• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
6- بَابُ الإِسْتِثْنَاءِ فِي الْيَمِيْنِ
۶-باب: قسم میں ان شاء اللہ کہنے کے حکم کا بیان​


2104- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ،عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ حَلَفَ فَقَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَلَهُ ثُنْيَاهُ "۔
* تخريج: ت/الأیمان والنذور ۷ (۱۵۳۲)، ن/الإیمان والنذور ۴۲ (۳۸۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۹) (صحیح)
۲۱۰۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے قسم کھائی، اور ''ان شاء اللہ'' کہا، تو اس کا '' ان شاء اللہ ''کہنا اسے فائدہ دے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : فائدہ یہ ہوگا کہ اگر قسم کے خلاف بھی کرے تو کفارہ لازم نہ ہوگا ، اور آدمی جھوٹا نہ ہوگا، اس لئے کہ اس کی قسم اللہ تعالی ہی کی مشیت پر معلق تھی، معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ایسا نہ چاہا تو اس نے قسم کے خلاف عمل کیا، یہ قسم کے کفارے سے بچنے کا عمدہ طریقہ ہے ، صحیحین میں ہے کہ سلیمان بن داود (علیہما الصلاۃ والسلام) نے فرمایا : میں آج کی رات ستر عورتوں کے پاس جاؤں گا، اخیر حدیث تک ،اس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو ان کی بات غلط نہ ہوتی، اور جمہور کا مذہب ہے کہ جب قسم میں ان شاء اللہ لگادے تووہ منعقد نہ ہوگی، یعنی توڑنے میں کفارہ واجب نہ ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ ان شاء اللہ قسم کے ساتھ ہی کہے۔


2105- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ حَلَفَ وَاسْتَثْنَى، إِنْ شَاءَ رَجَعَ، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ،غَيْرُ حَانِثٍ "۔
* تخريج: د/الأیمان والنذور ۱۱ (۳۲۶۱،۳۲۶۲)، ت/الأیمان والنذور ۷ (۱۵۳۱)، ن/الأیمان ۱۸ (۳۸۲۴)، ۳۹ (۳۸۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱۷)، ط/النذ ور ۶ (۱۰)، حم (۲/۶،۱۰، ۴۸، ۱۵۳)، دي/النذور ۷ (۲۳۸۸) (صحیح)
۲۱۰۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے قسم کھائی ،اور ''ان شاء اللہ'' کہا، تو وہ چاہے قسم کے خلاف کرے ،یا قسم کے موافق، حانث یعنی قسم توڑنے والا نہ ہوگا ''۔


2106- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رِوَايَةً: قَالَ: " مَنْ حَلَفَ وَاسْتَثْنَى، فَلَنْ يَحْنَثْ "۔
* تخريج: أنظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱۷) (صحیح)
۲۱۰۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس نے قسم کھائی اور'' ان شاء اللہ'' کہا ،وہ حانث یعنی قسم توڑنے والا نہ ہوگا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا
۷ -باب: جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہترسمجھا تو اس کے حکم کا بیان​


