• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب الصِّنَاعَاتِ
۵-باب: پیشوں اور صنعتوں کا بیان​


2149- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ، عَنْ جَدِّهِ، سَعِيدِ بْنِ أَبِي أُحَيْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلا رَاعِيَ غَنَمٍ > قَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: < وَأَنَا كُنْتُ أَرْعَاهَا لأَهْلِ مَكَّةَ بِالْقَرَارِيطِ >، قَالَ سُوَيْدٌ: يَعْنِي كُلَّ شَاةٍ بِقِيرَاطٍ۔
* تخريج: خ/الإجارۃ ۲ (۲۲۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۸۳) (صحیح)
۲۱۴۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے ہیں ،سب نے بکریاں چرائی ہیں''، اس پر آپ کے صحابہ نے کہا:یارسول اللہ!آپﷺ نے بھی؟ فرمایا:'' میں بھی چند قیراط ۱؎ پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا'' ۲؎ ۔
سوید کہتے ہیں کہ ہربکری پر ایک قیراط ملتا تھا ۔
وضاحت ۱؎ : ایک قیراط دینار کا بیسواں حصہ ہوتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محنت اورمزدوری کرنے میں کوئی ذلت نہیں ، بلکہ حرام کا مال بیٹھ کر کھانا اور اڑانا انتہاء درجہ کی بے شرمی، و بے حیائی اور ذلت وخواری ہے ، سرتاج انبیاء اشرف المخلوقات محمد رسول اللہﷺنے مزدوری کی تو اور کسی کی کیا حقیقت ہے جو مزدوری کرنے کو ننگ وعار سمجھتا ہے ، مسلمانان ہند کی ایک بڑی تعداد محنت اور مزدوری سے کتراتے ہیں، ایسی دنیا میں کوئی قوم نہیں ، جب ہی تووہ فاقوں مرتے ہیں، یا دوچار روپیہ کے لئے غیر مسلموں کی ملازمت کرتے ہیں، مگر اپنی محنت اور تجارت سے روٹی پیدا کرنا عار جانتے ہیں ، اور بعض تو ایسے بے حیا ہیں کہ بھیک مانگتے ہیں ، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں مگر محنت اور تجارت کو عار جانتے ہیں ، خاک پڑے ان کی عقل پر نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جانور چرانا ایک حلال پیشہ ہے، اور غیرمسلموں کے یہاں مزدوری بھی کرنا جائز ہے کیونکہ مکہ والے اس وقت کافر ہی تھے ۔


2150- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْخُزَاعِيُّ، وَالْحَجَّاجُ، وَالْهَيْثَمُ ابْنُ جَمِيلٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كَانَ زَكَرِيَّا نَجَّارًا >۔
* تخريج: م/الفضائل ۴۵ (۲۳۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۶، ۴۰۵، ۴۸۵) (صحیح)
۲۱۵۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' زکریا علیہ السلام ( یحییٰ علیہ السلام کے والد) بڑھئی تھے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ بڑھئی کا پیشہ حلال ہے ،اور رسولوں نے یہ پیشہ اختیار کیا ہے ،اسی طرح سے ہر صنعت اور پیشہ جس میں رزق حلال ہو اچھا کام ہے، اور اسے اپنانے اور اس میدان میں آگے بڑھنے میں ہماری طاقت وقوت ہے۔


2151- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ أَصْحَابَ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ لَهُمْ : أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ >۔
* تخريج: خ/التوحید ۶۵ (۷۵۵۷)، ن/الزینۃ من المجتبیٰ ۵۹ (۵۳۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۵۷)، وقد أخرجہ: ۶/۷۰، ۸۰، ۲۲۳، ۲۴۶) (صحیح)
۲۱۵۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا جن کو تم نے بنایاہے، ان میں جان ڈالو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جان ڈالو، اور یہ ان سے نہ ہوسکے گا ، بس اسی بات پر ان کو عذاب ہوتا رہے گا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مصوری کا پیشہ ناجائز ہے ، البتہ اگر بے جان چیزوں کی تصویر بنانی ہو جیسے مکانوں کی، درختوں کی، شہروں کی تو کوئی حرج نہیں ہے ، اب علماء کا اختلاف ہے کہ کون سی تصویر مراد ہے ؟ مجسم یعنی بت جو پتھر یا لکڑی یا لوہے وغیرہ سے بناتے ہیں، یا ہر طرح کی تصویر ؟گرچہ نقشی یا عکسی ہو ؟جس کو ہمارے زمانہ میں فوٹو کہتے ہیں ، حدیث عام ہے اور ہر ایک تصویر کو شامل ہے ، لیکن بعضوں نے صرف مجسم تصویر کو حرام کہا ہے ۔


