• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (قراءت)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
آج اس تھریڈ کو دوبارہ تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا ۔
دیکھا تو میری ایک پوسٹ کے حوالے سے بڑا " رولا " پڑا ہوا ہے ، اور تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ میں نے گویا
کوئی غلط بیانی کی ہے ،
حالانکہ بالکل ایسا نہیں ہے ، جو کچھ لکھا وہ بالکل درست ہے ، بس صرف مصنف کا نام لکھتے وقت سہو ہوگیا
جہاں احمد علی سہارنپوری لکھنا تھا ، وہاں خلیل احمد سہارنپوری لکھ دیا ،
اور احباب نے رائی کا پہاڑ بنا دیا ،
حالانکہ
مولوی احمد علی سہارنپوری ۔۔ اور ۔۔ مولوی خلیل احمد سہارنپوری دونوں ہی دیوبندی عالم ہیں
اور دونوں ہی دیوبندی مکتب فکر کے حضرات کیلئے مستند و معتبر عالم مانے جاتے ہیں ،
مولوی احمد علی سہارنپوریؒ۱۲۲۵؁ ھ ؁ ۱۸۱۰ ؑ میں سہارنپور میں پیداہوئے۔
جن کے شاگردوں میں طائفۂ دیوبند کے روحانی پیشوا جنہیں دیوبندی حضرات سید الطائفہ کہتے ہیں حاجی امداداللہ مہاجرمکی ،مشہور دیوبندی عالم مولوی رشید احمد گنگوہی ،بانی دار العلوم دیوبند مولاناقاسم نانوتوی، مولانا احمد حسن امروہوی، مولانا مظہر نانوتویؒ،مولوی محمد یعقوب نانوتوی،مولانا محمد علی مونگیریؒ،(بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ )
مولوی احمد علی سہارنپوری کی وفات ( 17 اپریل 1880ء ) کو ہوئی ۔

جبکہ مولانا خلیل احمد سہانپوری (م1346ھ)
احمد علی سہارن پوری کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ،
تو اس میں شور مچانے اور بہتان تراشی اور طنز کی ضرورت نہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر بحث حنفیہ کا اصول کہ کچھ صحابہ ( نعوذ باللہ) فقہی احکام کی باریکیوں کو نہیں سمجھتے تھے، ایسے غیر فقیہ صحابہ کی روایات قیاس کے مقابل ہوں تو قبول نہیں کی جائیں گی ،
اس کا تذکرہ اصول فقہ کی کتابوں میں بلکہ احادیث کی شرح کے ضمن میں بھی بطور اصول کیا ہے
اور اس اصول کو اپلائی بھی کیا ہے ، یعنی عملاً بھی ان احادیث کے رد میں لاگو بھی کیا ہے
اور یہاں بطور مثال سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح بخاری میں موجود درج ذیل حدیث :
" عن الأعرج، قال أبو هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد فإنه بخير النظرين بعد أن يحتلبها: إن شاء أمسك، وإن شاء ردها وصاع تمر " »
(صحیح بخاری کتاب البیوع )
ترجمہ :
(مشہور فقیہ صحابی ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بیچنے کے لیے) اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو۔ اگر کسی نے (دھوکہ میں آ کر) کوئی ایسا جانور خرید لیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں چاہے تو جانور کو رکھ لے، اور چاہے تو واپس کر دے۔ اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دودھ کے بدل دیدے۔»
اس حدیث کی شرح میں مولوی احمد علی سہارن پوری فرماتے ہیں :
جو حوالہ پہلے پیسٹ کیا تھا وہ اب اصل کتاب صحیح بخاری سے امیج کی صورت پیش ہے ،


