- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
حدیث نبوی پر اسلا میان ہند کی توجہ
اس تحریرکے آغاز میں '' جہود مخلصہ '' نامی کتاب کا ذکر آچکا ہے ، میں ایک بار پھر قارئین کو اسی کتاب کے پانچویں اور چھٹے باب کی طرف لے جانا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ شاوہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے تجدیدی کارناموں کے نتیجہ میں خدمت حدیث کے جو دو مکتب فکر قائم ہوئے ان کا کام ،اسلوب اور نوعیت کیا تھی، یہ جائز ہ اس لئے ضروری محسوس ہورہا ہے کہ اس سے دارالدعوۃ کے اس منصوبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوگاجو اس نے کتب حدیث نبوی کے ترجمہ وتشریح سے متعلق شروع کررکھا ہے۔
جہود مخلصہ کے مذکورہ دونوں باب اس پہلو سے اہم ہیں کہ ان کے ذریعہ ہمیں ہندوستان میں علم حدیث کی تاریخ کے سب سے اہم اور سنہرے دور کا علم ہو جاتا ہے، اور بنیادی طور پر ان فکری و مسلکی رجحانات سے واقفیت ہو جاتی ہے، جن کا خدمت حدیث میں نمایا ں اثر رہاہے۔
پانچواں باب صفحہ ۹۱ سے شروع ہو کر صفحہ ۲۱۸پر ختم ہوتا ہے، اس بات کی تمہید میں مصنف نے تیرہویں صدی ہجری کے اواخر کو سنت نبویہ شریفہ کی نشأۃ ثانیہ کا نقطئہ آغاز مانا ہے، اور لکھا ہے کہ اس عہد میں سلفی مکتب فکر کے علمائے اعلام نے شاہ اسماعیل کی فکر ومنہج سے متاثر ہو کر علم حدیث کی قابل ذکر خدمت انجام دی ، موصوف نے اس سلسلہ میں نواب صدیق حسن قنوجی اور ان کے خاندان کے بعض لوگوں کا نام لیا ہے، اور نواب صاحب کی ان مساعی محمود ہ کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی خدمت میں آپ نے ا پنی زندگی کو وقف کردیا اور دوسو سے زائد کتابین تصنیف کیں ، اہم کتابوں کو بصرف زرکثیر ہند و بیرون ہند میں شائع کرایا ، کتاب و سنت پر دستگاہ رکھنے والے علمائے کے لئے وظائف جاری کئے ، مدارس کے قیام و تنظیم پر تو جہ فرمائی اور حدیث شریف کے حفظ ومطالعہ پر گر انقدر انعامات مقرر کئے ۔رحمہ اللہ۔
نواب علیہ الرحمۃ کے بعد شیخ الکل سید نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ اور ان کے مدرسہ کا ذکر کیا ہے، برصغیر ہی میں نہیں بلکہ باہربھی اشاعت حدیث اور دعوت عمل بالکتاب و السنۃ کے باب میں اس مدرسہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اس کی مثال اس پہلو سے کہیں اور نہیں ملتی کہ شیخ الکل نے نصف صدی سے زیادہ تک اپنے مدرسہ کو منہج سلف کے مطابق کتاب وسنت کی تدریس کا مرکز بنا یا ، اور آپ کے تلامذہ کے ذریعہ ایسا خوشگوار انقلاب آیا کہ قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں ہندوستان میں ہر طرف گو نجنے لگیں، اس باب میں مصنف نے سید نذیر حسین رحمہ اللہ کے تلامذہ اور ان کے تلامذہ کے مختصر حالات ذکر کئے ہیں جن سے سنت شریفہ کی خدمت کے باب میں ان حضرات کی مساعی جمیلہ کا اندازہ ہوتا ہے، اللہ تعالی نے ان مساعی میں برکت عطاء فرمائی تو آج تک حدیث پر عمل کے رجحان کو ترقی ہی مل رہی ہے۔
جہود مخلصہ کا چھٹاباب ص ۲۱۹ سے شروع ہو ۲۴۹پر ختم ہوتا ہے، اس میں علمائے احناف کی خدمت کا تذکرہ ہے، یہ مکتب فکر بواسطہ شیخ عبد الغنی مجددی ،عن شاہ محمد اسحاق عن شاہ عبد العزیز ، شاہ ولی اللہ دہلوی سے مل جاتا ہے، اسی لئے مصنف نے اس مدرسہ کے بعض اہم علماء کا تذکرہ کیاہے اور بتایا ہے کہ بعد کے دور میں دیوبند کے بعض علماء علامہ زاہد کوثری مصری کے نقطہ نظر سے متاثر ہوگئے ، اور حدیث دشمنی کے رجحان کو فروغملا، اسی طرح مصنف نے یہ بھی واضح کیا کہ علمائے احناف کی وضاحت کے مطابق ان کی خدمت حدیث کا محور حنفی مذہب کی تائید تھا، کتب حدیث کی شرح کے سلسلہ میں ان علماء نے جو کام کئے ہیں ان میں مذکورہ مقصد واضح ہے، البتہ اوائل علمائے احناف کے یہاں خدمت کا یہ رجحان نہ تھا۔