2152- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَكْذَبُ النَّاسِ الصَّبَّاغُونَ وَالصَّوَّاغُونَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۳۸، ومصباح الزجاجۃ: ۷۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۲، ۳۲۴، ۳۴۵) (موضوع)
(سند میں فرقد سبخی غیر قوی ، اور عمر بن ہارون کذاب ہے ، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۱۴۴)
۲۱۵۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹے رنگ ریز اور سنار ہوتے ہیں '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب الْحُكْرَةِ وَالْجَلْبِ
۶-باب: ذخیرہ اندوزی اور جلب کا بیان​


2153- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَالِمِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ،وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشرا: ۱۰۴۵۵، ومصباح الزجاجۃ: ۷۶۳)، وقد أخرجہ: دي/البیوع ۱۲ (۲۵۸۶) (ضعیف)
سند میں زید بن علی بن جدعان ضعیف راوی ہے)
۲۱۵۳- عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جلب ۱؎ کرنے والا روزی پاتا ہے ۲؎ اور (ذخیرہ اندوزی ) ۳؎ کرنے والا ملعون ہے ''۔
وضاحت ۱؎ : ذخیرہ اندوزی (حکر اور احتکار) یہ ہے کہ مال خرید کر اس انتظار میں رکھ چھوڑے کہ جب زیادہ مہنگا ہوگا توبیچیں گے ۔
وضاحت ۲؎ : جلب : یہ ہے کہ شہر میں بیچنے کے لئے دوسرے علاقہ سے مال لے کر آئے ۔
وضاحت ۳؎ : ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت آئی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی حرام ہے ، لیکن مراد وہی ذخیرہ اندوزی ہے کہ جس وقت شہر میں غلہ نہ ملتا ہو اور لوگوں کو غلہ کی احتیاج ہو ، کوئی شخص بہت سا غلہ لے کر بند کرکے رکھ چھوڑے اور شہر والوں کے ہاتھ نہ بیچے اس انتظار میں کہ جب اور زیادہ گرانی ہوگی تو بیچیں گے ، یہ اس وجہ سے حرام ہوا کہ اپنے ذرا سے فائدہ کے لئے لوگوں کو تکلیف دینا ہے، اور مردم آزاری کے برابر کوئی گناہ نہیں ہے ۔


2154- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نَضْلَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَحْتَكِرُ إِلا خَاطِئٌ >۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۲۶ (۱۶۰۵)، د/البیوع ۴۹ (۳۴۴۷)، ت/البیوع ۴۰ (۱۲۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۵۳، ۴۵۴، ۶/۴۰۰،)، دي/البیوع ۱۲ (۲۵۸۵) (صحیح)
۲۱۵۴- معمربن عبداللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ذخیرہ اندوزی صرف خطا کار کرتا ہے ''۔


2155- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنِي أَبُو يَحْيَى الْمَكِّيُّ، عَنْ فَرُّوخَ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنِ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ طَعَامًا ضَرَبَهُ اللَّهُ بِالْجُذَامِ وَالإِفْلاسِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۲۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱) (ضعیف)
سند میں ابویحییٰ المکی مجہول ہیں ، صرف ابن حبان نے ان کی توثیق ہے، اور یہ معلوم ہے کہ وہ مجہول رواۃ کی توثیق کرتے ہیں، ایسے ہی فروخ کی توثیق بھی صرف ابن حبان نے کی ہے، جو حجت نہیں ہے ، ابن الجوزی نے العلل المتناہیۃ میں حدیث کی تضعیف ابو یحییٰ کی جہالت کی وجہ سے کی ہے، نیزملاحظہ ہو : مصباح الزجاجۃ : ۷۶۴)
۲۱۵۵- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ کو فرماتے سنا: ''جو مسلمانوں کے کھانے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے جذام (کوڑھ) یا افلاس (فقر) میں مبتلا کردے گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب أَجْرِ الرَّاقِي
۷-باب: جھاڑ پھونک کرنے والے کی اجرت کا بیان​


