• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (ہاتھ باندھنا)

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بسم الله الرحمن الرحيم
نماز
آئیے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے مطابق نماز سیکھ کر پڑھیں۔
قيام
قيام میں تین عمل پائے جاتے ہیں۔ 1: ہاتھ باندهنا ۔ 2: ثنا پڑھنا۔ 3: قراءت كرنا۔
ہاتھ باندهنا
ہاتھ باندھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کی پشت پر رکھے، انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے حلقہ بنا کر الٹے ہاتھ کی کلائی کو گٹ سے پکڑے بقیہ کو کلائی پر بچھادے۔
صحيح مسلم میں باب کا عنوان ہے کہ سيدها ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھے (
صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى) اور اس کے ذیل میں حدیث لائے ہیں؛
وائل رضی اللہ تعالی عنہ بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز کی ابتدا میں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہی اور ہاتھوں کو کان کی لو کے برابر اٹھایا پھر ان کو کپڑے میں چھپایا اور سيدها ہاتھ الٹے ہاتھ پر باندھا( ایضاً)۔

توضیح: اس حدیث میں ہاتھ باندھنے کی کیفیت کا ذکر ہے، ہاتھ کہاں باندھے جائیں، اس کا ذکر نہیں۔ محدث کے عنوان سے ثابت ہے کہ ہاتھ سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھے۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے(
ابوداؤد بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سنن الترمذی میں لکھتے ہیں کہ میں نے ہر جگہ یہی دیکھا کہ لوگ ہاتھ ناف کے نیچے یا اوپر باندھتے ہیں (کتاب الصلاۃ بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
ہاتھ باندهنا​
ہاتھ باندھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کی پشت پر رکھے، انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے حلقہ بنا کر الٹے ہاتھ کی کلائی کو گٹ سے پکڑے بقیہ کو کلائی پر بچھادے
بھائی یہ جو آپ نے سنت طریقہ بتایا، یہ آپکی بیان کردہ کون سی حدیث میں ھے؟؟؟ ؟؟؟؟
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے(ابوداؤد بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، أَنَّ عَلِيًّا، - رضى الله عنه - قَالَ السُّنَّةُ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ
سنن ابي داود

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ضعيف متروك راوي هے, نیز زیاد بن زید مجہول ھے.....
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
صحيح مسلم میں باب کا عنوان ہے کہ سيدها ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھے (صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى) اور اس کے ذیل میں حدیث لائے ہیں؛
وائل رضی اللہ تعالی عنہ بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز کی ابتدا میں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہی اور ہاتھوں کو کان کی لو کے برابر اٹھایا پھر ان کو کپڑے میں چھپایا اور سيدها ہاتھ الٹے ہاتھ پر باندھا( ایضاً)۔
ایضاً کہہ کر بات ختم کیوں کردی پوری روایت نقل کیوں نہیں کی؟؟؟؟؟؟؟

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ وَمَوْلًى لَهُمْ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمَّا سَجَدَ سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ.

حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم نے نماز شروع کرتے وقت کانوں کے بالمقابل ہاتھوں کو بلند کیا اللہ اکبر کہا پھر ہاتھ کپڑے میں لپیٹ لیے ، پھر دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا ، پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو ہاتھ کو کپڑے سے نکال کر رفع یدین کرتے پھر رکوع کرتے پھر جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع یدین کرتے ، پھر جب سجدہ کرتے تو دو ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کرتے۔
صحیح مسلم 401#

عبد الرحمٰن بھائی رفع الیدین پھر کب سے کررہے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اس حدیث میں ہاتھ کی کیفیت یعنی باندھنے کی جگہ کہاں ھے؟؟؟؟؟؟؟

