• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب النَّهْيِ عَنِ النُّهْبَةِ
۳-باب: لوٹ مار سے مما نعت کا بیان​


3935- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً مَشْهُورَةً، فَلَيْسَ مِنَّا "۔
* تخريج: (یہ حدیث مکر ر ہے ، دیکھئے : ۲۵۹۱)، (تحفۃ الأشراف:۲۸۰۰) (ضعیف) لتدلیس ابن جریج وأبی الزبیر۔
۳۹۳۵- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو علی الاعلان اور کھلم کھلا طور پر لو ٹ ما ر کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے''۔


3936- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " لايَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلايَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ "۔
* تخريج: خ/المظالم ۳۰ (۲۷۷۵)، الأشربۃ ۱ (۵۵۷۸)، الحدود ۱ (۶۷۷۲)، م/الإیمان ۲۴ (۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۳)، وقد أخرجہ: د/السنۃ ۱۶ (۴۶۸۹)، ت/الإیمان ۱۱ (۲۶۲۵)، ن/قطع السارق ۱ (۴۸۷۴)، الأشربۃ ۴۲ (۵۶۶۲، ۵۶۶۳)، حم (۲/۲۴۳، ۳۱۷، ۳۷۶، ۳۸۶، ۳۸۹)، دي/الأضاحي ۲۳ (۲۰۳۷)، الأشربۃ ۱۱ (۲۱۵۲) (صحیح)
۳۹۳۶- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب زانی زنا کر تا ہے تو اس وقت وہ مو من نہیں ہو تا، اور جب شرابی شراب پیتا ہے تو اس وقت وہ مو من نہیں ہو تا، اور جب چور چوری کرتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا، جب لوٹ ما ر کر نے والا لو گوں کی نظروں کے سامنے لوٹ ما ر کر تا ہے تو اس وقت وہ مو من نہیں ہو تا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دنیاوی احکام سے متعلق احادیث جن میں بعض کبائر کے ارتکاب کرنے والے پر کفر کا اطلاق ہے، یا اس سے ایمان کی نفی ہے، ان احادیث کو اس کے کفر پر محمول کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ مرتکب کبیرہ کے کافر نہ ہونے پر اجماع ہے، بشرطیکہ وہ کام شرک نہ ہو، یا وہ اس کو حلال نہ قرار دینے والا ہو۔اس لئے کہ ان کلمات سے مراد کفر اصغر ہے، جس کو بعض سلف صالحین نے "كفر دون كفر" (کفر سے چھوٹا کفر) کہا ہے، اس باب میں ضابطہ یہ ہے کہ نصوص شرعیہ میں کسی کام پر کفر کے اطلاق کا مطلب کفر اصغر ہوگا، الا یہ کہ اس سے دائرہ اسلام سے نکال دینے والا کفر دلائل کی روشنی میں ثابت ہو۔اور وہ احادیث جن میں مرتکب کبیرہ کے ایمان کی نفی آئی ہے، تو وہاں واجب ایمان کامل کی نفی مقصود ہے، مطلق ایمان اور مستحب ایمان کے کمال کی نفی مقصود نہیں۔اسی طرح سے اصحاب کبائر سے براء ت کی احادیث کا معنی یہ ہوگا کہ وہ ایسے ضروری اور واجبی یعنی کامل ومکمل ایمان والے مومن نہیں ہیں جو بلا سزا وعقاب کے مستحق اجر وثواب ہوں۔
کفر سے متعلق نصوص کی اس تاویل وتوضیح کی بنیاد اہل سنت والجماعت کے اس عظیم اصل اور قاعدہ پر ہے کہ ایک آدمی میں کفر وایمان اور نفاق وایمان کا اجتماع ممکن ہے، ان کے یہاں کفر سے دائرہ اسلام سے نکالنے والا کفر مراد نہیں ہے کہ جس کے ساتھ ایمان کا اجتماع نہیں ہوسکتا، بلکہ ان کی مراد کفر کے شعبوں میں سے ایک شعبہ اور شاخ ہے کہ معاصی (گناہ) سب کے سب کفر کے شعبے ہیں، جیسے اطاعت وفرمانبرداری اعمال وافعال والی ایمان کی شاخیں ہیں۔ایسے ہی ان کے نزدیک نفاق سے مراد عملی نفاق ہے، دائرۂ اسلام سے خارج کردینے والا اعتقادی کفر مراد نہیں ہے۔
امام ابن القیم فرماتے ہیں : آدمی کے یہاں کفر وایمان، شرک اور توحید، تقوی اور فجور، نفاق اور ایمان ایک ساتھ اکٹھا ہوسکتے ہیں، یہ اہل سنت کا بڑا عظیم اصول ہے، ان کی مخالفت خوارج، معتزلہ اور قدریہ جیسے مخالفین اہل بدعت نے کی ہے، گناہِ کبیرہ کے مرتکب جہنمیوں کا جہنم سے نکلنا، اور ان کا اس میں ہمیشہ ہمیش نہ رہنا ،اسی اصل پر مبنی ہے، اس پر کتاب وسنت اور فطرت کے دلائل، اور صحابہ کا اجماع ہے۔
اس لئے اگر کسی شخص نے کفر کے شعبوں میں سے کسی شعبہ کا ارتکاب کیا، تو اس سے ایمان مطلق کی نفی ہوئی، لیکن وہ اسلام کے وصف سے متصف ہوگا، اس لئے کہ ہر مومن مسلمان ہے، اور ہر مسلمان مومن نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ حدیث رسول: "لا يزني الزاني حين يزني وهو مومن" کے سلسلہ میں بعض سلف نے فرمایا کہ یہ اسلام ہے، اور ایک وسیع دائرہ بنایا، اور کہا یہ ایمان ہے، اور بڑے دائرے کے درمیان ایک چھوٹا دائرہ بنایا، اور عرض کیا: تو جب آدمی نے زنا کیا یا چوری کی، تو دائرہ ایمان سے نکل کر دائرہ اسلام میں آگیا، اور یہ اس کو اسلام سے باہر نہیں کرے گا، الا یہ کہ وہ اللہ کا انکار کردے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انسان کے یہاں کبھی ایمان کا کوئی شعبہ ہوتا ہے، اور کبھی نفاق کا کوئی شعبہ، اور کبھی وہ مسلمان ہوتا ہے، اور اس میں مکمل طور پر اسلام سے باہر کردینے والے کفر سے چھوٹا کفر ہوتا ہے ،جیسا کہ صحابہ کرام میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے فرمایا: "كفر دون كفر" کفر سے کمتر کفر، اور یہی عام سلف کا قول ہے جس کی تنصیص امام احمد وغیرہ نے فرمائی ہے، جنہوں نے چور اور شرابی وغیرہ کے بارے میں جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "ليس بمؤمن" (وہ مومن نہیں ہے ) کہا کہ وہ مسلمان ہیں مومن نہیں، انہوں نے ایمان کی نفی اور اسلام کے ثبوت پر کتاب وسنت سے دلائل پیش کئے ہیں، اور یہ کہ آدمی کبھی مسلمان ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایسا کفر ہوتا ہے جو دائرہ ملت سے باہر کرنے والا نہیں ہوتا ، بلکہ یہ کفر اکبر سے چھوٹا کفر ہوتا ہے''۔
خلاصہ یہ کہ ایمان کے دو درجے ہوئے، ایک اسلام جو اصل دین ہے اور دوسرا ایمان خالص، پہلے درجہ (اسلام) کی نفی میں دوسرے درجہ کی نفی شامل ہے، لیکن دوسرے درجہ (ایمان) کی نفی میں پہلے درجہ (یعنی اسلام) کی نفی شامل نہیں ہے۔
ایسے ہی کفر کے دو درجے ہیں: دائرۂ ملت سے خارج کردینے والا کفر، جو ایمان کے مقابلہ میں ہے جو حقیقت میں دائرہ اسلام ہے، اور دوسرا درجہ دائرہ ملت سے نہ نکالنے والا کفر اس کے مقابلہ میں وہ واجب ایمان ہے جو حقیقی اسلام کے درجہ سے زائد ہے۔اس لئے صفت کفر کے اطلاق سے لازم نہیں ہوتا کہ وہ دائرہ ملت سے خارج کردینے والا کفر ہو، بلکہ اس سے کفر اصغر مراد ہے، بلکہ کبھی واجبی ایمان کی نفی مراد ہوتی ہے، جس میں اسلام کا وصف باقی رہتا ہے۔
خلاصۂ مبحث یہ ہے کہ آخرت سے متعلق وارد وعدہ اوروعید والی احادیث میں صحیح بات یہی ہے کہ ان احادیث کو ویسے ہی بیان کیا جائے گا جیسے وہ آئی ہیں، اور اس کے بارے میں یہ اعتقاد ہوگا کہ یہ اعمال وعدہ یا وعید کے ثابت ہونے کا سبب ہیں، لیکن کسی متعین آدمی پر یہ وعدے اور وعید چسپاں نہیں ہوں گے حتی کہ اس سے متعلق شروط وقیود پائی جائیں، اور اس سے متعلق رکاوٹیں جاتی رہیں۔
امام ابن ابی العز حنفی شارح العقیدہ الطحاویہ فرماتے ہیں:
لیکن ہم متعین شخص کے بارے میں توقف کریں گے، اور اس کے جنت میں جانے یا جہنم میں جانے کی گواہی علم کے بغیر نہیں دیں گے، اس لئے کہ اس کے باطن کی حقیقت اور جس چیز پر اس کی موت ہوئی ہے، کا ادراک واحاطہ ہم کو نہیں ہے، لیکن ہم محسن کے لئے امید رکھتے ہیں، اور گنہگار کے بارے میں خوف رکھتے ہیں۔
امام ابن عبدالبر احادیث وعید کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ اس باب میں بہت زیادہ آثار ہیں جن کا احاطہ کتاب میں ممکن نہیں، نرمی والی احادیث امید پیدا کرتی ہیں اور سختی والی احادیث ڈراتی ہیں، اور مومن کا ایمان خوف ورجاء (امید اور ڈر) کے درمیان ہے۔ گنہگار اگر توبہ نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے۔
رہ گیا ملی فاسق کا مسئلہ جس کے ارد گرد یہ ساری احادیث گھومتی ہیں ،تو اس کا دنیا میں حکم یہ ہے کہ اس سے مطلق ایمان کی نفی نہ کی جائے گی، اور نہ ہی وہ ایمان کامل سے موصوف ہوگا، لیکن اس کو ناقص الایمان مومن کہا جائے گا، یا اپنے ایمان کی وجہ سے وہ مومن ہے، اور کبائر کی وجہ سے فاسق ہے، تو اس کو نہ تو مطلق مومن کا نام دیا جائے گا اور نہ اس سے مطلق ایمان کا نام چھینا جائے گا۔
اور آخرت میں اس کا انجام اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہوگا، اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس کو عذاب دے کر پھر جنت میں داخل کرے گا، اور اگر ابتدا ہی میں چاہے گا تو جنت میں داخل فرمائے گا، ساتھ میں یہ اعتقاد بھی رہے کہ اگر اس کو عذاب ہوگا تو وہ ہمیشہ اور ابد الآباد جہنم میں نہ رہے گا۔
اس قول سے اہل سنت والجماعت کی اسلامی فرقوں کے درمیان عادلانہ ومنصفانہ اور درمیانی رائے کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے اس شرح وبیان سے تمام وارد نصوص کتاب وسنت پر عمل کرلیا، جبکہ ان مسائل میں خوارج، معتزلہ اور مرجئہ نے ایک رخ اختیار کیا، اور ایک قسم کے نصوص کی طرف مائل ہوئے۔
خوارج اور معتزلہ نے وعید سے متعلق آیات واحادیث کو اپنایا، اور مرتکب کبیرہ پر آخرت میں ابدی جہنم کا حکم لگایا۔ اور خوارج نے ان کو دین میں دائرہ اسلام سے باہر کردیا، اور معتزلہ نے ان کو دو مرتبوں کے درمیان والے مرتبہ میں رکھا۔
اس کے برعکس مرجئہ کا مذہب ٹھہرا، جنہوں نے مرتکب کبیرہ کو مومن کامل گردانا، اور نصوص وعد کو اپنا کر نصوص وعید سے مکمل طور پر صرفِ نظر کیا۔(الفریوائی)


