117- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ
۱۱۷-باب: وتر میں دعائے قنو ت پڑھنے کا بیان
1178- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيّ قَالَ: عَلَّمَنِي جَدِّي، رَسُولُ اللَّهِ ﷺ كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ < اللَّهُمَّ عَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَاهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، سُبْحَانَكَ رَبَّنَا تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۴۰ (۱۴۲۵، ۱۴۲۶)، ت/الصلاۃ ۲۲۴ (۴۶۴)، ن/قیام اللیل ۴۲ (۱۷۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۹۹، ۲۰۰) (صحیح)
۱۱۷۸- حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نانا رسول اللہ ﷺ نے مجھے چند کلمات سکھا ئے جن کو میں وتر کے قنوت میں پڑھا کروں :
''اللَّهُمَّ عَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَاهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، سُبْحَانَكَ رَبَّنَا تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ''
(اے اللہ! مجھے عافیت دے ان لوگوں میں جن کو تونے عافیت بخشی ہے، اور میری سرپرستی کر ان لوگوں میں جن کی تونے سرپرستی کی ہے، اور مجھے ہدایت دے ان لو گوں کے زمرے میں جن کو تو نے ہدایت دی ہے، اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے ۱؎، اور میرے لئے اس چیز میں برکت دے جو تونے عطاکی ہے، پس جوتو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے، اور تجھ پر کسی کا حکم نہیں چل سکتا، اور جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا، اے ہمارے رب! تو پاک، بابرکت اوربلند ہے) ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حاکم کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ جب میں رکوع سے سر اٹھاتا ہوں اور صرف سجدہ باقی رہ جاتا ہے اس وقت ان کلمات کو کہتا ہوں، ترمذی کہتے ہیں: قنوت کے باب میں یہ دعا سب دعاؤں سے زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۲ ؎ : تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے بارے میں جو کچھ مقدر کر رکھا ہے چاہے اس کا تعلق رب کے فعل سے ہو یا غیر رب کے فعل سے ہو سب پر ایمان لایا جائے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے پاس آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مقدر فرمایا اوراس کو لکھ دیا، اور یہ معلوم ہے کہ کتابت وتحریر کا عمل فعل وعمل کے وجود میں آنے کے بعد ہی ہوتا ہے، تو علم تحریر سے پہلے وجود میں آیا، پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے ہونے والے علم کو تحریر فرما دیا ہے، قیامت کے بعد کی بیشمار چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جن کے بارے میں کتاب وسنت میں ہے کہ وہ مکتوب ومحرر ہیں۔
یہ تقدیر انسان کے اپنے اعتبارسے خیر وشر کا مجموعہ ہے، خیر کے معنی بندہ کے مناسب حال تقدیر، اور شر سے مراد بندہ کے لئے غیر مناسب تقدیر، تقدیر الٰہی میں خیر وشر دونوں ہیں، طاعت وفرماں برداری خیر ہے، اور معصیت وگناہ شر ہیں، مالداری خیر ہے، فقر شر ہے، صحت وتندرستی خیر ہے اور بیماری ومرض شر ہے، وغیرہ وغیرہ، اور یہ ساری باتیں اللہ کے فیصلہ اور تقدیر کے نتیجہ میں ہیں، تو بھلی اور بری تقدیر پر ایمان کیسے ہوگا اور کیا شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے گی؟۔
کسی بھی فعل، قضاء وقدر اور حکم میں شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی جائے گی، اس لئے کہ حدیث شریف میں ہے:
" والشر ليس إليك "، ''شرکی نسبت تیری طرف نہیں ہے''۔
