حافظ راشد
رکن
- شمولیت
- جولائی 20، 2016
- پیغامات
- 116
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 75
از عثمان احمد june29 ,2014
حدیث [من کان لہ امام فقرأۃ الامام لہ قراۃ] کا تحقیقی جائزہ
أخبرنا أبو حنیفۃ قال حدثنا أبو الحسن موسی بن أبی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد بن الھاد عن جابر بن عبداللہ عن النبی ﷺ قال من صلی خلف الإمام۔۔۔ حدیث من کان لہ امام۔۔۔[موطا امام محمد]
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاکہ جس نمازی کا امام ہو تواس کے امام کا پڑھنا ہی اس مقتدی کا پڑھنا سمجھا جائے گا۔
براہ کرم اس روایت کے بارے میں مکمل تحقیق سے بہرہ ور فرمائیں بہت ہی شکرگزار ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۱ آمین
الجواب:
حدیث: من کان لہ إمام فقرأہ الإمام لہ قرأۃ کے مفہوم و الفاظ کے ساتھ مختلف سندوں سے مروی ہے۔ یہ سندیں دو طرح کی ہیں:
اول: وہ اسانید جن میں کذاب، متروک، سخت مجروح اور مجہول روای ہیں : مثلاً
1-حدیث جابر الجعفی عن أبی الزبیر عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ۔۔إلخ
[رواہ ابن ماجہ، ح:۸۵۰]
جابر الجعفی: متروک ہے، دیکھئے کتاب الکنیٰ والأسماء للإمام مسلم(ق ۹۶کنیۃ:أبو محمد) و کتاب الضعفاء والمتروکین للإمام النسائی (۹۸)وقال الزیلعی:‘‘ وکذبہ أیضاأ یوب وزائدۃ'' اور اسے ایوب (السختیانی) اور زائدہ نے کذاب کہا ہے(نصب الرایہ ۱؍۳۴۵)
2۔ حدیث أبی ھارون العبدی عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ إلخ۔۔رواہ ابن عدی فی الکامل(۱؍۵۲۴ترجمۃ إسماعیل بن عمر و بن نجیح) ابو ہارون کے بارے میں زیلعی حنفی نے حماد بن زید کا قول نقل کیا ہے کہ: ‘‘کان کذاباً'' یعنی وہ کذاب(بڑا جھوٹا ) تھا، دیکھئے نصب الرایہ (ج۴ص۲۰۱)
3۔ حدیث سھل بن عباس الترمذی بسندہ إلخ رواہ الدارقطنی(۱؍۴۰۲ح۱۴۸۶)وقال: ‘‘ھذا حدیث منکر ، وسھل بن العباس: متروک''
اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ متروک وغیرہ سخت مجروح راویوں کی روایت مردود ہوتی ہے۔ مثلاً
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: ((لأن الضعف یتفاوت فمنہ مالا یزول بالمتا بعات یعنی لا یؤثر کونہ تابعاً أ و متبوعاً کروایۃ الکذابین و المتروکین))
‘‘کیونکہ ضعف کی قسمیں ہوتی ہیں، بعض ضعف متابعات سے بھی زائل نہیں ہوتے جیسے کذابین و متروکین کی روایت ، یہ مؤید ہو سکتی ہے اور نہ تائید میں فائدہ دیتی ہے''(اختصار علوم الحدیث ص ۳۸ تعریفات أخری للحسن، النوع:۲)
اس تمہید کے بعد اس روایت (من کان لہ إمام ألخ) کی ان سندوں پر جامع بحث پیش خدمت ہے جن پر مخالفین قرأتِ ففاتحہ خلف الامام کو ناز ہے۔ وللہ ھو الموفق
۱۔ محمد بن الحسن الشیبانیؒ: أخبرنا أبو حنیفۃ قال: حدثنا أبو الحسن موسی بن أ بی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد بن الھاد عن جابر بن عبداللہ'' إلخ(مؤطا الشیبانی ص ۹۸ح۱۱۷)
اس روایت میں عبداللہ بن شداد اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان ‘‘ ابو الولید'' کا واسطہ ہے۔ دیکھئے کتاب الآثار المنسوب إلی قاضی أبی یوسف(۱۱۳) و سنن الدار قطنی(۱؍۳۳۵ح۱۲۲۳ وقال: أبو الولید ھذا مجہول) و کتاب القرأہ للبیہقی (ص۱۲۵ح۳۱۴،وص۱۲۶،۱۲۷دوسرا نسخہ ح۳۴۱،۳۳۹)