صحیح مسلم میں باب کا نام ھے ناف کے اوپر کا، اور آپکا اپنا عمل و دعوت ھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی، تو آپ نے اس روایت سے کیسے استدلال کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اس روایت میں مذکور رفع الیدین، پر عمل کیوں چھوڑا؟ ، حدیث کا جو ٹکڑا پسند آیا، تو اس ٹکڑے کو اپنے فہم پر قبول کرلیا، باقی حدیث ردی کی ٹوکری؟؟ الامان الحفیظ.....آپ کو ھدایت دے آمین
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بھائی یہ جو آپ نے سنت طریقہ بتایا، یہ آپکی بیان کردہ کون سی حدیث میں ھے؟؟؟ ؟؟؟؟
محترم! اس موضوع پر دوسرے تھریڈز میں کافی تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے میرا خیال ہے کہ اسی جگہ اس کو دیکھ لیں اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو پوچھ لیجئے گا۔ یہ طریقہ کسی ایک حدیث سے نہیں بلکہ تمام احادیث کا مجموعی ہے اور کسی بھی حدیث کے خلاف نہیں۔
احادیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ یہ ہیں؛
يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى (بخاری)
كَفَّهُ عَلَى رُسْغِهِ الْأَيْسَرِ (بخاری)
أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ (ابو داؤد، ترمذی)
وصف يحيى اليمنى على اليسرى فوق المفصل (مسند احمد)
وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد (صحيح ابن خزيمۃ)

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ضعيف متروك راوي هے, نیز زیاد بن زید مجہول ھے.....
محترم! ابراہیم النخعی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ عبد الرحمن بن اسحاق سے پہلے ان کے استاد سیار ابی الحکم کے زمانہ کے ہیں۔ ان کے زمانہ تک کا کوئی راوی ضعیف نہیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ الْكُوفِيِّ عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ
أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ (سنن ابو داؤد)

اس حدیث میں ہاتھ کی کیفیت یعنی باندھنے کی جگہ کہاں ھے؟؟؟؟؟؟؟
محترم! دیکھئےصحيح مسلم - (ج 2 / ص 365)
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ


صحیح مسلم میں باب کا نام ھے ناف کے اوپر کا، اور آپکا اپنا عمل و دعوت ھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی، تو آپ نے اس روایت سے کیسے استدلال کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محترم! ناف ایک چھوٹی سی جگہ ہے تقریباً ڈیڑھ دو انچ قطر کی۔ پھر یہ کپڑے کے نیچے چھپی ہوتی ہے کہ مرد کا ستر ناف سمیت گھٹنے سمیت تک کا ہے۔ ہاتھ باندھنے سے متعلق احادیث فعلی قسم سے ہیں قولی کوئی نہیں ہے۔ آثار میں سے آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قولی روایت ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی ہے (اللہ تعالیٰ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کہ اختلاف کی صورت میں خلفاء راشدین کی طرف رجوع کریں) اسی پر عمل کرتے ہیں۔
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
یہ طریقہ کسی ایک حدیث سے نہیں بلکہ تمام احادیث کا مجموعی ہے اور کسی بھی حدیث کے خلاف نہیں۔
احادیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ یہ ہیں؛
يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى (بخاری)
كَفَّهُ عَلَى رُسْغِهِ الْأَيْسَرِ (بخاری)
أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ (ابو داؤد، ترمذی)
وصف يحيى اليمنى على اليسرى فوق المفصل (مسند احمد)
وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد (صحيح ابن خزيمۃ)

ان احادیث سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا طریقہ زرا مجھے بھی سمجھادیں.


ہاتھ باندهنا​
ہاتھ باندھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کی پشت پر رکھے، انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے حلقہ بنا کر الٹے ہاتھ کی کلائی کو گٹ سے پکڑے بقیہ کو کلائی پر بچھادے


یہ طریقہ کس کن احادیث میں ھے زرا روشنی ڈالیں اس پر
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
محترم! ابراہیم النخعی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ عبد الرحمن بن اسحاق سے پہلے ان کے استاد سیار ابی الحکم کے زمانہ کے ہیں۔ ان کے زمانہ تک کا کوئی راوی ضعیف نہیں۔

یہ حنفیہ کا کون سا اصول ہے نیا نکلا ھے کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تو پھر سیار ابی الحکم سے یہ روایت دکھا دیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

