24- بَاب مَنِ اكْتَوَى
۲۴ -باب: جو داغ لگوائے اس کے حکم کابیان
3492- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،(ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ الأَنْصَارِيُّ (سَمِعَهُ عَمِّي يَحْيَى،وَمَا أَدْرَكْتُ رَجُلا مِنَّا بِهِ شَبِيهًا) يُحَدِّثُ النَّاسَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ زُرَارَةَ، وَهُوَ جَدُّ مُحَمَّدٍ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ، أَنَّهُ أَخَذَهُ وَجَعٌ فِي حَلْقِهِ، يُقَالُ لَهُ: الذُّبْحَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " لأُبْلِغَنَّ أَوْ لأُبْلِيَنَّ فِي أَبِي أُمَامَةَ عُذْرًا " فَكَوَاهُ بِيَدِهِ فَمَاتَ،فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " مِيتَةَ سَوْئٍ لِلْيَهُودِ! يَقُولُونَ: أَفَلا دَفَعَ عَنْ صَاحِبِهِ ! وَمَا أَمْلِكُ لَهُ وَلا لِنَفْسِي شَيْئًا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۷)، وقد أخرجہ: ط/العین ۵ (۱۳) (حسن) دون قولہ: '' لأبلغن ۔۔۔''
۳۴۹۲- محمد بن عبدالرحمن بن اسعد بن زرارہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا یحییٰ بن اسعد بن زرارہ سے سنا، اور ان کا کہنا ہے کہ اپنوں میں ان جیسا - متقی وپرہیز گار- مجھے کوئی نہیں ملا لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ سعد بن زرارہ ۱ ؎ ( جو محمد کے نانا تھے ) کو ایک بار حلق کا درد ہوا ، اس درد کو ذُبحہ کہا جاتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''میں ابوامامہ( یعنی! اسعد رضی اللہ عنہ ) کے علاج میں اخیر تک کوشش کرتا رہوں گا تاکہ کوئی عذر نہ رہے'' ، چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ سے داغ دیا، پھر ان کانتقال ہوگیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''یہود بری موت مریں، اب ان کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ محمد نے اپنے ساتھی کو موت سے کیوں نہ بچالیا، حالانکہ نہ میں اس کی جان کا مالک تھا، اور نہ اپنی جان کا ذرا بھی مالک ہوں '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اسعد بن زرارہ یا سعد بن زرارہ اس کے لئے دیکھئے: تحفۃ الاشراف والاصابہ۔
وضاحت ۲ ؎ : اسعد بن زرارہ انصار کے سردار تھے، بڑے مومن کامل تھے، آپ ﷺ نے جہاں تک ہو سکا ان کا علاج کیا، لیکن موت میں کسی کازرونہیں چلتا، رسول اکرم ﷺ کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ کسی کی موت آئے اور وہ روک دیں، لیکن یہودیوں کو جو شروع سے بے ایمان تھے، یہکہنے کا موقع ملا کہ اگر یہ سچے رسول ہوتے تو اپنے ساتھی سے موت کو دور کر دیتے ،آپ ﷺ نے ان کا رد کیا، اور فرمایا : رسول کو اس سے کیا علاقہ ؟ مجھ کو خود اپنی جان پر اختیار نہیں ہے، تو بھلا دوسرے کی جان پر کیا ہوگا،اور افسوس ہے کہ یہودی اتنا نہ سمجھے کہ اگلے تمام انبیاء ورسل جب ان کی موت آئی مر گئے بلکہ ہارون علیہ السلام جو موسیٰ کے بھائی تھے، موسیٰ کی زندگی میں مرے اور موسیٰ علیہ السلام ان کونہ بچاسکے ،بھلا امر الٰہی کو کوئی روک سکتا ہے، ولی ہوں یا نبی ،اللہ تعالی کے سامنے سب عاجز بندے اور غلام ہیں۔
3493- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: مَرِضَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ مَرَضًا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ طَبِيبًا، فَكَوَاهُ عَلَى أَكْحَلِهِ۔
* تخريج: م/السلام ۲۶ (۲۲۰۷)، د/الطب ۶ (۳۸۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۳، ۳۰۴، ۳۱۵، ۳۷۱) (صحیح)
