• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (رفع اليدين)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
[HL]فتاوی کی ثنائیہ کی اس جواب کو جواب کہا جاتا ہے ؟؟؟؟ کیا یہ جواب ہے؟؟؟؟؟ اگر کسی ساتھی کی پاس کوئی ایسا جواب ہو جس سے عام انسان مطمئن ہوجاتا ہو تو ضرور شییر فرماے
آج کل احناف کو گمراہ کہاجاتا ہے اور ان کی نماز کو خلاف سنت جبکہ ان کی دلایل بھی حدیث کی کتابوں میں موجود ہے اگر ہمارے یہ محدثین حضرات ضعیف احادیث کو ذکر ناکرتے تو آج اتنی فرقے نا ہوتے [/HL]
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم آپ کے سوال میں اختصار سے پہلے بھی ایک پوسٹ میں اس ضمھ میں کچھ اشارے کئے تھے ،آپ کی نظر سے شاید وہ پوسٹ نہیں گزری ، اسلئے یہاں پیسٹ کئے دیتا ہوں ؛؛
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس کے کئی اسباب ہیں ، ہوسکتے ہیں ، آپ کیلئے آسان فہم صورت عرض ہے کہ :
بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر اصحاب السنن صحیح کے ساتھ اس باب کی ضعیف احادیث قاری کی معلومات کیلئے درج کرتے ہیں ،کہ اگر صحیح طرق سے یہ مسئلہ یوں مروی ہے ، تو ضعیف طریق سے یوں بھی مروی ہے ،اس کی ضعف والی سند نقل کرکے قاری اور طالب علم کیلئے تحقیق آسان بنادیتے ہیں ،
اور امام ترمذی کا اسلوب تو تدوین روایات میں خاص ہے کہ وہ اکثر ابواب میں احادیث نقل کرنے کے بعد یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس باب میں دیگر فلاں فلاں صحابی سے بھی احادیث مروی ہیں ،
احکام یعنی عملی امور کی مختلف احادیث کو جمع کرکے مختلف فقہی مکاتب و اقوال کے دلائل کا تعارف کروانا بھی مقصود ہو سکتا ہے ،جیسا کہ یہاں سیدنا عبد اللہ بن مسعود کی روایت کو ذکر کرنے سے سمجھ آتا ہے ،
یعنی اثبات رفع الیدین کے قول کی دلیل ذکر کے عدم رفع کے قائلین کی دلیل بھی بتادی ،
اجمالاً یہ کہ کسی اہم موضوع پر مروی صحیح اور ضعیف تمام قابل ذکر روایات طالب علم تک پہنچانا تاکہ اسے تحقیق اور تفتیش کیلئے ہر طرح کا علمی مواد میسر ہو ،
اس موضوع پر یہ تھریڈ بھی ملاحظہ فرمائیں
ضعیف احادیث کیوں جمع کی گئیں؟
ہاں فتاوی ثنائیہ کے اس جواب پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ علم المصطلح سے بے خبر شخص کیلئے یہ کافی نہیں ،
لیکن آپ تو مفتی ہیں لہذا آپ کو تو ویسے بھی علم ہوگا کہ :
اس مسئلہ یا موضوع بالکل بےخبر حضرات کی تشفی ایک پوسٹ سے نہیں ہوسکتی ، جب تک اصول حدیث سے کچھ نہ کچھ تعارف نہ ہو ،اور اصحاب تدوین کا منہج اور مقاصد کا قدرے علم نہ ہو، جو ظاہر ہے وقت طلب کام ہے ،
اس لئے سرے سے بے خبر کیلئے آسان تفصیل کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں اورآپ چونکہ بفضل اللہ مفتی ہیں ، تو یہاں آپ کیلئے علمی جواب پیش کرتے ہیں ؛؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السؤال
ما هو سبب استخدام أحاديث ضعيفة وموضوعة في مسانيد كبار علماء السنة مثل ابن حنبل والترمذي وغيرهم وكذلك الإمام البخاري في الأدب المفرد يدرج أحاديث جاء من بعده وضعفها؟
وهل كانت أدوات البحث غير متوفرة لديهم وتوفرت الآن؟
وهل يمكن بعد ذلك تتوفر أساليب أحدث للحكم على أحاديث قد حكم عليها؟


الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فإن هؤلاء الأئمة كانوا أكثر اطلاعا ممن بعدهم على صحة الأحاديث وضعفها، وعلى أحوال الرجال. والمتأخرون عالة عليهم، وأحكام المتأخرين على الحديث مبينة على أقوال من تقدمهم، وهؤلاء الأئمة لم يشترطوا في كتبهم أن يلتزموا بما صح من الأحاديث، وبإتيانهم بالأسانيد يعلم المطلع عليها بعد البحث حال الحديث من حيث القبول وعدمه، وقديما قال أهل العلم: من أسند لك فقد أحالك.

ثم إنه يتعين شكر من اهتم من المتأخرين بكتب هؤلاء الأئمة وحققها وبين صحيحها من ضعيفها، ولا مانع أن يحكم أحد من المحدثين بحكم على حديث، ثم يأتي من بعده فيتوصل بعد البحث إلى حكم آخر، ولم يزل هذا دأب أهل هذا الفن، فهذا الإمام الحاكم تعقبه الذهبي فصوب حكمه على كثير من الأحاديث، وقد تعقب الذهبي بعض من تأخر عنه.

وأما سبب ذكر بعض الأئمة لأحاديث علموا ضعفها، فقد تكلم عليه النووي في شرح مسلم وهو يتكلم عن سبب رواية الأئمة لأحاديث الضعفاء والمتروكين: فقد يقال: لم حدث هؤلاء الأئمة عن هؤلاء مع علمهم بأنهم لا يحتج بهم؟ ويجاب عنه بأجوبة:

أحدها: أنهم رووها ليعرفوها وليبينوا ضعفها لئلا يلتبس في وقت عليهم أو على غيرهم أو يتشككوا في صحتها.

الثانى: أن الضعيف يكتب حديثه ليعتبر به أو يستشهد كما قدمناه في فصل المتابعات، ولا يحتج به على انفراده.

الثالث: أن روايات الراوي الضعيف يكون فيها الصحيح والضعيف والباطل فيكتبونها ثم يميز أهل الحديث والإتقان بعض ذلك من بعض، وذلك سهل عليهم معروف عندهم، وبهذا احتج سفيان الثوري رحمه الله حين نهى عن الرواية عن الكلبي، فقيل له: أنت تروي عنه، فقال: أنا أعلم صدقه من كذبه.

الرابع: أنهم قد يروون عنهم أحاديث الترغيب والترهيب وفضائل الأعمال والقصص وأحاديث الزهد ومكارم الاخلاق ونحو ذلك مما لا يتعلق بالحلال والحرام وسائر الاحكام، وهذا الضرب من الحديث يجوز عند أهل الحديث وغيرهم التساهل فيه ورواية ما سوى الموضوع منه والعمل به؛ لأن أصول ذلك صحيحة مقررة في الشرع معروفة عند أهله. وعلى كل حال فإن الأئمة لا يروون عن الضعفاء شيئا يحتجون به على انفراده في الأحكام فإن هذا شيء لا يفعله إمام من أئمة المحدثين ولا محقق من غيرهم من العلماء .......اهـ

وقد نقل القاسمي في قواعد التحديث عن شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى أنه قال: قد يكون الرجل عندهم ضعيفاً لكثرة الغلط في حديثه، ويكون حديثه الغالب عليه الصحة فيروون عنه لأجل الاعتبار به والاعتضاد به، فإن تعدد الطرق وكثرتها يقوي بعضها بعضاً حتى قد يحصل العلم بها، ولو كان الناقلون فجاراً وفساقاً، فكيف إذا كانوا علماء عدولاً ولكن كثر في حديثهم الغلط، وهذا مثل عبد الله بن لهيعة فإنه من أكابر علماء المسلمين، وكان قاضياً بمصر كثير الحديث، ولكن احترقت كتبه فصار يحدث من حفظه فوقع في حديثه غلط كثير مع أن الغالب على حديثه الصحة، قال أحمد: قد أكتب حديث الرجل للاعتبار به مثل ابن لهيعة.

وأما من عرف منه أنه يتعمد الكذب فمنهم من لا يروي عن هذا شيئاً، وهذه طريقة أحمد بن حنبل وغيره لم يرو في مسنده عمن يعرف أنه يتعمد الكذب، لكن يروي عمن عرف منه الغلط للاعتبار به والاعتضاد. ومن العلماء من كان يسمع حديث من يكذب ويقول إنه يميز بين ما يكذبه وبين ما لا يكذبه، ويذكر عن الثوري أنه كان يأخذ عن الكلبي وينهى عن الأخذ عنه، ويذكر أنه يعرف. ومثل هذا قد يقع لمن كان خبيراً بشخص إذا حدثه بأشياء يميز بين ما صدق فيه وما كذب فيه بقرائن لا يمكن ضبطها، وخبر الواحد قد يقترن به قرائن تدل على أنه صدق، وقرائن تدل على أنه كذب. انتهى