معلوم ہوا کہ یہ روایت ابو الولید(مجہول) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ اس مجہول راوی کو بعض راویوں نے سند میں ذکر نہیں کیا تاہم یہ معلوم ہے کہ جس نے ذکر کیا اس کی بات ذکر نہ کرنےو الے کی روایت پر مقدم ہوتی ہے۔
اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بذاتِ خود اپنی اس بیان کردہ روایت کو باطل سمجھتے تھے۔ ابو عبدالرحمن المقرئ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
((کان أبو حنیفۃ یحدثنا، فإذا فرغ من الحدیث قال: ھذا الزی سمعتم کلہ ریح و باطل))‘‘ابو حنیفہ ہمیں حدیثیں سناتے تھے۔ جب حدیث (کی روایت) سےفارغ ہوتے تو فرماتے : یہ سب کچھ ، جو تم نے سنا ہے ہوا اور باطل ہے'' [کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ج ۸ص ۴۵۰ و سند صحیح]
ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ: ((عامۃ ما أحدثکم خطأ))‘‘میں تمہیں جو عام حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں''[العلل الکبیر للترمذی ج ۲ص ۹۶۶و سندہ صحیح، و الکامل لابن عدی ۷؍۲۴۷۳و تاریخ بغداد ۱۳؍۴۲۵]ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ نے اپنی کتابوں کے بارے میں فرمایا کہ:((واللہ ما أدری لعلہ الباطل الذی لاشک فیہ))‘‘اللہ کی قسم مجھے (ان کے حق ہونے کا) پتہ نہیں ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی باطل ہوں جن میں (باطل ہونے میں ) کوئی شک نہیں ہے۔''[کتاب المعرفۃ و التاریخ للإمام یعقوب بن سفیان الفارسی ج ۲ص۷۸۲و سندہ حسن]
اور یہ بات عام لوگ بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اپنی بیان کردہ حدیثوں اور کتابو ں کے بارے میں بعد والوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ جانتے تھے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ابو الولید(مجہول) کی وجہ سے امام صاحب نے اپنی روایت کو باطل قرار دیا ہو، واللہ أعلم و علمہ أتم،
۲: أحمد بن حنبل: ‘‘حدثنا أسود بن عامر : أخبرنا حسن بن صالح عن أبی الزبیر عن جابر'' إلخ
(مسند احمد ، الموسوعۃ الحدیثیۃ ۲۳؍۱۲ح۱۴۶۴۳)
یہ روایت دووجہ سے ضعیف ہے۔
اول: ابو الزبیر المکی مسدلس ہے بلکہ‘‘مشہور بالتدلیس'' ہے۔ (طبقات المدلسین، المرتبہ الثالثہ۳؍۱۰۱)
یہ روایت عن سے ہے۔ ا۱ول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ مدلس کی (غیر صحیحین میں) عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ [دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح مع التقیید والا یضاح(ص۹۹)والنسخۃ المحققۃص۱۶۱]
دوم: حسن بن صالح اور ابو الزبیر کے درمیان جابر الجعفی (متروک) کا واسطہ ہے دیکھئے مسند احمد(ج۳ص۳۳۹ح۱۴۶۹۸)و التحقیق فی اختلاف الحدیث لا بن الجوزی(۱؍۳۲۰ح۵۶۷)
تنبیہ: یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ ابن الترکمانی حنفی نے ابو الزبیر کی تدلیس سے قطع نظر کرتے ہوئے ، اس ضعیف و مردود روایت کو ‘‘وھذا سند صحیح'' لکھ دیا ہے، دیکھئے الجوھر النقی(۲؍۱۵۹)بحوالہ ابن ابی شیبہ(۱؍۳۷۷ ح۳۸۰۲)
