• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
23- بَاب الصَّبْرِ عَلَى الْبَلاءِ
۲۳-باب: آفات و مصائب پر صبر کر نے کا بیان​


4023- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلائً؟ قَالَ: " الأَنْبِيَائُ، ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ، يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلائُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الأَرْضِ، وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ "۔
* تخريج: ت/الزہد ۵۶ (۲۳۹۸)، (تحفۃ الأشراف:۳۹۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷۲، ۱۷۳، ۱۸۰، ۱۸۵)، دي/الرقاق ۶۷ (۲۸۲۵) (حسن صحیح)
۴۰۲۳- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لو گوں میں سب سے زیا دہ مصیبت اور آزمائش کا شکا ر کون ہو تا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' انبیا ء، پھر جو ان کے بعد مر تبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہو تی ہے، اگروہ دین میں سخت اور پختہ ہے توآزمائش بھی سخت ہو گی، اور اگر دین میں نرم اور ڈھیلا ہے تو مصیبت بھی اسی اندا ز سے نرم ہو گی، مصیبتوں سے بندے کے گناہوں کا کفارہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ بندہ روے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا''۔


4024- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، وَهُوَ يُوعَكُ، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ، فَوَجَدْتُ حَرَّهُ بَيْنَ يَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا أَشَدَّهَا عَلَيْكَ، قَالَ: " إِنَّا كَذَلِكَ، يُضَعَّفُ لَنَا الْبَلائُ وَيُضَعَّفُ لَنَا الأَجْرُ " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلائً؟ قَالَ: " الأَنْبِيَائُ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " ثُمَّ الصَّالِحُونَ، إِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيُبْتَلَى بِالْفَقْرِ، حَتَّى مَايَجِدُ أَحَدُهُمْ إِلا الْعَبَائَةَ يُحَوِّيهَا، وَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيَفْرَحُ بِالْبَلاءِ كَمَا يَفْرَحُ أَحَدُكُمْ بِالرَّخَاءِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۴۱۸۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۱۷) (صحیح)
۴۰۲۴- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہو ا، آپ کو بخا ر آرہا تھا، میںنے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو آپ کے بخا رکی گرمی مجھے اپنے ہاتھوں میں لحاف کے اوپر سے محسوس ہو ئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو بہت ہی سخت بخارہے! آپ ﷺ نے فرمایا:''ہمارایہی حا ل ہے ہم لو گوں پر مصیبت بھی دگنی ( سخت ) آتی ہے، اور ثواب بھی دُگنا ملتا ہے''، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول!کن لوگوںپرزیادہ سخت مصیبت آتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''انبیاء پر''، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !پھر کن پر؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''پھر نیک لوگوں پر، بعض نیک لو گ ایسی تنگ دستی میں مبتلا کر دئیے جا تے ہیں کہ ان کے پاس ایک چوغہ کے سوا جسے وہ اپنے اوپر لپیٹتے رہتے ہیں کچھ نہیں ہو تا، اور بعض آزمائش سے اس قدر خو ش ہو تے ہیںجتنا تم میں سے کو ئی ما ل و دولت ملنے پر خو ش ہو تا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی راہ میں کسی کو اتنی ایذا نہیں ہوئی جتنی مجھ کو ہوئی، فقر وفاقہ ،دکھ بیماری ان تکلیفوں کے سوا کافروں کے طرف سے آپ ﷺ کو بہت صدمے پہنچے ،گا لیاں کھائیں، مار کھائی، زخمی ہوئے دانت شہید ہوئے، اخیر میں زہر کے صدمے سے وفات پائی ۔


4025- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَهُوَ يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَيَقُولُ: رَبِّ! اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لايَعْلَمُونَ ۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۷۷)، م/الجہاد ۳۶ (۱۷۹۲)، (تحفۃ الأشراف:۹۲۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۵۶، ۴۵۷، ۳۸۰، ۴۲۷، ۴۳۲) (صحیح)
۴۰۲۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ گو یا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں، آپ ﷺ انبیا ء کر ام (علیہم السلام) میں سے ایک نبی کی حکا یت بیا ن کر رہے تھے جن کو ان کی قوم نے ما را پیٹا تھا ،وہ اپنے چہرے سے خو ن پونچھتے جاتے تھے، اور یہ کہتے جاتے تھے: اے میرے رب !میری قوم کی مغفرت فرما ،کیو نکہ وہ لوگ نہیں جا نتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : خود آپ ﷺ نے جنگ احد میں جب کافروں کے ہاتھ سے پتھر کھائے، چہرہ مبارک زخمی ہوا، دانت شہید ہوا، خون بہہ رہا تھا، لوگوں نے عرض کیا کہ اب تو کافروں کے لئے بددعا فرمائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا : '' اللہ میری قوم کو ہدایت دے، یہ دین کو نہیں جانتے ہیں'' ۔


4026- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ: رَبِّ! أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى، قَالَ: أَوَلَمْ تُؤْمِنْ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي، وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْكَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ،وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ، لأَجَبْتُ الدَّاعِيَ "۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۱۱ (۳۳۷۲)، م/الإیمان ۶۹ (۱۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۲۵، ۱۵۳۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۶) (صحیح)
۴۰۲۶- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''ہم ابرا ہیم علیہ السلام سے زیا دہ شک کر نے کے حقدار ہیں ۱؎ جب انہوں نے کہا: اے میرے رب تو مجھ کودکھا کہ تو مر دوں کو کیسے زندہ کر ے گا ؟ تو اللہ نے فرمایا:کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں (لیکن یہ سوال اس لئے ہے )کہ میر ے دل کو اطمینان حا صل ہوجا ئے، اور اللہ تعالی لوط علیہ السلام پر رحم کرے، وہ زور آور شخص کی پناہ ڈھونڈھتے تھے ، اگر میں اتنے دنوں تک قید میں رہا ہو تا جتنے عرصہ یو سف علیہ السلام رہے، تو جس وقت بلا نے والا آیا تھا میں اسی وقت اس کے سا تھ ہو لیتا ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر ہم کو شک نہیں ہوا تو بھلا ابراہیم علیہ السلام کو کیوں کر شک ہوسکتا ہے ، انہوں نے توعین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کے لئے یہ سوال کیا تھاکہ مردے کو زندہ کرنا انہیں دکھادیا جائے ۔
وضاحت ۲ ؎ : یہ تعریف ہے یوسف علیہ السلام کے صبر اور استقلال کی، اتنی لمبی قید پر بھی انہوں نے رہائی کے لئے جلدی نہیں کی۔


4027- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، كُسِرَتْ رَبَاعِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَشُجَّ، فَجَعَلَ الدَّمُ يَسِيلُ عَلَى وَجْهِهِ، وَجَعَلَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَيَقُولُ: " كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوا وَجْهَ نَبِيِّهِمْ بِالدَّمِ، وَهُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ؟ " فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْئٌ}۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۷۲۵)، وقد أخرجہ: م/الجہاد ۳۶ (۱۷۹۱)، ت/التفسیر ۴ (۳۰۰۳)، حم (۳/۱۱۳) (صحیح)
۴۰۲۷- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب رسول اللہ ﷺ کے سا منے کے چا ر دا نتوں میں سے ایک دانت ٹو ٹ گیا، اور سر زخمی ہوگیا، تو خو ن آپ کے چہرہ پربہنے لگا، آپ ﷺ خو ن کو اپنے چہر ہ سے پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: وہ قوم کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خو ن سے رنگ دیا ہو، حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا، تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نا زل فرما ئی:{لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْئٌ} [سورة آل عمران:128] (اے نبی !آپ کو اس معا ملے میں کچھ اختیا ر نہیں ہے) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : آپ کا یہ فرمانا بدد عا کے طور پر نہ تھا بلکہ تعجب کے طور پر کہ ان لوگوں کے لچھن تو ایسے خراب ہیں کہ ان کی نجات کیونکر ہوگی، اللہ تعالی نے اس کو بھی پسند نہیں کیا، اور فرمایا: آپ پر صبر لازم ہے، اللہ تعالی کو ان لوگوں کاا ختیار ہے۔


4028- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلام ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَهُوَ جَالِسٌ حَزِينٌ، قَدْ خُضِّبَ بِالدِّمَاءِ، قَدْ ضَرَبَهُ بَعْضُ أَهْلِ مَكَّةَ، فَقَالَ: مَا لَكَ؟ قَالَ: "فَعَلَ بِي هَؤُلاءِ، وَفَعَلُوا "، قَالَ: أَتُحِبُّ أَنْ أُرِيَكَ آيَةً؟ قَالَ: " نَعَمْ أَرِنِي "، فَنَظَرَ إِلَى شَجَرَةٍ مِنْ وَرَاءِ الْوَادِي، قَالَ: ادْعُ تِلْكَ الشَّجَرَةَ، فَدَعَاهَا، فَجَائَتْ تَمْشِي حَتَّى قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ: قُلْ لَهَا فَلْتَرْجِعْ، فَقَالَ لَهَا، فَرَجَعَتْ، حَتَّى عَادَتْ إِلَى مَكَانِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " حَسْبِي "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف (۹۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۳)، دي/المقدمۃ ۴ (۲۳) (صحیح)
۴۰۲۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جبرئیل علیہ السلا م رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اس وقت آپ غمگین بیٹھے ہوئے تھے، اور لہو لہان تھے ،اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے آپ کو مارا پیٹا تھا، انہوں نے کہا: آپ کو کیا ہو گیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' ان لو گوں نے میرے ساتھ یہ سلو ک کیا ہے''، جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: ا ٓپ چا ہتے ہیں کہ میں آپ کوکوئی نشانی دکھا ئوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہا ںدکھا ئیے ''، پھر جبر ئیل علیہ السلام نے وادی کے پیچھے ایک درخت کی طرف دیکھا، اور کہا: آپ اس درخت کو بلا ئیے، تو آپ ﷺ نے اسے آواز دی، وہ آکرآپ کے سامنے کھڑا ہو گیا، پھرانہوں نے کہا: آپ اس سے کہیے کہ وہ واپس جائے، آپ ﷺ نے اسے واپس جا نے کو کہا، تو وہ اپنی جگہ چلا گیا، ( یہ دیکھ کر )رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میرے لئے یہ نشانی(معجزہ) ہی کا فی ہے'' ۔