والله أعلم.
اسلام ویب
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے بھائی معنی کے اعتبار سے نہ تو ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد ہے اور نہ موافقت۔
علمنا رسول اللہ ﷺ الصلاۃ کا ترجمہ: "ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز سکھائی"۔
الا اریکم صلاۃ رسول اللہ صلی علیہ و سلم کا ترجمہ: " کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟"
ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد واقعی نہیں ہے۔ اور ان دونوں کا مطلب ایک جیسا بھی نہیں ہے کہ کوئی ایک روایت بالمعنی ہو کلا یا جزءا۔
میرے بھائی! جب ان الفاظ میں کوئی تضاد نہیں ہے ، تو اسے شاذ قرار دینے کی ضد کیوں لگا رکھی ہے؟
آپ کا یہ کہنا کہ دونوں کا مطلب ایک جیسا بھی نہیں ہے، یہ آپ کی کلام کو سمجھنے میں کمی وکمزوری ہے! بالفاظ دیگر حدیث کی فہم و فقہ میں کمی ہے!
پہلی بات: آپ نے بنیاد رکھی ہے دونوں کو جمع کر کے۔ یعنی دونوں کے الفاظ موجود ہیں۔
میرے بھائی! میں نے کب یہ کہا ہے کہ میرے اس مؤقف کی بنیاد میرا بیان کیا گیا جمع ہے!
یہ بھی میں نے آپ کے سوال پر ان الفاظ میں کیا تھا:
اس کی صراحت نہیں، لیکن مجھے دونوں ہی بالفظ معلوم ہوتی ہیں، کچھ الفاظ کے عدم ذکر کے ساتھ ! اور کچھ الفاظ معنوی بھی ہو سکتے ہیں!
سوال یہ ہے کہ کیا آپ سے پہلے کبار علماء حدیث میں سے کسی نے اس قول کو اختیار کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو براہ کرم تحریر فرمائیے۔ اور اگر نہیں کیا تو میں اس قسم کی جمع اس حدیث میں درست نہیں سمجھتا۔
جو امام بخاری ؒ، امام مسلم ؒ اور امام دارقطنیؒ نے سفیان ثوری ؒ کی روایت کو شاذ وضعیف قرار دیا ہے، ان کی اس بات کو آپ نے مان لیا!
اس طرح کی باتیں صرف بے وزن باتوں میں وزن پیدا کرنے کے لئے، ہوا بھرنے کے مترادف ہے! ورنہ ماننی تو صرف وہی بات ہے ، جو فقہ حنفی کی موافقت میں ہو!
میں نے اپنی فہم کے مطابق ان الفاظ کا ایک ممکنہ جمع بیان کیا ہے، اگر اس میں کوئی نقص ہو تو بتلائیے! اور اس ممکنہ جمع کے غلط ہونے کی صورت میں بھی، یہ روایات متضاد نہیں ہو جاتی! اور یہ بات تو آپ نے بھی تسلیم کی ہے!
دوسری بات۔ اس حدیث کے اور طرق:
أخبرنا نوح بن حبيب، قال: أنبأنا ابن إدريس، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، عن عبد الله قال: «علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فقام فكبر، فلما أراد أن يركع طبق يديه بين ركبتيه وركع»، فبلغ ذلك سعدا، فقال: صدق أخي قد كنا نفعل هذا ثم أمرنا بهذا يعني: الإمساك بالركب
سنن النسائی، 2۔184، مکتبۃ المطبوعات السلامیہ

اس طریق میں نوح بن حبیب نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ " الا اریکم کے نہیں" بلکہ "علمنا رسول اللہ ﷺ" کے ہیں۔

نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، فَكَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ رَكَعَ فَطَبَّقَ يَدَيْهِ بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ»
مسند ابن ابی شیبہ، 1۔140، ط: دار الوطن

اس طریق میں ابو بکر ابن ابی شیبہ نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ "علمنا" کے ہیں۔

حدثنا الحسن بن الربيع , حدثنا ابن إدريس , عن عاصم بن كليب , عن عبد الرحمن بن الأسود , حدثنا علقمة أن عبد الله , [ص:29] رضي الله عنه قال: " علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة: فقام فكبر ورفع يديه , ثم ركع , فطبق يديه جعلهما بين ركبتيه فبلغ ذلك سعدا فقال: صدق أخي قد كنا نفعل ذلك في أول الإسلام ثم أمرنا بهذا ".
قرۃ العینین للبخاری، 1۔28، دار الارقم

اس طریق میں الحسن بن ربیع نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ "علمنا" کے ہیں۔

حدثنا علي بن خشرم، قال: أنا عبد الله يعني ابن إدريس، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله رضي الله عنه: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فكبر ورفع يديه فلما أراد أن يركع طبق يديه بين ركبتيه قال: فبلغ ذلك سعدا رضي الله عنه فقال: صدق أخي قد كنا نفعل هذا ثم أمرنا بهذا يعني الإمساك بالركب ووضع يديه على ركبتيه
منتقی ابن جارود، 1۔59، ط: الکتاب الثقافیۃ

اس طریق میں علی بن خشرم نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ "علمنا" کے ہیں۔

أخبرنا أبو الحسن علي بن محمد بن عقبة الشيباني، بالكوفة، ثنا أبي، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وثنا عبد الله بن إدريس، ثنا عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، عن عبد الله، قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، قال: «فكبر، فلما أراد أن يركع طبق يديه بين ركبتيه فركع» قال: فبلغ ذلك سعدا، فقال: صدق أخي كنا نفعل هذا، ثم أمرنا بهذا، يعني الإمساك بالركب. «هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه بهذه السياقة»
المستدرک للحاکم، 1۔346۔ ط: دار الکتب العلمیۃ

اس طریق میں محمد بن عقبہ الشیبانی (و الاصل محمد بن محمد بن عقبہ الشیبانی ابو جعفر۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم) کے دو استاد ہیں۔ ابن ابی شیبہ اور ابن ادریس۔ اس میں بھی "علمنا" کے الفاظ ہیں۔

حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا ابن إدريس، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله: «علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فكبر ورفع يديه فلما ركع طبق يديه بين ركبتيه» قال: فبلغ ذلك سعدا، فقال: صدق أخي، قد كنا نفعل هذا ثم أمرنا بهذا يعني «الإمساك على الركبتين»
سنن ابی داود، 1۔199، ط: العصریہ

اس طریق میں عثمان بن ابی شیبہ نے ابن ادریس سے روایت کی ہے اور الفاظ ہیں "علمنا" کے۔

حدثنا يحيى بن محمد بن صاعد , ثنا أبو سعيد الأشج , ثنا عبد الله بن إدريس , قال: سمعت عاصم بن كليب , يذكر عن عبد الرحمن بن الأسود , عن علقمة , عن عبد الله , قال: «علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فرفع يديه , ثم ركع وطبق وجعل يديه بين ركبتيه». فبلغ ذلك سعدا , فقال: صدق أخي كنا نفعل هذا , ثم أمرنا بهذا وجعل يديه على ركبتيه يعني في الركوع.

حدثنا محمد بن القاسم بن زكريا , حدثنا أبو كريب , ثنا ابن إدريس , عن عاصم بن كليب , بهذا , وقال: «فكبر ورفع يديه , فلما ركع طبق يديه بين ركبتيه» , فبلغ ذلك سعدا , فقال: صدق أخي كنا نفعل هذا ثم أمرنا بهذا ووضع الكفين على الركبتين. هذا إسناد ثابت صحيح
سنن الدارقطنی، 2۔137، ط: الرسالۃ

ان دو طرق میں ابو سعید الاشج اور ابو کریب ابن ادریس سے روایت کرتے ہیں اور الفاظ "علمنا" کے ہیں۔
بلکل جناب! ان طرق میں علمنا رسول اللہ ﷺ کے ہی الفاظ ہیں، ہم نے اس کی کب نفی کی ہے!
ہم ان الفاظ کی روایت کو بلکل درست مانتے ہیں!
ان آٹھ روات نے (امام احمد کے استاد یحیی بن آدم کے علاوہ یعنی کل نو روات نے) الفاظ نقل کیے ہیں "علمنا رسول اللہ ﷺ" اور کسی ایک نے بھی "الا اریکم صلاۃ رسول اللہ ﷺ" کے لفظ نقل نہیں فرمائے سوائے ایک کے اور وہ ہیں عبد اللہ بن سعید ابو سعید الاشج جن کے یہ الفاظ مسند البزار میں ہیں۔ اس پر آگے ذکر کرتا ہوں۔
جب نو راوی ایک روایت کو ایک لفظ سے نقل کریں اور دوسرے لفظ کا بالکل ذکر نہ کریں، نہ الگ اور نہ ایک ساتھ تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس روایت میں دونوں الفاظ موجود تھے؟ صرف اس بناء پر کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں؟ تو کیا ہر ایسا لفظ جو دوسرے کے خلاف نہ ہو اس کا اضافہ جائز ہے
میرے بھائی! نو روات کیا انیس روات بھی ہوں! جب یہ الفاظ متضاد نہیں اور روای بھی ثقہ ہے، تو پھر ثقہ کی زیادت ہے کس بلا کا نام؟
آپ خود رقم طراز تھے، مگر اب بھول گئے ہیں:
تیسرا اصول حدیث کا مشہور قاعدہ ہے کہ ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے (یعنی اگر شذوذ کی حد میں نہ آئے)۔ تو اگر یہ سفیان کی زیادتی ہے تب بھی معتبر ہی ہونی چاہئے۔
اور ان الفاظ میں کوئی تضاد نہیں یہ بات آپ کو بھی تسلیم ہے!
کیا راوی کو کوئی ایسا وہم نہیں لگ سکتا جو دوسرے الفاظ کے خلاف نہ ہو لیکن کثیر ثقہ روات اس کے علاوہ الفاظ روایت کریں؟
آپ کو پہلے بھی کہا تھا:
امکان در امکان تو بہت ہو سکتے ہیں، یہ بھی امکان ہو سکتا ہے دونوں کو غلطی ہوئی ہو اور ایک رفع الیدین کا ذکر بھی نہ کیا ہو! غلطی تو بہرحال ہو سکتی ہے نا!
لیکن ایسے امکانات کشید کرنا مناسب بات نہیں۔
جب ایک راوی ثقہ ہو، تو اس کی روایت یہ کہہ کر مشکوک باور نہیں کروائی جا سکتی، ممکن ہے اس سے غلطی ہو گئی ہو، جبکہ یقیناً کوئی بھی راوی غلطی سے پاک نہیں!
ہاں! اگر کسی ثقہ راوی کی روایت کے برخلاف ایسے قرائن موجود ہوں، کہ اس راوی کی روایت کو شاذ اور معلول قرار دیں، تو ایسی صورت میں اس روایت کو اس ثقہ راوی کا وہم ، غلطی و خطا قرارد یا جاتا ہے۔
تیسری بات:
بزار نے اس روایت کو نقل کیا ہے عبد اللہ بن سعید الاشج اور محمد بن العباس الضبعی سے۔ محمد بن العباس الضبعی كی تفصیل تو مجهے نہیں ملی۔ شاید یہ مجہول ہیں۔
اور عبد اللہ بن سعید الاشج سے ہی دارقطنی نے بواسطہ یحیی بن محمد بن صاعد سے یہ روایت نقل کی ہے اور یحیی بن محمد بن صاعد ثقہ ہیں جیسا کہ تاریخ اسلام للذہبی میں ہے۔ اس روایت میں بھی الفاظ "علمنا" کے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن میں ان (یعنی اشج) کی متابعت دیگر آٹھ روات نے بھی کی ہے اور یہی الفاظ ابن ادریسؒ کی کتاب میں بھی تھے جس سے انہوں نے روایت املاء کروائی۔ اس لیے یہی الفاظ درست ہیں۔
آپ نے یہ جو فیصلہ صادر فرمایا ہے، یہ بھی عجیب ہے، کہ ایک راوی اگر دو مختلف الفاظ میں روایت کرے جو متضاد بھی نہ ہوں تب بھی ایک ہی الفاظ کی روایت درست ہو گی، اور دوسری شاذ!

