• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)

شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
رسی جلتی ہے مگر مؤمن نہیں جلتا اور نہ ہی اس میں بل ہوتے ہیں ”سید“ صاحب۔
ھم نے کہا تھا کچھ اور آپ نے جواب دیا کچھ. یہ تو ثابت ھو چکا ھے کہ آپ کو صرف نفس پرستی آتی ھے۔ آپ ھم کو طعنہ دیتے ھیں حالانکہ نفس پرستی آپ کے اندر ھے.
ھم کہتے ھیں کہ آپ کیوں بلاوجہ بحث کر رھے ھیں. کیا اس تھریڈ کو بھی مقفل کرانا ھے؟؟؟
ھم مزید کہیں گے کہ اگر علمی بات نہ ھو بھلائ اسی میں ھے کہ آپ خاموش رھیں.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
قارئینِ کرام
میں نے پوسٹ نمبر 183 میں لکھا؛
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (سورۃ الاحزاب آیت 21)
وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي ۔۔۔۔۔ الحدیث (صحیح بخاری)

عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ وتر کو دیکھا اور بڑی وضاحت سے بیان فرما دیا کہ؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں تین رکعات وتر پڑھتے تھے
سال میں رمضان ایک مہینہ اور گیارہ ماہ غیر رمضان ہوتا ہے۔ سال میں کل بارہ مہینے ہی ہوتے ہیں کم زیادہ نہیں جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ جل شانہٗ ہے؛

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۔۔۔
الآیۃ (سورۃ التوبۃ آیۃ 36)
عائشہ صدیقہ ہی بیان فرماتی ہیں ؛

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر چار اور تین ، چھ اور تین، آٹھ اور تین یا دس اور تین پڑھتے۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے (سنن ابو داؤد قال البانی الصحیح)۔
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ؛
"الْوِتْرُ ثَلاثٌ كَوِتْرِ النَّهَارِ صَلاةِ الْمَغْرِبِ" (المعجم الكبير للطبرانی)
وتر تین رکعات ہیں دن کے وترنماز مغرب کی طرح۔
تین رکعات وتر کی تائید میں مزید احادیث
سنن أبي داود: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے چار اور تین ، چھ اور تین ، آٹھ اور تین ، دس اور تین رکعات ۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔
سنن الترمذي: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِثَلَاثٍ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر میں مفصل کی نو(9) سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین سورتیں پڑھتے- ان میں سے آخری "قل ھو اللہ احد" ہوتی۔
سنن النسائي: كِتَاب قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى أَبِي إِسْحَقَ فِي حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْوِتْرِ:
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے پہلی رکعت میں "سبح اسم ربک الاعلی" دوسری رکعت میں "قل یا ایہاالکافرون" اور تیسری میں "قل ھو اللہ احد" پڑھتے۔
مسند أحمد: مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ: مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تین رکعت) وتر مفصل کی نو (9) سورتوں کے ساتھ پڑھتے- پہلی رکعت میں"الھاکم التکاثر"، "انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" اور"اذا زلزلت الارض"۔ دوسری رکعت میں "والعصر"، "اذا جاء نصر اللہ والفتح" اور "انا اعطیناک الکوثر"۔ تیسری رکعت میں "قل یا ایھا الکافرون"، " تبت یدا ابی لھب" اور "قل ھو اللہ احد" پڑھتے تھے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
وتر جب تک نفلی عبادت تھی تو اس کی رکعات بھی متعین نہ تھیں اور یہ نفلی عبادت کے عین مطابق تھا۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے فرامین احادیث میں موجود ہیں۔
جب وتر ”نفل“ نہ رہے تو اس کی رکعات بھی غیر متعین نہ رہیں بلکہ متعین ہوگئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل سےاس کی رکعات کا تعین فرما دیا جیسا کہ اوپر احادیث میں مذکور ہؤا۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ”فقیہ“ ایک ہزار ”علماء“ کی نسبت ”شیطان“ پر زیادہ بھاری ہے۔

اسکا عربی متن؟
اور اسکا حکم بھی لگاو کہ ضعیف ہے یا صحیح!
 

