137- بَاب مَا جَاءَ فِي الْبِنَاءِ عَلَى الصَّلاةِ
۱۳۷ -باب: صلاۃ پر بنا کرنے کا بیان
1220- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى التَّيْمِيُّ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَى الصَّلاةِ وَكَبَّرَ، ثُمَّ أَشَارَ إِلَيْهِمْ، فَمَكَثُوا، ثُمَّ انْطَلَقَ فَاغْتَسَلَ، وَكَانَ رَأْسُهُ يَقْطُرُ مَائً، فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: < إِنِّي خَرَجْتُ إِلَيْكُمْ جُنُبًا، وَإِنِّي نَسِيتُ حَتَّى قُمْتُ فِي الصَّلاةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۹۴، ومصباح الزجاجۃ: ۴۲۷)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۲۵ (۶۴۰، ۶۳۹)، م/المساجد ۲۹ (۶۰۵)، د/الطہارۃ ۹۴ (۲۳۵)، ن/الإمامۃ ۱۴ (۷۹۳)، حم (۱/۳۶۸، ۲/۲۳۷، ۲۵۹، ۴۴۸) (حسن صحیح)
(یہ سند حسن ہے، اس کے رواۃ ثقہ ہیں، اور مسلم کے راوی ہیں، یعنی سند مسلم کی شرط پر ہے، اور اسامہ بن زید یہ لیثی ابو زید مدنی صدوق ہیں، لیکن ان کے حفظ میں کچھ ضعف ہے، بو صیری اور ابن حجر وغیرہ نے شاید اسامہ بن زید کو عدوی مدنی سمجھ کر اس کی تضعیف کی ہے، لیکن متن حدیث ثابت ہے، نیز اس کے شواہد بھی ہیں، جیسا کہ تخریج سے واضح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۲۲۷- ۲۳۱)
۱۲۲۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ صلاۃ کے لئے نکلے اورآپ نے''الله أكبر'' کہا، پھرلوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی جگہ ٹھہرے رہیں، لوگ ٹھہرے رہے، پھر آپ گھر گئے اورغسل کر کے آئے، آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، پھر آپ نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، جب صلاۃ سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ''میں تمہارے پاس جنابت کی حالت میں نکل آیا تھا، اور غسل کرنا بھول گیا تھا یہاں تک کہ صلاۃ کے لئے کھڑا ہوگیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس وقت یا د آیا کہ غسل نہیں کیا تھا، اس روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ تکبیر تحریمہ کے بعد تشریف لے گئے، اس سے مؤلف نے یہ استنباطکیا کہ سابقہ صلاۃ پر بنا کی مگر یہ مشکل ہے کیونکہ جنابت کی حالت میں صلاۃ صحیح نہیں ہے، واضح رہے کہ اہل حدیث کے مذہب کے مطابق مقتدیوں کی صلاۃ صحیح ہوئی، کیونکہ امام کے بھولنے سے مقتدیوں کی صلاۃ میں خلل نہیں آتا، اور نبی اکرم ﷺ نے شاید دوبارہ تکبیر کہہ لی ہوگی، لیکن مقتدی اپنی اپنی جگہ ٹھہرے رہے، اور سابقہ صلاۃ پر بنا کی، یعنی جو پڑھ چکے تھے اسے صحیح مان کر باقی صلاۃ پوری کر لی۔
1221
- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <مَنْ أَصَابَهُ قَيْئٌ أَوْ رُعَافٌ أَوْ قَلَسٌ أَوْ مَذْيٌ، فَلْيَنْصَرِفْ، فَلْيَتَوَضَّأْ، ثُمَّ لِيَبْنِ عَلَى صَلاتِهِ، وَهُوَ فِي ذَلِكَ لا يَتَكَلَّمُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۵۲، ومصباح الزجاجۃ: ۴۲۸) (ضعیف)
(اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہیں، او ران کی روایت حجاز سے ضعیف ہوتی ہے، اور یہ اسی قبیل سے ہے)
۱۲۲۱- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جسے صلاۃ میں قے، نکسیر، منہ بھر کر پانی یا مذی آجائے تو وہ لوٹ جائے، وضو کرے پھر اپنی صلاۃ پر بنا کرے، لیکن اس دوران کسی سے کلام نہ کرے'' ۔