لہذا بندہ کے لیے تو یہی ظاہر و واضح ہے کہ اس روایت کے اصل الفاظ "علمنا رسول اللہ ﷺ الصلاۃ" ہیں نہ کہ "الا اریکم صلاۃ رسول اللہ ﷺ" اور نہ ہی یہ دونوں الفاظ۔
میرے بھائی! اگر ایسا معاملہ ہو تو قریباً تمام روایات کے الفاظ میں فرق ہے، تو صرف ایک ہی الفاظ ہی صحیح قرار دیا جا ئے اور باقی تمام کو شاذ قرار دینا پڑے! کیو ں کہ اکثر روایات صحابہ سے روایت کرنے والے تابعین کے الفاظ میں بھی فرق پایا جاتا ہے، اور یہ فرق آگے جا کر بھی آتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ایک حدیث کو روایت کرتے ہوئے صحابہ کے الفاظ میں بھی فرق پایا جاتا ہے!
میرے بھائی کو محفوظ اور شاذ کے معاملہ کو سمجھنے میں بہت بڑی غلط فہمی لاحق ہے!
ویسے آپ کا سوال ہی آپ سے کرتا ہوں:
کیا اس حدیث کی ان الفاظ کی روایت کو محدثین نے شاذ قرار دیا ہے؟
اگر آپ کو اس بات پر مزید کوئی اشکال نہ ہو تو ہم آگے چلتے ہیں اور میں اپنی اس پوسٹ کی وضاحت کرتا ہوں جس پر آپ نے کلام فرمایا تھا یعنی 137۔
میرے بھائی! مجھے کوئی اشکال نہیں، بلکہ میں بغیر اشکال کے آپ کی بیان کردہ بات کو باطل سمجھتا ہوں!
آپ مسند البزار کی راویت کو شاذ ثابت کرنے کے لئے دیگر روایات سے تضاد بیان کریں، اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ ان میں تضاد نہیں؛
علمنا رسول اللہ ﷺ الصلاۃ کا ترجمہ: "ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز سکھائی"۔
الا اریکم صلاۃ رسول اللہ صلی علیہ و سلم کا ترجمہ: " کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟"
ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد واقعی نہیں ہے۔
اس کے باجود ایک روایت کو دوسری کے مقابلہ میں شاذ قرار دینے کی ضد چہ معنی دارد!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرے بھائی! جب ان الفاظ میں کوئی تضاد نہیں ہے ، تو اسے شاذ قرار دینے کی ضد کیوں لگا رکھی ہے؟
میرے بھائی! آپ میرے خیال میں شاذ اور زیادات ثقہ میں خلط کر گئے ہیں۔ شاذ کے اندر صرف مخالفت کی شرط ہے منافاۃ اور تضاد کی شرط نہیں ہے اور مخالفت عام ہے جب کہ منافاۃ خاص ہے۔ عبد الرحمان مبارکپوریؒ نے یہ منافاۃ کی شرط لگائی ہے لیکن اس شرط کو لگانے سے بے شمار شاذ روایات شذوذ سے نکل جاتی ہیں جنہیں محدثین نے شاذ کہا ہے، خصوصاً جس کی سند میں شذوذ ہو وہ تو کبھی شاذ نہیں رہے گی کیوں کہ ہر روایت دو اسناد سے مروی ہو سکتی ہے۔

ابو الحسن سلیمانی ماربی اتحاف النبیل میں لکھتے ہیں:

فهم كثير من طلبة العلم أن المراد بالمخالفة هنا أن يروي الراوي رواية لا يمكن الجمع بينها وبين رواية من هو أوثق منه ,وهذا ليس بسديد علي طريقة الحذاق من أهل الحديث والمتتبع لصنيعهم يجدهم يطلقون الشذوذ علي أحاديث لا تكاد تحصي مع إمكان الجمع علي طريقة الفقهاء , فالمراد بالمخالفة أي زيادة في اللفظ تحمل زيادة في المعني , فعند ذلك تحّكم القواعد لينظر المحفوظ من الشاذ والله أعلم
اتحاف النبیل، 1۔46، ط: مکتبۃ الفرقان
" طلبہ علم میں بہت سارے یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مخالفت سے مراد یہ ہے کہ راوی ایسی روایت کرے کہ اس کی اور اس سے زیادہ ثقہ کی روایت میں جمع کرنا ممکن نہ ہو۔ یہ ماہر محدثین کے طریقہ پر درست نہیں ہے۔ اور ان کے طریقہ کار کو دیکھنے والا انہیں ایسی احادیث پر شذوذ کا اطلاق کرتا ہوا پاتا ہے جو بے شمار ہیں حالانکہ ان میں فقہاء کے طریقہ پر جمع ممکن ہے۔ تو مخالفت سے مراد ہے لفظ میں کوئی بھی زیادتی جو معنی میں زیادتی لے آئے۔ ایسی صورت میں قواعد کو فیصل بنایا جاتا ہے تاکہ محفوظ کو شاذ سے جدا دیکھا جائے۔ واللہ اعلم"
یہ کتاب شیخ مقبل کی تقدیم کے ساتھ مطبوع ہے۔

علامہ مبارکپوریؒ نے جو قید اخذ کی تھی اس پر ایک عالم نے رد کیا ہے جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
https://books.google.com.sa/books?id=EA5JCwAAQBAJ&pg=PT186&lpg=PT186&dq=المراد+من+المخالفة+في+الشاذ&source=bl&ots=qp7Do4jwd3&sig=LUGXsANLMDyTqz3vbl7LVMixYyo&hl=ar&sa=X&ved=0ahUKEwiYm_HJ8OLNAhXGWxQKHZMkCZ0Q6AEIQDAF#v=onepage&q=المراد من المخالفة في الشاذ&f=false

سیوطیؒ نے تدریب الراوی میں شاذ کی ایک مثال ذکر کی ہے:
ومن أمثلته في المتن: ما رواه أبو داود، والترمذي من حديث عبد الواحد بن زياد، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة مرفوعا: «إذا صلى أحدكم ركعتي الفجر فليضطجع عن يمينه» .
قال البيهقي: خالف عبد الواحد العدد الكثير في هذا، فإن الناس إنما رووه من فعل النبي - صلى الله عليه وسلم - لا من قوله: وانفرد عبد الواحد من بين ثقات أصحاب الأعمش بهذا اللفظ.
تدریب الراوی، 1۔271، ط: دار طیبہ
"اور متن میں اس کی مثالوں میں سے یہ ہے جو روایت کیا ہے ابو داود اور ترمذی نے عبد الواحد بن زیاد عن الاعمش عن ابی صالح عن ابی ہریرۃ کی سند سے مرفوعا: جب تم میں سے کوئی ایک فجر کی دو رکعتیں پڑھ لے تو اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جائے۔
بیہقیؒ فرماتے ہیں: عبد الواحد نے اس میں ایک بڑی تعداد کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے اسے نبی ﷺ کے فعل سے روایت کیا ہے قول سے نہیں۔ اور عبد الواحد اس لفظ میں اعمش کے ثقہ اصحاب میں منفرد ہے۔"

اگر آپ کا اصول لیا جائے تو دونوں روایات میں کوئی منافاۃ یا تضاد نہیں ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کا فعل مبارک تو ہے ہی، ساتھ میں قول بھی ہو سکتا ہے جسے عبد الواحد نے روایت کیا ہے۔ اس میں تضاد کیا ہے؟ لیکن یہ پھر بھی شاذ کی مثال ہے۔