4029- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَحْصُوا لِي كُلَّ مَنْ تَلَفَّظَ بِالإِسْلامِ " قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَتَخَافُ عَلَيْنَا، وَنَحْنُ مَا بَيْنَ السِّتِّ مِائَةِ إِلَى السَّبْعِ مِائَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّكُمْ لا تَدْرُونَ، لَعَلَّكُمْ أَنْ تُبْتَلُوا"، قَالَ: فَابْتُلِينَا، حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا مَا يُصَلِّي إِلا سِرًّا۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۸۱ (۳۰۶۰، ۳۰۶۱)، م/الإیمان ۶۷ (۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۴) (صحیح)
۴۰۲۹- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تما م مسلما نوں کی تعدا د شما ر کر کے مجھے بتائو''، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول!کیا آپ ہم پر ( اب بھی دشمن کی طرف سے) خطرہ محسوس کر تے ہیں، جب کہ اب ہماری تعدا د چھ اور سات سو کے درمیان ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم لو گ نہیں جا نتے شایدکہ تم آزما ئے جا ئو'' ۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :تو واقعی ہم آزمائے گئے، یہاں تک کہ ہم میں سے اگر کو ئی صلاۃ بھی پڑھتا تو چھپ کر پڑھتا ۔


4030- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ؛ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَنَّهُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً، فَقَالَ: " يَا جِبْرِيلُ! مَا هَذِهِ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ؟ قَالَ: هَذِهِ رِيحُ قَبْرِ الْمَاشِطَةِ وَابْنَيْهَا وَزَوْجِهَا، قَالَ: وَكَانَ بَدْءُ ذَلِكَ أَنَّ الْخَضِرَ كَانَ مِنْ أَشْرَافِ بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَكَانَ مَمَرُّهُ بِرَاهِبٍ فِي صَوْمَعَتِهِ، فَيَطَّلِعُ عَلَيْهِ الرَّاهِبُ، فَيُعَلِّمُهُ الإِسْلامَ، فَلَمَّا بَلَغَ الْخَضِرُ، زَوَّجَهُ أَبُوهُ امْرَأَةً، فَعَلَّمَهَا الْخَضِرُ، وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لاتُعْلِمَهُ أَحَدًا، وَكَانَ لا يَقْرَبُ النِّسَاءَ، فَطَلَّقَهَا، ثُمَّ زَوَّجَهُ أَبُوهُ أُخْرَى، فَعَلَّمَهَا وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لاتُعْلِمَهُ أَحَدًا، فَكَتَمَتْ إِحْدَاهُمَا وَأَفْشَتْ عَلَيْهِ الأُخْرَى، فَانْطَلَقَ هَارِبًا، حَتَّى أَتَى جَزِيرَةً فِي الْبَحْرِ، فَأَقْبَلَ رَجُلانِ يَحْتَطِبَانِ، فَرَأَيَاهُ، فَكَتَمَ أَحَدُهُمَا وَأَفْشَى الآخَرُ، وَقَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الْخَضِرَ، فَقِيلَ: وَمَنْ رَآهُ مَعَكَ؟ قَالَ: فُلانٌ، فَسُئِلَ فَكَتَمَ، وَكَانَ فِي دِينِهِمْ أَنَّ مَنْ كَذَبَ قُتِلَ، قَالَ: فَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ الْكَاتِمَةَ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشُطُ ابْنَةَ فِرْعَوْنَ، إِذْ سَقَطَ الْمُشْطُ، فَقَالَتْ: تَعِسَ فِرْعَوْنُ! فَأَخْبَرَتْ أَبَاهَا، وَكَانَ لِلْمَرْأَةِ ابْنَانِ وَزَوْجٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ، فَرَاوَدَ الْمَرْأَةَ وَزَوْجَهَا أَنْ يَرْجِعَا عَنْ دِينِهِمَا، فَأَبَيَا، فَقَالَ: إِنِّي قَاتِلُكُمَا، فَقَالا: إِحْسَانًا مِنْكَ إِلَيْنَا،إِنْ قَتَلْتَنَا، أَنْ تَجْعَلَنَا فِي بَيْتٍ، فَفَعَلَ، فَلَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً، فَسَأَلَ جِبْرِيلَ فَأَخْبَرَهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۰) (ضعیف)
( یہ سند ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں)
۴۰۳۰- أبی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کی را ت ایک خو شبو محسو س کی توآپ ﷺ نے فرمایا:'' جبرئیل !یہ کیسی خو شبو ہے ؟ '' انہوں نے کہا: یہ اس عو رت کی قبر کی خو شبو ہے جو فر عون کی بیٹی کو کنگھی کر تی تھی، اور اس کے دونوں بیٹو ں اور شو ہر کے قبر کی خو شبو ہے، ( جنہیں ایما ن لا نے کی وجہ سے فر عون نے قتل کر دیا تھا ) اور ان کے قصے کی ابتدا اس طرح ہے کہ خضر بنی اسرا ئیل کے شریف لو گوں میں تھے، ان کا گز ر ایک ( را ہب ) درویش کے عبادت خا نے سے ہو تا تو وہ عا بد راہب اوپر سے ان کو جھا نکتا، اور ان کو اسلام کی تعلیم دیتا، آخر کا ر جب خضر جوا ن ہوئے توان کے والد نے ایک عورت سے ان کا نکا ح کر دیا ،خضر نے اس عورت کو اسلام کی تعلیم دی، اور اس سے عہد لے لیا کہ اس با ت سے کسی کو با خبر مت کر نا، خضر عورتوں کے قریب نہیں جاتے تھے، آخر انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی، اس کے بعد ان کے والد نے ان کا نکاح دوسری عورت سے کر دیا ، خضر نے اس سے بھی نہ بتا نے کا عہد لے کر اسے دین کی تعلیم دی، لیکن ان میں سے ایک عورت نے اس را ز کو چھپا لیا، اور دوسری نے ظا ہر کر دیا ( کہ یہ دین کی تعلیم اسے خضر نے سکھائی ہے، فرعون نے ان کی گر فتا ری کا حکم دیا یہ سنتے ہی ) وہ فرار ہو کر سمندر کے ایک جزیرہ میں چھپ گئے، وہاں دو شخص لکڑیاں چننے کے لئے آئے، اور ان دونوں نے خضر کو دیکھا، ان میںسے بھی ایک نے تو ان کا حال پو شیدہ رکھا، اور دوسرے نے ظا ہر کر دیا اور کہا: میں نے خضر کو فلا ں جز یر ے میں دیکھا ہے، لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہا رے سا تھ اور کسی شخص نے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: فلاں شخص نے بھی دیکھا ہے، جب اس شخص سے سوال کیا گیا توا س نے چھپا یا، اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ جو جھوٹ بولے ، اسے قتل کر دیا جائے، الغرض اس شخص نے اس عورت سے نکاح کر لیا ،جس نے اپنا دین چھپا یا تھا، ( اور خضر کا نام نہیں بتا یا تھا)،اسی دوران کہ یہ عورت فر عون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کر رہی تھی، اتنے میں اس کے ہا تھ سے کنگھی گر پڑی اور اس کی زبا ن سے بے اختیا ر نکل گیا کہ فرعون تباہ و بر با د ہو (اپنی بے دینی کی وجہ سے )بیٹی نے یہ کلمہ اس کی زبان سے سن کر اسے اپنے باپ کو بتا دیا،اور اس عورت کے دو بیٹے تھے، اور ایک شوہر تھا، فر عو ن نے ان سبھو ں کو بلا بھیجا، اور عورت اور اس کے شوہر کو دین اسلام چھو ڑ کر اپنے دین میں آنے کے لئے پھسلایا،ان دونوں نے انکا رکیا، تو اس نے کہا: میںتم دونوں کو قتل کر دوںگا، ان دونوں نے جو اب دیا: اگر تم ہمیں قتل کر ناچاہتے ہو تو ہم پر اتنا احسا ن کر نا کہ ہمیں ایک ہی قبر میں دفن کر دینا، چنا نچہ فرعون نے ایسا ہی کیا، جب نبی اکرم ﷺ نے اسراء کی رات میں خو شبو محسوس کی، تو آپ ﷺ نے جبرئیل سے پوچھاتو انہوں نے آپ کو بتلایا کہ یہ انہیں لوگوں کی قبرہے (جس سے یہ خو شبو آرہی ہے)۔


4031- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " عِظَمُ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السُّخْطُ "۔
* تخريج: ت/الزہد ۵۶ (۲۳۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۹) (حسن)
۴۰۳۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جتنی بڑی مصیبت ہو تی ہے اتنا ہی بڑا ثواب ہوتا ہے، اور بیشک اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کر تا ہے توا سے آزما تا ہے، پھر جو کو ئی اس سے را ضی و خو ش رہے تو وہ اس سے را ضی رہتا ہے، اور جو کو ئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جا تا ہے'' ۔


4032- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لا يُخَالِطُ النَّاسَ، وَلا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ "۔
* تخريج: ت/صفۃ القیامۃ ۵۵ (۲۵۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۳) (صحیح)
۴۰۳۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' وہ مو من جو لو گوں سے مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کر تا ہے، تو اس کا ثوا ب اس مومن سے زیا دہ ہے جو لو گوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبرنہیں کرتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بلکہ عزلت اور تنہائی میں بسر کرتا ہے ، یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو میل جول کو تنہائی اورگوشہ نشینی سے بہتر جانتے ہیں، بشرطیکہ میل جول کے آداب اورتقاضے کے مطابق زندگی گزار تاہو، یعنی جمعہ ، جماعت ، عیدین اور جنازے میں حاضر ہواور بیمار کی عیادت کرے اور لوگوں کو ایذا نہ دے۔


