• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (قراءت)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
جولائی 20، 2016
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
75
از عثمان احمد june29 ,2014
حدیث [من کان لہ امام فقرأۃ الامام لہ قراۃ] کا تحقیقی جائزہ

أخبرنا أبو حنیفۃ قال حدثنا أبو الحسن موسی بن أبی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد بن الھاد عن جابر بن عبداللہ عن النبی ﷺ قال من صلی خلف الإمام۔۔۔ حدیث من کان لہ امام۔۔۔[موطا امام محمد]
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاکہ جس نمازی کا امام ہو تواس کے امام کا پڑھنا ہی اس مقتدی کا پڑھنا سمجھا جائے گا۔
براہ کرم اس روایت کے بارے میں مکمل تحقیق سے بہرہ ور فرمائیں بہت ہی شکرگزار ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۱ آمین

الجواب:
حدیث: من کان لہ إمام فقرأہ الإمام لہ قرأۃ کے مفہوم و الفاظ کے ساتھ مختلف سندوں سے مروی ہے۔ یہ سندیں دو طرح کی ہیں:
اول: وہ اسانید جن میں کذاب، متروک، سخت مجروح اور مجہول روای ہیں : مثلاً
1-
حدیث جابر الجعفی عن أبی الزبیر عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ۔۔إلخ
[رواہ ابن ماجہ، ح:۸۵۰]
جابر الجعفی: متروک ہے، دیکھئے کتاب الکنیٰ والأسماء للإمام مسلم(ق ۹۶کنیۃ:أبو محمد) و کتاب الضعفاء والمتروکین للإمام النسائی (۹۸)وقال الزیلعی:‘‘ وکذبہ أیضاأ یوب وزائدۃ'' اور اسے ایوب (السختیانی) اور زائدہ نے کذاب کہا ہے(نصب الرایہ ۱؍۳۴۵)
حدیث أبی ھارون العبدی عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ إلخ۔۔رواہ ابن عدی فی الکامل(۱؍۵۲۴ترجمۃ إسماعیل بن عمر و بن نجیح) ابو ہارون کے بارے میں زیلعی حنفی نے حماد بن زید کا قول نقل کیا ہے کہ: ‘‘کان کذاباً'' یعنی وہ کذاب(بڑا جھوٹا ) تھا، دیکھئے نصب الرایہ (ج۴ص۲۰۱)
حدیث سھل بن عباس الترمذی بسندہ إلخ رواہ الدارقطنی(۱؍۴۰۲ح۱۴۸۶)وقال: ‘‘ھذا حدیث منکر ، وسھل بن العباس: متروک''
اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ متروک وغیرہ سخت مجروح راویوں کی روایت مردود ہوتی ہے۔ مثلاً
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
((لأن الضعف یتفاوت فمنہ مالا یزول بالمتا بعات یعنی لا یؤثر کونہ تابعاً أ و متبوعاً کروایۃ الکذابین و المتروکین))
‘‘کیونکہ ضعف کی قسمیں ہوتی ہیں، بعض ضعف متابعات سے بھی زائل نہیں ہوتے جیسے کذابین و متروکین کی روایت ، یہ مؤید ہو سکتی ہے اور نہ تائید میں فائدہ دیتی ہے''(اختصار علوم الحدیث ص ۳۸ تعریفات أخری للحسن، النوع:۲)
اس تمہید کے بعد اس روایت (من کان لہ إمام ألخ) کی ان سندوں پر جامع بحث پیش خدمت ہے جن پر مخالفین قرأتِ ففاتحہ خلف الامام کو ناز ہے۔ وللہ ھو الموفق
۱۔ محمد بن الحسن الشیبانیؒ: أخبرنا أبو حنیفۃ قال: حدثنا أبو الحسن موسی بن أ بی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد بن الھاد عن جابر بن عبداللہ'' إلخ(مؤطا الشیبانی ص ۹۸ح۱۱۷)
اس روایت میں عبداللہ بن شداد اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان ‘‘ ابو الولید'' کا واسطہ ہے۔ دیکھئے کتاب الآثار المنسوب إلی قاضی أبی یوسف(۱۱۳) و سنن الدار قطنی(۱؍۳۳۵ح۱۲۲۳ وقال: أبو الولید ھذا مجہول) و کتاب القرأہ للبیہقی (ص۱۲۵ح۳۱۴،وص۱۲۶،۱۲۷دوسرا نسخہ ح۳۴۱،۳۳۹)
معلوم ہوا کہ یہ روایت ابو الولید(مجہول) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ اس مجہول راوی کو بعض راویوں نے سند میں ذکر نہیں کیا تاہم یہ معلوم ہے کہ جس نے ذکر کیا اس کی بات ذکر نہ کرنےو الے کی روایت پر مقدم ہوتی ہے۔
اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بذاتِ خود اپنی اس بیان کردہ روایت کو باطل سمجھتے تھے۔ ابو عبدالرحمن المقرئ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