2156- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ جَعْفَرِ ابْنِ إِيَاسٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثَلاثِينَ رَاكِبًا فِي سَرِيَّةٍ، فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ، فَسَأَلْنَاهُمْ أَنْ يَقْرُونَا، فَأَبَوْا، فَلُدِغَ سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا فَقَالُوا: أَفِيكُمْ أَحَدٌ يَرْقِي مِنَ الْعَقْرَبِ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا، وَلَكِنْ لاأَرْقِيهِ حَتَّى تُعْطُونَا غَنَمًا، قَالُوا: فَإِنَّا نُعْطِيكُمْ ثَلاثِينَ شَاةً، فَقَبِلْنَاهَا، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ {الْحَمْدُ} سَبْعَ مَرَّاتٍ، فَبَرِءَ وَقَبَضْنَا الْغَنَمَ، فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْهَا شَيْئٌ، فَقُلْنَا: لاتَعْجَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ ﷺ، فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي صَنَعْتُ، فَقَالَ: <أَوَ مَاعَلِمْتَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، اقْتَسِمُوهَا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا >.
* تخريج: خ/الإجارۃ ۱۶ (۲۲۷۶)، م/السلام ۲۳ (۲۲۰۱)، د/الطب ۱۹ (۳۹۰۰)، ت/الطب ۲۰ (۲۰۶۳، ۲۰۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۴۹، ۴۳۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۴) (صحیح)
۲۱۵۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم تیس سواروں کو رسول اللہ ﷺ نے ایک سریّہ ( فوجی ٹولی) میں بھیجا، ہم ایک قبیلہ میں اترے، اور ہم نے ان سے اپنی مہمان نوازی کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے انکار کردیا پھر ایسا ہوا کہ ان کے سردار کو بچھّو نے ڈنک ماردیا، چنانچہ وہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے:کیاآپ لوگوں میں کوئی بچھّو کے ڈسنے پرجھاڑ پھونک کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں کرتا ہوں لیکن میں اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک تم ہمیں کچھ بکریاں نہ دے دو، انہوں نے کہا: ہم آپ کو تیس بکریاں دیں گے، ہم نے اسے قبول کرلیا، اورمیں نے سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا توو ہ اچھا ہوگیا، اور ہم نے وہ بکریاں لے لیں، پھرہمیں اس میں کچھ تردد محسوس ہوا ۱؎ تو ہم نے ( اپنے ساتھیوں سے ) کہا (ان کے کھانے میں) جلدبازی نہ کرو ،یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ جائیں، (اور آپ سے ان کے بارے میں پوچھ لیں ) پھر جب ہم (مدینہ) آئے تو میں نے جو کچھ کیا تھا نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، توآپ نے فرمایا:'' کیا تمہیں معلوم نہیں کہ سورہ فاتحہ جھاڑ پھونک ہے؟ انہیں آپس میں بانٹ لو، اور اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگا ؤ''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔


2156-/أ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُوبِشْرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِهِ.
۲۱۵۶/أ- اس سند سے بھی ابوسعید رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مرفوعاً مروی ہے ۔
2156-/ب وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِهِ.
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَالصَّوَابُ هُوَ أَبُو الْمُتَوَكِّلِ۔
۲۱۵۶/أ- اس سند سے بھی ابو سعید سے اسی طرح کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔
ابن ماجہ کہتے ہیں:(ابن ابی المتوکل کے بجائے) صحیح ابوالمتوکل ہی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب الأَجْرِ عَلَى تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ
۸-باب: قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینے کا بیان​


