27- بَاب اللِّعَانِ
۲۷ -باب: لعان کا بیان ۱؎
وضاحت ۱؎ : لعان : جب مرد اپنی عورت کو زنا کی تہمت لگائے اور عورت زنا کا اقرار نہ کرے ،نہ مرد گواہ لائے اور نہ اپنی تہمت سے پھرے، تو لعان واجب ہوتا ہے ، اس کی صورت قرآن مجید میں مذکور ہے کہ پہلے مرد چار بار گواہی دے اللہ کا نام لے کر کہ وہ سچا ہے اور پانچویں بار یوں کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو ،اگر وہ جھوٹا ہو، پھر عورت چار بار گواہی دے اللہ کا نام لے کر کہ اس کا مرد جھوٹا ہے اور پانچویں بار یوں کہے کہ اللہ کا غضب اس پر اترے اگر اس کا مرد سچا ہو، جب دونوں اس طرح گواہی دے چکیں تو حاکم میاں بیوی میں جدائی کردے ، پھر یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے ، اور اگر بچہ ہو تو وہ ماں کو دیا جائے ، اب اگر اس بچہ کو کوئی ولد الزنا کہے تو اس پر حد قذف واجب ہوگی ۔
2066- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ: جَاءَ عُوَيْمِرٌ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، فَقَالَ: سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ: أَرَأَيْتَ رَجُلا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلا فَقَتَلَهُ، أَيُقْتَلُ بِهِ؟ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ ذَلِكَ، فَعَابَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْسَّائِلَ، ثُمَّ لَقِيَهُ عُوَيْمِرٌ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ فَقَالَ: صَنَعْتُ أَنَّكَ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَعَابَ الْسَّائِلَ، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ! لآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَلأَسْأَلَنَّهُ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَوَجَدَهُ وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ فِيهِمَا، فَلاعَنَ بَيْنَهُمَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَئِنِ انْطَلَقْتُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَقَدْ كَذَبْتُ عَلَيْهَا، قَالَ، فَفَارَقَهَا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَصَارَتْ سُنَّةً فِي الْمُتَلاعِنَيْنِ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < انْظُرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ، أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ، عَظِيمَ الأَلْيَتَيْنِ، فَلا أُرَاهُ إِلا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ، فَلا أُرَاهُ إِلا كَاذِبًا > قَالَ، فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الْمَكْرُوهِ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۴۴ (۴۲۳)، تفسیرسورۃ النور ۱ (۴۷۴۵)، ۲ (۴۷۴۶)، الطلاق ۴ (۵۳۵۹)، ۲۹ (۵۳۰۸)، ۳۰ (۵۳۰۹)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۴)، الأحکام ۱۸ (۷۱۶۵)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۴)، م/اللعان ۱ (۱۴۹۲)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۴۵)، ن/الطلاق ۳۵ (۳۴۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۵)، وقد أخرجہ: ط/الطلاق ۱۳ (۳۴)، حم (۵/۳۳۰، ۳۳۴، ۳۳۶، ۳۳۷)، دي/النکاح ۳۹ (۲۲۷۵) (صحیح)
۲۰۶۶- سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عویمر عجلانی( رضی اللہ عنہ ) عاصم بن عدی( رضی اللہ عنہ ) کے پاس آئے ، اور کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسئلہ پوچھوکہ اگر کوئی مرد اپنی عورت کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو (زنا) کرتے ہوے پائے پھر اس کو قتل کر دے توکیا اس کے بدلے اسے بھی قتل کردیا جائے گا یا وہ کیا کرے ؟عاصم (رضی اللہ عنہ ) نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا، آپﷺ کو ایسے سوالات برے لگے ۱؎ ، پھر عویمر (رضی اللہ عنہ ) عاصم (رضی اللہ عنہ ) سے ملے اور پوچھا: تم نے کیا کیا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کیا جو کیا یعنی پوچھا لیکن تم سے مجھے کوئی بھلائی نہیں پہنچی، میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے اس طرح کے سوالوں کو برا جانا ، عویمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ کی قسم میں رسول اللہ ﷺ کے پاس خود جاؤ ں گا اور آپ سے پوچھوں گا،چنانچہ وہ خود آپ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان دونوں کے بارے میں وحی اترچکی ہے ، آپﷺ نے ان دونوں کے درمیان لعان کرادیا ، عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کے رسول! اب اگر اس عورت کو میں ساتھ لے جاؤں تو گویا میں نے اس پر تہمت لگائی چنانچہ انہوں نے اس کو نبی اکرم ﷺ کے حکم سے پہلے ہی چھوڑ دیا ، پھر لعان کرنے والوں کے بارے میں یہ دستور ہوگیا۔
پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' دیکھو اگر عویمر کی عورت کالے رنگ کا ، کالی آنکھوں والا ، بڑی سر ین والابچہ جنے تو میں سمجھتا ہوں کہ عویمر سچے ہیں، اور اگر سرخ رنگ کا بچہ جنے جیسے وحرہ (سرخ کیڑاہوتا ہے) تو میں سمجھتا ہوں وہ جھوٹے ہیں''۔