((کان أبو حنیفۃ یحدثنا، فإذا فرغ من الحدیث قال: ھذا الزی سمعتم کلہ ریح و باطل))‘‘ابو حنیفہ ہمیں حدیثیں سناتے تھے۔ جب حدیث (کی روایت) سےفارغ ہوتے تو فرماتے : یہ سب کچھ ، جو تم نے سنا ہے ہوا اور باطل ہے'' [کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ج ۸ص ۴۵۰ و سند صحیح]
ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ: ((عامۃ ما أحدثکم خطأ))‘میں تمہیں جو عام حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں''[العلل الکبیر للترمذی ج ۲ص ۹۶۶و سندہ صحیح، و الکامل لابن عدی ۷؍۲۴۷۳و تاریخ بغداد ۱۳؍۴۲۵]ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ نے اپنی کتابوں کے بارے میں فرمایا کہ:((واللہ ما أدری لعلہ الباطل الذی لاشک فیہ))‘اللہ کی قسم مجھے (ان کے حق ہونے کا) پتہ نہیں ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی باطل ہوں جن میں (باطل ہونے میں ) کوئی شک نہیں ہے۔''[کتاب المعرفۃ و التاریخ للإمام یعقوب بن سفیان الفارسی ج ۲ص۷۸۲و سندہ حسن]
اور یہ بات عام لوگ بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اپنی بیان کردہ حدیثوں اور کتابو ں کے بارے میں بعد والوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ جانتے تھے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ابو الولید(مجہول) کی وجہ سے امام صاحب نے اپنی روایت کو باطل قرار دیا ہو، واللہ أعلم و علمہ أتم،
۲: أحمد بن حنبل: ‘‘حدثنا أسود بن عامر : أخبرنا حسن بن صالح عن أبی الزبیر عن جابر'' إلخ
(مسند احمد ، الموسوعۃ الحدیثیۃ ۲۳؍۱۲ح۱۴۶۴۳)
یہ روایت دووجہ سے ضعیف ہے۔
اول: ابو الزبیر المکی مسدلس ہے بلکہ‘‘مشہور بالتدلیس'' ہے۔ (طبقات المدلسین، المرتبہ الثالثہ۳؍۱۰۱)
یہ روایت عن سے ہے۔ ا۱ول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ مدلس کی (غیر صحیحین میں) عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ [دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح مع التقیید والا یضاح(ص۹۹)والنسخۃ المحققۃص۱۶۱]
دوم: حسن بن صالح اور ابو الزبیر کے درمیان جابر الجعفی (متروک) کا واسطہ ہے دیکھئے مسند احمد(ج۳ص۳۳۹ح۱۴۶۹۸)و التحقیق فی اختلاف الحدیث لا بن الجوزی(۱؍۳۲۰ح۵۶۷)
تنبیہ: یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ ابن الترکمانی حنفی نے ابو الزبیر کی تدلیس سے قطع نظر کرتے ہوئے ، اس ضعیف و مردود روایت کو ‘‘وھذا سند صحیح'' لکھ دیا ہے، دیکھئے الجوھر النقی(۲؍۱۵۹)بحوالہ ابن ابی شیبہ(۱؍۳۷۷ ح۳۸۰۲)
شیخ الناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے دلائل کے ساتھ ابن الترکمانی کا زبردست رد کیا ہے۔ دیکھئے ارواء الغلیل(ج ۲ص ۲۷۰ح۵۰۰)

۳: أحمد بن منیع‘‘ثنا إسحاق الأزرق: ثنا سفیان و شریک عن موسی بن أبی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد عن جابر رضی اللہ عنہ'' ألخ[اتحاف الخیرۃ المھرہ للبوصیری۲؍۲۲۵ح۱۵۶۷]
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
اول: سفیان ثوری مدلس ہیں(عمدۃ القاری للعینی۳؍۱۱۲باب الوضوء من غیر حدث ، و الجوھر النقی۸؍۲۶۲)نیز دیکھئے الحدیث: ۱ ص ۲۹،۲۸اور یہ روایت عن سے ہے۔ شریک القاضی بھی مدلس ہیں(طبقات المدلسین۵۶؍۲ و جامع التحصیل للعلائی ص ۱۰۷والمدلسین لأبی زرعۃ بن العراقی:۲۸ و المدلسین للسیوطی:۲۴و المدلسین للحلمی ص۳۳) اور یہ روایت عن سے ہے۔
دوم: یہ گزر چکا ہے کہ عبداللہ بن شداد اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو الولید(مجہول) کا واسطہ ہے۔

