- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
23- بَاب الصَّبْرِ عَلَى الْبَلاءِ
۲۳-باب: آفات و مصائب پر صبر کر نے کا بیان
4023- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلائً؟ قَالَ: " الأَنْبِيَائُ، ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ، يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلائُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الأَرْضِ، وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ "۔
* تخريج: ت/الزہد ۵۶ (۲۳۹۸)، (تحفۃ الأشراف:۳۹۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷۲، ۱۷۳، ۱۸۰، ۱۸۵)، دي/الرقاق ۶۷ (۲۸۲۵) (حسن صحیح)
۴۰۲۳- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لو گوں میں سب سے زیا دہ مصیبت اور آزمائش کا شکا ر کون ہو تا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' انبیا ء، پھر جو ان کے بعد مر تبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہو تی ہے، اگروہ دین میں سخت اور پختہ ہے توآزمائش بھی سخت ہو گی، اور اگر دین میں نرم اور ڈھیلا ہے تو مصیبت بھی اسی اندا ز سے نرم ہو گی، مصیبتوں سے بندے کے گناہوں کا کفارہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ بندہ روے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا''۔
4024- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، وَهُوَ يُوعَكُ، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ، فَوَجَدْتُ حَرَّهُ بَيْنَ يَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا أَشَدَّهَا عَلَيْكَ، قَالَ: " إِنَّا كَذَلِكَ، يُضَعَّفُ لَنَا الْبَلائُ وَيُضَعَّفُ لَنَا الأَجْرُ " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلائً؟ قَالَ: " الأَنْبِيَائُ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " ثُمَّ الصَّالِحُونَ، إِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيُبْتَلَى بِالْفَقْرِ، حَتَّى مَايَجِدُ أَحَدُهُمْ إِلا الْعَبَائَةَ يُحَوِّيهَا، وَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيَفْرَحُ بِالْبَلاءِ كَمَا يَفْرَحُ أَحَدُكُمْ بِالرَّخَاءِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۴۱۸۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۱۷) (صحیح)
۴۰۲۴- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہو ا، آپ کو بخا ر آرہا تھا، میںنے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو آپ کے بخا رکی گرمی مجھے اپنے ہاتھوں میں لحاف کے اوپر سے محسوس ہو ئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو بہت ہی سخت بخارہے! آپ ﷺ نے فرمایا:''ہمارایہی حا ل ہے ہم لو گوں پر مصیبت بھی دگنی ( سخت ) آتی ہے، اور ثواب بھی دُگنا ملتا ہے''، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول!کن لوگوںپرزیادہ سخت مصیبت آتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''انبیاء پر''، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !پھر کن پر؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''پھر نیک لوگوں پر، بعض نیک لو گ ایسی تنگ دستی میں مبتلا کر دئیے جا تے ہیں کہ ان کے پاس ایک چوغہ کے سوا جسے وہ اپنے اوپر لپیٹتے رہتے ہیں کچھ نہیں ہو تا، اور بعض آزمائش سے اس قدر خو ش ہو تے ہیںجتنا تم میں سے کو ئی ما ل و دولت ملنے پر خو ش ہو تا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی راہ میں کسی کو اتنی ایذا نہیں ہوئی جتنی مجھ کو ہوئی، فقر وفاقہ ،دکھ بیماری ان تکلیفوں کے سوا کافروں کے طرف سے آپ ﷺ کو بہت صدمے پہنچے ،گا لیاں کھائیں، مار کھائی، زخمی ہوئے دانت شہید ہوئے، اخیر میں زہر کے صدمے سے وفات پائی ۔
