• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب النِّيَّةِ فِي الْقِتَالِ
۱۳- باب: جہاد کی نیت کا بیان​


2783- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى ؛ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً، وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، وَيُقَاتِلُ رِيَائً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "۔
* تخريج: خ/العلم ۴۵ (۱۲۳)، الجہاد ۱۵ (۲۸۱۰)، الخمس ۱۰ (۳۱۲۶)، التوحید ۲۸ (۷۴۵۸)، م/الإمارۃ ۴۲ (۱۹۰۴)، د/الجہاد ۲۶ (۲۵۱۷،۲۵۱۸)، ت/فضائل الجہاد ۱۶ (۱۶۴۶)، ن/الجہاد ۲۱ (۳۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف:۸۹۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۹۲، ۳۹۷، ۴۰۵، ۴۱۷) (صحیح)
۲۷۸۳- ابو مو سی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پو چھا گیا جو بہا دری کی شہرت کے لیے لڑتا ہے، اور جو خاندانی عزت کی خا طر لڑتا ہے، اور جس کا مقصد ریاو نمو د ہو تا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کے کلمے کی بلندی کے مقصد سے جو لڑتا ہے وہی مجاہد فی سبیل اللہ ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بہادری کے اظہارکے لیے اور خاندانی شہرت و جاہ کے لیے یا ریاکاری اوردکھاوے کے لیے یا دنیا اور مال وملک کے لئے جس میں کوئی دینی مصلحت نہ ہو لڑنا جہاد نہیں ہے ، اسلام کے بول بالا کے لیے اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے اللہ کوراضی کرنے کے لیے جوجہاد ہوگا وہ اسلامی جہادہوگا، اور وہی اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوگا، اگلے لوگوں میں اگر کبھی جہاد کے دوران اللہ کے سوا کسی اور کا خیال بھی آ جاتا تو لڑائی چھوڑ دیتے تھے ۔


2784- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمِ،عن محمد بْنِ إِسْحاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُقْبَةَ، عَنْ أَبِي عُقْبَةَ؛ وَكَانَ مَوْلًى لأَهْلِ فَارِسَ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ، فَضَرَبْتُ رَجُلا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقُلْتُ: خُذْهَا مِنِّي، وَأَنَا الْغُلامُ الْفَارِسِيُّ، فَبَلَغَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: " أَلا قُلْتَ: خُذْهَا وَأَنَا الْغُلامُ الأَنْصَارِيُّ "۔
* تخريج: د/الأدب ۱۲۱ (۵۱۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۹۵) (ضعیف)
(سند میں عبد الرحمن بن أبی عقبہ ضعیف اور محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے )
۲۷۸۴- ابو عقبہ رضی اللہ عنہ جو کہ اہل فا رس کے غلام تھے کہتے ہیں کہ میں جنگ احد میں نبی اکرم ﷺ کے سا تھ حاضر تھا، میں نے ایک مشرک پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ لے میرا یہ وار، میں فا رسی جوان ہوں، اس کی خبر جب نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا:''تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ لے میرا یہ وار اور میں انصاری نوجوان ہوں'' ۔


2785- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ،حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاعَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ يَقُولُ : إِنَّهُ سَمِعَ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: " مَا مِنْ غَازِيَةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَيُصِيبُوا غَنِيمَةً، إِلا تَعَجَّلُوا ثُلُثَيْ أَجْرِهِمْ، فَإِنْ لَمْ يُصِيبُوا غَنِيمَةً تَمَّ لَهُمْ أَجْرهُمْ "۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۴۴ (۱۹۰۶)، د/الجہاد ۱۳ (۲۴۹۷)، ن/الجہاد ۱۵ (۳۱۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۹) (صحیح)
۲۷۸۵- عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فر ما تے ہو ے سنا:''لشکرکی جو ٹکڑی اللہ کی راہ میں جہا د کرے اور مال غنیمت پا لے، تو سمجھو اس نے ثواب کا دو تہا ئی حصہ تو دنیا ہی میں حا صل کر لیا، لیکن اگر مال غنیمت نہیں ملتا توا ن کے لیے پو را ثو اب ہو گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب ارْتِبَاطِ الْخَيْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
۱۴- باب: اللہ کی راہ میں جہا د کے لئے گھو ڑے رکھنے کا ثواب​


2786- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : " الْخَيْرُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "۔
* تخريج: خ/الجہاد ۴۳ (۲۸۵۰)، ۴۴ (۲۸۵۲)، الخمس ۸ (۳۱۱۹)، المناقب ۲۸ (۳۶۴۲)، م/الإمارۃ ۲۶ (۱۸۷۳)، ت/الجہاد ۱۹ (۱۶۹۴)، ن/الخیل ۶ (۳۶۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷۵)، دي/الجہاد ۳۴ (۲۴۷۰) (صحیح)
۲۷۸۶- عروہ با رقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' گھو ڑوں کی پیشانی پر قیامت تک خیر و برکت بندھی ہوئی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جو گھوڑا جہاد کی نیت سے رکھا جائے ،اس کا کھلانا پلانا چرانا سب اجر ہی اجر ہے ،اور ہر ایک میں گھوڑے کے مالک کو ثواب ہے ۔


2787- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۲۶ (۱۸۷۱)، ن/الخیل ۶ (۳۶۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۸۷)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۴۳ (۲۸۴۹)، المناقب ۲۸ (۳۶۴۴)، ط/الجہاد ۱۹ (۴۴)، حم (۲/۴۹، ۵۷، ۱۰۱، ۱۱۲) (صحیح)
۲۷۸۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' گھو ڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر و برکت بندھی ہوئی ہے''۔