2107- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا غَيْلانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ،عَنْ أَبِيهِ أَبِي مُوسَى؛ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي رَهْطٍ مِنَ الأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " وَاللَّهِ! مَا أَحْمِلُكُمْ، وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ " قَالَ: فَلَبِثْنَا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أُتِيَ بِإِبِلٍ، فَأَمَرَ لَنَا بِثَلاثَةِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، فَلَمَّا انْطَلَقْنَا قَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَسْتَحْمِلُهُ فَحَلَفَ أَلا يَحْمِلَنَا،ثُمَّ حَمَلَنَا، ارْجِعُوا بِنَا، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّا أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ فَحَلَفْتَ أَنْ لا تَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلْتَنَا، فَقَالَ: " وَاللَّهِ مَا أَنَا حَمَلْتُكُمْ،بَلِ اللَّهُ حَمَلَكُمْ،إِنِّي ـ وَاللَّهِ ! إِنْ شَاءَ اللَّهُ ـ لاأَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى خَيْرًا مِنْهَا إِلا كَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي وَأَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ " أَوْ قَالَ: " أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي "۔
* تخريج: خ/الخمس ۱۵ (۳۱۳۳)، المغازي ۷۴ (۴۳۸۵)، الصید ۲۶ (۵۵۱۷، ۵۵۱۸)، ا لأیمان ۱ (۶۶۲۳)، ۴ (۶۶۴۹)، ۱۸ (۶۶۸۰)، کفارات الأیمان ۹ (۶۷۱۸)، ۱۰ (۶۷۱۹)، التوحید ۵۶ (۷۵۵۵)، م/الأیمان ۳ (۱۶۴۹)، د/الأیمان والنذور ۱۷ (۲۲۷۶)، ن/الأیمان والنذور ۱۴ (۳۸۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۲۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۹۸،۴۰۱،۴۰۴،۴۱۸) (صحیح)
۲۱۰۷- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اشعری قبیلہ کے چندلوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لئے حاضر ہوا،تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ کی قسم ! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سوا ری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں''، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آگئے، تو آپﷺ نے ہمارے لئے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہﷺ کے پاس سواری مانگنے گئے تو آپ نے قسم کھالی کہ ہم کو سواری نہ دیں گے، پھر ہم کو سواری دی؟! چلو واپس آپ کے پاس لوٹ چلو، آخر ہم آپ کے پا س آئے اورہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے پاس سواری مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھالی تھی کہ ہم کو سواری نہ دیں گے، پھر آپ نے ہم کو سواری دے دی،آپ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ کی قسم! میں نے تم کو سواری نہیں دی ہے بلکہ اللہ نے دی ہے،اللہ کی قسم!ان شاء اللہ میں جب کوئی قسم کھاتا ہوں، پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھتا ہوں، تو اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو کام بہتر ہوتا ہے اس کو کرتا ہوں '' یا یوں فرمایا: '' جو کام بہتر ہوتا ہے اس کو کرتا ہوں، اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں '' ۔


2108- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ "۔
* تخريج: م/الأیمان ۳ (۱۶۵۱)، ن/الأیمان ۱۵ (۳۸۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۵۶، ۲۵۷، ۲۵۸، ۲۵۹)، دي/النذور ۹ (۲۳۹۰) (صحیح)
۲۱۰۸- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے قسم کھائی، اور اس کے خلاف کرنے کو بہتر سمجھا تو جو بہتر ہو اس کو کرے، اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے '' ۔


2109- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَبُوالزَّعْرَاءِ عَمْرُو بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَمِّهِ أَبِي الأَحْوَصِ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْجُشَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ ! يَأْتِينِي ابْنُ عَمِّي فَأَحْلِفُ أَنْ لا أُعْطِيَهُ وَلا أَصِلَهُ، قَالَ: "كَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ "۔
* تخريج:ن/الأیمان والنذور ۱۵ (۳۸۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۶، ۱۳۷) (صحیح)
۲۱۰۹- مالک جشمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا چچا زاد بھائی میرے پاس آتا ہے، اور میں قسم کھا لیتا ہوں کہ اس کو کچھ نہ دوں گا، اور نہ ہی اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں گا، آپﷺ نے فرمایا: ''اپنی قسم کا کفارہ اداکرو'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو، اور یہ قسم کے خلاف بہتر کام ہے لہذا قسم کو توڑ دو، اور اس کا کفارہ ادا کرو ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَنْ قَالَ كَفَّارَتُهَا تَرْكُهَا
۸ -باب: بری قسم کا کفارہ اسے چھوڑ دینا ہے​


2110- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ،عَنْ حَارِثَةَ بْنِ أَبِي الرِّجَالِ،عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ حَلَفَ فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ، أَوْ فِيمَا لا يَصْلُحُ، فَبِرُّهُ أَنْ لا يُتِمَّ عَلَى ذَلِكَ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۹ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۴۰) (صحیح)
( سند میں حارثہ ضعیف راوی ہیں، لیکن مشکل الآثار ۱/۲۸۷ ، میں قوی شاہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے ، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۲۳۳۴)
۲۱۱۰- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے رشتہ توڑنے کی قسم کھائی، یا کسی ایسی چیز کی قسم کھائی جو درست نہیں،تو اس قسم کا پورا کرنا یہ ہے کہ اسے چھوڑ دے '' ۔


