• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
36- بَاب الْحَامِلِ يَجِبُ عَلَيْهَا الْقَوَدُ
۳۶ -باب: حاملہ عورت پر قصاص واجب ہو تو اس کا قصاص کب ہوگا؟​


2694- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنِ ابْنِ أَنْعُمَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، وَشَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " الْمَرْأَةُ إِذَا قَتَلَتْ عَمْدًا، لاتُقْتَلُ حَتَّى تَضَعَ مَا فِي بَطْنِهَا، إِنْ كَانَتْ حَامِلا، وَحَتَّى تُكَفِّلَ وَلَدَهَا، وَإِنْ زَنَتْ، لَمْ تُرْجَمْ حَتَّى تَضَعَ مَا فِي بَطْنِهَا، وَحَتَّى تُكَفِّلَ وَلَدَهَا "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۴۸۲۴، ۵۰۴۸، ۵۱۰۳،۱۱۳۴۱، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۳) (ضعیف)
(عبد الرحمن بن انعم افریقی ،اور عبد اللہ بن لہیعہ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۲۲۲۵)
۲۶۹۴- معاذ بن جبل، عبیدہ بن جراح ، عبادہ بن صامت اور شداد بن اوس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' عورت جب جان بوجھ کر قتل کا ارتکاب کرے اور وہ حاملہ ہو ،تو اس وقت تک قتل نہیں کی جائے گی جب تک وہ بچہ کو جن نہ دے، اور کسی کو اس کا کفیل نہ بنا دے ،اور اگر اس نے زنا کا ارتکاب کیا تو اس وقت تک رجم نہیں کی جائے گی جب تک وہ زچگی (بچہ کی ولادت) سے فارغ نہ ہو جائے ،اور کسی کواپنے بچے کا کفیل نہ بنا دے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بچے کے پلنے کی صورت پیدا نہ ہوجائے مثلاً اور کوئی اس کا رشتہ دار بچے کی پرورش اپنے ذمہ لے لے ، یا کوئی اور شخص یا بچہ اس لائق ہوجائے کہ آپ کھانے پینے لگے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کا کچھ قصور نہیں ہے ، پھر اگر حاملہ عورت کو ماریں یا سنگسار کریں تو بچے کا مفت خون ہوگا ۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207

{ 22-كِتَاب الْوَصَايَا }
۲۲ -کتاب: وصیت کے احکام و مسائل


1- بَاب هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ
۱ -باب: کیا رسول اللہ ﷺ نے وصیت کی تھی ؟​


2695- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، (ح) و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ( قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ) عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: مَاتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ دِينَارًا وَلا دِرْهَمًا، وَلا شَاةً وَلا بَعِيرًا ، وَلا أَوْصَى بِشَيْئٍ۔
* تخريج: م/الوصایا ۶ (۱۶۳۵)، د/الوصایا۱(۲۸۶۳)، ن/الوصایا ۲ (۳۶۵۱)، (تحفۃ الأ شراف: ۱۷۶۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۴) (صحیح)
۲۶۹۵- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنی وفات کے وقت )دینار، درہم، بکری اور اونٹ نہیں چھوڑے اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت کی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دنیاوی امور کے متعلق، کیونکہ آپ ﷺ نے دنیا میں کوئی مال چھوڑا ہی نہیں، اور فرمایا: جو میں چھوڑ جاؤں وہ میری بیویوں اور عامل کی اجرت سے بچے تو وہ صدقہ ہے، سبحان اللہ، جیسے آپ ﷺ دنیا سے صاف رہ کر دنیا میں آئے تھے ویسے دنیا سے تشریف بھی لے گئے، البتہ دین کے متعلق آپ ﷺنے وصیت کی ہے جیسے دوسری حدیث میں ہے کہ وفات کے وقت بھی آپ ﷺ نے یہ فرمایاکہ صلاۃ کا خیال رکھو، اور غلام لونڈی کا ، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے وفود کی خاطر تواضع کرنے کے لئے وصیت کی ، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینے کے لئے وصیت کی اور محال ہے کہ آپ اور مومنین کوتو وصیت کی ترغیب دیتے اور خود وصیت نہ فرماتے ، آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب یعنی قرآن پر چلنے اور اہل بیت سے محبت رکھنے کی وصیت کی ۔