4033- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّي، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "ثَلاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ طَعْمَ الإِيمَانِ، (وَقَالَ بُنْدَارٌ: حَلاوَةَ الإِيمَانِ) مَنْ كَانَ يُحِبُّ الْمَرْءَ لا يُحِبُّهُ إِلا لِلَّهِ، وَمَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ كَانَ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَرْجِعَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۹ (۱۶)، ۱۴ (۲۱)، الأدب ۴۲ (۶۰۴۱)، الإکراہ ۱ (۶۹۴۱)، م/الایمان ۱۵ (۴۳)، ن/الایمان ۳ (۴۹۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۵)، وقد أخرجہ: ت/الإیمان ۱۰ (۲۶۲۴)، حم (۳/۱۰۳، ۱۱۴، ۱۷۲، ۱۷۴، ۲۳۰، ۲۴۸، ۲۷۵، ۲۸۸) (صحیح)
۴۰۳۳- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس میں تین با تیں ہو ں گی وہ ایمان کا ذائقہ پائے گا، ( بندا ر کی روایت میں ہے کہ وہ ایما ن کی حلا وت (مٹھاس) پا ئے گا ) ایک وہ شخص جو کسی سے صرف اللہ کے لئے محبت کرتا ہو، دوسرے وہ جسے اللہ اور اس کا رسول دنیا کی تمام چیزوں سے زیا دہ محبو ب ہوں، تیسرے وہ شخص جسے اللہ تعالی نے کفر سے نجات دی، اس کے بعد اسے آگ میں ڈالا جانا تو پسند ہو، لیکن کفر کی طرف پلٹ جانا پسند نہ ہو''۔


4034- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ،(ح) وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَطَائٍ، قَالا: حَدَّثَنَا رَاشِدٌ أَبُومُحَمَّدٍ الْحِمَّانِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي ﷺ: " أَنْ لاتُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ، وَلا تَتْرُكْ صَلاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا، فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ، وَلا تَشْرَبِ الْخَمْرَ، فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۱) (حسن)
(آخری جملہ اس سند سے کتاب الأشربہ میں گزرا ہے)
۴۰۳۴- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھ کو وصیت کی ہے کہ تم اللہ تعالی کے سا تھ کسی کو شریک مت کر نا اگر چہ تم ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائو، اور جلا دئیے جا ئو، اور فرض صلاۃ کو جا ن بو جھ کر مت چھو ڑنا، کیونکہ جس نے جا ن بوجھ کر اسے چھوڑا تو اس پر سے اللہ کی پنا ہ اٹھ گئی، اور تم شراب مت پینا ،کیو نکہ شراب تما م برا ئیوں کی کنجی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : شرابی کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ وبرباد ہوتی ہے، دنیا اس وجہ سے کہ سارا مال شراب میں اڑجاتا ہے، جب شراب پیتا ہے تو عقل جاتی رہتی ہے، لوگ اس کا مال دھوکہ اورفریب سے اڑا لے جاتے ہیں ، وہ لوگوں سے لڑائی کرتا ہے، بد گوئی کرتا ہے، ذلیل وخوار ہوتا ہے، سخت بیماریوں کا شکار ہوتاہے، جیسے فالج، لقوہ، رعشہ، استسقا، ورم جگر، قولنج وغیرہ اور آخرت کی خرابی تو ظاہر ہے کہ شرابی کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ شراب سے بچائے ،افسوس ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے مسلمان اس بلا میں مبتلا ہیں، او ریہ غیر مسلموں کی صحبت اور ان کی تہذیب وتمدن کا اثر ہے، ا ور لطف یہ ہے کہ غیر مسلموں میں بہت سے لوگ شراب نوشی کو معیوب سمجھتے ہیں بلکہ اس کو ترک کرتے جارہے ہیں،جب کہ ان کے دین میں شراب پینا منع نہیں ہے ، اور ہمارے دین میں شراب حرام ہے بلکہ حنفیہ کے نزدیک پیشاب کے مثل نجس ہے ، پھر مسلمان کا دل کیسے قبول کرتا ہے کہ ایک ایک چیز نجس ،حرام اور مضر ہو، جس کی تاثیر زہر کی طرح ہو، اس میں اپنا مال تباہ کر کے اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کرلے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
24- بَاب شِدَّةِ الزَّمَانِ
۲۴- باب: زما نہ کی سختی کا بیان​


4035- حَدَّثَنَا غِيَاثُ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّحَبِيُّ، أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، سَمِعْتُ ابْنَ جَابِرٍ يَقُولُ: قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ رَبِّهِ يَقُولُ : سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلا بَلائٌ وَفِتْنَةٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۵۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۴) (صحیح)
۴۰۳۵- معا ویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرما تے ہو ئے سنا:''دنیا میں فتنوں اور مصیبتوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی روز بروز تقویٰ وصلاح کم ہوجاتا ہے ،اور فسق وفجور اور خرابی زیادہ کیونکہ اخیر زمانہ میں قیامت کا قرب ہے سبحان اللہ چودہ سو برس سے زیادہ پہلے کا یہ فرمودہ ہے اور اب بھی اہل زمانہ کا برا حال ہے، اور معلوم نہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے۔آمین۔


4036- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ قُدَامَةَ الْجُمَحِيُّ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي الْفُرَاتِ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ، يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ، وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الأَمِينُ، وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ (قِيلَ: وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ: الرَّجُلُ التَّافِهُ) فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۵۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۱) (صحیح)
(سند میں ابن قدامہ ضعیف ، اور اسحاق بن أبی الفرات مجہول ہیں، لیکن مسند احمد ۲ / ۳۳۸کے طریق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، اور اور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث مسند احمد ۳/۲۲۰، سے تقویت پاکر صحیح ہے)
۴۰۳۶- ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مکروفریب والے سال آئیں گے، ان میں جھو ٹے کو سچا سمجھا جا ئے گا اور سچے کو جھو ٹا ،خا ئن کو اما نت دا را ور امانت دا رکو خائن، اور اس زما نہ میں رو یبضہ بات کرے گا، آپ ﷺ سے سوال کیا گیا: رویبضہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''حقیر اور کمینہ آدمی، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کر ے گا '' ۔


4037- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ الأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ عَلَى الْقَبْرِ، فَيَتَمَرَّغَ عَلَيْهِ، وَيَقُولَ: يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَكَانَ صَاحِبِ هَذَا الْقَبْرِ، وَلَيْسَ بِهِ الدِّينُ،إِلا الْبَلاءُ " ۔
* تخريج: م/الفتن ۱۸ (۱۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۹۳)، وقد أخرجہ: خ/الفتن ۲۲ (۷۱۱۵)، ط/الجنائز ۱۶ (۵۳) (صحیح)
۴۰۳۷- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک آدمی قبر پرجا کر نہ لو ٹے، اور یہ تمنا نہ کر ے کہ کا ش !اس قبر والے کی جگہ میں دفن ہوتا، اس کا سبب دین وایمان نہیں ہوگا، بلکہ وہ دنیا کی بلا اورفتنے کی وجہ سے یہ تمنا کر ے گا'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مطلب یہ ہے کہ کمینے اور بدمعاش حکمرانی کریں گے انہی کا زمانہ ہوگا،شریف اور اچھے لوگوں کی قدروقیمت نہ ہو گی۔


4038- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ يَعْنِي مَوْلَى مسافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لَتُنْتَقَوُنَّ كَمَا يُنْتَقَى التَّمْرُ مِنْ أَغْفَالِهِ، فَلْيَذْهَبَنَّ خِيَارُكُمْ، وَلَيَبْقَيَنَّ شِرَارُكُمْ، فَمُوتُوا إِنِ اسْتَطَعْتُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۷۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۴) (صحیح)
(سند میں ابو حمید مجہول راوی ہیں ، لیکن اصل حدیث رو یفع بن ثابت کے شاہد سے تقویت پاکر صحیح ہے، جس کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے ، آخری جملہ'' فَمُوتُوا إِنِ اسْتَطَعْتُمْ '' ضعیف ہے، اس لئے کہ اس کا شاہد نہیں ہے)
۴۰۳۸- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تم ایسے چن لئے جا ئو گے جیسے عمدہ کھجوریں ردی کھجوروں میں سے چنی جا تی ہیں،تمہا رے نیک لوگ گزر جا ئیں گے، اور برے لوگ با قی رہ جا ئیں گے، تو اگر تم سے ہوسکے تو تم بھی مرجانا'' ۔


4039- حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجَنَدِيُّ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " لا يَزْدَادُ الأَمْرُ إِلا شِدَّةً، وَلاالدُّنْيَا إِلا إِدْبَارًا، وَلا النَّاسُ إِلا شُحًّا، وَلا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ، وَلا الْمَهْدِيُّ إِلا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۵) (ضعیف جدا)
(سند میں محمد بن خالد الجند ی ضعیف راوی ہیں ، اور حسن بصری مدلس ہیں،اور روایت عنعنہ سے کی ہے ، لیکن '' وَلا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ، '' کا جملہ دوسری حدیث سے ثابت ہے)
۴۰۳۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' دن بہ دن معاملہ سخت ہوتا چلا جا ئے گا، اور دنیاتباہی کی طرف بڑھتی جا ئے گی، اور لوگ بخیل ہو تے جا ئیں گے، اور قیا مت بد ترین لو گوں پرہی قائم ہو گی، اور مہدی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے علاوہ کو ئی نہیں ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
25 - بَاب أَشْرَاطِ السَّاعَةِ
۲۵ - باب: قیا مت کی نشا نیوں کا بیان​


4040- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، وَأَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ،كَهَاتَيْنِ " وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ ۔
* تخريج: خ/الرقاق ۳۹ (۶۵۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۴۷) (صحیح)
۴۰۴۰- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں اور قیا مت دونوں اس طرح بھیجے گئے ہیں''، آپ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر بتایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی امت محمدیہ کے بعد قیامت تک اورکوئی امت حقہ نہ ہوگی اور اسلام ہی کے خاتمہ پر دنیا کا بھی خاتمہ ہے، اس حدیث سے یہ مقصد نہیں ہے کہ مجھ میں اور قیامت میں فاصلہ نہیں ہے جیسا کہ بعضوں نے خیال کیا اور اپنے خیال کی بناء پر یہ اعتراض کیا کہ آپ ﷺ کو وفات کئے ہوئے چودہ سو برس سے زیادہ گزرے لیکن ابھی تک قیامت نہیں ہوئی اور نہ اس کی کوئی بڑی نشانی ظاہر ہوئی ۔


