آج اس تھریڈ کو دوبارہ تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا ۔
دیکھا تو میری ایک پوسٹ کے حوالے سے بڑا
" رولا " پڑا ہوا ہے ، اور تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ میں نے گویا
کوئی غلط بیانی کی ہے ،
حالانکہ بالکل ایسا نہیں ہے ، جو کچھ لکھا وہ بالکل درست ہے ، بس صرف مصنف کا نام لکھتے وقت سہو ہوگیا
جہاں احمد علی سہارنپوری لکھنا تھا ، وہاں خلیل احمد سہارنپوری لکھ دیا ،
اور احباب نے رائی کا پہاڑ بنا دیا ،
حالانکہ
مولوی احمد علی سہارنپوری ۔۔ اور ۔۔ مولوی خلیل احمد سہارنپوری دونوں ہی دیوبندی عالم ہیں
اور دونوں ہی دیوبندی مکتب فکر کے حضرات کیلئے مستند و معتبر عالم مانے جاتے ہیں ،
مولوی احمد علی سہارنپوریؒ۱۲۲۵ ھ ۱۸۱۰ ؑ میں سہارنپور میں پیداہوئے۔
جن کے شاگردوں میں طائفۂ دیوبند کے روحانی پیشوا جنہیں دیوبندی حضرات سید الطائفہ کہتے ہیں حاجی امداداللہ مہاجرمکی ،مشہور دیوبندی عالم مولوی رشید احمد گنگوہی ،بانی دار العلوم دیوبند مولاناقاسم نانوتوی، مولانا احمد حسن امروہوی، مولانا مظہر نانوتویؒ،مولوی محمد یعقوب نانوتوی،مولانا محمد علی مونگیریؒ،(بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ )
مولوی احمد علی سہارنپوری کی وفات ( 17 اپریل 1880ء ) کو ہوئی ۔
جبکہ مولانا خلیل احمد سہانپوری (م1346ھ)
احمد علی سہارن پوری کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ،
تو اس میں شور مچانے اور بہتان تراشی اور طنز کی ضرورت نہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر بحث حنفیہ کا اصول کہ کچھ صحابہ ( نعوذ باللہ) فقہی احکام کی باریکیوں کو نہیں سمجھتے تھے، ایسے غیر فقیہ صحابہ کی روایات قیاس کے مقابل ہوں تو قبول نہیں کی جائیں گی ،
اس کا تذکرہ اصول فقہ کی کتابوں میں بلکہ احادیث کی شرح کے ضمن میں بھی بطور اصول کیا ہے
اور اس اصول کو اپلائی بھی کیا ہے ، یعنی عملاً بھی ان احادیث کے رد میں لاگو بھی کیا ہے
اور یہاں بطور مثال سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح بخاری میں موجود درج ذیل حدیث :
" عن الأعرج، قال أبو هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد فإنه بخير النظرين بعد أن يحتلبها: إن شاء أمسك، وإن شاء ردها وصاع تمر " »
(صحیح بخاری کتاب البیوع )
ترجمہ :
(مشہور فقیہ صحابی ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بیچنے کے لیے) اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو۔ اگر کسی نے (دھوکہ میں آ کر) کوئی ایسا جانور خرید لیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں چاہے تو جانور کو رکھ لے، اور چاہے تو واپس کر دے۔ اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دودھ کے بدل دیدے۔»
اس حدیث کی شرح میں مولوی احمد علی سہارن پوری فرماتے ہیں :
جو حوالہ پہلے پیسٹ کیا تھا وہ اب اصل کتاب صحیح بخاری سے امیج کی صورت پیش ہے ،
17426 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اس میں مقصود عبارت وہی ہے جو پہلے بھی پیش کرچکا ہوں :
مولوی احمد علی سہارن پوری صاحب بخاری شریف کے صفحہ ۲۸۸ ۔ حاشیہ نمبر 4/ پر لکھتے ہیں :
" والأصل عندنا أن الرواى إن كان معروفا بالعدالة والحفظ و الضبط دون الفقه والإجتهاد مثل أبى هريرة و أنس بن مالك فإن وافق حديثه القياس عمل به و إلا لم يترك إلا لضرورة وانسد باب الراى وتمامه فى أصول الفقه"
یعنی : ہمارے نزدیک قاعد ہ یہی ہے کہ اگر راوی عدالت حفظ اور ضبط میں تو معروف ہو لیکن فقاہت و اجہتاد میں معروف نہ ہو جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے مطابق ہو گی تو عمل کیاجائیگا ، اور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو بوقت ضرورت چھوڑ دیا جائیگا تاکہ رائے و قیاس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کی مکمل بحث اصول فقہ کی کتب میں موجود ہے۔»
اب یہاں مقصد و مطلب واضح ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ و سیدنا انس رضی اللہ عنہما عادل تو ہیں ، ضبط حدیث بھی رکھتے ہیں ،لیکن فقیہ و مجتہد نہیں ، ( جیسا کہ جناب امام ابوحنیفہ اور ان کی مثل دیگر فقہاء و مجتہدین )
یعنی یہ صحابی فقہی احکام کی باریکیوں کو نہیں سمجھتے ، اسلئے انکی روایت کردہ حدیث احکام میں قیاس کے مقابل قبول نہیں،
اور یہ بات کسی راہ چلتے آدمی نے نہیں کہی ، بلکہ بانیان دیوبند کے مستند استاد مولوی احمد علی صاحب نے صحیح بخاری کے حاشیہ پر چڑھائی ہے ، ان مولوی صاحب کا تعارف ہم شروع میں کروا چکے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