20- بَاب الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ
۲۰-باب: امر با لمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کاحکم دینے اوربری باتوں سے روکنے ) کا بیان
4004- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ : " مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ، قَبْلَ أَنْ تَدْعُوا فَلا يُسْتَجَابَ لَكُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۴۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۵۹) (حسن)
(سند میں عمربن عثمان مستور ، اور عاصم بن عمر مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے ، نیز ابن حبان نے تصحیح کی ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی: رقم: ۳۸۳)
۴۰۰۴- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے :'' تم بھلی بات کا حکم دو، اور بری بات سے منع کر و، اس سے پہلے کہ تم دعا کرو اور تمہا ری دعا قبو ل نہ کی جا ئے'' ۔
4005- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّكُمْ تَقْرَئُونَ هَذِهِ الآيَةَ:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ}، وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْكَرَ لايُغَيِّرُونَهُ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ ".
قَالَ أَبُو أُسَامَةَ مَرَّةً أُخْرَى: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ۔
* تخريج: د/الملاحم ۱۷ (۴۳۳۸)، ت/الفتن ۸ (۲۱۶۸)، تفسیر القرآن سورۃ المائدۃ ۱۸ (۳۰۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲، ۵، ۷، ۹) (صحیح)
۴۰۰۵ - قیس بن ابی حا زم کہتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد فرمایا: لو گو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو :
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} [سورة المائدة :105] ( اے ایمان والو!اپنے آپ کی فکر کرو، اورتمہیں دوسرے شخص کی گمراہی ضررنہ دے گی، جب تم ہدا یت پر ہو)۔
اور بیشک ہم نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے ہو ئے سنا ہے: '' جب لو گ کو ئی بر ی با ت دیکھیں اور اس کو دفع نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالی ان پر اپنا عام عذاب نا زل کر د ے'' ۱؎ ۔
ابو اسامہ نے دو سری با رکہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : اچھے برے سب اس میں گرفتار ہیں ہو جائیں ، یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جنہوں نے امر بالمعروف کا فریضہ اداکیا تھا ، لیکن لوگوں پر اس کا اثر نہیں ہوا، واضح رہے کہ جب کوئی بری بات سے منع کردے ،تو اس نے اپنا حق ادا کر دیا اب بری بات کرنے والے پر وبال پڑے گا اس پر کچھ اثر نہ ہوگا۔
4006- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ،لَمَّا وَقَعَ فِيهِمُ النَّقْصُ، كَانَ الرَّجُلُ يَرَى أَخَاهُ عَلَى الذَّنْبِ، فَيَنْهَاهُ عَنْهُ، فَإِذَا كَانَ الْغَدُ، لَمْ يَمْنَعْهُ مَا رَأَى مِنْهُ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَخَلِيطَهُ،فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ، وَنَزَلَ فِيهِمُ الْقُرْآنُ، فَقَالَ: {لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ} حَتَّى بَلَغَ {وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَائَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ}" قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُتَّكِئًا، فَجَلَسَ وَقَالَ: " لا، حَتَّى تَأْخُذُوا عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ، فَتَأْطِرُوهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا "۔
* تخريج: د/الملاحم ۱۷ (۴۳۳۶، ۴۳۳۷)، ت/التفسیر ۶ (۳۰۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/ ۳۹۱) (ضعیف)
(سند میں ابو عبیدہ کثیر الغلط راوی ہیں ، اور حدیث کو مرسل روایت کیا ہے، یعنی اپنے اور رسول اکرم ﷺ کے مابین کا واسطہ نہیں ذکر کیا ہے، اس لئے ارسال کی وجہ سے بھی یہ حدیث ضعیف ہے )