وفي المسألة أحاديث كثيرة ودليل وضعهما فوق السرة حديث وائل بن حجر
قال : صليت مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره . رواه ابن خزيمة في صحيحه . وأما حديث علي - رضي الله عنه - أنه قال : من السنة في الصلاة وضع الأكف على الأكف تحت السرة ضعيف متفق على تضعيفه . رواه الدارقطنيوالبيهقي من رواية أبي شيبة عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي . وهو ضعيف بالاتفاق [ ص: 88 ]

الكتب» شرح النووي على مسلم» كتاب الصلاة» باب وضع اليمنى على اليسرى بعد تكبيرة الإحرام
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
والحديث الثاني : حديث علي رضي الله عنه . روىأبو داود وأحمد وابن أبي شيبة والدارقطنيوالبيهقي عن أبي جحيفة أن عليا قال : السنة وضع الكف على الكف تحت السرة .

قلت : في إسناد هذا الحديث عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي ، وعليه مدار هذا الحديث ، وهو ضعيف لا يصلح للاحتجاج قال الحافظ الزيلعي في نصب الراية بعد ذكر هذا الحديث : قال ابن القطان : عبد الرحمن بن إسحاق هو ابن الحرب أبو شيبة الواسطي، قال فيه ابن حنبل وأبو حاتم : منكر الحديث ، وقالابن معين : ليس بشيء . وقال البخاري : فيه نظر . وقال البيهقي في المعرفة : لا يثبت إسناده . تفرد بهعبد الرحمن بن إسحاق الواسطي وهو متروك . وقالالنووي في الخلاصة وشرح مسلم :هو حديث متفق على تضعيفه ، فإن عبد الرحمن بن إسحاق ضعيف بالاتفاق ، انتهى ما في نصب الراية . وقال الشيخ ابن الهمام في التحرير إذا قال البخاري للرجل فيه نظر ، فحديثه لا يحتج به ولا يستشهد به ، ولا يصلح للاعتبار ، انتهى


تحفة الأحوذي [ص: 78]

 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
محترم! ناف ایک چھوٹی سی جگہ ہے تقریباً ڈیڑھ دو انچ قطر کی۔ پھر یہ کپڑے کے نیچے چھپی ہوتی ہے کہ مرد کا ستر ناف سمیت گھٹنے سمیت تک کا ہے۔

تو سینہ کپڑے کے اوپر ھوتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ستر کس کو کہتے ہیں آپ؟؟؟؟ اک چیز کو ستر بھی کہتے ہیں اور اسی شرمگاہ پر ہاتھ رکھ کر رب کے حضور کھڑے ہوتے ہیں؟؟؟؟ اور پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ پر جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ علی کا فعل تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کسی اک صحیح صریح غیر معارض روایت سے یہ ثابت کردیں کہ علی ناف کے نیچے ہاتھ رکھ کر نماز پڑھتے تھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
وگرنہ توبہ کریں، جو یقیناً نصیب میں لگتی نہیں...
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کہ اختلاف کی صورت میں خلفاء راشدین کی طرف رجوع کریں) اسی پر عمل کرتے ہیں۔

ہم بھی یہی کہتے ہیں، لیکن اختلاف میں رجوع کی پہلی صورت قال اللہ وقال الرسول ہے، اس کے بعد خلفاء ھیں،

اب آئییے پہلے قال اللہ و قال الرسول دیکھتے ہیں:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَازِمٍ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا يَنْمِي ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِسْمَاعِيلُ يُنْمَى ذَلِكَ وَلَمْ يَقُلْ يَنْمِي

اور ابو حازم سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: "لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھے". ابو حازم یہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: مجھے اس عمل کے بارے میں یہی علم ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے".
[صحیح البخاری : 740] ، [السنن الكبری للبیھقي : 2256] ، [المعجم الكبير : 5772] , [مسند الامام احمد بن حنبل : 22342] ، [موطا امام مالك : 378]


أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ ، نَا أَبُو بَكْرٍ ، نَا أَبُو مُوسَى ، نَامُؤَمَّلٌ ، نَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ : " صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور انہیں سینے پر باندھا۔

[
صحیح ابن خزیمہ : 479]

باقی تفصیل یہاں سے ملاحظہ کرلیں
 
Top