نتیجۃ البحث: یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے، لہذا شیخ البانی رحمہ اللہ کا اسے‘‘حسن'' [ارواء الغلیل۲؍۲۶۸]اور الموسوعۃ الحدیثیۃ کے محشی کا‘‘ حسن بطرقہ و شواھدہ'' کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کو حافظ ابن حجر نے ملعول(التلخیص الحبیر۲؍۲۳۲ح۳۴۵)اور قرطبی نے حدیث ضعیف قرار دیا ہے۔ [تفسیر قرطبی۱؍۱۲۲، الباب الثانی فی نزولھاأحکا مھا، أیی سورۃ الفاتحۃ]

فائدہ: ہمارے شیخ ، امام ابو محمد بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تضعیف پر ‘‘اظھار البرأۃ عن حدیث: من کان لہ إمام فقرّأۃ الإمام لہ قرأۃ'' مستقل کتاب لکھی ہے۔ والحمد للہ

 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
ساون کے اندھے کو ہر طرف ہریالی ہی نظر آیا کرتی ہے۔
دعوی بلا دلیل نہیں کرتا. الحمد للہ اسی فورم سے ثبوت مہیا کر سکتا ہوں.
منافقین بھی اکثرو بیشتر صحیح دلائل ہی دیتے تھے مگر اس سے مقصود مسلم امہ کو تقسیم کرنا ہوتا تھا۔ میں الحمد للہ اہلِ سنت ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہوں۔
میں نے صرف مثال دی تھی آپ پر کوئ فتوی نہیں لگایا تھا. اور میری مثال بالکل صحیح تھے. مزید میں نے آخر میں وضاحت بھی کر دی تھی.
آپ کی جتنی پوسٹ ہیں کسی میں کبھی کوئی کام کی بات بھی کی ہے سوائے ”میں نہ مانوں“ کے۔
آپ ان پوسٹس کی طرف رہنمائ کر دیں. جس سے یہ آپ کی بات ثابت ہو.
ویسے یہ بھی خوب رہی. خود غیر ضروری بات کر رہے ہیں. ہونا تو یہ چاہیۓ تھا کہ آپ ترک فاتحہ پر کوئ صریح حدیث پیش کر دیتے.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ساون کے اندھے کو ہر طرف ہریالی ہی نظر آیا کرتی ہے۔


منافقین بھی اکثرو بیشتر صحیح دلائل ہی دیتے تھے مگر اس سے مقصود مسلم امہ کو تقسیم کرنا ہوتا تھا۔ میں الحمد للہ اہلِ سنت ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہوں۔


آپ کی جتنی پوسٹ ہیں کسی میں کبھی کوئی کام کی بات بھی کی ہے سوائے ”میں نہ مانوں“ کے۔
ناقابل اتفاق قول ۔

کیونکہ: ورق ورق پر رقم هے کلام عمر اثری ۔ اسی فورم پر ۔ چاہے انکا هو یا ماخوذ هو ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
حدیث [من کان لہ امام فقرأۃ الامام لہ قراۃ] کا تحقیقی جائزہ
نتیجۃ البحث: یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے، لہذا شیخ البانی رحمہ اللہ کا اسے‘‘حسن'' [ارواء الغلیل۲؍۲۶۸]اور الموسوعۃ الحدیثیۃ کے محشی کا‘‘ حسن بطرقہ و شواھدہ'' کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کو حافظ ابن حجر نے ملعول(التلخیص الحبیر۲؍۲۳۲ح۳۴۵)اور قرطبی نے حدیث ضعیف قرار دیا ہے۔ [تفسیر قرطبی۱؍۱۲۲، الباب الثانی فی نزولھاأحکا مھا، أیی سورۃ الفاتحۃ]