ask

مبتدی
شمولیت
نومبر 11، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
10
بسم الله الرحمن الرحيم
سنت طریقہ نماز (صلاۃ الوتر)
تمہید
نماز وتر پہلے ایک نفل عبادت تھی بعد میں واجب ہوئی۔ جب تک یہ نماز نفل تھی اس وقت تک آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام اس نماز کو ہر طرح پڑھتے رہے۔ ہاں یہ بات البتہ شروع سے ہی تھی کہ یہ طاق اعداد میں پڑھی جاتی تھی۔ کوئی ایک رکعت پڑھ لیتا کوئی تین، کوئی پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ ۔ تیرہ سے زیادہ کی کوئی روایت نہیں ہے ۔ بعض حضرات اشارہ سے بھی پڑھ لیتے تھے۔ یہ اس لئے تھا کہ یہ نفل نماز تھی جس کی تعداد متعین نہیں ہؤا کرتی ۔ ہاں جب یہ نماز لازمی قرار دی گئی تو اس کی تعداد بھی متعین کر دی گئیں۔
وجوب وتر
سنن أبي داود: کتاب الصلاۃ: باب فی من لم يُوتِرْ:
بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے کہ وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے جس نے وتر ادا نہ کئے وہ ہم میں سے نہیں (تین دفعہ فرمایا)۔
مسند الشاميين للطبراني:
ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ صلاۃ الوتر ہے ۔
مصنف عبد الرزاق: باب وجوب الوتر هل شئ من التطوع واجب:
عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے پاس آئے اور فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کا اضافہ تمہاری نمازوں میں کیا ہے پس اس کی حفاظت کرو اور وہ صلاۃ الوتر ہے ۔
المستدرك على الصحيحين للحاكم: كتاب معرفة الصحابة رضي الله عنهم ذكر أبي بصرة جميل بن بصرة الغفاري رضي الله عنه:
میں ہے کہ ابو بصرہ رضی الله عنہ صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے پس اس کو نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان پڑھو اور وہ صلاۃ الوتر ہے۔
تين رکعت وتر
سنن أبي داود: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ:

عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے چار اور تین ، چھ اور تین ، آٹھ اور تین ، دس اور تین رکعات ۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔
سنن النسائي: كِتَاب قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى أَبِي إِسْحَقَ فِي حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْوِتْرِ:
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے پہلی رکعت میں "سبح اسم ربک الاعلی" دوسری رکعت میں "قل یا ایہاالکافرون" اور تیسری میں "قل ھو اللہ احد" پڑھتے۔
مسند أحمد: مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ: مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تین رکعت) وتر مفصل کی نو (9) سورتوں کے ساتھ پڑھتے- پہلی رکعت میں"الھاکم التکاثر"، "انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" اور"اذا زلزلت الارض"۔ دوسری رکعت میں "والعصر"، "اذا جاء نصر اللہ والفتح" اور "انا اعطیناک الکوثر"۔ تیسری رکعت میں "قل یا ایھا الکافرون"، " تبت یدا ابی لھب" اور "قل ھو اللہ احد" پڑھتے تھے۔
سنن الترمذي: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِثَلَاثٍ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر میں مفصل کی نو(9) سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین سورتیں پڑھتے- ان میں سے آخری "قل ھو اللہ احد" ہوتی۔
رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم كا وتر پڑھنے کا آخرى طریقہ
صحيح البخاری: کتاب الجمعہ: بَاب قِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ:
ابوسلمۃ بن عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے- چار رکعت اس طرح پڑھتے کہ اس کی ادائیگی کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے بس کچھ نہ پوچھو (یعنی بہت ہی خشوع وخضوع والی ہوتیں) پھر چار رکعت پڑھتے کہ اس کی ادائیگی کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے بس کچھ نہ پوچھو (یعنی بہت ہی خشوع و خضوع والی ہوتیں) پھر تین رکعت ( وتر ) پڑھتے- عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا۔
نوٹ: کچھ احادیث سے ایک، پانچ، سات اور نو رکعت نماز وتر کا بھی شبہ ہوتا ہے- کچھ احادیث میں تو اشارہ سے وتر پڑھنے کا بھی ذکر ملتا ہے مگر وہ سب اس وقت تھیں جب وتر واجب نہ ہوئے تھے بلکہ ایک نفلی عبادت تھے۔ جب سے وتر واجب ہوئے ہیں وتر کی تعداد متعین تین رکعات ہی ہے اور اسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل رہا۔
کیا ساری عمر ایک تراویح پڑھنا کیسا ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
البتہ شیطانی کام وہ طبقہ کر رہاہے جو لوگوں کو سنت سے ہٹا کر حدیثِ نفس پر لانے میں کوشاں ہے۔
جی ! اہل الرائے اس امر میں معروف ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیطان دنیاوی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا بلکہ دینی معاملات میں رخنہ ڈالتا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ پاک میں اس کا قول ہے؛
قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (سورۃ الاعراف آیت 16)
دھوکہ باز، فراڈیوں کے لئے خوشخبری!
فقہ بھٹی میں دنیاوی معاملات میں فراڈ حلال قرار پاتا ہے!
جے ہو! جے ہو!فقہ بھٹی کی جے ہو!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
قارئینِ کرام

