عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 293
- پوائنٹ
- 165
لگتا ہے انہوں نے اپنی زہر آلود روشائی کو ”شوگر کوٹڈ“ کیا ہؤا ہے (ابتسامہ)۔
نہیں. لیکن ایک بات ضرور ہے کہ وہ سمجھدار ھیں اس لۓ سمجھ جاتے ھیں. لیکن جو عقل وبصیرت ست محروم ھیں وہ سمجھتے ھی نہیںآپ ”سید“ صاحب کے وکیل ہیں؟
سچ ھی محسوس ھوتا ھے کہ آپ عقل سے محروم ھیں. ھم نے کس روایت کہ بات کی تھی اور آپ بات کہاں سے کہاں لے جا رھے ھیں. آپ نے لکھا تھاان میں سے چن کر بتائیں کہ کون سی ضعیف یا موضوع روایت ہے
یہ تھی آپ کی ذکر کردہ روایت. اس روایت کی تفصیل کچھ اس طرح ھے:یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ”فقیہ“ ایک ہزار ”علماء“ کی نسبت ”شیطان“ پر زیادہ بھاری ہے۔
اسی لۓ ھم نے آپ کو متعصب اور جاھل مطلق قرار دیا تھا. اور ھم اس میں حق بجانب ھیں. کیونکہ آپ باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ھیں. اور مجھے اس پر تعجب بھی نہیں کہ آپ جیسوں کا کام ھی یہی ھے.کیا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نعوذ باللہ ”ضعیف و موضوع“ گردانتے ہو؟
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (سورۃ الاحزاب آیت 21)
بے شرمی جب انسان کے اندر آجاتی ھے تو اول فول بکنا شروع کر دیتا ھے.کیا ان فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ ”ضعیف و موضوع“ گردانتے ہو؟وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي ۔۔۔۔۔ الحدیث (صحیح بخاری)
حدیث کے کس ٹکڑے سے ایک کی نفی ھو رھی ھے یہ بتا دیں. سیدھے سادے الفاظ میں بتائیۓ گا. مفتی بننے کی کوشش نہ کیجۓ گا.عائشہ صدیقہ ہی بیان فرماتی ہیں کہ؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر چار اور تین ، چھ اور تین، آٹھ اور تین یا دس اور تین پڑھتے۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے (سنن ابو داؤد )۔
اسکی سند ذکر کریں. اور بتائیں کہ ایک رکعت کی نفی اس اثر سے کیسے ثابت ھو رھی ھے.عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ؛
"الْوِتْرُ ثَلاثٌ كَوِتْرِ النَّهَارِ صَلاةِ الْمَغْرِبِ" (المعجم الكبير للطبرانی)
وتر تین رکعات ہیں دن کے وترنماز مغرب کی طرح۔
وھی تو ھم کہ رھے ھیں کہ منتظم صاحب کو آپ کی جہالت، تعصب اور تاویلیں نظر کیوں نہیں آرھی ھیں؟؟؟قارئینِ کرام
یہ تھریڈ ”سنت طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)“کے موضوع پر ہے مگر یہاں کچھ حضرات کج بحثی اور زبان کی شائستگی (ابتسامہ)پر مصر ہیں مگر انتظامیہ کو ان کی کج بحثی اور زبان کی شائستگی (ابتسامہ) پتہ نہیں کیوں نظر نہیں آتی؟
آپ دونوں ایک دوسرے کے وکیل ہیں (ابتسامہ)۔نہیں. لیکن ایک بات ضرور ہے کہ وہ سمجھدار ھیں اس لۓ سمجھ جاتے ھیں. لیکن جو عقل وبصیرت ست محروم ھیں وہ سمجھتے ھی نہیں
کیا البانی نے اس کے موضوع ہونے کی کوئی دلیل دی ہے؟ کسی کی بات بغیر دلیل مان لینا کیا کہلاتا ہے؟یہ تھی آپ کی ذکر کردہ روایت. اس روایت کی تفصیل کچھ اس طرح ھے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ جَنَاحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيهٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ
ترجمہ: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' ایک فقیہ (عالم ) ہزار عبادت کرنے والوں کے مقابلہ میں اکیلا شیطان پرحاوی اور بھاری ہے'۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت سے صرف اسی سند جانتے ہیں۔
(ترمذی: 2681، ابن ماجہ: 222)
علامہ البانی رحمه الله نے اس حدیث کو موضوع کہا ھے.
قارئین کرامھم تو شائستگی سے بات کر رھے تھے آپ نے ھی ھمیں اس طرح سختی برتنے پر مجبور کیا ھے.
سچ ھی محسوس ھوتا ھے کہ آپ عقل سے محروم ھیں.
اسی لۓ ھم نے آپ کو متعصب اور جاھل مطلق قرار دیا تھا. اور ھم اس میں حق بجانب ھیں.
بے شرمی جب انسان کے اندر آجاتی ھے تو اول فول بکنا شروع کر دیتا ھے.
ویسے میں یہی سوچ رہا ہوں ، آپ کے ساتھ مغز ماری کرنے والوں کو بھی ’ خصوصی نگرانی ‘ میں رکھا جائے ۔وھی تو ھم کہ رھے ھیں کہ منتظم صاحب کو آپ کی جہالت، تعصب اور تاویلیں نظر کیوں نہیں آرھی ھیں؟؟؟
محترم جناب شیخ صاحب. آپ کی وارننگ کو ھم سمجھ گۓ اور آپ کی ھم بڑی عزت کرتے ھیں آپ کی تحاریر پڑھی ھیں ھم نے. اگر ھم سے کہیں غلطی ھو تو بلا جھجک آپ اس طرح بولۓ گا. ھم کبھی مائنڈ نہیں کریں گے.ویسے میں یہی سوچ رہا ہوں ، آپ کے ساتھ مغز ماری کرنے والوں کو بھی ’ خصوصی نگرانی ‘ میں رکھا جائے ۔
امید ہے بھٹی صاحب کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے والے اس ’ وارننگ ‘ کو سمجھیں گے ۔