۴۰۰۶- ابو عبیدہ (عامر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بنی اسرا ئیل میں جب خرابیاں پیدا ہوئیں،تو ان کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنے بھا ئی کو گنا ہ کر تے دیکھتا تواسے روکتا، لیکن دوسرے دن پھر اس کے ساتھ کھا تا پیتا اور مل جل کر رہتا ۱ ؎ ، تو اللہ تعالی نے ان کے دلوں کو مردہ کر دیا، اور آپس کی محبت ختم کر دی، اور ان ہی لو گوں کے با رے میں قرآن اترا،چنانچہ آپ ﷺ نے
{لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ } کی تلاوت کی یہاں تک کہ آپ
{وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَائَ وَلَكِنَّ كَثِيرًامِنْهُمْ فَاسِقُونَ } (سورۃ المائدۃ: ۷۸ -۸۱) تک پہنچے۔
(جن لو گوں نے کفر کیا ان پر داود اور عیسیٰ بن مریم (علیہم السلام ) کی زبانی لعنت کی گئی، کیونکہ وہ نا فرما نی اور حد سے تجا وز کرتے تھے، و ہ جس برائی کے خو د مر تکب ہو تے اس سے لوگوں کو بھی نہیں روکتے تھے، بہت ہی برا کرتے تھے، تو ان میں سے اکثر کو دیکھ رہا ہے کہ وہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں یہ وطیرہ انہوں نے اپنے حق میں بہت ہی برا اختیا ر کیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اللہ ان پر سخت نا راض ہے، اور آخرت میں یہ لو گ ہمیشہ ہمیش کے عذاب میں رہیں گے، اور اگر یہ اللہ پر اور نبی پر اور جو اس کی طرف اترا ہے اس پر ایمان لا تے تو ان کا فروں کو دوست نہ بناتے، لیکن بہت سے ان میں فاسق (بدکا ر اور بے راہ ) ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ ٹیک لگا ئے ہو ئے تھے، پھرآپ بیٹھ گئے اور فرمایا:''تم اس وقت تک عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے جب تک کہ تم ظالم کو ظلم کر تے دیکھ کر اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے انصا ف کر نے پر مجبو ر نہ کر دو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اور گنا ہ کی وجہ سے اس سے نہ نفرت اورنہ ترک تعلق ۔
4006/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَمْلاهُ عَلَيَّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْوَضَّاحِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِهِ۔
* تخريج: انطر ماقبلۃ، تحفۃ الأشراف: ۹۶۱۴) (ضعیف)
۴۰۰۶/أ- اس سند سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۔
4007- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، قَامَ خَطِيبًا، فَكَانَ فِيمَا قَالَ: " أَلا، لايَمْنَعَنَّ رَجُلا، هَيْبَةُ النَّاسِ، أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ، إِذَا عَلِمَهُ " قَالَ: فَبَكَى أَبُوسَعِيدٍ، وَقَالَ: قَدْ وَاللَّهِ ! رَأَيْنَا أَشْيَائَ فَهِبْنَا۔
* تخريج: ت/الفتن ۲۶ (۲۱۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۶۶) ، وقد أخرجہ: حم (۳/۷، ۱۹، ۶۱، ۷۰) (صحیح)
۴۰۰۷- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہو ئے تو جو باتیں کہیں، ان میں یہ بات بھی تھی:'' آگا ہ رہو !کسی شخص کو لو گوں کا خو ف حق با ت کہنے سے نہ رو کے، جب وہ حق کو جا نتا ہو'' ، یہ حدیث بیان کر کے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: اللہ کی قسم! ہم نے بہت سی با تیں ( خلا ف شرع) دیکھیں،لیکن ہم ڈر اور ہیبت کا شکار ہوگئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اور ان کو منع نہ کر سکے، جب جان یا مال کو خطرہ لاحق ہو تو اس وقت معروف کے حکم اورمنکرسے روکنے کاکام بطور فضیلت کے ہے نہ واجب اورفرض نہیں ہے ، کیونکہ بالا جماع ایسی حالت میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا فریضہ ساقط ہو جاتا ہے ،لیکن افضل یہی ہے کہ جان کی پرواہ نہ کرے، اور حق بات کہہ دے ،دوسری حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنی ہے ۔