2696- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ؛ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى: أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِشَيْئٍ ؟ قَالَ: لا، قُلْتُ: فَكَيْفَ أَمَرَ الْمُسْلِمِينَ بِالْوَصِيَّةِ ؟ قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ، قَالَ مَالِكٌ: وَقَالَ طَلْحَةُ بْنُ مُصَرِّفٍ: قَالَ الْهُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ: أَبُو بَكْرٍ كَانَ يَتَأَمَّرُ عَلَى وَصِيِّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَوَدَّ أَبُو بَكْرٍ، أَنَّهُ وَجَدَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَهْدًا، فَخَزَمَ أَنْفَهُ بِخِزَامٍ.
* تخريج : خ/الوصایا ۱ (۲۷۴۰)، المغازي ۸۳ (۴۴۶۰)، فضائل القران ۱۸ (۵۰۲۲)، م/الوصایا ۵ (۱۶۳۴)، ت/الوصایا ۴ (۲۱۱۹)، ن/الوصایا ۲ (۳۶۵۰)، (تحفۃ الأ شراف: ۵۱۷۰، ۱۹۵۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۴، ۳۵۵،۳۸۱)، دي/الوصایا ۳ (۳۲۲۴) (صحیح)
۲۶۹۶- طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پو چھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی چیز کی وصیت کی ہے ؟انہوں نے جواب دیا:نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا ؟ تو انہوں نے کہا: آپﷺ نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎ ۔
مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابو بکر رسول اللہ ﷺ کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ کاتو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپﷺ کا حکم پاتے تو تابع دار اونٹنی کی طرح اپنی ناک میں (اطاعت کی) نکیل ڈال لیتے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس حکم پر سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ عنہ چلتے اس کے بعد اور لوگ، کیونکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سب صحابہ سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کے مطیع تھے، ان کے بارے میں گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ نبی کریم ﷺ نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے فرمایا ہو اور خود خلافت لے لیں، بلکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تو خلافت کی خواہش ہی نہ تھی، جب ثقیفہ بنوساعدہ میں صلاح ومشورہ ہوا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی کہ دو آدمیوں میں سے ایک کے ہاتھ بیعت کرلو ، عمر بن خطاب کے ہاتھ پر یا ابو عبیدہ بن جراح کے ہاتھ پر، اور اپنا نام ہی نہ لیا ، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے زبردستی ان سے بیعت کی ، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بیعت کر لی ، آسمان گر پڑے اور زمین پھٹ جائے ان بے ایمانوں پر جو نبی کریم ﷺ کے جانثار جانباز صحابہ کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں ،اور معاذ اللہ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے صراحۃ علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد خلیفہ بنایا تھا اور صحابہ اس کو جانتے تھے ، لیکن عمداً انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کا حق دبایا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا : { سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ } [سورة النور : 16] اگر صراحت تو کیا نبی کریم ﷺ کا ذرا بھی اشارہ ہوتا کہ آپ ﷺ کے بعد علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہیں تو تمام صحابہ جان ودل سے اس حکم کی اطاعت کرتے، اور علی رضی اللہ عنہ کو اسی وقت خلیفہ بناتے بلکہ خلافت کے لئے مشورہ ہی نہ کرتے ، کیونکہ جو امر منصوص ہو اس میں صلاح ومشورہ کی کیا حاجت ہے، اگر بالفرض ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حکم کے خلاف بھی کیا ہوتا تو انصار جن کی جماعت بہت تھی وہ کیونکر ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت قبول کرلیتے بلکہ حدیث پر چلنے کے لئے ان کو مجبور کردیتے ، وہ تو حدیث کے ایسے ماننے والے تھے کہ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی : ''الأ ئمۃ من قریش'' (امام قریش میں سے ہوں گے) تو انہوں نے اپنی امامت کا دعوی چھوڑ دیا ، پھر وہ دوسرے کی امامت حدیث کے خلاف کیسے مانتے، اور سب سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ بنی ہاشم اور خود علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کیسے تسلیم کرتے اور ان سے بیعت کیوں کرتے ، برا ہو ان کا جو علی رضی اللہ عنہ کو ایسا بزدل مانتے ہیں کہ اپنا واجبی حق بھی نہ لے سکے ، معاذ اللہ یہ سب دروغ بے فروغ ہے۔


2697- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: كَانَتْ عَامَّةُ وَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، وَهُوَ يُغَرْغِرُ بِنَفْسِهِ " الصَّلاةَ ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۱۲۲۹، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۷) (صحیح)
۲۶۹۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکی وفات کے قریب جب آپ کا سانس اٹک رہا تھا تو آپﷺ کی عام وصیت یہ تھی :'' لوگو! صلاۃ اور غلام و لو نڈی کا خیال رکھنا ''۔