راوی کہتے ہیں کہ پھر اس عورت کا بچہ بری شکل پہ پیدا ہوا ۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے کہ بلا ضرورت سوال کرنے سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے، اور شاید اس وقت تک آپ کو یہ معلوم نہ ہوا ہو کہ ایسا واقعہ کہیں پیش آیا ہے ۔
2067- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ هِلالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < الْبَيِّنَةَ أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ>، فَقَالَ هِلالُ بْنُ أُمَيَّةَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ! إِنِّي لَصَادِقٌ، وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّءُ ظَهْرِي، قَالَ: فَنَزَلَتْ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ حَتَّى بَلَغَ: وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا فَجَاءَا، فَقَامَ هِلالُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَهِدَ، وَالنَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْ تَائِبٍ؟ > ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْخَامِسَةِ: أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ قَالُوا لَهَا: إِنَّهَا لَمُوجِبَةٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ! لا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <انْظُرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ، سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ، خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ> فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < لَوْلا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ >۔
* تخريج: خ/ تفسیر سورۃ النور ۲ (۴۷۴۶)، الطلاق ۲۹ (۵۳۰۸)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۴)، ت/تفسیر سورۃ النور ۲۵ (۳۱۷۹) (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/ ۲۷۳) (صحیح)
۶۷ ۲۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر نبی اکرم ﷺ کے سامنے شریک بن سحماء کے ساتھ(بدکاری کا)الزام لگایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' تم گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگیں گے، ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہا :قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں، اور اللہ تعالی میرے بارے میں کوئی ایسا حکم اتارے گا جس سے میری پیٹھ حد لگنے سے بچ جائے گی، راوی نے کہا: پھر یہ آیت اتری:
{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ......} ( جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے سوا کوئی گواہ نہیں ہوتے...یہاں تک کہ اخیر آیت:
{الْخَامِسَةِ: أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ} [سورة النور:6-۹] تک پہنچے تونبی اکرم ﷺ لوٹے اور ہلال اور ان کی بیوی دونوں کو بلوایا، وہ دونوں آئے ،ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور گواہیاں دیں ، نبی اکرم ﷺ فرمارہے تھے : '' اللہ تعالی جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کوئی ہے توبہ کرنے والا ''، اس کے بعد ان کی بیوی کھڑی ہوئی اور اس نے گواہی دی ،جب پانچویں گواہی کا وقت آیا یعنی یہ کہنے کا کہ عورت پہ اللہ کا غضب نازل ہو اگر مر د سچا ہو تو لوگوں نے عورت سے کہا :یہ گواہی ضرور واجب کردے گی ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ سن کر وہ عورت جھجکی اور واپس مڑی یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ اب وہ اپنی گواہی سے پھر جائے گی، لیکن اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اپنے گھر والوں کو زندگی بھر کے لیے رسوا اور ذلیل نہیں کروں گی۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' دیکھو اگر اس عورت کو کالی آنکھوں والا ، بھری سرین والا ،موٹی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہو، تو وہ شریک بن سحماء کا ہے، '' بالآخر اسی شکل کا لڑکا پیدا ہوا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اگر اللہ کی کتاب کا فیصلہ جو ہو چکا نہ ہوا ہوتا تو میں اس عورت کے ساتھ ضرورکچھ سزا کا معاملہ کرتا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : لیکن اللہ تعالی کا حکم یہ اترا کہ لعان کرنے والوں پر حد قذف قائم نہ کی جائے ، لہذا میں اس عورت پر حد نہیں جاری کرتا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حاکم کو رائے اور قیاس اور گمان پر عمل نہیں کرنا چاہئے، بلکہ جو فیصلہ گواہی اور دلیل سے ثابت ہو وہی دینا چاہئے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قیافہ شرعی حجت نہیں ہے، اور قیافہ کے سبب سے کسی کو حد نہیں پڑ سکتی ۔