فائدہ: ہمارے شیخ ، امام ابو محمد بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تضعیف پر ‘‘اظھار البرأۃ عن حدیث: من کان لہ إمام فقرّأۃ الإمام لہ قرأۃ'' مستقل کتاب لکھی ہے۔ والحمد للہ
مذکورہ حدیث پر اتنی لمبی بحث کا مقصد؟
اس قسم کی بحث اس روایت پر کی جاتی ہے جس پر پورے دلائل کا دارومدار ہو۔ کیوں کہ اس ایک سے خلاصی تو بقیہ سےخلاصی خود بخود ہوجاتی ہے۔
جس راوی پرآپ نے جرحیں پیش کی ہیں کیا اس راوی سے مرحوم البانی واقف نہ تھے؟
دوسرے یہ کہ آپ کے شیخ نے کتاب لکھ دی، کیا آپ نے اس میں مندرج دلائل کی تحقیق کرلی؟ یا صرف ان کے شیخ ہونے پر بھروسہ ہے؟ مگر البانی بھی تو شیخ تھے ان کی تحقیق پر بھروسہ کیوں نہیں؟
یہ تو ضمنی بات تھی اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
مقتدی کو امام کی قراءت کفایت کرتی ہے

سنن ابن ماجه - (ج 3 / ص 85)
840 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ
مسند احمد، ابن ابی شیبہ، السنن الکبریٰ للبیہقی، مصنف عبد الرزاق، المعجم الکبیر للطبرانی، سنن دارقطنی، ارواء الغلیل، صفۃ الصلاۃ۔

مصنف ابن أبي شيبة - (ج 1 / ص 413)
حدثنا معتمر عن أبي هارون قال : سألت أبا سعيد عن القراءة خلف الامام فقال : يكفيك ذاك الامام.

السنن الكبرى للبيهقي - (ج 2 / ص 160)
(وقد اخبرنا) أبو عبد الله الحافظ وابو سعيد بن ابى عمرو قالا ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب انبأ هارون بن سليمان ثنا عبد الرحمن بن مهدى عن سفيان وشعبة عن منصور عن ابى وائل ان رجلا سأل ابن مسعود عن القراءة خلف الامام فقال انصت للقرآن فان في الصلوة شغلا وسيكفيك ذاك الامام وانما يقال انصت للقرآن لما سمع لا لم لا يسمع

مصنف عبد الرزاق - (ج 2 / ص 138)
عبد الرزاق عن منصور عن أبي وائل قال : جاء رجل إلى عبد الله فقال : يا أبا عبد الرحمن ! أقرأ خلف الامام ؟ قال : أنصت للقرآن فإن في الصلاة شغلا ، وسيكفيك ذلك الامام (1).
(1) أخرجه (هق) في كتاب القراءة من طريق سفيان وشعبة عن منصور 117 ، وأخرجه (ش) عن أبي الاحوص عن منصور 251 د.
وقد سقط من النسخة شيخ المصنف.
وأظنه (الثوري).


مصنف عبد الرزاق - (ج 2 / ص 139)
عبد الرزاق عن معمر وابن جريج عن الزهري عن سالم ابن عبد الله قال : يكفيك قراءة الامام فيما يجهر في الصلاة ، قال ابن
جريج : وحدثني ابن شهاب عن سالم أن ابن عمر كان يقول : ينصت للامام (6) فيما يجهر به في الصلاة (7) ولا يقرأ معه (8).
(6) كذا في جزء القراءة وكتاب القراءة.
وفي (ص) الامام خطأ.
(7) ذكره البخاري تعليقا في جزء القراءة ، وأخرجه (هق) في كتاب القراءة من طريق عبد الرزاق ولفظه أن ابن عمر كان ينصت للامام الخ 100.
(8) في ص كأنه لا (تقروا).


مصنف عبد الرزاق - (ج 2 / ص 140)
عبد الرزاق عن هشام بن حسان عن أنس بن سيرين قال : سألت ابن عمر أقرأ (1) مع الامام ؟ فقال : إنك لضخم البطن ، قراءة الامام (2).
(2) كأنه سقط من النسخة قوله (تكفيك) ، فقد روى البيهقي من طريق أيوب عن نافع وأنس بن سيرين أنهما حدثاه عن ابن عمر أنه قال في القراءة خلف الامام : يكفيك قراءة الامام (كتاب القراءة 125).


المعجم الكبير للطبراني - (ج 8 / ص 197)
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بن إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ؟ قَالَ:"أَنْصِتْ لِلْقُرْآنِ فَإِنْ فِي الصَّلاةِ شُغْلا، وَسَيَكْفِيكَ ذَلِكَ الإِمَامُ".

