- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
3- بَاب النَّهْيِ عَنِ النُّهْبَةِ
۳-باب: لوٹ مار سے مما نعت کا بیان
3935- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً مَشْهُورَةً، فَلَيْسَ مِنَّا "۔
* تخريج: (یہ حدیث مکر ر ہے ، دیکھئے : ۲۵۹۱)، (تحفۃ الأشراف:۲۸۰۰) (ضعیف) لتدلیس ابن جریج وأبی الزبیر۔
۳۹۳۵- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو علی الاعلان اور کھلم کھلا طور پر لو ٹ ما ر کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے''۔
3936- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " لايَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلايَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ "۔
* تخريج: خ/المظالم ۳۰ (۲۷۷۵)، الأشربۃ ۱ (۵۵۷۸)، الحدود ۱ (۶۷۷۲)، م/الإیمان ۲۴ (۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۳)، وقد أخرجہ: د/السنۃ ۱۶ (۴۶۸۹)، ت/الإیمان ۱۱ (۲۶۲۵)، ن/قطع السارق ۱ (۴۸۷۴)، الأشربۃ ۴۲ (۵۶۶۲، ۵۶۶۳)، حم (۲/۲۴۳، ۳۱۷، ۳۷۶، ۳۸۶، ۳۸۹)، دي/الأضاحي ۲۳ (۲۰۳۷)، الأشربۃ ۱۱ (۲۱۵۲) (صحیح)
۳۹۳۶- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب زانی زنا کر تا ہے تو اس وقت وہ مو من نہیں ہو تا، اور جب شرابی شراب پیتا ہے تو اس وقت وہ مو من نہیں ہو تا، اور جب چور چوری کرتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا، جب لوٹ ما ر کر نے والا لو گوں کی نظروں کے سامنے لوٹ ما ر کر تا ہے تو اس وقت وہ مو من نہیں ہو تا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دنیاوی احکام سے متعلق احادیث جن میں بعض کبائر کے ارتکاب کرنے والے پر کفر کا اطلاق ہے، یا اس سے ایمان کی نفی ہے، ان احادیث کو اس کے کفر پر محمول کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ مرتکب کبیرہ کے کافر نہ ہونے پر اجماع ہے، بشرطیکہ وہ کام شرک نہ ہو، یا وہ اس کو حلال نہ قرار دینے والا ہو۔اس لئے کہ ان کلمات سے مراد کفر اصغر ہے، جس کو بعض سلف صالحین نے "كفر دون كفر" (کفر سے چھوٹا کفر) کہا ہے، اس باب میں ضابطہ یہ ہے کہ نصوص شرعیہ میں کسی کام پر کفر کے اطلاق کا مطلب کفر اصغر ہوگا، الا یہ کہ اس سے دائرہ اسلام سے نکال دینے والا کفر دلائل کی روشنی میں ثابت ہو۔اور وہ احادیث جن میں مرتکب کبیرہ کے ایمان کی نفی آئی ہے، تو وہاں واجب ایمان کامل کی نفی مقصود ہے، مطلق ایمان اور مستحب ایمان کے کمال کی نفی مقصود نہیں۔اسی طرح سے اصحاب کبائر سے براء ت کی احادیث کا معنی یہ ہوگا کہ وہ ایسے ضروری اور واجبی یعنی کامل ومکمل ایمان والے مومن نہیں ہیں جو بلا سزا وعقاب کے مستحق اجر وثواب ہوں۔
کفر سے متعلق نصوص کی اس تاویل وتوضیح کی بنیاد اہل سنت والجماعت کے اس عظیم اصل اور قاعدہ پر ہے کہ ایک آدمی میں کفر وایمان اور نفاق وایمان کا اجتماع ممکن ہے، ان کے یہاں کفر سے دائرہ اسلام سے نکالنے والا کفر مراد نہیں ہے کہ جس کے ساتھ ایمان کا اجتماع نہیں ہوسکتا، بلکہ ان کی مراد کفر کے شعبوں میں سے ایک شعبہ اور شاخ ہے کہ معاصی (گناہ) سب کے سب کفر کے شعبے ہیں، جیسے اطاعت وفرمانبرداری اعمال وافعال والی ایمان کی شاخیں ہیں۔ایسے ہی ان کے نزدیک نفاق سے مراد عملی نفاق ہے، دائرۂ اسلام سے خارج کردینے والا اعتقادی کفر مراد نہیں ہے۔