2111- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْمُؤْمِنِ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ عُمَارَةَ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ،عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَلْيَتْرُكْهَا،فَإِنَّ تَرْكَهَا كَفَّارَتُهَا "۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۶۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷۴۱) ، وقد أخرجہ: د/الأیمان والنذور ۱۵ (۳۲۷۴)، ن/الأیمان ۱۶ (۳۸۲۳)، حم (۲/۲۱۲) (منکر)
(سند میں عون بن عمارہ منکر الحدیث راوی ہے، ملاحظہ ہو: إلارواء : ۷/ ۱۶۸ ، الضعیفہ: ۱۳۶۵)
۲۱۱۱- عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے قسم کھائی، پھر اس کے خلاف کرنا اس سے بہتر سمجھا، تو قسم توڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
9-بَاب كَمْ يُطْعَمُ فِي كَفَّارَةِ الْيَمِينِ؟
۹ -باب: قسم کے کفارہ میں کتنا کھانا دے ؟​


2112- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْبَكَّائِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ يَعْلَى الثَّقَفِيُّ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَفَّرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، وَأَمَرَ النَّاسَ بِذَلِكَ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَنِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۵۶۳۶ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۴۲) (ضعیف)
(سند میں عمر بن عبد اللہ ضعیف راوی ہیں)
۲۱۱۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع ۱؎ کھجور کفارہ میں دی ، میں لوگوں کو اسی کا حکم دیتا ہوں،تو جس کسی کے پاس ایک صاع کھجور نہ ہوتو آدھا صاع گیہوں دے ۔
وضاحت ۱؎ : صاع : تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
10- بَاب {مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ}
۱۰-باب: کفارہ میں فقراء اور مساکین کو درمیانی درجہ کاکھانا کھلانا چاہئے​


2113- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يَقُوتُ أَهْلَهُ قُوتًا فِيهِ سَعَةٌ وَكَانَ الرَّجُلُ يَقُوتُ أَهْلَهُ قُوتًا فِيهِ شِدَّةٌ، فَنَزَلَتْ: مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۱۸ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۴۳) (صحیح الإسناد)
۲۱۱۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بعض آدمی اپنے گھروالوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں جس میں فراخی ہوتی ہے، اور بعض آدمی تنگی کے ساتھ دیتے ہیں تب یہ آیت اتری : {مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ...} (مسکینوں کو وہ کھانا دو جو درمیانی قسم کا اپنے گھر والوں کو کھلا تے ہو) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
11-بَاب النَّهْيِ أَنْ يَسْتَلِجَّ الرَّجُلُ فِي يَمِينِهِ وَلاَ يُكَفِّرَ
۱۱ -باب: قسم پر اصرار کرنے اور کفارہ نہ دینے کی ممانعت ۱؎​
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جب بری بات پر قسم کھائے تو اس قسم کو توڑ ڈالنا او ر کفارہ دینا بہتر ہے، اور قسم پر اصرار کرنا، اور اس پر قائم رہنا اس میں زیادہ گناہ ہے بہ نسبت قسم توڑنے کے جس کے لئے کفارہ کا حکم ہوا ہے۔