17426 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اس میں مقصود عبارت وہی ہے جو پہلے بھی پیش کرچکا ہوں :
مولوی احمد علی سہارن پوری صاحب بخاری شریف کے صفحہ ۲۸۸ ۔ حاشیہ نمبر 4/ پر لکھتے ہیں :
" والأصل عندنا أن الرواى إن كان معروفا بالعدالة والحفظ و الضبط دون الفقه والإجتهاد مثل أبى هريرة و أنس بن مالك فإن وافق حديثه القياس عمل به و إلا لم يترك إلا لضرورة وانسد باب الراى وتمامه فى أصول الفقه"
یعنی : ہمارے نزدیک قاعد ہ یہی ہے کہ اگر راوی عدالت حفظ اور ضبط میں تو معروف ہو لیکن فقاہت و اجہتاد میں معروف نہ ہو جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے مطابق ہو گی تو عمل کیاجائیگا ، اور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو بوقت ضرورت چھوڑ دیا جائیگا تاکہ رائے و قیاس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کی مکمل بحث اصول فقہ کی کتب میں موجود ہے۔
»
اب یہاں مقصد و مطلب واضح ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ و سیدنا انس رضی اللہ عنہما عادل تو ہیں ، ضبط حدیث بھی رکھتے ہیں ،لیکن فقیہ و مجتہد نہیں ، ( جیسا کہ جناب امام ابوحنیفہ اور ان کی مثل دیگر فقہاء و مجتہدین )
یعنی یہ صحابی فقہی احکام کی باریکیوں کو نہیں سمجھتے ، اسلئے انکی روایت کردہ حدیث احکام میں قیاس کے مقابل قبول نہیں،