2788- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ أَوْ قَالَ: الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ، قَالَ سُهَيْلٌ: أَنَا أَشُكُّ: الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْخَيْلُ ثَلاثَةٌ: فَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَيُعِدُّهَا له، فَلا تُغَيِّبُ شَيْئًا فِي بُطُونِهَا إِلا كُتِبَ لَهُ أَجْرٌ، وَلَوْ رَعَاهَا فِي مَرْجٍ، مَا أَكَلَتْ شَيْئًا إِلا كُتِبَ لَهُ بِهَا أَجْرٌ، وَلَوْ سَقَاهَا مِنْ نَهَرٍ جَارٍ كَانَ لَهُ بِكُلِّ قَطْرَةٍ تُغَيِّبُهَا فِي بُطُونِهَا أَجْرٌ، -حَتَّى ذَكَرَ الأَجْرَ فِي أَبْوَالِهَا وَأَرْوَاثِهَا- وَلَوِ اسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ تَخْطُوهَا أَجْرٌ، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا تَكَرُّمًا وَتَجَمُّلا، وَلا يَنْسَى حَقَّ ظُهُورِهَا وَبُطُونِهَا، فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ، فَالَّذِي يَتَّخِذُهَا أَشَرًا وَبَطَرًا وَبَذَخًا وَرِيَائً لِلنَّاسِ، فَذَلِكَ الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ "۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۶ (۹۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۸۵)،وقد أخرجہ: خ/الشرب المساقاۃ ۱۲ (۲۳۷۱)، الجہاد ۴۸ (۲۸۶۰)، المناقب ۲۸ (۳۶۴۶)، تفسیر سورۃ الزلزلۃ ۱ (۴۹۶۲)، الاعتصام ۲۴ (۷۳۵۶)، ت/فضائل الجہاد ۱۰ (۱۶۳۶)، ن/الخیل (۳۵۹۲)، ط/الجہاد ۱ (۳)، حم (۲/۲۶۲، ۲۸۳) (صحیح)
۲۷۸۸- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' گھو ڑوں کی پیشانی میں بھلائی ہے'' یا فرمایا: ''گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیراور بھلا ئی بندھی ہو ئی ہے، گھو ڑے تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک شخص کے لیے وہ اجروثواب ہیں، ایک کے لیے ستر(پردہ) ہیں، اور ایک کے واسطے عذاب ہیں،( پھر آپ نے تفصیل بیان کی) اس شخص کے لیے تو باعث اجرو ثواب ہیں جو انہیں اللہ کی راہ میں جہا د کی غرض سے رکھے، اور انہیں تیا ر کرے، چنا نچہ ان کے پیٹ میں جو چیز بھی جا ئے گی وہ اس شخص کے لیے نیکی شمار ہو گی، اگروہ انہیں گھاس والی زمین میں بھی چرا ئے گا تو جو وہ کھائیں گے اس کا ثواب اسے ملے گا، اگروہ انہیں بہتی نہر سے پانی پلا ئے گا تو پیٹ میں جا نے والے ہرقطرے کے بدلے اسے ثواب ملے گا، حتی کہ آپ نے ان کے پیشاب اور لید (گوبر) میں بھی ثواب بتا یا، اگروہ ایک یا دو میل دوڑیں تو بھی ہر قدم کے بدلے جسے وہ اٹھائیں گے ثواب ملے گا،اور جس شخص کے لیے گھوڑے ستر (پردہ) ہیں وہ ہے جو انہیں عزت اور زینت کی غرض سے رکھتا ہے، لیکن ان کی پیٹھ اور پیٹ کے حق سے تنگی اور آسانی کسی حال میں غافل نہیں رہتا ،لیکن جس شخص کے حق میں یہ گھوڑے گناہ ہیں وہ شخص ہے جو غرور، تکبر، فخر اور ریا ونمود کی خا طر انہیں رکھتا ہے، تو یہی وہ گھوڑے ہیں جو اس کے حق میں گناہ ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سواری کا حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اس کو ضرورت کی وجہ سے مانگے تو اسے دے یا کوئی پریشان مسلمان راہ میں ملے تو اس کو سوار کرلے ، اور بعضوں نے کہا : ان کی زکاۃ ادا کرے، لیکن جمہور علماء کے نزدیک گھوڑوں میں زکاۃ نہیں ہے اور پیٹ کا حق یہ ہے کہ ان کے پانی چارے کی خبر اچھی طرح رکھے اگر ہمیشہ ممکن نہ ہوتوکبھی کبھی خود اس کی دیکھ بھال کرے ۔


2789- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " خَيْرُ الْخَيْلِ الأَدْهَمُ، الأَقْرَحُ، الْمُحَجَّلُ، الأَرْثَمُ طَلْقُ الْيَدِ الْيُمْنَى فَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَدْهَمَ فَكُمَيْتٌ عَلَى هَذِهِ الشِّيَةِ "۔
* تخريج:ت/الجہاد۲۰ (۱۶۹۵)، (تحفۃ الأشراف:۱۲۱۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۰۰)، دي/الجہاد ۳۵ (۲۴۷۲) (صحیح)
۲۷۸۹- ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' کالا گھو ڑا جس کی پیشانی ، ہاتھ ،پیر، ناک اوراوپر کا ہونٹ سفید ہوں، اور دایاں ہاتھ با قی جسم کی طرح ہو، سب سے عمدہ ہے، اگروہ کالا نہ ہو تو انہیں صفا ت والاسرخ سیاہی مائل گھوڑاعمدہ ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کمیت ہو سفید پیشانی یا کمیت سفید ہاتھ پاؤں یا کمیت سفید لب اور بینی یا کمیت صرف جس کا دایاں ہاتھ سفید ہو، یہ سب عمدہ قسمیں ہیں ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشکی رنگ گھوڑوں کے سب رنگوں میں عمدہ ہے، اور حقیقت میں اس رنگ والا گھوڑا نہایت مضبوط اور محنتی ہوتا ہے ۔


2790- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سَلْمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ النَّخَعِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَكْرَهُ الشِّكَالَ مِنَ الْخَيْلِ۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۲۷ (۱۸۷۵)، د/الجہاد ۴۶ (۲۵۴۷)، ت/الجہاد ۲۱ (۱۶۹۸)، ن/الخیل ۴ (۳۵۹۷)، (تحفۃ الأشراف:۱۴۸۹۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۰، ۴۳۶، ۴۶۱، ۴۷۶) (صحیح)
۲۷۹۰- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :'' نبی اکرمﷺ ایسے گھو ڑے کو نا پسند فرما تے تھے جس کے تین پیر سفید اور ایک پیر کا رنگ با قی جسم کا ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شکال : وہ یہ ہے کہ تین پاؤں سفید ہوں ایک سارے بدن کے رنگ پر ہو، اس کو ارجل بھی کہتے ہیں، اب تک گھوڑے والے ایسے رنگ کو مکروہ اور نا مبارک سمجھتے ہیں ،مگر عوام میں یہ مشہور ہے کہ اگر پیشانی پر بھی سفیدی ہو تو شکال ضرر نہیں کرتا، لیکن حدیث مطلق ہے اور بعضوں نے کہاکہ شکال یہ ہے کہ داہنا ہاتھ سفید ہو تو بایاں پاؤں سفید ہو یا بایاں ہاتھ سفید نہ ہو تو داہنا پاؤں سفیدہو۔ واللہ اعلم۔


2791- حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ رَوْحٍ الدَّارِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ الْقَاضِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " مَنِ ارْتَبَطَ فَرَسًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ عَالَجَ عَلَفَهُ بِيَدِهِ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ حَبَّةٍ حَسَنَةٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۹ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۸۸) (صحیح)
(سند میں محمدبن عقبہ بیٹے ،باپ اور دادا سب مجہول ہیں ، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے )
۲۷۹۱- تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا :'' جس نے اللہ کے راستے میں جہا د کی غرض سے گھو ڑا با ندھا، پھر دانہ چارہ اپنے ہا تھ سے کھلا یا، توا س کے لیے ہر دانے کے بدلے ایک نیکی ہو گی''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- بَاب الْقِتَالِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى
۱۵- باب: اللہ کی راہ میں لڑنے کا ثواب​