2157- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ الْمَوْصِلِيُّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ؛ قَالَ: عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْقُرْآنَ وَالْكِتَابَةَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، فَقُلْتُ: لَيْسَتْ بِمَالٍ، وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْهَا، فَقَالَ: < إِنْ سَرَّكَ أَنْ تُطَوَّقَ بِهَا طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا >۔
* تخريج: د/البیوع ۳۷ (۳۴۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۶۸)، وقدأخرجہ: حم (۵/۳۱۵) (صحیح)
(سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے ، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ:۲۵۶)
۲۱۵۷- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ ۱؎ میں سے کئی لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی ، میں نے اپنے جی میں کہا: یہ تو مال نہیں ہے، یہ اللہ کے راستے میں تیراندازی کے لیے میرے کام آئے گا، پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا:'' اگر تم کو یہ اچھا لگے کہ اس کمان کے بدلے تم کو آگ کا ایک طوق پہنایا جائے تو اس کو قبول کرلو '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : وہ صحابہ جو مسجد نبوی کے سائبان میں رہا کرتے تھے ۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے حنفیہ نے استدلال کرتے ہوئے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کو ناجائز کہا ہے ، تلاوت پر اجرت لینا جائز ہے ، تلاوت پر اجرت لینے کا جواز ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نکلتا ہے (جو اوپر گزری ، ملاحظہ ہو حدیث ۲۱۵۶)، اور صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے ابو سعید سے کہا : آپ نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ، اس پر انہوں نے فرمایاکہ سب سے زیادہ جس کے اجرت لینے کا حق ہے، وہ اللہ کی کتاب ہے ، اور احمد، ابو داود اور نسائی میں ہے کہ خارجہ کے چچا نے جب سورہ فاتحہ سے دیوانے پر جھاڑپھونک کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تم اس کی اجرت لے لو ، قسم میری عمر کی لوگ تو جھاڑ پھونک سے جھوٹ پیدا کرتے ہیں تو نے سچ جھاڑ پھونک کرکے کھایا ۔
اور تعلیم پر اجرت جائز نہ ہونے کی دلیل عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے، دوسرے ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث جو آگے آرہی ہے ، تیسرے مسند احمد میں عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے کہ قرآن پڑھو، اس میں غلو اور جفا مت کرو اور اس سے روٹی مت کھاؤ اور مال مت بڑھاؤ ، بزار نے بھی اس کے کئی شاہد ذکر کئے ہیں ۔ چوتھی مسند احمد وترمذی میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ سے فرمایا: قرآن پڑھو اور اللہ تعالی سے قرآن کا بدلہ مانگو ، اس لئے کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو لوگوں سے قرآن کا عوض مانگیں گے ، اس باب میں کئی حدیثیں ہیں۔لیکن جن علماء نے تعلیم قرآن پر اجرت کے جواز کا فتوی دیا ہے وہ اس اعتبار سے کہ اس کے سیکھنے سکھانے میں معلم نے اپنا وقت لگایا، تواس کے لئے اس نیک عمل پر اجرت کا لینا وقت کے مقابل جائز ہوا۔


2158- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَلْمٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْكَلاعِيِّ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: عَلَّمْتُ رَجُلا الْقُرْآنَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: < إِنْ أَخَذْتَهَا أَخَذْتَ قَوْسًا مِنْ نَارٍ > فَرَدَدْتُهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۹، ومصباح الزجاجۃ: ۷۵۸) (صحیح)
( سند میں عطیہ اورأبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور عبد الرحمن بن سلم مجہول راوی ہیں، سند میں اضطراب بھی ہے ، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء : ۱۴۹۳)
۲۱۵۸- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھنا سکھایا تو اس نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے اس کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا توآپﷺ نے فرمایا :'' اگر تم نے یہ لی توآگ کی ایک کمان لی''، اس وجہ سے میں نے اس کو واپس کردیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9-بَاب النَّهْيِ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ وَعَسْبِ الْفَحْلِ
۹-باب: کتے کی قیمت ، زانیہ کی کمائی، کاہن کی اجرت اور نر سے جفتی کرانے کی اجرت کے احکام کا بیان​


2159- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۱۳(۲۲۳۷)، الإجارۃ ۲۰ (۲۲۸۲)، الطلاق ۵۱ (۵۳۴۶)، الطب ۴۶ (۵۷۶۱)، م/المساقاۃ ۹ (۱۵۶۷)، د/البیوع ۴۱ (۳۴۲۸)، ۶۵ (۳۴۸۱)، ت/البیوع ۴۶ (۱۲۷۶)، النکاح ۳۷ (۱۱۳۳)، الطب ۲۳ (۲۰۷۱)، ن/الصید والذبائح ۱۵ (۴۲۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۱۰)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۲۹ (۶۸)، حم (۱/۱۱۸، ۱۲۰، ۱۴۰، ۱۴۱)، دي/البیوع ۳۴ (۲۶۱۰) (صحیح)
۲۱۵۹- ابومسعود عقبہ بن عمروانصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی اجرت سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتے کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، مگر نسائی کی روایت کے مطابق شکاری کتا اس سے مستثنی ہے یعنی اس کی قیمت جائز اور نجومی میں وہ رمال، جفار اور جوتشی وغیرہ بھی شامل ہیں جو مستقبل کی باتیں بتاتے ہیں ۔


2160- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَعَسْبِ الْفَحْلِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۰۷)، وقہ أخرجہ: د/البیوع ۶۵ (۳۴۸۱) ، ن/الصید والذبائح ۱۵ (۴۲۹۷) (صحیح)
۲۱۶۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کتے کی قیمت، اور نر سے جفتی کرانے کے معاوضہ سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نر گھوڑا ، اونٹ یا گدھا یا بیل یا بکرا وغیرہ کی مادہ جانوروں سے جفتی کرانے کی اجرت لینا منع ہے ، البتہ اگربطور احسان وسلوک کے بلا شرط کے کچھ دے دے ، تو اس کا لینا جائز ہے اور نر کا عاریتاً دینا مستحب ہے ، اور علماء کی ایک جماعت نے اس کی اجرت کی بھی اجازت دی ہے تاکہ نسل ختم نہ ہو، لیکن اکثر صحابہ اور فقہاء ان احادیث کی رو سے اس کی حرمت کے قائل ہیں ۔