اور یہ بات کسی راہ چلتے آدمی نے نہیں کہی ، بلکہ بانیان دیوبند کے مستند استاد مولوی احمد علی صاحب نے صحیح بخاری کے حاشیہ پر چڑھائی ہے ، ان مولوی صاحب کا تعارف ہم شروع میں کروا چکے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پوسٹ کا جواب تو @اشماریہ صاحب ہی دیں گے۔ میں یہاں صرف ایک حدیث کے حوالہ سے آپ حضرات کی توجہ ایک خاص نکتہ کی جانب مبذول کرنا چاہتا ہوں۔
سنن أبي داود - (ج 10 / ص 76)
3175 - حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ (
صحیح)
اس حدیث کے آخری فقرہ کا مفہوم کیا ہے؟
کیا تمام صحابہ کرام ”فقیہ“ تھے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
احمد علی سہارنپوری رح دیوبندی عالم ہیں لیکن خلیل احمد سہارنپوری رح کی طرح نہ محقق ہیں فقہ میں اور نہ اتنے معتبر. آپ کا اصل میدان نسخ حدیث کی تحقیق تھا.
بہت شکریہ کہ آپ نے بجائے مولانا احمد علی صاحب کا دفاع کرنے کے ، ان کا درجہ اعتبار کم کردیا،
اور یوں گویا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا دفاع ہوگیا ۔ فجزاکم اللہ تعالے
یہاں مطلوب بھی یہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن :
ملا جیون مصنف نور الانوار اور کچھ دیگر مصادر بھی موجود ہیں ، جن میں اس اصول کو انہی دو صحابہ کی مثال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،اور نور الانوار و دیگر ایسی کتب درسی نصاب کا حصہ ہیں ،بلکہ مولانا احمد علی کا حاشیہ بھی نصاب کا اہم ترین حصہ ہے ،
تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ :
" اصول فقہ اور توضیح الحدیث کے موضوع پر ایسی عجیب چیزوں کو کیسے نصاب علم مقرر کردیا گیا ؟
اور ایسے جلیل القدر عظیم صحابہ ہی کیوں " فقاہت سے عاری " ہونے کی مثال قرار دئے گئے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بہت شکریہ کہ آپ نے بجائے مولانا احمد علی صاحب کا دفاع کرنے کے ، ان کا درجہ اعتبار کم کردیا،
اور یوں گویا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا دفاع ہوگیا ۔ فجزاکم اللہ تعالے
یہاں مطلوب بھی یہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن :
ملا جیون مصنف نور الانوار اور کچھ دیگر مصادر بھی موجود ہیں ، جن میں اس اصول کو انہی دو صحابہ کی مثال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،اور نور الانوار و دیگر ایسی کتب درسی نصاب کا حصہ ہیں ،بلکہ مولانا احمد علی کا حاشیہ بھی نصاب کا اہم ترین حصہ ہے ،
تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ :
" اصول فقہ اور توضیح الحدیث کے موضوع پر ایسی عجیب چیزوں کو کیسے نصاب علم مقرر کردیا گیا ؟
اور ایسے جلیل القدر عظیم صحابہ ہی کیوں " فقاہت سے عاری " ہونے کی مثال قرار دئے گئے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے محترم بھائی!
نصاب کا حصہ کتب مختلف چیزیں دیکھ کر بنائی جاتی ہیں. نور الانوار اصول فقہ میں کوئی بہت تحقیقی کتاب نہیں ہے لیکن ملا جیون رح کا سمجھانے کا انداز بہت عمدہ ہے اور وہ ایک موضوع پر آنے والی مختلف مثالوں کو بہت اچھے انداز سے لاتے ہیں.
اگر اس کے مقابلے میں کشف الاسرار یا التحبیر شرح التقریر رکھ دیتے تو اسے سمجھنا ہی مشکل ہو جاتا. التحبیر کو مجھے آج بھی سمجھنے کے لیے کافی مغزماری کرنی پڑتی ہے. نصاب سے مقصود بنیادی باتوں کو سمجھانا ہوتا ہے.
حاشیہ احمد علی سہارنپوری رح نہ تو درسا پڑھایا جاتا ہے اور نہ ہی اتنی اہمیت رکھتا ہے. اس کے ساتھ ہی حاشیہ سندھی وغیرہ بھی موجود ہوتے ہیں.
پھر ایک بات ظاہر ہے کہ کوئی بھی کتاب قرآن کریم کے علاوہ سو فیصد متفق علیہ نہیں ہوتی. کتب احادیث سو فیصد متفق علیہ نہیں ہوتیں تو عام کتب کیسے ہو سکتی ہیں. حتی کہ ائمہ کرام سے بھی اختلاف کیا جاتا ہے. امام مسلم کا امام بخاری سے لقاء کے مسئلہ میں اختلاف مشہور ہے.
فقہ حنفی میں صاحبین یا امام زفر رح کے امام ابو حنیفہ رح سے اختلافات بھی معروف ہیں. اسی طرح اصحاب شافعی اور مالک رح کے اختلافات ہیں.
تو بھلا یہ عام نصاب میں پڑھائی جانے والی کتب کیسے متفق علیہ ہو سکتی ہیں؟؟!!!
------------------------------------------------
میں نے مذکورہ تھریڈ میں اس کی وضاحت کی ہے. یہ اصول چونکہ بعض اجل علماء سے مروی ہے تو بعد والے کئی اصولیین نے بلا تحقیق یہ اصول لیا ہے. پھر ان میں سے اکثر نے قیاس سے مراد قیاس الاصول کو لیا ہے جس کی میں نے وضاحت کی ہے.

باقی "غیر فقیہ" کی تعبیر اگر کسی عالم نے کی ہے تو وہ غلط ہے. اصل تعبیر علماء کی "غیر معروف بالفقہ" ہے اور دونوں تعبیرات کا فرق واضح ہے. اور ثانی الذکر تعبیر کی بنیاد میں ابراہیم نخعی رح کی اتباع کی گئی ہے. اس سب کو میں نے تفصیلا لکھا ہے اگر کوئی سمجھنا چاہے.
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
محترم @سید شاد صاحب +پ نے اس تھریڈ میں جب سے شمولیت کی ہے تب سے اس تھریڈ کے موضوع سے متعلق بھی کچھ لکھا؟
اللہ تعالیٰ نے مقتدی کو حکم دیا کہ جب امام قراءت تو اس کو توجہ سے خاموش رہ کر سنو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو۔
اگر اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ماننی بلکہ ”امتیوں“ کی ماننی ہے تو ”لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ“۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول تم تک کس طرح پہنچ گیا جو امتیوں کی رٹ لگائی ہوئی ہے؟