3937- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا "۔
* تخريج: د/الجہاد ۷۰ (۲۵۸۱)، ت/النکاح ۲۹ (۱۱۲۳)، ن/النکاح ۶۰ (۳۳۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۳۹، ۴۴۱، ۴۴۳، ۴۴۵) (صحیح)
۳۹۳۷- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو لوٹ ما ر کر ے وہ ہم میں سے نہیں ہے ''۔


3938- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: أَصَبْنَا غَنَمًا لِلْعَدُوِّ، فَانْتَهَبْنَاهَا، فَنَصَبْنَا قُدُورَنَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِالْقُدُورِ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ النُّهْبَةَ لا تَحِلُّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۷۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۹) (صحیح)
۳۹۳۸- ثعلبہ بن حکم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں دشمن کی کچھ بکریاں ملیں تو ہم نے انہیں لو ٹ لیا، اور انہیں ذبح کرکے ہانڈیوں میں چڑ ھا دیا، پھر نبی اکرم ﷺ کا گز ر ان ہا نڈیوں کے پاس ہو ا، تو آپ ﷺ نے حکم دیاکہ وہ الٹ دی جائیں، چنانچہ وہ ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:'' لو ٹ ما ر حلال نہیں ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حکم عام ہے ہر ایک لوٹ کو شامل ہے معلوم ہوا دین اسلام میں کوئی لوٹ جائز نہیں، اور تہذیب کے بھی خلاف ہے ، لوٹ میں کبھی کسی مسلمان کو ایذا و تکلیف پہنچتی ہے اس لئے بانٹ دینا بہتر ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- بَاب سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ
۴-باب: مسلمان کو گا لی دینا فسق اور اس سے لڑ نا کفر ہے​


3939- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ "۔
* تخريج: (یہ حدیث مکرر ہے ، دیکھئے: ۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴۳، ۹۲۵۱، ۹۲۹۹) (صحیح)
۳۹۳۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مسلمان کو گا لی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں کفرسے مرادکفرحقیقی نہیں جوانسان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتاہے بلکہ کفرلغوی مرادہے۔


3940- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الأَسْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلالٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۰۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۰) (حسن صحیح)
( سند میں ابوہلال الراسبی اور محمد بن الحسن ہیں، اس لئے یہ حسن ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۳۹۴۰- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' مسلمان کو گا لی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑناکفر ہے''۔


3941- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ،وَقِتَالُهُ كُفْرٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۲۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷۸) (صحیح)
۳۹۴۱- سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مسلمان کو گا لی دینا فسق ، اور اس سے لڑناکفر ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب لا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ
۵-باب: تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو​


3942- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعْبَدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " اسْتَنْصِتِ النَّاسَ"، فَقَالَ: " لاتَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا،يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ "۔
* تخريج: خ/العلم ۴۳ (۱۲۱)، والمغازي ۷۷ (۴۴۰۵)، الدیات ۲ (۶۸۶۹)، الفتن ۸ (۷۰۸۰)، م/الإیمان ۲۹ (۶۵)، ن/تحریم الدم ۲۵ (۴۱۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۸، ۳۶۳، ۳۶۶)، دي/ المناسک ۷۶ (۱۹۶۲) (صحیح)
۳۹۴۲- جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا:'' لو گوں کو خاموش کرو'' پھر فرمایا: ''تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے''۔


3943- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " وَيْحَكُمْ! أَوْ (وَيْلَكُمْ!) لاتَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ "۔
* تخريج: خ/المغازي ۷۷ (۴۴۰۲، ۴۴۰۳)، الأدب ۹۵ (۶۱۶۶)، الحدود ۹ (۶۷۸۵)، الدیات ۲ (۶۸۶۸)، الفتن ۸ (۷۰۷۷)، م/الإیمان ۲۹ (۶۶)، د/السنۃ ۱۶ (۴۶۸۶)، ن/تحریم الدم ۲۵ (۴۱۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸۵، ۸۷، ۱۰۴) (صحیح)
۳۹۴۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تم پر افسوس ہے! یا (تمہارے لئے خرابی ہو!) تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے '' ۔


3944- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، عَنِ الصُّنَابِحِ الأَحْمَسِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَلا إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ، فَلا تَقَتِّلُنَّ بَعْدِي "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۵۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۴۹) (صحیح)
۳۹۴۴- صنا بح احمسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''سنو! میں حو ض کو ثر پر تمہا را پیش رو ہو ں گا، اور تمہاری کثرت (تعداد) کی وجہ سے میں دوسری امتوں پر فخر کروں گا،تو تم میرے بعد آپس میں ایک دوسرے کو قتل مت کرنا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : تاکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھے اور ان کی نسل زیادہ ہو لیکن مسلمانوں نے اس قیمتی نصیحت پر بہت تھوڑے دن عمل کیا، اور تیسرے خلیفہ کے اخیر زمانہ ہی میں آپس میں لڑائی کا دروازہ کھول دیا، اور آج تک آپس میں لڑتے جاتے ہیں یہاں تک کہ نصاریٰ اور دوسرے کافر مسلمانوں پر ہنستے ہیں، لیکن ان کو غیرت نہیں آتی ، نبی اکرم ﷺ سے نہیں شرماتے معلوم نہیں قیامت میں نبی اکرم ﷺ کے پاس حوض کوثر پر کون سا منہ لے کے جائیں گے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب الْمُسْلِمُونَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۶-باب: مسلمان اللہ تعالی کے حفظ و امان میں ہیں​


3945- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ، عَنْ عَبْدِالْوَاحِدِ بْنِ أَبِي عَوْنٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حَابِسٍ الْيَمَانِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ، فَلا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي عَهْدِهِ، فَمَنْ قَتَلَهُ طَلَبَهُ اللَّهُ حَتَّى يَكُبَّهُ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۹۱)، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۰) (صحیح)
(سند میں سعدبن ابراہیم اور حابس کے درمیان انقطاع ہے، لیکن طبرانی نے صحیح سند سے روایت کی ہے، اس لئے یہ صحیح ہے)
۳۹۴۵- ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جس نے صلاۃ فجر پڑ ھی وہ اللہ تعالی کے حفظ و امان یعنی پنا ہ میں ہے ،اب تمہیں چا ہئے کہ تم اللہ کے ذمہ وعہدکو نہ تو ڑو، پھر جو ایسے شخص کو قتل کر ے گا، اللہ تعالی اسے بلا کر جہنم میں اوندھا منہ ڈالے گا'' ۔