2161- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ السِّنَّوْرِ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۲۷۸۳)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۴۹ (۱۲۷۹)، ن/الصید ۱۶ (۴۳۰۰)، البیوع ۹۰ (۴۶۷۲)، د/البیوع ۶۴ (۳۴۷۹)، حم (۳/۳۳۹، ۳۴۹) (صحیح)
(سند میں ابن لہیعہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ایسا ہی ابوالزبیر کی روایت کا معاملہ ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ: ۲۹۷۱)
۲۱۶۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلی کی قیمت سے منع کیا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ بلی بلا قیمت اکثر جگہوں پرمل جاتی ہے، اور اس کی نسل بھی بہت ہوتی ہے، قیمت سے خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے (یعنی نہ خریدنا زیادہ اچھاہے)، اور اگر بلی سے کوئی منفعت ہو تو اس کا بیچنا جائز ہے، اور اس کی قیمت حلال ہے، مگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کی ایک جماعت سے یہ مروی ہے کہ بلی کی قیمت کسی حال میں لینا جائز نہیں، اور اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب كَسْبِ الْحَجَّامِ
۱۰- باب: حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کا بیان​


2162- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ وَأَعْطَاهُ أَجْرَهُ.
تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَحْدَهُ ، قَالَهُ ابْن مَاجَةَ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۱ (۱۸۳۵)، الصوم ۳۲ (۱۹۳۸)، الإجارۃ ۱۸ (۲۲۷۸)، الطب ۹ (۵۶۹۱)، م/الحج ۱۱ (۱۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۹)، وقد أخرجہ: د/الحج ۳۶ (۱۸۳۵)، ت/الحج ۲۲ (۸۳۹)، ن/الحج ۹۲ (۲۸۴۹)، حم (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۲۲، ۲۳۶، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۶۰، ۲۸۳، ۲۸۶، ۲۹۲، ۳۰۶، ۳۱۵، ۳۳۳، ۳۴۶، ۳۵۱، ۳۷۲، ۳۷۴)، دي/البیوع ۷۹ (۲۶۶۴) (صحیح)
۲۱۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا، اور حجّام (پچھنا لگانے والے) کو اس کی اجرت دی۔
ابن ماجہ کا قول ہے کہ ابن ابی عمر اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔


2163- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ الصَّيْرَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالا: حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَأَمَرَنِي فَأَعْطَيْتُ الْحَجَّامَ أَجْرَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۷۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۰، ۱۳۴، ۱۳۵) (صحیح)
(عبد الاعلی بن عامر متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن باب کی احادیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )
۲۱۶۳- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگوایا، اور مجھے حکم دیا تو میں نے حجّام (پچھنا لگانے والے ) کو اس کی اجرت دی ۔


2164- حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ بَيَانٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ، وَأَعْطَى الْحَجَّامَ أَجْرَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۷۱)، وقد أخرجہ: خ/الطب ۱۳(۵۶۹۶)، م/المسا قاۃ ۱۱ (۱۵۷۷)، د/البیوع ۳۹ (۳۴۲۴)، ت/البیوع ۴۸ (۱۲۷۸)، ط/الإستئذان ۱۰ (۲۶) (صحیح)
۲۱۶۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور حجام (پچھنا لگانے والے) کو اس کی اجرت دی ۔


2165- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۱۱، ومصباح الزجاجۃ: ۷۶۷) (صحیح)
۲۱۶۵- ابومسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی سے منع فرمایا ہے ۔