۳۴۹۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایک بار بیمار پڑے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس ایک طبیب بھیجا ، اس نے ان کے ہاتھ کی رگ پر داغ دیا ۔
3494- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي الْخَصِيبِ، حَدَّثَنَا وَكيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِبْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَوَى سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فِي أَكْحَلِهِ مَرَّتَيْنِ۔
* تخريج: تفرد ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۸)، وقد أخرجہ: م/السلام ۲۶ (۲۲۰۸)، د/الطب ۷ (۳۸۶۶)، ت/السیر ۲۹ (۱۵۸۲)، حم (۳/۳۶۳)، دي/السیر ۶۶ (۲۵۵۱) (صحیح)
۳۴۹۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ والی رگ میں دومرتبہ داغا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرم ﷺ سے علاج ومعالجہ کے لئے اعضاء بدن کو داغنے کے سلسلہ میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو بظاہر باہم متعارض نظر آتی ہیں، جس کی وجہ سے اس مسئلہ میں علماء کے مابین اختلافات ہیں۔
۱- بعض احادیث سے اعضاء جسم کو داغنا ثابت ہے جیسے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے زخم کو داغنے کا واقعہ۔
۲- بعض میں اس سلسلہ میں آپ کی ناپسندیدگی کا ذکر ہے۔
۳- بعض میں اس کے چھوڑ دینے کی تعریف کی گئی ہے۔
۴- بعض احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔
واضح رہے کہ جن احادیث میں اعضاء جسم کو داغنے سے علاج اور شفاء کی بات آئی ہے اس سے اس کے جواز ومشروعیت کا ثبوت ملتا ہے، اور رسول اکرم ﷺ کے اس کو ناپسند کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کام ممنوع ہے، بلکہ اس کا معاملہ ضبکے ناپسند ہونے کی طرح ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اسے نہ کھایا، لیکن یہ آپ ﷺ کے دسترخوان پر کھائی گئی، اور آپ نے اس پر سکوت اختیار کیا، اور اس کی حلت کا اقرار فرمایا، اور آپ کے ضب نہ کھانے کا تعلق آپ کی ذاتی ناپسندیدگی سے ہے جس کا ضب کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ہے،اور اس کے ترک کردینے پر پسندیدگی سے پتہ چلتا ہے کہ اعضاء جسم کو داغ کر علاج نہ کرنا زیادہ بہتر بات ہے۔
اور ممانعت کی احادیث کراہت کے قبیل سے ہیں، یا ایسی صورت سے ممانعت کی بات ہے جس کی ضرورت وحاجت نہ ہو، بلکہ بیماری کے لاحق ہونے کے خوف کی بنا پر ہو۔
اس تفصیل سے پتہ چلا کہ اعضاء جسم کے داغنے کے ذریعہ علاج بلا کراہت دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے ،ایک یہ کہ اس علاج کے علاوہ اور کوئی صورت علاج کی باقی نہ ہو، بلکہ متعین طور پر اس علاج ہی کی تشخیص کی گئی ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اعضاء جسم کا داغنا شفا اور علاج کا مستقل سبب نہیں ہے، بلکہ اس کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ ہے جو شفا دینے والا ہے، جب دوسری صورتیں علاج کی موجود ہوں تو آگ سے داغنے کا علاج مکروہ ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ علمائے دین نے اعضاء جسم کو داغ کر اس سے علاج کے جواز کی بات کہی ہے کہ یہ بھی علاج ومعالجہ کا ایک مجرب طریقہ ہے، بعض علماء نے اس اعتقاد سے صحت مند آدمی کو داغنے سے منع کیا ہے کہ وہ اس کے بعد دوبارہ بیمار نہ ہو، تو ایسی صورت حرام اور ممنوع ہے، اور دوسری علاج کی صورتیں جن میں زخم کے فساد کا علاج یا اعضاء جسم کے کٹنے کے بعد اس کے علاج کا مسئلہ ہو جائز ہے۔