3946- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۷۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۰) (ضعیف)
(حسن بصری نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے صرف حدیث عقیقہ سنی ہے، اس لئے اس سند میں انقطاع ہے)
۳۹۴۶- سمر ہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس نے صلاۃِ فجر پڑھی وہ اللہ تعالی کی امان (پناہ ) میں ہے'' ۔


3947- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُوالْمُهَزِّمِ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْمُؤْمِنُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلّ مِنْ بَعْضِ مَلائِكَتِهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۳۶)، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۵) (ضعیف)
(سندمیں ابو المہزم یزید ین سفیان ضعیف ہے)
۳۹۴۷- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''مومن اللہ عزوجل کے نزدیک اس کے بعض فرشتوں سے زیادہ معززومحترم ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب الْعَصَبِيَّةِ
۷-باب: عصبیت کا بیان​


3948- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ غَيْلانَ ابْنِ جَرِيرٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ رِيَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ، يَدْعُو إِلَى عَصَبِيَّةٍ، أَوْ يَغْضَبُ لِعَصَبِيَّةٍ، فَقِتْلَتُهُ جَاهِلِيَّةٌ "۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۱۳ (۱۸۴۸)، ن/تحریم الدم ۲۴ (۴۱۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۶، ۳۰۶، ۴۸۸) (صحیح)
۳۹۴۸- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے لڑے ،عصبیت کی دعوت دے، اور عصبیت کے سبب غضب ناک ہو ، اس کی مو ت جا ہلیت کی مو ت ہو گی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جاہلیت کے زمانے میں ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے نفسانیت اور تعصب کے جذبے سے لڑتا اور فخرو غرور اورتکبر اس کو قتل وقتال پر آمادہ کرتے ، اور اپنے قبیلہ کی ناموری اور عزت کے لئے جان دیتا اور جان لیتا ،پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کے زمانہ میں جو شرعی سبب کے بغیر لڑائی کرے ا س کاحکم بھی جاہلیت کا سا ہے، یعنی اس لڑائی میں کچھ ثواب نہیں بلکہ عذاب ہوگا، اور گمراہی کے جھنڈے کا یہی مطلب ہے کہ نہ شرع کے مطابق امام ہو، نہ شرع کے اصول وضوابط کے لحاظ سے جہاد ہو، بلکہ یوں اپنی قوم کافخر قائم رکھنے کے لئے کوئی لڑے اور مارا جائے تو ایسے لڑنے والے کو کچھ ثواب نہیں ،سبحان اللہ، دین اسلام سے بڑھ کر اور کوئی دین کیسے اچھا ہو سکتا ہے ، ہر آدمی کو اپنی قوم عزیز ہوتی ہے ،لیکن اسلام میں یہ حکم ہے کہ اپنے قوم کی مدد بھی وہیں تک کرسکتا ہے،جب تک کہ وہ ظالم نہ ہو، اور انصاف اور شرع کے مطابق کا رروائی کرے ، لیکن جب قوم ظالم ہو اورانسانوں پر ظلم وزیادتی کرے ، تو ایسی قوم سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلے ، ایمان کا یہی تقاضا ہے ، اورجو لوگ عادل ومنصف اورمتبع شرع ہوں ان کا ساتھ دے ، اور انہی کو اپنی قوم اورجماعت سمجھے ۔


3949- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ الْيُحْمِدِيُّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ الشَّامِيِّ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهَا: فُسَيْلَةُ، قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ؟ قَالَ: " لا، وَلَكِنْ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُعِينَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۵۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۶)، وقد أخرجہ: د/الأدب ۱۲۱ (۵۱۱۹)مختصراً (ضعیف)
(سند میں عباد بن کثیر اور فسیلہ ضعیف ہیں)
۳۹۴۹- فسیلہ نامی ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پو چھا: اے اللہ کے رسول! کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''نہیں، بلکہ ظلم پر قوم کی مدد کرنا عصبیت ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب السَّوَادِ الأَعْظَمِ
۸-باب: سوادِ اعظم(بڑی جماعت کے ساتھ رہنے ) کا بیان​


3950- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ السَّلامِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الأَعْمَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّ أُمَّتِي لاتَجْتَمِعُ عَلَى ضَلالَةٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الأَعْظَمِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۷) (ضعیف جدا)
(ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے)
۳۹۵۰- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا :'' میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلا ف دیکھو تو سوا داعظم ( یعنی بڑی جما عت)کو لا زم پکڑو '' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہاں پر سواد اعظم کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالنی مناسب ہے کہ زیر نظر حدیث میں اختلاف کے وقت سواد اعظم سے جڑنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ حدیث کا یہ ٹکڑا ابوخلف الاعمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے ، اگراس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد حق پر چلنے والی جماعت ہی ہوگی ، نبی اکرم ﷺ کی جب بعثت ہوئی تو آپ کی دعوت کو قبول کر نے والے اقلیت ہی میں تھے ، اوروہ حق پر تھے ، اورحق ان کے ساتھ تھا ، یہی حال تمام انبیاء ورسل اوران کے متبعین کا رہا ہے کہ وہ وحی کی ہدایت پر چل کر کے اہل حق ہوئے اور ان کے مقابلے میں باطل کی تعداد زیادہ رہی ، خلاصہ یہ کہ صحابہ تابعین ،تبع تابعین اورسلف صالحین کے طریقے پر چلنے والے اوران کی پیروی کرنے والے ہی سواد اعظم ہیں ، چاہے ان کی جماعت قلیل ہو یا کثیر ،قلت اورکثرت سے ان کا حق متاثر نہیں ہوگا ، اوراہل حق کا یہ گروہ قلت اورکثرت سے قطع نظر ہمیشہ تاقیامت موجود ہوگا ، اورحق پر نہ چلنے والوں کی اقلیت یا اکثریت اس کو نقصان نہ پہنچاسکے گی ،ان شاء اللہ العزیز۔
اس ضعیف ترین حدیث کے آخری فقرہ : ''فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الأَعْظَمِ ''کودلیل بناکرملت اسلامیہ کے جاہل لوگ اوردین سے کوسوں دوروالی اکثریت پرفخرکرنے والوں کوصحیح احادیث کی پرکھ کا ذوق ہی نہیں ، اسی لیے وہ بے چارے اس آیت کریمہ : {مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ} [سورة الروم:32 ]کے مصداق ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پھوٹ ڈالی (قرآن وسنت والے اصلی اورفطری دین کوچھوڑکراپنے الگ الگ دین بنالیے اوروہ خودکئی گروہ میں بٹ گئے، اورپھرہرگروہ اپنے جھوٹے اعتقاد پر خوش ہے ، پھولا نہیں سماتا، حقیقت میں یہ لوگ اسی آیت کریمہ کی تفسیردکھائی دیتے ہیں،جب کہ قرآن کہہ رہا ہے :{وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ} [سورة الأنعام:116] ( اے نبی!آپ اگران لوگوں کے کہنے پرچلیں جن کی دنیامیں اکثریت ہے (سواداعظم والے )تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکادیں گے ، یہ لوگ صرف اپنے خیالات پرچلتے ہیں، اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں) پھراس سواداعظم والی منکراورسخت ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیحین میں موجودمعاویہ رضی اللہ عنہ والی حدیث قیامت تک کے لیے کس قدر عظیم سچ ہے کہ جس کا انکارکوئی بھی صاحبِ عقل وعدل مومن عالم نہیں کرسکتا،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' لايزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لايضرهم من كذبهم ولا من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك'' (صحیح البخاری ، کتاب التوحیدحدیث نمبر۷۴۶۰) (میری امت کا ایک گروہ برابراورہمیشہ اللہ کے حکم -قرآن وحدیث -پرقائم رہے گا ، کوئی ان کو جھٹلائے اوران کی مددسے دوررہے ، اوران کے خلاف کرے ، ان کا کچھ نقصان نہ ہوگا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت )آپہنچے اوروہ اسی( قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والی ) حالت میں ہوں گے ، صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں: '' لاتزال طائفة من أمتي قائمة بأمر الله، لايضرهم من خذلهم أو خالفهم، حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون على الناس '' (کتاب الإمارۃ)یہاں اس روایت میں امت کی جگہ طائفہ کا کلمہ آیا ہے ، اورطائفہ امت سے کم کی تعدادظاہرکرتاہے (بلکہ دوسری روایات میں عصابہ کا لفظ آیا ہے ، جس سے مزید تعداد کی کمی کا پتہ چلتاہے)یعنی کسی زمانہ میں ان اہل حق ،کتاب وسنت پر عمل کرنے والوں کی تعداد ایک امت کے برابرہوگی، کسی دورمیں کسی جگہ طائفہ کے برابراورکسی زمانہ میں عصابہ کے برابر۔
اوریہ کہ ''وهم ظاهرون على الناس...''اوروہ لوگوں پر غالب رہیں گے '' سبحان اللہ ، نبی آخرالزماں ﷺ کا فرمان کس قدر حق اور سچ ہے ، اور آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل کہ آج بھی صرف قرآن وسنت پر عمل کرنے والے لوگ جو سلف صالحین اور ائمہ کرام وعلمائے امت کے اقرب إلی القرآن والسنہ ہراجتہاد ورائے کوقبول کرتے ہو ئے اس پرعمل بھی کرتے ہیں اور اُن کا احترام بھی کرتے ہیں، معاملہ امت اسلامیہ کے اندر کا ہویا باہر کا ، دین حق پر ہونے کے اعتبارسے یہ اللہ کے صالح بندے ہمیشہ سب پرغالب نظرآتے ہیں۔
امام احمدبن حنبل فرماتے ہیں: یہ گروہ اگراہل حدیث کا نہیں ہے تو میں نہیں جانتاکہ اور کون ہیں؟ مندرجہ بالاصحیح مسلم کی حدیث کی شرح میں علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں: اب اہل بدعت وضلالت کا وہ ہجوم ہے کہ اللہ کی پناہ ، پرنبی اکرم ﷺ کا فرمانا خلاف نہیں ہوسکتا، اب بھی ایک فرقہ مسلمانوں کا باقی ہے جو محمدی کے لقب سے مشہورہے ، اور اہل توحید ، اہل حدیث اورموحد یہ سب ان کے نام ہیں، یہ فرقہ قرآن اور حدیث پر قائم ہے ،اورباوجودصدہا ہزارہا فتنوں کے یہ فرقہ (گروہ اورجماعت ) بدعت وگمراہی سے اب بھی بچاہواہے ، اوراس زمانہ میں یہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا يَكُونُ مِنَ الْفِتَنِ
۹-باب: (امت محمدیہ میں) ہو نے والے فتنوں کا بیان​