شیخ الناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے دلائل کے ساتھ ابن الترکمانی کا زبردست رد کیا ہے۔ دیکھئے ارواء الغلیل(ج ۲ص ۲۷۰ح۵۰۰)
۳: أحمد بن منیع‘‘ثنا إسحاق الأزرق: ثنا سفیان و شریک عن موسی بن أبی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد عن جابر رضی اللہ عنہ'' ألخ[اتحاف الخیرۃ المھرہ للبوصیری۲؍۲۲۵ح۱۵۶۷]
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
اول: سفیان ثوری مدلس ہیں(عمدۃ القاری للعینی۳؍۱۱۲باب الوضوء من غیر حدث ، و الجوھر النقی۸؍۲۶۲)نیز دیکھئے الحدیث: ۱ ص ۲۹،۲۸اور یہ روایت عن سے ہے۔ شریک القاضی بھی مدلس ہیں(طبقات المدلسین۵۶؍۲ و جامع التحصیل للعلائی ص ۱۰۷والمدلسین لأبی زرعۃ بن العراقی:۲۸ و المدلسین للسیوطی:۲۴و المدلسین للحلمی ص۳۳) اور یہ روایت عن سے ہے۔
دوم: یہ گزر چکا ہے کہ عبداللہ بن شداد اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو الولید(مجہول) کا واسطہ ہے۔
نتیجۃ البحث: یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے، لہذا شیخ البانی رحمہ اللہ کا اسے‘‘حسن'' [ارواء الغلیل۲؍۲۶۸]اور الموسوعۃ الحدیثیۃ کے محشی کا‘‘ حسن بطرقہ و شواھدہ'' کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کو حافظ ابن حجر نے ملعول(التلخیص الحبیر۲؍۲۳۲ح۳۴۵)اور قرطبی نے حدیث ضعیف قرار دیا ہے۔ [تفسیر قرطبی۱؍۱۲۲، الباب الثانی فی نزولھاأحکا مھا، أیی سورۃ الفاتحۃ]
فائدہ: ہمارے شیخ ، امام ابو محمد بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تضعیف پر ‘‘اظھار البرأۃ عن حدیث: من کان لہ إمام فقرّأۃ الإمام لہ قرأۃ'' مستقل کتاب لکھی ہے۔ والحمد للہ
حدیث [من کان لہ امام فقرأۃ الامام لہ قراۃ] کا تحقیقی جائزہ
أخبرنا أبو حنیفۃ قال حدثنا أبو الحسن موسی بن أبی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد بن الھاد عن جابر بن عبداللہ عن النبی ﷺ قال من صلی خلف الإمام۔۔۔ حدیث من کان لہ امام۔۔۔[موطا امام محمد]
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاکہ جس نمازی کا امام ہو تواس کے امام کا پڑھنا ہی اس مقتدی کا پڑھنا سمجھا جائے گا۔
براہ کرم اس روایت کے بارے میں مکمل تحقیق سے بہرہ ور فرمائیں بہت ہی شکرگزار ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۱ آمین
الجواب:
حدیث: من کان لہ إمام فقرأہ الإمام لہ قرأۃ کے مفہوم و الفاظ کے ساتھ مختلف سندوں سے مروی ہے۔ یہ سندیں دو طرح کی ہیں:
اول: وہ اسانید جن میں کذاب، متروک، سخت مجروح اور مجہول روای ہیں : مثلاً
1-حدیث جابر الجعفی عن أبی الزبیر عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ۔۔إلخ
[رواہ ابن ماجہ، ح:۸۵۰]
جابر الجعفی: متروک ہے، دیکھئے کتاب الکنیٰ والأسماء للإمام مسلم(ق ۹۶کنیۃ:أبو محمد) و کتاب الضعفاء والمتروکین للإمام النسائی (۹۸)وقال الزیلعی:‘‘ وکذبہ أیضاأ یوب وزائدۃ'' اور اسے ایوب (السختیانی) اور زائدہ نے کذاب کہا ہے(نصب الرایہ ۱؍۳۴۵)
2۔ حدیث أبی ھارون العبدی عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ إلخ۔۔رواہ ابن عدی فی الکامل(۱؍۵۲۴ترجمۃ إسماعیل بن عمر و بن نجیح) ابو ہارون کے بارے میں زیلعی حنفی نے حماد بن زید کا قول نقل کیا ہے کہ: ‘‘کان کذاباً'' یعنی وہ کذاب(بڑا جھوٹا ) تھا، دیکھئے نصب الرایہ (ج۴ص۲۰۱)