اور اللہ تعالیٰ کے سارے افعال واعمال سب خیروحکمت ہیں، ہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں شر ہے، بچہ اگر بیمار ہو، اور اس کے علاج میں اعضاء جسم کے داغنے کی ضرورت ہو تو اس کو آگ سے داغا جائے گا، تو اصل کام خیر ہے اور ''آگ سے داغنا'' شر ہے، اس لئے کہ اس کام سے بچنے کی مصلحت مقصود ہے، پھر اللہ کے قضاء وقدر میں شر محض نہیں ہوتا، بلکہ اس کے موقع وعمل اور زمانہ میں ایسا ہوتا ہے، تو جب اللہ تعالیٰ کسی ظالم کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو اس ظالم کے نقطہ نظر سے یہ شر ہے، لیکن دوسرے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے اس کام میں خیر ہے کہ وہ اس سے عبرت ونصیحت پکڑیں ۔
سنیچر کے دن ظلم وتعدی کرنے والے گاؤں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَجَعَلْنَاهَا نَكَالاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ} (اسے ہم نے اگلوں پچھلوں کے لئے عبرت کا سبب بنا دیا اور متقیوں اور پرہیزگاروں کے لئے وعظ ونصیحت کا) (سورۃ البقرۃ:۶۶)
ایسے ہی انسان اگر نازونعم میں برابر رہے تو یہ اس کو ظلم وزیادتی پر ابھارتا ہے، وہ توبہ و استغفار سے غافل، اور غرور وتکبر کا شکار ہوجاتا ہے، اپنے کاموں پر اس میں عجب پسندی پیدا ہوجاتی ہے، اس کے مقابلہ میں گناہ کرنے والا انسان توبہ وندامت کے بعد اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے، اور توبہ کے بعد پہلے سے اچھا ہوجاتا ہے، اس لئے کہ اس نے جب بھی اپنے گناہوں کو یاد کیا تو اس کو اپنی حقیقت کا پتہ چل گیا، آدم علیہ السلام نے جنت میں شجر ممنوعہ کے کھانے کے بعد جب نادم ہو کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا تو توبہ وہدایت اور تقرب الٰہی کی جن نعمتوں سے وہ مالا مال ہوئے وہ گناہوں کے ارتکاب اور اس پر ندامت اور توبہ کی برکت سے ایسا ہوا، ارشاد باری ہے:
{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ} (اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا، تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے) (الاعراف: ۲۳)
اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى} (پھر اس کے رب نے نوازا، اس کی توبہ قبول کی اور اس کی رہنمائی کی) (سورۃ طہ: ۱۲۲)
ایسے ہی غزوہ تبوک میں غزوہ سے پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا اور ان کی توبہ آزمائش کے مرحلہ کے گزرنے کے بعد قبول ہوئی، ان کی آزمائش کا حال یہ تھا کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی تھی، اعزہ واقارب سبھوں نے منہ موڑ لیا تھا، لیکن توبہ کے بعد ان کو بے مثال خوشی ومسرت حاصل ہوئی، اور ان کے بارے میں خصوصی طور پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
{وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ} (اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی، سوائے اس کے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے، پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی، تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کرسکیں، بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے) (سورۃ التوبہ: ۱۱۸)
توبہ کے بعد ان تین مقدس ہستیوں کے اعزاز واکرام کا حال یہ ہوا کہ تا قیامت ان کے بارے میں یہ آیت تلاوت ہوتی رہے گی۔
شر کا یہ مسئلہ شرعی مسائل میں بھی ہے اور کائناتی نظام میں بھی، لیکن یہ واضح رہے کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے قضاء وقدر کے اعتبار سے نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ، حکم اور کام خیر ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے جوشر مقدر کیا ہے وہ حقیقت میں خیر ہے، اللہ تعالیٰ کے فیصلہ اور فعل کے نتیجہ میں جو چیز صادر ہوئی ہے، جیسے مرض، فقر وغیرہ، وہ شر اس اعتبار سے ہے کہ انسان اس کے بارے میں ایسا سوچتا ہے، جبکہ اللہ کی قضاء وقدر میں خیر ہی خیر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے
"الخير بيديك والشر ليس إليك" فرمایا،