اس لیے زرکشیؒ نے ایک اور تعریف بھی ذکر کی ہے:
وَجرى الميانشي على طَرِيق الْمُحدثين فَقَالَ الشاذ أَنه يرويهِ راو مَعْرُوف لكنه لَا يُوَافقهُ على رِوَايَته المعروفون
النكت للزركشی، 2۔139، ط: اضواء السلف
" اور میانشی (و قیل: میانجی۔۔۔۔۔۔ مترجم) محدثین کے طریقہ پر چلے ہیں تو فرمایا: شاذ وہ ہے جسے معروف راوی روایت کرے لیکن اس کی روایت پر معروف روات موافقت نہ کریں۔"
میانجیؒ محدث حرم ہیں۔ ان کے بارے میں علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں:
كان محدِّثًا متقِنًا صالحًا، صنَّف جزءًا فِي " ما لا يسع المحدث جهله "
تاریخ الاسلام، 12۔ 736، ط: دار الغرب
اسی رسالہ "مالا یسع المحدث جہلہ" میں انہوں نے شاذ کی یہ تعریف کی ہے جو علی حسن علی کی تحقیق کے ساتھ ثلاث رسائل کے عنوان سے مطبوع ہے۔ اس کے صفحہ 29 پر یہ تعریف ہے۔
اس تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ مخالفت سے مراد یہ ہے کہ دیگر رواۃ نے ان کے موافق روایت نہ کی ہو۔ باقی ان کے متضاد روایت کی ہو یا نہ کی ہو اس سے بحث نہیں۔ اور زرکشیؒ نے اسے محدثین کا طریقہ قرار دیا ہے۔

باقی منافاۃ کی جو بحث کی گئی ہے وہ زیادت ثقہ کے مسئلہ میں کی گئی ہے۔ اور زیادت ثقہ کہتے ہیں:
وإذا روى العدل زيادة على ما روى غيره فسواء انفرد بها أو شاركه فيها غيره مثله أو دونه أو فوقه فالأخذ بتلك الزيادة فرض
الاحكام لابن حزم، 2۔90، ط: دار الآفاق الجدیدۃ
"اور جب عادل راوی کوئی زیادتی روایت کرے اس (روایت) پر جو اس کے علاوہ نے روایت کی، چاہے وہ اس میں منفرد ہو یا اس میں اس کے علاوہ کوئی شریک ہو اس جیسا یا اس سے کم زیادہ تو اس زیادتی کو لینا فرض ہے۔"
زیادت ثقہ کا جو "حکم" ابن حزمؒ نے اس عبارت میں بیان کیا ہے وہ تو مذہب مرجوح ہے لیکن ہمارا مقصود "تعریف" لینا ہے۔ اور تعریف میں یہ بات واضح ہے کہ دو راوی ایک روایت بیان کریں اور ایک اس میں کوئی زیادتی کرے۔
زیادت ثقہ میں زیادتی کا ذکر ہے لیکن باقی روایت میں پہلے راوی کی موافقت کے ساتھ تاکہ وہ زیادتی ہو وہ تبدیلی نہ ہو۔
زیادت ثقہ اور شاذ میں فرق کے ساتھ ساتھ زیادت ثقہ کی تعریف آپ اس مختصر بحث میں بھی پڑھ سکتے ہیں:
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=314700

اوپر کی اس مختصر بحث سے دو چیزیں واضح ہوتی ہیں:
1۔ شاذ روایت کے لیے دیگر ثقات کے مخالف یا غیر موافق ہونا ضروری ہے منافی ہونا ضروری نہیں۔
2۔ زیادت ثقہ اگر دیگر روات کے منافی ہو تو اسے شاذ کہا جاتا ہے۔ لیکن زیادت ثقہ میں دو راوی ایک روایت میں متفق ہوتے ہیں اور پھر ایک راوی اس میں زیادتی کرتا ہے۔

اب آپ کا سوال دوبارہ دیکھتے ہیں:
میرے بھائی! جب ان الفاظ میں کوئی تضاد نہیں ہے ، تو اسے شاذ قرار دینے کی ضد کیوں لگا رکھی ہے؟
اس لیے کہ یہ زیادت ثقہ کے قبیل سے نہیں ہے کیوں کہ:
اشج یا الضبعی کی روایت:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا أُرِيَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا رَكَعَ طَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ» ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
اور دیگر کی روایت:
حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ

ان دونوں میں موافقت ہی نہیں ہے۔ بلکہ دونوں کے الفاظ میں فرق ہے۔ اگر موافقت ہوتی اور پھر اشج نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہوتا تو ہم اسے زیادت ثقہ کہتے۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ اشج یا الضبعی نے الفاظ ہی مختلف ذکر کیے ہیں۔

اور جب یہ زیادت ثقہ کے قبیل سے نہیں ہے تو شاذ ہونے کے لیے مخالفت یا غیر موافقت ہونی چاہیے اور وہ پائی جاتی ہے۔ "الا اریکم" کے الفاظ میں ثقات نے ان کی موافقت نہیں کی بلکہ ان کے خلاف (متضاد نہیں، فقط خلاف) "علمنا" کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔

اور اگر آپ کہیں کہ یہ مختلف نہیں بلکہ روایت بالمعنی ہے اور دونوں میں موافقت ہے تو آپ کے اگلے اقتباس کے تحت میں عرض کرتا ہوں:
آپ کا یہ کہنا کہ دونوں کا مطلب ایک جیسا بھی نہیں ہے، یہ آپ کی کلام کو سمجھنے میں کمی وکمزوری ہے! بالفاظ دیگر حدیث کی فہم و فقہ میں کمی ہے!
تو پھر ثابت کیجیے کہ دونوں کا معنی ایک جیسا ہے۔ اللہ اعلم بحالی و بحالکم

میرے بھائی! میں نے کب یہ کہا ہے کہ میرے اس مؤقف کی بنیاد میرا بیان کیا گیا جمع ہے!
میں آپ کی عبارت نقل کر رہا ہوں:
س میں کوئی تضاد نہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی ہے،

کیا میں تمہیں رسول ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟
پھر نماز پڑھ کر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔



یہ جو دو جملے میں نے ہائیلائٹ کیے ہیں یہ ایک ہی روایت میں نہیں ہیں بلکہ الگ الگ روایات میں ہیں۔ اگر آپ نے جمع بھی نہیں کیا اور ایک ہی روایت میں یہ ہیں بھی نہیں تو پھر آپ کا موقف کیا ہے؟

جو امام بخاری ؒ، امام مسلم ؒ اور امام دارقطنیؒ نے سفیان ثوری ؒ کی روایت کو شاذ وضعیف قرار دیا ہے، ان کی اس بات کو آپ نے مان لیا!
لیس علیک ھذا۔ آپ سے جو عرض کیا ہے اگر آپ وہ دے دیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔
باقی میں اس میں منفرد نہیں ہوں بلکہ زیلعیؒ، ابن ہمامؒ، عینیٌ اور ملا علی قاریؒ نے بھی یہی بات مختلف دلائل اور پیرایوں میں کی ہے۔ ان کی کتب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اور اضافہ علم کے لیے درخواست ہے کہ اگر اس سلسلے میں امام مسلمؒ کا قول موجود ہے تو مجھے وہ بھی بتا دیجیے۔

اس طرح کی باتیں صرف بے وزن باتوں میں وزن پیدا کرنے کے لئے، ہوا بھرنے کے مترادف ہے! ورنہ ماننی تو صرف وہی بات ہے ، جو فقہ حنفی کی موافقت میں ہو!
اگر میں یہاں دفاع مسلک کر رہا ہوتا تو میرے پاس اس حدیث کی تائید میں اور بھی دلائل ہیں اور صحیح اسناد سے ثابت حضرت ابن مسعود رض اور علی رض کے عمل بھی۔ اس کے علاوہ جو دارقطنی کی عبارت میں ابن ادریسؒ کا آپ نے ذکر کیا تھا وہ مجھے بھی نظر آیا تھا۔
لیکن میں صرف اس حدیث کی تحقیق کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے آپ کی خدمت میں یہاں حاضر ہوں۔ اگر صحیح طرح جواب ارشاد فرمائیں تو شکر گزار ہوں گا ورنہ صرف اشکال پیش کر دوں گا۔ جب کبھی مسالک کے گھن چکر سے نکل کر صرف تحقیق حدیث کا موقع ملے اور یہ خیال ہو کہ یہ نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام رض کے اقوال و افعال ہیں تو غور فرما لیجیے گا۔
باقی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی روایت پر عمل ترک کرنے کے لیے اس کو ضعیف کرکے ہی چھوڑا جائے۔ ترجیح کا عمل بھی ہوتا ہے۔

میں نے اپنی فہم کے مطابق ان الفاظ کا ایک ممکنہ جمع بیان کیا ہے، اگر اس میں کوئی نقص ہو تو بتلائیے! اور اس ممکنہ جمع کے غلط ہونے کی صورت میں بھی، یہ روایات متضاد نہیں ہو جاتی! اور یہ بات تو آپ نے بھی تسلیم کی ہے!
اس میں نقص میں نے عرض کر دیا کہ یہ روایت شاذ ہے اور شاذ میں تضاد کی موجودگی ضروری نہیں ہوتی۔ آپ سے کسی محدث کا قول اس بارے میں مانگنے کا مطلب یہ تھا کہ مجھے ذاتی طور پر اس کے شاذ ہونے کی وجہ سے آپ کی اس جمع سے شدید اختلاف ہے۔ اور میرا نہیں خیال کہ یہ محدثین کے یہاں جمع کا کوئی قابل قبول طریقہ ہے۔ اس لیے اگر کبار علمائے حدیث میں سے کسی نے اس طرح مذکورہ روایات کو جمع کیا ہے اور دوسروں نے اس کا رد نہیں کیا تو پھر تو ٹھیک ہے۔ ورنہ میں اسے ہرگز درست نہیں سمجھتا۔