4041- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ قَالَ: اطَّلَعَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ مِنْ غُرْفَةٍ، وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ السَّاعَةَ، فَقَالَ: " لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَكُونَ عَشْرُ آيَاتٍ: الدَّجَّالُ، وَالدُّخَانُ، وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا ".
* تخريج: م/الفتن ۱۳ (۲۹۰۱)، د/الملاحم ۱۲ (۴۳۱۱)، ت/الفتن ۲۱ (۲۱۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۶، ۷) (صحیح)
(یہ حدیث مکرر ہے، اور بہ تمام وکمال: ۴۰۵۵ نمبر پر آرہی ہے )
۴۰۴۱- حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہما ری طرف اپنے کمرے سے جھا نکا، ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' جب تک دس نشا نیا ں ظا ہر نہ ہو جا ئیں گی قیا مت قائم نہ ہوگی، جن میں سے دجال ، دھواں اور سورج کا پچھم سے نکلنا بھی ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس روایت میں صرف تین ہی نشانیاں بیان ہوئی ہیں، یہ حدیث مختصر ہے، پوری روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ہے جسے مولف دو باب کے بعد بیان کریں گے ،اس میں دس نشا نیاں مذکور ہیں ۔


4042- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيُّ، حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، وَهُوَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَهُوَ فِي خِبَائٍ مِنْ أَدَمٍ، فَجَلَسْتُ بِفِنَاءِ الْخِبَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " ادْخُلْ يَا عَوْفُ! " فَقُلْتُ: بِكُلِّي؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " بِكُلِّكَ " ثُمَّ قَالَ: " يَا عَوْفُ! احْفَظْ خِلالا سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ: إِحْدَاهُنَّ مَوْتِي " قَالَ: فَوَجَمْتُ عِنْدَهَا وَجْمَةً شَدِيدَةً، فَقَالَ: " قُلْ: إِحْدَى،ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ دَائٌ يَظْهَرُ فِيكُمْ يَسْتَشْهِدُ اللَّهُ بِهِ ذَرَارِيَّكُمْ وَأَنْفُسَكُمْ، وَيُزَكِّي بِهِ أَعْمَالَكُمْ، ثُمَّ تَكُونُ الأَمْوَالُ فِيكُمْ، حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ، فَيَظَلَّ سَاخِطًا، وَفِتْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ، لا يَبْقَى بَيْتُ مُسْلِمٍ إِلا دَخَلَتْهُ، ثُمَّ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الأَصْفَرِ هُدْنَةٌ، فَيَغْدِرُونَ بِكُمْ، فَيَسِيرُونَ إِلَيْكُمْ فِي ثَمَانِينَ غَايَةٍ، تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا ".
* تخريج: خ/الجزیۃ ۱۵ (۳۱۷۶)، د/الأدب ۹۲ (۵۰۰۰، ۵۰۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۲) (صحیح)
۴۰۴۲- عوف بن ما لک أشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا،آپ غزوہ تبوک میں چمڑے کے ایک خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں خیمے کے صحن میں بیٹھ گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عو ف!اندر آجائو'' ، میں نے عرض کیا: پورے طور سے؟اللہ کے رسول !آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہا ں پو رے طورسے''، پھر آپ نے فرمایا: ''عوف!قیامت سے پہلے چھ نشا نیاں ہوں گی، انہیں یا د رکھنا،ان میں سے ایک میری موت ہے''، میں یہ سن کر بہت رنجیدہ ہو ا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ''کہو ایک ،دوسری بیت المقدس کی فتح ہے، تیسری ایک بیما ری ہے جو تم میں ظاہر ہو گی اس کے ذریعہ اللہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو شہید کر دے گا، اور اس کے ذریعہ تمہا رے اعما ل کو پا ک کر ے گا، چوتھی تم میں مال کی کثرت ہو گی حتی کہ آدمی کو سو دینار ملیں گے تو وہ اس سے بھی را ضی نہ ہو گا ، پا نچویں تمہارے درمیان ایک فتنہ بر پا ہو گا جس سے کو ئی گھر با قی نہ رہے گا جس میں وہ نہ پہنچا ہو ،چھٹی تمہارے اور اہل روم کے درمیان ایک صلح ہو گی ،لیکن پھر وہ لو گ تم سے دغا کر یں گے، اور تمہا رے مقابلہ کے لئے اسّی جھنڈوں کے سا تھ فو ج لے کر آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے با رہ ہز ار فو ج ہو گی'' ۔


4043- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ الدَّرَاوَرْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتُلُوا إِمَامَكُمْ، وَتَجْتَلِدُوا بِأَسْيَافِكُمْ، وَيَرِثُ دُنْيَاكُمْ شِرَارُكُمْ "۔
* تخريج: ت/الفتن ۹ (۲۱۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۹) (ضعیف)
(سند میں عبد اللہ بن عبد الرحمن ا نصاری اور عبد العزیز در اور دی میں کلام ہے )
۴۰۴۳- حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:'' قیا مت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم اپنے امام کو قتل کروگے، اور اپنی تلواریں لے کر باہم لڑوگے، اور تمہا رے بدترین لو گ تمہا ری دنیا کے مالک بن جا ئیں گے''۔


4044- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَتَى السَّاعَةُ؟ فَقَالَ: " مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُخْبِرُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا كَانَتِ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ رُؤُوسَ النَّاسِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْغَنَمِ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، فِي خَمْسٍ لا يَعْلَمُهُنَّ إِلا اللَّهُ "، فَتَلا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ} الآيَةَ۔
* تخريج: خ/الإیمان ۳۸ (۵۰)، م/الإیمان ۱ (۹)، ن/الإیمان ۶ (۴۹۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲۶) (صحیح)
(یہ حدیث نمبر (۶۵) کا ایک ٹکڑا ہے)
۴۰۴۴- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز لوگوں کے پاس باہر بیٹھے ہو ئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آپ کے پاس آیا، اوراس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کر نے والے سے زیا دہ نہیں جا نتا، لیکن میں تمہیںقیامت کی نشا نیاں بتا تا ہوں، جب لو نڈی اپنی مالکہ کوجنے ، تو یہ قیامت کی نشا نیوں میں سے ہے، اور جب ننگے پا ئوں ،ننگے بدن لوگ لوگوں کے سردار بن جا ئیں، تو یہ بھی اس کی نشا نیوں میں سے ہے، اور جب بکریاں چرانے والے عالی شا ن عمارتوں پر فخر کرنے لگ جا ئیں،تو یہ بھی اس کی نشا نیوں میں ہے، اور قیامت کا علم ان پانچ باتوں میں سے ہے جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ} [ سورة لقما ن : 34]. ( اللہ ہی کو معلوم ہے کہ قیامت کب ہوگی، وہی با رش نا ز ل کر تا ہے، وہی جا نتا ہے کہ ما ں کے پیٹ میں کیا ہے) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اللہ تعالی ہی کو قیامت کا وقت معلوم ہے، وہی پانی برساتا ہے ، وہی جانتا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے اور کسی آدمی کو معلوم نہیں کل وہ کیا کرے گا اور کہاں مرے گا ، بس یہ باتیں غیب مطلق ہیں ان کا علم اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے ،اور جو کوئی دعوے کرے کہ کسی نبی یا ولی کو علم غیب ہے وہ تو کافر ہے، قرآن کی بہت ساری آیتوں میں صاف صاف یہ مضمون ہے کہ اے محمد کہئے: میں غیب نہیں جانتا ۔


4045- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: أَلا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لا يُحَدِّثُكُمْ بِهِ أَحَدٌ بَعْدِي، سَمِعْتُهُ مِنْهُ: " إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ، وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ، وَيَفْشُوَ الزِّنَا، وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ، وَيَذْهَبَ الرِّجَالُ، وَيَبْقَى النِّسَاءُ، حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً، قَيِّمٌ وَاحِدٌ "۔
* تخريج: خ/العلم ۲۱ (۸۱)، م/العلم ۵ (۲۶۷۱)، ت/الفتن ۳۴ (۲۲۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۹۸، ۱۸۶، ۲۰۲، ۲۷۳، ۲۷۷) (صحیح)
۴۰۴۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تم سے وہ حدیث نہ بیا ن کر وں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، اور میرے بعد تم سے وہ حدیث کو ئی بیان کرنے والا نہیں ہوگا، میں نے اسے آپ ہی سے سنا ہے کہ'' قیامت کی نشانیاں یہ ہیں کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت پھیل جا ئے گی، زنا عام ہو جا ئے گا، شراب پی جا نے لگے گی، مرد کم ہوجائیں گے، عو رتیں زیا دہ ہوں گی حتی کہ پچا س عورتوں کا قیم ( سرپرست و کفیل) ایک مرد ہو گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اس وقت لڑائیاںبہت ہوںگی ان لڑائیوںمیںمردمارے جائیں گے اورعورتیںبکثرت باقی رہ جائیں گی ۔


4046- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَحْسُرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَيَقْتَتِلُ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ عَشَرَةٍ تِسْعَةٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۹۸، ومصباح الزجاجۃ : ۱۴۲۶)، وقد أخرجہ :خ/الفتن ۲۴ (۷۱۱۹)، م/الفتن ۸ (۲۸۹۴)، د/الملاحم ۱۳ (۴۳۱۳)، ت/صفۃ الجنۃ ۲۶ (۲۵۶۹)، حم (۲/۲۶۱، ۳۳۲، ۳۶۰) (حسن صحیح)
(''من کل عشرۃ تسعۃ '' کا لفظ ضعیف اور شاذ ہے، ''من کل مئۃ تسعۃ وتسعون '' کا لفظ محفوظ ہے)۔
۴۰۴۶- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت اس وقت تک قا ئم نہ ہو گی جب تک دریائے فرات میں سو نے کے پہا ڑ نہ ظاہر ہو جا ئیں، اور لو گ اس پر با ہم جنگ کر نے لگیں، حتی کہ دس آدمیوں میں سے نو قتل ہو جا ئیں گے، اور ایک باقی رہ جا ئے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دوسری روایت میں ہے کہ ہر سومیں سے ننانوے مارے جائیں گے اور ہر شخص کہے گاکہ شاید میں بچ رہوں اور سونے کے اس پہاڑ کولوں اور لڑے گا، مثل مشہور ہے : ایسے سونے پر لعنت جس سے کان پھٹے ،مگر دنیا کے طماع اور لالچی یہ کہاں سمجھتے ہیں، ایک پیسہ کے لئے جان دینے کو تیار ہیں حالانکہ جان ہے تو جہان ہے،صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ جب یہ خزانہ نمودارہوتو جووہاںموجودہواس میں سے کچھ نہ لے ، واضح رہے کہ اس خزانے کے حصول کے لیے بہت قتل وغارت ہوگی ، ہرشخص یہی چاہے گا کہ یہ خزانہ اسی کو ملے۔