3۔ حدیث سھل بن عباس الترمذی بسندہ إلخ رواہ الدارقطنی(۱؍۴۰۲ح۱۴۸۶)وقال: ‘‘ھذا حدیث منکر ، وسھل بن العباس: متروک''
اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ متروک وغیرہ سخت مجروح راویوں کی روایت مردود ہوتی ہے۔ مثلاً
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: ((لأن الضعف یتفاوت فمنہ مالا یزول بالمتا بعات یعنی لا یؤثر کونہ تابعاً أ و متبوعاً کروایۃ الکذابین و المتروکین))
‘‘کیونکہ ضعف کی قسمیں ہوتی ہیں، بعض ضعف متابعات سے بھی زائل نہیں ہوتے جیسے کذابین و متروکین کی روایت ، یہ مؤید ہو سکتی ہے اور نہ تائید میں فائدہ دیتی ہے''(اختصار علوم الحدیث ص ۳۸ تعریفات أخری للحسن، النوع:۲)
اس تمہید کے بعد اس روایت (من کان لہ إمام ألخ) کی ان سندوں پر جامع بحث پیش خدمت ہے جن پر مخالفین قرأتِ ففاتحہ خلف الامام کو ناز ہے۔ وللہ ھو الموفق
۱۔ محمد بن الحسن الشیبانیؒ: أخبرنا أبو حنیفۃ قال: حدثنا أبو الحسن موسی بن أ بی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد بن الھاد عن جابر بن عبداللہ'' إلخ(مؤطا الشیبانی ص ۹۸ح۱۱۷)
اس روایت میں عبداللہ بن شداد اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان ‘‘ ابو الولید'' کا واسطہ ہے۔ دیکھئے کتاب الآثار المنسوب إلی قاضی أبی یوسف(۱۱۳) و سنن الدار قطنی(۱؍۳۳۵ح۱۲۲۳ وقال: أبو الولید ھذا مجہول) و کتاب القرأہ للبیہقی (ص۱۲۵ح۳۱۴،وص۱۲۶،۱۲۷دوسرا نسخہ ح۳۴۱،۳۳۹)
معلوم ہوا کہ یہ روایت ابو الولید(مجہول) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ اس مجہول راوی کو بعض راویوں نے سند میں ذکر نہیں کیا تاہم یہ معلوم ہے کہ جس نے ذکر کیا اس کی بات ذکر نہ کرنےو الے کی روایت پر مقدم ہوتی ہے۔
اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بذاتِ خود اپنی اس بیان کردہ روایت کو باطل سمجھتے تھے۔ ابو عبدالرحمن المقرئ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
((کان أبو حنیفۃ یحدثنا، فإذا فرغ من الحدیث قال: ھذا الزی سمعتم کلہ ریح و باطل))‘‘ابو حنیفہ ہمیں حدیثیں سناتے تھے۔ جب حدیث (کی روایت) سےفارغ ہوتے تو فرماتے : یہ سب کچھ ، جو تم نے سنا ہے ہوا اور باطل ہے'' [کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ج ۸ص ۴۵۰ و سند صحیح]
ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ: ((عامۃ ما أحدثکم خطأ))‘‘میں تمہیں جو عام حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں''[العلل الکبیر للترمذی ج ۲ص ۹۶۶و سندہ صحیح، و الکامل لابن عدی ۷؍۲۴۷۳و تاریخ بغداد ۱۳؍۴۲۵]ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ نے اپنی کتابوں کے بارے میں فرمایا کہ:((واللہ ما أدری لعلہ الباطل الذی لاشک فیہ))‘‘اللہ کی قسم مجھے (ان کے حق ہونے کا) پتہ نہیں ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی باطل ہوں جن میں (باطل ہونے میں ) کوئی شک نہیں ہے۔''[کتاب المعرفۃ و التاریخ للإمام یعقوب بن سفیان الفارسی ج ۲ص۷۸۲و سندہ حسن]