2068- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ابْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: كُنَّا فِي الْمَسْجِدِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَوْ أَنَّ رَجُلا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلا فَقَتَلَهُ قَتَلْتُمُوهُ، وَإِنْ تَكَلَّمَ جَلَدْتُمُوهُ، وَاللَّهِ لأَذْكُرَنَّ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ ﷺ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آيَاتِ اللِّعَانِ، ثُمَّ جَاءَ الرَّجُلُ بَعْدَ ذَلِكَ يَقْذِفُ امْرَأَتَهُ، فَلاعَنَ النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَهُمَا، وَقَالَ عَسَى: <أَنْ تَجِيئَ بِهِ أَسْوَدَ>، فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ، جَعْدًا۔
* تخريج: م/اللعان ۱۰ (۱۴۹۵)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۲۱، ۴۴۸) (صحیح)
۲۰۶۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کی رات کو مسجد میں تھے کہ ایک شخص آکر کہنے لگا اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے، پھر اس کو مار ڈالے، تو تم لوگ اس کو مار ڈالوگے ،اور اگر زبان سے کچھ کہے تو تم اسے کوڑے لگاؤ گے، اللہ کی قسم میں تو نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر ضرورکروں گا، آخر اس نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تب اللہ تعالیٰ نے لعان کی آیتیں نازل فرمائیں ، پھر وہ آیا اور اس نے اپنی بیوی پر زناکی تہمت لگائی، نبی اکرم ﷺ نے ان دونوں کے درمیان لعان کرایا اور فرمایا: '' میرا گمان ہے کہ شاید اس عورت کا بچہ کالا ہی پیدا ہو'' چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس کے یہاں کالا گھونگھریالے بال والا بچہ پیدا ہوا ۔
2069- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلا لاعَنَ امْرَأَتَهُ وَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۳۲ (۵۳۱۱)، ۳۵ (۵۳۱۵)، ۵۲ (۵۳۵۰)، الفرائض ۱۷ (۶۷۴۸)، م/اللعان ۱ (۱۴۹۴)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۹)، ت/الطلاق ۲۲ (۱۲۰۳)، ن/الطلاق ۴۵ (۳۵۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۲)، وقد أخرجہ: ط/الطلاق ۱۳ (۳۵)، حم (۲/ ۱۲، ۳۸، ۶۴، ۷۱)، دي/االنکاح ۳۹ (۲۲۷۸) (صحیح)
۲۰۶۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی سے لعان کیا ،اور اس کے بچے کا انکار کردیا ، تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں میں جدائی کرادی اور بچہ کو ماں کو دیدیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بچہ ماں کے حوالے کردیا ،اور اس کا نسب بھی ماں سے متعلق کردیا، اب وہ اپنی ماں کا وارث ہوگا لیکن اس کے مرد کا وارث نہ ہوگا جس نے یہ کہہ دیا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے ۔
2070- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَلَمَةَ النَّيْسَابُورِيِّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: ذَكَرَ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ امْرَأَةً مِنْ بَنِيْ عِجْلانَ، فَدَخَلَ بِهَا، فَبَاتَ عِنْدَهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: مَا وَجَدْتُهَا عَذْرَاءَ، فَرُفِعَ شَأْنُهَا إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَدَعَا الْجَارِيَةَ فَسَأَلَهَا فَقَالَتْ: بَلَى قَدْ كُنْتُ عَذْرَاءَ فَأَمَرَ بِهِمَا فَتَلاعَنَا، وَأَعْطَاهَا الْمَهْرَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۵۵۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۷۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۶۱) (ضعیف)
(محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت قال کہہ کر کی ہے)
۲۰۷۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ انصار کے ایک شخص نے قبیلہ بنی عجلان کی ایک عورت سے شادی کی ، اور اس کے پاس رات گزاری ، جب صبح ہوئی تو کہنے لگا: میں نے اسے کنواری نہیں پایا،آخر دونوں کا مقدمہ نبی اکرمﷺ تک لے جایا گیا، آپﷺ نے لڑکی کو بلایا، اور اس سے پوچھاتو اس نے کہا: میں تو کنواری تھی، پھر آپ نے حکم دیا تو دونوں نے لعان کیا، اور آپﷺ نے اس عورت کو مہر دلوا دیا۔
2071- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < أَرْبَعٌ مِنَ النِّسَاءِ، لا مُلاعَنَةَ بَيْنَهُنَّ: النَّصْرَانِيَّةُ تَحْتَ الْمُسْلِمِ، وَالْيَهُودِيَّةُ تَحْتَ الْمُسْلِمِ، وَالْحُرَّةُ تَحْتَ الْمَمْلُوكِ، وَالْمَمْلُوكَةُ تَحْتَ الْحُرِّ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۸۷۶۳ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۳۰) (ضعیف)
(سند میں عثمان بن عطاء ضعیف راوی ہیں)
۲۰۷۱- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' چار قسم کی عورتوں میں لعان نہیں ہے ،ایک تو نصرانیہ جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو، دوسری یہودیہ جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو ، تیسری آزاد عورت جو کسی غلام کے نکاح میں ہو، چوتھی لونڈی جوکسی آزاد مرد کے نکاح میں ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : لیکن تیسری صورت میں غلام کو حد قذف پڑے گی اور باقی صورتوں میں نہ لعان ہے نہ شوہر کو حد پڑے گی، غرض یہ ہے کہ لعان مومنہ اور آزاد عورت کی تہمت سے لازم آتا ہے ، اگر عورت کافرہ ہو ، یا لونڈی ہو، یا اس کو حد پڑچکی ہو تو لعان نہ ہوگا ۔ (شرح وقایہ ) ۔