4047- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَفِيضَ الْمَالُ، وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ، وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ " قَالُوا: وَمَا الْهَرْجُ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: "الْقَتْلُ، الْقَتْلُ الْقَتْلُ " ثَلاثًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۷)، وقد أخرجہ: خ/العلم ۲۴ (۸۳)، الفتن ۲۵ (۷۱۲۱)، م/الزکاۃ ۱۸ (۱۵۷)، حم (۲/۲۳۳، ۴۱۷) (صحیح)
۴۰۴۷- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''قیامت اس وقت تک قا ئم نہ ہوگی، جب تک مال کی خوب فراوانی نہ ہو جا ئے، اور فتنہ عام نہ ہو جائے، '' ہرج '' کثرت سے ہو نے لگے ،لو گوں نے عرض کیا :اللہ کے رسول!ہر ج کیاہے؟ آپ ﷺ نے تین با ر فرمایا:'' قتل، قتل، قتل''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
26-بَاب ذَهَابِ الْقُرْآنِ وَالْعِلْمِ
۲۶- باب: قرآ ن اور علم ( حدیث )کا دنیا سے اٹھ جا نا قیامت کا نشانی ہے​


4048- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ ﷺ شَيْئًا، فَقَالَ: " ذَاكَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَائَنَا وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَائَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: " ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ، زِيَادُ! إِنْ كُنْتُ لأَرَاكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ، أَوَ لَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى يَقْرَئُونَ التَّوْرَاةَ وَالإِنْجِيلَ، لا يَعْمَلُونَ بِشَيْئٍ مِمَّا فِيهِمَا؟ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۵۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۰، ۲۱۹) (صحیح)
(سند میں سالم بن أبی الجعد اور زیادبن لبیدکے مابین انقطاع ہے ، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: (اقتضاء العلم العمل : ۱۸۹/۸۹ و العلم لابی خیثمۃ : ۱۲۱/۵۲، و المشکاۃ : ۲۴۵ - ۲۷۷)
۴۰۴۸- زیا د بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کسی بات کا ذکر کیا اورفرمایا:'' یہ اس وقت ہو گا جب علم اٹھ جا ئے گا''، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !علم کیسے اٹھ جا ئے گا جب کہ ہم قرا ٓن پڑھتے اور اپنی اولاد کو پڑ ھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولا د کو پڑھائے گی اسی طرح قیامت تک سلسلہ چلتا رہے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' زیا د! تمہاری ماں تم پر روئے ، میں تو تمہیں مدینہ کا سب سے سمجھدار آدمی سمجھتا تھا، کیا یہ یہو دو نصا ری تو را ت اور انجیل نہیں پڑ ھتے؟ لیکن ان میں سے کسی بات پر بھی یہ لو گ عمل نہیں کر تے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بلکہ اپنے پادریوں اور مولویوں کے تابع ہیں ان کی رائے پر چلتے ہیں ، یا عقلی قانون بناتے ہیں، اس پر چلتے ہیں، کتاب الٰہی کوئی نہیں پوچھتا ،مقلدین حضرات جو احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ائمہ کے اقوال سے چمٹے ہوئے ہیں، وہ اس حدیث پر غور فرما ئیں ۔


4049- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَدْرُسُ الإِسْلامُ كَمَا يَدْرُسُ وَشْيُ الثَّوْبِ، حَتَّى لا يُدْرَى مَا صِيَامٌ وَلا صَلاةٌ وَلا نُسُكٌ وَلا صَدَقَةٌ، وَلَيُسْرَى عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي لَيْلَةٍ، فَلا يَبْقَى فِي الأَرْضِ مِنْهُ آيَةٌ، وَتَبْقَى طَوَائِفُ مِنَ النَّاسِ، الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْعَجُوزُ، يَقُولُونَ: أَدْرَكْنَا آبَائَنَا عَلَى هَذِهِ الْكَلِمَةِ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ،فَنَحْنُ نَقُولُهَا "، فَقَالَ لَهُ صِلَةُ: مَا تُغْنِي عَنْهُمْ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَهُمْ لا يَدْرُونَ مَا صَلاةٌ وَلا صِيَامٌ وَلا نُسُكٌ وَلا صَدَقَةٌ؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ حُذَيْفَةُ،ثُمَّ رَدَّهَا عَلَيْهِ ثَلاثًا، كُلَّ ذَلِكَ يُعْرِضُ عَنْهُ حُذَيْفَةُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فِي الثَّالِثَةِ، فَقَالَ: يَا صِلَةُ! تُنْجِيهِمْ مِنَ النَّارِ، ثَلاثًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۹) (صحیح)
۴۰۴۹- حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اسلام ایسا ہی پر انا ہو جا ئے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگا ر پر انے ہو جاتے ہیں، حتی کہ یہ جاننے والے بھی با قی نہ رہیں گے کہ صلاۃ ،صوم، قربا نی اور صدقہ وزکاۃ کیا چیز ہے ؟اور کتاب اللہ ایک را ت میں ایسی غا ئب ہو جا ئے گی کہ اس کی ایک آیت بھی با قی نہ رہ جا ئے گی ۱ ؎ ، اور لوگوں کے چند گروہ ان میں سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں باقی رہ جائیں گے، کہیں گے کہ ہم نے اپنے با پ دادا کو یہ کلمہ '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کہتے ہوئے پایا، تو ہم بھی اسے کہا کر تے ہیں ۲؎ ۔
صلہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جب انہیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ صلاۃ ، صوم، قربا نی اور صدقہ وزکاۃ کیا چیز ہے تو انہیں فقط یہ کلمہ '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کیا فا ئدہ پہنچا ئے گا؟ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان سے منہ پھیرلیا، پھر انہوں نے تین بار یہ بات ان پر دہرائی لیکن وہ ہر بار ان سے منہ پھیر لیتے، پھر تیسر ی مرتبہ ان کی طر ف متوجہ ہو ئے اور فرمایا: اے صلہ !یہ کلمہ ان کو جہنم سے نجا ت دے گا ، اس طرح تین با ر کہا ۳؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اس کے حروف غائب ہو جا ئیں گے اورحافظ تو پہلے ہی چلے جا ئیں گے۔
وضاحت ۲ ؎ : با قی دین کی اور کو ئی بات انہیں معلوم نہ ہو گی ۔
وضاحت ۳ ؎ : کیونکہ وہ لوگ دین کی اور باتوں کے منکر نہ ہوں گے صرف اسے ناواقف ہوں گے اور ناواقف آدمی کو نجات کے لئے صرف توحید کافی ہے۔


4050- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَكُونُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ أَيَّامٌ، يُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ، وَيَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ، وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ " وَالْهَرْجُ: الْقَتْلُ ۔
* تخريج: خ/الفتن ۵ (۷۰۶۲، ۷۰۶۳)، م/العلم ۱۴ (۲۶۷۲)، ت/الفتن ۱۳ (۲۲۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۰۰، ۹۲۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۹، ۴۰۲، ۴۰۵، ۴۵۰، ۴/۳۹۲، ۴۰۵) (صحیح)
۴۰۵۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے قریب کچھ دن ایسے ہوں گے جن میں علم اٹھ جا ئے گا ،جہا لت بڑھ جا ئے گی، اور ہر ج زیا دہ ہو گا'' ،ہر ج : قتل کو کہتے ہیں ۔


4051- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا، يَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ، وَيُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ، وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ: " الْقَتْلُ "۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۰۵۱- ابو مو سی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہا رے بعد ایسے دن آئیں گے جن میں جہا لت چھاجائے گی، علم اٹھ جا ئے گا، اور ہر ج زیا دہ ہوگا''، لوگوں نے عر ض کیا : اللہ کے رسول !ہر ج کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''قتل''۔


4052- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَرْفَعُهُ قَالَ: " يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ، وَيَنْقُصُ الْعِلْمُ، وَيُلْقَى الشُّحُّ، وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ، وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ: " الْقَتْلُ "۔
* تخريج: خ/الفتن ۵ (۷۰۶۱)، م/العلم ۷۲ (۱۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۳) (صحیح)
۴۰۵۲- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:'' زمانہ ایک دوسرے سے قریب ہو جا ئے گا، ۱؎ علم گھٹ جائے گا، (لوگوں کے دلوں میں) بخیلی ڈال دی جا ئے گی، فتنے ظاہر ہوں گے، اور ہرج زیادہ ہو گا''،لو گوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہر ج کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' قتل''۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی عیش و عشرت یا بے برکتی کی وجہ سے زمانہ جلدی گزرجائے گا ،یا عمریں چھوٹی ہوں گی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
27- بَاب ذَهَابِ الأَمَانَةِ
۲۷- باب: اما نت کے ختم ہوجا نے کا بیان​