2792- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: " مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ، فُوَاقَ نَاقَةٍ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ "۔
* تخريج: د/الجہاد ۴۲ (۲۵۴۱)، ن/الجہاد ۲۵ (۳۱۴۳)، ت/فضائل الجہاد ۱۹ (۱۶۵۴)، ۲۱ (۱۹۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۳۰، ۲۳۵، ۲۴۳، ۲۴۴، دي/الجہاد ۵ (۲۴۳۹) (صحیح)
۲۷۹۲- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کو فرما تے ہو ے سنا :''جو مسلمان شخص اللہ کے راستے میں اونٹنی کا دودھ دوھنے کے درمیانی وقفہ کے برابر لڑا، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : او نٹنی کا دد ھ دو ھنے کے درمیانی وقفہ سے مراد یا تو وہ ٹھہرنا ہے جو ایک وقت سے دوسرے وقت تک ہوتا ہے مثلاً صبح کو دودھ دوہ کر پھر شام کو دوہتے ہیں تو صبح سے شام تک لڑے یہ مطلب ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ ٹھہرنا مراد ہے جو دودھ دوہنے میں تھوڑی دیر ٹھہرجاتے ہیں تاکہ اور دودھ تھن میں اتر آئے ، پھر دوہتے ہیں یہ چار پانچ منٹ ہوتے ہیں، تو مطلب یہ ہوگا کہ جو کوئی اتنی دیر تک بھی اللہ کی راہ میں کافروں سے لڑا تواس کے لئے جنت واجب ہوگئی ۔ سبحان اللہ جہاد کی فضیلت کا کیا کہنا ۔


2793- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا دَيْلَمُ بْنُ غَزْوَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: حَضَرْتُ حَرْبًا،فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ:
يَا نَفْسِ ! أَلا أَرَاكِ تَكْرَهِينَ الْـجَنَّهْ أَحْلِفُ بِاللَّهِ لَتَنْزِلِنَّهْ طَائِعَةً أَوْ لَتُكْرَهِنَّهْ
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۵۶ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۸۹) (صحیح)
۲۷۹۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک لڑائی میں حا ضر ہوا، تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے نفس! میرا خیال ہے کہ تجھے جنت میں جا نا ناپسند ہے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تجھے جنت میں خوشی یا ناخوشی سے جانا ہی پڑے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ کی راہ میں شہید ہوگا اور شہادت جنت میں جانے کا سبب بنے گی، مگر نفس کو ناپسند ہے اس لئے کہ دنیا کی لذتوں کو چھوڑناپڑتا ہے ، عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جیسے قسم کھائی تھی ویسا ہی ہو ا وہ جنگ موتہ میں شہید ہوئے جہاں جعفر بن ابی طالب اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے اور اوپر ایک حدیث میں گزرا کہ اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کو سچا کرے ، عبد اللہ بن رواحہ بھی ایسے ہی بندوں میں تھے ، رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔


2794- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ،عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ؛ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: " مَنْ أُهَرِيقَ دَمُهُ، وَعُقِرَ جَوَادُهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۵۷، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹۰)، وقد أخرحہ: حم (۴/۱۱۴) (صحیح)
(سند میں محمد بن ذکوان اور شہر بن حوشب ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے )
۲۷۹۴- عمر و بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا،اور میں نے آپ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا جہا د افضل ہے؟آپ ﷺنے فرمایا:''جس میں مجاہدکا خو ن بہا دیا جا ئے، اور جس کے گھو ڑے کو بھی زخمی کردیا جائے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پور ی شہادت ہو خود بھی مارا جائے، اور گھوڑا بھی، یا اللہ تو ہمیں بھی راہ حق، اور خدمت دین میں شہادت نصیب فرماں ، اور موت کی تکالیف سے اور ہر ایک بیماری اور درد کے صدمہ سے بچا آمین ۔


2795- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ وَأَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا مِنْ مَجْرُوحٍ يُجْرَحُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُجْرَحُ فِي سَبِيلِهِ، إِلا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَجُرْحُهُ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ جُرِحَ،اللَّوْنُ لَوْنُ دَمٍ، وَالرِّيحُ رِيحُ مِسْكٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹۱)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۱۰ (۲۸۰۳)، م/الإمارۃ ۲۸ (۱۸۷۶)، ت/فضائل الجہاد ۲۱ (۱۶۵۶)، ط/الجہاد ۱۴ (۲۹)، حم (۲/۳۹۱، ۳۹۸، ۳۹۹، ۴۰۰، ۵۱۲، ۵۲،۵۳۱، ۵۳۷)، دي/الجہاد ۱۵ (۲۴۵۰) (حسن صحیح)
۲۷۹۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالی کے راستے میں زخمی ہو نے والا شخص (اور اللہ تعالی ہی بہتر جا نتا ہے کہ اس کے راستے میں کو ن زخمی ہو رہا ہے ) قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا زخم بالکل اسی دن کی طرح تازہ ہو گا جس دن وہ زخمی ہوا تھا، رنگ تو خون ہی کا ہوگا،لیکن خوشبو مشک کی سی ہو گی۔


2796- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ:سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى يَقُولُ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى الأَحْزَابِ فَقَالَ: " اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ،سَرِيعَ الْحِسَابِ،اهْزِمِ الأَحْزَابَ،اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ "۔
* تخريج: خ/الجہاد ۹۸ (۲۹۳۳)، م/الجہاد ۷ (۱۷۴۲)، ت/الجہاد ۸ (۱۶۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۳، ۳۵۵، ۳۸۱) (صحیح)
۲۷۹۶- عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے(کفا رکے)گروہوں پر بددعا کی، اور یوں فرمایا: ''اے اللہ ! کتاب کے نازل فرمانے والے، جلد حساب لینے والے، گروہوں کو شکست دے، اے اللہ ! انہیں شکست دے، اور جھنجو ڑ کر رکھ دے'' (کہ وہ پریشان وبے قرار ہو کر بھاگ کھڑے ہوں) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جب جنگ میں کافروں کی فوجیں بہت ہوں تو یہی دعا پڑھنی چاہئے، نبی اکرم ﷺ نے یہ دعا جنگ احزاب میں کی تھی ، یعنی غزوہ خندق میں جب کفار ومشرکین کے گروہ دس ہزار کی تعداد میں مدینہ منورہ پر چڑھ آئے تھے اور مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا تھا۔


2797- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْمِصْرِيَّانِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو شُرَيْحٍ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ مِنْ قَلْبِهِ، بَلَّغَهُ اللَّهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ "۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۴۶ (۱۹۰۹)، د/الصلا ۃ۳۶۱ (۱۵۲۰)، ت/فضائل الجہاد ۱۹ (۱۶۵۳)، ن/الجہاد ۳۶ (۳۱۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۵۵)، دي/الجہاد ۱۶ (۲۴۵۱) (صحیح)
۲۷۹۷- سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فر مایا:'' جو شخص سچے دل سے اللہ تعالی سے شہادت کا طالب ہو، اللہ تعالی اسے شہیدوں کے مرتبے پر پہنچا دے گا، گرچہ وہ اپنے بستر ہی پر فوت ہوا ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس کی نیت شہادت کی تھی اور نیۃ المومن خیر من عملہ مشہور ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
۱۶- باب: اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت​