2698- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أُمِّ مُوسَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ؛ قَالَ: كَانَ آخِرُ كَلامِ النَّبِيِّ ﷺ " الصَّلاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ "۔
* تخريج : د/الأدب ۱۳۳ (۵۱۵۶)، (تحفۃ الأ شراف: ۱۰۳۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۷۸) (صحیح)
۲۶۹۸- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری بات یہ تھی : '' صلاۃ کا اور اپنے غلام و لو نڈی کا خیال رکھنا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی صلاۃ کو اپنے وقت پر شرائط اور اداب کے ساتھ پڑھو، بے وقت مت پڑھو ،اور اس میں دیر مت کرو، اور غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھو کہ ان پر ظلم مت کرو ، طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لو ، ان کو کھانے پہننے کی تکلیف نہ دو ، جو لوگ صلاۃ کا خیال نہیں رکھتے اس کوقضاء کردیتے ہیں یا جلدی بغیر خشوع وخضوع کے پڑھ لیتے ہیں یا طہارت میں احتیاط نہیں کرتے یا اپنے لونڈی غلام اورخادم پر ظلم وستم کرتے ہیں وہ کس طرح کے مسلمان ہیں، جب آپ ﷺ کی آخری وصیت کا بھی ان کو خیال نہیں ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
2- بَاب الْحَثِّ عَلَى الْوَصِيَّةِ
۲ -باب: وصیت کی تر غیب​


2699- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ أَنْ يَبِيتَ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ شَيْئٌ يُوصِي فِيهِ، إِلا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ "۔
* تخريج : م/الوصایا ۱ (۱۶۲۸)، ت/الجنائز ۵ (۹۷۴)، (تحفۃ الأ شراف: ۷۹۴۴)، وقد أخرجہ: خ/الوصایا ۱ (۲۷۳۸)، د/الوصایا ۱ (۲۸۶۲)، ت/الوصایا ۳ (۲۱۱۹)، ن/الوصایا ۱ (۳۶۴۵) ط/الوصایا ۱(۱)، حم (۲/۴، ۱۰، ۳۴، ۵۰، ۵۷، ۸۰،۱۱۳)، دي /الوصایا ۱ (۳۲۱۹) (صحیح)
۲۶۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس مسلمان کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوراتیں بھی اس حال میں گذارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کے پاس مال ہو جس کے لئے وصیت کی ضرورت ہو یا کسی کی امانت ہو تو ضرور ی ہے کہ ہمیشہ وصیت لکھ کر یا لکھواکر اپنے پاس رکھا کرے ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور وصیت کی مہلت نہ ملے، اور لوگوں کے حقوق اپنے ذمہ رہ جائیں ۔


2700- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا دُرُسْتُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الرَّقَاشِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْمَحْرُومُ مَنْ حُرِمَ وَصِيَّتَهُ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۱۶۸۵، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۵) (ضعیف)
(یزیدبن ابان الرقاشی ضعیف ہیں)۔
۲۷۰۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' محروم وہ ہے جو وصیت کرنے سے محروم رہے''۔


2701- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ مَاتَ عَلَى وَصِيَّةٍ، مَاتَ عَلَى سَبِيلٍ وَسُنَّةٍ، وَمَاتَ عَلَى تُقًى وَشَهَادَةٍ، وَمَاتَ مَغْفُورًا لَهُ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۳۰۰۰، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۶) (ضعیف)
(بقیہ مدلس ہیں، اور حدیث عنعنہ سے روایت کی ہے)
۲۷۰۱- جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جو شخص وصیت کر کے مرا، وہ راہ (راست ) پر اور سنت کے مطابق مرا ، نیز پر ہیز گاری اور شہادت پر اس کا خاتمہ ہوا،اس کی مغفرت ہوگی '' ۔


2702- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عَوْفٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ، وَلَهُ شَيْئٌ يُوصِي بِهِ،إِلا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۷۶۶۳ ألف) (صحیح)
۲۷۰۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : '' مسلمان کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس نہ ہو، جب کہ اس کے پاس وصیت کرنے کے لائق کوئی چیز ہو '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
3- بَاب الْحَيْفِ فِي الْوَصِيَّةِ
۳ -باب: وصیت میں ظلم کرنے کی سزا کا بیان​
وضاحت ۱؎ : ظلم یہ ہے کہ ثلث ( ۱ - ۳ )سے زائد مال مرتے وقت صدقہ کرے گویا وارثوں کا حق دبایا ، یا کسی وارث کے لئے وصیت کرے تاکہ اس کو اور وارثوں سے زیادہ ترکہ ملے، یہ وصیت صحیح نہ ہوگی ،اور ثلث مال سے زیادہ میں بھی وصیت نافذ نہ ہوگی۔


2703- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ زَيْدٍ الْعَمِّيُّ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۸۴۳، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۷) (ضعیف)
(سند میں زید العمی اور ان کے لڑکے عبد الرحیم دونوں ضعیف ہیں، نیزملاحظہ ہو : المشکاۃ : ۳۰۷۸)
۲۷۰۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''جو شخص اپنے وارث کو میراث دلانے سے بھاگے، قیامت کے دن اللہ تعالی اسے جنت کی میراث نہ دے گا ''۔