4025- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَهُوَ يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَيَقُولُ: رَبِّ! اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لايَعْلَمُونَ ۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۷۷)، م/الجہاد ۳۶ (۱۷۹۲)، (تحفۃ الأشراف:۹۲۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۵۶، ۴۵۷، ۳۸۰، ۴۲۷، ۴۳۲) (صحیح)
۴۰۲۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ گو یا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں، آپ ﷺ انبیا ء کر ام (علیہم السلام) میں سے ایک نبی کی حکا یت بیا ن کر رہے تھے جن کو ان کی قوم نے ما را پیٹا تھا ،وہ اپنے چہرے سے خو ن پونچھتے جاتے تھے، اور یہ کہتے جاتے تھے: اے میرے رب !میری قوم کی مغفرت فرما ،کیو نکہ وہ لوگ نہیں جا نتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : خود آپ ﷺ نے جنگ احد میں جب کافروں کے ہاتھ سے پتھر کھائے، چہرہ مبارک زخمی ہوا، دانت شہید ہوا، خون بہہ رہا تھا، لوگوں نے عرض کیا کہ اب تو کافروں کے لئے بددعا فرمائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا : '' اللہ میری قوم کو ہدایت دے، یہ دین کو نہیں جانتے ہیں'' ۔
4026- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ: رَبِّ! أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى، قَالَ: أَوَلَمْ تُؤْمِنْ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي، وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْكَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ،وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ، لأَجَبْتُ الدَّاعِيَ "۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۱۱ (۳۳۷۲)، م/الإیمان ۶۹ (۱۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۲۵، ۱۵۳۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۶) (صحیح)
۴۰۲۶- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''ہم ابرا ہیم علیہ السلام سے زیا دہ شک کر نے کے حقدار ہیں ۱؎ جب انہوں نے کہا: اے میرے رب تو مجھ کودکھا کہ تو مر دوں کو کیسے زندہ کر ے گا ؟ تو اللہ نے فرمایا:کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں (لیکن یہ سوال اس لئے ہے )کہ میر ے دل کو اطمینان حا صل ہوجا ئے، اور اللہ تعالی لوط علیہ السلام پر رحم کرے، وہ زور آور شخص کی پناہ ڈھونڈھتے تھے ، اگر میں اتنے دنوں تک قید میں رہا ہو تا جتنے عرصہ یو سف علیہ السلام رہے، تو جس وقت بلا نے والا آیا تھا میں اسی وقت اس کے سا تھ ہو لیتا ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر ہم کو شک نہیں ہوا تو بھلا ابراہیم علیہ السلام کو کیوں کر شک ہوسکتا ہے ، انہوں نے توعین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کے لئے یہ سوال کیا تھاکہ مردے کو زندہ کرنا انہیں دکھادیا جائے ۔
وضاحت ۲ ؎ : یہ تعریف ہے یوسف علیہ السلام کے صبر اور استقلال کی، اتنی لمبی قید پر بھی انہوں نے رہائی کے لئے جلدی نہیں کی۔
4027- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، كُسِرَتْ رَبَاعِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَشُجَّ، فَجَعَلَ الدَّمُ يَسِيلُ عَلَى وَجْهِهِ، وَجَعَلَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَيَقُولُ: " كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوا وَجْهَ نَبِيِّهِمْ بِالدَّمِ، وَهُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ؟ " فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْئٌ}۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۷۲۵)، وقد أخرجہ: م/الجہاد ۳۶ (۱۷۹۱)، ت/التفسیر ۴ (۳۰۰۳)، حم (۳/۱۱۳) (صحیح)