4053- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَدِيثَيْنِ: قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الآخَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا: " أَنَّ الأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ " (قَالَ الطَّنَافِسِيُّ: يَعْنِي: وَسْطَ قُلُوبِ الرِّجَالِ)، وَنَزَلَ الْقُرْآنُ، فَعَلِمْنَا مِنَ الْقُرْآنِ وَعَلِمْنَا مِنَ السُّنَّةِ، ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا فَقَالَ: " يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُرْفَعُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا كَأَثَرِ الْوَكْتِ، وَيَنَامُ النَّوْمَةَ، فَتُنْزَعُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا كَأَثَرِ الْمَجْلِ، كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا، وَلَيْسَ فِيهِ شَيْئٌ " ثُمَّ أَخَذَ حُذَيْفَةُ كَفًّا مِنْ حَصًى، فَدَحْرَجَهُ عَلَى سَاقِهِ، قَالَ: " فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ وَلا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ، حَتَّى يُقَالَ: إِنَّ فِي بَنِي فُلانٍ رَجُلا أَمِينًا، وَحَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ: مَا أَعْقَلَهُ! وَأَجْلَدَهُ! وَأَظْرَفَهُ! وَمَا فِي قَلْبِهِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ " وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ، وَلَسْتُ أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ، لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ إِسْلامُهُ، وَلَئِنْ كَانَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ، فَمَا كُنْتُ لأُبَايِعَ إِلا فُلانًا وَفُلانًا۔
* تخريج: خ/الرقاق ۳۵ (۶۴۹۷)، م/الإیمان ۶۴ (۱۴۳)، ت/الفتن ۱۷ (۲۱۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۳، ۳۸۴، ۴۰۳) (صحیح)
۴۰۵۳- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں ،جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظرہوں، آپ ﷺ نے ہم سے یہ بیان فرمایا :''امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہو ئی )، (طنا فسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نا زل ہوا ،تو ہم نے قرآن وسنت کی تعلیم حا صل کی ۲ ؎ ، پھر آپ ﷺ نے امانت کے اٹھ جا نے کے متعلق ہم سے بیان کیا،آپ ﷺ نے فرمایا:'' آدمی را ت کو سوے گا تو اما نت اس کے دل سے اٹھا لی جا ئے گی، ( اور جب وہ صبح کو اٹھے گا تو) امانت کا اثر ایک نقطے کی طرح دل میں رہ جا ئے گا، پھر جب دوسری با ر سوے گا تو اما نت اس کے دل سے چھین لی جا ئے گی، تو اس کا اثر ( اس کے دل میں ) کھال موٹا ۲؎ ہو نے کی طرح رہ جا ئے گا، جیسے تم انگار ے کو پا ئوں پر لڑھکا دو تو کھال پھول کر آبلے کی طرح دکھائی دے گی، حالا نکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا''، پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور انہیں اپنی پنڈلی پرلڑھکالیا، اور فرمانے لگے:'' پھر لوگ صبح کوایک دوسرے سے خرید وفروخت کریں گے، لیکن ان میں سے کو ئی بھی امانت دا ر نہ ہو گا، یہاں تک کہ کہاجائے گا کہ فلاں قبیلے میں فلا ںامانت د ارشخص ہے، اور یہاں تک آدمی کو کہا جا ئے گاکہ کتنا عقل مند ، کتنا توانا اور کتنا ذ ہین وچالاک ہے، حالا نکہ اس کے دل میں را ئی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا، اور مجھ پر ایک زمانہ ایسا گزرا کہ مجھے پر وا نہ تھی کہ میں تم میں سے کس سے معاملہ کروں ،یعنی مجھے کسی کی ضمانت کی حا جت نہ تھی، اگر وہ مسلمان ہو تا تو اس کا اسلام اسے مجھ پرزیادتی کرنے سے روکتا، اور اگر وہ یہودی یا نصرا نی ہو تا تو اس کا گما شتہ بھی انصاف سے کام لیتا (یعنی ان کے عامل اور عہدہ داربھی ایما ندا ر اور منصف ہو تے) اور اب آج کے دن مجھے کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتاکہ میں اس سے معاملہ کر وںسوائے فلاں فلا ں کے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اس کا ظہور ہو گیا ۔
وضاحت ۲ ؎ : جس سے ایما ندا ری اور بڑھ گئی، مطلب یہ ہے کہ ایماندا ری کی صفت بعض دلوں میں فطری طور پر ہو تی ہے اور کتا ب و سنت حاصل کر نے سے اور بڑھ جا تی ہے۔
وضاحت ۳ ؎ : جیسے پھوڑا اچھا ہوجاتا ہے ، لیکن جلد کی سختی ذراسی رہ جاتی ہے، اور یہ درجہ اول سے بھی کم ہے، اول میں تو ایک نقطہ کے برابر امانت رہ گئی تھی یہاں اتنی بھی نہ رہی صرف نشان رہ گیا ۔


4054- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، عَنْ أَبِي شَجَرَةَ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ عَبْدًا نَزَعَ مِنْهُ الْحَيَاءَ، فَإِذَا نَزَعَ مِنْهُ الْحَيَاءَ، لَمْ تَلْقَهُ إِلا مَقِيتًا مُمَقَّتًا، فَإِذَا لَمْ تَلْقَهُ إِلا مَقِيتًا مُمَقَّتًا، نُزِعَتْ مِنْهُ الأَمَانَةُ، فَإِذَا نُزِعَتْ مِنْهُ الأَمَانَةُ، لَمْ تَلْقَهُ إِلا خَائِنًا مُخَوَّنًا، فَإِذَا لَمْ تَلْقَهُ إِلا خَائِنًا مُخَوَّنًا، نُزِعَتْ مِنْهُ الرَّحْمَةُ، فَإِذَا نُزِعَتْ مِنْهُ الرَّحْمَةُ، لَمْ تَلْقَهُ إِلا رَجِيمًا مُلَعَّنًا، فَإِذَا لَمْ تَلْقَهُ إِلا رَجِيمًا مُلَعَّنًا، نُزِعَتْ مِنْهُ رِبْقَةُ الإِسْلامِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۰) (موضوع)
(سند میں سعید بن سنان متروک راوی ہے ، اور دارقطنی وغیرہ نے وضع حدیث کا اتہام لگایا ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۳۰۴۴)
۴۰۵۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''اللہ تعالی جب کسی بندے کو ہلا ک کرنا چا ہتا ہے تو اس سے شرم وحیا ء کو نکال لیتا ہے، پھر جب حیا اٹھ جا تی ہے توا للہ کے قہر میں گرفتا ر ہو جا تا ہے، اور اس حالت میںاس کے دل سے امانت بھی چھین لی جا تی ہے، اور جب اس کے دل سے اما نت چھین لی جا تی ہے تو وہ چو ری اورخیا نت شروع کر دیتا ہے، اور جب چوری اور خیانت شروع کر دیتا ہے تو اس کے دل سے رحمت چھین لی جا تی ہے، اور جب اس سے رحمت چھین لی جا تی ہے تو تم اسے ملعون ومردود پائوگے، اور جب تم ملعون و مردود دیکھو تو سمجھ لو کہ اسلام کاقلادہ اس کی گردن سے نکل چکا ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
28- بَاب الآيَاتِ
۲۸- باب: قیامت کی نشانیوں کا بیان​


4055- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ أَبِي الطُّفَيْلِ الْكِنَانِيِّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ أَبِي سَرِيحَةَ قَالَ: اطَّلَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ غُرْفَةٍ وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ السَّاعَةَ،فَقَالَ: " لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَكُونَ عَشْرُ آيَاتٍ: طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مغْرِبِهَا، وَالدَّجَّالُ، وَالدُّخَانُ، وَالدَّابَّةُ، وَيَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَخُرُوجُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلام، وَثَلاثُ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدَنِ أَبْيَنَ، تَسُوقُ النَّاسَ إِلَى الْمَحْشَرِ، تَبِيتُ مَعَهُمْ إِذَا بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ إِذَا قَالُوا "۔
* تخريج: أنظرحدیث (رقم: ۴۰۴۱) (صحیح)
۴۰۵۵- حذیفہ بن أسید ابو سر یحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دن ) اپنے کمرے سے جھا نکا،اور ہم آپس میں قیا مت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت اس وقت تک قا ئم نہ ہو گی جب تک دس نشانیا ں ظا ہر نہ ہوں : سو رج کا پچھم سے نکلنا ،دجا ل ، دھو اں،دا بۃ الارض (چوپایا) ، یا جو ج ما جو ج ، عیسی بن مر یم علیہ السلام کانزول ، تین با ر زمین کا خسف (دھنسنا) : ایک مشرق میں ایک مغرب میں اور ایک جز یر ۃ العرب میں ،ایک آگ عدن کے، ایک گا ئو ں ''أبین''کے کنو یں سے ظاہر ہوگی جو لو گوں کومحشر کی جا نب ہانک کر لے جا ئے گی، جہاں یہ لو گ رات گزاریں گے تو وہیں وہ آگ ان کے ساتھ رات گزارے گی، اور جب یہ قیلو لہ کریں گے تو وہ آگ بھی ان کے ساتھ قیلو لہ کر ے گی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ آگ ساری دنیا میں پھیل جا ئے گی اوراس سے کافروں کی سانس رک جائے گی، اور مسلمانوں کو زکام کی حالت پیدا ہوجائے گی، اور یہ نشانی ابھی ظاہر نہیں ہوئی، قیامت کے قریب ہوگی ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ نشانی ظاہر ہو گئی اورآیت میں اسی کا ذکر ہے: { يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاء بِدُخَانٍ مُّبِينٍ} [سورة الدخان : 10] اور یہ دھواں قریش پر آیا تھا، ان پر قحط پڑا تھا اور آسمان میں دھواں سا معلوم ہو تا تھا۔


4056- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ سِتًّا: طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَالدُّخَانَ، وَدَابَّةَ الأَرْضِ، وَالدَّجَّالَ، وَخُوَيْصَّةَ أَحَدِكُمْ، وَأَمْرَ الْعَامَّةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۱) (حسن صحیح)
(سنان بن سعیدیہ سعد بن سنان کندی مصری ہیں صدوق ہیں، اس لئے یہ سند حسن ہے لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۷۵۹)
۴۰۵۶- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' چھ چیزوں کے ظا ہر ہو نے سے پہلے تم نیک اعمال میں جلدی کرو: سو رج کا مغرب سے نکلنا ، دھو اں،دا بۃ الا رض(چو پایا) ،دجال ، ہر شخص کی خاص آفت ( یعنی موت)، عام آفت (جیسے وبا ء وغیرہ)''۔


4057- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ عُمَارَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى بْنِ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۷۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۲) (موضوع)
(سند میں عون بن عمارہ ضعیف، اور عبد اللہ بن المثنیٰ صدوق اور کثیر الغلط ہیں، ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں داخل کیا ہے ، ان کی سند میں محمد بن یونس کدیمی نے عون سے روایت کی ہے، جن پر اس حدیث کے وضع کا اتہام لگایا گیا ہے )
۴۰۵۷- ابو قتا دہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' (قیامت کی) نشا نیا ں دو سو سا ل کے بعد ظا ہر ہوں گی''۔