3951- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ رَجَائٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا صَلاةً فَأَطَالَ فِيهَا،فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْنَا (أَوْ قَالُوا): يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَطَلْتَ الْيَوْمَ الصَّلاةَ، قَالَ: " إِنِّي صَلَّيْتُ صَلاةَ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ، سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لأُمَّتِي ثَلاثًا، فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ، وَرَدَّ عَلَيَّ وَاحِدَةً،سَأَلْتُهُ أَنْ لايُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لا يُهْلِكَهُمْ غَرَقًا، فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ، فَرَدَّهَا عَلَيَّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۴۰) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم : ۴۰۶)
۳۹۵۱- معا ذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن بہت لمبی صلاۃ پڑھا ئی، پھر جب آپ صلاۃ سے فارغ ہو ئے تو ہم نے( یا لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول !آج تو آپ نے صلاۃ بہت لمبی پڑھا ئی، آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں، آج میں نے رغبت اور خو ف والی صلاۃ ادا کی، میں نے اللہ تعالی سے اپنی امت کے لئے تین با تیں طلب کیں جن میں سے اللہ تعالی نے دو عطا فرمادیں اور ایک قبول نہ فرما ئی، میں نے اللہ تعالی سے یہ طلب کیا تھا کہ میری امت پراغیار میں سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو، تواللہ تعالی نے مجھے اسے دیا، دوسری چیز میں نے اللہ تعالی سے یہ طلب کی تھی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے ، اللہ تعالی نے اسے بھی مجھے دیا، تیسری یہ دعا کی تھی کہ میری امت آپس میں جنگ و جدال نہ کرے، تو اللہ تعالی نے میری یہ دعا قبول نہ فرمائی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ایسا ہی ہوا کہ امت محمدیہ میں آج تک آپس کی لڑائیاں قائم ہیں ، جہاں تک کہ مسلمان اس زمانے میں پھوٹ اور نا اتفاقی میں ضرب المثل بنے ہوئے ہیں۔


3952- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ الْجَرْمِيِّ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي أَسْمَائَ الرَّحَبِيِّ،عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " زُوِيَتْ لِيَ الأَرْضُ حَتَّى رَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا،وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ: الأَصْفَرَ (أَوِ الأَحْمَرَ) وَالأَبْيَضَ (يَعْنِي: الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ) وَقِيلَ لِي: إِنَّ مُلْكَكَ إِلَى حَيْثُ زُوِيَ لَكَ، وَإِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثًا، أَنْ لايُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِي جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ بِهِ عَامَّةً، وَأَنْ لايَلْبِسَهُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ، وَإِنَّهُ قِيلَ لِي: إِذَا قَضَيْتُ قَضَائً، فَلا مَرَدَّ لَهُ، وَإِنِّي لَنْ أُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِكَ جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ فِيهِ، وَلَنْ أَجْمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يُفْنِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَيَقْتُلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي، فَلَنْ يُرْفَعَ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ مِمَّا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي أَئِمَّةً مُضِلِّينَ، وَسَتَعْبُدُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الأَوْثَانَ، وَسَتَلْحَقُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَإِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ دَجَّالِينَ كَذَّابِينَ، قَرِيبًا مِنْ ثَلاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَلَنْ تَزَالَ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورِينَ، لا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: لَمَّا فَرَغَ أَبُو عَبْدِاللَّهِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ،قَالَ: مَا أَهْوَلَهُ !!۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۵۳ (۱۹۲۰)، الفتن ۵ (۲۸۸۹) إلی قولہ: ''بعضھم بعضاً'' مع فقرۃ الطائفۃ المنصورۃ، د/الفتن ۱ (۴۲۵۲)، ت/الفتن ۱۴ (۲۱۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۷۸، ۲۸۴)، دي/المقدمۃ ۲۲ (۲۰۵) (صحیح)
۳۹۵۲- رسول اللہ ﷺ کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرے لئے زمین سمیٹ دی گئی حتی کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا ،پھر اس کے دونوں خز انے زرد یا سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چا ندی بھی) مجھے دئیے گئے ۱ ؎ اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہا ری ( امت کی) حکو مت وہاں تک ہو گی جہاں تک زمین تمہا رے لئے سمیٹی گئی ہے، اور میں نے اللہ تعالی سے تین باتوں کا سوال کیا:پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کرپوری کی پوری ہلا ک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر، تیسری یہ کہ آپس میں ایک کو دوسرے سے نہ لڑا، تو مجھ سے کہا گیا کہ میں جب کو ئی حکم نا فذ کر دیتا ہوں تو وہ واپس نہیں ہو سکتا ،بیشک میں تمہا ری امت کو قحط سے ہلا ک نہ کروں گا، اور میں زمین کے تمام کنا روں سے سارے مخالفین کو ( ایک وقت میں) ان پر جمع نہ کروں گا جب تک کہ وہ خود آپس میں اختلاف و لڑا ئی اور ایک دوسرے کومٹانے اور قتل نہ کرنے لگیں ، لیکن جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو وہ قیامت تک نہ رکے گی، مجھے اپنی امت پر سب سے زیا دہ خو ف گمراہ سربراہوں کا ہے، عنقریب میری امت کے بعض قبائل بتوں کی پر ستش کر یں گے، اور عنقریب میری امت کے بعض قبیلے مشرکوں سے مل جا ئیں گے، اور قیا مت کے قریب تقریبا تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا دعوی یہ ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اور ہمیشہ ان کی مدد ہو تی رہے گی، اور جو کو ئی ان کا مخالف ہو گا وہ ان کو کو ئی ضررو نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم آجا ئے ۲ ؎ ۔
ابو الحسن ابن القطان کہتے ہیں: جب ابو عبداللہ ( یعنی امام ابن ما جہ) اس حدیث کو بیان کر کے فا رغ ہو ئے تو فرمایا: یہ حدیث کتنی ہولناک ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے روم وایران کے خزانے مرادہیں۔
وضاحت ۲ ؎ : یعنی قیامت قائم ہو، اس حدیث میں آپ ﷺ کا کھلا معجزہ ہے ،آپ نے فرمایا :''مجھ کو زمین کے پورب اور پچھم دکھلائے گئے'' اور ایسا ہی ہوا کہ اسلام پورب یعنی ترکستان اور تاتا رکی ولایت سے لے کر پچھم یعنی اندلس اوربربر تک جا پہنچا لیکن اتری اوردکھنی علاقو ں میں اسلام کا رواج نہیں ہوا ۔


3953- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ حَبِيبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ أَنَّهَا قَالَتِ: اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ نَوْمِهِ،وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ، وَهُوَ يَقُولُ: " لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِاقْتَرَبَ، فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ "،وَعَقَدَ بِيَدَيْهِ عَشَرَةً، قَالَتْ زَيْنَبُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ: " إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ "۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۶ (۳۳۴۶)، م/الفتن ۱ (۲۸۸۰)، ت/الفتن ۲۳ (۲۱۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۲۸، ۴۳۹) (صحیح)
۳۹۵۳- ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نیند سے بیدا ر ہو ئے تو آپ کا مبارک چہرہ سرخ تھا، اور آپ فرما رہے تھے : ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ'' عرب کے لئے تبا ہی ہے اس فتنے سے جو قریب آگیا ہے ، آج یاجوج وماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے، آپ ﷺ نے ہا تھ کی انگلیوں سے دس کی گرہ بنائی'' ۱؎ ، زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول !کیا ہم ہلا ک ہو جا ئیں گے؟ حالا نکہ ہم میں اچھے لو گ بھی مو جو د ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں، جب معصیت (برائی) عام ہو جا ئے گی'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دس کی گرہ یہ ہے کہ شہادت کی انگلی کے سرے کو انگوٹھے کے پہلے موڑپر رکھ کردائرہ بنایا جائے ۔
وضاحت ۲ ؎ : تو نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی عذاب آئے گا، یا جو ج اور ماجوج دو قومیں ہیں ، جو قیامت کے قریب نکلیں گی ۔