۴۰۲۷- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب رسول اللہ ﷺ کے سا منے کے چا ر دا نتوں میں سے ایک دانت ٹو ٹ گیا، اور سر زخمی ہوگیا، تو خو ن آپ کے چہرہ پربہنے لگا، آپ ﷺ خو ن کو اپنے چہر ہ سے پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: وہ قوم کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خو ن سے رنگ دیا ہو، حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا، تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نا زل فرما ئی:{لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْئٌ} [سورة آل عمران:128] (اے نبی !آپ کو اس معا ملے میں کچھ اختیا ر نہیں ہے) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : آپ کا یہ فرمانا بدد عا کے طور پر نہ تھا بلکہ تعجب کے طور پر کہ ان لوگوں کے لچھن تو ایسے خراب ہیں کہ ان کی نجات کیونکر ہوگی، اللہ تعالی نے اس کو بھی پسند نہیں کیا، اور فرمایا: آپ پر صبر لازم ہے، اللہ تعالی کو ان لوگوں کاا ختیار ہے۔
4028- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلام ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَهُوَ جَالِسٌ حَزِينٌ، قَدْ خُضِّبَ بِالدِّمَاءِ، قَدْ ضَرَبَهُ بَعْضُ أَهْلِ مَكَّةَ، فَقَالَ: مَا لَكَ؟ قَالَ: "فَعَلَ بِي هَؤُلاءِ، وَفَعَلُوا "، قَالَ: أَتُحِبُّ أَنْ أُرِيَكَ آيَةً؟ قَالَ: " نَعَمْ أَرِنِي "، فَنَظَرَ إِلَى شَجَرَةٍ مِنْ وَرَاءِ الْوَادِي، قَالَ: ادْعُ تِلْكَ الشَّجَرَةَ، فَدَعَاهَا، فَجَائَتْ تَمْشِي حَتَّى قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ: قُلْ لَهَا فَلْتَرْجِعْ، فَقَالَ لَهَا، فَرَجَعَتْ، حَتَّى عَادَتْ إِلَى مَكَانِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " حَسْبِي "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف (۹۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۳)، دي/المقدمۃ ۴ (۲۳) (صحیح)
۴۰۲۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جبرئیل علیہ السلا م رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اس وقت آپ غمگین بیٹھے ہوئے تھے، اور لہو لہان تھے ،اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے آپ کو مارا پیٹا تھا، انہوں نے کہا: آپ کو کیا ہو گیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' ان لو گوں نے میرے ساتھ یہ سلو ک کیا ہے''، جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: ا ٓپ چا ہتے ہیں کہ میں آپ کوکوئی نشانی دکھا ئوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہا ںدکھا ئیے ''، پھر جبر ئیل علیہ السلام نے وادی کے پیچھے ایک درخت کی طرف دیکھا، اور کہا: آپ اس درخت کو بلا ئیے، تو آپ ﷺ نے اسے آواز دی، وہ آکرآپ کے سامنے کھڑا ہو گیا، پھرانہوں نے کہا: آپ اس سے کہیے کہ وہ واپس جائے، آپ ﷺ نے اسے واپس جا نے کو کہا، تو وہ اپنی جگہ چلا گیا، ( یہ دیکھ کر )رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میرے لئے یہ نشانی(معجزہ) ہی کا فی ہے'' ۔
4029- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَحْصُوا لِي كُلَّ مَنْ تَلَفَّظَ بِالإِسْلامِ " قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَتَخَافُ عَلَيْنَا، وَنَحْنُ مَا بَيْنَ السِّتِّ مِائَةِ إِلَى السَّبْعِ مِائَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّكُمْ لا تَدْرُونَ، لَعَلَّكُمْ أَنْ تُبْتَلُوا"، قَالَ: فَابْتُلِينَا، حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا مَا يُصَلِّي إِلا سِرًّا۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۸۱ (۳۰۶۰، ۳۰۶۱)، م/الإیمان ۶۷ (۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۴) (صحیح)