المعجم الكبير للطبراني - (ج 9 / ص 41)
حَدَّثَنَا مُوسَى بن هَارُونَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بن أَيُّوبَ الْمَقَابِرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مَنْصُورِ بن الْمُعْتَمِرِ هَذَا الْحَدِيثَ، ثُمَّ لَقِيتُ مَنْصُورَ بن الْمُعْتَمِرِ فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَحَدَّثَنَا عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ:أَنْصِتْ لِلْقِرَاءَةِ كَمَا أُمِرْتَ، فَإِنَّ فِي الصَّلاةِ شُغْلا، وَسَيَكْفِيكَ ذَاكَ الإِمَامُ.

المعجم الأوسط للطبراني - (ج 17 / ص 358)
حدثنا موسى بن هارون ، ثنا يحيى بن أيوب المقابري ، نا عبد الوهاب الثقفي ، نا أيوب ، عن منصور بن المعتمر ، هذا الحديث ثم لقيت منصور بن المعتمر ، فسألته عنه فحدثنا ، عن أبي وائل ، عن عبد الله بن مسعود ، أنه قال في القراءة خلف الإمام : « أنصت للقراءة كما أمرت ، وسيكفيك ذلك الإمام » « لم يرو هذا الحديث عن أيوب إلا عبد الوهاب ، تفرد به : يحيى بن أيوب »

موطأ مالك - (ج 1 / ص 258)
حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ
كَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ
قَالَ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَا يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ

إرواء الغليل - (ج 2 / ص 274)
عن نافع أن عبد الله بن عمر كان إذا سئل : هل يقرأ أحد خلف الإمام ؟ قال : إذا صلى أحدكم خلف الإمام فحسبه قراءة الإمام وإذا صلى وحده فليقرأ قال : وكان عبد الله بن عمر لا يقرأ خلف الإمام ) . وأما حديث ابن مسعود فأخرجه الطبراني في ( الأوسط ) ومن طريقه الخطيب في تاريخه ( 11 / 426 ) من طريق أحمد بن عبد الله بن ربيعة بن العجلان حدثنا سفيان بن سعيد الثوري عن مغيرة عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله بن مسعود قال : ( صلى بنا النبي ( صلى الله عليه وسلم ) صلاة الصبح فقرأ سورة ( سبح اسم ربك الأعلى ) فلما فرغ من صلاته قال : من قرأ خلفي ؟ فسكت القوم ثم عاود النبي ( صلى الله عليه وسلم ) : من قرأ خلفي ؟ قال رجل : أنا يارسول الله فقال النبي ( صلى الله عليه وسلم ) : ما لي أنازع القرآن ؟ إذا صلى أحدكم خلف الإمام فليصمت فإن قراءتة له قراءة وصلاته له صلاة ) .

موطأ مالك - (ج 1 / ص 251)
و حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ
يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا وَرَاءَ الْإِمَامِ


سنن الترمذي - (ج 2 / ص 26)
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ
مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
تحقيق الألباني: صحيح