جس کو یقین ہوکہ؛
مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے
قیامت میں مؤاخذہ ہوگا
جنت یا دوزخ نصیب ہوگی
دوزخ کا ایک لمحہ بھی ناقابلِ برداشت ہوگا کہ یہ قادرِمطلق کا عذاب ہوگا
اس یقین کا حامل ؛
اپنی خواہشوں کو تج دے گا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کی زندگی پسند کرے گا
یقین رکھیں ؛
دوسروں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دے سکتا
اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو مرعوب کر سکتا ہے مگر آخرت نہیں بنا سکتا
اختلاف کی صورت اور تصفیہ
اختلاف کی صورت میں اکثر و بیشتر کوئی ایک فریق انا کا مسئلہ بنا کر اپنی خفت مٹانے کے لئے یا تو خلط مبحث شروع کر دیتا ہے یا پھر لڑائی جھگڑے پر اتر آتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف وہ اپنا نقصان کرتا ہے بلکہ دوسروں کو حق کے جاننے میں بھی مانع ہوتا ہے۔ خصوصاً ان لوگوں کے حق میں جو اس سے عقیدت رکھتے ہوں ۔
اس کا حل؛
اس کا واحد حل یہی ہے کہ تقویٰ اختیار کیا جائے، آخرت کی فکر کی جائے اور کسی کے القابات، اونچے شملوں اور چرب زبانی سے متأثر نہ ہؤا جائے۔
واقعہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو صحابی آئے ان میں زمین کے ایک قطعہ کی حق ملکیت کا جھگڑا تھا۔ دونون فریق خلوصِ نیت سے اس کو اپنا حق سمجھ رہے تھے۔ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہدیکھو تم میں جو اپنی بات زیادہ بہتر طریقہ سے بیان کرنے والا ہوگا وہ اپنے حق میں فیصلہ لے لے گا۔ مگر یاد رکھو کہ وہ ایک آگ کا ٹکڑا لے کر جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا تھا کہ دونوں صحابی یہ حصہ لینے سے انکاری ہوگئے آخرت کے ڈر سے۔
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم؛
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، بِقَوْلِهِ: فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلاَ يَأْخُذْهَا " (صحيح البخاري)
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
قارئینِ کرام
میں نے پوسٹ نمبر 183 میں لکھا؛
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (سورۃ الاحزاب آیت 21)
وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي ۔۔۔۔۔ الحدیث (صحیح بخاری)

عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ وتر کو دیکھا اور بڑی وضاحت سے بیان فرما دیا کہ؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں تین رکعات وتر پڑھتے تھے
سال میں رمضان ایک مہینہ اور گیارہ ماہ غیر رمضان ہوتا ہے۔ سال میں کل بارہ مہینے ہی ہوتے ہیں کم زیادہ نہیں جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ جل شانہٗ ہے؛

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۔۔۔
الآیۃ (سورۃ التوبۃ آیۃ 36)
عائشہ صدیقہ ہی بیان فرماتی ہیں ؛

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر چار اور تین ، چھ اور تین، آٹھ اور تین یا دس اور تین پڑھتے۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے (سنن ابو داؤد قال البانی الصحیح)۔
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ؛
"الْوِتْرُ ثَلاثٌ كَوِتْرِ النَّهَارِ صَلاةِ الْمَغْرِبِ" (المعجم الكبير للطبرانی)
وتر تین رکعات ہیں دن کے وترنماز مغرب کی طرح۔
تین رکعات وتر کی تائید میں مزید احادیث
سنن أبي داود: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے چار اور تین ، چھ اور تین ، آٹھ اور تین ، دس اور تین رکعات ۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔
سنن الترمذي: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِثَلَاثٍ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر میں مفصل کی نو(9) سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین سورتیں پڑھتے- ان میں سے آخری "قل ھو اللہ احد" ہوتی۔
سنن النسائي: كِتَاب قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى أَبِي إِسْحَقَ فِي حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْوِتْرِ:
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے پہلی رکعت میں "سبح اسم ربک الاعلی" دوسری رکعت میں "قل یا ایہاالکافرون" اور تیسری میں "قل ھو اللہ احد" پڑھتے۔
مسند أحمد: مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ: مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تین رکعت) وتر مفصل کی نو (9) سورتوں کے ساتھ پڑھتے- پہلی رکعت میں"الھاکم التکاثر"، "انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" اور"اذا زلزلت الارض"۔ دوسری رکعت میں "والعصر"، "اذا جاء نصر اللہ والفتح" اور "انا اعطیناک الکوثر"۔ تیسری رکعت میں "قل یا ایھا الکافرون"، " تبت یدا ابی لھب" اور "قل ھو اللہ احد" پڑھتے تھے۔
وتر جب تک نفلی عبادت تھی تو اس کی رکعات بھی متعین نہ تھیں اور یہ نفلی عبادت کے عین مطابق تھا۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے فرامین احادیث میں موجود ہیں۔
جب وتر ”نفل“ نہ رہے تو اس کی رکعات بھی غیر متعین نہ رہیں بلکہ متعین ہوگئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل سےاس کی رکعات کا تعین فرما دیا جیسا کہ اوپر احادیث میں مذکور ہؤا۔
بھٹی صاحب آپ ھوش میں تو ھیں نا؟ ھم نے کئ بار کہا کہ آپ ھمارے گذشتہ سوالوں کے جواب دیں لیکن آپ اب تک خاموش ھیں. اور بار بار انھیں دلائل کو ذکر کرتے جا رھے ھیں جن پر ھم نے تبصرہ کر دیا. اور آپ نے ھمارے کئ بار دھیان دلانے کے باوجود اس تبصرہ پر کوئ جواب نہیں دیا. اسلۓ ھم کہتے ھیں کہ آپ خاموشی اختیار کرتے ھوۓ سکون سے رھیں. زیادہ اچھل کود نہ مچائیں.
 
Top