۴۰۲۹- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تما م مسلما نوں کی تعدا د شما ر کر کے مجھے بتائو''، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول!کیا آپ ہم پر ( اب بھی دشمن کی طرف سے) خطرہ محسوس کر تے ہیں، جب کہ اب ہماری تعدا د چھ اور سات سو کے درمیان ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم لو گ نہیں جا نتے شایدکہ تم آزما ئے جا ئو'' ۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :تو واقعی ہم آزمائے گئے، یہاں تک کہ ہم میں سے اگر کو ئی صلاۃ بھی پڑھتا تو چھپ کر پڑھتا ۔
4030- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ؛ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَنَّهُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً، فَقَالَ: " يَا جِبْرِيلُ! مَا هَذِهِ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ؟ قَالَ: هَذِهِ رِيحُ قَبْرِ الْمَاشِطَةِ وَابْنَيْهَا وَزَوْجِهَا، قَالَ: وَكَانَ بَدْءُ ذَلِكَ أَنَّ الْخَضِرَ كَانَ مِنْ أَشْرَافِ بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَكَانَ مَمَرُّهُ بِرَاهِبٍ فِي صَوْمَعَتِهِ، فَيَطَّلِعُ عَلَيْهِ الرَّاهِبُ، فَيُعَلِّمُهُ الإِسْلامَ، فَلَمَّا بَلَغَ الْخَضِرُ، زَوَّجَهُ أَبُوهُ امْرَأَةً، فَعَلَّمَهَا الْخَضِرُ، وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لاتُعْلِمَهُ أَحَدًا، وَكَانَ لا يَقْرَبُ النِّسَاءَ، فَطَلَّقَهَا، ثُمَّ زَوَّجَهُ أَبُوهُ أُخْرَى، فَعَلَّمَهَا وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لاتُعْلِمَهُ أَحَدًا، فَكَتَمَتْ إِحْدَاهُمَا وَأَفْشَتْ عَلَيْهِ الأُخْرَى، فَانْطَلَقَ هَارِبًا، حَتَّى أَتَى جَزِيرَةً فِي الْبَحْرِ، فَأَقْبَلَ رَجُلانِ يَحْتَطِبَانِ، فَرَأَيَاهُ، فَكَتَمَ أَحَدُهُمَا وَأَفْشَى الآخَرُ، وَقَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الْخَضِرَ، فَقِيلَ: وَمَنْ رَآهُ مَعَكَ؟ قَالَ: فُلانٌ، فَسُئِلَ فَكَتَمَ، وَكَانَ فِي دِينِهِمْ أَنَّ مَنْ كَذَبَ قُتِلَ، قَالَ: فَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ الْكَاتِمَةَ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشُطُ ابْنَةَ فِرْعَوْنَ، إِذْ سَقَطَ الْمُشْطُ، فَقَالَتْ: تَعِسَ فِرْعَوْنُ! فَأَخْبَرَتْ أَبَاهَا، وَكَانَ لِلْمَرْأَةِ ابْنَانِ وَزَوْجٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ، فَرَاوَدَ الْمَرْأَةَ وَزَوْجَهَا أَنْ يَرْجِعَا عَنْ دِينِهِمَا، فَأَبَيَا، فَقَالَ: إِنِّي قَاتِلُكُمَا، فَقَالا: إِحْسَانًا مِنْكَ إِلَيْنَا،إِنْ قَتَلْتَنَا، أَنْ تَجْعَلَنَا فِي بَيْتٍ، فَفَعَلَ، فَلَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً، فَسَأَلَ جِبْرِيلَ فَأَخْبَرَهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۰) (ضعیف)
( یہ سند ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں)
۴۰۳۰- أبی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کی را ت ایک خو شبو محسو س کی توآپ ﷺ نے فرمایا:'' جبرئیل !یہ کیسی خو شبو ہے ؟ '' انہوں نے کہا: یہ اس عو رت کی قبر کی خو شبو ہے جو فر عون کی بیٹی کو کنگھی کر تی تھی، اور اس کے دونوں بیٹو ں اور شو ہر کے قبر کی خو شبو ہے، ( جنہیں ایما ن لا نے کی وجہ سے فر عون نے قتل کر دیا تھا ) اور ان کے قصے کی ابتدا اس طرح ہے کہ خضر بنی اسرا ئیل کے شریف لو گوں میں تھے، ان کا گز ر ایک ( را ہب ) درویش کے عبادت خا نے سے ہو تا تو وہ عا بد راہب اوپر سے ان کو جھا نکتا، اور ان کو اسلام کی تعلیم دیتا، آخر کا ر جب خضر جوا ن ہوئے توان کے والد نے ایک عورت سے ان کا نکا ح کر دیا ،خضر نے اس عورت کو اسلام کی تعلیم دی، اور اس سے عہد لے لیا کہ اس با ت سے کسی کو با خبر