محترم! ابراہیم النخعی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ عبد الرحمن بن اسحاق سے پہلے ان کے استاد سیار ابی الحکم کے زمانہ کے ہیں۔ ان کے زمانہ تک کا کوئی راوی ضعیف نہیں۔
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے چند وہ اقوال پیشِ خدمت ہیں، جن کے آلِ تقلید سراسر مخالف ہیں....
مصنف ابن ابي شيبه
1) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ : نا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ عَن ْمَنْصُورٍ عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ : تَقْعُدُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَقْعُدُ الرَّجُلُ
ابراهيم نخعي کہتے ہیں عورت نماز میں اس طرح بیٹھے گی جس طرح مرد بیٹھتا ہے۔
مصنف ابن ابي شيبه
2) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ يُونُسَ عَن ْالْحَسَنِ وَمُغِيرَةَ عَنْ إبْرَاهِيمَ أَنَّهُمَا كَانَ يُرْسِلَانِ أَيْدِيَهُمَا فِي الصَّلَاةِ
ابراھیم نخعي ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے" .
مصنف ابن ابي شيبه
3) حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتإبْرَاهِيمَ بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَصَلَّى
مصنف ابن ابي شيبه
4) حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْت إبْرَاهِيمَ النَّخَعِيّ وَإِبْرَاهِيمَ بْنَ سُوَيْد أَحْدَثَا ثُمَّ تَوَضَّآ وَمَسَحَا عَلَى خُفَّيْهِمَا
خلاصہ : ابراھیم نخعي جرابوں پر مسح کرتے تھے" .
5) وضو کی حالت میں ابراہیم نخعي اپنی بیوی کا بوسہ نہ لینے کے قائل تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۴۵/۱ح ۵۰۰و سندہ صحیح)
7) ابراھیم نخعي کے نزدیک اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے" .
(مصنف ابن ابی شیبہ ۲۶/۱ ح ۵۰۷)
8) ابراہیم نخعي رکوع میں تطبیق کرتے یعنی اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں کے درمیان رکھتے تھے" .
(مصنف ابن ابی شیبہ ۲۴۶/۱ ح ۲۵۴۰ ملخصاً وسندہ صحیح ، الاعمش صرح بالسماع)
ابراهيم نخعی کے یہ مسئلے کون تسلیم کرے گا؟؟؟؟؟
تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ:
“اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا" .
(مجموعہ رسائل ۹۹/۲و تجلیات صفدر ۱۱۳/۵)
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ:
[فإن قول التابعي لا حجة فیه]
بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے" .
(اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹)
آپ نے اپنے مجتہدین کے قول کے برخلاف تابعی کے عمل سے استدلال کیوں کیا؟؟؟؟؟
ہمیں معلوم ہے کہ حنفیہ کے پاس ایک بھی صحیح صریح روایت اس مسئلے میں (اور کسی بھی مسئلے میں) موجود نہیں، اسی لیے حنفیہ کو اپنے ہی اصول کے خلاف جاکر، تابعین سے استدلال کرنا پڑتا ھے....
لیکن گزارش عرض یہ ھے کہ، تابعی سے استدلال اپنی مرضی کا کیوں؟؟؟؟؟؟ تابعی کے باقی مسائل کون تسلیم کرے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کہیں تو ٹک جائیں؟؟؟؟؟؟
آپ کے، اور آپ کے اکابرین کے اندازِ استدلال سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ بس حنفیہ کا بنایا ھوا مذھب جس طرح بھی ثابت ہورہا ہو ثابت کرتے جائو چاھے روایت موضوع منکر ضعیف ہی کیوں نہ ھو.......
ہاں اگرحنفیہ کے استدلال کا کوئی نیا طریقہ مارکیٹ میں آیا ھے تو وہ مجھے ضرور بتائیں تاکہ میں بھی اُس پر غور و فکر کرسکوں؟؟؟