بلکل جناب! ان طرق میں علمنا رسول اللہ ﷺ کے ہی الفاظ ہیں، ہم نے اس کی کب نفی کی ہے!
ہم ان الفاظ کی روایت کو بلکل درست مانتے ہیں!
میرے بھائی! نو روات کیا انیس روات بھی ہوں! جب یہ الفاظ متضاد نہیں اور روای بھی ثقہ ہے، تو پھر ثقہ کی زیادت ہے کس بلا کا نام؟
دوبارہ عرض ہے کہ زیادت ثقہ یہ ہوتی ہے کہ دو راوی ایک روایت پر متفق ہوں اور ایک اس میں اضافہ روایت کرے، چاہے سند میں اور چاہے متن میں۔ نہ کہ ایک راوی الگ الفاظ روایت کرے اور دوسرا الگ الفاظ روایت کرے اور ہم دونوں کو جمع قرار دے کر یکجا کر کے ایک ایسی روایت بنا لیں جس کا کتب حدیث میں کوئی وجود ہی نہ ہو۔

آپ نے یہ جو فیصلہ صادر فرمایا ہے، یہ بھی عجیب ہے، کہ ایک راوی اگر دو مختلف الفاظ میں روایت کرے جو متضاد بھی نہ ہوں تب بھی ایک ہی الفاظ کی روایت درست ہو گی، اور دوسری شاذ!
محترم بھائی! یہاں میں نے "شاذ" کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اگر ایک راوی کبھی ایک متن اور کبھی دوسرا متن ذکر کرے اور دونوں ہم معنی نہ ہوں اور روایت ایک ہی ہو تو وہ اس تعریف کے تحت آتا ہے:
وإن وقع في إسناد أو متن اختلاف من الرواة بتقديم أو تأخير أو زيادة أو نقصان أو إبدال راو مكان راو آخر أو متن مكان متن أو تصحيف في أسماء السند أو أجزاء المتن أو باختصار أو حذف أو مثل ذلك فالحديث مضطرب
مقدمۃ فی اصول الحدیث، 1۔49، ط: دار البشائر
" اور اگر اسناد یا متن میں رواۃ کی طرف سے کوئی اختلاف پایا جائے تقدیم یا تاخیر یا زیادتی یا کمی یا ایک راوی کی جگہ دوسرا راوی ذکر کرنے یا ایک متن کی جگہ دوسرا متن ذکر کرنے یا سند کے اسماء میں یا متن کے اجزاء میں تصحیف یا اختصار یا حذف یا اس جیسی کسی چیز کی وجہ سے تو حدیث مضطرب ہے۔"
اس میں بھی متضاد کی کوئی قید نہیں ہے۔

لیکن میرا خیال یہ ہے کہ یہ حدیث مضطرب نہیں ہے۔بلکہ بزار نے اس روایت کو نقل کیا ہے دو اشخاص سے۔ ابو سعید الاشج اور محمد بن العباس الضبعی۔ بزار نے وضاحت نہیں کی کہ یہ روایت انہوں نے کس کے الفاظ میں نقل کی ہے اور ایسی صورت میں دونوں باتیں برابر ہیں کہ یہ روایت اشج کے الفاظ میں ہو یا الضبعی کے۔ اس کی وضاحت ہوتی ہے دار قطنی کی روایت میں جو صرف اشج سے منقول ہے اور اس کے الفاظ ہیں "علمنا۔۔۔۔۔الخ"۔ جب اشج کے الفاظ متعین ہو گئے تو بزار کی روایت میں صرف الضبعی رہ گئے جن کے یہ الفاظ ہیں۔ اور الضبعی مجہول ہیں۔

میرے بھائی! اگر ایسا معاملہ ہو تو قریباً تمام روایات کے الفاظ میں فرق ہو تو صرف ایک ہی الفاظ ہی صحیح قرار دیا جا ئے اور باقی تمام کو شاذ قرار دینا پڑے! کیو ں کہ اکثر روایات صحابہ سے روایت کرنے والے تابعین کے الفاظ میں بھی فرق پایا جاتا ہے، اور یہ فرق آگے جا کر بھی آتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ایک حدیث کو روایت کرتے ہوئے صحابہ کے الفاظ میں بھی فرق پایا جاتا ہے!
میرے بھائی کو محفوظ اور شاذ کے معاملہ کو سمجھنے میں بہت بڑی غلط فہمی لاحق ہے!
میرے بھائی! میرا خیال ہے کہ اب میں واضح کر چکا ہوں کہ مجھے شاذ و محفوظ کے سلسلے میں کوئی غلط فہمی لاحق نہیں ہے اور شاذ کی چاروں تعریفات سمیت اس سے متعلق اکثر ابحاث میری نظر میں ہیں۔ باقی جو آپ نے ارشاد فرمایا کہ قریباً تمام روایات کے الفاظ میں فرق ہو تو تمام کو شاذ کہنا پڑے تو یہ درست نہیں ہے۔ شاذ کی مثالیں کثیر ہیں جو کتب حدیث اور اصول حدیث میں مذکور ہیں۔ ان میں زیادتی ثقہ کی وجہ سے شاذ و محفوظ بھی موجود ہیں اور نقصان کی وجہ سے بھی۔ اور تبدیلی کی وجہ سے بھی۔
اور جہاں اختلاف ہے لیکن شاذ نہیں ہیں تو اس کی مثالیں بھی کافی ہیں۔ اس لیے کوئی اس میں الجھ نہیں سکتا۔

ویسے آپ کا سوال ہی آپ سے کرتا ہوں:
کیا اس حدیث کی ان الفاظ کی روایت کو محدثین نے شاذ قرار دیا ہے؟
عمدہ سوال ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سوائے بزار کے متقدمین میں سے کسی نے اس روایت کو الا اریکم کے الفاظ سے ذکر نہیں کیا۔ اور متاخرین میں مجھے اس کا ذکر عینیؒ کی نخب الافکار کے علاوہ کسی میں نہیں ملا۔ اور عینی علی سبیل التسلیم اسی صفحے پر پہلے ہی اس کو بغیر ذکر کیے رد کرچکے ہیں۔ پھر عینی ؒ نے یہ سمجھا ہے کہ بیہقی کی مراد یہ والی سند ہے ورنہ بیہقی نے یہ حدیث جو السنن الکبری میں روایت کی ہے وہ عثمان بن ابی شیبہ عن ابن ادریس کی سند سے "علمنا" کے الفاظ والی ہے (اس سند سے اس روایت کو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں)۔ اس لیے عینیؒ سے اس کو سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہے۔
جب محدثین میں سے کسی نے اسے روایت ہی نہیں کیا نہ ان کے یہاں اس کا کوئی ذکر تھا تو وہ اس کو شاذ کیسے قرار دیتے؟ یہ تو بزار نے اپنے مجہول استاد سے روایت کی ہے جنہیں شاید مغالطہ لگ گیا۔ باقی کسی محدث کے پاس یہ حدیث اس حالت میں پہنچی ہی نہیں۔ ورنہ وہ اس بحث میں اس کا ذکر ضرور کرتے۔

میرے بھائی! مجھے کوئی اشکال نہیں، بلکہ میں بغیر اشکال کے آپ کی بیان کردہ بات کو باطل سمجھتا ہوں!
آپ مسند البزار کی راویت کو شاذ ثابت کرنے کے لئے دیگر روایات سے تضاد بیان کریں، اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ ان میں تضاد نہیں؛
جی میں نے یہی عرض کیا ہے کیوں کہ شذوذ کے لیے تضاد لازمی نہیں ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جو امام بخاری ؒ، امام مسلم ؒ اور امام دارقطنیؒ نے سفیان ثوری ؒ کی روایت کو شاذ وضعیف قرار دیا ہے، ان کی اس بات کو آپ نے مان لیا!
ایک چھوٹا سا اضافہ کروں گا۔ شاذ روایت ضعیف نہیں بلکہ مرجوح ہوتی ہے اور راجح کو محفوظ کہتے ہیں۔ یعنی جب مرجوح ہوتی ہے تو مرجوح کو قرائن کی بنیاد پر ترجیح بھی مل سکتی ہے۔
قال فی فتح المغیث:
فإن خولف - أي: الراوي - بأرجح منه لمزيد ضبط أو كثرة عدد أو غير ذلك من وجوه الترجيحات - فالراجح يقال له: المحفوظ، ومقابله وهو المرجوح، يقال له: الشاذ

قرائن یہاں موجود ہیں یا نہیں تو جب سفیان کی روایت پر بات کریں گے تب عرض کروں گا۔ ابھی تو ابن ادریس کی روایت کی بات مکمل ہو جائے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی اشماریہ بھائی، میں دو دن میں ان شاء اللہ آگے لکھتا ہوں! اس ہفتہ ذرا مصروفیت زیادہ ہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک چھوٹا سا اضافہ کروں گا۔ شاذ روایت ضعیف نہیں بلکہ مرجوح ہوتی ہے اور راجح کو محفوظ کہتے ہیں۔ یعنی جب مرجوح ہوتی ہے تو مرجوح کو قرائن کی بنیاد پر ترجیح بھی مل سکتی ہے۔
قال فی فتح المغیث:
فإن خولف - أي: الراوي - بأرجح منه لمزيد ضبط أو كثرة عدد أو غير ذلك من وجوه الترجيحات - فالراجح يقال له: المحفوظ، ومقابله وهو المرجوح، يقال له: الشاذ
اب میں کیا کہوں! جب کوئی اپنی خواہش کے مطابق کلام کے بلکل غلط معنی اخذ کرنے کی ٹھان ہی لے!