یہ واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں (ا ور آج بھی لوگوں میں یہ رواج ہے) لوگوں کایہ اعتقاد تھا کہ صحت مند آدمی کو اس واسطے داغتے تھے کہ وہ اس کے بعد بیمار نہ ہو، اگر یہ صورت ہو تو احادیث نہی اس طرح کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں، اسلام نے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ ہی شافی وکافی ہے۔
{إذا مرضت فهو يشفين}
اوپر کی وضاحت کا خلاصہ یہ ہوا کہ اعضاء جسم کے ''داغنے'' کا طریقہء علاج مختلف صورتوں میں مختلف احکام رکھتا ہے، نہ تو ہمیشہ اس کا ترک صحیح ہے، اور نہ اس علاج کا ہمیشہ اختیار کرنا ہی صحیح ہے، کبھی کراہت کے ساتھ یہ جائز ہے، کبھی یہ علاج مکروہ ہے، اور کبھی یہ حرمت کے دائرہ میں آجاتا ہے، جواز کی صورت اس کی ضرورت کے پیش نظر ہے، بایں طور کہ علاج کی دوسری صورت باقی نہ ہو بلکہ متعین طور پر کسی بیماری میں یہی علاج موثر ہو جیسے تیزی سے جسم سے خون کے نکلنے میں داغنے کے علاوہ کوئی اس کو روکنے کی ترکیب نہ ہو، ورنہ بیمار کے مرجانے کا خدشہ ہو، اس صورت میں اس علاج کو اپنانا ضروری ہے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے جسم سے خون نہ رکنے کی صورت میں ان کی ہلاکت کے خوف سے ان کے جسم کوداغا۔
یہ واضح رہے کہ اس علاج میں یہ اعتقاد بھی ہونا چاہئے کہ یہ ایک سبب علاج ہے، اصل شافی اللہ تعالیٰ ہے۔
کراہت کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ دوسرے علاج کی موجودگی میں یہ علاج کیا جائے، اس لئے کہ اس علاج میں مریض کو سخت درد بلکہ اصل مرض سے زیادہ سخت درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کراہت کی ایک صورت یہ ہے کہ بیماری آنے سے پہلے حفظان صحت کے لئے یہ طریقۂ علاج اپنایا جائے، اس لئے کہ اس میں اللہ پر توکل واعتماد میں کمی اور کمزوری آجاتی ہے، اور مرض کے واقع ہونے سے پہلے ہی ''داغنے کے درد'' کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صرف اس خدشہ سے کہ ایسا مستقبل میں ممکن ہے، آگ کا عذاب اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اس لئے اس صورت میں اس پر حرمت کا اطلاق بھی ہوسکتا ہے، داغنے کے علاج میں شفا ڈھونڈھنے میں غلو اور مبالغہ کی صورت میں آدمی حقیقی مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو بھول جاتا ہے، اور دنیاوی اسباب کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، اور یہ معلوم ہے کہ اسباب کی طرف توجہ والتفات توحید میں شرک ہے۔
امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ صحیح احادیث میں علاج کا حکم ہے، جو توکل کے منافی نہیں ہے، جیسے بھوک، پیاس، سردی اور گرمی کو اس کے اضداد کے ذریعہ دور کیا جائے، بلکہ توحید کی حقیقت کا اتمام اسی وقت ہوگا جب آدمی اللہ تعالی کی شریعت میں اور سنن کونیہ (کائناتی نظام) میں نتائج تک پہنچنے کے لئے جو اسباب فراہم کئے ہیں ان کو استعمال کرے ،اور ان شرعی اور کونی اسباب کو معطل کر دینا دراصل نفس توکل میں قدح ہے۔
اور ایسے ہی امر الٰہی اور حکمت ربانی کا قادح اور اس میں کمزوری پیدا کرنے والا ہے کیونکہ ان اسباب کو معطل کرنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ ان کا ترک توکل کے باب میں زیادہ قوی اور مضبوط ہے۔
پس ان اسباب کا ترک عاجزی ہے، جو اس توکل کے منافی ہے جس کی حقیقت ہی یہ ہے کہ بندہ کا دل اللہ تعالیٰ پر اپنے دینی اور دنیاوی فوائد کے حصول میں اور دینی ودنیاوی نقصانات سے دور رہنے میں اعتماد کرے۔
اس اعتماد وتوکل کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، ورنہ آدمی حکمت الٰہی اور شریعت کے اوامر کو معطل کرنے والا ہوگا، لہذا آدمی اپنی عاجزی کو توکل نہ بنائے، اور نہ ہی توکل کو عاجزی کا عنوان دے۔(زاد المعاد: ۴؍۱۵) (حررہ الفریوائی)