»
مسند ابن ابی شیبہ، 1۔140، ط: دار الوطن

اس طریق میں ابو بکر ابن ابی شیبہ نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ "علمنا" کے ہیں۔

حدثنا الحسن بن الربيع , حدثنا ابن إدريس , عن عاصم بن كليب , عن عبد الرحمن بن الأسود , حدثنا علقمة أن عبد الله , [ص:29] رضي الله عنه قال: " علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة: فقام فكبر ورفع يديه , ثم ركع , فطبق يديه جعلهما بين ركبتيه فبلغ ذلك سعدا فقال: صدق أخي قد كنا نفعل ذلك في أول الإسلام ثم أمرنا بهذا ".
قرۃ العینین للبخاری، 1۔28، دار الارقم

اس طریق میں الحسن بن ربیع نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ "علمنا" کے ہیں۔

حدثنا علي بن خشرم، قال: أنا عبد الله يعني ابن إدريس، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله رضي الله عنه: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فكبر ورفع يديه فلما أراد أن يركع طبق يديه بين ركبتيه قال: فبلغ ذلك سعدا رضي الله عنه فقال: صدق أخي قد كنا نفعل هذا ثم أمرنا بهذا يعني الإمساك بالركب ووضع يديه على ركبتيه
منتقی ابن جارود، 1۔59، ط: الکتاب الثقافیۃ

اس طریق میں علی بن خشرم نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ "علمنا" کے ہیں۔

أخبرنا أ
بو الحسن علي بن محمد بن عقبة الشيباني، بالكوفة، ثنا أبي، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وثنا عبد الله بن إدريس، ثنا عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، عن عبد الله، قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، قال: «فكبر، فلما أراد أن يركع طبق يديه بين ركبتيه فركع» قال: فبلغ ذلك سعدا، فقال: صدق أخي كنا نفعل هذا، ثم أمرنا بهذا، يعني الإمساك بالركب. «هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه بهذه السياقة»
المستدرک للحاکم، 1۔346۔ ط: دار الکتب العلمیۃ

اس طریق میں محمد بن عقبہ الشیبانی (و الاصل محمد بن محمد بن عقبہ الشیبانی ابو جعفر۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم) کے دو استاد ہیں۔ ابن ابی شیبہ اور ابن ادریس۔ اس میں بھی "علمنا" کے الفاظ ہیں۔

حدثنا
عثمان بن أبي شيبة، حدثنا ابن إدريس، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله: «علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فكبر ورفع يديه فلما ركع طبق يديه بين ركبتيه» قال: فبلغ ذلك سعدا، فقال: صدق أخي، قد كنا نفعل هذا ثم أمرنا بهذا يعني «الإمساك على الركبتين»
سنن ابی داود، 1۔199، ط: العصریہ

اس طریق میں عثمان بن ابی شیبہ نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ ہیں "علمنا" کے۔

حدثنا
يحيى بن محمد بن صاعد , ثنا أبو سعيد الأشج , ثنا عبد الله بن إدريس , قال: سمعت عاصم بن كليب , يذكر عن عبد الرحمن بن الأسود , عن علقمة , عن عبد الله , قال: «علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فرفع يديه , ثم ركع وطبق وجعل يديه بين ركبتيه». فبلغ ذلك سعدا , فقال: صدق أخي كنا نفعل هذا , ثم أمرنا بهذا وجعل يديه على ركبتيه يعني في الركوع.

حدثنا محمد بن القاسم بن زكريا , حدثنا
أبو كريب , ثنا ابن إدريس , عن عاصم بن كليب , بهذا , وقال: «فكبر ورفع يديه , فلما ركع طبق يديه بين ركبتيه» , فبلغ ذلك سعدا , فقال: صدق أخي كنا نفعل هذا ثم أمرنا بهذا ووضع الكفين على الركبتين. هذا إسناد ثابت صحيح
سنن الدارقطنی، 2۔137، ط: الرسالۃ

ان دو طرق میں ابو سعید الاشج اور ابو کریب ابن ادریس سے روایت کرتے ہیں اور الفاظ "علمنا" کے ہیں۔

ان آٹھ روات نے (امام احمد کے استاد یحیی بن آدم کے علاوہ یعنی کل نو روات نے) الفاظ نقل کیے ہیں "علمنا رسول اللہ ﷺ" اور کسی ایک نے بھی "الا اریکم صلاۃ رسول اللہ ﷺ" کے لفظ نقل نہیں فرمائے سوائے ایک کے اور وہ ہیں عبد اللہ بن سعید ابو سعید الاشج جن کے یہ الفاظ مسند البزار میں ہیں۔ اس پر آگے ذکر کرتا ہوں۔
جب نو راوی ایک روایت کو ایک لفظ سے نقل کریں اور دوسرے لفظ کا بالکل ذکر نہ کریں، نہ الگ اور نہ ایک ساتھ تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس روایت میں دونوں الفاظ موجود تھے؟ صرف اس بناء پر کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں؟ تو کیا ہر ایسا لفظ جو دوسرے کے خلاف نہ ہو اس کا اضافہ جائز ہے؟ کیا راوی کو کوئی ایسا وہم نہیں لگ سکتا جو دوسرے الفاظ کے خلاف نہ ہو لیکن کثیر ثقہ روات اس کے علاوہ الفاظ روایت کریں؟

تیسری بات:
بزار نے اس روایت کو نقل کیا ہے عبد اللہ بن سعید الاشج اور محمد بن العباس الضبعی سے۔ محمد بن العباس الضبعی كی تفصیل تو مجهے نہیں ملی۔ شاید یہ مجہول ہیں۔
اور عبد اللہ بن سعید الاشج سے ہی دارقطنی نے بواسطہ یحیی بن محمد بن صاعد سے یہ روایت نقل کی ہے اور یحیی بن محمد بن صاعد ثقہ ہیں جیسا کہ تاریخ اسلام للذہبی میں ہے۔ اس روایت میں بھی الفاظ "علمنا" کے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن میں ان (یعنی اشج) کی متابعت دیگر آٹھ روات نے بھی کی ہے اور یہی الفاظ ابن ادریسؒ کی کتاب میں بھی تھے جس سے انہوں نے روایت املاء کروائی۔ اس لیے یہی الفاظ درست ہیں۔

لہذا بندہ کے لیے تو یہی ظاہر و واضح ہے کہ اس روایت کے اصل الفاظ "علمنا رسول اللہ ﷺ الصلاۃ" ہیں نہ کہ "الا اریکم صلاۃ رسول اللہ ﷺ" اور نہ ہی یہ دونوں الفاظ۔

اگر آپ کو اس بات پر مزید کوئی اشکال نہ ہو تو ہم آگے چلتے ہیں اور میں اپنی اس پوسٹ کی وضاحت کرتا ہوں جس پر آپ نے کلام فرمایا تھا یعنی 137۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top