3954- حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي السَّائِبِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " سَتَكُونُ فِتَنٌ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا،وَيُمْسِي كَافِرًا، إِلا مَنْ أَحْيَاهُ اللَّهُ بِالْعِلْمِ "۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۱۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۹)، وقد أخرجہ: دي/المقدمۃ ۳۲ (۳۵۰) (ضعیف جداً)
(سند میں علی بن یزید منکرالحدیث اور متروک ہے، علم کے جملہ کے بغیر اصل متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفہ: ۳۶۹۶)
۳۹۵۴- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عنقریب کئی فتنے ظاہر ہو ں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہو گا، اور شام کو کا فر ہو جا ئے گا مگر جسے اللہ تعالی علم کے ذریعہ زندہ رکھے'' ۔


3955- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَأَبِي، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الْفِتْنَةِ؟ قَالَ حُذَيْفَةُ: فَقُلْتُ: أَنَا، قَالَ: إِنَّكَ لَجَرِيئٌ، قَالَ: كَيْفَ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ "، فَقَالَ عُمَرُ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، إِنَّمَا أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا؟ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: فَيُكْسَرُ الْبَابُ أَوْ يُفْتَحُ؟ قَالَ: لا، بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ: ذَاكَ أَجْدَرُ أَنْ لايُغْلَقَ، قُلْنَا لِحُذَيْفَةَ: أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ؟ قَالَ نَعَمْ،كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ، إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالأَغَالِيطِ، فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ: مَنِ الْبَابُ؟ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ: سَلْهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: عُمَرُ ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۴ (۵۲۵)، م/الإیمان ۶۵ (۱۴۴)، ت/الفتن ۷۱ (۲۲۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۰۱) (صحیح)
۳۹۵۵- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث یا د ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :مجھ کو یا د ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے جری اور نڈر ہو،پھربولے:وہ(حدیث)کیسے ہے؟تو انہوں نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : ''آدمی کے لئے جو فتنہ اس کے اہل وعیا ل، اولاداور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے صلاۃ، صوم، صدقہ، امر با لمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، ( یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری یہ مراد نہیں ہے، بلکہ میری مراد وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موج کی طرح امنڈآئے گا، انہوں نے کہا: امیرالمومنین !آپ کو اس فتنے سے کیاسروکار، آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ ہے، تو انہوں نے پوچھا: کیا وہ دروازہ توڑا جائے گا یاکھولا جا ئے گا، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا:نہیں ؛ بلکہ وہ تو ڑ دیا جا ئے گا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر وہ کبھی بند ہو نے کے قابل نہ رہے گا ۱؎ ۔
ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا عمر رضی اللہ عنہ جا نتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ جو اب دیا: ہاں،وہ ایسے ہی جانتے تھے جیسے یہ جانتے ہیں کہ کل سے پہلے رات ہے، میں نے ان سے ایک ایسی حدیث بیان کی تھی جس میں کوئی دھوکا جھو ٹ اور مغا لطہ نہ تھا، پھر ہمیں خو ف محسوس ہو ا کہ ہم حذ یفہ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کریں کہ اس دروازے سے کو ن شخص مراد ہے؟ پھر ہم نے مسروق سے کہا: تم ان سے پوچھو، انہوں نے پوچھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: و ہ دروازہ خو د عمر رضی اللہ عنہ ہیں ( جن کی ذات تما م بلائوں اور فتنوں کی روک تھی) ۔
وضاحت ۱؎ : حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھاکہ عمر رضی اللہ عنہ شہیدکردیئے جائیں گے اور آپ کی شہادت سے فتنوں کا دروازہ ایساکھلے گاکہ قیامت تک بندنہیں ہوگا، بلاشبہ ایساہی ہوا آپ کی رحلت کے بعد طرح طرح کے فتنے رونما ہوئے ۔


3956- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَائَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ،وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ، إِذْ نَادَى مُنَادِيهِ، الصَّلاةُ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعْنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَخَطَبَنَا، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَإِنَّ آخِرَهُمْ يُصِيبُهُمْ بَلائٌ، وَأُمُورٌ يُنْكِرُونَهَا، ثُمَّ تَجِيئُ فِتَنٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيئُ فِتْنَةٌ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، فَمَنْ سَرَّهُ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يَأْتُوا إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَمِينِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ، فَاضْرِبُوا عُنُقَ الآخَرِ "، قَالَ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَقُلْتُ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ! أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أُذُنَيْهِ فَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ،وَوَعَاهُ قَلْبِي۔
تخريج: م/الإمارۃ ۱۰ (۱۸۴۴)، د/الفتن ۱ (۴۲۴۸)، ن/البیعۃ ۲۵ (۴۱۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۱، ۱۹۱، ۱۹۳) (صحیح)
۳۹۵۶- عبدا لرحمن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، اور لوگ ان کے پاس جمع تھے ، تو میں نے ان کو کہتے سنا: اس دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، آپ نے ایک جگہ قیام کیا، تو ہم میں سے کوئی خیمہ لگارہاتھا ،کوئی تیر چلا رہا تھا،اور کوئی اپنے جا نور چرانے لے گیا ، اتنے میں ایک منادی نے آواز لگائی کہ لوگو ! صلاۃ کے لئے جمع ہوجاؤ، تو ہم صلاۃ کے لئے جمع ہوگئے، رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر ہمیں خطبہ دیا، اور فرمایا:'' مجھ سے پہلے جتنے بھی نبی گزرے ہیں ان پر ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی ان باتوں کی طرف رہ نمائی کریں جن کو وہ ان کے لئے بہتر جانتے ہوں، اور انہیں ان چیزوں سے ڈرائیں جن کووہ ان کے لئے بری جانتے ہوں، اور تمہاری اس امت کی سلامتی اس کے شروع حصے میں ہے، اور اس کے اخیر حصے کو بلا ومصیبت لاحق ہوگی، اور ایسے امور ہوں گے جن کو تم براجانو گے، پھر ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک کے سامنے دوسر اہلکا محسوس ہوگا،مومن کہے گا: اس فتنے میں میری تباہی ہے، پھر وہ فتنہ ختم ہوجائے گا، اور دوسرا فتنہ آئے گا ، مومن کہے گا : اس میں میری تباہی ہے پھر وہ بھی ختم ہوجائے گا،تو جسے یہ با ت پسند ہو کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جا ئے تو وہ کوشش کرے کہ اس کی موت اس حالت میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایما ن رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو اپنے لئے پسند کر تا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ کریں، اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے، اور اس کو اپنی قسم کا ہاتھ دے کر دل سے سچا عہد کرے تو اب جہاں تک ہو سکے اس کی اطا عت کرے، اگر کو ئی دوسرا امام آکر اس سے لڑنے جھگڑنے لگے( اور اپنے سے بیعت کرنے کو کہے ) تو اس دوسرے امام کی گردن ماردے'' ۔
عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ( یہ سن کر ) اپنا سر لو گوں میں سے نکال کر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آ پ نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے کا نوں کی جا نب اشارہ کر کے کہا: میرے کا نوں نے اسے سنا اور میرے دل نے اسے یا د رکھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حدیث کا یہی مطلب ہے کہ ارباب حل وعقد یعنی مسلمانوں کے تمام روساء اور عمائد ہر ملک کے اس شخص کو قبول کرلیں جس کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے، اس کے ہوتے ہوئے دوسرا امام نہیں ہو سکتا ،یہی صحیح ہے ، اور اگرمطلق بیعت مراد ہو تو بڑی خرابی لازم آئے گی ،اور مسلمان بالکل تباہ وبرباد ہوجائیں گے کیونکہ امام اور خلیفہء وقت کے مرتے ہی ہرفسادی اپنے گھر میں چندفسادیوں سے بیعت کرالے گا اور یہ دعویٰ کر ے گا کہ پہلے بیعت مجھ سے ہو چکی ہے، اب دوسرے کسی امام کا مقررہونا جائز نہیں اور لوگ ایک مصیبت میں پڑیں گے کہ جو خلافت کے لائق ہوگا تو وہ امام نہ ہو سکے گا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب التَّثَبُّتِ فِي الْفِتْنَةِ
۱۰-باب: فتنے کے وقت تحقیق کرنے اورحق پر جمے رہنے کا بیان​


3957- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ، يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً،وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ، قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ فَاخْتَلَفُوا، وَكَانُوا هَكَذَا! " (وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ) قَالُوا: كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذَا كَانَ ذَلِكَ؟ قَالَ: " تَأْخُذُونَ بِمَا تَعْرِفُونَ، وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ، وَتُقْبِلُونَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ، وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَوَامِّكُمْ "۔
* تخريج: د/الملاحم ۱۷ (۴۳۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۹۳)، وقد أخرجہ: خ/الصلاۃ ۸۸ (۴۸۰) (صحیح)
۳۹۵۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہا را اس زما نہ میں کیا حال ہو گا جو عنقریب آنے والا ہے؟ جس میں لو گ چھانے جا ئیں گے (اچھے لوگ سب مرجائیں گے) اور خراب لو گ با قی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے)، ان کے عہدوپیمان ا وراما نتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہوگا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کرکے اس طرح ہو جائیں گے'' پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھا ئیں،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !اس وقت ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھو ڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات ومسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جب عوام سے ضرر اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو توامر بالمعروف اور نہی المنکر کے ترک کی اجازت ہے۔یعنی بھلی باتوں کا حکم نہ دینے اوربری باتوں سے نہ روکنے کی اجازت ،ایسے حالات میں کہ آدمی کو دوسروں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ۔