2704- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْخَيْرِ سَبْعِينَ سَنَةً، فَإِذَا أَوْصَى حَافَ فِي وَصِيَّتِهِ، فَيُخْتَمُ لَهُ بِشَرِّ عَمَلِهِ، فَيَدْخُلُ النَّارَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّرِّ سَبْعِينَ سَنَةً، فَيَعْدِلُ فِي وَصِيَّتِهِ، فَيُخْتَمُ لَهُ بِخَيْرِ عَمَلِهِ، فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ ".
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : وَاقْرَئُوا إِنْ شِئْتُمْ: { تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ } إِلَى قَوْلِهِ ( عَذَابٌ مُهِينٌ )۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۹۵، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۸)، وقد أخرجہ: د/الوصایا ۳ (۲۸۶۷)، ت/الوصایا ۲ (۲۱۱۷)، حم (۲/۲۷۸) (ضعیف)
( ترمذی میں '' سَبْعِينَ سَنَةً'' ہے، اور سند میں شہر بن حوشب ضعیف ہیں،نیز ملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ۴۹۵)
۲۷۰۴ - ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' آدمی ستر سال تک نیک عمل کرتا رہتا ہے، پھر وصیت کے وقت اپنی وصیت میں ظلم کرتا ہے ،تو اس کاخاتمہ برے عمل پرہو تا ہے اور جہنم میں جاتا ہے ، اسی طرح آدمی ستر سال تک برے اعمال کا ار تکاب کرتا رہتا ہے لیکن اپنی وصیت میں انصاف کرتا ہے، اس کا خاتمہ با لخیر ہوتا ہے، اور جنت میں جاتاہے ''۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:اگر تم چاہوتو اس آیت کریمہ: { تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ... عَذَابٌ مُهِينٌ } (سورۃ النساء :۱۳- ۱۴) کوپڑھو یعنی :یہ حدود اللہ تعالی کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالی کی اور اس کے رسول ﷺ کی فرما نبرداری کرے گا اسے اللہ تعالی جنتیوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہر یں بہہ رہی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے او ریہ بہت بڑی کا میابی ہے، (۱۳) اور جو شخص اللہ تعالی کی اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے ، اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں ہی کے لئے رسو ا کن عذاب ہے ۔


2705- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ أَبِي حَلْبَسٍ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ أَبِي خُلَيْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ،عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ فَأَوْصَى، وَكَانَتْ وَصِيَّتُهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا تَرَكَ مِنْ زَكَاتِهِ فِي حَيَاتِهِ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۱۱۰۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۹) (ضعیف)
(بقیہ بن الولید مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور ابو حلبس مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۴۰۳۳)
۲۷۰۵- قرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے موت کے وقت اللہ کی کتاب (قرآن) کے موافق وصیت کی تو یہ وصیت اس کی اس زکاۃ کا کفارہ ہو جائے گی جو اس نے اپنی زندگی میں ادا نہ کی ہوگی '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
4- بَاب النَّهْيِ عَن الإِمْسَاكِ فِي الْحَيَاةِ وَالتَّبْذِيرِ عِنْدَ الْمَوْتِ
۴ -باب: زندگی میں بخیلی اور موت کے وقت فضو ل خرچی سے مما نعت​