یہ بات بھی معلوم ہو کہ دراصل یہ بات ابن حجر العسقلانی نے کہی ہے :
وَزِيَادَةُ رَاوِيهِمَا مَقْبُولَةٌ مَا لَمْ تَقَعْ مُنَافِيَةً لِـمَنْ هُوَ أَوْثَقُ. فَإِنْ خُولِفَ بِأَرْجَحَ فَالرَّاجِحُ الْمَحْفُوظُ، وَمُقَابِلُهُ الشَّاذُّ، وَمَعَ الضَّعْفِ فَالرَّاجِحُ الْمَعْرُوفُ، وَمُقَابِلُهُ الْمُنْكَرُ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 82 نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار ابن حزم

اور حدیثِ حسن وصحیح کے رُوات کی زیادتی مقبول، ہے جب تک منافی نہ ہو، زیادتی اُس راوی کے (درمیان کے) جو (اُس سے) اوثق (ثقاہت و اعتبارمیں بڑھا ہوا) ہے۔ پھر اگر مخالفت کیاگیا وہ اَرجح (برتر) کے ذریعہ، تو راجح ''محفوظ'' ہے اور اس کی بالمقابل (روایت) ''شاذ ہے، اور ضعف کے ساتھ راجح ''معروف ہے اور اس کی بالمقابل (روایت) ''منکر'' ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19تحفة الدُّرر شرح نخبة الفكر – سعید احمد پالنپوری – قدیمی کتب خانہ، کراچی

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19 تحفة الدُّرر شرح نخبة الفكر – سعید احمد پالنپوری – مکتبہ عمر فاروق، کراچی

اور یہی ابن حجر العسقلانی شاذ حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں:

قَوْلُهُ مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ تَقَدَّمَ فِي أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ الرَّدُّ عَلَى مَنْ زَعَمَ أَنَّهَا أَرْبَعُ نَفَخَاتٍ وَحَدِيثُ الْبَابِ يُؤَيِّدُ الصَّوَابَ قَوْلُهُ أَرْبَعُونَ قَالُوا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا لَمْ أَقِفْ عَلَى اسْمِ السَّائِلِ قَوْلُهُ أَبَيْتُ بِمُوَحَّدَةٍ أَيِ امْتَنَعْتُ عَنِ الْقَوْلِ بِتَعْيِينِ ذَلِكَ لِأَنَّهُ لَيْسَ عِنْدِي فِي ذَلِكَ تَوْقِيفٌ وَلِابْنِ مَرْدَوَيْهِ مِنْ طَرِيقِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ الْأَعْمَشِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ أَعْيَيْتُ مِنَ الْإِعْيَاءِ وَهُوَ التَّعَبُ وَكَأَنَّهُ أَشَارَ إِلَى كَثْرَةِ مَنْ يَسْأَلُهُ عَنْ تَبْيِينِ ذَلِكَ فَلَا يُجِيبُهُ وَزَعَمَ بَعْضُ الشُّرَّاحِ أَنَّهُ وَقَعَ عِنْدَ مُسْلِمٍ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَلَا وجود لذَلِك نعم أخرج بن مَرْدَوَيْهِ مِنْ طَرِيقِ سَعِيدِ بْنِ الصَّلْتِ عَنِ الْأَعْمَشِ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ أَرْبَعُونَ سَنَةً وَهُوَ شَاذ وَمن وَجه ضَعِيف
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 550 جلد 10 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الطيبة للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 424 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 552 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 552 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة السلفية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 448 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار إحياء التراث العربي، بيروت

مزید دیکھئے:

قبول اور رد کے حوالہ سے حدیث کی بنیادی اقسام:

احادیث کی تقسیم مختلف لحاظ سے کی جاتی ہے، جس میں سے ایک تقسیم احادیث کے مقبول ومردود ہونے کے حوالہ سے ہے، أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم بن الحسين العراقي (المتوفى: 806هـ) فرماتے ہیں:
وَأَهْلُ هَذَا الشَّأْنِ قَسَّمُوا السُّنَنْ ... إلى صَحِيْحٍ وَضَعِيْفٍ وَحَسَنْ
اس امر کے اہل لوگوں نے (یعنی کہ محدثین نے) سنن کو (یعنی کہ احادیث کو) تقسیم کیا ہے ٭٭٭ صحیح، ضعیف اور حسن میں
ملاحضہ فرمائیں: صفحه 93 ألفية العراقي المسماة بـ: التبصرة والتذكرة في علوم الحديث - أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم بن الحسين العراقي (المتوفى: 806هـ) - مكتبة دار المنهاج للنشر والتوزيع، الرياض


یعنی کہ احادیث کی تین بنیادی قسمیں ہیں؛ صحیح، حسن اور ضعیف؛ تمام احادیث ان تین اقسام پر منقسم ہیں، یعنی کہ کوئی بھی حدیث یا تو وہ صحیح ہو گی، یا حسن ہو گی یا پھر وہ ضعیف ہو گی۔ باقی جو دیگر اقسام معروف ہیں وہ تمام کی تمام اقسام اس بنیادی تقسیم کی ذیل میں ہیں۔


صحیح لذاته:
وہ حدیث جس کے کُل راوی عادل کامل الضبط ہوں اور اس کی سند متصل ہو، معلّل وشاذ ہونے سے محفوظ ہو۔
حسن لذاته: وہ حدیث ہے جس کے راوی میں صرف ضبط ناقص ہو، باقی سب شرائط لذاتہٖ کی اس میں موجود ہوں۔
ضعيف: وہ حدیث جس کے راوی میں حدیث صحیح وحسن کے شرائط نہ پائے جائیں۔
۔۔۔
۔۔۔

شاذ: وہ حدیث ہے جس کا راوی خود ثقہ ہو مگر ایک ایسی جماعتِ کثیر کی مخالفت کرتا ہو جو اس سے زیادہ ثقہ ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 7 خیر الاصول فی حدیث الرسول – خیر محمد صاحب جالندھری - مکتبۃ البشری، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 4 - 5خیر الاصول فی حدیث الرسول – خیر محمد صاحب جالندھری - نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی


صحیح وحسن کے لئے شذوذ سے محفوظ ہونا لازم ہے، لہٰذا کوئی شاذ حدیث نہ صحیح ہو سکتی ہے اور نہ حسن، وہ ہر صورت ضعیف ہی ٹھہرے گی۔

اور محدثین نے اسے باقاعدہ صراحت سے ضعیف کی اقسام میں شمار کیا ہے:

النوع الثالث
الحديث الضعيف

قال: وهو ما لم يجتمع فيه صفات الصحيح، ولا صفات الحسن المذكورة كما تقدم.
ثم تكلم على تعداده وتنوعه لاعتبار فقده واحدة من صفات الصحة أو أكثر، أو جميعها.
فينقسم جنسه إلى: الموضوع، والمقلوب، والشاذ، والمعلل، والمضطرب، والمرسل، والمنقطع، والمعضل، وغير ذلك.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 121 اختصار علوم الحديث - أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ) - الميمان للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 42 الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث - أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 142 الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث - أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ) - مكتبة المعارف، الریاض



(03) تیسری قسم: ضعیف حدیث
(ابن الصلاح نے) کہا: جس روایت میں (مقبول حدیث) صحیح اور حسن کی سابقہ مذکورہ شرائط جمع نہ ہوں وہ ضعیف حدیث ہوتی ہے۔
پھر انہوں نے ضعیف روایات کی تعداد اور صحیح کی ایک یا اکثر یا ساری شرائط کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مختلف قسموں پر کلام کیا۔
اس لحاظ سے ضعیف حدیث: موضوع، مقلوب، شاذ، معلل (معلول)، مضطرب، مرسل، منقطع اور معطل وغیرہ اقسام میں منقسم ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 32 اختصار علوم الحدیث (ترجمہ اردو) -أبو الفداء اسمٰعيل بن عمر بن كثير الدمشقي -مترجم حافظ زبیر علی زئی - مکتبہ اسلامیہ

النَّوْعُ الثَّالِثُ
مَعْرِفَةُ الضَّعِيْفِ مِنَ الحَدِيْثِ

كُلُّ حديثٍ لَمْ يَجتمعْ فيهِ صفاتُ الحديثِ الصحيحِ، ولا صفاتُ الحديثِ الحسَنِ - المذكوراتُ فيما تقدَّمَ - فهو حديثٌ ضعيفٌ. وأطنبَ أبو حاتِمِ بنِ حِبَّانَ البُسْتِيُّ في تقسيمِهِ، فبلغَ بهِ خمسينَ قسماً إلاَّ واحداً، وما ذكرتُهُ ضابطٌ جامعٌ لجميعِ ذلكَ.
وسبيلُ مَنْ أرادَ البَسْطَ أنْ يَعْمَدَ إلى صفةٍ مُعَيَّنةٍ منها؛ فيجعلَ ما عُدِمَتْ فيهِ مِنْ غيرِ أنْ يَخلُفَها جابرٌ -على حسبِ ما تقرَّرَ في نوعِ الحسَنِ-: قسماً واحداً، ثُمَّ ما عُدِمَتْ فيهِ تلكَ الصفةُ معَ صفةٍ أخرى معيَّنةٍ: قسماً ثانياً، ثمَّ ما عُدِمَتْ فيهِ معَ صفتينِ معيَّنَتَيْنِ: قسماً ثالثاً،
... ، وهكذا إلى أن يستوفيَ الصفاتِ المذكوراتِ جُمَعَ، ثُمَّ يَعودَ ويُعيِّنَ مِنَ الابتداءِ صفةً غيرَ التي عيَّنها أوَّلاً، ويجعلَ ما عُدِمَتْ فيهِ وَحْدَها قِسْماً، ثُمَّ القسمَ الآخرَ ما عُدِمَتْ فيهِ مَعَ عدمِ صفةٍ أخرى، ولتكنِ الصفةُ الأخرى غيرَ الصفةِ الأولى المبدوءِ بها؛ لكونِ ذلكَ سبَقَ في أقسامِ عدمِ الصفةِ الأولى، وهكذا هَلُمَّ جَرّاً إلى آخرِ الصفاتِ.
ثُمَّ ما عُدِمَ فيهِ جميعُ الصفاتِ هوَ القسمُ الأَخِرُ الأرذَلُ. وما كانَ مِنَ الصِّفاتِ لهُ شروطٌ، فاعملْ في شروطِهِ نحوَ ذلكَ، فتتضاعفَ بذلكَ الأقسامُ.
والذي لهُ لقَبٌ خاصٌّ معروفٌ منْ أقسامِ ذلكَ: الموضوعُ، والمقلوبُ، والشاذُّ، والمعلَّلُ، والمضطربُ والمُرسلُ، والمنقطِعُ، والمُعضلُ - في أنواعٍ - سيأتي عليها الشرحُ إنْ شاءَ اللهُ تعالى.

