8- بَاب الْكَمْأَةِ وَالْعَجْوَةِ
۸-باب: کھمبی اور عجوہ کھجور کا بیان
3453- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ؛ قَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَائٌ لِلْعَيْنِ، وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَهِيَ شِفَائٌ مِنَ الْجِنَّةِ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۸۱، ۲۲۸۲، ۴۰۷۴، ۴۰۷۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۸) (صحیح)
(
''شِفَائٌ مِنَ السم'' کے لفظ سے صحیح ہے ،
'' مِنَ الْجِنَّةِ '' کے لفظ سے منکر ہے ،ملاحظہ ہو: سنن ابن ماجہ بتحقیق مشہور حسن ،نیز ملا حظہ ہو: آگے والی حدیث ۳۴۵۵)
۳۴۵۳- ابوسعید خدری اور جابر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''کھمبی ۱؎ منّ میں سے ہے ،اور اس کے پانی میں آنکھوں کا علاج ، اور عجوہ (کھجور) جنت کا میوہ ہے اور اس میں پاگل پن اور دیوانگی کا علاج ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ :
كَمْأَةُ : جمع ہے،اس کی واحد
'' كمئٌ '' ہے،ابن اثیرنے اس کے بارے میں کہا کہ یہ معروف چیز ہے ، لیکن اردو زبان میں اس کا ترجمہ کھمبی ،ککرمتاسے کیا جاتاہے ،صاحب فیروز اللغات لکھتے ہیں: یہ ایک قسم کی سفید نباتات جواکثربرسات میں ازخودپیداہوجاتی ہے ، اوراسے تل کرکھاتے ہیں، سانپ کی چھتری ، جمع: کھمبیاں ، کھمبیوں (۱۱۲۱)،مصباح اللغات میں
'' كمئٌ '' کا ترجمہ یہ ہے : سانپ کی چھتری اوراس کو
'' شحم الأرض ''کہتے ہیں، جمع :
أكمؤٌ ، و كَمْأَةُ (۷۵۰-۷۵۱)
لسان العرب میں
'' كمء'' کی تعریف یوں ہے : یہ ایسی نبات ہے جو زمین کوپھاڑکرویسے ہی نکلتی ہے جیسے کہ
'' فُطر'' یعنی زمین سے اُگنے والی نبات اورمزیدفرمایا : یہ بھی کہا گیا ہے کہ كمء مٹ میلی اورکالی سرخی مائل چیز اورسفید
''فَقْعَه''ہے، اوراس کے بعد یہی حدیث ذکرفرمائی ۔
اور
'' فُطر'' نامی نبات کو مشروم بھی کہتے ہیں ، ملاحظہ ہو: قاموس الغذاء والتداوی بالنبات لاحمدقدامہ : صفحہ ۴۸۹
حدیث میں وارد
''كمء''سے مراد وہ پھل ہے جوزمین کے اندرآلوکی شکل میں اوراسی کی طرح پیداہوتا ہے ، اوراس کو سعودی عرب میں
''فَقْعَه'' کہتے ہیں ، جاڑے میں بارش کے بعدیہ پیداہوتا ہے ، صحراء کے لوگ اس کی جائے پیدائش سے واقف ہوتے ہیں، اور اسے زمین سے نکال کرلے آتے ہیں، یہ بازارمیں بھی بھاری قیمت سے فروخت ہوتا ہے ، جس کی قیمت تین سو ریال فی کلو تک پہنچ جاتی ہے ، یہ آلو کی شکل کا ہوتا ہے، اس کی لذت پکاکرکھانے میں بالکل گوشت کی طرح ہوتی ہے ، اس لیے اس کو زمین کے اندراُگنے والا
''مَن '' کہاجائے توبیجانہ ہوگا، حدیث میں اس کو
''مَن ''میں شمارکیا گیا ہے ، اوراس کے عرق کو آنکھ کا علاج بتایا گیا ہے ، اور اس کا ذکر عجوہ کھجورکے ساتھ آیا ہے ، صحیح یہی ہے کہ کمئَہ سے مراد سعودی عرب میں مشہور
''فَقْعَه'' نامی پھل ہے ، جوآلو کے ہم شکل اوراسی کی طرح زمین میں پیداہوتا ہے ۔
حافظ ابن حجرنے فتح الباری میں اس کی تعریف یوں کی ہے : کمئہ ایسی نبات ہے جو تنا (ڈنٹھل)اورپتوں کے بغیرہوتی ہے ، اور یہ زمین میں بغیربوئے پائی جاتی ہے ، اوریہ عرب علاقوں میں بہت پائی جاتی ہے اورمصروشام میں بھی پائی جاتی ہے ، حافظ ابن حجرنے جوتفصیلی بتائی ہے اس کے مطابق بھی یہ وہی
''فَقْعَه'' ہے جس کی تشریح اوپرگزری ۔(ملاحظہ ہو: فتح الباری حدیث نمبر: ۵۷۰۸)
حکیم مظفرحسین اعوان نے کھمبی کی تعریف یوں کی ہے : اردو: کھمب ، ہندی: کھم ، سندھی: کھنبہی ، انگریزی : مش روم : یہ بغیرتنا اور بغیرپتوں کے خودرو پوداہے جوگرمی کے موسم میں بارش کے بعدپیداہوتا ہے ، اس میں جوہرارضی زیادہ اورجوہرمائی کم ہوتا ہے ، لیکن جب یہ خشک ہوجاتی ہے تواس کی مائیت زائل ہوجا تی ہے ، اورصرف ارضیت کے باقی رہنے سے غلظت بڑھ جاتی ہے ... قابض ونفاخ ہے ، بلغم اورسودا پیداکرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امراض سوداوی اوربلغمی میں مضرہے ...کھمب کا بڑا وصف صرف یہ ہے کہ یہ بہت لذیذہوتی ہے اس لیے لوگ اسے پکاکرکھاتے ہیں (کتاب المفردات : صفحہ ۳۸۶)
احمدقدامہ نے لفظ
