السلام علیکم و رحمۃ اللہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جو مسائل دور صحابہ یا تابعین سے مختلف فیہ ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعی "مختلف فیہ" ہیں. یعنی ان میں سو فیصد اتفاق پیدا کرنا بالکل ناممکن ہے الا یہ کہ کسی ایک معاملہ پر اجماع ہو جائے. اور نیا اجماع اس دور میں خود تقریبا ناممکن ہے.
یہ ثابت کرنا کہ کسی کی روایت میں قراءت سے مراد مابعد الفاتحہ کی قراءت ہے اور فاتحہ کی قراءت متواتر ہے یا یہ ثابت کرنا کہ تمام صحابہ کرام قراءت خلف الامام کے مخالف ہی تھے, شاید کمال خطابت و تحریر سے ممکن تو ہو لیکن حقیقت نہیں ہے. جو اپنی رائے رکھتا ہے وہ رائے پیش کر دے, اس پر دلائل دے دے. لیکن دوسرے کو مجبور کرنا کہ وہ بھی اسی رائے کو قبول کرے ورنہ مخالف حدیث کہلائے, یہ ہرگز درست نہیں. ضروری نہیں کہ جو آپ سمجھ رہے ہوں وہی حق ہو.
ان مسائل کا حل تو یہ ہے اور یہی علماء کرام کا طرز رہا ہے. باقی اگر کسی کے پاس وقت بہت فارغ ہو یا اپنی مہارت دکھانے اور مخاطب کو خاموش کرانے کا شوق ہو تو وہ پھر مناظرے کرتا رہے.
آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔
آپ یقین کریں کہ نماز کے ان مسائل میں بحث صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کرتا ہوں کہ برِّصغیر میں اہلِ سنت جماعت احناف کی نماز کو خلافِ احادیث ثابت کرکے نمازیوں کو بے نماز ثابت کیا جاتا ہے۔
میرا مقصود یہ ثابت کرنا نہیں کہ حقصرف اسی میں منحصر ہے۔ بلکہ میں اسی فورم پر کسی تھریڈ میں یہ لکھ چکا ہوں کہ اگر کوئی کسی ایسے ملک میں رہائش پذیر ہو جہاں مثال کے طور پر ”اہلِ سنت مالکی“ ہوں تو وہاں انہی کی طرح نماز پڑھنی چاہیئے باوجود کہ اس کے پاس بہت ہی قوی دلائل موجود ہوں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اسلام کی پہلی تعلیم افتراق سے بچنا ہے جہاں تک ممکن ہو سکے۔
برِّ صغیر میں صرف اہلِ سنت احناف ہی تھے۔ یہاں کسی اور مسلک کا شوشہ چھوڑنا لوگوں میں افتراق پھیلانا ہے جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ (غالباً مفتی رشید صاحب کی ایک تحریر یا بیان میں پڑھا یا سنا تھا )کہ اگر امریکہ ایران پر حملہ آور ہوتا ہے تو تمام مسلم ممالک پر لازم ہے کہ ایران کا ساتھ دیں۔ اس لئے کہ امریکہ اپنے زعم میں مسلمانوں کو زک پہنچانا چاہتا ہے اور اسلام کو سربلند رکھنا سب کی ذمہ داری ہے۔
اسلام ہمیں ایثار اور قربانی کا سبق دیتا ہے اور آپس کے اختلافات کو میٹنے کی کوشش کو تحسین کی نطروں سے دیکھتا ہے۔اتحاد کے لئے اپنا حق چھوڑنے کی ترغیب دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآَخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (الاحزاب)