2166- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَرَامِ بْنِ مُحَيِّصَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ، عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ، فَنَهَاهُ عَنْهُ، فَذَكَرَ لَهُ الْحَاجَةَ، فَقَالَ: < اعْلِفْهُ نَوَاضِحَكَ >۔
* تخريج: د/البیوع ۳۹ (۳۴۲۲)، ت/البیوع ۴۷ (۱۲۷۶، ۱۲۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۳۸)، وقد أخرجہ: ط/الإستئذان ۱۰ (۲۸)، حم (۵/۴۳۵، ۴۳۶) (صحیح)
۲۱۶۶- محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کے متعلق نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے ان کو اس سے منع فرمایا، انہوں نے اس کی ضرورت بیان کی توآپ ﷺ نے فرمایا:'' اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو اسے کھلادو ' ' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچھنا لگانے کی اجرت حرام ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ جب کہ انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی حدیثیں صحیحین میں موجود ہیں کہ آپ ﷺ نے ابو طیبہ کے ہاتھ سے پچھنا لگوایا اور اس کو گیہوں کے دو صاع (پانچ کلو) دیئے ، واضح رہے کہ پچھنا لگانے والے کی اجرت کلی طور پر حرام نہیں ہے، بلکہ اس میں ا یک نوع کی کراہت ہے، اور اس کا صرف کرنا اپنے کھانے پینے یا دوسروں کے کھلانے پلانے یا صدقہ میں مناسب نہیں بلکہ جانوروں کی خوراک میں صرف کرنا بہتر ہے جیسا کہ گذشتہ حدیث میں مذکور ہے، یا جو اس کی مثل ہو، جیسے چراغ کی روشنی یا پاخانہ کی مرمت میں ،اور اس طریق سے دونوں کی حدیثیں مطابق ہوجاتی ہیں، اور تعارض نہیں رہتا۔(ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا لا يَحِلُّ بَيْعُهُ
۱۱- باب: حرام اور ناجائز چیزوں کی خرید وفروخت حلال نہیں ہے​


2167- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ: < إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالأَصْنَامِ > فَقِيلَ لَهُ عِنْدَ ذَلِكَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ، فَإِنَّهُ يُدْهَنُ بِهَا السُّفُنُ وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ، وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ؟ قَالَ: <لا، هُنَّ حَرَامٌ >، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْهِمُ الشُّحُومَ فَأَجْمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۱۲ (۲۲۳۶)، المغازي ۵۱ (۴۲۹۶)، سورۃ الأنعام ۶ (۴۶۳۳)، م/المساقاۃ ۱۳(۱۵۸۱)، د/البیوع ۶۶ (۳۴۸۶، ۳۴۸۷)، ت/البیوع ۶۱ (۱۲۹۷)، ن/الفرع والعتیرۃ ۷ (۴۲۶۱)، البیوع ۹۱ (۴۶۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۳۴، ۳۷۰) (صحیح)
۲۱۶۷- عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال جب کہ آپ مکہ میں تھے فرمایا:'' اللہ اور اس کے رسول نے شراب ، مردار ، سوراور بتوں کی خریدوفروخت کو حرام قرار دیا ہے، اس وقت آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ! مردار کی چربی کے بارے میں ہمیں بتائیے اس کا کیا حکم ہے؟ اس کشتیوں اور کھالوں کو چکنا کیا جاتا ہے، اور اس سے لوگ چراغ جلاتے ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا:'' نہیں ( یہ بھی جائز نہیں ) یہ سب چیزیں حرام ہیں'' ، پھر آپﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک کرے، اللہ تعالی نے ان پر چربی حرام کی تو انہوں نے (حیلہ یہ کیا کہ )پگھلا کر اس کی شکل بدل دی، پھر اس کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ظاہر میں انہوں نے شرعی حیلہ کیا کہ چربی نہیں کھائی، لیکن اللہ تبارک وتعالی دلوں کی بات کو جانتا ہے، اور اس کے سامنے کوئی حیلہ نہیں چل سکتا، بلکہ کیا عجب ہے کہ حیلہ کرنے والے کو اصل گناہ کرنے والے سے زیادہ عذاب ہو، کیونکہ اصل گناہ کرنے والا نادم اور شرمسار ہوتا ہے، اور اپنے گناہ پر اپنے آپ کو قصور وار سمجھتا ہے، لیکن شرعی حیلے کرنے والے تو خوب غراتے اور گردن کی رگیں پھلاتے ہیں، اور بحث کرنے پر مستعد ہوتے ہیں کہ ہم نے کوئی گناہ کی بات نہیں کی، دوسری حدیث میں ہے کہ شراب کی وجہ سے اللہ تعالی نے دس آدمیوں پر لعنت کی، نچوڑنے والے، نچڑوانے والے پر، پینے والے اور اٹھانے والے پر، جس کے لئے اٹھایا جائے، پلانے والے پر، بیچنے والے پر، اس کی قیمت کھانے والے پر ، خریدنے والے پر، جس کے لئے خریدا اس پر، بڑے افسوس کی بات ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں علانیہ شراب اور سور کے گوشت کی خریدوفروخت ہوتی ہے، اور اس سے بڑھ کر افسوس اس پر ہے کہ مسلمان خود شراب پیتے اور دوسروں کو پلاتے ہیں، اور اللہ اور رسول ﷺ سے نہیں شرماتے، اور یہ نہیں جانتے کہ شراب کا پلانے والا بھی ملعون ہے، جیسے پینے والا، اور شراب کا خرید نے والا بھی ملعون ہے، اور جس دستر خوان یا میز پر شراب پی جائے وہاں پر کھانا حرام ہے گو خود نہ پئے۔