آخری دو روایات میں صحابہ کرام وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ سورت فاتحہ سے بھی امام کفایت کرتا ہے۔
قرآن کی تفسیر احادیث کرتی ہیں اور احادیث کی تفسیر آثارِ صحابہ جو پہلے مخطب ہیں اللہ تعالیٰ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم بھٹی صاحب
میں نے تو سوچا تھا کہ آپ مرفوع روایت پیش کریں گے
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
آخری دو روایات میں صحابہ کرام وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ سورت فاتحہ سے بھی امام کفایت کرتا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ صَلَّى صَلاَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهْىَ خِدَاجٌ - ثَلاَثًا - غَيْرُ تَمَامٍ ‏"‏ ‏.‏ فَقِيلَ لأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الإِمَامِ ‏.‏ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى قَسَمْتُ الصَّلاَةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ ‏{‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏}‏ ‏.‏ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ ‏{‏ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‏}‏ ‏.‏ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى أَثْنَى عَلَىَّ عَبْدِي ‏.‏ وَإِذَا قَالَ ‏{‏ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ‏}‏ ‏.‏ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي - وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَىَّ عَبْدِي - فَإِذَا قَالَ ‏{‏ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ‏}‏ ‏.‏ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ ‏.‏ فَإِذَا قَالَ ‏{‏ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ * صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ‏}‏ ‏.‏ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلاَءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ ‏.‏
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ صَلَّى صَلاَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهْىَ خِدَاجٌ - ثَلاَثًا - غَيْرُ تَمَامٍ ‏"‏ ‏.‏ فَقِيلَ لأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الإِمَامِ ‏.‏ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى قَسَمْتُ الصَّلاَةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ ‏{‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏}‏ ‏.‏ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ ‏{‏ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‏}‏ ‏.‏ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى أَثْنَى عَلَىَّ عَبْدِي ‏.‏ وَإِذَا قَالَ ‏{‏ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ‏}‏ ‏.‏ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي - وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَىَّ عَبْدِي - فَإِذَا قَالَ ‏{‏ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ‏}‏ ‏.‏ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ ‏.‏ فَإِذَا قَالَ ‏{‏ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ * صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ‏}‏ ‏.‏ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلاَءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ ‏.‏
اس حدیث کو محدث فورم کے بہت سے حضرات پہلے بھی پیش کر چکے ہیں اور الحمد للہ ان کو اس حدیث کی صحیح تفہیم بھی دی گئی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کے مخالف فہم پر آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور جو فہم قرآن و حدیث کے مطابق ہو وہ گلے سے نیچے نہیں اترتا۔
الحمد للہ اس حدیث کا فہم مختلف زاویوں سے دیتا رہا ہوں اب ایک مختلف انداز سے بات سمجھائی جاتی ہے اللہ کرے کہ گلے سے اتر جائے۔
نمبر ایک: آپ تمام حضرات سر جوڑ کر بیٹھیں اور ثابت کریں کہ اس حدیث میں ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہری نماز میں ایسا کرنے کو کہا؟
نمبر دو:امام کی اقتداء میں مقتدی کی جہری قراءت کا آپ لوگوں سمیت کوئی بھی قائل نہیں (اگر ہے تو ثبوت فراہم کریں) تو پھر ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ”فی نفسک“ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
آیت کی تفاسیر
تفسير الطبري - (ج 13 / ص 344)
قال أبو جعفر: يقول تعالى ذكره للمؤمنين به، المصدقين بكتابه، الذين القرآنُ لهم هدى ورحمة:(إذا قرئ)، عليكم، أيها المؤمنون،(القرآن فاستمعوا له)، يقول: أصغوا له سمعكم، لتتفهموا آياته، وتعتبروا بمواعظه =(وأنصتوا)، إليه لتعقلوه وتتدبروه، ولا تلغوا فيه فلا تعقلوه =(لعلكم ترحمون)، يقول: ليرحمكم ربكم باتعاظكم بمواعظه، واعتباركم بعبره، واستعمالكم ما بينه لكم ربكم من فرائضه في آيه.

تفسير الطبري - (ج 13 / ص 346)
حدثني أبو السائب قال: حدثنا حفص، عن أشعث، عن الزهري قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئًا قرأه، فنزلت:( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا).
یہ آیت ایک انصاری صحابی کے بارے اتری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی پڑھتے وہ بھی پڑھتا۔ پس یہ آیت :( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) نازل ہوئی۔

حدثنا حميد بن مسعدة قال: حدثنا بشر بن المفضل قال: حدثنا الجريري، عن طلحة بن عبيد الله بن كريز قال: رأيت عبيد بن عمير وعطاء بن أبي رباح يتحدثان والقاصّ يقص، فقلت: ألا تستمعان إلى الذكر وتستوجبان۔ْ الموعود؟ قال: فنظرا إلي، ثم أقبلا على حديثهما. قال: فأعدت، فنظرا إلي، ثم أقبلا على حديثهما. قال: فأعدت الثالثة قال: فنظرا إلي فقالا إنما ذلك في الصلاة:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا).

تفسير الطبري - (ج 13 / ص 347)
حدثنا ابن بشار قال: حدثنا عبد الرحمن قال: حدثنا سفيان، عن أبي هاشم إسماعيل بن كثير، عن مجاهد في قوله:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) قال: في الصلاة.
حدثنا ابن المثنى قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن رجل، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) قال: في الصلاة.
حدثنا أبو كريب قال: حدثنا ابن إدريس قال: حدثنا ليث، عن مجاهد:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) قال: في الصلاة.
حدثنا ابن المثنى قال: حدثنا محمد بن جعفر قال: حدثنا شعبة قال: سمعت حميدًا الأعرج قال: سمعت مجاهدًا يقول في هذه الآية:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) قال: في الصلاة.