2114- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍالْمَعْمَرِيُّ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ ﷺ: " إِذَا اسْتَلَجَّ أَحَدُكُمْ فِي الْيَمِينِ فَإِنَّهُ آثَمُ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الْكَفَّارَةِ الَّتِي أُمِرَ بِهَا ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۷۹۸)، وقد أخرجہ: خ/الأیمان ۱ (۶۶۲۵)، م/الأیمان ۶ (۱۶۵۵)، حم (۲/۲۷۸، ۳۱۷) (صحیح)
۲۱۱۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ اللہ کے رسول ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: '' جب تم میں سے کوئی اپنی قسم پر اصرار کرے، تو وہ اللہ تعالی کے نزدیک اس کفارے سے زیادہ گنہگار ہوگا، جس کی ادائیگی کا اسے حکم دیا گیا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کفارہ ہمیشہ گناہ کا ہوتا ہے، تو قسم کا توڑنا بھی ایک گناہ ہے،اس لئے کہ اس میں اللہ کے نام کی بے حرمتی ہے، اسی کے نام پر کفارہ مقرر ہوا ہے، لیکن بری قسم کا نہ توڑنا، توڑنے سے زیادہ گناہ ہے۔


2114/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوَحَاظِىُّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلامٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ۔
* تخريج: خ/ الإیمان والنذور ۱ (۶۶۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۵۶)
۲۱۱۴/أ- اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مر فو عاً مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
12- بَاب إِبْرَارِ الْمُقْسِمِ
۱۲ -باب: قسم کھلانے والے کی قسم پوری کرنے کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : مثلاً کوئی کہے کہ میں قسم کھاتاہوں کہ تم اس کھانے میں سے کھاؤ تو کھا لینا چاہئے، تاکہ مسلمان کو رنج نہ ہو، یہ حکم حسن اخلاق کے طور پر ہے، اگرچہ قسم کھانیسے شرعی قسم نہیں پڑتی۔


2115- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ؛ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ۔
* تخريج:خ/الجنائز ۲ (۱۲۳۹)، المظالم ۵ (۲۴۴۵)، النکاح ۷۱ (۵۱۷۵)، الأشربۃ ۳۸ (۵۶۳۵)، المرضی ۴ (۵۶۵۰)، اللباس ۳۶ (۵۸۴۹)، ۴۵( ۵۸۶۳)، الأدب ۱۲۴ (۵۸۴۹)، الاستئذان ۸ (۶۲۳۵)، م/اللباس ۲ (۲۰۶۶)، ت/الأدب ۴۵ (۲۸۰۹)، ن/الجنائز ۵۳ (۱۹۴۱)، الأیمان ۱۲ (۳۸۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۸۴، ۲۸۷، ۲۹۹) (صحیح)
۲۱۱۵- براء بن عاز ب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے کا حکم دیاہے ۔


2116- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ صَفْوَانَ، أَوْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْقُرَشِيِّ؛ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ جَاءَ بِأَبِيهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! اجْعَلْ لأَبِي نَصِيبًا فِي الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لا هِجْرَةَ " فَانْطَلَقَ فَدَخَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ فَقَالَ: قَدْ عَرَفْتَنِي؟ قَالَ: أَجَلْ، فَخَرَجَ الْعَبَّاسُ فِي قَمِيصٍ لَيْسَ عَلَيْهِ رِدَائٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَدْ عَرَفْتَ فُلانًا وَالَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ، وَجَاءَ بِأَبِيهِ لِتُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ،فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " إِنَّهُ لا هِجْرَةَ "، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ، فَمَدَّ النَّبِيُّ ﷺ يَدَهُ ،فَمَسَّ يَدَهُ،فَقَالَ: " أَبْرَرْتُ عَمِّي، وَلا هِجْرَةَ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ،( تحفۃ الأشراف: ۹۷۰۴ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۴۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۰) (ضعیف)
سند میں یزید بن آبی زیاد ضعیف راوی ہیں)
۲۱۱۶- عبدالرحمن بن صفوان یا صفوان بن عبدالرحمن قرشی کہتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا،وہ اپنے والد کو لے کر آئے ،اور عرض کیا : اللہ کے رسول! میرے والد کو ہجرت کے ثواب سے ایک حصہ دلوائیے ، آپ ﷺنے فرمایا: ''اب ہجرت نہیں ہے، آخر وہ چلا گیا ،اور عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہنے لگا : آپ نے مجھے پہچانا ؟ انہوں نے کہا : ہاں، پھر عباس رضی اللہ عنہ ایک قمیص پہنے ہوئے نکلے ان پر چادر بھی نہ تھی عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھ میں اور فلاں شخص میں جو تعلقات ہیں وہ آپ کو معلوم ہیں ،اور وہ اپنے والد کو لے کر آیا ہے تاکہ آپ اس سے ہجرت پہ بیعت کرلیں ۱؎ ، آپﷺ نے فرمایا: '' اب ہجرت نہیں رہی''، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں، یہ سن کر آپﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا،اور اس کا ہاتھ چھو لیا، اور فرمایا: '' میں نے اپنے چچا کی قسم پوری کی ، لیکن ہجرت تو نہیں رہی '' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میرے اور آپ کے درمیان جو دوستی ہے ، اب اس کا حق ادا کیجیے ،اور ہجرت کا ثواب دلوائیے۔