امام ابن القیم فرماتے ہیں : آدمی کے یہاں کفر وایمان، شرک اور توحید، تقوی اور فجور، نفاق اور ایمان ایک ساتھ اکٹھا ہوسکتے ہیں، یہ اہل سنت کا بڑا عظیم اصول ہے، ان کی مخالفت خوارج، معتزلہ اور قدریہ جیسے مخالفین اہل بدعت نے کی ہے، گناہِ کبیرہ کے مرتکب جہنمیوں کا جہنم سے نکلنا، اور ان کا اس میں ہمیشہ ہمیش نہ رہنا ،اسی اصل پر مبنی ہے، اس پر کتاب وسنت اور فطرت کے دلائل، اور صحابہ کا اجماع ہے۔
اس لئے اگر کسی شخص نے کفر کے شعبوں میں سے کسی شعبہ کا ارتکاب کیا، تو اس سے ایمان مطلق کی نفی ہوئی، لیکن وہ اسلام کے وصف سے متصف ہوگا، اس لئے کہ ہر مومن مسلمان ہے، اور ہر مسلمان مومن نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ حدیث رسول: "لا يزني الزاني حين يزني وهو مومن" کے سلسلہ میں بعض سلف نے فرمایا کہ یہ اسلام ہے، اور ایک وسیع دائرہ بنایا، اور کہا یہ ایمان ہے، اور بڑے دائرے کے درمیان ایک چھوٹا دائرہ بنایا، اور عرض کیا: تو جب آدمی نے زنا کیا یا چوری کی، تو دائرہ ایمان سے نکل کر دائرہ اسلام میں آگیا، اور یہ اس کو اسلام سے باہر نہیں کرے گا، الا یہ کہ وہ اللہ کا انکار کردے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انسان کے یہاں کبھی ایمان کا کوئی شعبہ ہوتا ہے، اور کبھی نفاق کا کوئی شعبہ، اور کبھی وہ مسلمان ہوتا ہے، اور اس میں مکمل طور پر اسلام سے باہر کردینے والے کفر سے چھوٹا کفر ہوتا ہے ،جیسا کہ صحابہ کرام میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے فرمایا: "كفر دون كفر" کفر سے کمتر کفر، اور یہی عام سلف کا قول ہے جس کی تنصیص امام احمد وغیرہ نے فرمائی ہے، جنہوں نے چور اور شرابی وغیرہ کے بارے میں جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "ليس بمؤمن" (وہ مومن نہیں ہے ) کہا کہ وہ مسلمان ہیں مومن نہیں، انہوں نے ایمان کی نفی اور اسلام کے ثبوت پر کتاب وسنت سے دلائل پیش کئے ہیں، اور یہ کہ آدمی کبھی مسلمان ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایسا کفر ہوتا ہے جو دائرہ ملت سے باہر کرنے والا نہیں ہوتا ، بلکہ یہ کفر اکبر سے چھوٹا کفر ہوتا ہے''۔
خلاصہ یہ کہ ایمان کے دو درجے ہوئے، ایک اسلام جو اصل دین ہے اور دوسرا ایمان خالص، پہلے درجہ (اسلام) کی نفی میں دوسرے درجہ کی نفی شامل ہے، لیکن دوسرے درجہ (ایمان) کی نفی میں پہلے درجہ (یعنی اسلام) کی نفی شامل نہیں ہے۔
ایسے ہی کفر کے دو درجے ہیں: دائرۂ ملت سے خارج کردینے والا کفر، جو ایمان کے مقابلہ میں ہے جو حقیقت میں دائرہ اسلام ہے، اور دوسرا درجہ دائرہ ملت سے نہ نکالنے والا کفر اس کے مقابلہ میں وہ واجب ایمان ہے جو حقیقی اسلام کے درجہ سے زائد ہے۔اس لئے صفت کفر کے اطلاق سے لازم نہیں ہوتا کہ وہ دائرہ ملت سے خارج کردینے والا کفر ہو، بلکہ اس سے کفر اصغر مراد ہے، بلکہ کبھی واجبی ایمان کی نفی مراد ہوتی ہے، جس میں اسلام کا وصف باقی رہتا ہے۔
خلاصۂ مبحث یہ ہے کہ آخرت سے متعلق وارد وعدہ اوروعید والی احادیث میں صحیح بات یہی ہے کہ ان احادیث کو ویسے ہی بیان کیا جائے گا جیسے وہ آئی ہیں، اور اس کے بارے میں یہ اعتقاد ہوگا کہ یہ اعمال وعدہ یا وعید کے ثابت ہونے کا سبب ہیں، لیکن کسی متعین آدمی پر یہ وعدے اور وعید چسپاں نہیں ہوں گے حتی کہ اس سے متعلق شروط وقیود پائی جائیں، اور اس سے متعلق رکاوٹیں جاتی رہیں۔
امام ابن ابی العز حنفی شارح العقیدہ الطحاویہ فرماتے ہیں:
لیکن ہم متعین شخص کے بارے میں توقف کریں گے، اور اس کے جنت میں جانے یا جہنم میں جانے کی گواہی علم کے بغیر نہیں دیں گے، اس لئے کہ اس کے باطن کی حقیقت اور جس چیز پر اس کی موت ہوئی ہے، کا ادراک واحاطہ ہم کو نہیں ہے، لیکن ہم محسن کے لئے امید رکھتے ہیں، اور گنہگار کے بارے میں خوف رکھتے ہیں۔