3958- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنِ الْمُشَعَّثِ ابْنِ طَرِيفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ،عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " كَيْفَ أَنْتَ، يَا أَبَا ذَرٍّ! وَمَوْتًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى يُقَوَّمَ الْبَيْتُ بِالْوَصِيفِ؟ "، (يَعْنِي الْقَبْرَ) قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ (أَوْ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ) قَالَ: " تَصَبَّرْ " قَالَ: " كَيْفَ أَنْتَ وَجُوعًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تَأْتِيَ مَسْجِدَكَ فَلاتَسْتَطِيعَ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى فِرَاشِكَ، وَلا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَقُومَ مِنْ فِرَاشِكَ إِلَى مَسْجِدِكَ؟ " قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ (أَوْ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ)، قَالَ: " عَلَيْكَ بِالْعِفَّةِ " ثُمَّ قَالَ: " كَيْفَ أَنْتَ وَقَتْلا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تُغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ بِالدَّمِ؟ " قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ،قَالَ: "الْحَقْ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ " قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَلا آخُذُ بِسَيْفِي فَأَضْرِبَ بِهِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: " شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذًا، وَلَكِنِ ادْخُلْ بَيْتَكَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَإِنْ دُخِلَ بَيْتِي؟ قَالَ: " إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ،فَيَبُوئَ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ، فَيَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۴۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۰)، وقد أخرجہ: د/الفتن ۲ (۴۲۶۱)، بدون ذکر الجوع و العفۃ ، حم (۵/۱۴۹، ۱۶۳) (صحیح) (ملا حظہ ہو : الإرواء : ۲۴۵۱)
۳۹۵۸- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''ابو ذ ر ! اس وقت تمہا ری کیا حالت ہوگی جس وقت لوگوں پر مو ت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہو گی ۱؎ ، میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کا رسول میرے لئے پسند فرمائیں ( یا یوں کہا : اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ) آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس وقت تم صبر سے کا م لینا''، پھر فرمایا:''اس وقت تم کیا کروگے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتی کہ تم اپنی مسجد میں آئوگے، پھر تم میں اپنے بستر تک جا نے کی قوت نہ ہو گی اور نہ ہی بستر سے اٹھ کر مسجد تک آنے کی قوت ہوگی، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیا دہ جانتے ہیں،یاکہا( اللہ اور اس کا رسول جو میرے لئے پسند کرے) آپ ﷺ نے فرمایا:'' ( اس وقت ) تم اپنے اوپرپاک دامنی کو لازم کر لینا''، پھر فرمایا:'' تم اس وقت کیا کرو گے جب (مدینہ میں ) لو گوں کا قتل عام ہوگا، حتی کہ مدینہ میں ایک پتھر یلا مقام ''حِجَارَةُ الزَّيْتِ '' ۲؎ خون میں ڈوب جا ئے گا''، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول جو میرے لئے پسند فرمائیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:''تم ان لوگوں سے مل جانا جن سے تم ہو''(یعنی اپنے اہل خاندان کے ساتھ ہوجانا) ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ''اللہ کے رسول !کیا میں اپنی تلوارلے کر ان لوگوں کو نہ ماروں جو ایسا کریں ؟ ''، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم ایسا کروگے تب تو تم بھی انہیں لوگوں میں شریک ہوجاؤگے، تمہیں چا ہئے کہ (چپ چاپ ہو کر) اپنے گھرہی میں پڑے رہو'' ۳؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''اگر تمہیں ڈر ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آجائے گی، تو اپنی چادر کا کنارا منہ پر ڈال لینا، (قتل ہوجانا) و ہ قتل کرنے والا اپنا اور تمہا را دونوں کا گنا ہ اپنے سرلے گا، اور وہ جہنمی ہو گا'' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک قبرکی جگہ کے لیے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبرکھودنے کے لیے ایک غلام کی قیمت اداکرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہوجائیں گے کہ ہرغلام کو ایک ایک گھرمل جائے گا۔
وضاحت ۲؎ : مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔


3959- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ الْمُتَشَمِّسِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لَهَرْجًا "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الْهَرْجُ؟ قَالَ: " الْقَتْلُ "، فَقَالَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّا نَقْتُلُ الآنَ فِي الْعَامِ الْوَاحِدِ،مِنَ الْمُشْرِكِينَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لَيْسَ بِقَتْلِ الْمُشْرِكِينَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ وَابْنَ عَمِّهِ وَذَا قَرَابَتِهِ " فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَعَنَا عُقُولُنَا،ذَلِكَ الْيَوْمَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا، تُنْزَعُ عُقُولُ أَكْثَرِ ذَلِكَ الزَّمَانِ، وَيَخْلُفُ لَهُ هَبَائٌ مِنَ النَّاسِ لاعُقُولَ لَهُمْ ".
ثُمَّ قَالَ الأَشْعَرِيُّ: وَايْمُ اللَّهِ! إِنِّي لأَظُنُّهَا مُدْرِكَتِي وَإِيَّاكُمْ،وَايْمُ اللَّهِ! مَا لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجٌ، إِنْ أَدْرَكَتْنَا فِيمَا عَهِدَ إِلَيْنَا نَبِيُّنَا ﷺ، إِلا أَنْ نَخْرُجَ كَمَا دَخَلْنَا فِيهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۸۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۹۱، ۳۹۲، ۴۰۶، ۴۱۴) (صحیح)
(الصحیحہ : ۱۶۸۲)
۳۹۵۹- ابو مو سی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بیان کیا:'' قیامت سے پہلے ہرج ہو گا''، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول !ہر ج کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' قتل'' ، کچھ مسلمانوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم تو اب بھی سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' مشرکین کا قتل مراد نہیں بلکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کر وگے، حتی کہ آدمی اپنے پڑوسی، اپنے چچا زاد بھا ئی اور قرابت داروں کو بھی قتل کرے گا'' ، تو کچھ لوگوں نے عرض کیا: ''اللہ کے رسول! کیا اس وقت ہم لوگ عقل وہوش میں ہوں گے کہ نہیں ؟'' آپ ﷺ نے فرمایا :'' نہیں، بلکہ اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں سلب کرلی جائیں گی، اور ان کی جگہ ایسے کم تر لوگ لے لیں گے جن کے پاس عقلیں نہیں ہوں گی'' ۔
پھرابوموسیٰ اشعر ی رضی اللہ عنہ نے کہا:قسم اللہ کی ! میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ زمانہ مجھے اور تم کو پا لے ،اللہ کی قسم ! اگر ایسا زمانہ مجھ پر اور تم پر آگیا تو ہما رے اور تمہارے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہوگا، جیسا کہ ہما رے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں وصیت کی ہے، سوائے اس کے کہ ہم اس سے ویسے ہی نکلیں جیسے داخل ہوئے۔


3960- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ، مُؤَذِّنُ مَسْجِدِ حُرْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عُدَيْسَةُ بِنْتُ أُهْبَانَ قَالَتْ: لَمَّا جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ هَاهُنَا، الْبَصْرَةَ، دَخَلَ عَلَى أَبِي، فَقَالَ: يَا أَبَا مُسْلِمٍ! أَلا تُعِينُنِي عَلَى هَؤُلاءِ الْقَوْمِ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَدَعَا جَارِيَةً لَهُ،فَقَالَ: يَا جَارِيَةُ! أَخْرِجِي سَيْفِي، قَالَ: فَأَخْرَجَتْهُ، فَسَلَّ مِنْهُ قَدْرَ شِبْرٍ، فَإِذَا هُوَ خَشَبٌ، فَقَالَ: إِنَّ خَلِيلِي وَابْنَ عَمِّكَ ﷺ عَهِدَ إِلَيَّ: " إِذَا كَانَتِ الْفِتْنَةُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، فَأَتَّخِذُ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ، فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ مَعَكَ "، قَالَ: لا حَاجَةَ لِي فِيكَ، وَلا فِي سَيْفِكَ ۔
* تخريج: ت/الفتن ۳۳ (۲۲۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۶۹، ۶/۳۹۳) (حسن صحیح)
۳۹۶۰- عد یسہ بنت اہبا ن کہتی ہیں کہ جب علی بن ابی طا لب رضی اللہ عنہ یہاں بصرہ میں آئے، تو میرے والد (اہبان بن صیفی غفار ی رضی اللہ عنہ ) کے پاس تشریف لا ئے، اور کہا: ابو مسلم !ان لو گوں ( شامیوں) کے مقابلہ میں تم میری مدد نہیں کرو گے ؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور مدد کروں گا، پھر اس کے بعد اپنی با ندی کو بلا یا، اور اسے تلو ار لا نے کو کہا: وہ تلوار لے کر آئی، ابومسلم نے اس کو ایک بالشت برابر (نیام سے) نکالا، دیکھا تو وہ تلوار لکڑی کی تھی ،پھر ابو مسلم نے کہا: میرے خلیل اور تمہا رے چچا زاد بھائی( محمد ﷺ ) نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے کہ'' جب مسلمانوں میں جنگ اور فتنہ بر پا ہو جا ئے تو میں ایک لکڑی کی تلو ار بنا لوں''، اگرآپ چاہیں تو میں آپ کے ہمر اہ نکلو ں، انہوں نے کہا :مجھے نہ تمہا ری ضرورت ہے اور نہ تمہا ری تلو ار کی ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اور ان کو لڑائی سے معاف کردیا، نبی اکرم ﷺ کا یہ حکم کہ لکڑی کی تلوار بنا لو، اس صورت میں ہے جب مسلمانوں میں فتنہ ہو اور حق وصواب معلوم نہ ہو تو بہتریہی ہے کہ آدمی خاموش رہے کسی جماعت کے ساتھ نہ ہو ۔