والملحوظُ فيما نورِدُهُ مِنَ الأنواعِ: عمومُ أنواعِ علومِ الحديثِ لا خصوصُ أنواعِ التقسيمِ الذي فرَغْنا الآنَ مِنْ أقسامِهِ، ونسألُ اللهَ تباركَ وتعالى تعميمَ النَّفْعِ بهِ في الدارينِ، آمينَ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 111 - 113 معرفة أنواع علوم الحديث المعروف بالمقدمة ابن الصلاح - عثمان بن عبد الرحمن، أبوعمرو، تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 41 - 42 معرفة أنواع علوم الحديث المعروف بالمقدمة ابن الصلاح - عثمان بن عبد الرحمن، أبوعمرو، تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) - دار الفكر، دمشق


کم از کم ''خیر الأصول'' کو ہی اچھی طرح سمجھ لیا ہوتا! کہ ضعیف حدیث کیا ہوتی ہے!!
میرے لئے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ کسی حنفی مقلد کو علم الحدیث کی بنیادی باتیں بھی معلوم نہ ہوں؛ ہاں عجیب بات یہ ہے کہ کس کس انداز سے اپنے مطالب کشید کرنے کی سعی کی جاتی ہے!
جس عبارت سے شاذ کے ضعیف نہ ہونا کشید کرنے کی سعی کی گئی ہے، اس سے پہلے شاذ کی تعریف کو بھی خوب نظر انداز کیا گیا ہے! اس کی تفصیل آگے آرہی ہے!
قرائن یہاں موجود ہیں یا نہیں تو جب سفیان کی روایت پر بات کریں گے تب عرض کروں گا۔ ابھی تو ابن ادریس کی روایت کی بات مکمل ہو جائے۔
ایں خیال است ومحال است وجنون!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے بھائی! آپ میرے خیال میں شاذ اور زیادات ثقہ میں خلط کر گئے ہیں۔
میں بلکل بھی اسے خلط نہیں کر رہا بلکہ آپ ایک متعلقہ بحث کو بلکل جدا کرنے کے خواہاں ہو!
ابن حجر العسقلانی کی زبانی دیکھئے کہ زیادات ثقہ اور شاذ کا کتنا گہرا تعلق ہے!
وَزِيَادَةُ رَاوِيهِمَا مَقْبُولَةٌ مَا لَمْ تَقَعْ مُنَافِيَةً لِـمَنْ هُوَ أَوْثَقُ. فَإِنْ خُولِفَ بِأَرْجَحَ فَالرَّاجِحُ الْمَحْفُوظُ، وَمُقَابِلُهُ الشَّاذُّ، وَمَعَ الضَّعْفِ فَالرَّاجِحُ الْمَعْرُوفُ، وَمُقَابِلُهُ الْمُنْكَرُ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 82 نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار ابن حزم

اور حدیثِ حسن وصحیح کے رُوات کی زیادتی مقبول، ہے جب تک منافی نہ ہو، زیادتی اُس راوی کے (درمیان کے) جو (اُس سے) اوثق (ثقاہت و اعتبارمیں بڑھا ہوا) ہے۔ پھر اگر مخالفت کیاگیا وہ اَرجح (برتر) کے ذریعہ، تو راجح ''محفوظ'' ہے اور اس کی بالمقابل (روایت) ''شاذ ہے، اور ضعف کے ساتھ راجح ''معروف ہے اور اس کی بالمقابل (روایت) ''منکر'' ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19تحفة الدُّرر شرح نخبة الفكر – سعید احمد پالنپوری – قدیمی کتب خانہ، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19 تحفة الدُّرر شرح نخبة الفكر – سعید احمد پالنپوری – مکتبہ عمر فاروق، کراچی

یہاں واضح الفاظ میں یہ بات موجود ہے کہ زیادات ثقہ مقبول ہے، جب تک کہ منافی نہ ہو، اور جب زیادت ثقہ منافی ہو، تو وہ مقبول نہ ہو گی بلکہ شاذ ہوگی!
اور آگے آپ نے بھی ان دونوں کے درمیان ربط بتلایا ہے، مگر آپ نے گنگا الٹی بہا دی ہے، اسی مقام پر ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے!
شاذ کے اندر صرف مخالفت کی شرط ہے منافاۃ اور تضاد کی شرط نہیں ہے اور مخالفت عام ہے جب کہ منافاۃ خاص ہے۔
ابھی ابن حجر العسقلانی کی نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر کی عبارت پیش کی گئی کہ شاذ کے لئے منفاة اور تضاد کی شرط ہے۔ اگر منافاة و تضاد نہ ہو تو ایسی زیادات ثقات مقبول ہوتی ہے، اور وہ شاذ نہیں ہوتی!
مزید دیکھئے:

[مَعْنَى الشَّاذِّ لُغَةً وَاصْطِلَاحًا وَالْخِلَافُ فِيهِ] وَالشَّاذُّ لُغَةً: الْمُنْفَرِدُ عَنِ الْجُمْهُورِ، يُقَالُ: شَذَّ يَشُذُّ بِضَمِّ الشِّينِ الْمُعْجَمَةِ وَكَسْرِهَا شُذُوذًا إِذَا انْفَرَدَ، (وَذُو الشُّذُوذِ) يَعْنِي الشَّاذَّ.
اصْطِلَاحًا: (مَا يُخَالِفُ) الرَّاوِي (الثِّقَةُ فِيهِ) بِالزِّيَادَةِ أَوِ النَّقْصِ فِي السَّنَدِ أَوْ فِي الْمَتْنِ (الْمَلَا) بِالْهَمْزِ وَسُهِّلَ تَخْفِيفًا، أَيِ الْجَمَاعَةَ الثِّقَاتِ مِنَ النَّاسِ؛
بِحَيْثُ لَا يُمْكِنُ الْجَمْعُ بَيْنَهُمَا.
(فَالشَّافِعِيُّ) بِهَذَا التَّعْرِيفِ (حَقَّقَهُ) ، وَكَذَا حَكَاهُ أَبُو يَعْلَى الْخَلِيلِيُّ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَغَيْرِهِ عَنِ الْمُحَقِّقِينَ؛ لِأَنَّ الْعَدَدَ الْكَثِيرَ أَوْلَى بِالْحِفْظِ مِنَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مُشْعِرٌ بِأَنَّ مُخَالَفَتَهُ لِلْوَاحِدِ الْأَحْفَظِ كَافِيَةٌ فِي الشُّذُوذِ، وَفِي كَلَامِ ابْنِ الصَّلَاحِ مَا يُشِيرُ إِلَيْهِ؛ حَيْثُ قَالَ: (فَإِنْ كَانَ مُخَالِفًا لِمَا رَوَاهُ مَنْ هُوَ أَوْلَى مِنْهُ بِالْحِفْظِ لِذَلِكَ وَأَضْبَطُ، كَانَ مَا انْفَرَدَ بِهِ شَاذًّا مَرْدُودًا).
وَلِذَا قَالَ شَيْخُنَا:
(فَإِنْ خُولِفَ - أَيِ: الرَّاوِي - بِأَرْجَحَ مِنْهُ لِمَزِيدِ ضَبْطٍ أَوْ كَثْرَةِ عَدَدٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ مِنْ وُجُوهِ التَّرْجِيحَاتِ - فَالرَّاجِحُ يُقَالُ لَهُ: الْمَحْفُوظُ، وَمُقَابِلُهُ وَهُوَ الْمَرْجُوحُ، يُقَالُ لَهُ: الشَّاذُّ).

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 244 - 245 جلد 01 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902هـ) - مكتبة السنة، مصر
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 05 – 06 جلد 02 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902هـ) - مكتبة دار المنهاج للنشر والتوزيع، الرياض
آپ نے نیلے رنگ کے الفاظ نقل کئے تھے، اور ان الفاظ سے شاذ کے ضیعف نہ ہونے کا مطلب کشید کرنے کی سعی کی تھی، مگر اس سے قبل جو شاذ اصطلاحی تعریف بیان کی گئی ہے اسے بلکل نظر انداز کردیا!
یہاں واضح الفاظ میں موجود ہے کہ سند یا متن میں زیادات ثقات یا نقص کا اگر جمع کیا جانا ممکن نہ ہو تو وہ روایت شاذ ہو گی! یعنی منافاة و تضاد ہو !