كَمْأَةُ کے تحت جو تفاصیل ذکرکی ہیں وہ سابقہ خودروزیرزمین آلوکی مانندپھل کی ہے ، مولف نے آنکھ کے علاج سے متعلق طبی فوائد کابھی ذکرکیا ہے ، اورجدیدتحقیقات کی روشنی میں اس کے اندرپائی جانے والی چیزوں کی تفصیلی بتائی ہے ، اورآخرمیں لکھاہے کہ زمین میں اُگنے والی ساری خودرو نباتات میں قوت باہ کو زیادہ کرنے میں یہ سب سے فائق ہے ، اس میں کاربن ، اکسیجن اور ہیڈروجن کے ساتھ ساتھ نٹروجین کی بھی ایک مقدارپائی جاتی ہے ، اس لیے یہ اپنی ترکیب میں گوشت کی مانندہے ، اور پکانے کے بعداس کا مزہ بکری کے گردے کی طرح ہوتا ہے۔(قاموس الغذاء : ۶۰۲-۶۰۴) ، نیز ملاحظہ ہو: المعجم الوسیط : مادہ الکمأ ۔
ککرمتاجسے سانپ کی چھتری بھی کہتے ہیں اورکھمبی سے بھی یہ جانا جاتاہے ، جس کی تفصیل اوپرگزری یہ ایک دوسرا خود رو چھوٹا پوداہے جو برصغیرکے مرطوب علاقوں میں گرمی کے موسم میں بارش کے بعد اُگتاہے، خاص کران علاقوں میں جہاں سرکنڈا (جسے سینٹھا،نرسل ، نرکل اور نئے بھی کہتے ہیں)ہوتا ہے ، اوریہ زمین پر خود بخود اگتا ہے، اس کا تعلق حدیث میں وارد کھمبی سے نہیں ہے ۔واللہ اعلم۔
وضاحت ۲ ؎ : عجوہ کھجور سے دیوانگی اورپاگل پن کے علاج کا لفظ حدیث میں صحیح نہیں ہے ، صحیح حدیث میں زہر کا علاج آیا ہے ۔ (ملاحظہ ہو: حدیث نمبر ۳۴۵۵)۔
3453/ أ- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الرَّقِّيَّان، قَالا: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنُ هِشَامٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النِّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۰۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۲) (صحیح)
۵۳ ۳۴/أ- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اس سند سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۔
3454- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، سَمِعَ عَمْرَو بْنَ حُرَيْثٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: " أَنَّ الْكَمْأَةَ مِنَ الْمَنِّ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ،وَمَاؤُهَا شِفَاءُ الْعَيْنِ "۔
* تخريج: خ/الطب ۲۰ (۵۷۰۸)، م/الأشربۃ ۲۸ (۲۰۴۹)، ت/الطب ۲۲ (۲۰۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۷، ۱۸۸) (صحیح)
۴۳۵۴- سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کھمبی من میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا، اور اس کے پانی میں آنکھوں کا علاج ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کھمبی اس من کے ہم مثل ہے جو بلا محنت ومشقت آسمان سے بنی ا سرائیل کے لیے نازل ہوتا تھا، کھمبی ایک چھوٹا سا پودا ہے جو زمین سے نکلتا ہے۔
3455- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِالصَّمَدِ، حَدَّثَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَذَكَرْنَا الْكَمْأَةَ، فَقَالُوا: هُوَ جُدَرِيُّ الأَرْضِ، فَنُمِيَ الْحَدِيثُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: "الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَهِيَ شِفَائٌ مِنَ السَّمِّ " ۔
* تخريج: ت/الطب ۲۲ (۲۰۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۱، ۳۰۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۴۲۱، ۴۸۸،۴۹۰، ۵۱۱)، دي/الرقاق ۱۱۵ (۲۸۸۲) (صحیح)
۳۴۵۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس گفتگو کررہے تھے کہ کھمبی کا ذکر آگیا ، تو لوگوں نے کہا: وہ تو زمین کی چیچک ہے ، یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' کھمبی منّ میں سے ہے، اور عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے ، اور اس میں زہر سے شفا ہے ''۔
3456- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا الْمُشْمَعِلُّ بْنُ إِيَاسٍ الْمُزَنِيُّ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ عَمْرٍو الْمُزَنِيَّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " الْعَجْوَةُ وَالصَّخْرَةُ مِنَ الْجَنَّةِ " قَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: حَفِظْتُ الصَّخْرَةَ مِنْ فِيهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۶، ۵/۳۱، ۶۵) (ضعیف)
(مشعمل نے کبھی
''الصخرۃ '' کہا اور کبھی
''الشجرہ'' ا س اضطراب کی وجہ سے یہ ضعیف ہے )
۳۴۵۶- رافع بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: ''عجوہ کھجور اور صخرہ یعنی بیت المقدس کا پتھر جنت کی چیزیں ہیں ''۔
عبدالرحمن بن مہد ی کہتے ہیں : لفظ
'' صخرہ '' میں نے ان کے منہ سے سن کریاد کیا ہے ۔