2706- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ شُبْرُمَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! نَبِّئْنِي، مَا حَقُّ النَّاسِ مِنِّي بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ ؟ فَقَالَ: " نَعَمْ، وَأَبِيكَ! لَتُنَبَّأَنَّ، أُمُّكَ" قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " ثُمَّ أُمُّكَ " قَالَ: ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ: " ثُمَّ أُمُّكَ " قَالَ: ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ: " ثُمَّ أَبُوكَ " قَالَ: نَبِّئْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ! عَنْ مَالِي كَيْفَ أَتَصَدَّقُ فِيهِ ؟ قَالَ: "نَعَمْ، وَاللَّهِ لَتُنَبَّأَنَّ، أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، تَأْمُلُ الْعَيْشَ وَتَخَافُ الْفَقْرَ، وَلاتُمْهِلْ، حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هَا هُنَا، قُلْتَ: مَالِي لِفُلانٍ، وَمَالِي لِفُلانٍ، وَهُوَ لَهُمْ، وَإِنْ كَرِهْتَ "۔
* تخريج : خ/الأدب ۲ (۵۹۷۱)، م/البر والصلۃ ۱ (۲۵۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۰۵)، وقد أخرجہ: حم ۲/۳۹۱) (صحیح)
۲۷۰۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتایئے کہ لوگوں میں کس کے ساتھ حسن سلوک کا حق مجھ پر زیادہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:'' ہاں، تمہارے والد کی قسم، تمہیں بتایا جائے گا، (سب سے زیادہ حقدار )تمہاری ماں ہے'' ، اس نے کہا :پھر کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : '' پھر تمہاری ماں ہے'' ،اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آ پﷺ نے فرمایا : ''پھربھی تمہاری ماں ہے''، اس نے کہا :پھر کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : '' پھر تمہارے باپ ''؟! کہا: مجھے بتایئے کہ میں اپنا مال کس طرح صدقہ کروں ؟ آپ ﷺنے فرمایا : '' ہاں،اللہ کی قسم! یہ بھی تمہیں بتا یا جائے گا ، صدقہ اس حال میں کر وکہ تم تندرست ہو، مال کی حرص ہو، زندہ رہنے کی امید ہو ، فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو ، ایسا نہ کرو کہ تمہاری سانس یہاں آجائے (تم مرنے لگو)تو اس وقت کہو: میرا یہ مال فلا ں کے لئے اور یہ مال فلاں کے لئے ہے، اب تو یہ مال ورثاء کا ہے گرچہ تم نہ چاہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مرتے وقت وہ تمہارا مال ہی کہاں رہا جو تم کہتے ہوکہ میرایہ مال فلاں اور فلاں کو دینا ۔ جب آدمی بیمار ہوا اور موت قریب آپہنچی تو دو تہائی مال پر وارثوں کا حق ہوگیا ، اب ایک تہائی پر اختیار رہ گیا اس میں جو چاہے وہ کرلے ، لیکن ایک تہائی سے زیادہ اگر صدقہ دے گا تو وہ صحیح نہ ہوگا ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عادت کے طور پر غیر اللہ کی قسم کھانا منع نہیں ہے ، کیونکہ نبی کریم نے اس کے باپ کی قسم کھائی، اور بعضوں نے کہا یہ حدیث ممانعت سے پہلے کی ہے ، پھر آپ ﷺ نے باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع فرمایا ، نیزحدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں کے ساتھ باپ سے تین حصے زیادہ سلوک کرنا چاہئے کیونکہ ماں کا حق سب پر مقدم ہے، ماں نے بچہ کے پالنے میں جتنی تکلیف اٹھائی ہے اتنی باپ نے نہیں اٹھائی گو باپ کا حق بھی بہت بڑا ہے ۔


2707- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ جَحَّاشٍ الْقُرَشِيِّ ؛ قَالَ: بَزَقَ النَّبِيُّ ﷺ فِي كَفِّهِ، ثُمَّ وَضَعَ إِصْبَعَهُ السَّبَّابَةَ وَقَالَ: " يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَّى تُعْجِزُنِي، ابْنَ آدَمَ! وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هَذِهِ، فَإِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هَذِهِ (وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ) قُلْتَ: أَتَصَدَّقُ، وَأَنَّى أَوَانُ الصَّدَقَةِ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۲۰۱۸، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۱۰) (حسن)
۲۷۰۷- بسر بن جحاش قرشی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ہتھیلی میں تھو کا، اور اس پر شہادت کی انگلی رکھ کر فرمایا: '' اللہ تعالی فرماتا ہے : اے ابن آدم!تم مجھے کس طرح عاجز کرتے ہو، حالانکہ میں نے تمہیں اسی جیسی چیز (منی ) سے پیدا کیا ہے پھر جب تمہاری سانس یہاں پہنچ جاتی ہے، آپ نے اپنے حلق کی جانب اشارہ فرمایا تو کہتا ہے کہ میں صدقہ کرتا ہوں ، اب صدقہ کرنے کا وقت کہاں رہا '' ؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بلکہ صدقہ کا عمدہ وقت وہ ہے جب آدمی صحیح اور تندرست ہو، اور وہ مال کا محتاج ہو بہت دنوں تک جینے کی توقع ہو ، لیکن ان سب باتوں کے ساتھ اللہ تعالی پر بھروسہ کرے اور اپنا عمدہ مال اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
5- بَاب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ
۵ -باب: تہائی مال تک وصیت کرنے کا بیان​