مت کر نا، خضر عورتوں کے قریب نہیں جاتے تھے، آخر انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی، اس کے بعد ان کے والد نے ان کا نکاح دوسری عورت سے کر دیا ، خضر نے اس سے بھی نہ بتا نے کا عہد لے کر اسے دین کی تعلیم دی، لیکن ان میں سے ایک عورت نے اس را ز کو چھپا لیا، اور دوسری نے ظا ہر کر دیا ( کہ یہ دین کی تعلیم اسے خضر نے سکھائی ہے، فرعون نے ان کی گر فتا ری کا حکم دیا یہ سنتے ہی ) وہ فرار ہو کر سمندر کے ایک جزیرہ میں چھپ گئے، وہاں دو شخص لکڑیاں چننے کے لئے آئے، اور ان دونوں نے خضر کو دیکھا، ان میںسے بھی ایک نے تو ان کا حال پو شیدہ رکھا، اور دوسرے نے ظا ہر کر دیا اور کہا: میں نے خضر کو فلا ں جز یر ے میں دیکھا ہے، لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہا رے سا تھ اور کسی شخص نے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: فلاں شخص نے بھی دیکھا ہے، جب اس شخص سے سوال کیا گیا توا س نے چھپا یا، اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ جو جھوٹ بولے ، اسے قتل کر دیا جائے، الغرض اس شخص نے اس عورت سے نکاح کر لیا ،جس نے اپنا دین چھپا یا تھا، ( اور خضر کا نام نہیں بتا یا تھا)،اسی دوران کہ یہ عورت فر عون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کر رہی تھی، اتنے میں اس کے ہا تھ سے کنگھی گر پڑی اور اس کی زبا ن سے بے اختیا ر نکل گیا کہ فرعون تباہ و بر با د ہو (اپنی بے دینی کی وجہ سے )بیٹی نے یہ کلمہ اس کی زبان سے سن کر اسے اپنے باپ کو بتا دیا،اور اس عورت کے دو بیٹے تھے، اور ایک شوہر تھا، فر عو ن نے ان سبھو ں کو بلا بھیجا، اور عورت اور اس کے شوہر کو دین اسلام چھو ڑ کر اپنے دین میں آنے کے لئے پھسلایا،ان دونوں نے انکا رکیا، تو اس نے کہا: میںتم دونوں کو قتل کر دوںگا، ان دونوں نے جو اب دیا: اگر تم ہمیں قتل کر ناچاہتے ہو تو ہم پر اتنا احسا ن کر نا کہ ہمیں ایک ہی قبر میں دفن کر دینا، چنا نچہ فرعون نے ایسا ہی کیا، جب نبی اکرم ﷺ نے اسراء کی رات میں خو شبو محسوس کی، تو آپ ﷺ نے جبرئیل سے پوچھاتو انہوں نے آپ کو بتلایا کہ یہ انہیں لوگوں کی قبرہے (جس سے یہ خو شبو آرہی ہے)۔
4031- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " عِظَمُ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السُّخْطُ "۔
* تخريج: ت/الزہد ۵۶ (۲۳۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۹) (حسن)
۴۰۳۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جتنی بڑی مصیبت ہو تی ہے اتنا ہی بڑا ثواب ہوتا ہے، اور بیشک اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کر تا ہے توا سے آزما تا ہے، پھر جو کو ئی اس سے را ضی و خو ش رہے تو وہ اس سے را ضی رہتا ہے، اور جو کو ئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جا تا ہے'' ۔
4032- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لا يُخَالِطُ النَّاسَ، وَلا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ "۔
* تخريج: ت/صفۃ القیامۃ ۵۵ (۲۵۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۳) (صحیح)
۴۰۳۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' وہ مو من جو لو گوں سے مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کر تا ہے، تو اس کا ثوا ب اس مومن سے زیا دہ ہے جو لو گوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبرنہیں کرتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بلکہ عزلت اور تنہائی میں بسر کرتا ہے ، یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو میل جول کو تنہائی اورگوشہ نشینی سے بہتر جانتے ہیں، بشرطیکہ میل جول کے آداب اورتقاضے کے مطابق زندگی گزار تاہو، یعنی جمعہ ، جماعت ، عیدین اور جنازے میں حاضر ہواور بیمار کی عیادت کرے اور لوگوں کو ایذا نہ دے۔