4058- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَعْقِلٍ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " أُمَّتِي عَلَى خَمْسِ طَبَقَاتٍ: فَأَرْبَعُونَ سَنَةٍ أَهْلُ بِرٍّ وَتَقْوَى، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةِ سَنَةٍ، أَهْلُ تَرَاحُمٍ وَتَوَاصُلٍ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، إِلَى سِتِّينَ وَمِائَةِ سَنَةٍ، أَهْلُ تَدَابُرٍ وَتَقَاطُعٍ، ثُمَّ الْهَرْجُ الْهَرْجُ، النَّجَا النَّجَا ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۳) (ضعیف)
(سند میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف راوی ہیں)
۴۰۵۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت پا نچ طبقات پر مشتمل ہو گی: چالیس سا ل نیکوکا روں اور متقیوں کے ہوں گے، پھر ان کے بعد ایک سوسال تک صلہ رحمی کر نے والے اور رشتے ناطے کا خیال رکھنے والے ہوں گے، پھر ان کے بعد ایک سو سا ٹھ سال تک وہ لو گ ہوں گے جو رشتہ نا طہ تو ڑ یں گے، اور ایک دوسرے کی طرف سے منہ مو ڑیں گے، پھرا س کے بعد قتل ہی قتل ہو گا ، لہٰذ ا تم ایسے زما نے سے نجا ت ما نگو ،نجا ت مانگو''۔


4058/أ- نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَازِمٌ أَبُو مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ، حَدَّثَنَا الْمِسْوَرُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مَعْنٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أُمَّتِي عَلَى خَمْسِ طَبَقَاتٍ: كُلُّ طَبَقَةٍ أَرْبَعُونَ عَامًا، فَأَمَّا طَبَقَتِي وَطَبَقَةُ أَصْحَابِي، فَأَهْلُ عِلْمٍ وَإِيمَانٍ، وَأَمَّا الطَّبَقَةُ الثَّانِيَةُ، مَا بَيْنَ الأَرْبَعِينَ، إِلَى الثَّمَانِينَ، فَأَهْلُ بِرٍّ وَتَقْوَى " ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۴) (ضعیف)
(سندمیں ابو معن، مسور ، اور خازم ا لعنز ی سب مجہول ہیں ، ابو حاتم نے حدیث کو باطل قرار دیا ہے)
۴۰۵۸/أ- اس سند سے بھی انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت کے پا نچ طبقے ہو ں گے، اور ہر طبقہ چالیس برس کا ہو گا، میرا اور میرے صحا بہ کا طبقہ تو اہل علم اور اہل ایمان کا ہے ،اور دوسرا طبقہ چا لیس سے لے کر اسی تک اہل بر اور اہل تقوی کا طبقہ ہے''، پھر راوی نے سا بقہ حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
29-بَاب الْخُسُوفِ
۲۹- باب: زمین کے دھنسنے کا بیان​


4059- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ سَلْمَانُ، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ طَارِقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ مَسْخٌ وَخَسْفٌ وَقَذْفٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۲۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۵) (صحیح)
(سند میں سیار ابو الحکم اور طارق بن شہاب کے مابین انقطاع ہے لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے ، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۱۷۸۷)
۴۰۵۹- عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' قیامت سے پہلے مسخ، (صورتوں کی تبدیلی ہونا) زمین کا دھنسنا، اور آسمان سے پتھر وں کی بارش ہوگی ''۔


4060- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: " يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۰۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۶) (صحیح)
(سند میں عبد الرحمن بن زید ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۴؍ ۳۹۴)
۴۰۶۰- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرما تے سنا :'' میری امت کے اخیر میں زمین کا دھنسنا، صورتوں کا مسخ ہونا ،اور آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہوگا ''۔


4061- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلا أَتَى ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ: إِنَّ فُلانًا يُقْرِئُكَ السَّلامَ، قَالَ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ، فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ، فَلا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلامَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " يَكُونُ فِي أُمَّتِي (أَوْ فِي هَذِهِ الأُمَّةِ) مَسْخٌ وَخَسْفٌ وَقَذْفٌ " وَذَلِكَ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ.
* تخريج: د/السنۃ ۷ (۴۶۱۳)، ت/القدر ۱۶ (۲۱۵۲)، تحفۃ الأشراف: ۷۶۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۰۸، ۱۳۶) (حسن)
(سند میں ابو صخر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے)
۴۰۶۱- نا فع سے روا یت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص نے آکر کہا: فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے، انہوں نے کہا: مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس نے دین میں بدعت نکالی ہے، اگر اس نے ایسا کیا ہوتو اسے میرا سلام نہ کہنا، کیونکہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرما تے سنا ہے:'' میر ی امت میں( یا اس امت میں) مسخ (صورتوں کی تبدیلی )، اورزمین کا دھنسنا آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہوگا '' ، اور یہ قدریہ میں ہوگا جو تقدیر کے منکر ہیں ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جو تقدیر کے منکر ہیں، ان کا نام تقدیر کے انکارکی وجہ سے قدریہ پڑا ۔


4062- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَكُونُ فِي أُمَّتِي خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ،، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۳) (صحیح)
(سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ابن معین نے کہا کہ ابو الزبیر کا سماع ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے ، نیز ملاحظہ ہو الصحیحہ : ۴؍۳۹۴)
۴۰۶۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت میں زمین کا دھنسنا ، صورتوں کا مسخ ہونا ، اور آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہوگا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
30- بَاب جَيْشِ الْبَيْدَاءِ
۳۰- باب: بیدا ء کے لشکر کا بیان​


4063- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، سَمِعَ جَدَّهُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ صَفْوَانَ يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " لَيَؤُمَّنَّ هَذَا الْبَيْتَ جَيْشٌ يَغْزُونَهُ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الأَرْضِ، خُسِفَ بِأَوْسَطِهِمْ، وَيَتَنَادَى أَوَّلُهُمْ آخِرَهُمْ، فَيُخْسَفُ بِهِمْ، فَلا يَبْقَى مِنْهُمْ إِلا الشَّرِيدُ الَّذِي يُخْبِرُ عَنْهُمْ " فَلَمَّا جَاءَ جَيْشُ الْحَجَّاجِ، ظَنَنَّا أَنَّهُمْ هُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ: أَشْهَدُ عَلَيْكَ أَنَّكَ لَمْ تَكْذِبْ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَنَّ حَفْصَةَ لَمْ تَكْذِبْ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ۔
* تخريج: ن/المناسک ۱۱۲ (۲۸۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۹۹)، وقد أخرجہ: م/الفتن ۲ (۲۸۸۳)، حم (۶/۲۸۶) (صحیح)
۴۰۶۳- عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا :'' ایک لشکر اس بیت اللہ کا قصد کرے گا تا کہ اہل مکہ سے لڑا ئی کرے، لیکن جب وہ لشکر مقام بیدا ء میں پہنچے گا تو اس کے درمیانی حصہ کو زمین میں دھنسا دیا جا ئے گا، اور دھنستے وقت جو لو گ آ گے ہوں گے وہ پیچھے والوں کو آواز دیں گے لیکن آواز دیتے دیتے سب دھنس جائیں گے، ایک قا صد کے علاوہ ان میں سے کو ئی با قی نہ رہے گا جو لو گوں کو جا کر خبر دے گا'' ۔
(عبداللہ بن صفو ان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) جب حجا ج ( بن یو سف ثقفی ) کا لشکر آیا ( اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے لڑنے کے لئے مکہ کی طرف بڑھا ) تو ہم سمجھے شا ید وہ یہی لشکر ہو گا، ایک شخص نے ( یہ سن کر ) کہا: میں گو اہی دیتا ہوں کہ آپ نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر جھو ٹ نہیں با ند ھا، اور ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم ﷺ پر جھوٹ نہیں با ندھا '' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی حجاج بن یوسف کا لشکراگرچہ وہ لشکرنہیں ہے کہ جس کا حدیث میں ذکرہوامگروہ قیامت سے پہلے پہلے مکہ پرحملہ آورضرورہوگا، پھران کا ایک حصہ زمین میں دھنسایا بھی ضرورجائے گا اوروہ دجال کا لشکرہوگا۔


4064- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْمُرْهِبِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ صَفِيَّةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لايَنْتَهِي النَّاسُ عَنْ غَزْوِ هَذَا الْبَيْتِ، حَتَّى يَغْزُوَ جَيْشٌ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ (أَوْ بَيْدَاءَ مِنَ الأَرْضِ) خُسِفَ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، وَلَمْ يَنْجُ أَوْسَطُهُمْ ".
قُلْتُ: فَإِنْ كَانَ فِيهِمْ مَنْ يُكْرَهُ؟ قَالَ: " يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمْ "۔
* تخريج: ت/الفتن ۳۱ (۲۱۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۳۶، ۳۳۷) (صحیح)
(سند میں مسلم بن صفوان مجہول راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۴۰۶۴- ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا:'' لو گ اللہ کے اس گھر پرحملہ کر نے سے با ز نہ آئیں گے حتی کہ ایک لشکر لڑنے کے لئے آئے گا، جب وہ لو گ مقام بیدا ء یا بیداء کی سر زمین میں پہنچیں گے، تواول سے لے کر اخیر تک تما م زمین میں دھنسا دیئے جا ئیں گے، اور ان کے درمیان والے بھی نہیں بچیں گے''۔
میں نے عر ض کیا: اگران میں سے کوئی ایسا بھی ہو جسے زبر دستی اس لشکر میں شا مل کیا گیا ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالی قیا مت کے دن انہیں اپنی اپنی نیت کے مو افق اٹھا ئے گا''۔


4065- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْحَمَّالُ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ يُخْبِرُ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: ذَكَرَ النَّبِيُّ ﷺ الْجَيْشَ الَّذِي يُخْسَفُ بِهِمْ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَعَلَّ فِيهِمُ الْمُكْرَهَ؟ قَالَ: " إِنَّهُمْ يُبْعَثُونَ عَلَى نِيَّاتِهِمْ "۔
* تخريج: ت/الفتن ۱۰ (۲۱۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۸۹) (صحیح)
۴۰۶۵- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس لشکر کا ذکر فرمایا جو زمین میں دھنسا دیا جا ئے گا توام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:'' اللہ کے رسول !شا ید ان میں کو ئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی لا یا گیا ہو ؟''آپ ﷺ نے فرمایا:'' وہ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھا ئے جائیں گے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
31- بَاب دَابَّةِ الأَرْضِ
۳۱- باب: (قرب قیامت )دا بۃ الا رض (چوپایہ کے نکلنے)کا بیان​