اور یہ بات عام لوگ بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اپنی بیان کردہ حدیثوں اور کتابو ں کے بارے میں بعد والوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ جانتے تھے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ابو الولید(مجہول) کی وجہ سے امام صاحب نے اپنی روایت کو باطل قرار دیا ہو، واللہ أعلم و علمہ أتم،
۲: أحمد بن حنبل: ‘‘حدثنا أسود بن عامر : أخبرنا حسن بن صالح عن أبی الزبیر عن جابر'' إلخ
(مسند احمد ، الموسوعۃ الحدیثیۃ ۲۳؍۱۲ح۱۴۶۴۳)
یہ روایت دووجہ سے ضعیف ہے۔
اول: ابو الزبیر المکی مسدلس ہے بلکہ‘‘مشہور بالتدلیس'' ہے۔ (طبقات المدلسین، المرتبہ الثالثہ۳؍۱۰۱)
یہ روایت عن سے ہے۔ ا۱ول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ مدلس کی (غیر صحیحین میں) عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ [دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح مع التقیید والا یضاح(ص۹۹)والنسخۃ المحققۃص۱۶۱]
دوم: حسن بن صالح اور ابو الزبیر کے درمیان جابر الجعفی (متروک) کا واسطہ ہے دیکھئے مسند احمد(ج۳ص۳۳۹ح۱۴۶۹۸)و التحقیق فی اختلاف الحدیث لا بن الجوزی(۱؍۳۲۰ح۵۶۷)
تنبیہ: یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ ابن الترکمانی حنفی نے ابو الزبیر کی تدلیس سے قطع نظر کرتے ہوئے ، اس ضعیف و مردود روایت کو ‘‘وھذا سند صحیح'' لکھ دیا ہے، دیکھئے الجوھر النقی(۲؍۱۵۹)بحوالہ ابن ابی شیبہ(۱؍۳۷۷ ح۳۸۰۲)
شیخ الناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے دلائل کے ساتھ ابن الترکمانی کا زبردست رد کیا ہے۔ دیکھئے ارواء الغلیل(ج ۲ص ۲۷۰ح۵۰۰)
۳: أحمد بن منیع‘‘ثنا إسحاق الأزرق: ثنا سفیان و شریک عن موسی بن أبی عائشۃ عن عبداللہ بن شداد عن جابر رضی اللہ عنہ'' ألخ[اتحاف الخیرۃ المھرہ للبوصیری۲؍۲۲۵ح۱۵۶۷]
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
اول: سفیان ثوری مدلس ہیں(عمدۃ القاری للعینی۳؍۱۱۲باب الوضوء من غیر حدث ، و الجوھر النقی۸؍۲۶۲)نیز دیکھئے الحدیث: ۱ ص ۲۹،۲۸اور یہ روایت عن سے ہے۔ شریک القاضی بھی مدلس ہیں(طبقات المدلسین۵۶؍۲ و جامع التحصیل للعلائی ص ۱۰۷والمدلسین لأبی زرعۃ بن العراقی:۲۸ و المدلسین للسیوطی:۲۴و المدلسین للحلمی ص۳۳) اور یہ روایت عن سے ہے۔
دوم: یہ گزر چکا ہے کہ عبداللہ بن شداد اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو الولید(مجہول) کا واسطہ ہے۔
نتیجۃ البحث: یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے، لہذا شیخ البانی رحمہ اللہ کا اسے‘‘حسن'' [ارواء الغلیل۲؍۲۶۸]اور الموسوعۃ الحدیثیۃ کے محشی کا‘‘ حسن بطرقہ و شواھدہ'' کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کو حافظ ابن حجر نے ملعول(التلخیص الحبیر۲؍۲۳۲ح۳۴۵)اور قرطبی نے حدیث ضعیف قرار دیا ہے۔ [تفسیر قرطبی۱؍۱۲۲، الباب الثانی فی نزولھاأحکا مھا، أیی سورۃ الفاتحۃ]
فائدہ: ہمارے شیخ ، امام ابو محمد بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تضعیف پر ‘‘اظھار البرأۃ عن حدیث: من کان لہ إمام فقرّأۃ الإمام لہ قرأۃ'' مستقل کتاب لکھی ہے۔ والحمد للہ