2798- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ أَبِي زَيْنَبَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ذُكِرَ الشُّهَدَاءُ عِنْدَالنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "لا تَجِفُّ الأَرْضُ مِنْ دَمِ الشَّهِيدِ حَتَّى تَبْتَدِرَهُ زَوْجَتَاهُ، كَأَنَّهُمَا ظِئْرَانِ أَضَلَّتَا فَصِيلَيْهِمَا فِي بَرَاحٍ مِنْ الأَرْضِ، وَفِي يَدِ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا حُلَّةٌ، خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۰۰ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۷، ۴۲۷) (ضعیف جدا)
(ہلال بن أبی زینب مجہول اور شہر بن حوشب ضعیف ہیں، شعبہ نے شہر سے روایت ترک کر دی تھی )
۲۷۹۸- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے شہیدوں کا ذکر آیا، تو آپ نے فرمایا:'' زمین شہید کا خون خشک بھی نہیں کر پا تی کہ اس کی دونوں بیو یا ں ان دائیوں کی طرح اس پر جھپٹتی ہیں، جنہوں نے غیر آبادمقام میں اپنے بچے کھو دئیے ہو ں، ہر بیو ی کے ہاتھ میں ایسا جو ڑا ہو تا ہے جو دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے''۔


2799- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لِلشَّهِيدِ عِنْدَاللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ: يَغْفِرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دُفْعَةٍ مِنْ دَمِهِ، وَيُرَى مَقْعَدَهُ مِنْ الْجَنَّةِ، وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَيَأْمَنُ مِنْ الْفَزَعِ الأَكْبَرِ، وَيُحَلَّى حُلَّةَ الإِيمَانِ، وَيُزَوَّجُ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ، وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِهِ "۔
* تخريج: ت/فضائل الجہاد ۲۵ (۱۶۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۱) (صحیح)
۲۷۹۹- مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ کے یہاں شہید کے لیے چھ بھلائیاں ہیں : ۱- خون کی پہلی ہی پھوار پر اس کی مغفرت ہو جا تی ہے، اور جنت میں اس کو اپنا ٹھکانا نظر آجا تا ہے ۲-عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے، ۳- حشر کی بڑی گھبرا ہٹ سے ما مون وبے خوف رہے گا،۴- ایمان کا جو ڑا پہنا یا جا تا ہے،۵- حو ر عین سے نکاح کر دیا جاتا ہے، ۶- اس کے اعزہ واقرباء میں سے ستر آدمیوں کے با رے میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے '' ۔


2800- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَرَامِيُّ الأَنْصَارِيُّ، سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: لَمَّا قُتِلَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ، يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَا جَابِرُ ! أَلا أُخْبِرُكَ مَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لأَبِيكَ؟" قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: "مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا إِلا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَكَلَّمَ أَبَاكَ كِفَاحًا، فَقَالَ: يَا عَبْدِي! تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ، قَالَ: يَا رَبِّ ! تُحْيِينِي فَأُقْتَلُ فِيكَ ثَانِيَةً، قَالَ: إِنَّهُ سَبَقَ مِنِّي { أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لا يُرْجَعُونَ } قَالَ: يَارَبِّ ! فَأَبْلِغْ مَنْ وَرَائِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَذِهِ الآيَةَ: { وَلاتَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا } الآيَةَ كُلَّهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۵۷ (ألف)، وقد أخرجہ: ت/تفسیر القرآن (۳۰۱۰)، تقدم برقم: ۱۹۰ (حسن)
۲۸۰۰- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب جنگ احد میں (ان کے والد) عبداللہ بن عمر و بن حرام رضی اللہ عنہ قتل کردیے گئے تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جا بر! اللہ تعالی نے تمہارے والد سے جو فرمایا ہے کیا میں تمہیں وہ نہ بتا ئوں ؟'' میں نے کہا:کیوں نہیں! ضرور بتائیے، آپ ﷺنے فرمایا:'' اللہ تعالی نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردہ کے پیچھے سے لیکن تمہارے والد سے آمنے سامنے بات کی، اورکہا:اے میرے بندے !مجھ سے اپنی خو اہش کا اظہا ر کرو، میں تجھے عطا کر وں گا'' انہوں نے کہا :اے میرے رب ! تو مجھے دو بارہ زندہ کر دے کہ میں دو بارہ تیرے راستے میں مارا جائوں، اللہ تعالی نے فرمایا: اس با ت کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لو ٹا یا نہیں جا ئے گا، انہوں نے کہا : اے میرے رب! میرے پسما ندگان کو( میر احال ) پہنچادے، تو یہ آیت نا زل ہوئی: {وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا } (سورۃ آل عمران: ۱۶۹) جولو گ اللہ کی راہ میں ما رے گئے انہیں تم مردہ مت سمجھو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے بدھ مت والوں اور ہندؤں کا مذہب باطل ہوتا ہے ،ان کے نزدیک سب آدمی اپنے اپنے اعمال کے موافق سزا اور جزا پاکر پھر دنیا میں جنم لیتے ہیں ،مگر جو پر م ہنس یعنی کامل فقیر اللہ کی ذات میں غرق ہوجاتا ہے اس کا جنم نہیں ہوتا ۔