4066- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "تَخْرُجُ الدَّابَّةُ وَمَعَهَا خَاتَمُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، وَعَصَا مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ، عَلَيْهِمَا السَّلام، فَتَجْلُو وَجْهَ الْمُؤْمِنِ بِالْعَصَا، وَتَخْطِمُ أَنْفَ الْكَافِرِ بِالْخَاتِمِ، حَتَّى أَنَّ أَهْلَ الْحِوَاءِ لَيَجْتَمِعُونَ، فَيَقُولُ هَذَا: يَا مُؤْمِنُ! وَيَقُولُ هَذَا: يَاكَافِرُ! ".
* تخريج: ت/تفسیر القرآن ۲۸ (۳۱۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۴۵، ۴۹۱، ۴۹۶) (ضعیف)
(سند میں علی بن زید ضعیف اور اوس بن خالد مجہول راوی ہیں)
۴۰۶۶- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' زمین سے ایک جا نور نکلے گا، اس کے سا تھ سلیمان بن دا ود علیہما السلام کی انگوٹھی اور مو سی بن عمران علیہ السلام کا عصا ہو گا، اس عصا (چھڑی) سے وہ مو من کا چہرہ روشن کر دے گا، اور انگو ٹھی سے کا فر کی ناک پر نشا ن لگائے گا، حتی کہ جب ایک محلہ کے لو گ جمع ہو ں گے تویہ کہے گا : اے مومن!اور وہ کہے گا : اے کا فر ! '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی مومن اور کافرنشان کی وجہ سے معلوم ہو جائیں گے تو ہر ایک شخص مومن کو ایمان کا نشان دیکھ کرمومن کے لقب سے پکارے گا اور کافر کو کفر کا نشان دیکھ کر کافر کہہ کر پکارے گا ، غرض اس وقت ایمان اور کفر چھپا نہ رہے گا، حقیقت میں جانور کی صورت میں دابۃ الارض ایک فرشتہ ہوگا، جو صفا پہاڑ ی سے نمودار ہوگا ، بعضوں نے کہاکہ اس کی لمبائی ساٹھ ہاتھ کی ہوگی اور عجب الخلقت ہوگا، ہر ایک جانور کی کچھ کچھ مشابہت اس میں ہوگی اور اللہ تعالی کی قدرت کے سامنے یہ امر بہت آسان ہے ، ہمارے زمانہ میں بہت سارے بچے عجیب الخلقت پیدا ہوتے ہیں، تو فرشتے کا ایک عجیب صورت میں ظاہر ہونا کیا مشکل ہے،اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ۔
[ز] 4066/أ- قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ: حَدَّثَنَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَقَالَ فِيهِ مَرَّةً، فَيَقُولُ هَذَا: يَامُؤْمِنُ! وَهَذَا: يَا كَافِرُ! ۔۴۰۶۶/أ - اس سند سے بھی حماد بن سلمہ نے اس طرح کی روایت ذکر کی ہے اور اس میں ایک بار یہ ہے کہ وہ کہے گا: '' اے مو من! اور یہ (کہے گا ): اے کافر!( اس سند میں ''هذا يا كافر''کے ساتھ''يقول'' کا لفظ نہیں ہے )۔


4067- حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، زُنَيْجٌ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: ذَهَبَ بِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى مَوْضِعٍ بِالْبَادِيَةِ، قَرِيبٍ مِنْ مَكَّةَ، فَإِذَا أَرْضٌ يَابِسَةٌ، حَوْلَهَا رَمْلٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مِنْ هَذَا الْمَوْضِعِ " فَإِذَا فِتْرٌ فِي شِبْرٍ .
قَالَ ابْنُ بُرَيْدَةَ: فَحَجَجْتُ بَعْدَ ذَلِكَ بِسِنِينَ،فَأَرَانَا عَصًا لَهُ،فَإِذَا هُوَ بِعَصَايَ هَذِهِ، هَكَذَا وَهَكَذَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۷) (ضعیف جدّاً)
(سند میں خالد بن عبید متروک راوی ہیں )
۴۰۶۷- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مجھے مکہ کے قریب ایک جگہ صحرا ء میں لے گئے، تو وہ ایک خشک زمین تھی جس کے ارد گر د ریت تھی، آپ ﷺ نے فرمایا:'' جا نور( دا بۃ الا رض ) یہاں سے نکلے گا ،میں نے وہ جگہ دیکھی، وہ ایک بالشت میں سے انگشت شہا دت اور انگو ٹھے کے درمیان کی دو ری کے برابر تھی''۔
ابن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کئی سال کے بعد حج کیا تو بریدہ رضی اللہ عنہ ( یعنی میرے والد) نے ہمیں دابۃ الارض کا عصا دکھایا جو میرے عصا کے بقدرلمبا اور موٹا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
32-بَاب طُلُوعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا
۳۲- باب: پچھم سے سورج نکلنے کا بیان​


4068- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ، آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا، فَذَلِكَ حِينَ { لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ}"۔
* تخريج: خ/تفسیر القرآن ۷ (۴۶۳۵)، الرقاق ۴۰ (۶۵۰۶)، الفتن ۲۵ (۷۱۲۱)، م/الإیمان ۷۲ (۱۵۷)، د/الملاحم ۱۲ (۴۳۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۹۷)، وقد أخرجہ: ت/التفسیر ۷ (۳۰۷۲)، حم (۲/۲۳۱، ۳۱۳، ۳۵۰، ۳۷۲، ۵۳۰) (صحیح)
۴۰۶۸- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے سنا :'' اس وقت تک قیا مت قائم نہ ہو گی جب تک سورج پچھم سے نہ نکلے گا، جب سورج کو پچھم سے نکلتے دیکھیں گے تو روئے زمین کے سب لو گ ایما ن لے آئیں گے، لیکن یہ ایسا وقت ہو گاکہ اس وقت ''جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتے تھے، ان کا ایمان لا نا کچھ فا ئدہ نہ دے گا '' (سورۃ الأنعام: ۱۲۸) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ اللہ کی قدرت کی کھلی کھلی نشانی ظاہر ہو جائے گی اور ایسی حالت میں تو سب مومن ہوجاتے ہیں ، جیسے قیامت میں جنت ،جہنم اور حشر کو دیکھ کر سب ایمان لائیں گے، ایمان جو قبول ہے وہ یہی ہے کہ غیب پر ایمان لائے، بہر حال پچھم سے جب تک سورج نہ نکلے اس وقت تک تو بہ کادروازہ کھلا ہے ، پھر بندہو جائے گا۔


4069- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَوَّلُ الآيَاتِ خُرُوجًا، طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى " .
قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَأَيَّتُهُمَا مَا خَرَجَتْ قَبْلَ الأُخْرَى، فَالأُخْرَى مِنْهَا قَرِيبٌ.
قَالَ عَبْدُاللَّهِ: وَلا أَظُنُّهَا إِلا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا۔
* تخريج: م/الفتن ۲۳ (۲۹۴۱)، د/الملاحم ۱۲ (۴۳۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۴، ۲۰۱) (صحیح)
۴۰۶۹- عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''قیا مت کی پہلی نشانی سو رج کا پچھم سے نکلنا، اور چاشت کے وقت لو گوں پردابہ(چوپایہ)کا ظا ہر ہو نا ہے''۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے نکلے، تو دوسرا اس سے قریب ہوگا، میرایہی خیا ل ہے کہ پہلے سورج پچھم سے نکلے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ان نشانیوں میں جو قانون قدرت کے خلاف ہیں کیونکہ پہلی نشانی مہدی علیہ السلام کا ظہور ہے ، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترکر زمین پر آنا، پھر دجال کا نکلنا ،پھر یا جوج ماجوج کا نکلنا ،اور دابۃ الارض میں اختلاف ہے کہ سورج کے نکلنے سے پہلے نکلے گا یا بعد میں نکلے گا، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا یہی خیال تھا کہ وہ سورج نکلنے کے بعد نکلے گا، جب کہ اوروں نے کہا کہ اس سے پہلے نکلے گا، بہرحال آسمانی نشانیوں میں سورج کا نکلناآخری نشانی ہے ، اور ارضی نشانیوں میں دابۃ الارض کا نکلنا پہلی، اور بعض نے کہا کہ پہلی قیامت کی نشانی دجال کا نکلنا ہے، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا اترنا، پھر یا جوج اور ماجوج کا نکلنا ،پھر دابۃ الارض کا، پھر سورج کا پچھم سے نکلنا، کیونکہ سورج نکلنے پر ایمان کا دروازہ بند ہوجائے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں بہت سے کافر دین اسلام کو قبول کریں گے یہاں تک کہ ساری دنیا میں ایک ہی دین ہو جائے گا ۔ والحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات.


4070- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ مِنْ قِبَلِ مَغْرِبِ الشَّمْسِ بَابًا مَفْتُوحًا، عَرْضُهُ سَبْعُونَ سَنَةً، فَلا يَزَالُ ذَلِكَ الْبَابُ مَفْتُوحًا لِلتَّوْبَةِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ نَحْوِهِ، فَإِذَا طَلَعَتْ مِنْ نَحْوِهِ، لَمْ يَنْفَعْ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا "۔
* تخريج: ت/الدعوات ۹۹ (۳۵۳۵، ۳۵۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۳۹، ۲۴۰، ۲۴۱) (حسن)
۴۰۷۰- صفو ان بن عسا ل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' مغرب ( یعنی سو رج کے ڈوبنے کی سمت ) میں ایک کھلا دروازہ ہے، اس کی چو ڑائی ستر سال کی مسافت ہے، یہ دروازہ تو بہ کے لئے ہمیشہ کھلا رہے گا، جب تک سورج ادھر سے نہ نکلے، اور جب سورج ادھرسے نکلے گا توا س وقت کسی شخص کاجو اس سے پہلے ایمان نہ لا یا ہو یا ایمان لاکر کو ئی نیکی نہ کمالی ہو ، اس کا ایما ن لانا کسی کام نہ آئے گا'' ۔
 
Top