4008- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا يَحْقِرْ أَحَدُكُمْ نَفْسَهُ "، قَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ يَحْقِرُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ؟ قَالَ: "يَرَى أَمْرًا، لِلَّهِ عَلَيْهِ فِيهِ مَقَالٌ، ثُمَّ لا يَقُولُ فِيهِ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: " مَا مَنَعَكَ أَنْ تَقُولَ فِي كَذَا وَكَذَا؟ فَيَقُولُ: خَشْيَةُ النَّاسِ، فَيَقُولُ: فَإِيَّايَ، كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ تَخْشَى "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۴۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۰۹)،وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰، ۴۷، ۷۳) (ضعیف)
(سند میں اعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
۴۰۰۸- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کو ئی شخص اپنے آپ کو حقیر نہ جانے'' ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کو ئی اپنے آپ کو کیسے حقیر جانتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''تم میں سے کو ئی شخص کو ئی بات ہو تے دیکھے اور اس کے بارے میں اسے اللہ کا حکم معلوم ہو لیکن نہ کہے، تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس سے فرمائے گا: تجھے فلا ں بات کہنے سے کس نے منع کیا تھا؟ وہ جو اب دے گا: لو گوں کے خو ف نے، اللہ تعالی فرمائے گا: تیرے لئے زیادہ درست بات یہ تھی کہ تو مجھ سے ڈرتا''۔
4009- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي -هُمْ أَعَزُّ مِنْهُمْ وَأَمْنَعُ- لا يُغَيِّرُونَ، إِلا عَمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۲۱ )، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۱، ۳۶۳، ۳۶۴، ۳۶۶) (حسن)
۴۰۰۹- جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جس قوم میں گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے، اور ان میں ایسے زور آور لوگ ہوں جو انہیں روک سکتے ہوں لیکن وہ نہ روکیں، تو اللہ تعالی سب کو اپنے عذاب میں گرفتار کرلیتا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی طاقت رکھنے والے لوگوں نے جب یہ فریضہ ترک کردیا اور اپنی ذمہ داری نہ ادا کی تو ان کو یہ سزا ملی، لیکن اگر گناہ کرنے والوں کا غلبہ ہو اور اہل حق کمزور ہوں تو ایسی صورت میں امر بالمعروف کا فریضہ ساقط ہوجائے گا، ہاں جو اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے اہل ہوں ، ان کے لئے یہ کام کرنا شرعاً صحیح اور قابل مبارکباد ہوگا۔
4010- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: لَمَّا رَجَعَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُهَاجِرَةُ الْبَحْرِ، قَالَ: " أَلا تُحَدِّثُونِي بِأَعَاجِيبِ مَا رَأَيْتُمْ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ؟ "، قَالَ فِتْيَةٌ مِنْهُمْ: بَلَى، يَارَسُولَ اللَّهِ! بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ، مَرَّتْ بِنَا عَجُوزٌ مِنْ عَجَائِزِ رَهَابِينِهِمْ تَحْمِلُ عَلَى رَأْسِهَا قُلَّةً مِنْ مَائٍ، فَمَرَّتْ بِفَتًى مِنْهُمْ، فَجَعَلَ إِحْدَى يَدَيْهِ بَيْنَ كَتِفَيْهَا، ثُمَّ دَفَعَهَا، فَخَرَّتْ عَلَى رُكْبَتَيْهَا، فَانْكَسَرَتْ قُلَّتُهَا، فَلَمَّا ارْتَفَعَتِ، الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ فَقَالَتْ: سَوْفَ تَعْلَمُ، يَاغُدَرُ! إِذَا وَضَعَ اللَّهُ الْكُرْسِيَّ، وَجَمَعَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ، وَتَكَلَّمَتِ الأَيْدِي وَالأَرْجُلُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ، فَسَوْفَ تَعْلَمُ كَيْفَ أَمْرِي وَأَمْرُكَ، عِنْدَهُ غَدًا، قَالَ، يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " صَدَقَتْ، صَدَقَتْ، كَيْفَ يُقَدِّسُ اللَّهُ أُمَّةً لا يُؤْخَذُ لِضَعِيفِهِمْ مِنْ شَدِيدِهِمْ؟ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۷۹، ومصباح الزجاجۃ:۱۴۱۰) (حسن)