یہی بات آپ کے ممدوح ملا علی القاری نے بھی فرمائی ہے:

([تَعْرِيف الشَّاذِّ لُغَة وَاصْطِلَاحا])
(والشاذ لُغَة: / الْفَرد) أَي بِمَعْنى الْمُنْفَرد.
(وَاصْطِلَاحا: مَا يُخَالف فِيهِ الرَّاوِي مَن هُوَ أرجح مِنْهُ) أَي فِي الضَّبْط، أَو الْعدَد
مُخَالفَة لم يُمكن الْجمع بَينهمَا.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 252 شرح نخبة الفكر في مصطلحات أهل الأثر - علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) - دار الأرقم، بيروت

ملا علی قاری بھی صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ شاذ حدیث وہ ہوتی ہے جس میں مخالفت ایسی ہو کہ ان روایات کا جمع کرنا ممکن نہ ہو، یعنی کہ منافاۃ وتضاد ہو!
عبد الرحمان مبارکپوریؒ نے یہ منافاۃ کی شرط لگائی ہے لیکن اس شرط کو لگانے سے بے شمار شاذ روایات شذوذ سے نکل جاتی ہیں جنہیں محدثین نے شاذ کہا ہے، خصوصاً جس کی سند میں شذوذ ہو وہ تو کبھی شاذ نہیں رہے گی کیوں کہ ہر روایت دو اسناد سے مروی ہو سکتی ہے۔
میرے بھائی! اگر منافات کی شرط نہ ہو تو بہت سی روایات شاذ و ضعیف قرار پائیں گی، جن کا جمع ہونا بھی ممکن ہے۔ اور کسی شیخ سے آگے تمام غریب اسانید شاذ قرار پائیں!
ویسے یہ تو خواہ مخواہ کی بحث رہ گئی ہے، شاذ حدیث کا ضعیف ہونا اور اس کے لئے منافاۃ و تضاد کی شرط کا ہونا ثابت کیا جا چکا ہے۔
عبد الرحمٰن مبارکپوری ﷫ نے شاذ کے لئے منافاة و تضاد کی شرط کا اضافہ نہیں کیا بلکہ یہ شرط محدثین بیان کرتے چلے آئیں ہیں!


(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
ابو الحسن سلیمانی ماربی اتحاف النبیل میں لکھتے ہیں:
فهم كثير من طلبة العلم أن المراد بالمخالفة هنا أن يروي الراوي رواية لا يمكن الجمع بينها وبين رواية من هو أوثق منه ,وهذا ليس بسديد علي طريقة الحذاق من أهل الحديث والمتتبع لصنيعهم يجدهم يطلقون الشذوذ علي أحاديث لا تكاد تحصي مع إمكان الجمع علي طريقة الفقهاء , فالمراد بالمخالفة أي زيادة في اللفظ تحمل زيادة في المعني , فعند ذلك تحّكم القواعد لينظر المحفوظ من الشاذ والله أعلم
اتحاف النبیل، 1۔46، ط: مکتبۃ الفرقان
" طلبہ علم میں بہت سارے یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مخالفت سے مراد یہ ہے کہ راوی ایسی روایت کرے کہ اس کی اور اس سے زیادہ ثقہ کی روایت میں جمع کرنا ممکن نہ ہو۔ یہ ماہر محدثین کے طریقہ پر درست نہیں ہے۔ اور ان کے طریقہ کار کو دیکھنے والا انہیں ایسی احادیث پر شذوذ کا اطلاق کرتا ہوا پاتا ہے جو بے شمار ہیں حالانکہ ان میں فقہاء کے طریقہ پر جمع ممکن ہے۔ تو مخالفت سے مراد ہے لفظ میں کوئی بھی زیادتی جو معنی میں زیادتی لے آئے۔ ایسی صورت میں قواعد کو فیصل بنایا جاتا ہے تاکہ محفوظ کو شاذ سے جدا دیکھا جائے۔ واللہ اعلم"
یہ کتاب شیخ مقبل کی تقدیم کے ساتھ مطبوع ہے۔
إتحاف النبيل بأجوبه اسئله علوم الحديث والعلل والجرح والتعديل کی مکمل عبارت پیش کرتا ہوں:

ما هو التعريف الصحيح للحديث الشاذ؟ وما هو انتقاد أهل العلم لهذا التعريف القائل: «الشاذ: مخالفة الثقة للثقات»؟
ج الحديث الشاذ من جملة الحديث الضعيف، والقول المقبول فيه: «هو مخالفة المقبول لمن هو أوثق منه»، ولكننا نجد في بعض كتب المصطلح قول بعضهم: «هو مخالفة الثقة للثقات»، وهذا التعريف فيه خلل في موضعين:

أولاً: قولهم: «مخالفة الثقة» يرد على ذلك رجال الحديث الحسن الذين يقال في أحدهم: «صدوق، أو لا بأس به»، وهم ليسوا ممن يصح أن يطلق عليهم كلمة: «ثقة»، مع أنهم مقصودون في التعريف وكما قالوا: إنَّ التعريفات لا بد أن تكون جامعة مانعة، جامعة لجميع أوصاف الشيء المراد تعريفه، ومانعة من دخول أي وصف غريب مع هذه الأوصاف، وإلا فلا فائدة من التعريف.
ثانياً: أنَّ قولهم «الثقات» جمع ثقة، وهم لا يشترطون عند المخالفة أن يخالف جمعاً من الثقات، بل إنَّه إذا خالف رجلاً واحداً أوثق منه، فإنّ الحفاظ يحكمون عليه بالشذوذ، على تفاصيل في ذلك، ولذلك كان هذا التعريف الذي سألتَ عنه مدخولاً من هاتين الجهتين، والتعريف الصحيح: هو «مخالفة المقبول لمن هو أوثق منه».

فكلمة: «مخالفة» تخرج من ذلك التفرد، والموافقة، و«المقبول» كل من يقبل للاحتجاج به، سواء كان من رجال الصحيح أو الحسن، وليس «المقبول» كل من يقبل للاحتجاج به، سواء كان من رجال الصحيح أن الحسن، وليس «المقبول» هنا على تعريف الحفاظ ابن حجر – رحمه الله تعالى – في «التقريب» الذي هو مَنْ ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يُتْرك حديثه من أجله، وإليه الإشارة بـ «مقبول»، حيث يتابع وإلا فليِّن الحديث، هذا تعريفه في مقدمة «التقريب» الطبقة السادسة، والمقبول الذي أعنيه بالحديث هنا: هو المقبول عند أهل العلم خلاف المردود، سواء كان مردوداً ردّاً مؤقتاً أي: أنَّه يصلح في باب الشواهد والمتابعات، أو مردوداً رداً نهائياً، وهو من أهل الرد والترك فالمقبول إذن: هو الذي يُقبل في الاحتجاج به، فقولنا: «مخالفة المقبول لمن هو أوثق منه» يدخل في ذلك إذا كان المخالف واحداً ولكنه أوثق من المخالَفِ، فالتعريف يكون جامعاً له، وهذا تعريف الحافظ – رحمه الله -، والله أعلم.
«تنبيه»:
فهم كثير من طلبة العلم أن المراد بالمخالفة هنا: أن يروي الراوي رواية لا يمكن الجمع بينها وبين رواية من هو أوثق منه، وهذا ليس بسديد على طريقة الحذاق من أهل الحديث، والمتتبع لصنيعهم يجدهم يطلقون الشذوذ على أحاديث لا تكاد تحصى، مع إمكان الجمع على طريقة الفقهاء، فالمراد بالمخالفة أي زيادة في اللفظ تحمل زيادة في المعنى، فعند ذاك تُحكّم القواعد، لينظر المحفوظ من الشاذ، والله أعلم.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 45 - 46 إتحاف النبيل بأجوبة أسئلة علوم الحديث والعلل والجرح والتعديل - مصطفى إسماعيل السليماني أبو الحسن - مكتبة الفرقان

اس ''تنبیہ'' پر تنبیہ کے لئے اتنا کافی نہیں کہ جناب شاذ حدیث کو ضعیف قرار دے رہے ہیں اور پھر ایسی'' تنبیہ'' موصوف کی اس ''تنبیہ '' کے باعث زیادات الثقات کا تو باب ہی بند ہوجاتا ہے! فتدبر!
ویسے بھی ابن حجر العسقلانی، امام سخاوی اور ملا علی القاری کی عبارات سے محدثین کا مؤقف بیان کیا جا چکا ہے! موصوف کا اپنا مؤقف شاذ ہے!
علامہ مبارکپوریؒ نے جو قید اخذ کی تھی اس پر ایک عالم نے رد کیا ہے جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
https://books.google.com.sa/books?i...onepage&q=المراد من المخالفة في الشاذ&f=false
ان عالم ''الدكتور حمزة عبدالله المليباري'' کے متعلق کے متعلق گوگل میں ہی تلاش کیجئے، ان کے رد پر بھی آپ کو کتاب مل جائے گی! اور ان کے مزید احوال بھی معلوم ہو جائیں گے!
ویسے اس طرح کی باتوں کو دلیل سمجھنا،'' ڈبوتے کو تنکے کا سہارا ''کے مترادف ہیں۔


(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 07، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
73
حدثنا ابن بشار، قال: ثنا عبد الرحمن، قال: ثنا سفيان، عن منصور، عن مجاهد:( الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) قال: السكون فيها.
حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، عن معمر، عن الزهريّ:( الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) قال: سكون المرء في صلاته.
حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثنا هشيم، قال: أخبرنا مغيرة، عن إبراهيم، في قوله:( خَاشِعُونَ ) قال: الخشوع في القلب، وقال: ساكنون.
حدثني عليّ، قال: ثنا عبد الله، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس في قوله:( الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) يقول: خائفون ساكنون.
آپ کا استدلال عربی زبان کے لفظ سکون سے ہے یا اردو کے لفظ سکون سے ؟؟؟؟
محترم بھائی اگر سکون سے مراد یہ ہے کہ بالکل کسی قسم کی کوئی حرکت نہ کی جائے تو پھر آپ رکوع ، سجدہ ، تشہد وغیرہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ’’ فی صلاتہ ‘‘ کا مطلب ہے مکمل نماز میں سکون اختیار کریں ۔
لہذا تعصب چھوڑ کر یہ بات سمجھیں کہ شریعت نے نماز میں جو اعمال سکھائے ہیں وہ سکون کے منافی نہیں اور رکوع جاتے ، رکوع سے سر اٹھاتے اور دوسری رکعت سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین بھی شریعت نے ہی سکھایا ہے اس لئے اسے آپ سکون کے منافی نہیں کہہ سکتے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تعصب کی بیماری سے محفوظ رکھے بلاشبہ یہ انتہائی مہلک مرض ہے ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top