2168- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ الإِفْرِيقِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، عَنْ بَيْعِ الْمُغَنِّيَاتِ وَعَنْ شِرَائِهِنَّ وَعَنْ كَسْبِهِنَّ، وَعَنْ أَكْلِ أَثْمَانِهِنَّ۔
* تخريج: ت/البیوع ۱۵ (۱۲۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۹۸) (حسن)
(سند میں ابو المہلب ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۲۹۲۲)
۲۱۶۸- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مغنیہ( گانے والی عورتوں) کی خریدوفروخت ، ان کی کمائی اور ان کی قیمت کھانے سے منع کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الْمُنَابَذَةِ وَالْمُلامَسَةِ
۱۲- باب: بیع منابذہ اور ملامسہ کی ممانعت​


2169- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، عَنْ بَيْعَتَيْنِ:عَنِ الْمُلامَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱۰ (۳۶۸)، المواقیت ۳۰ (۵۸۴)، الصوم ۶۷ (۱۹۹۳)، البیوع ۶۳ (۲۱۴۶)، اللباس ۲۰ (۵۸۱۹)، ۲۱ (۵۸۲۱)، م/البیوع ۱ (۱۵۱۱)، ن/البیوع ۲۴ (۴۵۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۶۵)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۶۹ (۱۳۱۰)، ط/البیوع ۳۵ (۷۶)، حم (۲/۲۷۹، ۳۱۹، ۴۱۹، ۴۶۴) (صحیح)
۲۱۶۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو بیع سے منع کیا ہے: ایک بیع ملامسہ سے، دوسری بیع منابذہ سے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : منابذہ : یہ ہے کہ بائع (بیچنے والا) اپنا کپڑا مشتری (خریدنے والے) کی طرف پھینک دے، اور مشتری بائع کی طرف ، اور ہر ایک یہ کہے کہ یہ کپڑا اس کپڑے کا بدل ہے، اور بعضوں نے کہاکہ منابذہ یہ ہے کہ کپڑا پھینکنے سے بیع پوری ہوجائے نہ اس چیز کو دیکھیں نہ راضی ہوں۔
ملامسہ : یہ ہے کہ کپڑے کو چھولیں نہ اس کو کھولیں نہ اندر سے دیکھیں ،یا رات کو صرف چھوکر بیچیں، ان دونوں بیعوں سے منع کیا، کیونکہ ان میں دھوکہ ہے اور یہ شرعاً فاسد ہے کہ دیکھنے پر کسی کو بیع کے فسخ کا اختیار نہ ہوگا ۔ (الروضہ الندیہ) ۔


2170- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنِ الْمُلامَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ، زَادَ سَهْلٌ: قَالَ سُفْيَانُ: الْمُلامَسَةُ أَنْ يَلْمِسَ الرَّجُلُ بِيَدِهِ الشَّيْئَ وَلا يَرَاهُ، وَالْمُنَابَذَةُ أَنْ يَقُولَ: أَلْقِ إِلَيَّ مَا مَعَكَ وَأُلْقِي إِلَيْكَ مَا مَعِي۔
* تخريج: خ/البیوع ۶۲ (۲۱۴۴)، ۶۳ (۲۱۴۷)، اللباس ۲۰ (۵۸۲۰)، الاستئذان ۴۲ (۶۲۸۴)، م/البیوع ۱ (۱۵۱۲)، د/البیوع ۲۴ (۴۵۱۹)، ن/البیوع ۲۴ (۴۵۲۴)، ۲۵ (۴۵۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۶، ۵۹، ۶۶، ۶۷،۷۱، ۹۵)، دي/البیوع ۲۸ (۲۶۰۴) (صحیح)
۲۱۷۰- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع ملامسہ ومنابذہ سے منع کیا ہے ۔
سہل نے اتنا مزید کہا ہے کہ سفیان نے کہا کہ ملامسہ یہ ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہاتھ سے چھوئے اور اسے دیکھے نہیں، ( اور بیع ہوجائے ) اور منابذہ یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے کہے کہ جو تیرے پاس ہے میری طرف پھینک دے، اور جو میرے پاس ہے وہ میں تیری طرف پھینکتا ہوں ( اور بیع ہوجائے )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب لا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ وَلا يَسُومُ عَلَى سَوْمِهِ
۱۳- باب: نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا لگائے اور نہ اس کے دام پردام لگائے ۱؎​
وضاحت ۱؎ : بیع پر بیع (سودے پر سودا لگانا) یہ ہے کہ خریدنے والے سے کہے کہ تم نے جوچیز خریدی ہے اس کوواپس کردو،پھر میں تم کو اس سے بہتر قیمت پر دیتا ہوں ، شراء پر شراء(خریدنے پر خریدنا) یہ ہے کہ بیچنے والے سے کہے کہ تم اپنی چیز پھیر لو ،میں اس سے زیادہ قیمت پر واپس لے لوں گا، دام پر دام لگانے کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی ایک چیز کو طے کرر ہا ہے اب دوسرا بھی جاکر اسی کو طے کرنے لگے، خود خریدنے کے لئے ، یا خریدار کو بہکانے کے لئے کہ وہ دام زیادہ بڑھائے، یہ سب امور منع ہیں ، کیونکہ اس سے مسلمان بھائی کو نقصان پہچانا ہے ۔