امام ابن عبدالبر احادیث وعید کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ اس باب میں بہت زیادہ آثار ہیں جن کا احاطہ کتاب میں ممکن نہیں، نرمی والی احادیث امید پیدا کرتی ہیں اور سختی والی احادیث ڈراتی ہیں، اور مومن کا ایمان خوف ورجاء (امید اور ڈر) کے درمیان ہے۔ گنہگار اگر توبہ نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے۔
رہ گیا ملی فاسق کا مسئلہ جس کے ارد گرد یہ ساری احادیث گھومتی ہیں ،تو اس کا دنیا میں حکم یہ ہے کہ اس سے مطلق ایمان کی نفی نہ کی جائے گی، اور نہ ہی وہ ایمان کامل سے موصوف ہوگا، لیکن اس کو ناقص الایمان مومن کہا جائے گا، یا اپنے ایمان کی وجہ سے وہ مومن ہے، اور کبائر کی وجہ سے فاسق ہے، تو اس کو نہ تو مطلق مومن کا نام دیا جائے گا اور نہ اس سے مطلق ایمان کا نام چھینا جائے گا۔
اور آخرت میں اس کا انجام اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہوگا، اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس کو عذاب دے کر پھر جنت میں داخل کرے گا، اور اگر ابتدا ہی میں چاہے گا تو جنت میں داخل فرمائے گا، ساتھ میں یہ اعتقاد بھی رہے کہ اگر اس کو عذاب ہوگا تو وہ ہمیشہ اور ابد الآباد جہنم میں نہ رہے گا۔
اس قول سے اہل سنت والجماعت کی اسلامی فرقوں کے درمیان عادلانہ ومنصفانہ اور درمیانی رائے کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے اس شرح وبیان سے تمام وارد نصوص کتاب وسنت پر عمل کرلیا، جبکہ ان مسائل میں خوارج، معتزلہ اور مرجئہ نے ایک رخ اختیار کیا، اور ایک قسم کے نصوص کی طرف مائل ہوئے۔
خوارج اور معتزلہ نے وعید سے متعلق آیات واحادیث کو اپنایا، اور مرتکب کبیرہ پر آخرت میں ابدی جہنم کا حکم لگایا۔ اور خوارج نے ان کو دین میں دائرہ اسلام سے باہر کردیا، اور معتزلہ نے ان کو دو مرتبوں کے درمیان والے مرتبہ میں رکھا۔
اس کے برعکس مرجئہ کا مذہب ٹھہرا، جنہوں نے مرتکب کبیرہ کو مومن کامل گردانا، اور نصوص وعد کو اپنا کر نصوص وعید سے مکمل طور پر صرفِ نظر کیا۔(الفریوائی)
3937- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا "۔
* تخريج: د/الجہاد ۷۰ (۲۵۸۱)، ت/النکاح ۲۹ (۱۱۲۳)، ن/النکاح ۶۰ (۳۳۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۳۹، ۴۴۱، ۴۴۳، ۴۴۵) (صحیح)
۳۹۳۷- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو لوٹ ما ر کر ے وہ ہم میں سے نہیں ہے ''۔
3938- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: أَصَبْنَا غَنَمًا لِلْعَدُوِّ، فَانْتَهَبْنَاهَا، فَنَصَبْنَا قُدُورَنَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِالْقُدُورِ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ النُّهْبَةَ لا تَحِلُّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۷۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۹) (صحیح)
۳۹۳۸- ثعلبہ بن حکم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں دشمن کی کچھ بکریاں ملیں تو ہم نے انہیں لو ٹ لیا، اور انہیں ذبح کرکے ہانڈیوں میں چڑ ھا دیا، پھر نبی اکرم ﷺ کا گز ر ان ہا نڈیوں کے پاس ہو ا، تو آپ ﷺ نے حکم دیاکہ وہ الٹ دی جائیں، چنانچہ وہ ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:'' لو ٹ ما ر حلال نہیں ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حکم عام ہے ہر ایک لوٹ کو شامل ہے معلوم ہوا دین اسلام میں کوئی لوٹ جائز نہیں، اور تہذیب کے بھی خلاف ہے ، لوٹ میں کبھی کسی مسلمان کو ایذا و تکلیف پہنچتی ہے اس لئے بانٹ دینا بہتر ہے ۔