2801- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، فِي قَوْلِهِ: {وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} قَالَ: أَمَا إِنَّا سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " أَرْوَاحُهُمْ كَطَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ فِي أَيِّهَا شَائَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلاعَةً، فَيَقُولُ: سَلُونِي مَا شِئْتُمْ، قَالُوا: رَبَّنَا! مَاذَا نَسْأَلُكَ، وَنَحْنُ نَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ فِي أَيِّهَا شِئْنَا ؟ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لا يُتْرَكُونَ مِنْ أَنْ يَسْأَلُوا، قَالُوا: نَسْأَلُكَ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا إِلَى الدُّنْيَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ، فَلَمَّا رَأَى أَنَّهُمْ لا يَسْأَلُونَ إِلا ذَلِكَ، تُرِكُوا "۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۳۳ (۱۸۸۷) ت/تفسیر القرآن ۴ (۳۰۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۷۰)، وقد أخرجہ: دي/الجہاد ۱۹ (۲۴۵۴) (صحیح)
۲۸۰۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالی کے فرمان: { وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ } کے بارے میں ( رسول اللہﷺ سے) سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں جنت میں جہا ں چا ہیں چلتی پھر تی ہیں، پھر شام کو عرش سے لٹکی ہو ئی قندیلوں میں بسیرا کر تی ہیں، ایک بار کیا ہوا کہ روحیں اسی حال میں تھیں کہ اللہ تعالی نے ان کی طرف جھانکا پھر فرما نے لگا: تمہیں جو چاہئے مانگو، روحوں نے کہا: ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چلتی پھر تی ہیں، اس سے بڑھ کر کیا ما نگیں ؟جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر ما نگے خلا صی نہیں توکہنے لگیں : ہما را سوال یہ ہے کہ تو ہما ری روحوں کو دنیا وی جسموں میں لو ٹا دے کہ ہم پھر تیرے راستے میں قتل کئے جا ئیں، اللہ تعالی نے جب دیکھا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ما نگ رہی ہیں تو چھوڑ دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو لوگ اللہ کے راستے میںقتل کئے جائیں ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ اپنے مالک کے پاس زندہ ہیں ، ان کو روزی ملتی ہے، اس آیت سے شہیدوں کی زندگی اور ان کی روزی ثابت ہوئی، اور دوسری آیتوں اور حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت میں بدن سے روح کے نکلنے کا نام موت ہے، نہ یہ کہ روح کا فنا ہوجانا پس جب روح باقی ہے اورفنا نہیں ہوئی ، تو زندگی بھی باقی ہے ، البتہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ دنیا کی سی زندگی ہے، بلکہ شاید دنیا وی زندگی سے زیادہ قوی اور طاقت ور ہو ،اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب سب لوگ زندہ ہیں تو پھر شہداء کی کیا خصوصیت ہے ؟ حالانکہ اس آیت سے ان کی خصوصیت نکلتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ شہداء کی خصوصیت اور ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں اور اللہ کے پاس معظم ومکرم بھی، ان کو جنت کے پھل روز کھانے کو ملتے ہیں ، یہ سب باتیں اوروں کے لئے نہ ہوں گی، مگر دوسری حدیث میں ہے کہ مومنوں کی روحیں چڑیوں کے لباس میں جنت میں چلتی پھرتی ہیں ، اس میں سارے مومن داخل ہوگئے ،اور ایک حدیث میں ہے کہ قبر میں جنت کی طرف ایک راستہ مومن کے لئے کھول دیا جائے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک مومن کی روح وہیں رہے گی، غرض روح کے مسکن کے باب میں علماء کے بہت اقوال ہیں جن کو امام ابن القیم رحمہ اللہ نے تفصیل سے حادی الأرواح إلی بلاد الأفراح میں ذکر کیا ہے، اور سب سے زیادہ راجح قول یہی ہے کہ مومنوں کی روحیں جنت میں ہیں، اور کافروں کی جہنم میں ، واللہ اعلم ۔


2802- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، وَبِشْرُ بْنُ آدَمَ، قَالُوا: حَدَّثَنَاصَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَ يْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " مَا يَجِدُ الشَّهِيدُ مِنَ الْقَتْلِ إِلا كَمَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ مِنَ الْقَرْصَةِ "۔
* تخريج: ت/فضائل الجہاد ۲۶ (۱۶۶۸)، ن/الجہاد ۳۵ (۳۱۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۷)، دي/الجہاد ۱۷ (۲۴۵۲) (صحیح)
۲۸۰۲- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:'' شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہو تی ہے جتنی کہ تمہیں چیو نٹی کا ٹنے سے ہو تی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بہت ہلکا اور خفیف صدمہ ہوتا ہے جس کا احساس نہیں ہوتا اور یہ ہلکا صدمہ بھی مرتے ہی جاتا رہتا ہے ، پھر تو طرح طرح کے عیش اور آرام نصیب ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ دوبارہ مارے جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے ، یا اللہ! تو اپنے فضل وکرم سے موت کو ہم پر آسان کردے کہ چیونٹی کے کاٹنے کی طرح بھی معلوم نہ ہو ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا يُرْجَى فِيهِ الشَّهَادَةُ
۱۷- باب: شہا دت کی انواع واقسام کا بیان​


2803- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي الْعُمَيْسِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ مَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ ﷺ يَعُودُهُ، فَقَالَ: قَائِلٌ مِنْ أَهْلِهِ: إِنْ كُنَّا لَنَرْجُو أَنْ تَكُونَ وَفَاتُهُ قَتْلَ شَهَادَةٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : " إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ، الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ شَهَادَةٌ، وَالْمَطْعُونُ شَهَادَةٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهَادَةٌ (يَعْنِي الْحَامِلَ) وَالْغَرِقُ وَالْحَرِقُ وَالْمَجْنُوبُ (يَعْنِي ذَاتَ الْجَنْبِ) شَهَادَةٌ "۔
* تخريج: د/الجنائز ۱۵ (۳۱۱۱)، ن/الجنائز ۱۴ (۱۸۴۷)، الجہاد ۳۹ (۳۱۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۷۳)، وقد أخرجہ: ط/الجنائز ۱۲(۳۶)، حم (۵/۴۴۶) (صحیح)
۲۸۰۳- جا بر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ وہ بیما ر ہوئے تونبی اکرمﷺ بیمار پر سی (عیادت )کے لئے تشریف لائے، ان کے اہل خا نہ میں سے کسی نے کہا : ہمیں تو یہ امید تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں شہا دت کی موت مریں گے، اس پر نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' تب تو میری امت کے شہدا ء کی تعداد بہت کم ہے! ( نہیں ایسی با ت نہیں بلکہ) اللہ کے راستے میں قتل ہونا شہا دت ہے،مرض طا عون میں مرجانا شہا دت ہے ، عورت کا زچگی (جننے کی حالت) میں مر جا نا شہا دت ہے، ڈوب کر یا جل کر مر جا نا شہادت ہے، نیز پسلی کے ورم میں مرجا نا شہا دت ہے ۱؎ ''۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ ان سب کو شہیدوں کا ثواب اور درجہ ملے گا گرچہ ان کے احکام شہید کے سے نہیں ہیں، اس لئے ان کو غسل دیا جائے گا، ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھی جائے گی، اس پر بھی بڑا شہید وہی ہے جو اللہ کی راہ یعنی جہاد میں مارا جائے ۔


2804- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " مَا تَقُولُونَ فِي الشَّهِيدِ فِيكُمْ ؟ " قَالُوا: الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَالْمَطْعُونُ شَهِيدٌ " قَالَ سُهَيْلٌ: وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مِقْسَمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَزَادَ فِيهِ " وَالْغَرِقُ شَهِيدٌ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۳۲)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۳۲ (۶۵۲)، م/الإمارۃ ۵۱ (۱۹۱۴) (صحیح)
۲۸۰۴- ابوہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے پوچھا:'' تم شہید کسے سمجھتے ہو'' ؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کے راستے میں ما را جا نا ( شہا دت ہے)فرمایا:'' تب تو میری امت میں بہت کم شہیدہوں گے'' !( پھر آپ ﷺ نے فرمایا:'' نہیں ایسی با ت نہیں بلکہ ) جو اللہ کے راستے میں ما را جا ئے وہ شہید ہے، جو اللہ کے راستے میں مر جا ئے وہ بھی شہیدہے، پیٹ کی بیماری میں مر نے والا بھی شہیدہے، طاعون کے مرض میں مر نے والا شہید ہے'' ۔
سہیل کہتے ہیں: مجھے عبیداللہ بن مقسم نے خبر دی وہ ابو صالح سے روا یت کر تے ہیں، اس میں یہ لفظ زیادہ ہے: ''اور ڈوب کر مر نے والا بھی شہید ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب السِّلاحِ
۱۸- باب: اسلحہ کا بیان​