3961- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ، وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ، وَاضْرِبُوا بِسُيُوفِكُمُ الْحِجَارَةَ، فَإِنْ دُخِلَ عَلَى أَحَدِكُمْ، فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ "۔
* تخريج: د/الفتن ۲ (۴۲۵۹)، ت/الفتن ۳۳ (۲۲۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۸، ۴۱۶) (صحیح)
۳۹۶۱- ابو مو سی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے قریب ایسے فتنے ہو ں گے جیسے اندھیری را ت کے حصے، ان میں آدمی صبح کو مو من ہو گا، تو شام کو کا فر ہو گا اورشام کو مومن ہو گا تو صبح کوکا فر ہو گا، اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہو نے والے سے، کھڑا ہو نے والا چلنے والے سے، اور چلنے والا دوڑ نے والے سے بہتر ہو گا، اور ان فتنوں میں تم اپنی کما نوں کو توڑ ڈالنا، کما ن کے تانت کا ٹ ڈالنا، اپنی تلو اریں پتھر پرما ر کر کند کرلینا، اور اگر تم میں سے کسی کے پاس کو ئی گھس جائے تو آدم کے دونوں بیٹوں میں سے نیک بیٹے کی طرح ہو جا نا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جنہوں نے اپنے بھائی قابیل سے کہا : تو مجھے اگرمارے گا تب بھی تجھے نہیں ماروں گا، مطلب آپ کا یہ ہے کہ ان فتنوں میں لڑنا اور مسلمانوں کو مارنا گویا فتنہ کی تائید کرنا ہے ، پس گھر میں خاموشی سے بیٹھے رہنا مناسب ہے ،اور جس قدر کوئی زیادہ حرکت کرے گا اتنا ہی وہ برا ہے۔


3962- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ (أَوْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ، شَكَّ أَبُو بَكْرٍ)، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ وَفُرْقَةٌ وَاخْتِلافٌ، فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ، فَأْتِ بِسَيْفِكَ أُحُدًا، فَاضْرِبْهُ حَتَّى يَنْقَطِعَ، ثُمَّ اجْلِسْ فِي بَيْتِكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ يَدٌ خَاطِئَةٌ، أَوْ مَنِيَّةٌ قَاضِيَةٌ "، فَقَدْ وَقَعَتْ، وَفَعَلْتُ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماحہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۳۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۹۳، ۴/۲۲۶) (صحیح)
(سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۱۳۸۰)
۳۹۶۲- ابو بردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، تو انہوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بہت جلد ایک فتنہ ہو گا، فر قہ بندی ہو گی اور اختلا ف ہو گا ، جب یہ زما نہ آئے تو تم اپنی تلوار لے کر احد پہا ڑ پر آنا، اور اس پراسے ما رنا کہ وہ ٹوٹ جا ئے، اور پھر اپنے گھر بیٹھ جانا یہا ں تک کہ کوئی خطا کار ہاتھ تمہیں قتل کردے، یا موت آجائے جو تمہارا کام تمام کردے''۔
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ فتنہ آگیا ہے، اور میں نے وہی کیا جو رسول اللہ ﷺ نے فرما یا تھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا
۱۱ -باب: جب دو مسلمان تلوار لے کرباہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کابیان​


3963- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا بِأَسْيَافِهِمَا، إِلا كَانَ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۳) (صحیح)
(سند میں مبارک بن سحیم متروک راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر اصل حدیث صحیح ہے، کما سیاتی)
۳۹۶۳- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جب دو مسلما ن تلو ار لے کرباہم لڑپڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہو ں گے''۔


3964- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا الْقَاتِلُ،فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: " إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ "۔
* تخريج: ن/تحریم الدم ۲۵ (۴۱۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۱، ۴۰۳، ۴۱۰، ۴۱۸) (صحیح)
۳۹۶۴- ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جب دومسلمان تلو ار لے کر باہم لڑپڑیں ، توقاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہو ں گے''، لوگوں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے ( قتل کر نے کی وجہ سے جہنم میں جا ئے گا ) مگر مقتول کا کیا گنا ہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا''۔


3965- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ ابْنِ حِرَاشٍ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " إِذَا الْمُسْلِمَانِ حَمَلَ أَحَدُهُمَا عَلَى أَخِيهِ السِّلاحَ، فَهُمَا عَلَى جُرُفِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، دَخَلاهَا جَمِيعًا "۔
* تخريج: خ/الفتن (۷۰۸۳تعلیقاً)، م/الفتن ۴ (۲۸۸۸)، ن/تحریم الدم ۲۵ (۴۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۷۲) (صحیح)
۳۹۶۵- ابو بکر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جب دومسلما ن ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو وہ جہنم کے کنا رے پر ہو تے ہیں، پھر جب ان میں سے کو ئی ایک دوسرے کو قتل کردے توقاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ صورت اس وقت ہے جب دونوں ایک ساتھ ہتھیار لے کر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے اٹھیں گے لیکن اگر کوئی شخص ہتھیار لے کر قتل کرنے آئے تو اپنی حفاظت صحیح ہے اور اگر مدافعت میں حملہ کرنے والا مارا جائے تو وہی جہنم میں جائے گا مدافعت کرنے والے کا کوئی قصور نہیں۔


3966- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِالْحَكَمِ السُّدُوسِيِّ، حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، عَبْدٌ أَذْهَبَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۴۸۹۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۵) (ضعیف)
(سند میں سویداور شہربن حوشب مختلف فیہ راوی ہیں ، اور عبد الحکم بن ذکوان مجہول،نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۱۹۱۵)
۳۹۶۶- ابو اما مہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برباد اور خراب مقام اس شخص کاہو گا جس نے اپنی آخرت دوسرے کی دنیا کے لئے برباد کی'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12- بَاب كَفِّ اللِّسَانِ فِي الْفِتْنَةِ
۱۲-باب: فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان​


3967- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ زِيَادِ سيْمِينْ كُوشْ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "تَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبَ، قَتْلاهَا فِي النَّارِ، اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ مِنْ وَقْعِ السَّيْفِ "۔
* تخريج: د/الفتن والملاحم ۳ (۴۲۶۵)، ت/الفتن ۱۶ (۲۱۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۱۱، ۲۱۲) (ضعیف)
(سند میں لیث بن أبی سلیم اور زیاد ضعیف ہیں)
۳۹۶۷- عبدا للہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایک فتنہ ایسا ہو گا جو سارے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اس میں قتل ہو نے والے سب جہنمی ہو ں گے ، اس فتنہ میں زبان تلو ار کی کاٹ سے زیادہ موثر ہوگی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ایسا نہ ہو زبان سے ناحق بات نکلے اور مفت گنہ گار ہو یا فتنے میں شریک سمجھاجائے یا اس کی بات سے فتنہ کو بڑھاوا ملے۔


3968- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِيَّاكُمْ وَالْفِتَنَ، فَإِنَّ اللِّسَانَ فِيهَا مِثْلُ وَقْعِ السَّيْفِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۷۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۷) (ضعیف جدا)
(سند میں محمد بن الحارث متروک ، اور محمدبن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، نیز عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ کا کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہے)
۳۹۶۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تم فتنوں سے بچے رہنا کیو نکہ اس میں زبان ہلا نا تلو ار چلانے کے برا بر ہے''۔


3969- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ: مَرَّ بِهِ رَجُلٌ لَهُ شَرَفٌ، فَقَالَ لَهُ عَلْقَمَةُ: إِنَّ لَكَ رَحِمًا، وَإِنَّ لَكَ حَقًّا، وَإِنِّي رَأَيْتُكَ تَدْخُلُ عَلَى هَؤُلاءِ الأُمَرَاءِ، وَتَتَكَلَّمُ عِنْدَهُمْ بِمَا شَائَ اللَّهُ أَنْ تَتَكَلَّمَ بِهِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ، صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ،مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سُخْطِ اللَّهِ، مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ بِهَا سُخْطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ ".
قَالَ عَلْقَمَةُ: فَانْظُرْ،وَيْحَكَ! مَاذَا تَقُولُ: وَمَاذَا تَكَلَّمُ بِهِ،فَرُبَّ كَلامٍ (قَدْ) مَنَعَنِي أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ،مَا سَمِعْتُ مِنْ بِلالِ بْنِ الْحَارِثِ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۲۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۸)، وقد أخر جہ: ت/الزہد ۱۲ (۲۳۱۹)، ط/الکلام ۲ (۵)، حم (۳/۴۶۹) (صحیح)
۳۹۶۹- علقمہ بن وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے سا منے سے ایک معزز شخص کا گزر ہو ا، تو انہوں نے اس سے عرض کیا: آپ کا مجھ سے ( دہر ا رشتہ ہے) ایک تو قرابت کا، دوسرے مسلما ن ہو نے کا، میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ ان امر اء کے پاس آتے جاتے او ر ان سے حسب منشا با تیں کر تے ہیں ، میں نے صحا بی رسول بلا ل بن حا رث مزنی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تم میں سے کو ئی ایسی با ت بو لتا ہے جس سے اللہ خو ش ہو تا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہو تا کہ اس با ت کا اثر کیاہوگا، لیکن اس با ت کی وجہ سے اللہ تعا لی اس کے حق میں قیامت تک کے لئے اپنی خوشنودی اوررضا مندی لکھ دیتا ہے، اور تم میں سے کو ئی ایسی با ت بولتا ہے جو اللہ تعالی کی نا راضگی کا سبب ہو تی ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہو تا کہ اس کا کیا اثر ہو گا، لیکن اللہ تعا لی اس کے حق میں اپنی نا راضگی اس دن تک کے لئے لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا''۔
علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا:دیکھو افسو س ہے تم پر! تم کیا کہتے اور کیا بو لتے ہو، بلا ل بن حارث رضی اللہ عنہ کی حدیث نے بعض باتوں کے کہنے سے مجھے روک دیا ہے، خا مو ش ہو جا تا ہوں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : علقمہ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ بات کہنے میں احتیاط اورغور لازم ہے، یہ نہیں کہ جو منہ میں آیا کہہ دیا، غیرمحتاط لوگوں کی زبان سے اکثر ایسی بات نکل جاتی ہے جو اللہ تعالی کو ناگوار ہو تی ہے ،پس وہ ایک بات کی وجہ سے جہنمی ہو جاتا ہے ۔