تفسير الطبري - (ج 13 / ص 351)
حدثني ابن المثنى قال: حدثنا محمد بن جعفر قال: حدثنا شعبة، عن منصور قال: سمعت إبراهيم بن أبي حمزة، يحدث أنه سمع مجاهدًا يقول في هذه الآية:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) قال: في الصلاة، والخطبة يوم الجمعة.
حدثنا الحسن بن يحيى قال: أخبرنا عبد الرزاق قال: أخبرنا الثوري، عن جابر، عن مجاهد قال: وجب الإنصات في اثنتين: في الصلاة، ويوم الجمعة.


تفسير الطبري - (ج 13 / ص 352)
حدثنا ابن البرقي قال: حدثنا ابن أبي مريم قال: حدثنا يحيى بن أيوب قال: ثني ابن جريج، عن عطاء بن أبي رباح قال: أوجب الإنصات يوم الجمعة، قول الله تعالى ذكره:(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون)، وفي الصلاة مثل ذلك.

قال أبو جعفر: وأولى الأقوال في ذلك بالصواب، قولُ من قال: أمروا باستماع القرآن في الصلاة إذا قرأ الإمام، وكان من خلفه ممن يأتمّ به يسمعه، وفي الخطبة.
وإنما قلنا ذلك أولى بالصواب، لصحة الخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: "إذا قرأ الإمام فأنصتوا"، وإجماع الجميع على أن [على] من سمع خطبة الإمام ممن عليه الجمعة، الاستماعَ والإنصاتَ لها، مع تتابع الأخبار بالأمر بذلك، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنه لا وقت يجب على أحد استماع القرآن والإنصات لسامعه، من قارئه، إلا في هاتين الحالتين، على اختلاف في إحداهما، وهي حالة أن يكون خلف إمام مؤتم به. وقد صح الخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بما ذكرنا من قوله: "إذا قرأ الإمام فانصتوا" فالإنصات خلفه لقراءته واجب على من كان به مؤتمًّا سامعًا قراءته، بعموم ظاهر القرآن والخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
ان عبارات کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرگئے

امام ابن جریر طبری رحمتہ اللہ دوسری آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں

لا تستكبر، أيها المستمع المنصت للقرآن، عن عبادة ربك, واذكره إذا قرئ القرآن تضرعًا وخيفة ودون الجهر من القول.
(ابن جریر ص ١٦٨ ج ٩)


اے سننے اور خاموش رہنے والے اپنے رب کی عبادت سے انکار نہ کر بلکہ جب قرآن پڑھا جائے تو آہستہ اسکا ذکر کر.

من كان به موتما سامعا قراءت.

یہ بھی تفسیر ہی ہے!


ذكر لنا أنھن فاتحة الكتاب وأنھن اثنین في كل ركعة مكتوبة أو تطوع۔
(ابن جریر ص ٥٦ ج ١٤)



ہمیں بتلایا گیا ہے وہ فاتحہ الکتاب ہے اور وہ نماز کی ہر رکعت میں فرض اور نفل میں دہرائی جاتی ہیں


إنما سمين مثاني لأنهن يثنين في كل ركعة من الصلاة۔
(ابن جریر ص ٥٦ ج ١٤)


انکا نام مثانی اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں

جاری ہے
 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
مقتدی کو سورت فاتحہ پڑھنے کی ممانعت ہے
فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم؛
سنن النسائي - (ج 3 / ص 486)
913 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ كَانَ الْمُخَرِّمِيُّ يَقُولُ هُوَ ثِقَةٌ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيَّ (قال البانی الصحیح)

سنن ابن ماجه - (ج 3 / ص 83)
838 - حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي غَلَّابٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمْ التَّشَهُّدُ (قال البانی الصحیح)

مسند أحمد - (ج 18 / ص 76)
8534 - حَدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ الصَّاغَانِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ { وَلَا الضَّالِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ

مسند أحمد - (ج 40 / ص 208)
18891 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ ثَنَا جَرِيرٌ عَن سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَن قَتَادَةَ عَن أَبِي غَلَّابٍ عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَن أَبِي مُوسَى قَالَ
عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ وَإِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا

مختصر إرواء الغليل - (ج 1 / ص 100)
499 - صحيح

( حديث أبي هريرة وإذا قرأ فأنصتوا رواه الخمسة إلا الترمذي )


اسکا آپ پہلے بھی آپ جواب نہ دے سکے

حديث أبي موسى الأشعري رضي الله عنه

الإمام مسلم (261هـ):
قال مسلم بعد روايته لهذا الحديث :" وفي حديث جريرعن سليمان التيمي، عن قتادة من الزيادة "واذا قرأ فأنصتوا " وليس في حديث أحد منهم

( تقدم في تخريج الحديث.)