2116/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، بِإِسْنَادِهِ، نَحْوَهُ،قَالَ يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ: يَعْنِي لا هِجْرَةَ مِنْ دَارٍ قَدْ أَسْلَمَ أَهْلُهَا۔
۲۱۱۶/أ- اس سند سے بھی یزید بن ابی زیاد نے ایسے ہی روایت کی ہے، اور اوپر کی سند دونوں کی ایک ہی ہے۔
یزید بن ابی زیاد کہتے ہیں کہ اس شہر سے ہجرت نہیں جس کے رہنے والے مسلمان ہو گئے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
13- بَاب النَّهْيِ أَنْ يُقَالَ: " مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ"
۱۳ -باب: '' جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں '' کہنا منع ہے​


2117- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِذَا حَلَفَ أَحَدُكُمْ فَلا يَقُلْ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شِئْتَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۴، ۲۲۴، ۲۸۳، ۳۴۷) (حسن صحیح)
۲۱۱۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب کوئی شخص قسم کھائے تو'' مَا شَاءَ اللَّهُ وشِئْتَ'' ( جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں )نہ کہے، بلکہ یوں کہے :'' مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شِئْتَ'' ( جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے کہ اس میں مخاطب کو اللہ کے ساتھ کردیا ہے جس سے شرک کی بو آتی ہے ، اگرچہ مومن کی نیت شرک کی نہیں ہوتی پھر بھی ایسی بات کہنی جس میں شرک کا وہم ہو منع ہے ۔


2118- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ،عَنْ رِبْعِيِّ ابنِ حِرَاشٍ،عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَنَّ رَجُلا مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَأَى فِي النَّوْمِ أَنَّهُ لَقِيَ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلا أَنَّكُمْ تُشْرِكُونَ، تَقُولُونَ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ مُحَمَّدٌ، وَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: " أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لأَعْرِفُهَا لَكُمْ، قُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شَاءَ مُحَمَّدٌ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تجفۃ الأشراف: ۳۳۱۸ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۳۹۳۵) (صحیح)
۲۱۱۸- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ وہ اہل کتاب کے ایک شخص سے ملاتو اس نے کہا: تم کیا ہی اچھے لوگ ہوتے اگر شرک نہ کرتے ، تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور محمد چاہیں، اس مسلمان نے یہ خواب نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا،تو آپﷺ نے فرمایا: '' اللہ کی قسم! میں اس بات کو جانتا ہوں (کہ ایسا کہنے میں شرک کی بوہے) ۔ لہٰذا تم '' مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شَاءَ مُحَمَّدٌ'' ( جو اللہ چاہے پھر محمد چاہیں) کہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ کے بعد محمد کو رکھو تو حرج نہیں اس لئے کہ اللہ کے برابر کوئی نہیں ، سب اس کے بندے اور غلام ہیں، جب نبی کریم ﷺ نے اپنی نسبت ایسا کہنے سے منع فرمایا تو اب کسی ولی ، پیر و مرشد اور فقیرو درویش کی کیا بساط ہے کہ وہ کسی کام کے کرنے یا ہونے یا نہ ہونے میں اللہ کے نام کے ساتھ شریک ہوجائے ۔