2171- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يَبِيعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ >۔
* تخريج: خ/النکاح ۴۵ (۵۱۴۲)، م/النکاح ۶ (۱۴۱۲)، البیوع ۸ (۱۴۱۲)، د/النکاح ۱۸ (۲۰۸۱)، ن/النکاح ۲۰ (۳۲۴۰)، البیوع ۱۸ (۴۵۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۹)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۵۷ (۱۱۳۴)، ط/البیوع ۴۵ (۹۵)، حم (۲/ ۱۲۲، ۱۲۴، ۱۲۶، ۱۳۰، ۱۴۲، ۱۵۳)، دي /البیوع ۳۳ (۲۶۰۹) (صحیح)
۲۱۷۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے کوئی کسی کے سودے پر سودہ نہ کرے''۔


2172- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، وَلايَسُومُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰)، الشروط ۸ (۲۷۲۳)، النکاح ۴۵ (۵۱۴۲)، م/النکاح ۶ (۱۴۱۲)، د/النکاح ۱۸ (۲۰۸۰)، ت/النکاح ۳۸ (۱۱۳۴)، ن/النکاح ۲۰ (۳۲۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۳)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۴۵ (۹۶)، حم (۲۰/۲۳۸، ۲۷۳، ۳۱۸، ۳۹۴، ۴۱۱، ۴۲۷)، دي/النکاح ۷ (۲۲۲۱) (صحیح)
۲۱۷۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودہ نہ کرے، اور نہ اپنے بھائی کے دام پر دام لگائے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ النَّجْشِ
۱۴- باب: بیع نجش کی ممانعت​


2173- قَرَأْتُ عَلَى مُصْعَبِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الزُّبَيْرِيِّ، عَنْ مَالِكٍ (ح) وحَدَّثَنَا أَبُو حُذَافَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ النَّجْشِ۔
* تخريج: خ/البیوع ۶۹ (۲۱۴۲)، الحیل ۶ (۶۹۶۳)، م/البیوع ۴ (۱۵۱۶)، ن/البیوع ۱۹ (۴۵۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۴۸)، وقدأخرجہ: ط/البیوع ۴۵ (۹۷)، حم (۲ /۷، ۴۲، ۶۳)، دي /البیوع ۳۳ (۲۶۰۹) (صحیح)
۲۱۷۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع نجش سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بیع نجش یہ ہے کہ آدمی بیچنے والے سے سازش کرکے مال کی قیمت بڑھادے اور خریدنا منظور نہ ہو ، تاکہ دوسرے خریدار دھوکہ کھائیں اور قیمت بڑھا کر اس مال کو خرید لیں ، اس زمانہ میں نیلام میں اکثر لوگ ایسا کیا کرتے ہیں اور اس فعل کو گناہ نہیں سمجھتے ، جب کہ یہ کام حرام اورناجائز ہے، اورایسی سازش کے نتیجے میں اگرخریدار اس مال کی اتنی قیمت دیدے جتنی حقیقت میں اس ما ل کی نہیں بنتی تو اس کو اختیار ہے کہ وہ اس بیع کو فسخ کردے ، اور سامان واپس کر کے اپنا پیسہ لے لے ۔


2174- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا تَنَاجَشُوا >۔
* تخريج: انظرحدیث ( رقم : ۱۸۶۷، ۲۱۷۲) (صحیح)
۲۱۷۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' آپس میں بیع نجش نہ کرو'' ۔
 
Top