"الشر بيديك" نہیں کہا، تو اللہ تعالیٰ کی طرف کبھی شر کی نسبت نہیں کی جائے گی، چہ جائے کہ یہ کام اللہ کے ہاتھوں سے عمل میں آیا ہو، تو نہ ارادہ کا، اور نہ قضاء وقدر کا شر اللہ کی طرف منسوب ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ شر کے قضاء وقدر سے شر کا ارادہ نہیں کرتا، لیکن جس کے بارے میں فیصلہ شر کا فیصلہ ہے، اس کے حساب سے یہ شرہوا، کبھی یہ چیز آدمی کے لئے مناسب ہوتی ہے اور کبھی نامناسب، اور کبھی یہ کام طاعت کا ہوتا ہے اور کبھی معصیت کا، تو یہ چیز لوگوں کے اعتبار سے ہوتی ہے، اگر کسی کے حق میں یہ فیصلہ بظاہر شر ہو، تو دوسری جگہ پر وہی فیصلہ خیر ہوگا، اس کا شر محض ہونا ناممکن ہے، حتی کہ اس بندہ کے اعتبار سے شر ہونے کا فیصلہ بھی شر محض نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک اعتبار سے شر ہوتا ہے اور دوسرے اعتبار سے خیر، اور ایک مقام پر شر ہوتا ہے اور دوسرے مقام پر خیر۔
مثلاً: قحط اور فقر شر ہے، لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے یہ خیر ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ} (خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں) (سورۃ الروم: ۴۱)
یہاں بعض کام کہا، ہر کام نہیں کہا، معصیت سے اللہ کی اطاعت کی طرف واپسی یقینی طور پر خیر ہی خیر ہے، بلکہ اس کا نتیجہ بڑا خیر ہے، تو فقر وفاقہ اور قحط اور بیماری اور جانوں کے ضیاع کا غم اگر اس کے بعد خیر ہو تو لذت میں بدل جاتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ} تاکہ وہ واپس حق کی طرف لوٹ جائیں۔
دنیا میں کتنے انسان اپنی مالداری کے نشے میں ظلم وتعدی میں بہت آگے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کو بالکل بھلا دیا، لیکن جب ان پر افلاس وفقر کا سایہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوئے، اور انہیں معلوم ہوا کہ وہ گمراہ ہوگئے تھے، تو یہ شر دوسرے اعتبار سے ان کے حق میں خیر ہوگیا۔
ایسے ہی چور کے ہاتھ کاٹنے کا عمل چور کے لئے شر ہے، لیکن اس کے حق میں یہ اس اعتبار سے خیر ہے کہ آخرت کی سزا حد کے نفاذ کے بعد اس سے ساقط ہوگئی، دنیا کی سزا آخرت کی سزا سے ہلکی ہے، اور عام لوگوں کے لئے بھی یہ خیر ہے کہ اس میں چوری کا ارادہ کرنے والوں کے تنبیہ وسرزنش ہے، اس میں لوگوں کے مال کی حفاظت کا بھی پہلو ہے، اس لئے کہ چور کو اگر یہ معلوم ہوجائے کہ چوری کے نتیجہ میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو وہ چوری سے باز آجائے گا، تو اس سے لوگوں کے اموال محفوظ ہوں گے۔
1179- حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عَمْرٍو الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ عَلِيِّ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقُولُ، فِي آخِرِ الْوِتْرِ < اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سخْطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لا أُحْصِي ثَنَائً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۴۰ (۱۴۲۷)، ت/الدعوات ۱۱۳ (۳۵۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۰۷)، وقد أخرجہ: ن/قیام اللیل ۴۳ (۱۷۴۹)، حم (۱/۹۶، ۱۱۸، ۱۵۰) (صحیح)
۱۱۷۹- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے: ـ
''اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سخْطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لا أُحْصِي ثَنَائً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ'' ، یعنی: (اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعہ تیری نا راضی سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیری معافی کے ذریعہ تیری سزائوں سے پنا ہ مانگتا ہوں، اور تیرے رحم و کرم کے ذریعہ تیرے غیظ و غضب سے پنا ہ مانگتا ہوں، میں تیری حمد وثنا کو شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف کی ہے) ۔