(سند کو بوصیری نے حسن کہا ہے)
۴۰۱۰- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سمندر کے مہا جرین ( یعنی مہا جرین حبشہ) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس آئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم لو گ مجھ سے وہ عجیب با تیں کیوں نہیں بیان کر تے جوتم نے ملک حبشہ میں دیکھی ہیں ؟! ''، ان میں سے ایک نو جو ان نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول!اسی دوران کہ ہم بیٹھے ہو ئے تھے، ان راہباؤں میں سے ایک بوڑھی راہبہ ہما رے سامنے سر پر پا نی کا مٹکا لئے ہو ئے ایک حبشی نو جو ان کے قریب سے ہو کر گزری، تو اس حبشی نو جو ان نے اپنا ایک ہا تھ اس بڑھیا کے دونوں کندھو ں کے درمیان رکھ کر اس کو دھکا دیا جس کے باعث وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑی، اور اس کا مٹکا ٹو ٹ گیا، جب وہ اٹھی تو اس حبشی نو جوان کی طرف متو جہ ہو کر کہنے لگی : غدار !(دھو کا با ز) عنقریب تجھے پتہ چل جائے گاجب اللہ تعالی کرسی رکھے ہو گا، اور اگلے پچھلے سارے لوگوں کو جمع کرے گا، اور ہاتھ پائوں ہر اس کا م کی گو اہی دیںگے جو انہوں نے کیے ہیں،توکل اس کے پاس تجھے اپنا اور میرا فیصلہ معلوم ہو جائے گا ۔
رسول اللہ ﷺ یہ واقعہ سنتے جا تے اور فرما تے جا تے:'' اس بڑھیا نے سچ کہا، اس بڑھیا نے سچ کہا، اللہ تعا لی اس امت کو گناہوں سے کیسے پاک فرمائے گا، جس میں کمز ور کا بدلہ طاقتور سے نہ لیاجاسکے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : فقیر اور مسکین عورت کو ستانا بڑی بے حیائی اور بے غیرتی کی بات ہے ،اور جس قوم میں ایسے ظلم رائج ہوتے ہیں، اللہ تعالی ان سے حکومت چھین لیتا ہے ،اگلے زمانہ میں نصاریٰ نے ایسے ظلم شروع کئے تھے اللہ تعالی نے مسلمان کے ہاتھوں ان کو خوب پٹوا یا اور ان کی سلطنت چھین لی،اور ان سے پہلے یہودیوں نے ظلم کئے تھے، اللہ تعالی نے رومیوں کے ہاتھوں خوب ان کو پٹوایا، اور ان کی سلطنت چھنوادی ، پھر رومیوں کو عربوں کے ہاتھ سے پٹوایا اس کے بعد مسلمانوں نے بھی ظلم وستم شروع کئے ،آخر ان کو بھی انگریزوں اور روسیوں کے ہاتھوں پٹوایا اور ان کی سلطنت بھی چھنوادی، ہر ظالم کا یہی حال ہوتا ہے، اللہ تعالی ظلم سے بچائے ۔آمین۔
4011- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُصْعَبٍ، (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَفْضَلُ الْجِهَادِ، كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ "۔
* تخريج: د/الملاحم ۱۷ (۴۳۴۴)، ت/الفتن ۱۳ (۲۱۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۳۴) (صحیح)
۴۰۱۱- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سب سے بہتر جہا د، ظالم حکمران کے سا منے حق وانصاف کی با ت کہنی ہے'' ۔
4012- حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: عَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ رَجُلٌ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الأُولَى، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ فَسَكَتَ عَنْهُ، فَلَمَّا رَأَى الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ سَأَلَهُ، فَسَكَتَ عَنْهُ، فَلَمَّا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ لِيَرْكَبَ، قَالَ: " أَيْنَ السَّائِلُ؟ "، قَالَ: أَنَا، يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ ذِي سُلْطَانٍ جَائِرٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۳۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۵۱، ۲۵۶) (حسن صحیح)
(یہ اسناد حسن ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے)