2805- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ، وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۸ (۱۸۴۶)، الجہاد۱۶۰ (۳۰۴۴)، المغازي ۴۸ (۴۲۸۶)، اللباس ۱۷ (۵۸۰۸)، م/الحج ۸۴ (۱۳۵۷)، د/الجہاد ۱۲۷ (۲۶۸۵)، ت/الجہاد ۱۸ (۱۶۹۳)، الشمائل ۱۶ (۱۰۶)، ن/الحج ۱۰۷ (۲۸۷۰، ۲۸۷۱)،(تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۸۱ (۲۴۷)، حم (۳/۱۰۹، ۱۶۴، ۱۸۰، ۱۸۶، ۲۲۴، ۲۳۲، ۲۴۰)، دي/المناسک ۸۸ (۱۹۸۱)، السیر ۲۰ (۲۵۰۰) (صحیح)
۲۸۰۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ نبی اکرمﷺ فتح مکہ کے دن اس حال میں مکہ دا خل ہوئے کہ آپ کے سر پر خو د تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : خود لوہے کی ٹوپی کو کہتے ہیں جسے تلوار وغیرہ سے بچائو کے لیے سر پر پہنا جاتا ہے۔


2806- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ، أَخَذَ دِرْعَيْنِ، كَأَنَّهُ ظَاهَرَ بَيْنَهُمَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۰۵، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹۳)، وقد أخرجہ: د/الجہاد ۷۵ (۲۵۹۰)، حم (۳/۴۴۹) (صحیح)
۲۸۰۶- سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ احد کے مو قعہ پر اوپر نیچے دو زرہیں پہنیں۔


2807- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ؛ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي أُمَامَةَ، فَرَأَى فِي سُيُوفِنَا شَيْئًا مِنْ حِلْيَةِ فِضَّةٍ، فَغَضِبَ وَقَالَ: لَقَدْ فَتَحَ الْفُتُوحَ قَوْمٌ، مَا كَانَ حِلْيَةُ سُيُوفِهِمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَكِنِ الآنُكُ وَالْحَدِيدُ وَالْعَلابِيُّ.
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ : الْعَلابِيُّ الْعَصَبُ۔
* تخريج: خ/الجہاد ۸۳ (۲۹۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۷۴) (صحیح)
۲۸۰۷- سلیمان بن حبیب کہتے ہیں کہ ہم ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، تو وہ ہماری تلو اروں میں چا ندی کا کچھ زیور دیکھ کر غصہ ہو گئے، اور کہنے لگے: لو گوں (صحا بہ کرام) نے بہت سا ری فتو حا ت کیں، لیکن ان کی تلو اروں کا زیور سونا چاندی نہ تھا،بلکہ سیسہ ، لوہا اور علا بی تھا۔
ابوالحسن قطان کہتے ہیں: علا بی : اونٹ کا پٹھا (چمڑا ) ہے۔


2808- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الصَّلْتِ عَنِ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ تَنَفَّلَ سَيْفَهُ ذَا الْفَقَارِ، يَوْمَ بَدْرٍ۔
* تخريج: ت/السیر ۱۲ (۱۵۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۶۱، ۲۷۱) (صحیح)
۲۸۰۸- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جنگ بدر کے دن اپنی ذوالفقار نا می تلوار ( علی رضی اللہ عنہ کو) انعام میں دی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ انعام بطور نفل تھا اور نفل اس انعام کو کہتے ہیں جو کسی مجاہد کو اس کی کار کردگی اور بہادری کے صلہ میں حصہ سے زیادہ دیا جاتا ہے ، یہ تلوار پہلے عاص بن امیہ کی تھی جو بدر کے دن کام آیا ، پھر یہ رسول اکرم ﷺ کے پاس آئی ،آپ نے اسے علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا ، اور ان کے پاس یہ تلوار ان کی زندگی کے اختتام تک رہی ۔


2809- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَمُرَةَ، أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحاقَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛ قَالَ: كَانَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، إِذَا غَزَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَمَلَ مَعَهُ رُمْحًا، فَإِذَا رَجَعَ طَرَحَ رُمْحَهُ حَتَّى يُحْمَلَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: لأَذْكُرَنَّ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: "لا تَفْعَلْ، فَإِنَّكَ إِنْ فَعَلْتَ لَمْ تُرْفَعْ، ضَالَّةً "۔
* تخريج: تفرد بن ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۸۲ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴۸) (ضعیف الإسناد)
(ابواسحاق مدلس اور مختلط ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ابو خلیل عبد اللہ بن أبی الخلیل مقبول عند المتابعہ ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں ہے، تو وہ لین الحدیث ہوئے، امام بخاری نے فرمایا کہ ان کی متابعت نہیں کی جائے گی )
۲۸۰۹- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جب رسول اللہﷺ کے ساتھ جہا د کے لیے جاتے تو اپنے سا تھ برچھا لے جا تے، اور لو ٹتے وقت اسے پھینک دیتے، انہیں دینے کے لیے کو ئی اسے اٹھا لا تا، اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کی یہ حرکت میں رسول اللہ ﷺ کو ضرور بتا ئوں گا، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا نہ کریں، کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو گم شدہ چیز اٹھائی نہیں جائے گی ''۔


2810- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْماعِيلَ بْنِ سَمُرَةَ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ،عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: كَانَتْ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَوْسٌ عَرَبِيَّةٌ، فَرَأَى رَجُلا بِيَدِهِ قَوْسٌ فَارِسِيَّةٌ، فَقَالَ: " مَا هَذِهِ؟ أَلْقِهَا، وَعَلَيْكُمْ بِهَذِهِ وَأَشْبَاهِهَا، وَرِمَاحِ الْقَنَا، فَإِنَّهُمَا يَزِيدُ اللَّهُ لَكُمْ بِهِمَا فِي الدِّينِ، وَيُمَكِّنُ لَكُمْ فِي الْبِلادِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹۵) (ضعیف الاسناد)
(عبد اللہ بن بشر الحبرانی ضعیف راوی ہیں )
۲۸۱۰- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ کے مبارک ہاتھوں میں ایک عربی کمان تھی، اور ایک شخص کے ہاتھ میں آپ نے فا رسی کمان دیکھی تو فرمایا:'' یہ کیا ہے؟ اسے پھینک دو، اور اس طرح کی رکھو، اور نیز ے رکھو کیونکہ اللہ تعالی تمہا رے لیے ان دونوں کے ذریعہ سے دین کوترقی دے گا، اور تمہیں دوسرے ملکو ں کو فتح کرنے پر قادر بنادے گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب الرَّمْيِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
۱۹- باب: اللہ کی راہ میں تیر انداز ی کا بیان​


2811- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلامٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَزْرَقِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَيُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ الثَّلاثَةَ الْجَنَّةَ: صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَالْمُمِدَّ بِهِ " وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "ارْمُوا وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، وَكُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ،إِلا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ، وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلاعَبَتَهُ امْرَأَتَهُ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ "۔
* تخريج: ت/فضائل الجہاد ۱۱ (۱۶۳۷، ۱۶۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۴، ۱۴۸، دي/الجہاد ۱۴ (۲۴۴۹) (ضعیف) ('' وَكُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ ...''