الإمام أبوداود (275هـ):
قال أبو داود بعد روايته له " و قوله : فأنصتوا ليس بمحفوظ ، لم يجيء به إلا سليمان التيمي في هذا الحديث

( تقدم في تخريج الحديث.)

الإمام الدارقطني (385هـ) :
قال الدارقطني في السنن :" ورواه هشام الدستوائي وسعيد وشعبة وهمام وأبو عوانة وأبان وعدي بن أبي عمارة كلهم عن قتادة فلم يقل أحد منهم وإذا قرأ فأنصتوا وهم أصحاب قتادة الحفاظ عنه .

( السنن (1/324)

وقال في كتابه العلل : " وسليمان التيمي من الثقات وقد زاد عليهم قوله وإذا قرأ فأنصتوا ولعله شبه عليه لكثرة من خالفه من الثقات

(العلل (7/68)

أبو مسعود الدمشقي (401هـ):
قال أبو مسعود إبراهيم بن مُحمَّد الدمشقي " وإنما أراد مسلم بإخراج حديث التيمي تبيين الخلاف في الحديث على قتادة، لا أنه يثبته، ولا ينقطع بقوله عن الجماعة الذين خالفوا التيمي، قدم حديثهم ثم أتبعه بهذا

(نقله فضيلة الشيخ مقبل بن هادي في تحقيقه لكتاب التتبع ص : 213)

الحافظ المزي(742هـ) :
قال الحافظ يوسف بن عبد الرحمن المزي :"و في حديث التيمي من الزيادة :" و اذا قرأ فانصتوا " ولم يذكر هذا اللفظ غيره

(تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف للحافظ المزي (6/410)



حديث أبي هريرة رضي الله عنها

الإمام يحي بن معين (233هـ) :
قال يحي : " في حديث أبي خالد الأحمر حديث بن عجلان إذا قرأ فأنصتوا قال ليس بشيء ولم يثبته ووهنه

تاريخ يحي بن معين (3/455) من رواية الدوري


الإمام البخاري (256هـ) :
قال البخاري : حدثنا عثمان، قال :حدثنا بكر، عن ابن عجلان، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ولم يذكروا :" فأنصتوا " ولا يعرف هذا من صحيح حديث ابن خالد الأحمر

القراءة خلف الإمام للإمام البخاري ص: 23


وقال في كتاب الكنى : " وقال صدقة عن أبي خالد عن بن عجلان عن زيد عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم وزاد وإذا قرا فأنصتوا ولم يصح .

ذكره مسلم (2/14) بعد الحديث رقم (404)

قال: "ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ههنا إنما وضعت ههنا ما أجمعوا عليه

الكنى (1/38)

وقد فهم كثير من المتأخرين

منهم : الإمام النووي ، وتبعه الشيخ مقبل بن هادي ، وصار على سننهم فضيلة الدكتور ماهر ياسين الفحل حفظه الله

أن مسلما قد قبل هذه الزيادة لهذا النص ، وليس كذلك ، وقد تكفل فضيلة شيخنا الدكتور عبد الله حمزة المليباري حفظه الله في كتابه عبقرية الإمام مسلم في ترتيب مسنده الصحيح بتوضيح ذلك فليراجع

انظر ص: 59 وما بعدها


الإمام أبو داود (275هـ)
قال أبو داود عقب تخريجه لهذا الحديث : " هذه الزيادة و إذا قرأ فأنصتوا ليست بمحفوظة الوهم عندنا من أبي خالد

سنن أبو داود (1/165)

الإمام أبوحاتم الرازي :
قال ابن أبي حاتم الرازي : " سمع أبي وذكر حديث أبي خالد الاحمر عن ابن عجلان عن زيد بن أسلم عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال انما جعل الامام ليؤتم به فاذا قرأ فأنصتوا .قال أبي : ليس هذه الكلمة بالمحفوظ وهو من تخاليط ابن عجلان

العلل لابن أبي حاتم الرازي (1/115) برقم (465)


الإمام النسائي (303هـ):
قال الإمام النسائي:" لا نعلم أحدا تابع ابن عجلان على قوله : "و اذا قرأ فأنصتوا

سنن النسائي (2/141)


الإمام الدارقطني (385هـ):
قال الدارقطني : " قال فيه فإذا قرأ فأنصتوا وهذا الكلام ليس بمحفوظ في هذا الحديث."

العلل للدارقطني (8/51)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top