2118/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ،أَخِي عَائِشَةَ لأُمِّهَا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِنَحْوِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۴۹۹۲ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۷۲، ۳۹۸)
۲۱۱۸/أ- اس سند سے ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کے علاتی بھا ئی طفیل بن سخبر ہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی مرفوعاً روایت آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَنْ وَرَّى فِي يَمِينِهِ
۱۴ -باب: جو کوئی قسم میں توریہ کرے اس کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : توریہ کے معنی چھپاناکے ہیں ،اور اصطلاح میں توریہ وہ کلام ہے جو دو معنی رکھتا ہو، ظاہر ی معنی تو مخاطب کے سمجھنے کے لئے رکھا جائے،اور متکلم دوسرے معنی کا قصد کرے تاکہ اس کی بات جھوٹ بھی نہ ہو، اور آفت سے رہائی ہوجائے ،ضرورت کے وقت توریہ انبیاء کرام علیہ السلام ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف وصالحین سے بھی منقول ہے ۔


2119- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى،عَنْ إِسْرَائِيلَ،(ح) وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ،عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ،عَنْ إِسْرَائِيلَ،عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِالأَعْلَى،عَنْ جَدَّتِهِ، عَنْ أَبِيهَا سُوَيْدِ بْنِ حَنْظَلَةَ؛ قَالَ: خَرَجْنَا نُرِيدُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَمَعَنَا وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ، فَأَخَذَهُ عَدُوٌّ لَهُ، فَتَحَرَّجَ النَّاسُ أَنْ يَحْلِفُوا، فَحَلَفْتُ أَنَا أَنَّهُ أَخِي،فَخَلَّى سَبِيلَهُ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ،فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّ الْقَوْمَ تَحَرَّجُوا أَنْ يَحْلِفُوا وَحَلَفْتُ أَنَا أَنَّهُ أَخِي، فَقَالَ: "صَدَقْتَ،الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ "۔
* تخريج: د/الأیمان ۸ (۳۲۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۷۹) (ضعیف)
(قصہ کے تذکرہ کے ساتھ یہ ضعیف ہے لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے)
۲۱۱۹- سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے کے ارادے سے نکلے، اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کو ان کے ایک دشمن نے پکڑ لیا ،تو لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، آخر میں نے قسم کھائی کہ یہ میرا بھائی ہے، تو اس نے انہیں چھوڑ دیا، ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور میں نے آپ کو بتایا کہ لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، اور میں نے قسم کھا ئی کہ یہ میرا بھائی ہے،آپ ﷺنے فرمایا: ''تم نے سچ کہا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے '' ۔


2120- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّمَا الْيَمِينُ عَلَى نِيَّةِ الْمُسْتَحْلِفِ "۔
* تخريج: م/الأیمان ۴ (۱۶۵۳)، د/الأیمان ۷ (۳۲۵۵)، ت/الأحکام ۱ (۱۳۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۲۶)، وقد أخرجہ: دي/النذور ۱۱ (۲۳۹۴) (صحیح)
۲۱۲۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' قسم کا اعتبار صرف قسم دلانے والے کی نیت پر ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : گو قسم کھانے والا دوسرا کچھ مطلب رکھ کر قسم کھائے یعنی توریہ کرے تو اس کا توریہ اس کو مفید نہ ہوگا بلکہ جھوٹی قسم کا وبال اس پر ہوگا ، اس حدیث کا محل یہ ہے کہ جب کوئی شخص قسم کھاکر دوسرے کا حق دبانا چاہے اور اگلی حدیث کا محل یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کی ظالم کے ظلم سے جان یا عزت بچانی مقصود ہو ، اور دونوں قسموں میں منافات نہ ہوگی ۔ امام احمد رحمہ اللہ کا قول اس حدیث کے موافق ہے ۔