کا لفظ صحیح ہے، اور آخری جملہ'' فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ ''ثابت نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحۃ : ۳۱۵)
۲۸۱۱- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ایک تیر کے سبب اللہ تعالی تین آدمیوں کو جنت میں دا خل کر ے گا:ثواب کی نیت سے اس کے بنا نے والے کو، چلا نے والے کو، اورترکش سے نکال نکال کر دینے والے کو''، نیز آپ ﷺ نے فرمایا:''تیر اندازی کرو ،اور سواری کا فن سیکھو، میرے نزدیک تیر اندا زی سیکھنا سواری کا فن سیکھنے سے بہتر ہے، مسلمان آدمی کا ہر کھیل با طل ہے سوائے تیر اندازی ،گھوڑے کے سدھانے ،اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، کیونکہ یہ تینوں کھیل سچے ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ کھیل بیکار اور لغو نہیں ہیں ، پہلے دونوں کھیلوں میں آدمی جہاد کے لئے مستعد اور تیار ہوتا ہے اور اخیر کے کھیل میں اپنی بیوی سے الفت ہوتی ہے، اولاد کی امید ہو تی ہے جو انسان کی نسل قائم رکھنے اور بڑھانے کے لئے ضروری ہے ۔


2812- حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالأعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْقُرَشِيِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " مَنْ رَمَى الْعَدُوَّ بِسَهْمٍ، فَبَلَغَ سَهْمُهُ الْعَدُوَّ، أَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ، فَيَعْدلُ رَقَبَةً "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۶۵)، وقد أخرجہ: ت/فضائل الجہاد ۱۱ (۱۶۳۸) (صحیح)
۲۸۱۲- عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا :'' جو دشمن کو تیر مارے، اور اس کا تیر دشمن تک پہنچے، ٹھیک لگے یا چوک جائے، تو اس کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ''۔


2813- حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالأعْلى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْهَمْدَانِيِّ؛ أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ: { وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ } أَلا وَإِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۵۲ (۱۹۱۷)، د/الجہاد ۲۴ (۲۵۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۱۱)، وقد أخرجہ: ت/تفسیر القرآن ۹ (۳۰۸۳)، حم (۴/۱۵۷)، دي/الجہاد ۱۴ (۲۴۴۸) (صحیح)
۲۸۱۳- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو منبر پر آیت کریمہ : {وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ } (سورۃ الانفال: ۶۰) (دشمن کے لیے طاقت بھر تیاری کر و) کو پڑھتے ہو ئے سنا: ( اس کے بعد آپﷺ فرما رہے تھے:) ''آگاہ رہو !طاقت کا مطلب تیراندازی ہی ہے'' یہ جملہ آپﷺ نے تین با ر فرمایا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جنگجو کفار ومشرکین اور اعداء اسلام کے مقابلہ کے لئے ہمیشہ اپنی طاقت کو بڑھاتے رہو، اور ہر وقت جنگ کے لئے مستعد رہو گو جنگ نہ ہو ، اس لئے کہ معلوم نہیں دشمن کس وقت حملہ کربیٹھے ، ایسا نہ ہو کہ دشمن تمہاری طاقت کم ہونے کے وقت غفلت میں حملہ کربیٹھے اور تم پر غالب ہوجائے ، افسوس ہے کہ مسلمانوں نے قرآن شریف کو مدت سے بالائے طاق رکھ دیا، ہزاروں میں سے ایک بھی مسلمان ایسا نظر نہیں آتا جو قرآن کو اس پر عمل کرنے کے لئے سمجھ کر پڑھے ۔


2814- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابنُ لَهِيعَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ نُعَيْمٍ الرُّعَيْنِيِّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ نَهِيكٍ؛ أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " مَنْ تَعَلَّمَ الرَّمْيَ ثُمَّ تَرَكَهُ فَقَدْ عَصَانِي"۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۷۱)، وقد أخرجہ: د/الجہاد ۲۴ (۲۵۱۳)، ت/فضائل الجہاد ۱۱ (۱۶۳۷)، ن/الجہاد ۲۶ (۳۱۴۸)، الخیل ۸ (۳۶۰۸)، حم (۴/۱۴۴، ۱۴۶، ۱۴۸، ۱۵۴، دي/الجہاد ۱۴ (۲۴۴۹) (ضعیف)
(فقد عصانی کے لفظ سے ضعیف ہے، اور ''فلیس منّا '' کے لفظ سے صحیح ہے )
۲۸۱۴- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرما تے ہو ے سنا :'' جس نے تیر اندا زی سیکھی پھر اسے چھو ڑ دیا، تو اس نے میر ی نا فرمانی کی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ہتھیار چلانے کا علم سیکھے تو کبھی کبھی اس کی مشق کرتا ر ہے چھوڑ نہ دے تاکہ ضرورت کے وقت کام آئے اب تیر کے عوض بندوق اور تو پ ہے ۔


2815- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِنَفَرٍ يَرْمُونَ، فَقَالَ: " رَمْيًا بَنِي إِسْمَاعِيلَ، فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا "۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۲۸، ومصباح الزجاجۃ:۹۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۶۴) (صحیح)
۲۸۱۵- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو تیراندازی کررہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' اسما عیل کی اولاد!تیر اندا زی کرو،تمہارے والد ( اسماعیل ) بڑے تیر انداز تھے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اسماعیل علیہ السلام کو ان کے باپ ابراہیم علیہ السلام فاران کے میدان یعنی مکہ کی چٹیل زمین میں چھوڑ کر چلے آئے تھے وہ وہیں بڑے ہوئے، اور ان کو شکار کا بہت شوق تھا ،اور بڑے تیر انداز اور بہادر تھے، تو نبی کریم ﷺ نے عربوں کو بھی تیر اندازی کی اس طرح سے ترغیب دی کہ یہ تمہارا آبائی پیشہ ہے اس کو خوب بڑھاؤ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب الرَّايَاتِ وَالأَلْوِيَةِ
۲۰- باب: (جنگ میں )بڑ ے اور چھو ٹے جھنڈوں کے استعمال کا بیان​