3970- حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ بْنُ الصَّيْدَلانِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سُخْطِ اللَّهِ، لا يَرَى بِهَا بَأْسًا، فَيَهْوِي بِهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ سَبْعِينَ خَرِيفًا "۔
* تخريج: تفرد بہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۹۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۹)، وقد أخرجہ: خ/الرقاق ۲۳ (۶۴۷۸)، م/الزہد والرقاق ۶ (۲۹۸۸)، ت/الزہد ۱۰ (۲۳۱۴)، ط/الکلام ۲ (۶)، حم (۲/۲۳۶، ۵۳۳) (صحیح)
(سندمیں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، کمافی التخریج )
۳۹۷۰- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''آدمی اپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی با ت کہتا ہے، اوروہ اس میں کو ئی حرج نہیں محسو س کر تا ،حا لا نکہ اس با ت کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلاجاتا ہے''۔


3971- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا، أَوْ لِيَسْكُتْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۴۳)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۳۱ (۶۰۱۸)، ۸۵ (۶۱۳۸)، م/الإیمان ۱۹ (۴۷)، د/الأدب ۱۳۲ (۵۱۵۴)، ت/صفۃ القیامۃ ۵۰ (۲۵۰۰)، حم (۲/۲۶۷، ۲۶۹، ۴۳۳، ۴۶۳) (صحیح)
۳۹۷۱- ابوہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص اللہ اور یو م آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ اچھی با ت کہے، یا خا مو ش رہے'' ۔


3972- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَاعِزٍ الْعَامِرِيِّ أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ الثَّقَفِيَّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! حَدِّثْنِي بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ،قَالَ: " قُلْ رَبِّيَ اللَّهُ، ثُمَّ اسْتَقِمْ "، قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! مَا أَكْثَرُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ؟، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِلِسَانِ نَفْسِهِ، ثُمَّ قَالَ: " هَذَا "۔
* تخريج: م/الإیمان ۱۳ (۳۸)، ت/الزہد ۶۰ (۲۴۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۳، ۴/۳۸۴)، دي/الرقاق ۴ (۲۷۵۳) (صحیح)
۳۹۷۲- سفیا ن بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آپ مجھے کو ئی ایسی با ت بتائیے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' کہو: اللہ میر ارب ( معبود برحق )ہے اور پھر اس پر قائم رہو''، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو ہم پر کس با ت کا زیا دہ ڈر ہے؟تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان پکڑی اورفرمایا:'' اس کا'' ۔


3973- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَاصِمِ ابْنِ أَبِي النُّجُودِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ، وَنَحْنُ نَسِيرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ، قَالَ: " لَقَدْ سَأَلْتَ عَظِيمًا، وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ: تَعْبُدُ اللَّهَ لا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا،وَتُقِيمُ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ "، ثُمَّ قَالَ: " أَلا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ؟ الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ النَّارَ الْمَاءُ، وَصَلاةُ الرَّجُلِ في جَوْفِ اللَّيْلِ " ثُمَّ قَرَأَ: {تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ}،حَتَّى بَلَغَ {جَزَائً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}، ثُمَّ قَالَ: " أَلا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الأَمْرِ وَعَمُودِهِ وَذُرْوَةِ سَنَامِهِ؟ الْجِهَادُ " ثُمَّ قَالَ: " أَلا أُخْبِرُكَ بِمِلاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟ "، قُلْتُ: بَلَى، فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ فَقَالَ: " تَكُفُّ عَلَيْكَ هَذَا " قُلْتُ: يَانَبِيَّ اللَّهِ! وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ قَالَ: " ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ! وَهَلْ يُكِبُّ النَّاسَ، عَلَى وُجُوهِهِمْ فِي النَّارِ، إِلا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ ؟ "۔
* تخريج: ت/الإیمان ۷ (۲۶۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۳۱) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: ۲۴۶)
۳۹۷۳- معا ذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، ایک دن میں صبح کو آپ سے قریب ہوا، اور ہم چل رہے تھے ،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آپ مجھے کو ئی عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے، اورجہنم سے دور رکھے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے، اور بے شک یہ عمل اس شخص کے لئے آسان ہے جس کے لئے اللہ تعالی آسان کر دے، تم اللہ تعالی کی عبا دت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو ،صلاۃ قائم کرو، زکا ۃ دو، رمضا ن کے صیام رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو''، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:'' کیا میں تمہیں بھلا ئی کے دروازے نہ بتاؤں؟ صوم ڈھا ل ہے، صدقہ گنا ہوں کو ایسے ہی مٹا تا ہے جیسے پا نی آگ کو بجھا تا ہے، اورآدھی رات میں آدمی کا صلاۃ(تہجد ) ادا کر نا''، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت:{تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ} [ سورة السجدة : 16] تلاوت فرمائی یہاں تک کہ{جَزَائً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}تک پہنچے،پھر فرمایا: ''کیامیں تمہیں دین کی اصل ، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں؟ وہ اللہ کی راہ میں جہا د ہے'' ، پھر فر مایا: '' کیا ان تمام باتوں کا جس چیز پر دا رو مد ار ہے وہ نہ بتادوں ؟'' میں نے عرض کیا: جی ہاں ضروربتائیے، تو آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا:''اسے اپنے قابو میں رکھو''، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! کیا ہم جو بولتے ہیں اس پر بھی ہما ری پکڑ ہو گی؟ !، آپ ﷺ نے فرمایا:''معاذ! تیری ماں تجھ پر روئے ! لوگ اپنی زبانوں کی کارستانیوں کی وجہ سے ہی اوندھے منہ جہنم میں ڈالے جا ئیں گے''۔


3974- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ الْمَكِّيُّ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيَّ قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ صَالِحٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " كَلامُ ابْنِ آدَمَ عَلَيْهِ لا لَهُ إِلا الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "۔
* تخريج: ت/الزہد ۶۲ (۲۴۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۷۷) (ضعیف)
(سند میں ام صالح مجہول الحال ہیں)
۳۹۷۴- ام المو منین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' انسان کی ہربا ت کا اس پر وبال ہو گا، اور کسی بات سے فا ئدہ نہ ہو گاسوائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ذکر الہٰی کے''۔


3975- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ قَالَ: قِيلَ لابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى أُمَرَائِنَا فَنَقُولُ الْقَوْلَ، فَإِذَا خَرَجْنَا قُلْنَا غَيْرَهُ، قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ النِّفَاقَ .
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۷۰۹۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۰۰)، وقد أخرجہ: خ/ الأحکام ۲۷ (۷۱۷۸)، حم (۲/۱۵) (صحیح)
۳۹۷۵- ابو الشعثاء کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ ہم امراء (حکمرانوں) کے پاس جا تے ہیں، تو وہاں کچھ اور باتیں کر تے ہیں اور جب و ہا ں سے نکلتے ہیں تو کچھ اور با تیں کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اس کو نفاق سمجھتے تھے۔


3976- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ قُرَّةَ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَيْوَئِيلَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مِنْ حُسْنِ إِسْلامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لا يَعْنِيهِ "۔
* تخريج: ت/الزہد ۱۱ (۲۳۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۳۴) (صحیح)
۳۹۷۶- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کسی شخص کے اسلام کی خو بی یہ ہے کہ جس بات کا تعلق اُس سے نہ ہو اُسے وہ چھو ڑ دے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اس کی ٹوہ اورجستجو میں نہ لگے، جو چیز حرام یا مکروہ ہو اس کا چھوڑنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، خواہ اس کا اسلام عمدہ ہو یا نہ ہو لیکن عمدہ اور اچھا مسلمان وہ ہے جو بیکار اور غیر مفید بات کو بھی چھوڑ دے، اگر چہ وہ حرام یا مکروہ نہ ہو یعنی مباح بات ہو لیکن اس کے کرنے میں آخرت کا فائدہ نہ ہو ۔
 
Top