۴۰۱۲- ابو اما مہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمرہ اولی کے پاس رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک شخص نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا جہا د سب سے بہتر ہے؟ آپ ﷺ خاموش رہے ، پھر جب آپ ﷺ نے دوسرے جمرہ کی رمی کی تو اس نے پھر آپ سے یہی سوال کیا،آپ ﷺ خا موش رہے، پھر جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، تو سوار ہو نے کے لئے آپ نے اپنا پائوںرکاب میں رکھا اور فرمایا:'' سوال کرنے والا کہاں ہے؟'' اس نے عرض کیا: میں حاضر ہوں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا:'' (سب سے بہتر جہاد ) ظالم حکمران کے سامنے حق وانصاف کی با ت کہنی ہے''۔
4013- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلاةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا مَرْوَانُ! خَالَفْتَ السُّنَّةَ، أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي هَذَا الْيَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا، فَقَالَ أَبُوسَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا، فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ، فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ "۔
* تخريج: م/الإیمان ۲۰ (۴۹)، د/الصلاۃ ۲۴۸ (۱۱۴۰)، الملاحم ۱۷ (۴۳۴۰)، ت/الفتن ۱۱ (۲۱۷۲)، ن/الإیمان وشرائعہ ۱۷ (۵۰۱۱، ۵۰۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۹، ۱۰، ۴۹، ۵۲، ۵۴، ۹۲) (صحیح)
۴۰۱۳- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مر وان نے عید کے دن منبر نکلوا یا اور صلاۃ عید سے پہلے خطبہ شروع کردیا، تو ایک شخص نے کہا : مروان ! آپ نے سنت کے خلاف کیا، ایک توآپ نے اس دن منبر نکالا حالانکہ اس دن منبر نہیں نکالا جاتا ، پھر آپ نے صلاۃ سے پہلے خطبہ شروع کیا ،حالا نکہ صلاۃ سے پہلے خطبہ نہیں ہو تا، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا :اس شخص نے تو اپنا وہ حق جو اس پر تھا ادا کر دیا ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے سنا ہے:'' تم میں سے جو شخص کوئی با ت خلا ف شرع دیکھے، تو اگر اسے ہا تھ سے روکنے کی طا قت رکھتا ہو تو اسے ہا تھ سے روک دے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبا ن سے روکے، اور اگر اس کی بھی طا قت نہ ہو تواس کو دل سے برا جا نے، اور یہ ایما ن کا سب سے معمولی درجہ ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ادنیٰ اورسب سے کم درجہ کا ایمان یہ ہے کہ برے کاموں سے دل کو نفرت ہو اور برا کام کرنے والوں سے دل بیزار ہو،اگر دل میں نفرت بھی نہ باقی ہو تو سمجھنا چاہئے کہ ایمان بالکل رخصت ہوچکاہے اور ضعیف درجہ بھی اس میں باقی نہیں رہا، اللہ رحم کرے اس زمانہ میں بہت سارے مسلمان کھلم کھلا خلاف شرع کا م کرتے ہیں جیسے سود لیتے ہیں ،شراب پیتے ہیں، اغلام بازی اور زنا کاری جیسے کبائر میں ملوث ہیں، اپنے اخلاق وعادات ،رہن سہن میں یہود ونصاریٰ کی مشابہت کرتے ہیں ، لیکن دوسرے مسلمان جو یہ کام نہیں کرتے ان سے نفرت بھی نہیں کرتے ۔ نہ ان سے میل جول بند کرتے ہیں، اور نہ ان سے ترک تعلقات کرتے ہیں، بلکہ برابر ان کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں، اور اپنی دعوتوں میں ان کو بلاتے ہیں ، اور امر بالمعروف کا دل میں ادنیٰ درجہ بھی نہیں رکھتے کہ دل ہی سے ان سے نفرت کریں، اور ایک لوگوں کا حال تھا کہ باوجود یہ کہ مروان حاکم تھا ،اس کے ایک ذراسی سنت کی مخالفت میں انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ نے سنت کے خلاف کیا، معلوم نہیں کہ اس زمانہ کے مسلمانوں پر اور کیا عذاب اترنے والا ہے ، یا اللہ بچا ، یا اللہ بچا تو ارحم الرحمین ہے، اور اب کیا عذاب مسلمانوں پر نہیں ہے ، ان کی دولت چھن گئی ،حکومت خاک میں مل گی، کافروں کے دست نگر اور محتاج بن گئے ہیں، فقر اور فاقہ کشی میں مبتلا ہیں، بڑے بڑے شہزادے اور امیر زادے یہود ونصاری کی خدمت گزاری کرتے ہیں ، بلکہ اس کو اپنے لئے فخر کی بات سمجھتے ہیں۔