10- بَاب فَضْلِ غَزْوِ الْبَحْرِ
۱۰- باب: سمندری جہا د کی فضیلت
2776- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ حَبَّانَ، هُوَ مُحَمَّدُ ابْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ خَالَتِهِ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ أَنَّهَا قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا قَرِيبًا مِنِّي، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَبْتَسِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مَا أَضْحَكَكَ ؟ قَالَ: " نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ يَرْكَبُونَ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ، كَالْمُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ " قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: فَدَعَا لَهَا، ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ، فَفَعَلَ مِثْلَهَا ثُمَّ قَالَتْ مِثْلَ قَوْلِهَا، فَأَجَابَهَا مِثْلَ جَوَابِهِ الأَوَّلِ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: " أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ " قَالَ فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِهَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ غَازِيَةً، أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَلَمَّا انْصَرَفُوا مِنْ غَزَاتِهِمْ قَافِلِينَ، فَنَزَلُوا الشَّامَ، فَقُرِّبَتْ إِلَيْهَا دَابَّةٌ لِتَرْكَبَ، فَصَرَعَتْهَا فَمَاتَتْ۔
* تخريج: خ/الجہاد ۳ (۲۷۸۸)، ۸ (۲۷۹۹)، ۶۳ (۲۸۷۷)، ۷۵ (۲۸۹۴)، ۹۳ (۲۹۲۴)، الاستئذان ۴۱ (۶۲۸۲)، التعبیر ۱۲ (۷۰۰۱)، م/الإمارۃ ۴۹ (۱۹۱۲)، د/الجہاد ۱۰ (۲۴۹۰، ۲۴۹۲)، ت/فضائل الجہاد ۱۵ (۱۶۴۵)، ن/الجہاد ۴۰ (۳۱۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۰۷)، وقد أخرجہ: ط/الجہاد ۱۸ (۳۹)، حم (۳/۲۶۴، ۶/۳۶۱، ۴۲۳، ۴۳۵)، دي/الجہاد ۲۹ (۲۴۶۵) (صحیح)
۲۷۷۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی خالہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز میرے قریب سو ئے، پھر آپ ﷺ مسکراتے ہوئے بیدا ر ہوئے،میں نے پو چھا: اللہ کے رسول! آپ کس با ت پر مسکرا رہے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا:''میری امت کے کچھ لو گ میرے سامنے لا ئے گئے جو اس سمندر کے اوپر اس طرح سوار ہو رہے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں''، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ سے آپ دعا کردیجیے کہ وہ مجھے بھی ان ہی لوگوں میں سے کر دے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمادی،پھر آپ ﷺ دوبارہ سو گئے، پھر ویسے ہی ہوا،آپ اٹھے تو ہنستے ہو ئے ، اور ام حرام رضی اللہ عنہا نے وہی پوچھاجو پہلی بار پوچھا تھا، اور آپ ﷺ نے انہیںوہی جواب دیا جو پہلی باردیا تھا، اس بار بھی انہوں نے عرض کیا: آپ ﷺ اللہ سے دعا کردیجیے کہ وہ مجھے بھی انہی لو گوں میں سے کردے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم پہلے لو گوں میں سے ہو''۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جہا د کے لیے نکلیں، یہ پہلا مو قع تھا کہ معا ویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے سا تھ مسلمان بحری جہاد پر گئے تھے چنا نچہ جب لوگ جہا د سے لوٹ رہے تھے تو شام میں رکے، ام حرام رضی اللہ عنہا کی سواری کے لیے ایک جا نور لا یا گیا، جس نے انہیں گرادیا، اور وہ فوت ہو گئیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کے کئی معجزے مذکور ہیں : ایک تو اس بات کی پیش گوئی کہ اسلام کی ترقی ہوگی، دوسرے مسلمان سمندر میں جاکر جہاد کریں گے ، تیسرے ام حرام رضی اللہ عنہا بھی ان مسلمانوں کے ساتھ ہوں گی اور اس وقت تک زندہ رہیں گی، چوتھے پھر ام حرام رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوجائے گا اور دوسرے لشکر میں شریک نہیں ہوسکیں گی ، یہ سب باتیں جو آپ ﷺ نے فرمائی تھیں پوری ہوئیں، اور یہ آپ ﷺ کی نبوت کی کھلی دلیلیں ہیں جو شخص نبی نہ ہو وہ ایسی صحیح پیشین گوئیاں نہیں کرسکتا ، افسوس ہے کہ سب قوموں سے پہلے عرب کے مسلمانوں نے ہی سمندر میں بڑے بڑے سفر شروع کئے اور علم جہاز رانی میں وہ ساری قوموں کے استاد بن گئے ، مگر گردش زمانہ سے اب یہ حال ہوگیا کہ عرب تمام علوم میں دوسر ی قوموں سے پیچھے رہ گئے ہیں، اور جو لوگ جاہل اور کم علم تھے یعنی یورپ کے لوگ وہ تمام جہاں کے لوگوں سے دنیاوی علوم وفنون میں سبقت لے گئے ہیں :
{ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ }[سورة آل عمران : 140] اب بھی اگر مسلمانوں کی ترقی منظور ہے تو عربوں میں علوم اور فنون پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے ،اور ان کو تمام جنگی علوم وفنون کی تعلیم دینا چاہئے ، جب عرب پھر علوم میں ماہر ہوجائیں گے تو دنیا کی تمام اقوام کو ہلاکر رکھ دیں گے ، یہ شرف اللہ تعالی نے صرف عربوں ہی کو دیا ہے ۔واضح رہے کہ ام حرام بنت ملحان انصاریہ رضی اللہ عنہا انس بن مالک کی خالہ ہیں،ان کی شادی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی جن کے ساتھ وہ اس جہادمیں شریک ہوئیں اورسمندرکا سفر کیا بعدمیں ایک جانور کی سواری سے گرکرانتقال ہوااورقبرص میں دفن ہوئیں ،یہ جنگ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدمیں معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں سن ۲۷/ہجری میں واقع ہوئی ،ابوذراورابوالدرداء وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جنگ میں شریک تھے ، معاویہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ فاختہ بنت قرظہ رضی اللہ عنہا بھی اس جنگ میں شریک تھیں۔
2777- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "غَزْوَةٌ فِي الْبَحْرِ مِثْلُ عَشْرِ غَزَوَاتٍ فِي الْبَرِّ، وَالَّذِي يَسْدَرُ فِي الْبَحْرِ، كَالْمُتَشَحِّطِ فِي دَمِهِ، فِي سَبِيلِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۰۱ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۸۴) (ضعیف)
(سندمیں معاویہ بن یحییٰ اور ان کے شیخ لیث بن ابی سلیم دونوں ضعیف را وی ہے ، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۱۲۳۰)
۲۷۷۷- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ایک بحری (سمندری) جہا د دس بری جہا دوں کے برابر ہے، اور سمندر میں جس کا سر چکر ائے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے خون میں لوٹ رہاہو''۔
2778- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ الْجُبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ الشَّامِيُّ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " شَهِيدُ الْبَحْرِ مِثْلُ شَهِيدَيِ الْبَرِّ، وَالْمَائِدُ فِي الْبَحْرِ كَالْمُتَشَحِّطِ فِي دَمِهِ فِي الْبَرِّ، وَمَا بَيْنَ الْمَوْجَتَيْنِ كَقَاطِعِ الدُّنْيَا فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَلَ مَلَكَ الْمَوْتِ بِقَبْضِ الأَرْوَاحِ، إِلا شَهِيدَ الْبَحْرِ، فَإِنَّهُ يَتَوَلَّى قَبْضَ أَرْوَاحِهِمْ، وَيَغْفِرُ لِشَهِيدِ الْبَرِّ الذُّنُوبَ كُلَّهَا، إِلا الدَّيْنَ، وَلِشَهِيدِ الْبَحْرِ، الذُّنُوبَ وَالدَّيْنَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۷۲ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۸۵) (ضعیف جدا)
(سند میں عفیر بن معدان شامی سخت ضعیف روای ہے ، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۱۵)
۲۷۷۸- ابو اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرما تے سنا :'' سمندر کا شہید خشکی کے دو شہیدوں کے برابر ہے،سمندر میں جس کا سر چکر ائے وہ خشکی میں اپنے خون میں لوٹنے والے کی مانند ہے، اور ایک موج سے دوسری موج تک جا نے والا اللہ کی اطا عت میں پو ری دنیا کا سفر کر نے والے کی طرح ہے، اللہ تعالی نے روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت ( عزرائیل) کو مقرر کیا ہے، لیکن سمندر کے شہید کی جا ن اللہ تعالی خود قبض کر تا ہے، خشکی میں شہید ہونے والے کے قرض کے علاوہ تمام گناہ معا ف ہو جاتے ہیں، لیکن سمندر کے شہید کے قرض سمیت سا رے گناہ معا ف ہو تے ہیں''۔