قرآن کس طرح پہنچ گیا تم تک جو امتیوں کی رٹ لگائی ہوئی ہے؟



اللہ تعالیٰ نے مقتدی کو حکم دیا کہ جب امام قراءت تو اس کو توجہ سے خاموش رہ کر سنو۔


ذرا سند دے دو اپنے موقف کی یا پھر وہی جاہل پن دکھاو گے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
اگر اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ماننی بلکہ ”امتیوں“ کی ماننی ہے تو ”لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ“۔

میرے خیال سے امتیوں کے ذریعے سے تو نہیں ملا تم کو کچھ بھی یہ درج ذیل واقعہ تمہارے ساتھ پیش آیا ہوگا تب تمہیں سب معلوم ہو گیا ہوگا

ہے نہ ؟



ایک دیوبندی اپنا خواب بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"اتنے میں معلوم ہوا کہ عنقریب دیوبند یا سہارنپور کی طرف سے جو گاڑی آنے والی ہے اس میں حضرت آقائے نامدار سرور کائنات ﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ گاڑی پلیٹ فارم پر آکر ٹھہری اور حضور پر نور ﷺ ایک ڈبہ میں جو انجن کے قریب تھا تشریف فرما نظر آئے۔(مبشرات دارالعلوم ص۶۷)
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اللہ تعالیٰ نے مقتدی کو حکم دیا کہ جب امام قراءت تو اس کو توجہ سے خاموش رہ کر سنو۔

ذرا سند دے دو اپنے موقف کی یا پھر وہی جاہل پن دکھاو گے
کئی دفعہ بتا چکا ۔ پھر بتاؤں گا تو پھر یہی رٹ لگاؤ گے۔ میں ۔۔۔۔۔ بین بجانے سے رہا۔
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
52
محترم @سید شاد صاحب +پ نے اس تھریڈ میں جب سے شمولیت کی ہے تب سے اس تھریڈ کے موضوع سے متعلق بھی کچھ لکھا؟
ھم اس کے لۓ معذرت چاھتے ھیں. لیکن اب تک ھم نے بھی آپکو کوئ کام کی بات کرتے ھوۓ نہیں پایا.
اسکے علاوہ آپ نے مفتی بنتے ھوۓ فتوی لگایا ھے وہ ذرا کم کر دیں.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ھم اس کے لۓ معذرت چاھتے ھیں. لیکن اب تک ھم نے بھی آپکو کوئ کام کی بات کرتے ھوۓ نہیں پایا.
اسکے علاوہ آپ نے مفتی بنتے ھوۓ فتوی لگایا ھے وہ ذرا کم کر دیں.
محترم اگر انصاف کا ترازو تھام کر دیکھیں تو میرا شروع کردہ ہر تھریڈ اور جس تھریڈ میں میں نے پہلا مراسلہ بھیجا ان میں سے کسی ایک کو آپ ”فضول“ ثابت کریں۔ مگر جب کوئی ”کام کا؟“ مراسلہ ہوتو اس کا جواب دینا مجبوری ہے۔ بعض اوقات سوچا کہ ایسے مراسلوں کا جواب نہیں دونگا اور اس پر عمل بھی کیا مگر اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔ محدث فورم کے بہت سے کرم فرماؤں اور انتظامیہ کی دوغلی پالیسی (معذرت کے ساتھ) اس پر مستضاد ہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
اس پوسٹ کا جواب تو @اشماریہ صاحب ہی دیں گے۔ میں یہاں صرف ایک حدیث کے حوالہ سے آپ حضرات کی توجہ ایک خاص نکتہ کی جانب مبذول کرنا چاہتا ہوں۔
سنن أبي داود - (ج 10 / ص 76)
3175 - حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ (
صحیح)
اس حدیث کے آخری فقرہ کا مفہوم کیا ہے؟
کیا تمام صحابہ کرام ”فقیہ“ تھے؟
اہل رائے کے بارے میں بھی کچھ روشنی ڈالیں
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top