2708- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، وَسَهْلٌ؛ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ حَتَّى أَشْفَيْتُ عَلَى الْمَوْتِ، فَعَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَقُلْتُ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي مَالا كَثِيرًا، وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلا ابْنَةٌ لِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: "لا" قُلْتُ: فَالشَّطْرُ ؟ قَالَ: "لا" قُلْتُ: فَالثُّلُثُ؟ قَالَ: " الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ "۔
* تخريج : خ/الجنائز ۳۶ (۱۲۹۵)، الوصایا ۲ (۲۷۴۲)، ۳ (۲۷۴۴)، مناقب الأنصار ۴۹ (۳۹۳۶)، المغازي ۷۷ (۴۳۹۵)، النفقات ۱ (۵۳۵۴)، المرضی ۱۳(۵۶۵۹)، ۱۶(۵۶۶۸)، الدعوات ۴۳ (۶۳۷۳)، الفرائض ۶ (۶۷۳۳)، م/الوصایا ۲ (۱۶۲۸)، د/الوصایا ۲ (۲۸۶۴)، ت/الجنائز ۶ (۹۷۵)، الوصایا ۱ (۲۱۱۷)، ن/الوصایا ۳ (۳۶۵۶)، (تحفۃ الأ شراف: ۳۸۹۰)، وقد أخرجہ: ط/الوصایا ۳ (۴)، حم (۱/۱۶۸، ۱۷۲، ۱۷۶، ۱۷۹)، دي/الوصایا ۷ (۳۲۳۸) (صحیح)
۲۷۰۸- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پہنچ گیا ، رسول اللہ ﷺ میری عیادت (بیمار پرسی) کے لئے تشریف لائے، تو میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میرے پاس بہت سارا مال ہے، اور ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر دوں ؟ آپﷺ نے جواب دیا :'' نہیں'' ، میں نے کہا : پھر آدھا ؟ آپﷺ نے فرمایا: ''نہیں ''، میں نے کہا: تو ایک تہائی ؟ آپﷺ نے فرمایا: '' ہاں، تہائی ، حالاں کہ یہ بھی زیادہ ہی ہے'' ، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھو ڑ کر جانا، انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ وصیت تہائی مال سے زیادہ میں نافذ نہ ہوگی ،اور دو تہائی وارثوں کو ملے گا اگرچہ وصیت تہائی سے زیادہ یا کل مال کی ہو ،جمہور علماء کا یہی قول ہے ، لیکن اگر موصی کا کوئی وارث نہ ہو توثلث مال سے زیادہ کی وصیت درست ہے ۔


2709- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ اللَّهَ تَصَدَّقَ عَلَيْكُمْ، عِنْدَ وَفَاتِكُمْ، بِثُلُثِ أَمْوَالِكُمْ، زِيَادَةً لَكُمْ فِي أَعْمَالِكُمْ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۱۴۱۸۰، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۱) (حسن)
(سند میں طلحہ بن عمرو ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے حسن ہے )
۲۷۰۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ تعالی نے تمہاری وفات کے وقت تم پر تہائی مال کا صدقہ کیا ہے،(یعنی وصیت کی اجازت دی ہے)تاکہ تمہارے نیک اعمال میں اضافہ ہو ''۔


2710- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَنَا مُبَارَكُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إن الله عزوجل يقول: يَا ابْنَ آدَمَ! اثْنَتَانِ لَمْ تَكُنْ لَكَ وَاحِدَةٌ مِنْهُمَا: جَعَلْتُ لَكَ نَصِيبًا مِنْ مَالِكَ حِينَ أَخَذْتُ بِكَظَمِكَ، لأُطَهِّرَكَ بِهِ وَأُزَكِّيَكَ، وَصَلاةُ عِبَادِي عَلَيْكَ، بَعْدَ انْقِضَاءِ أَجَلِكَ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۸۴۰۷، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۲) (ضعیف)
(سندمیں صالح بن محمد بن یحییٰ مجہول ہیں، اور مبار ک بن حسان ضعیف اور منکر الحدیث )
۲۷۱۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' اللہ تعالی فرما تا ہے: اے ابن آدم !میں نے دو ایسی چیزیں عنایت کیںجن میں سے ایک پر بھی تمہارا حق نہیں تھا ، میں جس وقت تمہاری سانس روکوں اس وقت تمہیں مال کے ایک حصہ ( یعنی تہائی مال کے صدقہ کرنے) کا اختیار دیا، تاکہ اس کے ذریعے سے میں تمہیں پاک کروں اور تمہارا تزکیہ کروں، دوسری چیز تمہارے مرنے کے بعد میرے بندوں کا تم پر صلاۃ (جنازہ)پڑھنا ''۔


2711- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ قَالَ: وَدِدْتُ أَنَّ النَّاسَ غَضُّوا مِنَ الثُّلُثِ إِلَى الرُّبُعِ، لأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " الثُّلُثُ كَبِير أَوْ كَثِيرٌ "۔
* تخريج : خ/الوصایا ۳ (۲۷۴۳)، م/الوصایا۱ (۱۶۲۹)، ن/الوصایا ۳ (۳۶۶۴)، (تحفۃ الأ شراف: ۸۴۰۴)، وقد آخرجہ: حم (۱/۲۳۰، ۲۳۳) (صحیح)
۲۷۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری تمنا ہے کہ لوگ تہائی مال کے بجائے چوتھائی مال میں وصیت کریں، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ایک تہائی حصہ بھی بڑا ہے یا زیادہ ہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
6- بَاب لا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ
۶-باب: وارث کے لیے وصیت ناجائزہے​