2121- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ،أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَمِينُكَ عَلَى مَا يُصَدِّقُكَ بِهِ صَاحِبُكَ "۔
* تخريج: أنظر ما قبلہ (صحیح)
۲۱۲۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تمہاری قسم اسی مطلب پر واقع ہوگی جس پر تمہا را ساتھی تمہار ی تصدیق کر ے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث بھی اس مقام پر محمول ہے کہ معاملات میں آدمی قسم کھائے تو قسم دینے والے کے مطلب پر ہوگی ، جیسے اگلی حدیث ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
15-بَاب النَّهْيِ عَنِ النَّذْرِ
۱۵ -باب: نذرسے ممانعت کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : نذر ایک عبادت ہے اس لئے نذر اس وقت صحیح ہوتی ہے جب اللہ کے واسطے کی جائے ،اور معصیت اور گناہ میں نذر صحیح نہیں ہے جیسے کوئی اولاد میں برابری نہ کرنے کی نذرمانے ، یا ورثہ کو ان کے واجبی حصہ سے کم وبیش دلانے کی نذرمانے ، یا قبروں پر نذر ونیاز کرے ، یا اور کسی کام کی جس کی شریعت میں اصل نہیں ہے جیسے دھوپ میں کھڑے رہنے کی، کسی سے بات نہ کرنے کی، یا ایسی نذر کرے جو انسانی طاقت سے باہر ہے تو ان سب صورتوں میں نذر لغو ہوگی ۔ ( ملاحظہ ہو : الدررالبیہۃ ) ۔


2122- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ النَّذْرِ، وَقَالَ: "إِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ اللَّئِيمِ "۔
* تخريج: خ/القدر ۶ (۶۶۰۸)، الأیمان ۲۶ (۶۶۹۳)، م/النذور ۲ (۱۶۳۹)، د/الایمان ۲۱ (۳۲۸۷)، ن/الایمان ۲۴ (۳۸۳۲، ۳۸۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۶۱، ۸۶، ۱۸)، دي/النذور ۵ (۲۳۸۵) (صحیح)
۲۱۲۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نذر سے منع کرتے ہوئے فرمایا : '' اس سے صرف بخیل کا مال نکالا جاتا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بخیل بغیر مصیبت پڑے خرچ نہیں کرتا ، جب آفت آتی ہے تو نذر مانتا ہے ، اس وجہ سے نذر کو نبی کریم ﷺ نے مکروہ جانا کیونکہ وہ بخلاء کا شعار ہے ، اور سخی تو بغیر نذر کے اللہ کی راہ میں ہمیشہ خرچ کرتے ہیں ، اور بعضوں نے کہا: نذر سے ممانعت اس حال میں ہے جب یہ سمجھ کر نذر کرے کہ اس کی وجہ سے تقدیر بدل جائے گی ، یا مقدر میں جو آفت ہے، وہ ٹل جائے گی ۔


2123- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ،عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ النَّذْرَ لا يَأْتِي ابْنَ آدَمَ بِشَيْئٍ إِلا مَا قُدِّرَ لَهُ،وَلَكِنْ يَغْلِبُهُ الْقَدَرُ، مَا قُدِّرَ لَهُ، فَيُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ فَيُيَسَّرُ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَكُنْ يُيَسَّرُ عَلَيْهِ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ،وَقَدْ قَالَ اللَّهُ: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۷۰)، وقد أخرجہ: خ/الأیمان ۲۶ (۶۶۹۲)، م/النذر ۲ (۱۶۴۰)، د/الأیمان ۲۱ (۳۲۸۸)، ت/الأیمان ۱۰ (۱۵۳۸)، ن/الأیمان ۲۵ (۳۸۳۶)، حم (۲/۲۳۵، ۲۴۲، ۳۰۱، ۳۱۴، ۴۱۲، ۴۶۳) (صحیح)
۲۱۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' نذر سے آدمی کو کچھ نہیں ملتا مگر وہ جو اس کے لئے مقدر کر دیا گیا ہے، لیکن آدمی کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ نذ رپر غالب آجاتا ہے ،تو اس نذر سے بخیل کا مال نکالاجا تا ہے، اور اس پہ وہ بات آسان کردی جاتی ہے، جو پہلے آسان نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''تو مال خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا'' ۔
 
Top