2816- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ؛ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ قَائِمًا عَلَى الْمِنْبَرِ، وَبِلالٌ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْهِ، مُتَقَلِّدٌ سَيْفًا، وَإِذَا رَايَةٌ سَوْدَاءُ، فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، قَدِمَ مِنْ غَزَاةٍ۔
* تخريج: ت/تفسیر القرآ ن ۵۱ (۲) (۳۲۷۳، ۳۲۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۸۲) (حسن)
۲۸۱۶- حا رث بن حسان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو نبی اکرم ﷺ کو منبر پر کھڑے دیکھا، اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے، پھر اچانک ایک کالا بڑا جھنڈا دکھائی دیا، میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتا یا کہ یہ عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ ہیں جو ایک غزوہ سے واپس آئے ہیں ۔


2817- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، وَعَبْدَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ، وَلِوَاؤُهُ أَبْيَضُ۔
* تخريج: د/الجہاد ۷۶ (۲۵۹۲)، ت/الجہاد ۹ (۱۶۷۹)، ن/الحج ۱۰۶ (۲۸۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۸۹) (حسن)
۲۸۱۷- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہو ئے تو آپ کا جھنڈا سفید تھا۔


2818- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ الْوَاسِطِيُّ النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَايَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَانَتْ سَوْدَاءَ وَلِوَاؤُهُ أَبْيَضُ ۔
* تخريج: ت/الجہاد ۱۰ (۱۶۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۴۲) (حسن)
۲۸۱۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا بڑا جھنڈا کالا اور چھوٹا جھنڈا سفید تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں رایہ اور لواء کا لفظ ہے، رایہ یعنی بڑا جھنڈا کالا تھا ،اور لواء چھوٹا جھنڈا سفید تھا،اس سے معلوم ہوا کہ امام کو لشکروں کو ترتیب دینا اور جھنڈے اور نشان بنانا مستحب ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ فِي الْحَرْبِ
۲۱- باب: جنگ میں حریر ودیبا( ریشمی کپڑوں) کے پہننے کا بیان​


2819- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ، بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، مَوْلَى أَسْمَاءَ،عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ؛ أَنَّهَا أَخْرَجَتْ جُبَّةً مُزَرَّرَةً بِالدِّيبَاجِ، فَقَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَلْبَسُ هَذِهِ إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ ۔
* تخريج: م/اللباس و الزینۃ ۲ (۲۰۶۹)، د/اللباس ۱۲ (۴۰۵۴)، ن/الکبری الزینۃ (۹۶۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۷، ۳۴۸، ۳۵۳)، الأدب المفرد (۳۴۸) (صحیح)
( اس کی سند میں حجاج بن ارطاہ ضعیف ہیں ، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے ، کما فی التخریج )
۲۸۱۹- اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ انہوں نے ریشم کی گھنڈیاں لگا ہوا جبہ نکالا اورکہنے لگیں : دشمن سے مقابلہ کے وقت نبی اکرمﷺ اسے پہنتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اکثر اہل علم کے نزدیک لڑائی میں ریشمی کپڑا پہننا جائز ہے کیونکہ تلوار ریشم کو مشکل سے کاٹتی ہے ، حریر اور دیباج میں یہ فرق ہے کہ دیباج خالص ریشم ہوتا ہے اور حریرمیں ریشم ملا ہوتا ہے ۔


2820- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَن ْ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَنْهَى عَنِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ إِلا مَا كَانَ هَكَذَا، ثُمَّ أَشَارَ بِإِصْبَعِهِ ثُمَّ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ الثَّالِثَةِ، ثُمَّ الرَّابِعَةِ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَنْهَانَا عَنْهُ۔
* تخريج: خ/اللباس ۲۵ (۵۸۲۸)، م/اللباس ۲ (۲۰۶۹)، د/اللباس ۱۰ (۴۰۴۲)، ن/الزینۃ ۳۸ (۵۳۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۵، ۳۶، ۴۳) (صحیح)
۲۸۲۰- عمر رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ وہ حریر اور دیباج (ریشمی کپڑوں کے استعمال ) سے منع کر تے تھے مگر جو اتنا ہو، پھر انہوں نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا، پھر دوسری سے پھر تیسری سے پھر چو تھی سے، اور فرمایا:رسول اللہﷺ اس سے ہمیں منع فرمایاکرتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی چارانگل تک اجازت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب لُبْسِ الْعَمَائِمِ فِي الْحَرْبِ
۲۲- باب: جنگ میں عما مہ (پگڑی) پہننے کا بیان​


2821- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ مُسَاوِرٍ، حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو ابْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ، قَدْ أَرْخَى طَرَفَيْهَا بَيْنَ كَتِفَيْهِ۔
* تخريج: م/الحج ۸۴ (۱۳۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۱۶)، وقد أخرجہ: د/اللباس ۲۴ (۴۰۷۷)، ت/الشمائل ۱۶ (۱۰۸، ۱۰۹)، ن/الزینۃ من المجتبیٰ ۵۶ (۵۳۴۸)، حم (۴/۳۰۷)، دي/المناسک ۸۸ (۱۹۸۲) (صحیح)
۲۸۲۱- عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :گو یا کہ میں رسول اکرم ﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں آپ کے سر پر سیاہ عمامہ (کالی پگڑی) ہے جس کے دونوں کنارے آپ اپنے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکا ئے ہو ئے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمامہ باندھنا سنت ہے اور کئی حدیثوں میں اس کی فضیلت آئی ہے، اور عمامہ میں شملہ لٹکانا بہتر ہے لیکن ہمیشہ نہیں ، نبی کریم ﷺ نے کبھی شملہ لٹکایا ہے کبھی نہیں ، اور بہتر یہ ہے کہ شملہ پیٹھ کی طرف لٹکائے اور کبھی داہنے ہاتھ کی طرف ، لیکن بائیں ہاتھ کی طرف لٹکانا سنت کے خلاف ہے اور شملہ کی مقدار چار انگل سے لے کر ایک ہاتھ تک ہے اور آدھی پیٹھ سے زیادہ لٹکانا اسراف اورفضول خرچی اور خلاف سنت ہے ، اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کالے رنگ کا عمامہ باندھنا مسنون ہے ۔


2822- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَا بِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ۔
* تخريج: م/الحج ۸۴ (۱۳۵۸)، د/اللباس ۲۴ (۴۰۷۶)، ت/اللباس ۱۱ (۱۷۳۵)، ن/الحج ۱۰۷ (۲۸۷۲)، والزینۃ من المجتبیٰ ۵۵ (۵۳۴۶، ۵۳۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۳، ۳۸۷) (صحیح)
۲۸۲۲- جابر رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ نبی اکرمﷺ مکہ مکر مہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی۔
 
Top