2712- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَهُمْ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَإِنَّ رَاحِلَتَهُ لَتَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا، وَإِنَّ لُغَامَهَا لَيَسِيلُ بَيْنَ كَتِفَيَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ لِكُلِّ وَارِثٍ نَصِيبَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ، فَلايَجُوزُ لِوَارِثٍ وَصِيَّةٌ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلاعَدْلٌ " " أَوْ قَالَ: عَدْلٌ وَلا صَرْفٌ "۔
* تخريج : ت/الوصایا ۵ (۲۱۲۱مطولاً)، ن/الوصایا ۴ (۳۶۷۱)، (تحفۃ الأ شراف: ۱۰۷۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۸۶، ۱۸۷، ۲۳۸، ۲۳۹)، دي/الوصایا ۲۸(۳۳۰۳) (صحیح)
۲۷۱۲- عمر و بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو اس حال میں خطبہ دیا کہ آپ اپنی سواری ( اونٹنی ) پر تھے، وہ جگالی کر رہی تھی ، اور اس کا لعاب میرے مونڈھو ں کے درمیان بہہ رہا تھا، آپ ﷺنے فرمایا : '' اللہ تعالی نے ہر وارث کے لئے میراث کا حصہ متعین کر دیا ہے،لہذا کسی وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ، بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی، اور زنا کر نے والے کے لئے پتھر ہے ، جو شخص اپنے باپ دادا کے علاوہ دوسرے کی طرف نسبت کا دعوی کرے یا (غلام ) اپنے مالک کے علاوہ دوسرے شخص کو مالک بنائے، تو اس پر اللہ تعالی ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا نفل قبول ہوگا، نہ فرض یایوں کہا کہ نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شروع اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب کوئی مرنے لگے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے اور وصیت کے مطابق اس کا مال تقسیم کیا جائے ، پھر اللہ تعالی نے ترکہ کی آیتیں اتاریں اور ہر ایک وارث کا حصہ مقرر کردیا ۔ اب وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں رہا کیونکہ اس میں دوسرے وارثوں کا نقصان ہوگا ، البتہ اجنبی شخص کے لئے یا جس کو ترکہ میں سے کچھ حصہ نہ ملتا ہو موجودہ وارثوں کے سبب سے وصیت کرنا درست ہے ، وہ بھی تہائی مال میں سے ۔


2713- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَوْلانِيُّ، سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ: يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ، عَامَ حِجَّةِ الْوَدَاعِ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ "۔
* تخريج : د/البیوع ۹۰ (۳۵۶۵)، ت/الوصایا ۵ (۲۱۲۰)، (تحفۃ الأ شراف: ۴۸۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶۷) (صحیح)
۲۷۱۳- ابو امامہ با ہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا،آپ حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں فرمارہے تھے:''اللہ تعالی نے (میت کے ترکہ میں) ہر حقدار کواس کا حق دے دیاہے، لہذا کسی وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ہے ''۔


2714- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ؛ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: إِنِّي لَتَحْتَ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَسِيلُ عَلَيَّ لُعَابُهَا، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، أَلا لا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۸۶۳، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۳) (صحیح)
۲۷۱۴ - انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کے نیچے کھڑا تھا، اس کا لعاب میرے اوپر بہہ رہا تھا، میں نے آپﷺ کو فرماتے سنا :''اللہ تعالیٰ نے (میت کے ترکہ میں) ہر ایک حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، توسنو! کسی وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
7- بَاب الدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ
۷-باب: قرض کی ادائیگی وصیت سے پہلے ہوگی ۱؎​
وضاحت ۱؎ : یعنی میت کے مال میں سے تجہیز وتکفین کے بعد جو بچے گا پہلے اس میں سے قرض ادا کریں گے ، پھر اس قرض سے جو بچ رہے اس کی تہائی میں سے وصیت نافذ کریں گے ، پھر جو بچ رہے یعنی دوتہائی وہ وارثوں کو دلا دیں گے ، اس پر سب علماء کا اتفاق ہے۔