4033- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّي، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "ثَلاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ طَعْمَ الإِيمَانِ، (وَقَالَ بُنْدَارٌ: حَلاوَةَ الإِيمَانِ) مَنْ كَانَ يُحِبُّ الْمَرْءَ لا يُحِبُّهُ إِلا لِلَّهِ، وَمَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ كَانَ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَرْجِعَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۹ (۱۶)، ۱۴ (۲۱)، الأدب ۴۲ (۶۰۴۱)، الإکراہ ۱ (۶۹۴۱)، م/الایمان ۱۵ (۴۳)، ن/الایمان ۳ (۴۹۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۵)، وقد أخرجہ: ت/الإیمان ۱۰ (۲۶۲۴)، حم (۳/۱۰۳، ۱۱۴، ۱۷۲، ۱۷۴، ۲۳۰، ۲۴۸، ۲۷۵، ۲۸۸) (صحیح)
۴۰۳۳- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس میں تین با تیں ہو ں گی وہ ایمان کا ذائقہ پائے گا، ( بندا ر کی روایت میں ہے کہ وہ ایما ن کی حلا وت (مٹھاس) پا ئے گا ) ایک وہ شخص جو کسی سے صرف اللہ کے لئے محبت کرتا ہو، دوسرے وہ جسے اللہ اور اس کا رسول دنیا کی تمام چیزوں سے زیا دہ محبو ب ہوں، تیسرے وہ شخص جسے اللہ تعالی نے کفر سے نجات دی، اس کے بعد اسے آگ میں ڈالا جانا تو پسند ہو، لیکن کفر کی طرف پلٹ جانا پسند نہ ہو''۔
4034- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ،(ح) وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَطَائٍ، قَالا: حَدَّثَنَا رَاشِدٌ أَبُومُحَمَّدٍ الْحِمَّانِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي ﷺ: " أَنْ لاتُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ، وَلا تَتْرُكْ صَلاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا، فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ، وَلا تَشْرَبِ الْخَمْرَ، فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۲۱) (حسن)
(آخری جملہ اس سند سے کتاب الأشربہ میں گزرا ہے)
۴۰۳۴- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھ کو وصیت کی ہے کہ تم اللہ تعالی کے سا تھ کسی کو شریک مت کر نا اگر چہ تم ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائو، اور جلا دئیے جا ئو، اور فرض صلاۃ کو جا ن بو جھ کر مت چھو ڑنا، کیونکہ جس نے جا ن بوجھ کر اسے چھوڑا تو اس پر سے اللہ کی پنا ہ اٹھ گئی، اور تم شراب مت پینا ،کیو نکہ شراب تما م برا ئیوں کی کنجی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : شرابی کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ وبرباد ہوتی ہے، دنیا اس وجہ سے کہ سارا مال شراب میں اڑجاتا ہے، جب شراب پیتا ہے تو عقل جاتی رہتی ہے، لوگ اس کا مال دھوکہ اورفریب سے اڑا لے جاتے ہیں ، وہ لوگوں سے لڑائی کرتا ہے، بد گوئی کرتا ہے، ذلیل وخوار ہوتا ہے، سخت بیماریوں کا شکار ہوتاہے، جیسے فالج، لقوہ، رعشہ، استسقا، ورم جگر، قولنج وغیرہ اور آخرت کی خرابی تو ظاہر ہے کہ شرابی کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ شراب سے بچائے ،افسوس ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے مسلمان اس بلا میں مبتلا ہیں، او ریہ غیر مسلموں کی صحبت اور ان کی تہذیب وتمدن کا اثر ہے، ا ور لطف یہ ہے کہ غیر مسلموں میں بہت سے لوگ شراب نوشی کو معیوب سمجھتے ہیں بلکہ اس کو ترک کرتے جارہے ہیں،جب کہ ان کے دین میں شراب پینا منع نہیں ہے ، اور ہمارے دین میں شراب حرام ہے بلکہ حنفیہ کے نزدیک پیشاب کے مثل نجس ہے ، پھر مسلمان کا دل کیسے قبول کرتا ہے کہ ایک ایک چیز نجس ،حرام اور مضر ہو، جس کی تاثیر زہر کی طرح ہو، اس میں اپنا مال تباہ کر کے اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کرلے ۔