2715- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَأَنْتُمْ تَقْرَئُونَهَا {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الأُمِّ لَيَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلاتِ۔
* تخريج : ت/الفرائض ۵ (۲۰۹۴، ۲۰۹۵)، (تحفۃ الأ شراف: ۱۰۰۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۷۹، ۱۳۱، ۱۴۴)، دي/الفرائض ۲۸ (۳۰۲۷) (حسن)
( سند میں الحارث الاعور ضعیف ہے، لیکن سعد بن الاطول کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : حدیث نمبر ۲۴۳۳، و الإرواء : ۱۶۶۷)
۲۷۱۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وصیت سے پہلے قرض ( کی ادائیگی ) کا فیصلہ فرمایا، حالاں کہ تم اس کو قرآن میں پڑھتے ہو: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ}یہ حصہ اس وصیت (کی تکمیل ) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو، یا ادائے قرض کے بعد (سورۃ النساء : ۱۱) ۱؎ اور حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی نہیں ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جب کوئی مرجائے اور سگے بہن بھائی چھوڑ جائے اور علاتی یعنی سوتیلے بھی جن کی ماں جدا ہو ، لیکن باپ ایک ہی ہو تو سگوں کو ترکہ ملے گا اور سوتیلے محروم رہیں گے ، اس مسئلہ کی پوری تفصیل علم الفرائض میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَنْ مَاتَ وَلَمْ يُوصِ هَلْ يُتَصَدَّقُ عَنْهُ؟
۸ -باب: کوئی شخص وصیت کیے بغیر مرجائے تو کیا اس کی طرف سے صدقہ دیا جائے ؟​


2716- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالا وَلَمْ يُوصِ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهُ ؟ قَالَ: " نَعَمْ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۴۳)، وقد أخرجہ: م/الوصیۃ ۲ (۱۶۳۰) (صحیح)
۲۷۱۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور وہ مال چھو ڑ گئے ہیں ، انہوں نے وصیت نہیں کی ہے،کیا اگر میں ان کی جا نب سے صدقہ کر دوں تو ان کے گناہ معاف ہو جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا:'' ہاں''۔


2717- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَلَمْ تُوصِ، وَإِنِّي أَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ لَتَصَدَّقَتْ، فَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا، وَلِيَ أَجْرٌ ؟ قَالَ: " نَعَمْ "۔
* تخريج : م/الزکاۃ ۱۵ (۱۰۰۴)، الوصیۃ ۲ (۱۶۳۰)، (تحفۃ الأ شراف: ۱۶۸۱۹)، وقد أخرجہ: خ/الوصایا ۱۹ (۲۹۶۰)، د/الوصیۃ ۱۵ (۲۸۸۱)، ن/الوصیۃ ۷ (۳۶۷۹)، ط/الأقضیۃ ۴۱ (۵۳)، حم (۶/۵۱) (صحیح)
۲۷۱۷- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا : میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا، اور وہ وصیت نہیں کرسکیں، میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات چیت کر پاتیں تو صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو انہیں اور مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' ہاں'' (ملے گا) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
9-بَاب قَوْلِهِ: "وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ" ۱؎
۹ -باب: آیت کریمہ : {وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِْ}(اور جو محتاج ہو وہ عرف کے مطابق یتیم کے مال سے کھائے) کی تفسیر​


2718- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: لا أَجِدُ شَيْئًا، وَلَيْسَ لِي مَالٌ، وَلِي يَتِيمٌ لَهُ مَالٌ، قَالَ: " كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ، غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلامُتَأَثِّلٍ مَالا " قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: " وَلا تَقِي مَالَكَ بِمَالِهِ "۔
* تخريج : د/الوصایا ۸ (۲۸۷۲)، ن/الوصایا ۱۰ (۳۶۹۸)، (تحفۃ الأ شراف: ۸۶۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۶، ۲۱۶) (حسن صحیح)
۲۷۱۸- عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا : میرے پاس کچھ بھی نہیں اور نہ مال ہی ہے، البتہ میری پرورش میں ایک یتیم ہے جس کے پاس مال ہے ، آپﷺ نے فرمایا : ''یتیم کے مال میں سے فضول خرچی کئے اور بغیر اپنے لئے پونجی بنائے کھاؤ'' میر ا خیال ہے آپﷺ نے فرمایا : ''اپنا مال بچانے کے لئے اس کا مال اپنے مصرف میں نہ خرچ کرو '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سورۃ النساء : ۶ ۔
وضاحت ۲؎ : مثلاً کسی نے آپ سے قرض مانگا تو یتیم کا مال دے دیا، اور اپنے مال کو رکھ چھوڑا یہ جائز نہیں، مقصد یہ ہے کہ یتیم کے مال میں اس شخص کو اس قدر تصرف کی اجازت ہے جو یتیم کی پرورش کرتا ہو اور بالکل محتاج ہو کہ ضرورت کے مطابق اس میں سے کھالے ، لیکن مال برباد کرنا اور اسراف کرنا یا ضرورت سے زیادہ خرچ کردینا یہ کسی طرح صحیح نہیں ہے ، ہر حال میں بہتر یہی ہے کہ اگر محتاج بھی ہو تو محنت کرکے اس میں سے کھائے ،اور یتیم کے مال کو محفوظ رکھے ، صرف یتیم پر ضرورت کے مطابق خرچ کرے، قرآن شریف میں ہے کہ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر تے ہیں۔


* * *​
 
Top